داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 84 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 84

 

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔84- قوم کی نظروں سے دور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کہ اس کمانڈر کا نام ناجی تھا۔''داستان ایمان فروشوں کی'' کے اس سلسلے کی پہلی کہانی میں اسی فوج اور اس کے سالار اعلیٰ ناجی کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ سلطان ایوبی سے پہلے ناجی مصر کا مختار کل تھا حالانکہ یہاں خلافت کی گدی بھی تھی اور یہ باقاعدہ امارت تھی۔ کیا خلیفہ اور کیا امیر صحیح معنوں میں بادشاہ تھے۔ صلیبیوں نے مصر کو سلطنت اسلامیہ سے کاٹنے کے لیے یہاں تخریب کاری اور سازشوں کے اڈے قائم کرلیے تھے۔ ناجی ان کا اتحادی بن گیا تھا۔ اس نے مصر کی سوڈانی فوج کو اپنے قبضے میں لے رکھا تھا۔ اس فوج کی تعداد پچاس ہزار تھی۔
سلطان ایوبی نے مصر کی امارت سنبھالی تو اس کی پہلی ٹکر ناجی سے ہوئی۔ سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی مرحوم سے منتخب اور جانباز دستوں کی کمک منگوا کر مصر کی پچاس ہزار سوڈانی فوج توڑ دی۔ اس کے بعض سالاروں کو قید میں ڈال دیا اور نئی فوج تیار کرلی۔ تھوڑے ہی عرصے بعد اس نے یہ حکم نامہ جاری کیا کہ سوڈان کی اس معزول فوج کے جو لوگ حلف وفاداری کے ساتھ خلوص نیت سے مصری فوج میں شامل ہونا چاہیں انہیں بھرتی کرلیا جائے۔ سوڈان کے وہ تمام مسلمان جو اس فوج میں تھے، واپس آگئے۔ وہ جان گئے تھے کہ انہیں غیر مسلم سازش کا آلۂ کار بنایا گیا تھا۔ سلطان ایوبی کی فوج میں شامل ہوکر انہوں نے جب صلیبیوں کے خلاف دو تین معرکے لڑے اور سلطان ایوبی کو انہوں نے قریب سے دیکھا تو ان کا ایمان تازہ ہوگیا۔ فوجی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ انہیں دین وایمان اور ملی وقار کے وعظ بھی سنائے جاتے اور انہیں بتایا جاتا تھا کہ ان کا دشمن، ان کے مذہب کا دشمن ہے۔ جس کی نظر میں اسلام کی بیٹیوں کی کوئی عزت اور عصمت نہیں۔ اب سلطان ایوبی کی جو فوج عرب میں لڑ رہی تھی، اس میں خاصی نفری سوڈانی مسلمانوں کی تھی۔
قاہرہ کی انٹیلی جنس اس صورتحال سے بے خبر تھی کہ سوڈان کی حکومت وہاں کے مسلمانوں کو کئی ایک طریقوں سے قائل کرنے کی کوشش کررہی ہے کہ مصری فوج میں جانے کے بجائے سوڈان کی فوج میں بھرتی ہوں۔ سوڈانیوں نے مسلمانوں پر تشدد کرکے بھی دیکھ لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں سوڈان کا ایک اعلیٰ فوجی افسر خفیہ طریقے سے قتل ہوگیا تھا۔ سوڈان نے اس علاقے میں باقاعدہ فوج بھیجی تھی۔ مسلمانوں نے اسے پہاڑیوں اور وادیوںمیں بکھیر کر مار ڈالا یا بھگا دیا تھا۔ مسلمانوں کو علاقے کا فائدہ حاصل تھا۔ چٹانیں اور پہاڑیاں انہیں آڑ مہیا کرتی اور تحفظ دیتی تھیں۔ یہ مسلمان جنگجو بھی تھے۔
سلطان ایوبی نے ان کے ساتھ علی بن سفیان کے شعبے کی وساطت سے رابطہ قائم رکھا ہوا تھا۔ مصری ''تاجروں'' کے قافلوں کے ذریعے ان مسلمانوں کو اتنا اسلحہ دے دیا تھا جس سے وہ سال بھر کے محاصرے میں لڑ سکتے تھے۔ انہیں چھوٹی منجنیقیں اور آتش گیر مادہ بھی پہنچا دیا گیا تھا۔ جو لوگوں نے گھروں میں چھپا رکھا تھا۔ سلطان ایوبی کے منصوبے میں یہ شامل تھا کہ جنگی کارروائی سے یا دیگر ذرائع سے اس علاقے کو مصر میں شامل کرنا ہے تاکہ یہ مسلمان صحیح معنوں میں آزاد ہوجائیں۔ یہ علاقہ سرحد سے آدھے دن کی مسافت پر تھا۔ علی بن سفیان نے وہاں اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے جو محض مخبر نہیں تھے، تجربہ کار لڑاکے اور چھاپہ مار (کمانڈو) تھے۔
یہ مسلمان عسکری نوعیت کا خزانہ اور بڑی کارآمد جنگی قوت تھے حالانکہ اس کی تعداد بمشکل پانچ ہزار تھی۔ انہیں چھوڑ کر سوڈان کے پاس حبشی رہ جاتے تھے جن کے ہاں کوئی عسکری تاریخ اور جنگی روایت نہیں تھی۔ وہ ملازموں کی حیثیت سے لڑتے تھے۔ میدان جنگ میں ان کا رویہ یہ ہوتا تھا کہ ان کے دشمن کے پائوں اکھڑنے لگیں تو شیر ہوجاتے تھے اور اگر دشمن کا دبائو بڑھ جائے تو محتاط ہوکر لڑتے اور پیچھے ہٹنے لگتے تھے۔ ان کی ٹریننگ کے لیے صلیبی پہنچ گئے تھے یا مصری فوج کے دو تین غدار سالار زروجواہرات کی لالچ میں سوڈان چلے گئے تھے۔ صلیبیوں اور ان کے مصری سالاروں کی بدولت سوڈان کی فوج میں کچھ اہلیت پیدا ہوگئی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ سوڈانی حکومت مصر پر کھلا حملہ کرنے سے گھبراتی تھی اور یہی وجہ تھی کہ وہ مسلمانوں کو اپنی فوج میں شامل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ صلیبی مشیر جانتے تھے کہ پچاس ہزار حبشیوں کی نسبت پانچ ہزار مسلمان کافی ہیں۔
 علی بن سفیان کو اطلاع ملی کہ مسلمانوں کے سوڈانی علاقے میں یہ واقعہ ہواہے کہ سوڈان کے قید خانے کے ایک سپاہی نے سوڈانی فوج کے کمان دار کو قتل کردیا اور مسلمانوں کے علاقے میں پناہ لے لی ہے۔ یہ خبر لانے والے جاسوس نے علی بن سفیان کو پورا واقعہ سنایا۔ اس نے اس سپاہی سے تصدیق کرلی تھی۔ سپاہی سے اس نے یہ بھی معلوم کرلیا تھا کہ اسحاق نام کا کمان دار قید خانے میں زندہ ہے اور اسے اس مقصد کے لیے تیار کرنے کے لیے قید خانے میں اذیتوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے کہ وہ مسلمانوں کو سوڈان کا وفادار بنا دے۔ جاسوس نے یہ بھی بتایا کہ اس علاقے پر اسحاق کا اثرورسوخ ہے۔
''یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسحاق کو قید خانے سے رہا کرایا جائے'' علی بن سفیان نے جاسوس سے پوری رپورٹ لے کر مصر کے قائم مقام امیر العادل سے کہا… ''آپ جانتے ہیں کہ قید خانوں میں کیسا کیسا تشدد کیا جاتا ہے۔ ہم بھی تشدد کرتے ہیں۔ پتھر بھی بول پڑتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسحاق سوڈانیوں کے رنگ میں رنگا جائے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ہمارے دو تین اور مسلمان کمان دار قید خانے میں ہیں۔ سب پر تشدد کیا جارہا ہے میں تو یہاں تک مشورہ دینے کو تیار ہوں کہ اپنے کچھ چھاپہ مار مسلمانوں کے علاقے میں بھیج دئیے جائیں۔ میں یہ خدشہ دیکھ رہا ہوں کہ اپنے کمان دار کے قتل کا انتقام لینے کے لیے سوڈانی فوج مسلمانوں پر حملہ کردے گی''۔
''دوسرے ملک میں چھاپہ مار بھیجنے کے لیے ہمیں ہر پہلو پر غور کرنا پڑے گا''۔ العادل نے کہا… ''اس کا نتیجہ کھلی جنگ بھی ہوسکتا ہے''۔
''ہمارے پاس غور کرنے کے لیے وقت نہیں''۔ علی بن سفیان نے کہا۔ ''ہمیں فوری طور پر کارروائی کرنی پڑی گی۔ کسی ذہین قاصد کو پیغام دے کر محترم سلطان کی طرف بھیجا جائے اور ان سے حکم لیا جائے اور دوسری یہ کہ میں خود سوڈان میں داخل ہوکر مسلمانوں کے علاقے میں چلا جائوں۔ وہاں کے حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ صحیح خاکہ صرف میری آنکھ دیکھ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے وہاں فوج حملہ نہ کرے۔ وہاں صلیبی موجود ہیں، وہ مسلمانوں کو توہم پرستی میں مبتلا کرکے ان کے نظریات اور عقیدوں کا رخ پھیر سکتے ہیں۔ مسجدوں میں اپنے مولوں بھیج کر لوگوں کو گمراہ کرسکتے ہیں۔ وہ ایسی چالیں مصر کے اندر آکر بھی کرچکے ہیں۔ مجھے یہی ڈر ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے اور ملی جذبے پر حملہ ہوگا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہماری قوم میں یہ خامی ہے کہ دشمن کی جذباتی اور ہیجابی باتوں میں جلدی آجاتی ہے۔ دشمن دیکھ چکا ہے کہ مسلمان کو میدان جنگ میں مارنا آسان نہیں۔ عقیدوں اور نظرئیوں کی معرکہ آرائی میں دشمن ایسے ہتھیار استعمال کرتا ہے کہ مسلمان ڈھیر ہوجاتے ہیں اگر آپ اجازت دیں تو میں وہاں چلا جائوں اورا پ ابھی ایک قاصد سلطان محترم کی طرف روانہ کردیں''۔
''آپ کی غیرحاضری میں آپ کی ذمہ داریاں کون سنبھالے گا؟''
''غیاث بلبیس''۔ علی بن سفیان نے جواب دیا۔ ''اس کے ساتھ میرا ایک معاون زاہدین رہے گا۔ آپ کو میری غیرحاضری محسوس نہیں ہوگی''۔
''بہت بری طرح محسوس ہوگی''۔ العادل نے کہا… ''آپ دشمن کے ملک میں جارہے ہیں اگر واپس نہ آسکے تو مصر اندھا اور بہرہ ہوجائے گا''۔
'میں نہ ہوا تو قوم مر نہیں جائے گی''۔ علی بن سفیان نے مسکرا کر کہا… ''افراد قوموں کی خاطر مرتے رہیں تو قومیں زندہ رہتی ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی یہ سوچ لیں کہ وہ مارے گئے تو قوم تباہ ہوجائے گی تو وہ گھر بیٹھ جائیں اور سلطنت اسلامیہ پر صلیبی ہاتھ صاف کرجائیں۔ مجھے سلطان کا یہ اصول بہت پسند ہے۔ وہ کہا کرتے ہیں کہ دشمن کا انتظار گھر بیٹھ کر نہ کرو۔ اس پر نظر رکھو۔ وہ تیاری کی حالت میں ہو تو اس کے پہلو یا عقب میں چلے جائو۔ میں اسی اصول پر سوڈان جارہا ہوں۔ دشمن نے مسلمانوں کے علاقے میں کامیابی حاصل کرلی تو ہم اپنے کون سے کارنامے پر فخر کریں گے''۔
''آپ چلے جائیں''۔ العادل نے کہا… ''یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ احتیاط لازمی ہے، میں سلطان کے نام پیغام لکھ کر بھیج دیتا ہوں''۔
علی بن سفیان سوڈان میں داخل ہونے کی تیاری کرنے چلا گیا۔ العادل نے کاتب کو بلایا اور سلطان ایوبی کے نام پیغام لکھوانے لگا۔ اس نے سوڈان سے مسلمانوں کے علاقے کی اطلاع تفصیل سے لکھوائی۔ یہ بھی لکھوایا کہ یہ پیغام آپ تک پہنچنے سے پہلے علی بن سفیان سوڈان میں جاچکا ہوگا۔ العادل نے علی بن سفیان کے مشورے بھی لکھوائے اور سلطان صلاح الدین ایوبی سے پوچھا کہ کیا کرنا چاہیے۔
قاصد کو پیغام دے کر العادل نے اسے کہا کہ اسے ہر چوکی سے گھوڑا بدلنا ہے اور گھوڑے کی رفتار کسی بھی حالت میں سست نہیں ہوگی۔ کھانا پینا دوڑتے گھوڑے پر ہوگا اگر راستے میں دشمن کے چھاپہ ماروں کا خطرہ ہوا تو قاصد پیغام ضائع کردے گا۔ ان ہدایات کے ساتھ قاصد کو روانہ کردیا گیا۔
٭ ٭ ٭
عمرودرویش شہر سے بہت دور نکل گیا تھا۔ اس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں تھی۔ سورج غروب ہورہا تھا۔ عمرودرویش رات کے قیام کے لیے کوئی موزوں جگہ دیکھ رہا تھا۔ دور اسے درخت نظر آئے جہاں پانی بھی ہوسکتا تھا لیکن اس کے پاس پانی کا ذخیرہ موجود تھا۔ اونٹوں کو پانی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ نخلستان سے دور قیام کرنا چاہتا تھا تاکہ صحرائی ڈاکوئوں سے بچا رہے۔ اس کے ساتھ آشی تھی جو سیاہ برقعے میں مستور تھی۔ یہ قیمتی لڑکی تھی۔ کسی ڈاکو کی نظر پڑ جانے سے اس کا بچنا ناممکن تھا… اسے ایک جگہ نظر آگئی۔ اس نے اونٹ روکے اور وہیں خیمہ گاڑ لیا۔
اسے دو شتر سوار اپنی طرف آتے نظر آئے۔ آشی کو اس نے خیمے میں بھیج کر پردے گرادئیے اور خود باہر کھڑا ہوگیا۔ اس کے چغے میں تلوار چھپی ہوئی تھی۔ خنجر بھی تھا اور خیمے میں دو کمانیں اور بہت سے تیر بھی تھے۔ شتر سواروں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر وہ سوچنے لگا کہ یہ ڈاکو ہوئے تو کیا وہ ان کا مقابلہ کرسکے گا۔ اسے یہ اطمینان تھا کہ آشی صرف دل بہلانے والی لڑکی نہیں، وہ لڑ بھی سکتی ہے۔ تیر اندازی کی اسے تربیت حاصل تھی۔ وہ صلیبیوں کی تیار کی ہوئی تخریب کار لڑکی تھی۔ شتر سوار آرہے تھے۔ عمرودرویش نے منہ انہی کی طرف رکھا اور آشی سے کہا… ''کمان میں تیر ڈال لو۔ اگر یہ ڈاکو نکلے تو پردے کے پیچھے سے تیر چلا دینا''۔
شتر سوار خیمے کے قریب آکر رکے۔ ایک نے اونٹ کی پیٹھ سے ہی پوچھا۔ ''تم کون ہو؟ کہاں جارہے ہو؟''
عمرودرویش نے ہاتھ آسمان کی طرف کرکے جھومتی ہوئی آواز میں کہا… ''جس کے سینے میں آسمان کا پیغام ہو اس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ میں کون ہوں؟… مجھے بھی معلوم نہیں۔ کبھی کچھ ہوا کرتا تھا۔ آسمان سے ایک پیغام آیا، میرے سینے میں اتر گیا۔ ذہن سے یہ نکل گیا کہ میں کون ہوں۔ میں کہاں جارہا ہوں؟… میرے سینے میں جو روشنی اتر آئی ہے وہ بتا سکتی ہے، اس میں میرے ارادوں کا کوئی دخل نہیں۔ میں آگے جارہا تھا۔ صبح کو شاید پیچھے چل پڑوں''۔
دونوںا ونٹوں سے اتر آئے۔ ایک نے کہا… ''آپ تو کوئی پیر پیغمبر معلوم ہوتے ہیں۔ ہم دونوں مسلمان ہیں۔ کیا آپ غیب کی خبر دے سکتے ہیں، ہم گناہ گاروں کو سیدھا راستہ دکھا سکتے ہیں؟''
: ''میں بھی مسلمان ہوں''۔ عمرودرویش نے وجد کی سی کیفیت میں کہا… ''تم بھی مسلمان ہو، مجھے تمہاری تباہی نظر آرہی ہے۔ میں بھی تمہاری طرح پوچھتا پھرتا تھا کہ سیدھا راستہ کون سا ہے۔ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ خون میں ڈوبی ہوئی لاشوں میں مجھے سبز رنگ کا ایک چغہ اور اس میں سفید داڑھی والا ایک انسان کھڑا نظر آیا۔ اس نے مجھے لاشوں سے اٹھایا اور سیدھا راستہ دکھایا۔ پھر وہ لاشوں کے خون میں غائب ہوگیا… تم پہاڑیوں میں رہتے ہو تو صحرائوں میں چلے جائو۔ مصر کا نام دل سے اتار دو وہ فرعونوں کا ملک ہے۔ وہاں جو بادشاہ آتا ہے اسے مصر کی مٹی اور وہاں کی ہوا فرعون بنا دیتی ہے''۔
''اب تو وہاں کا بادشاہ صلاح الدین ایوبی ہے''۔ ایک شتر سوار نے کہا… ''وہ پکا مسلمان ہے''۔
''اس کا نام مسلمانوں جیسا ہے''۔ عمرودرویش نے ایسے لہجے میں کہا جیسے خواب میں بول رہا ہو… ''وہی تمہاری تباہی لا رہا ہے۔ تم جس مٹی سے پیدا ہوئے وہ اس کی عزت پر خون بہائو۔ تم سوڈان کے بیٹے ہو''۔
''مگر سوڈان کا بادشاہ کافر ہے''۔ شترسوار نے کہا۔
''وہ مسلمان ہوجائے گا'' عمرودرویش نے کہا… ''وہ مسلمانوں کی راہ دیکھ رہا ہے۔ اس کی فوج کافروں کی فوج ہے اس لیے وہ اسلام کا نام نہیں لیتا۔ تم سب جائو، تلواریں، برچھیاں، تیروکمان لے کر جائو۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار ہوکر جائو۔ اسے بتائو کہ تم اس کے محافظ ہو، تم سوڈان کے محافظ ہو''۔
اس نے بلند آواز سے کہا۔ ''جائو۔ اٹھو یہاں سے چلے جائو''۔
دونوں اونٹوں پر سوار ہوئے اور چلے گئے۔ کچھ دور جاکر ایک سوار نے دوسرے سے کہا۔ ''دھوکہ نہیں دے گا''۔
''میرا بھی یہی خیال ہے''۔ دوسرے نے کہا۔ ''پکا معلوم ہوتا ہے، سبق بھولا نہیں''۔
''آشی جیسا خوبصورت انعام ہمیں مل جائے تو ہم اپنے ماں باپ کے بھی خلاف ہوجائیں''۔ شتر سوار نے کہا۔
''واپس چلتے ہیں''… دوسرے نے کہا۔ ''بتائیں گے کہ سب ٹھیک ہے… لڑکی شاید خیمے میں ہوگی''۔
''آدمی ہوشیار معلوم ہوتا ہے۔ اس نے لڑکی کو چھپا دیا تھا''… اس نے کہا… ''میرا خیال ہے انہیں کسی حفاظت کی ضرورت نہیں''۔
''نہیں ہونی چاہیے''… دوسرے نے کہا… ''سپاہی ہے۔ اس کے پاس ہتھیار بھی ہیں، تیروکمان بھی، لڑکی بھی ہوشیار ہے''۔
یہ دونوں سوڈانی جاسوس تھے جنہیں یہ معلوم کرنے کے لیے عمرودرویش کے پیچھے بھیجا گیا تھا کہ یہ کام سکیم کے مطابق کررہا ہے یا نہیں۔ عمرودرویش نے بڑی اچھی اداکاری کی تھی جس سے یہ دونوں مطمئن ہوکر چلے گئے۔
''یہ ڈاکو نہیں تھے''… عمرودرویش نے خیمے میں جاکر آشی سے کہا… ''چلے گئے ہیں''۔
''یہ ڈاکوئوں سے زیادہ خطرناک تھے''… آشی نے کہا… ''تم نے انہیں بڑے اچھے طریقے سے ٹالا ہے''… پھر بولی… ''جنہوں نے تمہیں ادھر بھیجا ہے ان کے جاسوس تھے''… آشی نے کہا… ''یہ تمہیں دیکھنے آئے تھے کہ تم انہیں دھوکہ تو نہیں دے رہے''۔
''تم انہیں جانتی ہو؟''
''میں انہی کے درخت کی ایک ٹہنی ہوں''… آشی نے کہا… ''ان سے کٹ کر گر پڑی تو سوکھ جائوں گی''۔
''مجھے تم سے بھی محتاط رہنا پڑے گا''۔
لڑکی ہنس پڑی اور بولی… ''تم نے خود ہی مجھے انعام کے طور پر مانگا تھا''۔
٭ ٭ ٭
رات وہ خیمے میں گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ آشی کی آنکھ کھل گئی۔ باہر بھیڑئیے غرا رہے تھے۔ اونٹ ڈر کر اٹھ کھڑے ہوئے اور عجیب طریقے سے بولنے لگے۔ آشی نے عمرودرویش کو جگایا اور اسے بتایا کہ وہ خوف کے مارے مر رہی ہے۔ عمرودرویش نے باہر کی آواز سنی تو آشی سے کہا… ''یہ بھیڑئیے ہیں۔ قریب نہیں آئیں گے۔ اونٹ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، کوئی ڈر نہیں۔ بھیڑئیے ان سے ڈر کر بھاگ جائیں گے''۔
اچانک بھیڑئیے آپس میں لڑ پڑے۔ ایسی خوفناک آوازیں تھیں کہ آشی چیخ مار کر عمرودرویش پر جا پڑی۔ وہ بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے آشی کو اس طرح اپنی آغوش اور بازوئوں کی پناہ میں لے لیا جس طرح ماں ڈرے ہوئے بچے کو چھپا لیا کرتی ہے۔ لڑکی کا سارا جسم کانپ رہا تھا۔ اس کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ بھیڑئیے لڑتے لڑتے دور چلے گئے تھے۔
عمرودرویش لڑکی کو پرے کرنے لگا اور کہا… ''وہ چلے گئے ہیں۔ سوجائو''۔
''نہیں''… آشی نے اس کی آغوش سے سر نہ اٹھایا۔ دھیمی سی آواز میں بولی… ''ذرا دیر اور یہیں پڑے رہنے دو''۔
عمرودرویش کو یہ صورت پسند نہیں تھی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ اسے اپنے حسین جال میں پھانسنے کی کوشش کررہی ہے۔ وہ اور زیادہ پتھر بن گیا۔ لڑکی کا جسم بڑا ہی گداز اور بال بہت ہی ملائم تھے۔ اس نے اتنی حسین لڑکی کو کبھی چھو کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ اب محسوس کرنے لگا کہ لڑکی اسی طرح اس کی آغوش میں پڑی رہی تو وہ اس انگیخت کا مقابلہ نہیں کرسکے گا۔ وہ آخر انسان تھا اور تنومند مرد تھا۔ اس نے اپنے نفس کا مقابلہ شروع کردیا۔
کچھ دیر بعد لڑکی نے سراٹھایا۔ تاریکی میں اس کے چہرے کے تاثرات نظر نہیں آرہے تھے۔ اس نے ہاتھوں سے عمرودرویش کا چہرہ ٹٹول کر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا ور کہا۔ ''تم نے ایک رات مجھ سے پوچھا تھا کہ تمہارا ماں باپ کون ہیں اور کہاں ہیں۔ یہی سوال تمہارے دوسرے ساتھی نے جو تم سے پہلے اس کمرے میں آیا تھا مجھ سے پوچھا تھا۔ مجھے ان کے متعلق کچھ بھی معلوم نہیں تھا مگر یہ سوال مجھے پریشان کرتا رہا اور بہت ہی پرانی یادیں بیدار کرتا رہا۔ مجھے کچھ یاد آتا تھا لیکن ذہن کے اندھیرے میں گم ہوجاتا تھا۔ آج یاد آگیا ہے۔ تم نے مجھے اپنے بازوئوں میں لے کر مجھے اپنی آغوش میں چھپا لیا تو میرے ذہن میں روشنی سی چمکی۔ اس نے مجھے بہت ہی پرانا وقت دکھا دیا۔ میں اس وقت بہت چھوٹی تھی۔ مجھے باپ نے اسی طرح سینے سے لگا کر مجھے اپنے بازوئوں میں چھپا لیا تھا''۔
وہ چپ ہوگئی۔ وہ یادوں کی کڑیاں ملانے کی کوشش میں مصروف تھی۔ اچانک بچوں کی سی شوخی سے بولی… ''ہاں وہ میرا باپ تھا۔ ایسا ہی ریگستان تھا۔ معلوم نہیں رات تھی یا دن تھا۔ ہم ایک قافلے کے ساتھ جارہے تھے۔ بہت سے گھوڑ سوار آئے اور قافلے پر ٹوٹ پڑے۔ ان کے پاس تلواریں اور برچھیاں تھیں۔ یہ ڈرائونا سا خواب ہے۔ جو آج تمہاری آغوش اور بازوئوں کی گرمی سے ذہن میں زندہ ہوگیا ہے۔ مجھے باپ نے تمہاری طرح پناہ میں لے لیا تھا… یہ بھی یاد آگیا ہے۔ میرے باپ کے بازو ڈھیلے پڑ گئے تھے اور وہ پیچھے کو گر پڑا تھا۔ اس نے ایک بار پھر مجھے بازوئوں میں جکڑ لیا۔ ماں بھی یاد آگئی ہے۔ وہ میرے اوپر گری تھی شاید مجھے بچانے کے لیے گری تھی… پھر یاد آتا ہے کہ وہ ایک طرف لڑھک گئی تھی۔ مجھے خون بھی یاد آتا ہے۔ کسی نے مجھے بازو سے پکڑ کر اٹھالیا تھا اور کسی نے کہا تھا… خالص ہیرا ہے جوان ہوئی تو دیکھنا… مجھے اپنی چیخیں بھی یاد آگئی ہیں۔ میں آج رات کی طرح چیخی تھی''۔
''دماغ پر زیادہ زور نہ دو''… عمرودرویش نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا… ''میں ساری کہانی بوجھ گیا ہوں۔ تم مسلمان کی اولاد ہو۔ تم عرب یا فلسطین کی رہنے والی ہو۔ صلیبی مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ اب بھی جو علاقے ان کے قبضے میں ہیں، وہاں وہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیتے ہیں۔ وہ زروجواہرات اور تم جیسی خوبصورت بچیوں کو لے جاتے ہیں۔ میں جان گیا ہوں تم یہاں تک کیسے پہنچی ہو''۔
: ''میں جب کچھ سوچنے سمجھنے لگی تو میں نے اپنے جیسی بہت سی بچیوں کو دیکھا''… آشی نے کہا… ''ہمیں بہت اچھا کھانا ور بہت خوبصورت کپڑے پہنائے جاتے تھے۔ گورے گورے آدمی اور عورتیں ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔انہوں نے میرے ذہن سے ساری یادیں مٹا دی تھیں۔ میں وہیں بڑی ہوئی تھی ۔ وہ یروشلم تھا ۔ لڑکپن سے ہمیں بے حیائی کے سبق ملنے لگے۔ شراب بھی پلائی جاتی تھی ۔ عربی زبان سکھائی گئی، پھر سوڈانی زبان سکھائی گئی ۔ میں جب جوان ہوئی تو مجھے اس استعمال میں لایا جانے لگا جس میں تم نے مجھے دیکھا ہے۔ تیغ زنی اور تیر اندازی کی ہمیں بہت مشق کرائی گئی تھیں …… آج تم نے مجھے خوفزدگی کی حالت میں پناہ میں لیا تو مجھے اچانک اپنا باپ یاد آگیا۔ میرے متعلق اس کے جذبات پاک تھے اور تمہارے جذبات بھی پاک ہیں ۔ اسی لیے میں نے تمہیں کہا تھا کہ مجھے کچھ دیر اور اپنی آغوش میں پڑا رہنے دو۔ مجھے اپنے باپ کی آغوش کا لطف آرہا تھا ۔ جک تک میں زندہ ہوں تمہاری غلام رہوں گی ۔ میں اب سوڈانیوں اور صلیبیوں کے لیے کام نہیں آسکوںگی ۔ یہ تمہاری پاکیزہ خیالی اور نیک نیتی کاکرشمہ ہے ۔ میں مسلمان ہوں۔ تم نے میری رگوں میں مسلمان باپ کا خون گرما دیا ہے۔ اب میں تمہیں یہ کام نہیں کرنے دوں گی جس کے لیے تم جا رہے ہو۔ تم نے میرے اندر ایمان کی قندیل روشن کر دی ہے ''۔
''چند دن مجھے یہ کام کرنا پڑے گا''…… عمرودرویش نے کہا …… ''میں کسی اور مقصد کے لیے جا رہا ہوں''۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں