داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 85 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 85


 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔85 طور کا جلوہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عمرودرویش جب خیمہ اکھاڑ کر سوڈانی مسلمانوں کے پہاڑی علاقے کو روانہ ہونے کی تیاری کررہا تھا تو وہ اس حسین جمیل لڑکی کے متعلق سوچ رہا تھا جو اس کی ہمسفر تھی۔ لڑکی مسلمان تھی۔ اس کی حیثیت کی وجہ سے عمرودرویش اسے صلیبیوں کا آلۂ کار بنے رہنے سے باز رکھنا چاہتا تھا مگر وہ چار پانچ سال کی عمر میں صلیبیوں کے ہاتھ لگی تھی۔ انہوں نے بیس سال کا عرصہ صرف کرکے اس پر جو رنگ چڑھا دیا تھا وہ اتارنا آسان نہیں تھا۔ بیشک لڑکی نے اپنے ذہن میں اس حقیقت کو خود ہی دریافت کرلیا تھا کہ وہ مسلمان ماں باپ کی بیٹی ہے اور اس نے اپنے دل میں صلیبی آقائوں کے خلاف نفرت پیدا کرکے عمرودرویش سے کہا تھا کہ میں تمہاری مدد کروں گی مگر عمرودرویش سوچ رہا تھا کہ اس لڑکی پر اعتبار کرے یا نہ کرے۔
رات ایک ہی خیمے میں گزار کر صبح لڑکی نے عمرودرویش سے پوچھا… ''مجھے شک ہے کہ تم مجھے ابھی تک اپنا دشمن سمجھ رہے ہو''۔
''عورت کے جال میں الجھ کر مسلمان قوم نے بہت نقصان اٹھایا ہے آشی!''… عمرودرویش نے جواب دیا… ''تم بہت ہی خوبصورت ہو۔ تمہاری تربیت ایسی کی گئی ہے کہ تمہاری چال ڈھال، بول چال اور انداز انسان کے اندر حیوان کو بیدار کردیتاہے۔ میں جوان ہوں۔ کئی سال میدان جنگ میں اور کچھ عرصہ سوڈان کے قید خانے میں جنگی قیدی کی حیثیت سے گزارا ہے۔ اتنی لمبی مدت گھر کی چاردیواری نہیں دیکھی۔ رات خیمے میں تم میرے ساتھ تنہا تھیں۔ میں رات بھر خدا ذوالجلال سے مدد مانگتا رہا کہ میں حیوانیت کا مقابلہ کرسکوں۔ میں کامیاب رہا۔ خداوند دو عالم نے میری بہت مدد کی۔ پھر میں یہ سوچتا رہا کہ تمہیں اپنا دشمن سمجھوں یا دوست، میں اب بھی یہی سوچ رہا ہوں۔ میں ابھی تمہارا یہ شک رفع نہیں کرسکتا کہ تمہیں اپنا دشمن سمجھتا ہوں۔ تمہیں ثابت کرنا ہے کہ تم قابل اعتماد ہو''۔
''میں تمہیں ایک بار پھر کہتی ہوں کہ تم نے میرے سینے میں ایمان کی شمع روشن کردی ہے''… آشی نے کہا… ''اور میں تمہیں یہ بھی بتا دوں کہ تم اگر اس مہم میں جس پر تمہیں سوڈانیوں نے بھیجا ہے، سوڈانیوں کو دھوکہ دینا چاہو گے تو میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ میری جان بھی چلی جائے تو پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ یہ میں نے ہی تمہیں بتایا تھا کہ یہ جو دو آدمی تمہارے مرید بن کر گئے ہیں دراصل سوڈانیوں کے جاسوس ہیں''۔
''مجھے سوچنے دو آشی!''… عمرودرویش نے کہا… ''میں جان گیا ہوں کہ میرے اردگرد جاسوسوں کا جال بچھا ہوا ہے۔ میں تمہیں بھی اسی جال کا ایک حصہ سمجھتا ہوں۔ تم ابھی اسی طرح کرنا جس طرح تمہیں بتایا گیا ہے۔ میں بھی اسی سبق اور ہدایت پر عمل کروں گا جو مجھے دی گئی ہے۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ میں کسی اور مقصد کے لیے جارہا ہوں مگر میں اس مہم سے انحراف بھی نہیں کرسکتا۔ میں انحراف کا نتیجہ جانتا ہوں کیا ہوگا۔ دو تین تیروں کے رخ ہر لمحہ میری طرف رہتے ہیں۔ میں انہیں اس وقت دیکھ سکوں گا جب یہ سینے میں اتر جائیں گے''۔
''میں ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گی''… آشی نے کہا… ''میں ثابت کروں گی کہ میری رگوں میں مسلمان باپ کا خون ہے''۔
وہ اونٹوں پر سوار مسلمانوں کے علاقے کی طرف جارہے تھے۔ تیسرے اونٹ پر ان کا خیمہ اور دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ آشی جو نیم عریاں رہتی تھی، سیاہ کپڑوں میں ملبوس اور اس کا چہرہ مستور تھا۔ دیکھنے والا کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ آبرو باختہ لڑکی صلیبیوں کا ایک خوبصورت تیر ہے۔ جو پتھر جیسے انسان کے دل میں اتر جائے تو وہ موم ہوکر صلیبیوں کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے۔ دور ایک گھوڑ سوار اسی سمت جارہا تھا جدھر یہ دونوں جارہے تھے۔ عمرودرویش نے اس سوار کو کئی بار دیکھا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہ سوڈانیوں کے ان جاسوسوں میں سے ہی ہوگا جو اس کے ساتھ سائے کی طرح لگے ہوئے ہیں۔ یہ شک اسے پریشان کررہا تھا کہ یہ صحرائی راہزنوں کا کوئی آدمی ہوا تو وہ کیا کرے گا۔
''آشی!''… اس نے اپنی ہمسفر سے کہا… ''اس سوار کو دیکھ رہی ہو جو افق پر جارہا ہے؟''
''بہت دیر سے دیکھ رہی ہوں''۔
: ''ہمارے پاس ہتھیار ہیں''… آشی نے دلیرانہ جواب دیا… ''رات کو سوتے وقت ہم پر آپڑے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ دن کے وقت ہم ان کا مقابلہ کریں گے۔ تمہارے ساتھ میں ہی ایک دولت ہوں۔ وہ مجھے زندہ نہیں لے جاسکیں گے''۔
صحرا کے ان خطروں میں وہ چلتے گئے۔ سورج اوپر آکر مغرب کی طرف نیچے جاتا رہا اور انہیں پہاڑیاںنظر آنے لگیں۔ بلند پہاڑیاں تو دور تھیں، یہ علاقہ جہاں سے شروع ہوتا تھا وہ جگہ دور نہیں تھی۔ اونٹ چلتے گئے اور وہ علاقہ آگیا جہاں عمرودرویش کو اپنی مہم کا آغاز کرنا تھا۔ مسلمان کا پہلا گائوں تھوڑی ہی دور تھا۔ عمرودرویش خود بھی اسی علاقے کا رہنے والا تھا۔ گھوڑ سوار جو دور دور جارہا تھا، رخ بدل کر ادھر آگیا اور ان سے آن ملا۔
''تمہارا قیام اس جگہ ہوگا''… گھوڑ سوار نے عمرودرویش سے کہا… ''تم مجھے نہیں جانتے، میں تمہیں جانتا ہوں''… اسے دیکھ کر آشی نے چہرے سے نقاب اٹھا دیا تھا اور وہ مسکرارہی تھی۔ سوار نے اس سے پوچھا… ''سفر اچھا گزرا؟''
''بہت اچھا''… آشی نے بے باک مسکراہٹ سے جواب دیا۔
''تم دونوں گھبرانا نہیں''… سوار نے کہا… ''تمہارے سفر کے دوران تمہاری حفاظت کا ایسا انتظام ساتھ ساتھ رہا ہے۔ جسے تم دونوں دیکھ نہیں سکے، ورنہ اتنی خوبصورت لڑکی یہاں تک نہ پہنچ سکتی''۔
''تم کون ہو؟''… عمرودرویش نے اس سے پوچھا۔
''سوڈانی مسلمان''… سوار نے جواب دیا۔ اس نے کہا… ''اب یہ نہ سوچو کہ تم کون ہو اور میں کون ہوں تم بھی میری طرح اسی علاقے کے مسلمان ہو۔ تم اچھی طرح جانتے ہو کہ یہاں ذرا سی بھی غلطی ہوگئی تو یہاں کے مسلمان ہماری بوٹیاں اڑا دیں گے''… سوار نے آگے ہوکر راز داری سے کہا… ''اور یہ بھی یاد رکھنا کہ تم نے اپنے کام میں کوئی گڑبڑ کی تو بغیر اطلاع قتل ہوجائو گے۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے یہاں تمہیں کیا کرنا ہے۔ آج رات تم آرام کرو گے۔ کل تمہارے پاس یہاں کے لوگ آنے لگیں گے۔ آشی کو معلوم ہے کہ اسے کیا کرنا ہے''۔
عمرودرویش کو سب کچھ معلوم تھا۔ اسے اس علاقے کے مسلمانوں کو گمراہ کرنا تھا۔ سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پھیلانی تھی اور مسلمانوں کو سوڈان کا وفادار بنا کر انہیں اس سوڈانی فوج میں بھرتی ہونے کے لیے تیار کرنا تھا جسے مصر پر حملہ اور قبضہ کرنے کے لیے تیار کیا جارہا تھا۔ سلطان ایوبی مصر سے غیرحاضر تھا۔ وہ اس وقت سپین میں برسرپیکار تھا۔ صلییبیوں کا یہ منصوبہ تھا کہ سوڈانی فوج کو تیار کرکے مصر پر حملہ کیا جائے مگر سوڈانی مسلمانوں کے جنگجو قبیلے سوڈان کے باشندے ہونے کے باوجود صلاح الدین ایوبی کے معتقد اور مرید تھے۔ عمرودرویش ان کے عقیدوں کو تہس نہس کرنے آیا تھا۔
سورج غروب ہوگیا تھا۔ جب عمرودریش نے اس سوار کی مدد سے خیمہ گاڑ لیا۔ سوار نے جانے سے پہلے کہا۔ ''کل شاید مجھے تمہارے ساتھ الگ بات کرنے کا موقعہ نہ ملے۔ لوگ صبح سویرے یہاں آجائیں گے''… اس نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا… ''شام کو دھندلاہٹ میں بھی وہ اوپر تمہیں چھاتے کی طرح درخت نظر آتا ہوگا اسے یاد رکھنا۔ کل رات تمہیں ادھر مشعل کا اشارہ کرنا ہے۔ کل جو کپڑا تمہیں استعمال کرنا ہے اسے صبح تیار کرلینا… میں جارہا ہوں۔ اب ذرا ذرا سی حرکت میں بھی احتیاط کرنا''۔
وہ لڑکی کو اشارے سے باہر لے گیا اور اسے کہا… ''تمہیں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ یہاں کے مسلمان وحشی ہیں۔ ہم تمہاری حفاظت کے لیے موجود ہیں لیکن تمہیں اپنی حفاظت خود زیادہ کرنی ہوگی۔ اس آدمی کو اپنے قبضے میں رکھنا''۔ اس نے لڑکی کے شانوں پر بکھرے ہوئے بالوں کو چھیڑ کر اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ لاکر کہا۔ ''ان حسین زنجیروں میں تو تم شیر کو بھی جکڑ سکتی ہو''۔
''تم بھی تو یہیں کے مسلمان ہو''… آشی نے طنزیہ کہا… ''تم وحشی نہیں ہو؟''
''تمہیں دیکھ کر کون وحشی نہیں ہوجاتا''… اس نے کہا اور گھوڑے پر سوار ہوکر شام کے گہرے ہوتے اندھیرے میں غائب ہوگیا۔
یہ سوار ان مسلمانوں میں سے تھا جنہوں نے ایمان بیچ ڈالا تھا اور دشمن کے اس زمین دوز حملے کی قیادت کررہا تھا جو سیدھے سیدھے مسلمانوں کے عقیدے پر کیا جارہا تھا۔ وہ اسی علاقے کے کسی گوشے کا رہنے والا تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ قوم کی آستیں کا سانپ ہے۔ اس حملے میں وہ اکیلا نہیں تھا۔ یہ آٹھ دس مسلمانوں کا گروہ تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ایک گائوں کی طرف چلا جارہا تھا۔ راستے میں اسے ایک اور آدمی مل گیا۔ وہ اسی کی راہ دیکھ رہا تھا۔
''سب ٹھیک ہے؟''… اس نے سوار سے پوچھا۔
''ہے تو سب ٹھیک''… سوار نے جواب دیا… ''کسی بھی وقت معاملہ چوپٹ ہوسکتا ہے۔ اگر صلیبیوں نے مجھے پکے سبق پڑھائے ہیں تو میں کہہ سکتا ہوں کہ لڑکی کے تیور بدلے ہوئے لگتے ہیں۔ وہ کچھ بجھی بجھی اور خاموش خاموش نظر آتی ہے''۔
''آشی تو کہتے ہیں بہت ہوشیار اور تیز لڑکی ہے''۔
''شاید سفر کی تھکن سے تیزی ماند پڑ گئی ہو''… سوار نے کہا… ''عمرودرویش بھی تو وحشی ہے''۔
: وہ باتیں کرتے گائوں میں داخل ہوئے۔ ایک جگہ دو آدمی کھڑے باتیں کررہے تھے۔ سوار اور ساتھی ان کے پاس رک گئے بتایا کہ وہ سفر میں ہیں اور اپنے گائوں کو جارہے ہیں۔ اپنے گائوں کا نام بھی بتایا اور حیرت زدہ لہجے میں کہا… ''یہاں سے تھوڑی دور ایک بزرگاترا ہوا ہے۔ صرف خدا کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ دن کے وقت بھی دائیں اور بائیں دو مشعلیں جلا کر رکھتا ہے۔ ہم اسے دیکھ کر اس کے پاس بیٹھ گئے۔ وہ قرآن پڑھ رہا تھا۔ زبانی پڑھتا ہے۔ اس نے ہماری توجہ نہیںدی۔ ہم نے اسے بلایا، وہ نہیں بولا۔ اس کے خیمے کے قریب سے زمین سے دھوئیں کا بادل اٹھا، بادل اور جاکر غائب ہوگیا اور اس میں سے ایک لڑکی نکلی جس کے حسن کو ہم بیان نہیں کرسکتے۔ ہم ڈر گئے کیونکہ لڑکی انسان نہیں جن معلوم ہوتی تھی اس نے بزرگ کے آگے سجدہ کیا۔ سجدہ سے اٹھ کر کان بزرگ کے منہ کے ساتھ لگایا۔ بزرگ کے ہونٹ ہلے، لڑکی ہمارے سامنے آن کھڑی ہوئی''۔
''ہم ڈر کر بھاگنے لگے لیکن زمین نے ہمیں پکڑ لیا۔ شاید لڑکی کی آنکھوں نے ہمیں جکڑ لیا۔ اس نے ہمیں کہا… یہ خدا کا ایلچی ہے۔ تم سب کے لیے پیغام لایا ہے، اسے پریشان نہ کرو۔ یہ اس وقت خدا کے ساتھ باتیں کررہا ہے، کل آئو۔ اگر اس نے تم پر کرم کیا تو تم سب کو طور کا جلوہ دکھائے گا۔ میں ابھی ابھی کوہ طور سے آئی ہوں۔ اس نے بلایا تھا۔ اس نے میرے کان میں کہا ہے کہ ان سے کہو کہ تمہاری تقدیر بدل دوں گا۔ بے صبر ہوجائو گے تو کہیں اور چلا جائوں گا… ہم لڑکی کے ساتھ بات نہیں کرسکے۔ ہمارے جسم پر اس کا قبضہ ہوگیا تھا۔ ہم کچھ بھی نہیںبول سکے، بزرگ کی طرف دیکھا تو اس کے سر پر نور کا ہالہ تھا۔ ہم وہاں سے چلے آئے''۔
ان کا لہجہ سنسنی خیز تھا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ ان پر حیرت اور خوف طاری ہے۔ انسانی فطرت کی یہ کمزوری ہے کہ حیرت انگیز بات جذبات کو ہلا دیتی ہے۔ سنسنی سرور دیتی ہے۔ یہی حال ان دو سننے والوں کا ہوا۔ انہوںنے دو گھروں کے دروازوں پر دستک دے کر دو تین آدمیوں کو بلا لیا اور جو انہوںنے سنا تھا وہ انہیں سنا دیا۔ سوار اور اس کے ساتھی نے دل پسند اور لذیذ سے اضافے بھی کردئیے۔ لڑکی کا حسن ایسے الفاظ میں بیان کیا کہ سننے والے خدا اور قرآن کے بجائے اور اس سزرگ کے بجائے اپنے دماغوں پر لڑکی کو سوار کرنے لگے۔ ان آدمیوں نے سوار اور اس کے ساتھی کو مہمان ٹھہرا لیا۔ دوسرے گھروں کے آدمی بھی آگئے۔
: ابھی سورج نہیں نکلا تھا جب اس گائوں کے تمام آدمی سوار اور اس کے ساتھی کی رہنمائی میں اس جگہ کو روانہ ہوگئے جہاں عمرودرویش اور آشی نے خیمہ لگا رکھا تھا۔ خیمے کے سامنے چھوٹے سے قالین پر عمرودریش آلتی پالتی مارے بیٹھا، آنکھیں بند کیے کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ ایک ڈنڈا اس کے دائیں طرف اور ایک بائیں طرف زمین پر گڑھا ہوا تھا۔ اس کے اوپر والے سروں پر تیل میں بھیگے ہوئے کپڑے لپٹے ہوئے تھے جو جل رہے تھے۔ یہ مشعلیں تھیں۔ جب گائوں والے وہاں پہنچے تو عمرودرویش سے آٹھ دس قدم دور تین آدمی کھڑے تھے۔ گائوں کے لوگ آئے تو ان تینوں کے پاس رک گئے۔
ان تین میں سے ایک نے کہا… ''میں آگے جاکر بزرگ سے بات کرتا ہوں''… وہ تین چار قدم آگے گیا تو یوں پیچھے کو پیٹھ کے بل گرا جیسے آگے سے اسے کسی نے دھکا دیا ہو۔ وہ اٹھ کر لوگوںمیں جاکھڑا ہوا۔ خوف سے وہ کانپ رہا تھا اس نے خوفزدہ آواز میں کہا… ''آگے نہ جانا مجھے کسی نے آگے سے دھکا دیا ہے۔ یہ کوئی جن تھا جو مجھے نظر نہیںآیا''۔
دوسرے دو نے کہا… ''ہم آگے جاتے ہیں۔ تم ڈر کر گر پڑے تھے''… وہ دونوں اکٹھے آگے گئے۔ تین چار قدم گئے تو دونوں پہلے آدمی کی طرف پیٹھ کے بل گرے۔ جلدی سے اٹھے، لوگ ڈر گئے۔ سب کو یقین ہوگیا کہ اس بزرگ نے پہرے پر جنات کھڑے کررکھے ہیں جو کسی کو آگے نہیں جانے دیتے۔
خیمے سے ایک لڑکی نکلی یہ آشی تھی۔ اس نے سیاہ ریشمی لباس پہن رکھا تھا۔ٹھوڑی اور منہ باریک پردے میں تھے۔ آنکھیں ننگی تھیں۔ سر سیاہ کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا۔ بال شانوں سے ہوتے ہوئے سینے پر پڑ ے ہوئے تھے۔ وہ تھی مستور لیکن لباس ایسا تھا کہ نیم عریاں لگتی تھی۔ اس پہاڑی علاقے کے لوگوں نے اس قسم کی لڑکی پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی ۔ وہ اسے جنات میں سے سمجھ رہے تھے ۔ اس کی چال بھی نرالی اور دلکش تھی۔ آشی نے عمر درویش کے آگے سجدہ کیا۔ سجدے سے اُٹھ کر کان اس کے منہ کے ساتھ لگادیا۔ اس کے ہونٹ ہلے آشی اُٹھ کھڑی ہوئی۔
''تم لوگ وہیںکھڑے رہو''……آشی نے لوگوں سے کہا …… ''کوئی آدمی آگے آنے کی جرأت نہ کرے۔ خدا کے ایلچی نے پوچھا ہے کہ تم یہاں کیوں آئے ہو۔ تم وہیں کھڑے کھڑے بات کر سکتے ہو''۔
ان تین آدمیوں میں سے آگے گئے اور گر پڑے تھے۔ ایک آدمی بلند آواز سے بولا …… ''اے خدا کی طرف سے آنے والے ! کیا تو آنے والے وقت کی خبر دے سکتا ہے؟''
''پوچھ کیا پوچھتا ہے؟''…… عمر درویش نے مخمور سی آواز میں کہا۔
''کیا ہم اس خطے کو اسلام کی ریاست بنا سکیں گے جو سوڈان کی غلام نہ ہو؟''…… اس آدمی نے پوچھا۔
عمر درویش نے غصے سے زمین پر ہاتھ مارا۔ آشی دوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی اور کان اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا۔ عمر دوریش کے ہونٹ ہلے۔ آشی اُٹھ کر لوگوں سے مخاطب ہوئی۔
''خدا کے ایلچی نے کہا ہے کہ آگ لگ جائے تو اس خطے کو تم اسلامی ریاست بنالوگے جوسوڈان کی غلام نہیں ہوگی''…… آشی نے کہا …… ''کسی کے پاس پانی ہو تو اس کپڑے پر انڈیل دو''۔
عمر درویش سے ذرا پرے ایک کپڑا اس طرح پڑا تھا جس طرح کسی نے لباس اتار کر گٹھڑی کی صورت رکھ دیا ہو۔ انہیں تین آدمیوں میں سے جو آگے بڑھے اور گر پڑے تھے، ایک آگے بڑھا۔ اسکے ہاتھ میں چمڑے کا چھوٹا سا مشکیزہ تھا۔ اس نے کہا …… '' میرے پاس پانی ہے۔ میں سفر میں ہوں اس لیے پانی ساتھ رکھا ہوا ہے''…… اس نے آگے جا کر مشکیزے کا منہ کھولا اور کپڑے پر پانی کا چھڑکائو کر دیا۔
آشی نے زمین سے مشعل اُٹھا کر عمر درویش کے ہاتھ میں دے دی۔ عمر درویش نے آسمان کی طرف منہ کرکے ہونٹ ہلائے جیسے سرگوشی کی ہو، پھر اس نے مشعل کا شعلہ کپڑے کے ساتھ لگا دیا۔ کسی کوتوقع نہیں تھی کہ پانی سے بھیگا ہوا کپڑا جل اُٹھے گا مگر ہوایوں کہ جوں ہی مشعل کا شعلہ کپڑے کے قریب گیا تو کپڑا بھڑک اُٹھا اور تمام تر کپڑا ایک شعلہ بن گیا۔ کسی ایک آدمیوں کے منہ سے حیرت زدہ آوازیں نکلیں…… ''اللہ ''…… ان کی نظروں کے سامنے پانی جل رہا تھا۔
: ''خدا کے اشارے کو سمجھ لو''……عمر درویش نے کہا …… ''اور مجھے غورسے دیکھو ، میں کون ہوں۔ میں تم میں سے ہوں'' …… اس نے اپنے گائوں کا نام لے کر کہا …… ''میں اسی علاقے کا رہنے والے ہاشم درویش کا بیٹا ہوں۔ میں نبی نہیں۔ میں پیغمبر نہیں۔ خدا اپنا آخری پیغمبر بھیج چکا ہے''۔ اس نے اپنی انگلیاں چوم کر اور آنکھوں سے لگا کر کہا …… ''میں بھی تمہاری طرح خدا کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پروانہ ہوں۔ مجھے خدا نے روشنی دکھائی اور حکم دیا ہے کہ روشنی ان کے پاس لے جائو جو اندھیرے میں ہیں''۔
وہ ایسے لہجے میں بول رہا تھا جیسے اس پر وجد طاکی کیفیت طاری ہو۔ اس نے کہا …… '' میرے گائوں میں جاکر پوچھو۔ میں صلا الدین ایوبی کا کماندارہوں۔ میں اس فوج کے ساتھ تھا جس نے سوڈان پر حملہ کیا تھا۔ اس فوج کا حملہ ناکام ہوا۔ ہم سب کو افسوس ہوا۔ تم سب کو افسوس ہواہوگا لیکن خدائے ذوالجلال نے مجھے مصر کی فوج کی لاشوں سے اُٹھایا۔ اور مجھے اشارہ دیا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج کو کیوں شکست ہوئی ۔ میرا افسوس خوشی میں بدل گیا۔ میں نے ایک درخت کی شاخوں میں خدا کا نوردیکھا۔ یہ ایک روشنی تھی جیسے ایک ستارہ آسمان اُتر کر درخت کی شاخوں میں اٹک گیا ہو۔ اس ستارے میں سے آواز آئی …… ''آگے دیکھ، پیچھے دیکھ، دائیں دیکھ، بائیں دیکھ''……
میں نے ہر طرف دیکھا۔ آوازآئی …… ''کوئی انسان تجھے زندہ نظر آتا ہے؟''…… مجھے ہر طرف لاشیں نظر آئیں۔ یہ سب میرے ساتھیوں کی لاشیں تھیں۔ حالت سب کی بہت بری تھی ۔ زخمی بہت کم تھے۔ زیادہ سپاہی پیاس سے مرے تھے۔ یہ سب لڑے تھے۔ ستارے کی روشنی سے آواز آئی…… ''کیا تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہاری تلواریں کند ہو گئی تھیں؟ …… کیا تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہارے تیروں کی کوئی رفتار ہی نہیں تھی ؟ تو نے دیکھا نہیں تھا کہ تمہارے گھوڑے کے پائوں زمین میں دھنس گئے تھے؟''……
''تب مجھے یاد آیا کہ میں نے سب کچھ دیکھا تھا جو روشنی کی صدا نے مجھے بتایا تھا۔ میری تلوار کی کاٹ اتنی بھی نہیں رہی تھی کہ خراش بھی ڈال سکتی ۔ میں نے اپنے تیر دیکھے تھے جوہوا میں یوں جاتے تھے جیسے ہوا کے جھونکوں سے گھاس کے خشک تنکے اُڑ رہے ہوں۔ ہمارے گھوڑے چلتے نہیں تھے۔ ریگزار نے سورج کی ساری آگ لے لی اور مجھے اور میرے ساتھیوں کوبھسم کردیا ۔ میں بھی جلی ہوئی لاش تھا۔ ستارے سے ایک شرارہ آیا۔ میری آنکھوں میں اُترا اور میرے وجود میں اتر گیا''۔ آواز آئی ……''ہم نے تجھے دوسری زندگی عطا کی ۔ ہم سے پوچھ ہم نے یہ کرم کیوں کیا؟''…… میں نے پوچھا ۔ آواز نے جواب دیا…… ''ہمیں مسلمانوں سے محبت ہے۔ مسلمان میرے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے ہیں۔ ہمارے حضور رکوع و سجود کرتے ہیں۔ جن کی یہ لاشیں ہیں ، انہیں ہم نے عبرت کا سامان بنایا ہے کہ یہ بھٹک گئے تھے اور جو بھٹک رہے ہیں انہیں ہم سیدھا راستہ دکھانا چاہتے ہیں۔ ہم نے تجھے منتخب کیا ہے کہ تو ہر صبح قرآن کی تلاوت کرتا ہے۔ جا ہم نے تجھے روشنی دی ہے۔ یہ میرے مسلمان بندوں کو دکھا ''۔
'' میں اچھی طرح نہیں سمجھا''۔ میں نے کہا …… ''ایے میرے رب کے نور! مجھے پوری بات بتا اور بتا کے میری بات کو ن مانے گا۔ کس طرح مانے گا۔ مجھے بتا کہ ہماری تلواریں کیوں کند ہو گئی تھیں؟ تیروں کی رفتار کہاں گئی تھی؟ روشنی کی آواز نے کہا …… وہ تلوارکند ہو جاتی ہے جس کا وار اپنی ماں پر کیا جاتا ہے۔ وہ تیر کھجور کا سوکھا پتہ بن جاتا ہے جو اپنی ماں کے سینے پر چلایا جاتا ہے۔ تو نہیں جانتا کہ ماں کون ہے۔ وہ سرزمین جس نے تجھے جنم دیا ہے اور جس کی مٹی میں تو کھیل کر جوان ہوں ہے، تیری ماں ہے۔ جا ، سوڈانی کے مسلمانوں سے کہہ کہ سوڈانی کی زمین تمہاری ماں ہے۔ اس سے محبت کرو۔ اس کی مٹی میں جنت ہے۔ اس جنت کو فتح کرنے کے لیے باہر کا کوئی مسلمان بھی آئے گا تو وہ دوزخ میں جائے گا۔ تو نے دوزخ دیکھ لیا ہے۔ جا، اپنے کلمہ گو سوڈانی بھائیوں کو بتا کہ تمہاری ماں ، تمہاری جنت اور تمہارا کعبہ سوڈان ہے''۔
''اے برگزیدہ ہستی کہ جس کا احترام ہم سب پر فرض ہے''…… ایک آدمی نے کہا …… ''کیا تو یہ کہہ رہا کہ ہم سوڈان کے اس بادشاہ کے وفادار ہوجائیں جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا؟''…… یہ آدمی ان تینوں میں سے ایک تھا جو آگے بڑھے اور گر پڑے تھے۔
 '' خدا کی آوازنے کہا ہے کہ یہ بادشاہ جو کافر ہے مسلمان ہوجائے گا''…… عمر دوریش نے جھومتی ہوئی اثر انگیزآواز میں کہا …… ''وہ مسلمانوں کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اس کی فوج کا فروں کی ہے اس لیے وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیںلیتا۔ تم سب جائو، تلواریں ، برچھیاں، تیرو کمان لے کر جائو۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر جائو۔ اسے بتائو کہ تم اس کے محافظ ہو۔ تم سوڈان کے بیٹے ہو''…… میں نے خدا سے کہا کہ میری زبان سے یہ بات کوئی نہیں مانے گا۔ میرے مسلمان بھائی مجھے قتل کردیں گے۔ خدا کی آواز جو درخت کے پتوں میں اٹکی ہوئی روشنی سے آرہی تھی ، نے کہا ……''ہمارے سوا پانی کو کون آگ لگا سکتاہے۔ جا، ہم نے یہ طاقت تجھے اس شہادت کے لیے دے دی کہ لوگ تیری آواز کو ہماری آواز سمجھیں۔ کوئی انسان پانی کو آگ نہیں لگا سکتا''…… پھر روشنی سے آواز آئی …… ''اگر تیری آواز کو لوگ پھر بھی باطل جانیں تو انہیں رات کو اپنے پاس بلا۔ میں انہیں وہی جلوہ دکھائوں گا جو موسیٰ کو طور پر دکھایا تھا''۔
''کیا تم طور کا جلوہ دیکھ کر حق کی آواز کو مانو گے؟''…… عمردرویش نے پوچھا۔
''ہاں، اے ،خدا کے ایلچی !'' …… ان تین آدمیوں میں سے ایک نے کہا …… ''اگر تو ہمیں طور کا جلوہ دکھادے تو ہم تیری آواز کو خدا کی آواز مان لیں گے''۔
''جائو'' …… عمردرویش نے زمین پر غصے سے ہاتھ مار کر کہا …… ''چلے جائو۔ اس وقت آنا جب سورج اپنے شعلے پہاڑوں کے پیچھے لے جائے گا اور آسمان پر ستاروں کی قندیلیں روشین ہوجائیں گی۔ جائو''لوگ جب واپس گئے تو ان کے دلوں میں کوئی شک نہیں تھا۔ جاتے جاتے وہ چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں ہوگئے۔ انسانی فطرت کی کمزوریاں اُبھر آئیں۔ عقیدے دب گئے۔ جذبے سرد ہوگئے۔ جذبات بھڑک اُٹھے۔ یہ سیدھے سادھے پسماندہ لوگ تھے۔ سنسنی خیزی نے ان کی عقل کا رخ پھیر دیا ۔ عمر درویش کے الفاظ میں کچھ اثر تھا یا نہیں، لوگوں نے اس اثرکو قبول کیا جو اس کی آواز میں اور اس کے بولنے کے انداز میں تھا۔ ان لوگوں میں سے اگر کسی نے شک کا اظہار کیا تو کسی نہ کسی نے کہہ دیا …… ''کیا تم پانی کو آگ لگا سکتے ہو؟'' …… ابھی رات کو طور کا جلوہ دیکھنا باقی تھا۔ یہ لوگ آشی کو جن سمجھے رہے تھے جس کا انہوں نے صاف الفاظ میں اظہار کیا۔
یہ وہ مسلمان تھے جنہوں نے سوڈان کی غیر مسلم شہنشاہی کو خوفزدہ کر رکھا تھا۔ سوڈان کی فوجوں کو انہوں نے اس پہاڑ ی خطے میں بے بس کرکے پسپا کردیا تھا۔وہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پرستاروں اور صلاح الدین ایوبی کے شیدائی تھے۔ سوڈان کے باشندے ہوتے ہوئے وہ اپنے کوہستانی خطے کو آزاد اسلامی ریاست کہتے تھے، مگر الفاظ کی سنسنی اور چاشنی اور وجد آفرینی نے انہیں راہ سے بے راہ کر دیا اور ان کی سوچیں بھٹکنے لگیں۔ جنہوں نے فوجوں کو پسپا کیا تھا ان کے عقیدے پر صرف ایک انسان نے دلکش وار کیا تو ان کے ہتھیار گر پڑے۔ یہ لوگ جدھر گئے افواہیں پھیلاتے گئے۔ انہوں نے جو دیکھا اور جو سنا تھا اسے اور زیادہ دلنشیں بنانے کے لیے اضافے کرتے گئے۔
''مجھے یہ خدشہ پریشان کر رہا ہے کہ سوڈانی مسلمان سنسنی خیز توہمات کے آگے ہتھیار ڈال دیں گے '' …… یہ آواز سلطان صلاح الدین ایوبی کی تھی جو سوڈان سے دور، بہت ہی دور فلسطین کی دہلیز پر ایک چٹان کے دامن میں اپنے مشیروں اور سالاروں کے درمیان بیٹھا تھا۔ العادل کا بھیجا ہوا قاصد اس کے پاس پہنچ گیا تھا۔ اس نے العادل کا پیغام پڑھ لیا تھا۔ مصر کی انٹیلی جنس (شعبہ جاسوسی اور سراغرسانی ) نے سوڈانی مسلمانوں کے حقوق پوری اطلاع مصر کے مقائم مقام امیر العادل کو دی تھی جو العادل نے سلطان ایوبی کے نام ایک پیغام میں لکھ بھیجی تھی ۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ علی بن سفیان تاجروں کے بھیس میں سوڈان جا رہا ہے۔ پیغام میں العادل نے سلطان ایوبی سے پوچھا تھا کہ سوڈانی مسلمانوں کے پہاڑی خطے میں اپنے چھاپہ مار بھیجے جائیں یا نہیں۔ اس نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا تھا کہ ہم چھاپہ مار چوری چھپے بھیجیں گے۔ اگر سوڈانی حکومت کو پتا چل گیا تو کھلی جنگ ہوسکتی ہے ، جب کہ ہماری زیادہ تر فوج عرب میں لڑ رہی ہے۔ پیغام میں تفصیل سے لکھا گیا تھا کہ سوڈانی حکومت مسلمانوں کو اپنا وفادار بنانے کے لیے ہمارے جنگی قیدیوں کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
: سلطان ایوبی نے یہ پیغام پڑھ کر اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں اور مشیروں کو سنایا اورکہا …… ''سوڈان کے یہ مسلمان سوڈان کی فوج کے لیے قہر الٰہی ہیں۔ تم سب دیکھ رہے ہو کہ ان میں جتنے ہماری فوج میں ہیں، وہ کس بے جگری اور جذبے سے لڑتے ہیں مگر دشمن جب انہیں طلسماتی الفاظ میں الجھاتااور ذہن کی خیالی عیاشی کی طرف مائل کرتا ہے تو وہ ریت کے بت بن جاتے ہیں۔ العادل نے لکھا تو نہیں کہ صلیبی سوڈان کے مسلمان علاقے میں کردار کشی اور ذہنی تخریب کاری کر رہے ہیں لیکن تم سب صلیبیوں کو جانتے ہو۔ وہ اس فن کے ماہر ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ سوڈانیوں کے پاس صلیبی مشیر موجود ہیں۔ وہ ذہنی تخریب کاری ضرورکریں گے ''۔
سلطان ایوبی نے العادل کے قاصد کو کھانے اور آرام کے لیے بھیج دیا اور کاتب کو بلا کر پیغام کا جواب لکھوانے لگا ۔ اس نے لکھوایا:
''میرے عزیز بھائی۔ العادل!''
خدائے عزوجل تمہارا حامی و ناصر ہو۔ تمہارے پیغام نے سوڈان کے مسلمانوں کے متعلق صورت حال واضح کردی ہے۔ تمہیں حیران نہیں ہونا چاہیے۔ تم جانتے ہو کہ کفار اسلام کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ وہ ہرحربہ اور ہر ہتھکنڈہ استعمال کررہے ہیں۔ میںاس اقدام کی تعریف کرتا ہوں کہ علی بن سفیان سوڈان چلا گیاہے اور تم نے اسے جانے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ علی بن سفیان کی مدد کرے۔ وہ نہایت ہوشیار اور مستعد سراغرساں ہے۔ پتھروں کے اندر سے بھید بھی نکال لاتا ہے۔ وہ واپس آکر تمہیں بتائے گا کہ وہاں کی صورت حال کیا ہے اور اس کے مطابق کیا کاروائی کرنی چاہیے ……
''تم نے مجھ سے پوچھا ہے کہ سوڈان کے مسلمانوں کو چھاپہ ماروں کی مدد دی جائے یا نہیں۔ تم نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا ہے چھاپر مار بھیجے تو سوڈانی جوابی کاروائی کریں گے جو کھلی جنگ کی بھی صورت اختیار کر سکتی ہے۔ تم نے اچھا کیا ہے کہ میری اجازت ضروری سمجھی ہے ، لیکن میں تمہیں خبردار کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر کبھی حالات ہنگامی ہوجائیں تو میری اجازت لینے میں وقت ضائع نہ کرنا۔تمہیں یہ معلوم ہو گیا تھا کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی سوڈانی فوج کے دو کمانداروں کو قتل کرکے مسلمانوں کے ہاں پناہ لی اور اسلام قبول کر لیا ہے اور تمہیں یہ بھی معلوم ہو گیا تھا کہ سوڈانی ہمارے قیدیوں کو ہمارے خلاف تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہمارے اسحاق نامی ایک کماندارکی بیوی اور بیٹی تک کو انہوں نے دھوکے سے اغوا کرنے کی کوشش ہے تو تمہیں سمجھ جانا چاہیے تھا کہ سوڈانی مسلمانوں میں کچھ غدار بھی ہیں۔ ان حالات میں تمہیں فوری طور پر چھاپہ ماروں کی کچھ نفری تاجروں اور مسافروں کے بھیس میں سوڈانی سرحد میں داخل کر دینی چاہیے تھی ۔ تا ہم علی بن سفیان کا چلے جانا قابل تعریف ہے۔
''میرے عزیز بھائی! یہ الگ مسئلہ ہے کہ ہمارے پاس فوج تھوڑی ہے اور ہم دوسرا محاذ کھولنے کے قابل نہیں لیکن قرآن کے اس فرمان سے گریز نہ کرو کہ کسی بھی خطے میں مسلمانوں پر کفار ظلم و تشدد کر رہے ہوں یا انہیں لالچ سے یا دھوکے سے عقیدوں سے گمراہ کر رہے ہوں اور ان کا قومی وقار اور دین و ایمان خطرے میں ڈال دیا گیا ہو تو تمام دنیا کے مسلمانوں پر جہاد فرض ہوجاتا ہے۔ میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ اسلام کے تحفظ کے لیے ہم کسی بھی ملک کی سرحد میں داخل ہو سکتے ہیں ۔ تم جانتے ہو کہ ہم نے سوڈانی مسلمانوں کو اپنے چھاپہ مار دے رکھے ہیں جو ان کے ساتھ کاشت کاروں کے روپ میں رہتے ہیں ۔ ہم سوڈانی مسلمانوں کو جنگی سامان بھی دے چکے ہیں ۔ اگر تم ضرورت محسوس کرو تو انہیں اور زیادہ مدد دو ……
'' اگر سوڈانی اپنی سرحد بند کرنے کے لیے مصر پر فوج کشی کریں تو گھبرا نہ جانا۔ تم تھوڑی سی فوج سے کئی گناہ فوج کا مقابلہ کر سکتے ہو۔ تم ان کا ایک حملہ تباہ کر چکے ہو۔ دوسرا بھی تباہ کر لو گے۔ سامنے کی ٹکر نہ لینا، دشمن کی وہاں گھسیٹ لینا جہاں تم کم تعداد سے زیادہ نقصان کر سکو۔ چھاپہ ماروں کا استعمال زیادہ کرنا اور دمشن کی رسد کاٹنے کا انتظام کرنا۔ تمہاری آدمی جنگ علی بن سفیان کے جاسوس جیت لیں گے۔ لیکن مجھے توقع نہیں کہ سوڈانی حملے کی حماقت کریں گے۔ (اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی) اگر ان صلیبی مشیروں نے عقل سے کام لیا تو وہ حملے کی بجائے اپنے پہاڑی علاقے کے مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کریں گے ۔ اگر مسلمان ان کے وفادار ہوگئے اور ان کی فوج میں شامل ہوگئے تو وہ ہر خطرہ مول لے سکتے ہیں ، اس لیے تمہاری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ مسلمان ان کی ذہنی تخریب کاری کا شکار نہ ہوں'' ……
 '' میں وہی بات دہرائوں گا جو سو بارکہہ چکا ہوں ۔ مسلمان میدانِ جنگ میں شکست دیا کرتا ہے ، شکست کھایا نہیں کرتا، مگر اس کے جذبات میں جب حیوانی جذبہ بیدار کر دیا جاتا ہے تو وہ تلوار اتار پھینکتا ہے ۔ ملت اسلامیہ کو جب بھی زوال آیا اسی جذبے کی بدولت آئے گا۔ ہمارا دشمن ہماری قوم میں یہی آگ بھڑکا رہا ہے۔ اس طرح ہم بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں۔ ایک زمین اوپر اور دوسرا زمین کے نیچے۔ ہمارا دشمن ہمیں زہر میں بجھے ہوئے تیروں سے نہیں مارسکا، وہ اب ہمیں زبان کی مٹھاس اور الفاظ کے جادو سے بیکار اور مفلوج کر رہاہے۔ یہ بڑا ہی خطرناک محاذ ہے۔ ہوشیار رہنا میرے عزیز بھائی!''……
''یہاں کے حالات سازگار ہیں۔ دشمن بری طرح بکھرا ہوا ہے۔ میں اسے مرکزیت اور اجتماع کی مہلت نہیں دوں گا۔ اللہ کی مدد ملتی رہی تو میں حلب لے لوں گا۔ مقابلہ شاید اب بھی سخت ہو لیکن میں نے کچھ اور انتظامات کر لیے ہیں۔ صلیبی ابھی سامنے نہیں آئے۔ شاید ابھی سامنے آئیں گے بھی نہیں۔ وہ بھائیوں کو آپس میں لڑا کر تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ اگر ان کا دشمن آپس میں ہی لڑ لڑ کر مر جائے تو انہیں سامنے آنے کی کیا ضرورت ہے ''…… 
''اللہ تمہاری مدد کرے۔ مجھے اُمید ہے کہ تم گھبرائو گے نہیں۔ خدا حافظ''
٭ ٭ ٭
جس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی نے یہ پیغام قاصد کو دے کر روانہ کیا اس وقت عمر درویش کے خیمے میں وہ تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے جو لوگوں کے ہجوم میں آگے ہوکر عمر درویش کی طرف بڑھے تھے مگر اس طرح پیچھے کو گر پڑے تھے جیسے کسی نے انہیں آگے سے دھکا دیا ہو۔ لوگ چلے گئے۔ عمر درویش باہر سے اُٹھ کر خیمے کے اندر چلا گیا تھا اور یہ تین آدمی کچھ دور تک لوگوں کے ساتھ گئے اور ان کی نظر بچا کر ایک ایک کرکے واپس آئے اور عمر درویش کے خیمے میں چلے گئے تھے۔ یہ اسی گروہ کے آدمی تھے اور وہ اسی علاقے کے مسلمان تھے۔ سوڈانی حکومت سے انہیں بہت انعام ملتا تھا۔ 
''میرا خیا ل تھا کہ کپڑا نہیں جلے گا''۔ عمر درویش نے کہا …… ''اس کے نیچے آتش گیر سیا ل کم رکھا گیا اور اوپر پانی زیادہ انڈیل دیا گیا تھا''۔
'' تمہیں ابھی یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ یہ تیل پانی پر ڈال دیا جائے تو بھی تیل جل اُٹھتا ہے''۔ اس آدمی نے کہا جس نے کپڑے پر مشکیزے سے پانی چھڑکا تھا ۔ ''ہم پہلے آزما چکے تھے ''۔
''لوگوں پر اس کا اثر کیا ہوا ہے؟'' عمر درویش نے پوچھا۔
''ہم کچھ دور تک ان کے ساتھ گئے تھے''۔ ایک نے جواب دیا …… ''وہ پانی کو آگ لگانے کو تمہارا معجزہ سمجھتے ہیں۔ کوئی یقین نہیں کرتا کہ دنیا کا کوئی انسان پانی کو آگ لگا سکتا ہے۔ تم نے جس انداز سے باتیں کی ہیں وہ ان کے دلوں میں اتر گئیں ہیں۔ خدا کی قسم! ''……
''نہ دوست!'' عمر درویش نے اسے ٹوک دیا اور سنجیدہ لہجے میں بولا …… ''خدا کی قسم نہ کھائو۔ ہم اس حق سے محروم ہو گئے ہیں کہ اس سچے خدا کی قسم کھائیں جس کے احکام کی ہم خلاف ورزی کر رہے ہیں ''۔
''معلوم ہوتا ہے ابھی تمہارے دل میں سچا خدا موجود ہے''۔ ایک آدمی نے کہا …… ''عمر درویش ! تم اپنا خدا اور اپنا ایمان فروخت کر آئے ہو''۔
دوسرے آدمی نے پاس بیٹھی ہوئی راشی کے ران پر ہاتھ پھیر کر کہا …… ''اور قیمت دیکھ کیسی ملی ہے۔ یہ صلیب کے بادشاہوں کا ہیرا ہے جو سوڈان کے حاکموں نے تمہیں دیا ہے''۔
: عمر درویش نے آشی کی طرف دیکھا تو آشی نے اسے گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے آنکھیں سکیڑیں۔ اس کے ماتھے پر شکن بھی پیدا ہوئے۔ عمر درویش اس اشارے کو سمجھ گیا اور ہنس کر بولا …… ''مجھے یاد نہیں رہا تھا۔ میں اتنی زیادہ قیمت کے قابل نہیں تھا …… جانے دو ان باتوں کو ۔ آنے والی رات کی باتیں کرو''۔
''سب انتظام تیار ہے''۔ ایک آدمی نے کہا …… ''تم نے ہمارا کمال دیکھ لیا ہے۔ دیکھا ہم کس طرح پیچھے کو گرے تھے؟ اورتم اس کی بھی تعریف کرو کہ ہم نے کسی اور کو بولنے نہیں دیا''۔
''رات کو تم طور کا جلوہ دکھائو گے''۔ ایک اور آدمی نے کہا …… ''یا د کرلو کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ ہمارے آدمی تیار ہیں''۔
''ہمیںچلے جانا چاہیے''۔ تیسرے آدمی نے کہا …… ''اب خیمے سے باہر نہ نکلنا''۔
وہ تینوں چلے گئے۔
٭ ٭ ٭
سورج غروب ہوتے ہی لوگ آنا شروع ہوگئے ۔ دن کے وقت جو لوگ عمر درویش کی باتیں سن گئے اور پانی کو آگ لگانے کامعجزہ دیکھ گئے تھے انہوں نے جہاں تک وہ پہنچ سکے ''خدا کے ایلچی '' کی تشہیر کر دی تھی کہ آج رات کو عمر درویش کوہِ طور کا وہی جلوہ دکھائے گا جو خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دکھایا تھا۔ سوڈان کے جاسوس بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے افواہیں پھیلانے کا کام جانفشانی سے کیا۔ اس کے نتیجے میں شام کے بعد عمر درویش کے خیمے کے سامنے لوگوں کا ہجوم دن کی نسبت زیادہ تھا۔ خیمے کے عقب میں اور دائیں بائیں کسی کو کھڑا ہونے کی اجازت نہ تھی ۔
عمر درویش ابھی خیمے میں تھا۔ باہر دو مشعلیں جل رہی تھیں جن کے ڈنڈے زمین میں گھڑے ہوئے تھے۔ لوگ ''خدا کے ایلچی '' کو دیکھنے کے لیے بے چین ہو رہے تھے ۔ خیمے کے پردے کو جنبش ہوئی۔ آشی سامنے آئی۔ اس کا لباس سیاہ تھا۔ یہ ایک فراک سا تھا جو کندھوں سے پائوں تک تھا ۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں