داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 83 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 83

 


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔83- قوم کی نظروں سے دور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سورج بہت اوپر آچکا تھا۔ اسحاق کے باپ کے پاس دو گھوڑے تھے، اس نے دونوں تیار کیے۔ اسحاق کی بیٹی اور بیوی جلدی میں تیار ہوکر سوار ہوگئیں۔ گائوں کے کچھ اور لوگ بھی وہاں آگئے تھے۔ سب سوڈانی کمانڈر کی باتوں میں آگئے اور انہوں نے اسحاق کی بیٹی اور بیوی کو کمانڈر کے ساتھ رخصت کردیا۔ رات کا سفر تھا، راستے میں کہیں رکنا نہیں تھا۔ دونوں مستورات کے دلوں میں اسحاق کے متعلق جو جذبات تھے ان سے ان کی نیند اڑ گئی۔ ان کے لیے گھوڑے کی سواری کوئی نئی یا مشکل بات نہیں تھی۔ یہاں کے مسلمان اپنے بچوں کو گھوڑ سواری اور تیر اندازی بچپن میں ہی سکھا دیا کرتے تھے۔
تینوں گھوڑے پہاڑی علاقے سے نکل گئے۔ کمانڈر خوش تھا کہ اس نے کامیابی سے دونوں مستورات کو جال میں پھانس لیا تھا۔ اسحاق اس کوٹھڑی میں بیٹھا تھا جس میں گلی سڑی لاش پڑی تھی۔ یہ لاش اسے پریشان کرنے کے لیے وہاں رکھی گئی تھی لیکن اسحاق نے اپنے آپ کو جسمانی احساسات سے بیگانہ کردیا تھا۔ وہ لاش کے ساتھ اس طرح باتیں کرتا تھا جیسے وہ زندہ ہو۔ اسے بدبو کا ذرہ بھر احساس نہیں تھا۔ وہ اب جسم نہیں روح بن گیا تھا۔ سارا دن اسے کوٹھڑی سے باہر نہ نکالا گیا۔ شام کے بعد بھی اسے کسی نے نہ چھیڑا۔ وہ حیران بھی ہوا کہ اسے کیوں آرام دیا جارہا ہے۔ شاید سوڈانی سالار اس سے مایوس ہوگیا تھا۔
کمانڈر دونوں مستورات کے ساتھ پہاڑی علاقے سے نکل کر صحرا میں جارہا تھا۔ وہ ان دونوں کو اسحاق کی بہت اچھی اچھی باتیں سنا رہا تھا۔ دونوں پوری دلچسپی سے سن رہی تھیں۔ سوڈانی سالار اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا۔ ''اپنی بیٹی اور بیوی کی بے عزت کون برداشت کرسکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ کمانڈر ان دونوں کو لے آئے گا۔ میں اسحاق سے کہوں گا کہ جب تک تم مسلمان قبیلوں کو سوڈانی فوج میں شامل کرکے سوڈان کا وفادار نہیں بنا دیتے تمہاری بیٹی اور بیوی کو آزاد نہیں کیا جائے گا''۔
''صبح تک ہمارے کمانڈر کو آجانا چاہیے''۔ سالار کے ساتھی نے کہا۔
''ہوسکتا ہے ذرا پہلے آجائے''۔ سالار نے کہا۔ ''آدمی ہوشیار ہے''۔
قید خانے کا جو سپاہی کمانڈر کے پیچھے روانہ ہوا تھا ریتلے ٹیلوں کے علاقے میں سے گزر رہا تھا۔ اس نے آدھے سے زیادہ راستہ طے کرلیا تھا۔ اس رات چاند نہیں تھا۔ صحرا کی فضا رات کو شفاف ہوجاتی ہے۔ ستاروں کی روشنی بھی مسافروں کو راستہ دکھا دیتی ہے۔ سپاہی کو رات کی خاموشی میں کسی کی باتیں سنائی دیں۔ بولنے والا اسی کی طرف آرہا تھا۔ ٹیلے گونج پیدا کررہے تھے۔ سپاہی ایک ٹیلے کی اوٹ میں رک گیا۔ باتیں بلند ہوتی گئیں اور گھوڑوں کے پائوں کی آہٹیں بھی سنائی دینے لگیں۔ تھوڑی سی دیر بعد سپاہی نے ٹیلے کی اوٹ سے تین گھوڑے گزرتے دیکھے۔ اس نے تلوار نکال لی اس وقت بھی کمانڈر اسحاق کی باتیں کررہا تھا۔ سپاہی کو یقین ہوگیا کہ یہ کمانڈر ہے اور اس کے ساتھ اسحاق کی بیٹی اور بیوی ہے۔
اس نے گھوڑا باہر نکالا اور ان کے پیچھے گیا۔ اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز نے کمانڈر کو چونکا دیا۔ وہ تلوار سونت کر پیچھے کو مڑا لیکن سپاہی گھوڑے کو ایڑی لگا چکا تھا۔ اس نے دوڑتے گھوڑے سے کمانڈر پر ایسا وار کیا کہ اس کا ایک بازو صاف کاٹ دیا۔ گھوڑا روک کر وہ پیچھے مڑا۔ کمانڈر لڑنے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس نے رحم کے لیے پکارا لیکن سپاہی نے اس کی گردن پر وار کرکے اسے گھوڑے سے لڑھکا دیا۔
دونوں مستورات سن ہوگئیں۔ اسحاق کی بیوی نے اپنی بیٹی سے کہا۔ ''بھاگو۔ ڈاکو معلوم ہوتے ہیں''۔
انہوں نے گھوڑے موڑے۔ سپاہی نے اپنا گھوڑا ان کے راستے میں کرلیا اور کہا۔ ''یہاں کوئی ڈاکو نہیں ہے، مجھ سے نہ ڈرو۔ میں نے تمہیں ایک ڈاکو سے بچایا ہے۔ میرے ساتھ اپنے گائوں میں چلو۔ میں تمہیں اپنے ساتھ نہیں لے جارہا۔ تمہارے ساتھ چل رہا ہوں، میں اکیلا ہوں''۔
وہ دونوں حیران وپریشان تھیں کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ سپاہی نے کمانڈر کے گھوڑے سے لگام اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دی اور گھوڑے کو بھی ساتھ لے چلا۔ راستے میں اس نے دونوں کو بتایا کہ ''اسحاق قید خانے میں بند ہے۔ اسے کہا جارہا ہے کہ وہ مسلمان قبیلوں کو سوڈانی فوج میں شامل کردے۔ اسحاق نہیں مان رہا۔ سپاہی نے ان دونوں کو یہ نہ بتایا کہ اسحاق کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہے۔ اس نے کہا کہ تم دونوں کو اس کے سامنے عریانی کی حالت میں کھڑا کرکے اور تم دونوں کی بے عزتی کی دھمکی دے کر اسحاق کو اپنی بات پر لانے کے لیے بلایا گیا ہے۔ یہ آدمی جسے میں نے قتل کیا ہے تم دونوں کو اسی نیت سے لے جانے آیا تھا۔ میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ میں نے اپنا فرض ادا کردیا ہے''۔
''تم کون ہو؟'' اسحاق کی بیوی نے پوچھا۔ ''مسلمان ہو؟''
''میں قید خانے کا سپاہی ہوں'' اس نے جواب دیا۔ ''میں مسلمان ن
'' اس نے جواب دیا۔ ''میں مسلمان نہیں ہوں''۔
''پھر تمہیں ہمارے ساتھ کیسے ہمدردی پیدا ہوگئی؟''
''میں نے سنا تھا کہ مسلمانوں کے پیغمبر ہوتے ہیں''۔ سپاہی نے کہا۔ ''تمہارا خاوند پیغمبر معلوم ہوتا ہے''۔
اسحاق کی بیوی نے اس سے پوچھا کہ وہ اس کے خاوند کو کیوں پیغمبر سمجھتا ہے۔ سپاہی نے اصل بات نہ بتائی اور کہا… ''اب تو میں اسے سچا پیغمبر سمجھتا ہوں، وہ قید خانے میں قید ہے، مسلمان ہے، میں مسلمان نہیں ہوا۔ اسے معلوم ہی نہیں کہ اس کی بیٹی اور بیوی کو بے عزت کرنے کا انتظام کردیا ہے۔ میرے دل میں خیال آگیا کہ میں تم دونوں کی عزت کی حفاظت کروں گا۔ میں نے ایسا کام کیا ہے جو میری ہمت سے باہر تھا۔ یہ اسی کی غیبی قوت ہے۔ میں اسے پیغمبر سمجھتا ہوں''۔
٭ ٭ ٭
سحر کے وقت اسحاق کے گھر کے سامنے چار گھوڑے رکے۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ اسحاق کا باپ اسحاق کی بیوی اور بیٹی کو ان کے ساتھ ایک اور آدمی کو دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ اندر جاکر سپاہی نے اسے تمام حالات اور واقعات سنا دئیے لیکن اسے بھی نہ بتایا کہ اسحاق کے ساتھ قید خانے میں کیا سلوک ہورہا ہے۔
اسحاق کے باپ نے اسی وقت اپنے قبیلے کے لوگوں کو اطلاع دے دی۔ لوگ جمع ہوگئے۔ سپاہی نے انہیں بتایا کہ اسحاق کو اس شرط پر رہائی دینے کا وعدہ کیا جارہا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو سوڈان کی فوج میں شامل کردے اور تمام مسلمان سوڈان کے وفادار ہوجائیں۔ سپاہیوں نے بتایا کہ اسحاق کہتا ہے کہ مجھے جان سے ماردو میں اپنی قوم کے ساتھ غداری نہیں کروں گا۔
تمام لوگ بھڑک اٹھے۔ سوڈان کو بھلا برا کہنے لگے۔ کسی نے کہا… ''یہاں صلاح الدین ایوبی آئے گا، یہ خدا کی زمین ہے''۔
''ہم قید خانے پر حملہ کرکے اسحاق کو رہا کرائیں گے''۔ ایک آدمی نے کہا۔
''تمہارے لیے یہ کام آسان نہیں''۔ سپاہی نے کہا۔ ''تہہ خانے میں سے تم کسی کو نکال نہیں سکتے''۔
''تم قید خانے کے سپاہی ہو''۔ اسحاق کے باپ نے کہا۔ ''تم ہماری مدد کرسکتے ہو''۔
''میں غریب اور ادنیٰ سپاہی ہوں''۔ اس نے کہا۔ ''میں آپ کے بیٹے کو پیغمبر سمجھتا ہوں۔ میں نے اسے کہا تھا کہ میری قسمت بدل دو۔ اس نے کہا تھا کہ باہر آکر بدل دوں گا۔ جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے میں اس کا مرید ہوتا جارہا ہوں۔ یہ سب لوگ اس پر جانیں قربان کرنے پر تیار ہیں، کیا میری زندگی بھی ایسی ہوسکتی ہے جیسی تمہاری ہے؟''
''مسلمان ہوجائو اور یہیں رہو''۔ اسحاق کے باپ نے اسے کہا۔ ''ہم لوگ جنت میں رہتے ہیں، یہاں پانی کے چشمے ہیں اور ہرے بھرے درخت ہیں۔ یہاں کی زمین اتنا اناج دیتی ہے کہ جو کاشت کاری نہیں کرتا وہ بھی بھوکا نہیں رہتا۔ یہ ہمارے اللہ کی شان ہے۔ تم ہمارے پاس آجائو اور اپنی قسمت بدل لو۔ ہم لوگ آزاد ہیں۔ یہ پہاڑیاں ہمارا قلعہ ہیں جو ہمارے اللہ نے ہمارے لیے بنایا ہے''۔
سپاہی نے وہیں رہنے کا فیصلہ کرلیا۔ اسحاق کے باپ نے اسے حلقہ بگوش اسلام کرکے اپنے پاس رکھ لیا۔
صبح طلوع ہوچکی تھی۔ سوڈانی سالار بیتابی سے کمانڈر کا انتظار کررہا تھا مگر اس کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔ سورج اوپر اٹھتا گیا ور سالار بے چین ہوتا گیا۔ وہ سمجھا کہ کمانڈر راستہ بھول گیا ہوگا۔ اس نے ایک اور عہدیدار کو بلایا اور اسے وہی باتیں بتا کر جو اس نے پہلے کمانڈر کو بتائی تھیں روانہ کردیا۔
اسحاق کوٹھڑی میں بند رہا۔ یہ دن بھی کوٹھڑی میں گزر گیا۔ اس کی کوٹھڑی میں پڑی ہوئی لاش پھٹنے لگی تھی۔ قید خانے کے سنتری جو انسانوں کے جسم توڑنے اور تہہ خانے کی بدبو کے عادی تھے وہ بھی اسحاق کی کوٹھڑی کے قریب آنے سے گریز کرنے لگے۔ بڑی ہی بری بدبو تھی۔ ایک سنتری نے ناک پر ہاتھ رکھ کر اسحاق سے پوچھا۔ ''اومردود! تم اس بدبو کو کس طرح برداشت کررہے ہو؟ یہ لوگ جو کچھ تم سے منوانا چاہتے ہیں مان جائو اور یہاں سے رہائی لو۔ اس مرداری بدبو سے پاگل ہوجائو گے''۔
''مجھے کوئی بدبو محسوس نہیں ہورہی''۔ اسحاق نے کہا۔ ''یہ مردار نہیں شہید ہے۔ میں رات کو اس کے ساتھ لگ کے سوتا ہوں''۔
''تم پاگل ہوچکے ہو''۔ سنتری نے کہا۔ ''لاش کی بدبو کا یہی اثر ہوتا ہے''۔
اسحاق کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور اس نے لاش کے پاس بیٹھ کر قرآن کی ایک آیت کا ورد شروع کردیا۔
٭ ٭ ٭
 یہ رات بھی گزر گئی۔ صبح کے دھندلکے میں جس دوسرے کمانڈر کو سالار نے بھیجا تھا واپس آگیا۔ ایک تو مسلسل اتنے طویل سفر سے اس کا رنگ اڑا ہوا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جو کچھ دیکھ آیا تھا اسے بیان کرنے سے اس کی زبان ہکلا رہی تھی۔ اس نے سالار کو بتایا کہ راستے میں کچھ علاقے ریتلے ٹیلوں اور گھاٹیوں کا ہے۔ ایک جگہ گدھ مردار کھا رہے تھے۔ اس نے ایک جگہ تلوار پڑی دیکھی۔ جوتے اور کپڑے بھی دیکھے۔ اس نے گدھوں کو اڑایا تو پتہ چلا کہ وہ کسی انسان کو کھا رہے تھے۔ چہرہ بھی خراب ہوچکا تھا۔ اسے جو چیزیں مثلاً خنجر، چمڑے کا کمر بند وغیرہ ملیں وہ اٹھا کر لے گیا۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ سوڈانی کمانڈر کی لاش تھی۔
اس نے آگے جاکر زمین دیکھی۔ گھوڑوں کے پائوں کے نشان تھے۔ یہ کمانڈر پہاڑی علاقے تک گیا۔ گھوڑوں کے نشان وہاں تک گئے تھے۔ کچھ کہا نہیں جاسکتا تھا کہ کمانڈر مستورات کو ساتھ لایا تھا یا نہیں اورا سے کس نے قتل کیا ہے۔ سوڈانی سالار نے کہا کہ معلوم ہوجائے گا۔ مسلمانوں کے اس علاقے میں سوڈانیوں نے جاسوس چھوڑ رکھے تھے جو انہی مسلمانوں میں سے تھے۔ ان جاسوسوں کا وہاں اور کوئی بس نہیں چلا تھا۔ صرف مخبری کرتے تھے۔ اسحاق کے متعلق انہی لوگوں نے بتایا تھا کہ اس علاقے پر اسی کا اثرورسوخ ہے۔
ہوا بھی ایسے ہی۔ شام کے بعد جو جاسوس پہنچ گئے۔ انہوں نے سالار کو پوری خبر سنائی کہ کمانڈر، اسحاق کی بیوی اور بیٹی کو لے گیا تھا اور قید خانے کے ایک سپاہی نے اسے راستے میں قتل کردیا اور مستورات کو واپس لے گیا ہے۔ انہوں نے سپاہی کا نام بھی بتایا۔ سالار نے یہ مسئلہ سوڈان کے حکمران کے آگے رکھا۔ اس نے صلیبی مشیروں کو بتایا۔ ان صلیبیوں نے مشورہ دیا کہ خاموش ہوجائو۔ مسلمانوں پر فوج کشی کی حماقت نہ کربیٹھنا۔ انہیں کسی اچھے طریقے سے دوست بنانے کی کوشش کرو۔ زیادہ سے زیادہ یہ کارروائی کرو کہ اس سپاہی کو خفیہ طریقے سے قتل کرادو تاکہ مسلمانوں کو پتہ چل جائے کہ ہمارے ہاتھ ہر جگہ پہنچ سکتے ہیں۔ اسحاق پر تشدد جاری رکھو۔
اسحاق کو ایک بار پھر تشدد کے شکنجے میں جکڑ لیا گیا۔ اب تو سالار اس سے اپنے کمانڈر کے قتل کا انتقام بھی لینا چاہتا تھا۔ اسے اتنی درندگی کا تختہ مشق بنا دیا گیا جتنا انسانی تصور سے باہر تھا۔ رات کے وقت وہ بے ہوش ہوگیا اور اسے کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا۔ ہوش میں آیا تو کوٹھڑی میں اندھیرا تھا۔ باہر ایک مشعل جل رہی تھی۔ اسحاق نے اپنا ہاتھ ایک طرف کیا تو ہاتھ کسی کے جسم پر لگا۔ اسے یاد آگیا کہ یہ وہی لاش ہے جو پہلے دن سے اس کے ساتھ پڑی ہے مگر اسے ایسے لگا جیسے لاش سانس لے رہی ہو۔ یہ اس کے دماغ کی خرابی ہی ہوسکتی تھی۔ اس کے جسم کی حالت یہ ہوگئی تھی کہ اٹھنے کے قابل نہیں رہا تھا۔
لاش نے حرکت کی۔ اسحاق نے چونک کر دیکھا۔ چہرے پر نظر ڈالی۔ یہ لاش نہیں تھی۔ کوئی زندہ انسان تھا اور یہ کوٹھڑی کوئی اور تھی۔ دوسرا آدمی بھی شاید بے ہوش تھا۔ وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آیا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ اسحاق بڑی مشکل سے اٹھا اور پوچھا۔ ''تم کون ہو؟''
''عمرو درویش''۔ اس آدمی نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
''اوہ… عمرودرویش؟'' اسحاق نے حیران ہوکر کہا۔ ''میں اسحاق ہوں''۔
وہ ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے تھے۔ عمرودرویش بھی صلاح الدین ایوبی کی فوج کے ایک دستے کا کمانڈر تھا وہ بھی انہی مسلمان قبیلوں میں سے تھا جو سوڈانی ہوتے ہوئے سوڈان کی فوج میں بھرتی نہیں ہوتے تھے۔ عمرو درویش بھی جنگی قید ی ہوگیا تھا۔ اسحاق کا نام سن کر اٹھ بیٹھا۔
''تمہیں کیا کہتے ہیں؟''۔ اسحاق نے پوچھا۔
''کہتے ہیں کہ عالم کے روپ میں اپنے علاقے میں جائو''۔ عمرودرویش نے جواب دیا۔ ''اور لوگوں کے دلوں میں صلاح الدین ایوبی کے خلاف دشمنی پیدا کرو۔ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں شہزادوں کی طرح رکھیں گے اور جس لڑکی کو پسند کرو گے، وہ تمہارے ساتھ رہے گی''۔ عمرو نے پوچھا۔ ''تم سے کیا منوانا چاہتے ہیں؟''
''کہتے ہیں اپنے تمام قبیلوں کو سوڈان کا وفادار بنا دو''۔ اسحاق نے جواب دیا۔ ''اس کے عوض مجھے مسلمانوں کے علاقے کا امیر بنانے کا وعدہ کرتے ہیں۔ یہ مسلمانوں کی الگ فوج بنانا چاہتے ہیں''۔
: ''مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ تمہیں بہت تکلیفیں دے رہے ہیں''۔ عمرو درویش نے کہا۔ ''معلوم نہیں ہمیں ایک ہی کوٹھڑی میں کیوں بند کردیا ہے… شاید اس میں کوئی بہتری ہوگی۔ میں چاہتا تھا کہ تم مجھے مل جائو۔ میں نے ایک طریقہ سوچا ہے۔ اس پر عمل کرنے سے پہلے تمہیں تم سے اجازت لینا چاہتا تھا۔ اچھا ہوا تم مل گئے''۔
''تم نے دیکھ لیا ہے کہ یہ لوگ ہمیں چھوڑیں گے نہیں''۔ عمرو درویش نے کہا۔ ''ہم اذیتیں کب تک برداشت کریں گے۔ آج نہیں تو کل مر جائیں گے۔ یہاں اور کئی سوڈانی مسلمان قید ہیں، کوئی نہ کوئی ان کے جال میں آجائے گا۔ میں ڈرتا ہوں کہ ہمارے چند ایک ساتھیوں کو یہ ورغلا کر ہماری قوم میں تفرقہ ڈال دیں گے۔ ایک صورت یہ ہے کہ تم ان کی شرط مان لو۔ اس بہانے آزاد ہوجائو اور اپنے علاقے میں جاکر کچھ بھی نہ کرو۔ رات کے اندھیرے میں مصر کو نکل جائو۔ تمہیں زندہ رہنا چاہیے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ میں ان کی بات مان لوں، یہ مجھے جو سبق پڑھانا چاہتے ہیں وہ پڑھ لوں۔ ان کا بتایا ہوا بہروپ دھارلوں اور اپنے تمام قبیلوں کو خبردارکردوں کہ وہ سوڈانیوں کے کسی چکر میں نہ آئیں۔ اگر میں ان کا ساتھی بن گیا تو میں تمہیں یہاں سے نکالنے کی کوشش کروں گا''۔
''یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ سوڈانی ہمارے علاقے پر حملہ کردیں''۔ اسحاق نے کہا۔ ''ہمارے لوگ اتنی جلدی ہتھیار ڈالنے والے تو نہیں لیکن فوج اتنی جلدی ختم نہیں ہوتی۔ فوج آخر فوج ہے''۔
''ہمیں قربانی دینی پڑے گی''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''ہم مصر سے چھاپہ ماروں کی مدد حاصل کرسکتے ہیں۔ فی الحال ضرورت یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے ایک آدمی باہر نکل جائے اگر ہم دونوں اکٹھے ان کی شرط مان کر نکل جائیں تو اور زیادہ بہتر ہے''۔
''میں یہیں رہوں گا''۔ اسحاق نے کہا۔ ''تم انہیں دھوکہ دو۔ اگر ہم نے اکٹھے ان کی بات مان لی تو انہیں شک ہوگا۔ یہ سمجھ جائیں گے کہ ہم نے رات ایک کوٹھڑی میں رہ کر کوئی منصوبہ تیار کیا ہے۔ میں سختیاں برداشت کرتا رہوں گا۔ تم نکل جائو صبح طلوع ہوتے ہی کوٹھڑی کا دروازہ کھلا۔ ایک سپاہی نے اسحاق کو برچھی چبھوئی اور اسے اٹھا کر دھکے دیتا اپنے ساتھ لے گیا۔ کوٹھڑی کا دروازہ پھر بند ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد سوڈانی فوج کا ایک عہدیدار آیا۔ اس نے سلاخوں میں سے عمرودرویش سے پوچھا۔ ''اگر تم نے آج انکار کیا تو تصور نہیں کرسکتے کہ تمہارے جسم کا کیا حال ہوگا۔ ہم تمہیں مرنے نہیں دیں گے۔ تم اس دنیا میں دوزخ دیکھ لو گے۔ ہر روز مرو گے اور ہر روز جیو گے''۔
''مجھے کسی اچھی جگہ لے چلو''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''میرے جسم کو ذرا سا سکون آنے دو، یہاں میں کچھ بھی نہیں سوچ سکتا''۔
''میں تمہیں جنت میں بٹھا سکتا ہوں''۔ سوڈانی عہدیدار نے کہا۔ ''تمہیں جنت کی پریوں میں بٹھا دوں گا اور اگر وہاں بھی تم نے انکار کیا تو جتنے دن زندہ رہو گے پچھتاتے رہو گے۔ ہمیں رو رو کر کہو گے کہ میں نے تمہاری شرط مان لی ہے تو بھی ہم تم پر اعتبار نہیں کریں گے''۔
وہ کراہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح کھلتی نہیں تھیں۔ اس نے سرگوشی سی کی۔ ''ایسا نہیں ہوگا، مجھے کہیں لے چلو اور بتائو کہ مجھے کیا کرنا ہے''۔
اسے اسی وقت لے گئے اور ویسے ہی خوشنما کمرے میں جارکھا جیسا اسحاق کو دیا گیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک طبیب آگیا۔ اس نے اس کے جسم کا معائنہ کرکے اسے دوائیں پائیں۔ اسے اعلیٰ قسم کا کھانا کھلایا گیا۔ اس دوران اسی سوڈانی سالار نے جو اسحاق کا جسم توڑتا رہتا تھا، عمرو درویش سے پوچھا۔ ''کیا تم نے ہماری ہر بات ماننے کا فیصلہ کرلیا ہے؟''
عمرو درویش نے سرہلا کر رضامندی کا اظہار کیا۔ کھانا کھاتے ہی وہ لیٹا اور گہری نیند سوگیا۔ اس کی جب آنکھ کھلی تو رات بھی گزر چکی تھی اور اگلا دن گزر گیا تھا۔ وہ بہت دنوں سے قید خانے کے تہہ خانے میں اذیتیں برداشت کررہا تھا۔جسم بہت حد تک سوکھ گیا تھا۔ ہڈیاں دکھ رہی تھیں۔ اتنے نرم وگداز بستر پر اتنی لمبی نیند سے اس کے جسم میں صحت کے آثار نظر آنے لگے۔ اسے دوائیاں دی گئیں اور اسے بادشاہوں والا کھانا کھلایا گیا تھا۔ اس کی آنکھ کھلی تو اس کے سامنے ایک لڑکی کھڑی مسکرا رہی تھی۔ وہ بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ اس کے بال ریشمی تھے اور کھلے ہوئے۔ اس کے کندھے، بازو اور سینے کا کچھ حصہ عریاں تھا۔ عمرو درویش فوجی تھا۔ جنگلوں میں پیدا ہوا اور فوج میں اس کی عمر میدان جنگ میں گزر رہی تھی۔ اس لڑکی کو اس نے خواب سمجھا لیکن لڑکی نے آگے ہوکر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو اسے یقین آیا کہ یہ خواب نہیں۔
لڑکی باہر چلی گئی اور طبیب کو بلا لائی۔ طبیب نے اسے دیکھا اور دوائی پلا کر چلا گیا۔ فوراً بعد دو صلیبی آگئے۔ وہ سوڈانی زبان روانی سے بولتے تھے۔ تخریب کاری کے ماہر معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے عمرو درویش کو اس مہم کے لیے تیار کرنا شروع کردیا کہ وہ اپنے علاقے میں جاکر یہ نہیں بتائے گا کہ وہ قید میں رہا ہے بلکہ یہ بتائے گا
 بلکہ یہ بتائے گا کہ میدان جنگ میں اسے ایک بزرگ ملے تھے جنہوں نے اسے کہا تھا کہ مصری فوج کا سوڈان پر حملہ مصر کے لیے مہنگا ثابت ہوگا۔ مسلمانوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ سوڈان کا ساتھ دیں ورنہ تباہ ہوجائیں گے… صلیبیوں نے اسے یہ بھی بتایا کہ وہ مجذوب عالم کے بھیس میں مسلمانوں کے دلوں میں صلاح الدین ایوبی اور مصر کی حکومت کے خلاف نفرت پیدا کرے گا۔
عمرو درویش خندہ پیشانی سے رضا مند ہوگیا۔ اسی وقت اس کی ٹریننگ اور ریہرسل شروع ہوگئی۔ شام کے بعد اس کے آگے لڑکیوں نے کھانا چنا۔ شراب بھی رکھی گئی جو اس نے قبول نہ کی۔ کھانے کے بعد جب لڑکیاں دستر خوان سمیٹ کر لے گئیں تو ایک اور لڑکی شب خوابی کے لباس میں آگئی۔ اس کا جسم نیم عریاں اور چال ڈھال اشتعال انگیز تھی۔
''تم کیوں آئی ہو؟'' عمرودرویش نے لڑکی سے پوچھا۔
''آپ کے لیے''۔ لڑکی نے جواب دیا۔ ''میں آپ کے پاس رہوں گی''۔
''تمہارا نام کیا ہے؟''
''آشی!'' لڑکی نے جواب دیا اور اس کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔
''آشی!'' عمرو درویش نے کہا۔ ''مجھے تمہاری ضرورت نہیں۔ تم چلی جائو''۔
''میں حکم لے کر آئی ہوں کہ مجھے آپ کے ساتھ رہنا ہے''۔
''مجھ سے یہ لوگ جو بات منوانا چاہتے تھے وہ میں نے مان لی ہے''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''اب مجھے تم جیسے حسین فریب کی کوئی ضرورت نہیں رہی''۔
''میں جانتی ہوں''۔ آشی نے کہا۔ ''آپ کے متعلق مجھے سب کچھ بتا دیا گیا ہے۔ میں انعام کے طور پر آئی ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کو میری ضرورت ہے۔ سپاہی جب میدان جنگ سے آتے ہیں تو ان کی روح عورت کی طلب گار ہوتی ہے''۔
''میں ہارا ہوا سپاہی ہوں''۔ عمرو درویش نے کہا۔ ''میری روح مرگئی ہے۔ مجھے اپنے جسم سے نفرت ہوگئی ہے۔ مجھے اس کی کسی بھی ضرورت کا احساس نہیں رہا۔ قید خانے میں ابلے ہوئے پتے کھاتا رہا تو بھی مطمئن رہا۔ یہاں اتنے اچھے کھانے کھائے ہیں تو بھی مطمئن ہوں لیکن خوش نہیں ہوں۔ میں شکست خوردہ ہوں''۔
لڑکی ہنس پڑی جسے کسی نے جل ترنگ چھیڑ دیا ہو۔ ''شراب کے دو چار گھونٹ آپ کو مسرتوں سے مالا مال کردیں گے''۔ لڑکی نے کہا۔ ''حلق سے اتر جائے تو مجھے دیکھنا۔ مجھ میں آپ کو پھولوں کا حسن نظر آئے گا''۔
''میری مجبوری یہ ہے کہ میں مسلمان ہوں''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''ہم عصمتوں سے کھیلا نہیں کرتے، عصمتوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں''۔
''صرف مسلمان لڑکیوں کی عصمتوں کی حفاظت کرتے ہوں گے''۔ لڑکی نے کہا۔ ''میں مسلمان نہیں''۔
''اور تم عصمت والی بھی نہیں''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''پھر بھی میرا فرض ہے کہ تمہاری عصمت کا خیال رکھوں۔ لڑکی مسلمان ہو یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھتی ہو، اپنی قوم کی ہو یا اپنے دشمن کی، مسلمان اگر ایمان کا پکا ہے تو اس کی عصمت کی حفاظت کرے گا۔ تم تمام رات میرے پاس بیٹھی رہو، صبح سب کو بتاتی پھرو گی کہ رات ایک پتھر کے پاس بیٹھ کر گزاری ہے''۔
''کیا میں خوبصورت نہیں؟'' لڑکی نے پوچھا۔
''تم جیسی بھی ہو میرے کسی کام کی نہیں''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''میں تمہارے کام آسکتا ہوں۔ اگر تم اس ذلیل زندگی سے آزاد ہونا چاہو تو میں تمہیں جان پر کھیل کر یہاں سے نکال لے جائوں گا اور کسی شریف گھرانے میں آباد کردوں گا''۔
''آپ سے پہلے بھی ایک یہاں آیا تھا''۔ آشی نے کہا۔ ''وہ بھی آپ کی طرح باتیں کرتا تھا۔ وہ بھی سوڈانی مسلمان تھا۔ میں آپ کی یہ بات نہیں مان سکتی کہ چونکہ آپ مسلمان ہیں اس لیے آپ عورت میں دلچسپی نہیں لیتے۔ میں نے مصر کے کئی مسلمان دیکھے ہیں، وہ عورت کو دیکھ کر بھوکے درندے بن جاتے ہیں۔ میں تین ایسے مصری مسلمان بتا سکتی ہوں جنہیں میں نے اور شراب کی اس صراحی نے غدار بنایا ہے۔ وہ کیسے مسلمان ہیں؟''
''وہ ایمان فروش ہیں''۔ عمرودرویش نے کہا۔ ''تم باتیں کررہی ہو میں تمہارے چہرے پر اور تمہاری آنکھوں میں تمہاری ماں اور تمہارے باپ کی جھلک دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں۔ وہ کہاں ہیں؟ زندہ ہیں؟''
''معلوم نہیں''۔ آشی نے کہا۔ ''آپ سے پہلے جو یہاں آیا تھا اس نے بھی یہی پوچھا تھا کہ تمہارے ماں باپ زندہ ہیں یا مر گئے ہیں''۔ وہ اسحاق کی بات کررہی تھی۔ اسحاق کو جب اس کمرے میں لایا گیا تھا تو اسی لڑکی کو اس کے کمرے میں بھیجا گیا تھا۔ اس نے عمرودرویش سے کہا۔ ''اس سوڈانی مسلمان نے مجھ سے میرے ماں باپ کے متعلق پوچھ کر مجھے پریشان کردیا تھا۔ ایسا سوال مجھ سے کبھی کسی نے نہیں پوچھا تھا۔ وہ پہلا آدمی تھا جس نے پوچھا تو میں رات بھر سوچتی رہی کہ میرے ماں باپ کون تھے اور کیسے تھے۔ تھے ضرور۔ مجھے کچھ یاد آتا تھا اور ذہن کے اندھیرے میں غائب ہوجاتا تھا۔ میں نے اپنے آپ کو ان کی یاد سے دور رکھنے کی کوشش شروع کردی مگر میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ آج آپ نے ان کی یاد پھر تازہ کردی ہے۔ میں جب محسوس ہی نہیں کرتی تھی کہ میرے ماں باپ ہوں گے تو میں خوش رہتی تھی۔ آپ سے پہلے آنے والے سوڈانی مسلمان نے میرے اندر ایسے جذبات بیدار کردئیے ہیں کہ میری خوشی پر اب اداسی کا آسیب سوار رہنے لگا ہے''۔
''تمہارا کوئی بھائی بھی تھا؟''
''کچھ بھی یاد نہیں''۔ آشی نے کہا۔ ''میں خون کے رشتوں کو سمجھتی ہی نہیں کہ کیا ہوتے ہیں''۔
''تمہیں نیند آرہی ہو تو سو جائو''۔ عمرودرویش نے کہا۔
''آپ کو نیند آرہی ہو تو میں خاموش ہوجاتی ہوں''۔ آشی نے کہا۔ ''جی چاہتا ہے کہ آپ میرے ساتھ باتیں کرتے رہیں۔ مجھے آپ جیسے آدمی اچھے لگتے ہیں۔ میں جس آدمی کے ساتھ کچھ وقت گزارتی ہوں اس سے مجھے نفرت سی ہوجاتی ہے۔ مجھے مسکرانا پڑتا ہے۔ وہ سوڈانی مسلمان جو آپ سے پہلے یہاں آیا تھا، مجھے ساری عمر یاد رہے گا جسے اس کمرے میں لایا گیا تھا۔ آپ دوسرے آدمی ہیں جن کی میں ہمیشہ قدر کروں گی۔ آپ نے میرے اندر روح اور جذبات کو بیدار کردیا ہے۔ آپ مجھے شاید روح کی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ دوسرے مجھے جسم کی بھوکی نظروں سے دیکھتے ہیں''
''میں تمہیں آبرو باختہ لڑکی سمجھتا تھا لیکن تم عقل اور فراست کی باتیں کرتی ہو''۔ عمرودرویش نے کہا۔
''میں حسین اور میٹھا زہر ہوں''۔ آشی نے کہا۔ ''پتھروں کو موم کرنے کی مجھے تربیت دی گئی ہے۔ میں کوئی سیدھی سادی لڑکی نہیں۔ جابر حکمران کی تلوار اپنے قدموں میں رکھوا سکتی ہوں اور عالموں کے منہ پھیر سکتی ہوں مگر اپنے آپ کو وہ موم سمجھنے لگی ہوں جو ذرا سی حرارت سے پگھل جاتی ہے کسی پتھر کو نہیں پگھلا سکتی''۔
رات گزرتی جارہی تھی، نیند کا خمار اور عمرودرویش کی باتیں آشی پر غالب آتی جارہی تھیں۔ نیند سے اس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔ وہ پلنگ کی پائتی بیٹھی ہوئی تھی۔ وہیں لڑھک گئی… اس کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کو پلنگ پر اور عمرودرویش کو فرش پر سوتے دیکھا۔ اس نے عمرودرویش کو جگایا نہیں۔ اسے دیکھتی رہی۔ اس کے سینے میں ہلچل بپا ہوگئی۔ اس نے اپنے گالوں پر اپنے آنسوئوں کی نمی محسوس کی اور حیران ہوئی کہ اس کے جسم میں آنسو بھی ہیں۔ اس کے آنسو کبھی نہیں نکلے تھے۔ اس نے عمرودرویش کے پاس دو زانو ہوکر اس کا ہاتھ اٹھایا اور آنکھوں سے لگایا۔
عمرودرویش کی آنکھ کھل گئی۔ آشی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نہ آئی۔ اس نے اسے یہ بھی نہ کہا کہ تمہیں فرش پر نہیں سونا چاہیے تھا۔ وہ خاموشی سے باہر نکل گئی۔ واپس آئی تو اس کے ہاتھ میں پانی تھا جس سے عمرودرویش نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا۔ آشی کمرے سے چلی گئی۔
 ناشتے کے بعد سوڈانی سالار دو صلیبیوں کے ساتھ آگیا۔
''میری ایک بات غور سے سن لیں''۔ عمرودرویش نے سالار سے کہا۔ ''مجھے کسی بھی وقت اسحاق کی ضرورت محسوس ہوسکتی ہے۔ آپ اسے پریشان کرنا چھوڑ دیں۔ اسے کسی کھلی اور آرام دہ کوٹھڑی میں رکھیں۔ اسے تہہ خانے سے نکال کر اوپر لے آئیں۔ وہ میرا دوست ہے۔ مجھے جب اس کی ضرورت ہوئی تو میں اسے منالوں گا۔ اسے دھوکہ بھی دے لوں گا اگر وہ نہ مانا تو آپ اس کے ساتھ جو سلوک مناسب سمجھیں کریں''۔
سوڈانی سالار نے کہا کہ ایسا ہی ہوگا۔ صلیبی مشیروں نے عمرودرویش کو ٹریننگ دینی شروع کردی۔ اس نے خوبی سے نقل کی۔ انہوں نے اسے جو باتیں بتائیں وہ بھی اس نے زبانی یاد کرنی شروع کردیں… چارپانچ روز اس کی تربیت ہوتی رہی۔ دن کے دوران صلیبی اس کے ساتھ ہوتے تھے اور رات کو آشی اس کے پاس ہوتی تھی۔ یہ لڑکی اس کی مرید بن گئی تھی۔ اس کمرے میں جاکر وہ اپنے آپ کو پاکیزہ لڑکی سمجھنے لگتی تھی۔
چھٹے ساتویں روز عمرودرویش ایک درویش کے روپ میں اپنے علاقے میں جانے کے لیے تیار ہوگیا۔ اسے درویشوں اور مجذوب عالموں کے کپڑے پہنائے گئے۔ آشی نے اسے کہا تھا کہ وہ جب اپنی مہم پر روانہ ہو تو اسے بھی ساتھ لیتا چلے۔ اس کی خواہش پر عمرودرویش نے سوڈانی سالار سے کہا کہ وہ اس لڑکی کو انعام کے طور پر اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے۔ لڑکی اسے دے دی گئی۔ اسے مستور کرنے کے لیے لڑکی کو برقعہ نما لبادہ دے دیا گیا۔ تین اونٹ دئیے گئے۔ ایک پر عمرودرویش سوار ہوا، دوسرے پر آشی اور تیسرے پر ایک خیمہ اور کھانے پینے کا سامان لاد دیا گیا۔ سوڈانی سالار نے عمرودرویش کو دو باتیں بتائیں۔ ایک یہ کہ اسحاق کو تہہ خانے سے نکال کر اوپر کھلے کمرے میں بھجوا دیا گیا ہے اور دوسری یہ کہ مسلمانوں کے علاقے میں اپنے آدمی موجود ہیں جو اسے خود ہی ملیں گے اور اس کی مدد کریں گے۔
عمرودرویش آشی کو ساتھ لے کر ایک خطرناک مہم پر روانہ ہوگیا۔
سوڈانی سالار اس کے روانہ ہوتے ہی اپنے کمرے میں گیا۔ وہاں چھ آدمی بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سب سوڈانی مسلمان تھے اور مسلمانوں کے پہاڑی علاقے کے رہنے والے تھے۔ انہیں سوڈان کی حکومت سے بہت انعام واکرام ملتا تھا۔ اپنے علاقے میں وہ پکے مسلمان بنے رہتے تھے۔
''وہ جاچکا ہے''۔ سالار نے انہیں کہا۔ ''تم دوسرے راستے سے روانہ ہوجائو۔ اکیلے اکیلے جانا۔ اپنے علاقے میں پہنچ جائو اور اس پر نظر رکھو جہاں تمہیں شک ہو کہ یہ شخص دھوکہ دے رہا ہے، اسے ایسے طریقے سے قتل کردو جس سے کسی کو پتہ نہ چلے۔ میں اور آدمی بھیج رہا ہوں۔ انہیں اپنے گھروں میں رکھ لینا''۔
یہ سب ایک دوسرے کے بعد روانہ ہوگئے۔ سوڈانی سالار نے دو اور آدمی بلائے۔ وہ صرف سوڈانی تھے، مسلمان نہیں تھے۔ ان سے سالار نے کہا۔ ''ان مسلمانوں کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اپنے علاقے میں جاکر سب ایکا نہ کرلیں۔ یہ چھ آدمی ہمارے ہی ہیں لیکن یہ نہ بھولنا کہ مسلمان ہیں۔ وہاں جاکر ان کی نیت بدل سکتی ہے۔ اگر عمرودرویش ٹھیک رہا تو تمہیں آتش گیر مادے کی ضرورت ہوگی۔ یہ ان آدمیوں نے گھروں میں چھپا رکھا ہے۔ تم جانتے ہو کہ اسے کب اور کہاں استعمال کرنا ہے''۔
یہ دونوں بھی روانہ ہوگئے۔
وہ سپاہی جس نے اسحاق کی بیٹی اور اس کی بیوی کو بچایا اور کمانڈر کو قتل کیا تھا، اسحاق کے گھر رہتا تھا جس روز عمرو درویش روانہ ہوا اس روز سپاہی کہیں باہر گھوم پھر رہا تھا۔ ایک تیر آیا جو اس کے جسم کو چھوتا ہوا ایک درخت میں جالگا۔ سپاہی دوڑ پڑا اور اسحاق کے گھر جاپہنچا۔ اس نے اسحاق کے باپ کو بتایا کہ اس پر کسی نے تیر چلایا ہے۔ کوئی بھی نہ سمجھ سکا کہ تیر کس نے چلایا ہے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ سوڈانیوں نے اسے قتل کرنے کی پہلی کوشش کی ہے۔
٭ ٭ ٭
: سلطان صلاح الدین ایوبی کے محکمہ جاسوسی وسراغرسانی (انٹیلی جنس) کا سربراہ علی بن سفیان قاہرہ میں تھا۔ اس وقت سلطان ایوبی صلیبیوں کے دوست مسلمان امراء سیف الدین گمشتگین کو اور الملک الصالح کی فوج کو شکست دے کر ان مخالفین کے مرکزی شہر حلب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے یہ مسلمان مخالفین ایسی افراتفری اور بوکھلاہٹ میں بھاگے تھے کہ کہیں بھی قدم جما نہ سکے۔ راستے میں تین چار اہم مقام تھے جہاں وہ رک جاتے اور اپنی بکھری ہوئی فوج کو اکٹھا کرلیتے تو صلاح الدین ایوبی کا مقابلہ کرسکتے تھے لیکن انہوں نے پسپائی کے ایسے راستے اختیار کیے جو جنگی لحاظ سے ان کے لیے مزید نقصان کا باعث بنے۔ سلطان ایوبی نے پیش قدمی جاری رکھی اور ان اہم مقامات پر قبضہ کرلیا۔ اس کی منزل حلب تھی۔
اسے کچھ علم نہیں تھا کہ مصر کے حالات کیسی کیسی کروٹیں لے رہے ہیں۔ قاصد اسے رپورٹیں دیتے رہتے تھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ طرح طرح کی سازشیں سر اٹھا رہی ہیں۔ وہ میدان جنگ میں کبھی پریشان نہیں ہوا تھا، سازشیں اسے پریشان کردیا کرتی تھیں اور یہ حقیقت اس کے لیے زہر کی طرح تلخ تھی کہ ان سازشوں اور تخریب کاری کے ہدایت کار صلیبی اور آلۂ کار مسلمان تھے۔ علی بن سفیان اس کا دست راست تھا بلکہ اس کی آنکھیں اور کان تھا۔ اسے سلطان ایوبی نے مصر سے غیر حاضری کے دوران مصر میں ہی رہنے دیا تھا اور اپنے ساتھ اس کے معاون حسن بن عبداللہ کو رکھا۔ مصر کی حکومت سلطان ایوبی کے بھائی العادل کے حوالے تھی۔ اپنے بھائی کی غیرحاضری میں العادل راتوں کو سوتا بھی کم تھا۔ علی بن سفیان کو وہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس طرح مصر کا امن وامان اور اس خطے میں اسلام کی آبرو کا تحفظ ان دونوں کی ذمہ داری تھی۔
انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کی غیر حاضری میں مصر میں تخریب کاری بڑھ رہی ہے۔ اس کے علاوہ سوڈان کی طرف سے خطرہ تھا۔ دو چار ماہ پہلے العادل نے سوڈانیوں کے ایک عجیب وغریب اور بڑے ہی خطرناک حملے کو غیرمعمولی کامیابی سے تباہ کردیا تھا لیکن سوڈانیوں کے عزائم میں کوئی فرق نہیں آتا تھا، کیونکہ ان کا یہ حملہ جو ناکام ہوا تھا باقاعدہ فوج کا حملہ نہیں تھا۔ سوڈان کی باقاعدہ فوج نقصان کے بغیر تیار کھڑی تھی۔ اس فوج کو صلیبی تربیت دے رہے تھے اور بعض دستوں کی کمان بھی صلیبیوں کے ہاتھ میں تھی۔
سوڈان کے خطرے کی پیش بندی یوں کی گئی تھی کہ سرحد پر سرحدی دستوں کی نفری میں اضافہ کردیا گیا۔ ان کے علاوہ علی بن سفیان نے اپنے شعبے کے بے شمار آدمیوں کو سرحد پر پھیلا دیا تھا۔ یہ سب جاسوس اور مخبر تھے۔ وہ صحرائی مسافروں اور خانہ بدوشوں کے بھیس میں سرحد پر گھومتے پھرتے رہتے تھے۔ ان کا رابطہ سرحدی چوکیوں کے ساتھ تھا۔ ان کی چوکیوں پر ان کے لیے گھوڑے تیار رہتے تھے۔ سرحدی دستوں کے گشتی سنتری بھی ان کے ساتھ رابطہ رکھتے تھے۔ ایک انتظام اور بھی تھا۔ علی بن سفیان کے چند ایک ماہر جاسوس تاجروں کے بہروپ میں سوڈان کے ساتھ غیرقانونی تجارت کرتے تھے جسے آج کل سمگلنگ کہا جاتا ہے۔ انہیں مال دے کر سرحد پار کرا دی جاتی تھی۔ یہ لوگ سوڈان جاکر یہ ظاہر کرتے تھے کہ وہ مصر کے سرحدی دستوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر آئے ہیں۔ سوڈان میں بعض اجناس کی قلت تھی جس میں اناج خاص طور پر قلیل تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی ہدایت کے تحت مصر میں زیادہ اناج اگایا جاتا تھا جس کا کچھ حصہ جاسوسی کے سلسلے کی سمگلنگ کے لیے الگ کرلیا جاتا تھا۔
 سوڈان کے جو تاجر مصری ''تاجروں'' کے ساتھ کاروبار کرتے تھے ان میں زیادہ تر جاسوس تھے جو مصر کے لیے کام کرتے تھے۔ انہیں جاسوس مصری جاسوسوں (تاجروں کے روپ میں) نے بنایا تھا۔ جاسوسی کا یہ طریقہ کامیاب ہوا تو سلطان ایوبی نے حکم دے دیا تھا کہ سوڈان کو اناج اور زیادہ سستا دو تاکہ یہ سلسلہ سارے سوڈان میں جال کی طرح پھیل جائے۔ چنانچہ جال پھیلا دیا گیا اور سوڈانی فوج اور حکومت کی ہر ایک نقل وحرکت قاہرہ میں نظر آنے لگی۔ علی بن سفیان نے سرحد کے ساتھ اپنے دو تین ہنگامی مرکز بنا دئیے تھے جونہی کوئی خبر ادھر سے آتی سرحد کے کسی مرکز کو دے دی جاتی۔ جہاں سے برق رفتار گھوڑوں کے ذریعے قاہرہ پہنچا دی جاتی تھی۔ اس مقصد کے لیے جو سوار رکھے گئے تھے وہ مسلسل تمام دن اور رات بغیر آرام کیے سواری کرنے کی مہارت رکھتے تھے۔
سلطان صلاح الدین ایوبی کو معلوم تھا کہ سوڈان میں ایک وسیع پہاڑی علاقہ ہے جس میں صرف مسلمان آباد ہیں اور ان مسلمانوں کی زیادہ تر تعداد مصری فوج میں ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہ مسلمان سوڈانی فوج میں بھرتی ہونا پسند نہیں کرتے۔ اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ سلطان ایوبی کے دور امارت سے کچھ پہلے مصری فوج میں سوڈانی حبشی اور سوڈانی مسلمان ہوا کرتے تھے۔ ان کا کمانڈر بھی سوڈانی تھا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ اس کمانڈر کا نام ناجی تھا۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں