داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 82 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 82


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔82- قوم کی نظروں سے دور
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کسی سپاہی کی بہادری کا تذکرہ ہورہا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک سالار کھانے کے بعد کی محفل میں کسی معرکے کی باتیں کررہا تھا۔ ایک سپاہی کی بہادری کا ذکر آگیا۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''لیکن تاریخ میں نام آئے گا تو وہ آپ کا اور میرا ہوگا۔ تاریخ لکھنے والوں کی یہ بے انصافی ہے کہ وہ بادشاہوں، سلطانوں اور سالاروں سے نیچے کسی کی طرف آنکھ اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ فتح اور شکست اللہ کے ہاتھ میں ہے لیکن فتح کا سہرا ہمیشہ سپاہیوں کے سر ہوتا ہے۔ ہمارے چھاپہ مار جانباز دشمن کے پاس جاکر اس کے دوست بن جائیں تو ہم ان کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ معرکوں میں سپاہی لڑنے کے بجائے اپنی جان کی فکر زیادہ کریں تو آپ فتح کس طرح حاصل کرسکتے ہیں؟ حق یہ ہے کہ تاریخ میں ہمارے ان سپاہیوں کا ذکر ضرور آئے جو اکیلے اکیلے دس دس کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنے پرچم کو سرنگوں نہیں ہونے دیتے۔ یہ سپاہی جب کبھی ہاریں گے تو میری اور آپ کی نالائقی کی وجہ سے ہاریں گے یا انہیں وہ غدار اور ایمان فروش شکست دیں گے جو ہماری صفوں میں موجود ہیں''۔
''خدا نے ہمیں کس گناہ کی سزا دی ہے کہ ہم میں غدار پیدا کردئیے ہیں''… محفل میں کسی نے جھنجھلا کر کہا۔
''میں عالم نہیں کہ اس سوال کا جواب دے سکوں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''شاید خدائے ذوالجلال نے غداروں کی صورت میں ہم پر یہ خطرہ مستقل طور پر سوار کردیا ہے کہ ہر لمحہ چوکس اور چوکنے رہیں اور ایک کے بعد دوسری فتح حاصل کرتے کرتے مغرور نہ ہوجائیں… خدا کی باتیں خدا ہی جانے میں ڈرتا ہوں کہ ایمان فروشی کسی دور میں اسلام کے وقار کو لے ڈوبے گی۔ آپ صلیبیوں کے اس عزم سے بے خبر تو نہیں کہ ان کی جنگ آپ کے نہیں اسلام کے خلاف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک صلیب زندہ ہے چاند ستارے کے پرچم کے خلاف برسرپیکار رہے گی۔ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے یہی عزم ورثے کے طور پر چھوڑ جائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے ان سپاہیوں کے کارنامے قلمبند کرلیں جو شمالی مصر کے صحرائوں میں بھی لڑے اور حماة کی برف پوش وادیوں میں بھی۔ ان چھاپہ ماروں کے بھی تذکرے قلمبند کرلیں جو دشمن کی صفوں کے عقب میں چلے جاتے ہیں اور اتنی تباہی مچاتے ہیں جو پوری فوج بھی نہیں مچا سکتی۔ ان میں سے کتنے زندہ واپس آتے ہیں؟… دس میں سے ایک۔ وہ بھی زخمی''۔
''ہاں سلطان محترم!''… سالار نے کہا… ''یہ ایک قیمتی ورثہ ہے جو ہم آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑیں گے۔ قومیں شجاعت کی روایات سے زندہ رہتی ہیں''۔
''تم شاید نہیں جانتے کہ ہمارے بعض سپاہی ملک سے دور قوم کی نظروں سے دور ایسی جنگ لڑتے ہیں جن کا انہیں ہماری طرف سے حکم ہی نہیں ملتا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''ان لوگوں پر اپنے مذہب کے وقار کا جنون سوار ہوتا ہے۔ ان کی اپنی کوئی زندگی نہیں ہوتی، کوئی ذات نہیں ہوتی۔ وہ دشمن کے قبضے میں ہوتے ہیں تو بھی سرکش اور آزاد رہتے ہیں۔ قوم کو جب فتح حاصل ہوتی ہے تو قوم ان سے ناواقف رہتی ہے جو پردوں کے پیچھے عجیب وغریب طریقوں سے جنگ لڑتے اور قوم کا نام روشن کرتے ہیں''۔
اس دور کی غیر مطبوعہ تحریروں میں ایسے ہی چند ایک سپاہیوں کا ذکر ملتا ہے جن کا ذکر سلطان ایوبی کررہا تھا۔ ایک کا نام عمرو درویش تھا۔ وہ سوڈانی مسلمان تھا، اس سلسلے کی کہانیوں میں جو آپ کو سنائی جاچکی ہیں، آپ نے پڑھا ہوگا کہ سلطان ایوبی کے بھائی تقی الدین نے سوڈان پر فوج کشی کی تھی مگر دشمن کے دھوکے میں آکر سوڈان کے صحرا میں اتنی دور نکل گیا جہاں تک رسد کا سلسلہ قائم رکھنا ممکن نہیں رہا تھا۔ دشمن نے رسد کے راستے روک لیے اور تقی الدین کی فوج کو صحرامیں بکھیر کر جمعیت اور مرکزیت ختم کردی تھی۔ اسلامی فوج کو بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پیش قدمی کی تو امید ہی ختم ہوگئی تھی۔ پسپائی بھی ممکن نہیں رہی تھی۔ جنگی قیدی بہت ہوئے تھے جن میں تقی الدین کے دو تین نائب سالار اور کمان دار بھی تھے۔
 ان قیدیوں میں مصریوں اور بغدادیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان میں کچھ سوڈانی مسلمان بھی تھے۔ سلطان ایوبی نے اپنی جنگی سوجھ بوجھ اور غیرمعمولی فہم وفراست سے کام لیتے ہوئے تقی الدین کی بکھری ہوئی فوج کو سوڈان سے نکالا تھا۔ اس کے بعد اس نے سوڈانیوں کے پاس اس پیغام کے ساتھ ایلچی بھیجے تھے کہ جنگی قیدیوں کو رہا کردیا جائے۔ سوڈانیوں نے انکار کردیا تھا کیونکہ ان کا کوئی قیدی سلطان ایوبی کی فوج کے پاس نہیں تھا۔ سوڈانیوں نے جنگی قیدیوں کے عوض مصر کے کچھ علاقے کا مطالبہ کیا تھا۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا تھا… ''تم مجھے، میری بیوی اور میرے بچوں کو سولی پر کھڑا کردو، میں تمہیں سلطنت اسلامیہ کی ایک انچ جگہ نہیں دوں گا۔ میرے سپاہی غیرت والے ہیں۔ اپنی قوم کے وقار کے لیے جانیں قربان کرنا جانتے ہیں''۔
اس کے بعد سوڈانی حکومت نے مصر پر حبشیوں سے حملہ کرایا تھا جن میں سے کوئی ایک بھی واپس نہیں جاسکا تھا۔ جو زندہ رہے وہ قید میں ڈال دئیے گئے تھے۔ توقع تھی کہ سوڈانی ان کی رہائی کا مطالبہ کریں گے لیکن انہوں نے کوئی ایلچی نہیں بھیجا۔ وہ ان حبشیوں کو دھوکے میں مصر میں لائے تھے۔ یہ ان کی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔ سلطان ایوبی نے ان حبشی قیدیوں کی مزدور فوج بنا لی تھی۔ مصر میں ان سے کھدائی، باربرداری اور اس قسم کے دوسرے کام لیے جاتے تھے۔
سوڈان والے سلطان ایوبی کی فوج کے جنگی قیدیوں کو دراصل اس وجہ سے نہیں چھوڑ رہے تھے کہ انہیں وہ سوڈانی فوج میں شامل ہوجانے کی ترغیب دے رہے تھے۔ سوڈانیوں کے پاس صلیبی مشیر تھے… وہی سوڈانیوں کو سلطان ایوبی کے خلاف استعمال کررہے تھے۔ یہ منصوبہ انہی کا تھا کہ مصری فوج کے قیدیوں کو بہلا پھسلا کر سوڈانی فوج میں شامل کرلیا جائے۔ تاریخ اور اس دور کی تحریریں یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ انہوں نے کتنے مسلمان سپاہیوں کو اپنی فوج میں شامل کرلیا تھا۔ البتہ یہ شہادت مل گئی تھی کہ سوڈاینوں کا پیار اور محبت کا اور اچھے سلوک کا حربہ جس پر بھی ناکام ثابت ہوا اسے انہوں نے بے رحمی سے اذیتیں دیں اور تڑپا تڑپا کر مارا۔
ان قیدیوں میں اسحاق نام کا ایک عہدیدار تھا جو سلطان ایوبی کی فوج کے کسی دستے کا کمانڈر تھا۔ وہ سوڈان کا رہنے والا تھا اور نوجوانی میں مصری فوج میں شامل ہوا تھا۔ سوڈان کے ایک پہاڑی علاقے میں وہاں کے مسلمان آباد تھے جن کی تعداد چار پانچ ہزار کے درمیان تھی۔ ان کے مختلف قبیلے تھے لیکن اسلام نے ان میں اتحاد پیدا کررکھا تھا۔ تمام قبیلوں کے سرداروں نے ایک کمیٹی سی بنا رکھی تھی۔ تمام قبیلے اس کے احکام اور فیصلوں کی پابندی کرتے تھے۔ ان لوگوں نے روایت بنا رکھی تھی کہ مصری فوج میں بھرتی ہوجاتے تھے۔ سوڈانی فوج میں شمولیت سے گریز کرتے تھے۔ وہ جنگجو بھی تھے اور خونخوار بھی۔ تیراندازی کے ماہر تھے۔ سوڈانی فوج اور حکومت نے انہیں بہت لالچ دئیے تھے۔ انہیںجنگ کے ذریعے ختم کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ لیکن ان مسلمان قبائل کو پہاڑیوں کا فائدہ حاصل تھا۔ دوباران پر سوڈانی فوج نے حملہ کیا لیکن مسلمان تیر اندازوں نے چٹانوں کی چوٹیوں سے وہ تیر برسائے کہ سوڈانیوں کے گھوڑے تیر کھا کر اپنے پیادہ سپاہیوں کو کچلتے بھاگ گئے۔
٭ ٭ ٭
: تقی الدین کی جنگی لغزش سے سوڈان والوں کے ہاتھوں جہاں مصر کی بہت سی فوج قیدی ہوگئی تھی، وہاں ایک کمان دار اسحاق بھی تھا۔ اپنے قبیلوں پر اس کا بہت اثرورسوخ تھا۔ جنگی قید میں سوڈانیوں نے اسے کہا کہ اگر وہ اپنے مسلمان قبیلوں کو سوڈان کی فوج میں شامل ہونے پر راضی کرلے تو اسے نہ صرف رہا کردیا جائے گا بلکہ جس پہاڑی علاقے میں مسلمان آباد ہیں، اس تمام علاقے کی الگ ریاست بنا کر اسے اس کا امیر یا سلطان بنا دیا جائے گا۔
''میں اس ریاست کا پہلے ہی سلطان ہوں''… اسحاق نے جواب دیا… ''یہ ہماری آزاد ریاست ہے''۔
''وہ سوڈان کا علاقہ ہے''… اسے کہا گیا… ''ہم کسی بھی روز وہاں کے لوگوں کو قید کرلیں گے یا تباہ کردیں گے''۔
''تم پہلے اس علاقے پر قبضہ کرو''… اسحاق نے کہا… ''وہاں کے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرو، تم انہیں اپنی فوج میں شامل نہیں کرسکو گے۔ اس علاقے میں اپنا جھنڈا لے جا کر دکھا دو پھر میں انہیں تمہاری فوج میں شامل ہونے پر راضی کرلوں گا''۔
اسحاق کو قید خانے میں رکھنے کے بجائے ایک خوشنما کمرے میں رکھا گیا جو کسی شہزادے کا محل معلوم ہوتا تھا۔ ایک سوڈانی سالار نے اسے اس کمرے میں داخل کرکے اپنی تلوار دونوں ہاتھوں میں لے کر اور دوزانو ہوکر اسے پیش کی اور کہا… ''ہم آپ جیسے جنگجو کی دل سے قدر کرتے ہیں۔ آپ ہمارے قیدی نہیں مہمان ہیں''۔
''میں آپ کی تلوار قبول نہیں کروں گا''… اسحاق نے کہا… ''میں مہمان نہیں قیدی ہوں، میں نے شکست کھائی ہے۔ میں آپ سے تلوار اسی طرح لوں گا جس طرح آپ نے مجھ سے لی ہے۔ تلوار، تلوار کے زور سے لی جاتی ہے''۔
''مگر ہم آپ کے دشمن نہیں''… سوڈانی سالار نے کہا۔
''میں آپ کا دشمن ہوں''… اسحاق نے مسکرا کر کہا… ''تلواروں کا تبادلہ اتنے خوبصورت کمرے میں نہیں میدان جنگ میں ہوا کرتا ہے۔ آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے میری اتنی عزت کی''۔
''ہم اس سے زیادہ عزت کریں گے''… سالار نے کہا… ''آپ کی مسند خرطوم کے تخت کے ساتھ رکھی جائے گی''۔
''اور روز محشر میری مسند دوزخ کے تہہ خانے میں رکھی جائے گی''… اسحاق نے کہا… ''کیونکہ میں نے دنیا میں مسند تخت کے ساتھ رکھی تھی''۔
''میں دنیا کی بات کررہا ہوں''۔
''مگر مسلمان آخرت کی بات کیا کرتا ہے۔ جب ہم سب اپنے اعمال نامے خدا کے حضور پیش کریں گے''… اسحاق نے کہا… ''مجھے یہ بتا دیں کہ آپ کے بعد کون آئے گا اور کیا تحفہ لائے گا''۔
سوڈانی سالار نے مسکرا کر کہا… ''اب کوئی بھی آئے مجھے کیا، میں سپاہی ہوں۔ آپ بھی سپاہی ہیں۔ میں نے آپ کی سپاہیانہ شان کو خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ آپ نے میرا دل توڑ دیا''۔
''آپ نے میری سپاہیانہ شان دیکھی ہی کب ہے؟''… اسحاق نے کہا… ''مجھے تو لڑنے کا موقعہ ملا ہی نہیں۔ میرا دستہ صحرا کے ایک ایسے حصے میں جاپھنسا جہاں پانی کی بوند نظر نہیں آتی تھی۔ تین چار دنوں میں صحرا نے میرے پیادوں، سواروں اورگھوڑوں کو ہڈیوں میں بدل دیا۔ سپاہی اور سوار زبانیں باہر نکالے پانی ڈھونڈنے لگے۔ آپ کے ایک دستے نے حملہ کردیا اور ہم پکڑے گئے۔ ہمیں صحرا نے شکست دی ہے۔ آپ نے میری تلوار کے جوہر کہاں دیکھے ہیں کہ مجھے خراج عقیدت پیش کررہے ہیں''۔
''مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ بہادر ہیں''… سالار نے کہا۔
''سنی سنائی پر یقین نہ کریں''… اسحاق نے کہا… ''کل صبح ایک تلوار مجھے دیں، ایک آپ لیں اور میرے مقابلے میں آئیں۔ مجھے امید ہے کہ میں آپ کی تلوار قبول کرلوں گا مگر اس وقت آپ زندہ نہیں ہوں گے''۔
سالار کچھ اور کہنے لگا تھا کہ اسحاق نے کہا… ''غور سے سن لو محترم سالار! مجھے تم لوگ کل جو قید خانے میں ڈال دو گے، ابھی ڈال دو۔ میں اتنی خوبصورت قید میں مخمو ہوکر اپنا یمان نہیں بیچوں گا''۔
''قید خانے کی غلاظت کے بجائے آپ اس دل نشیں ماحول میں بہتر طریقے سے سوچ سکیں گے''… سالار نے کہا… ''میں امید رکھوں گا کہ آپ کے سامنے جو شرط پیش کی گئی ہے، اس پر آپ غور کریں گے۔ مجھے ایک سپاہی بھائی سمجھ کر میرا یہ مشورہ قبول کرلیں کہ اپنا مستقبل تاریک نہ کریں۔ خدا نے آپ کی قسمت میں بادشاہی لکھ دی ہے۔ اس پر لکیر نہ پھیریں''۔
''میرے خدا نے میری قسمت میں جو کچھ لکھا ہے وہ میں اچھی طرح جانتا ہوں''… اسحاق نے کہا… ''اور تمہارے خدا نے جو کچھ لکھا ہے میں اسے بھی جانتا ہوں… تم جائو۔ مجھے سوچنے دو''۔
سالار چلا گیا تو کھانا آگیا۔ کھانا لانے والی تین لڑکیاں تھیں۔ جوان اور بہت ہی خوبصورت۔ وہ نیم عریاں بھی تھیں۔ کھانے کی اقسام ایسی جو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھی تھیں۔ کھانے کے ساتھ خوشنما صراحیوں میں شراب بھی تھی۔ اسحاق نے ضرورت کے مطابق کھایا ور پانی پی لیا۔ دسترخوان سمیٹ لیا گیا اور ایک لڑکی اس کے پاس آگئی۔ اسحاق اسے دیکھتا رہا اور اس کی ہنسی نکل گئی جس میں طنز تھی۔
''کیا آپ نے مجھے پسند نہیںکیا؟''… لڑکی نے پوچھا۔
''میں نے تم جیسی بدصورت لڑکی پہلی بار دیکھی ہے''۔ اسحاق
: لڑکی کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ تو بہت ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ اسحاق نے اس کی حیرت بھانپتے ہوئے کہا… ''حسن، حیا میں ہوتا ہے۔ عورت عریاں ہوجائے تو اس کی کشش ختم ہوجاتی ہے۔ عریانی نے تمہارا طلسم توڑ دیا ہے۔ میں اب تمہارے قبضے میں نہیں آسکوں گا''۔
''کیا آپ نے مجھے دیکھ کر بھی میری ضرورت محسوس نہیں کی؟''… لڑکی نے پوچھا۔
''میرے جسم کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں''… اسحاق نے کہا… ''میری روح کی ایک ضرورت ہے جو تم پوری نہیں کرسکو گی۔ تم جائو''۔
''لیکن میرے لیے حکم ہے کہ آپ کے پاس رہوں''… لڑکی نے کہا… ''اگر میں نے حکم کے خلاف کوئی کام کیا تو مجھے سزا کے طور پر وحشی حبشیوں کے حوالے کردیا جائے گا''۔
''دیکھو لڑکی!''… اسحاق نے کہا… ''میں مسلمان ہوں۔ میرا عقیدہ کچھ اور ہے میں تمہیں اس کمرے میں نہیں رکھ سکتا۔ اگر تم اس کمرے میں رات بسر کرنے کا حکم لے کے آئی ہو تو یہیں رہو اور میں باہر سو جائوں گا''۔
''یہ بھی میرا جرم ہوگا''… لڑکی نے کہا… ''آپ مجھے اس کمرے میں رہنے دیں۔ مجھ پر رحم کریں''… لڑکی نے دیکھ لیا تھا کہ یہ شخص پتھر ہے۔ اس نے اسحاق کی منت سماجت شروع کردی۔
''تمہارا کام کیا ہے؟''… اسحاق نے پوچھا… ''کس مقصد کے لیے تمہیں میرے پاس بھیجا گیا ہے؟ مجھے اپنا مقصد بتا دو تو اس کمرے میں رہنے دوں گا''۔
''میرا کام یہ ہے کہ آپ جیسے مردوں کو موم کردوں''… لڑکی نے جواب دیا… ''آپ پہلے مرد ہیں جس نے مجھے ٹھکرایا ہے۔ میں نے مذہب کے شیدائیوں کو اپنا گرویدہ بنایا اور انہیں سوڈان کے سانچے میں ڈھالا ہے''۔ لڑکی نے پوچھا… ''کیا واقعی آپ نے مجھے بدصورت سمجھا ہے یا مذاق کیا تھا؟''
''تم جسے خوشبو کہتی ہو وہ میرے لیے بدبو ہے''… اسحاق نے کہا… ''میری نظر میں تم واقعی بدصورت ہو… جہاں سونا چاہتی ہو سوجائو۔ پلنگ پر سوجائو، میں فرش پر سو جائوں گا''۔
لڑکی فرش پر لیٹ گئی۔
''تمہارا نام کیا ہے لڑکی؟''… اسحاق نے پوچھا۔
''آشی''۔
''اور تمہارا مذہب؟''
''میرا کوئی مذہب نہیں''۔
''تمہارے ماں باپ کہاں رہتے ہیں؟'' 
''معلوم نہیں''… لڑکی نے کہا۔
اسحاق پر نیند کا غلبہ ہونے لگا ور ذرا سی دیر میں اس کے خراٹے سنائی دینے لگے۔
٭ ٭ ٭
''اس شخص کے ساتھ آپ وقت ضائع کررہے ہیں''… اس لڑکی نے کہا جس نے رات اسحاق کو اپنا نام آشی بتایا تھا۔ اس کے سامنے سوڈانی فوج کے اعلیٰ افسر بیٹھے ہوئے تھے۔ آشی نے کہا… ''اس شخص کے اندر جذبات نام کی کوئی چیز نہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے کیسے کیسے پتھر موم کیے ہیں مگر اس جیسا کوئی نہیں دیکھا''۔
''معلوم ہوتا ہے تم نے کوئی کوتاہی کی ہے''… ایک افسر نے کہا۔
لڑکی نے پوری تفصیل سنائی کہ اس نے اسحاق کو کیسے کیسے طریقوں سے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کی مگر وہ ہنس پڑتا تھا یا اسے خاموشی سے دیکھتا رہتا تھا۔ ذرا دیر بعد سو جاتا تھا۔
چار پانچ دن سوڈانی حکام اسحاق کو اپنی بات پر لانے کی کوشش کرتے رہے۔ راتوں کواس پر بڑے بڑے حسین طلسم طاری کرنے کے جتن کیے گئے مگر اسحاق نے بات یہیں پر ختم کی کہ میں مصر کی فوج کے ایک دستے کا کمان دار ہوں، مسلمان ہوں اور قیدی ہوں۔
آخر اسے محل سے نکال کر قید خانے میں لے گئے اور ایک تنگ سی کوٹھڑی میں بند کردیا۔ سلاخوں والے دروازے پر قفل چڑھا دیا گیا۔ کوٹھڑی میں ایسی بدبو تھی کہ دماغ پھٹا جاتا تھا۔ رات کا وقت تھا۔ ایک سپاہی دیا لے آیا جو اس نے سلاخوں میں اسحاق کو دے دیا۔ اسحاق نے دیا فرش پر رکھا تو اسے کوٹھڑی میں ایک لاش پڑی نظر آئی جو خراب ہورہی تھی۔ لاش کا منہ کھلا ہوا ور آنکھیں بھی کھلی ہوئی تھیں۔ لاش سوج گئی تھی۔ اسحاق نے قید خانے کے سپاہی کو آواز دے کر بلایا اور پوچھا کہ یہ کس کی لاش ہے۔
''تمہارا ہی کوئی دوست ہوگا''۔ سپاہی نے جواب دیا… ''کوئی مصری تھا۔ جنگ میں پکڑاگیا تھا۔ اسے بہت اذیتیں دی گئی تھیں۔ پانچ چھ دن ہوئے کوٹھڑی میں مر گیا''۔
''لاش یہاں کیوں پڑی ہے؟'' اسحاق نے پوچھا۔
: ''تمہارے لیے''۔ سپاہی نے طنزیہ کہا… ''اسے اٹھا لیا تو تم اکیلے رہ جائو گے''۔ سپاہی ہنستا ہوا چلا گیا۔
اسحاق نے دیا اوپر کرکے لاش کو دیکھنا شروع کردیا۔ کپڑوں سے اس نے پہچان لیا کہ مصری فوج کا آدمی تھا۔ اسحاق نے کوٹھڑی میں جو بدبو محسوس کی تھی وہ غائب ہوگئی۔ اس نے سوجی ہوئی لاش کے چہرے پر ہاتھ پھیرا اور کہا… ''تمہارا جسم گل جائے گا مگر روح تازہ رہے گی۔ تم نے خدا کی راہ میں جان دی ہے۔ تم مجھ سے برتر ہو۔ تم زندہ ہو۔ زندہ رہو گے۔ سپاہی ٹھیک کہہ گیا ہے، تم نہ ہوتے تو میں اکیلا رہ جاتا''۔
وہ بہت دیر اس کے ساتھ باتیں کرتا رہا اور لاش کے پاس لیٹ گیا۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح اسے جگایا گیا۔ اس نے دیکھا کہ وہی سوڈانی سالار کھڑا تھا جس نے اسے تلوار پیش کی تھی۔ سالار نے کہا… ''کسی چیز کی ضرورت ہوتو حاضر کروں''۔
''میں نے تمہارے لہجے کو پہچان لیا ہے''۔ اسحاق نے کہا… ''میں ہارا ہوا ہوں۔ تم مجھے طعنہ دے سکتے ہو۔ اگر تم واقعی میری کوئی ضرورت پوری کرنا چاہتے ہو تو میدان جنگ سے تمہیں مصر کے پرچم بھی ملے ہوں گے۔ ایک پرچم لادو، میں اس لاش پر ڈالنا چاہتا ہوں''۔
سالار نے قہقہہ لگا کر کہا… ''کیا تمہارے پرچم کو ہم نے سینے سے لگا رکھا ہوگا؟ ہم نے مصر کے کسی جھنڈے کو ہاتھ لگانا بھی گوارا نہیں کیا''۔ اس نے سپاہی سے کہا… ''اسے باہر نکالو اور نیچے لے چلو۔ لاش یہیں رہنے دو''۔
اسحاق کو قید خانے کے تہہ خانے میں لے گئے۔ وہاں ایسی بدبو تھی جیسے بے شمار لاشیں پڑی ہوں۔
سوڈانی سالار آگے آگے تھا۔ ایک جگہ چھ سات مصری الٹے لٹکے ہوئے تھے اور ان کے بازوئوں کے ساتھ وزن بندھا ہوا تھا۔ آگے ایک آدمی کو بہت بڑی صلیب کے ساتھ اس طرح لٹکایا ہوا تھا کہ اس کی ہتھیلیوں میں ایک ایک کیل گڑھا ہوا تھا۔ خون ٹپک رہا تھا۔ ) ایک جگہ ایک چوڑا اور بہت بڑا پہیہ تھا، اس پر ایک آدمی پیٹھ کے بل اس طرح بندھا تھا کہ ٹخنوں سے زنجیریں بندھی تھیں جو فرش میں ٹھوکی ہوئی تھیں۔ بازو اوپر کرکے پہیے کے ساتھ بندھے تھے۔ ایک آدمی پہیے کو ذرا سا چلاتا تو اس آدمی کے بازو اور ٹانگیں اوپر اور نیچے کو کھینچی جاتی تھیں۔ وہ درد سے چیختا تھا۔
اسحاق کو تہہ خانے میں گھما پھرا کر دکھایا گیا کہ یہاں کیسی کیسی اذیتیں دی جارہی ہیں۔ جگہ جگہ خون تھا بعض قیدی قے کرتے تھے اور چند ایک بے ہوش پڑے تھے۔ اذیت کا ہر ایک طریقہ دکھا کر سوڈانی سالار نے اسحاق سے پوچھا… ''آپ کو جو طریقہ پسند ہو وہ بتا دیں۔ ہم آپ کو وہاں لے چلتے ہیں، اگر آپ اس کے بغیر ہی ہماری بات مان جائیں تو آپ کا ہی بھلا ہوگا''۔
''جہاں جی چاہے لے چلو، قوم سے غداری نہیں کروں گا''۔ اسحاق نے کہا۔
''میں ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ ہم تم سے کیا کروانا چاہتے ہیں''۔ سالار نے کہا… ''تمہیں کہا گیا تھا کہ تمام مسلمان قبیلوں کو سوڈانی فوج میں لے آئو اس کے عوض تمہیں رہا بھی کیا جائے گا اور مسلمان قبیلوں کے علاقے کا امیر بنا دیا جائے گا۔ اب تم اپنا یہ حق کھو بیٹھے ہو۔ اب ہماری شرط یہی ہے مگر تمہیں یہ انعام دیا جائے گا کہ کوئی اذیت نہیں دی جائے گی اور تمہیں سوڈانی فوج میں اچھا عہدہ دیا جائے گا''۔
''عہدے کے بجائے مجھے کسی بھی اذیت میں ڈال دو''۔ اسحاق نے کہا۔
اسے اس طرح الٹا لٹکا دیا گیا کہ ٹخنوں سے زنجیریں ڈال کر چھت سے باندھ دی گئیں، سالار نے سپاہیوں سے کہا… ''شام تک اسے یہیں رہنے دو۔ شام کے وقت اسے لاش والی کوٹھڑی میں پھینک دینا۔ مجھے امید ہے کہ اس کا دماغ صاف ہوجائے گا''۔
٭ ٭ ٭
: شام تک وہ بے ہوش ہوچکا تھا۔ ہوش میں آیا تو وہ لاش کے پاس پڑا تھا۔ ایک کونے میں تھوڑا سا پانی اور کچھ کھانا رکھا تھا۔ اس نے پانی پیا اور کھانا کھالیا۔ اس نے لاش سے کہا… ''میں تمہاری روح کے ساتھ دھوکہ نہیں کروں گا، میں جلدی تمہارے پاس آرہا ہوں''… باتیں کرتے کرتے اس کی آنکھ لگ گئی۔
آدھی رات کے وقت اسے پھر جگا لیا گیا اور پہیے کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ سوڈانی سالار موجود تھا۔ اس نے کہا… ''ہزاروں مسلمان ہمارے ساتھ ہیں، تم شاید پاگل ہوگئے ہو۔ تم اسلام کے لیے قربانی دے رہے ہو لیکن صلاح الدین ایوبی اپنی بادشاہی کو آدھی دنیا پر پھیلانے کے لیے تم جیسے پاگلوں کو مروا رہا ہے۔ وہ بدبخت شراب بھی پیتا ہے اور اس نے پریوں جیسی لڑکیوں سے حرم بھر رکھا ہے اور تم ہو کہ اس کے نام پر مرتے ہو''۔
''سالار محترم!''… اسحاق نے کہا… ''میں تمہیں اپنے مذہب کے امیر اور سلطان کے خلاف جھوٹ بولنے سے روک نہیں سکتا اور تم مجھے اپنے عقیدے پر جان قربان کرنے سے روک نہیں سکتے۔ میری قوم کے کسی بھی قبیلے کا کوئی ایک بھی مسلمان تمہاری فوج میں شامل نہیں ہوگا۔ مسلمان مسلمان کے خلاف تلوار نہیں اٹھائے گا''۔
''تم شاید نہیں جانتے کہ عرب میں مسلمان مسلمان کا خون بہا رہا ہے''۔ سوڈانی سالار نے کہا… ''صلیبی فلسطین میں بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ تمام امیروں اور مسلمان حکمرانوں نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت کردی ہے''۔
''انہوں نے کردی ہوگی''۔ اسحاق نے کہا… ''میں نہیں کروں گا۔ جنہوں نے بغاوت کی ہے وہ اس دنیا میں بھی سزا بھگتیں گے، اگلے جہان میں بھی… تم اپنا وقت ضائع نہ کرو۔ میرے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرو اور کسی دوسرے سوڈانی مسلمان کو پکڑو۔ شاید وہ تمہارا کام کردے''۔
''ہمیں بتایا گیا ہے کہ تم صرف اشارہ کردو تو تمام مسلمان ہمارے ساتھ ہوں گے''۔ سالار نے کہا… ''ہم تم سے یہ کام مفت نہیں کرانا چاہتے۔ تمہاری قسمت بدل دیں گے''۔
''میں آخری بار کہتا ہوں کہ میں اپنی قوم کو بیچوں گا نہیں''… اسحاق نے کہا۔
وہ پہیے کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ نیچے ٹخنے فرش کے ساتھ، اوپر کلائیاں پہیے کے ساتھ۔ تین چار حبشی اس لمبے کھمبے کے ساتھ کھڑے تھے جسے دھکیلنے سے پہیہ حرکت میں آتا تھا۔ سوڈانی سالار نے اشارہ کیا تو حبشیوں نے کھمبے کو ایک قدم دھکیلا۔ رہٹ کی طرح پہیہ چلا۔ اسحاق کا جسم اوپر اور نیچے کو کھینچنے لگا۔ اس کے بازو کندھوں اور ٹانگیں کولہوں سے الگ ہونے لگیں۔ اس کے جسم سے پسینہ اس طرح پھوٹا جیسے کسی نے اس پر پانی انڈیل دیا ہو۔
''اب سوچو اور جواب دو''۔ اس کے کانوں میں سوڈانی سالار کی آواز پڑی۔
''ایمان نہیں بیچوں گا''۔ اسحاق نے کراہتی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
پہیہ اور آگے چلایا گیا۔ اس کی کھال پھٹنے لگی۔
''اب اچھی طرح سوچ سکو گے''۔
''میری لاش بھی یہی جواب دے گی، اپنا ایمان نہیں بیچوں گا''۔ اسحاق نے یہ الفاظ بڑی مشکل سے منہ سے نکالے۔
''اسے کچھ دیر یہیں رہنے دو''۔ سالار نے حکم دیا… ''مان جائے گا''۔
اسحاق نے قرآن کی آیات کا ورد شروع کردیا۔ سالار چلا گیا۔ اسحاق کے جسم کے جوڑ کھل رہے تھے۔ کھال جیسے اتاری جارہی تھی۔ اس کا منہ آسمان کی طرف تھا۔ اس نے تصور میں خدا کو اپنے سامنے دیکھا اور کہا۔ ''خداوند دوعالم! میں گناہ گار ہوں تو مجھے اور زیادہ سزا دو۔ میں آپ کی راہ میں سچا ہوں تو مجھے سکون عطا کرو۔ میں آپ کے حضور شرمسار نہیں ہونا چاہتا''… اس نے آنکھیں بند کرکے آیات کا ورد شروع کردیا۔
''تم چیختے کیوں نہیں؟'' اس کے پاس قید خانے کا جو سپاہی کھڑا تھا اس نے کہا… ''زور زور سے چیخو۔ اس سے تکلیف ذرا کم ہوجاتی ہے''۔
''میں تکلیف میں نہیں ہوں''۔ اسحاق نے کہا… ''پہیہ اور آگے کردو''۔
قید خانے کے سپاہی درندے تھے۔ اس سپاہی نے حبشیوں سے کہا کہ پہیہ ذرا اور چلائیں۔ حبشیوں نے دھکا لگایا تو پہیہ اور آگے چلا گیا۔ اسحاق کے جسم سے کڑاک کڑاک کی آوازیں نکلیں۔ ایک اور سپاہی دوڑتا آیا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا… ''تمہیں کس نے کہا ہے کہ پہیہ چلائو۔ یہ مر جائے گا۔ اسے ابھی زندہ رکھنا ہے''… پہیہ ذرا نیچے کردیا گیا۔
''یہ کہتا ہے مجھے کوئی تکلیف نہیں ہورہی''۔ سپاہی نے اپنے ساتھ سے کہا۔
: ''تم ہوش میں ہو؟'' سپاہی نے اسحاق سے پوچھا… ''تم کیا بول رہے ہو؟''
''بے ہوشی میں بول رہا ہے''۔ دوسرے نے کہا… ''تم نے چکر جہاں تک پہنچا دیا تھا وہاں انسان مرجاتا ہے۔ یہ ہوش میں نہیں ہوسکتا''۔
''میں ہوش میں ہوں دوستو!'' اسحاق کی نحیف آواز سنائی دی… ''میں اپنے خدا کے ساتھ باتیں کررہا ہوں''۔
دونوں سپاہیوں نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا۔ ایک نے کہا… ''یہ اتنا طاقتور تو نہیں لگتا۔ اس حالت میں تو بھینسوں جیسے وحشی حبشی بے ہوش ہوجاتے ہیں۔ یہ کوئی عالم ہوگا۔ اس کے پاس خدا کی طاقت ہے''۔
''ہاں۔ تم ٹھیک کہتے ہو''۔ اسحاق نے کہا… ''میرے پاس خدا کی طاقت ہے۔ میں خدا کا کلام پڑھ رہا ہوں۔ پہیے کو پورا چکر دے کر دیکھو۔ میرا جسم دو حصوں میں کٹ جائے گا۔ دونوں حصوں سے یہی آواز آئے گی جو تم سن رہے ہو''۔
وہ گنوار سپاہی تھے۔ توہم پرستی ان کا مذہب تھا۔ وہ مسلمان نہیں تھے۔ پیروں فقیروں اور مجذوبوں کو خدا سمجھتے تھے۔ بتوں کی بھی عبات کرتے تھے۔ اس پہیے کو (جسے چکر شکنجہ کہتے تھے) وہ اچھی طرح جانتے تھے۔ اس کے ساتھ بندھا ہوا انسان پہیے کی ذرا سی حرکت پر چیخ اٹھتا اور ہر بات مان لیتا تھا۔ ذرا مزید حرکت سے بے ہوش ہوتا اور کچھ دیر بعد مرجاتا تھا لیکن اسحاق پہیے کے آخری نشان تک زندہ ہی رہا، ہوش میں رہا۔ سپاہی جان گئے کہ یہ آدمی عام قسم کا انسان نہیں۔
''تم آسمانوں کا حال جانتے ہو؟'' ایک سپاہی نے پوچھا۔
''میرا خدا جانتا ہے''۔ اسحاق نے جواب دیا۔
''تمہارا خدا کہاں ہے''۔
''میرے دل میں''۔ اسحاق نے جواب دیا… ''وہ مجھے کوئی تکلیف نہیں ہونے دیتا''۔
''ہم غریب لوگ ہیں'' ایک سپاہی نے کہا… ''یہاں تم جیسے انسانوں کی ہڈیاں توڑ کر بال بچوں کو روٹی کھلاتے ہیں۔ تم ہماری قسمت بدل سکتے ہو؟''
''باہر جاکر'' اسحاق نے کہا… ''میں جو کچھ پڑھ رہا ہوں وہ تمہیں بتا دوں گا۔ تمہاری قسمت بدل جائے گی''۔
''ہم پہیہ نیچے کردیتے ہیں''۔ ایک سپاہی نے کہا… ''سالار کو آتا دیکھیں گے تو اوپر کردیں گے''۔
''نہیں!'' اسحاق نے کہا… ''میں تمہیں یہ بددیانتی نہیں کرنے دوں گا۔ یہی میری طاقت ہے۔ اسے ہم ایمان کہتے ہیں''۔
''ہم تمہاری مدد کریں گے'' ایک سپاہی نے کہا… ''جب کہو گے جو کہو گے ہم کریں گے اگر ہوسکا تو تمہیں قید خانے سے نکال دیں گے''۔ 
سالار آگیا۔
''کیوں بھائی؟'' اس نے اسحاق سے پوچھا… ''ہوش میں ہو؟''
''میرے اللہ نے مجھے بے ہوش نہیں ہونے دیا''۔ اسحاق نے جواب دیا۔
: سالار کے اشارے پر پہیہ اور آگے چلایا گیا۔ اسحاق نے صاف طور پر محسوس کیا کہ اس کا جسم دو حصوں میں کٹ گیا ہے اور اس کا آخری وقت آگیا ہے۔ اس نے کراہتی ہوئی آواز میں کلام پاک کا ورد اور زیادہ بلند آواز سے شروع کردیا۔ پہیہ اور آگے چلایا گیا۔ اس کے جسم سے ایسی آوازیں آئیں جیسے جوڑ ٹوٹ رہے ہوں۔
''خوش نہ ہو کہ ہم تمہیں جان سے مار دیں گے''۔ سوڈانی سالار نے کہا… ''تم زندہ رہو گے اور تمہارے ساتھ ہر روز یہی سلوک ہوگا۔ تمہاری جان لے کر تمہیں اذیت سے آزاد نہیں کرنا چاہتے''۔
اسحاق نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ورد جاری رکھا۔
سالار کے اشارے پر پہیہ ذرا نیچے کردیا گیا۔ سالار کے ساتھ فوج کا ایک اور افسر تھا۔ سالار اسے الگ لے گیا اور کہا… ''بہت سخت جان معلوم ہوتا ہے۔ اتنی دیر میں یہ بے ہوش بھی نہیں ہوا۔ ہم نے زیادتی کی تو مر جائے گا۔ اسے ابھی زندہ رکھنا ہے۔ میں نے ایک اور طریقہ سوچا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس کی ایک بیٹی کی عمر چودہ پندرہ سال ہے اور اس کی بیوی بھی ہے۔ ان دونوں کو یہ دھوکہ دے کر یہاں بلایا جائے کہ یہ شخص قید خانے میں ہے اور مررہا ہے۔ تمہیں اجازت دی جاتی ہے کہ اسے دیکھ جائو اور اگر یہ مر گیا تو اس کی لاش لے جائو''۔
دوسرے افسر نے کہا… ''دھوکے سے ہی بلانا پڑے گا ورنہ وہاں کے مسلمان ہمارے کسی آدمی کو اپنے علاقے میں داخل نہیں ہونے دیں گے''۔
''ان دونوں کو بلا کر اس کے سامنے ننگا کرکے کھڑا کردیں گے''۔ سالار نے کہا… ''پھر اسے کہیں گے کہ ہماری شرط مان لو ورنہ تمہاری کمسن بیٹی اور بیوی کو تمہارے سامنے بے آبرو کیا جائے گا''۔
دونوں سپاہی جو سالار کی غیرحاضری میں اسحاق کے ساتھ باتیں کرتے رہے تھے، قریب کھڑے سن رہے تھے۔ سالار نے انہی میں سے ایک کو بھیج کر فوج کے کمانڈر کو بلایا۔ اسے اسحاق کے گائوں کا راستہ بتا کر پیغام دیا اور یہ بھی بڑی اچھی طرح سمجھا دیا کہ مقصد کیا ہے۔ اسے کہا گیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ بہت ہی احترام سے بات کرے اور صلاح الدین ایوبی کی تعریفیں بھی کرے ورنہ مسلمان اسے زندہ نہیں نکلنے دیں گے۔
کمانڈر اسی وقت روانہ ہوگیا۔ اسحاق کو چکر شکنجے سے اتار کر اسی کوٹھڑی میں پھینک دیا گیا جس میں کسی مصری سپاہی کی لاش گل سڑ رہی تھی۔ اسحاق سے اٹھا نہیں جارہا تھا۔ سارے جسم سے درد کی بے رحم ٹیسیں اٹھ رہی تھیں مگر اس نے دھیان خدا کی طرف لگا رکھا تھا۔ اتنے شدید درد کے باوجود وہ اپنے آپ میں سکون محسوس کررہا تھا۔ اس کی روح میں کوئی درد نہیں تھا۔ جسمانی درد کے احساس سے وہ بے نیاز ہوچکا تھا لیکن اسے معلوم نہ تھا کہ اسے ایسی ذلت میں ڈالنے کا اہتمام ہورہا ہے جو اس کی روح کو لہولہان کردے گا۔ اس کی کمسن بیٹی اور جوان بیوی کو قید خانے میں لانے کے لیے ایک آدمی چلا گیا تھا۔
وہاں سے اس کا گائوں جو پہاڑی علاقے میں تھا، گھوڑے پر پورے دن کی مسافت جتنا دور تھا۔ صبح ابھی ابھی طلوع ہوئی۔ سوڈانی سالاراپنے ساتھی افسر کے ساتھ چلا گیا۔ قید خانے میں دونوں سپاہیوں کی ڈیوٹی ختم ہونے والی تھی۔ دن بھر کے لیے دوسرے سپاہی آرہے تھے۔ ان دونوں سپاہیوں نے آپس میں بات کی اور ایک فیصلہ کرلیا۔ وہ اسحاق کو برگزیدہ انسان سمجھ رہے تھے جس کا تعلق براہ راست کسی غیبی قوت کے ساتھ تھا۔ یہ ان کی برداشت سے باہر تھا کہ اس برگزیدہ شخص کی بیٹی اور بیوی کو قید خانے میں بلا کر ذلیل کیا جائے۔ ایک سپاہی نے اس خطرے کا بھی اظہار کیا کہ اس شخص کی بیٹی اور بیوی کی توہین کی گئی تو سب پر قہر نازل ہوگا۔ ان دونوں کو یہ لالچ بھی تھا کہ باہر جا کر اسحاق ان کی قسمت بدل دے گا۔
ایک سپاہی نے کہا کہ وہ اسحاق کی بیٹی اور بیوی کو یہاں تک نہیں آنے دے گا۔
٭ ٭ ٭
: شام ہوچکی تھی جب پیغام لے جانے والا سوڈانی کمانڈر مسلمانوں کے پہاڑی علاقے میں داخل ہوا۔ پہلے گائوں میں جاکر اس نے پوچھا کہ اسحاق نام کے ایک سوڈانی مسلمان کا گائوں کہاں ہے جو مصر کی فوج میں عہدیدار ہے۔ اسحاق کا تمام علاقے پر اثرورسوخ تھا۔ اسے ہر کوئی جانتا تھا، کمانڈر نے بتایا کہ وہ زخمی حالت میں جنگی قیدی ہوا تھا۔ دوسرے قیدیوں کی طرح اسے بھی قید خانے میں ڈال دیا گیا تھا۔ اس کی حالت بگڑ رہی ہے۔ اس نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اسے اس کی بیٹی اور بیوی سے ملایا جائے میں ان دونوں کو لینے آیا ہوں۔
ایک آدمی ان کے ساتھ ہوگیا۔ وادیوں سے گزرتے، کچھ وقت بعد دونوں اسحاق کے گائوں میں داخل ہوئے۔ پھر اس کے گھر جاپہنچے۔ اس کے بوڑھے باپ سے ملاقات ہوئی۔ سوڈانی کمانڈر نے جھک کر مصافحہ کیا اور نہایت اچھے انداز سے کہا۔ ''آپ کا بیٹا اتنا بہادر ہے کہ ہمارے سالار بھی اسے سلام کرتے ہیں، وہ بہادری سے لڑا مگر ریگستان نے اسے پیاسا رکھ کر بے حال کردیا۔وہ زخمی حالت میں پکڑا گیا۔ اس کا علاج اس طرح کیا جارہا ہے جس طرح سوڈانی سالاروں اور حکمرانوں کا کیا جاتا ہے۔ اتنے اچھے علاج کے باوجود صحت یاب نہیںہوا۔ اسے بچانے کی پوری کوشش کی جارہی ہے۔ اس نے خواہش ظاہر کی ہے کہ اپنی بیٹی کو اور اپنی بیوی کو آخری بار دیکھنا چاہتا ہوں''۔
''اگر تم لوگ اس کی اتنی زیادہ عزت کرتے ہو تو اسے میرے حوالے کیوں نہیں کردیتے؟'' اسحاق کے باپ نے کہا۔ ''ہوسکتا ہے ہمارے جراح اور طبیب اسے ٹھیک کرلیں''۔
''فرمان روائے سوڈان نے کہا ہے کہ وہ ہمارا مہمان ہے''۔ کمانڈر نے جواب دیا۔ ''مہمان کو بیماری کی حالت میں رخصت کرنا میزبان کی بے عزتی ہے۔ صحت یاب ہوتے ہی اسے باعزت طریقے سے رخصت کردیا جائے گا''۔
''کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ اس کی بیٹی اور بیوی اس کے پاس رہیں اور اس کی تیمار داری کریں؟'' بوڑھے باپ نے پوچھا۔
''اگر یہ دونوں وہاں رہنا چاہیں تو انہیں عزت سے رکھا جائے گا''۔ کمانڈر نے کہا… ''ہمارے ہاں بہادروں کی عزت کی جاتی ہے۔ ہمارے مذہب الگ ہیں لیکن ہم اور آپ سوڈانی ہیں۔ ہم زمین کا احترام کرتے ہیں۔ اگر اسحاق صلاح الدین ایوبی کا سپاہی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم بھائی ہیں۔ صلاح الدین ایوبی کو ہم بہت بڑا جنگجو مانتے ہیں۔ اس نے صلیبیوں کو گھٹنوں بٹھا دیا ہے''۔
''پھر تم اسے دشمن کیوں سمجھتے ہو؟'' بوڑھے نے پوچھا۔ ''تم صلیبیوں کو دوست کیوں سمجھتے ہو؟''
''محترم بزرگ!'' کمانڈر نے کہا۔ ''اگر میں باتیں کرنے بیٹھ گیا تو یہ میرے فرض میں کوتاہی ہوگی۔ مجھے آپ کی بچی اور آپ کی بہو کو صبح سے پہلے آپ کے بیٹے تک پہنچانا ہے۔ آپ کے بیٹے کی خواہش کی تکمیل ہمارا فرض ہے… کیا آپ کی بیٹی اور بہو میرے ساتھ ابھی چلنے کو تیار ہیں؟''
پردے کے پیچھے سے ایک نسوانی آواز آئی۔ ''ہم تیار ہیں''۔
''کوئی مرد ساتھ نہیں جاسکتا؟'' بوڑھے نے پوچھا۔ ''میں بھی تو اپنے بیٹے کو دیکھنا چاہتا ہوں''۔
''سفر لمبا ہے'' کمانڈر نے کہا۔ ''آپ اتنی لمبی گھوڑ سواری برداشت نہیں کرسکیں گے۔ مجھے جو حکم ملا ہے وہ بیٹی اور بیوی کو لانے کا ہے''۔
: قید خانے کا سپاہی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر گھر گیا۔ بہت جلدی میں اس نے کپڑے بدلے۔ سر کو اس طرح ڈھانپا کہ چہرہ بھی چھپ گیا۔ اس نے گھوڑے کے لیے چارہ اور پانی گھوڑے کے ساتھ باندھا اور کسی کو بتائے بغیر کہ کہاں جارہا ہے، روانہ ہوگیا۔ اس نے وہ راستہ معلوم کرلیا تھا جو اسحاق کے گائوں کو جاتا تھا۔ سالار جب پیغام لے جانے والے کمانڈر کو راستہ سمجھا رہا تھا، یہ سپاہی پاس کھڑا سن رہا تھا۔ اس کے دل میں عقیدت تھی۔ آبادی سے نکل کر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی۔ کمانڈر اس سے بہت پہلے نکل گیا تھا۔ اس لیے یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ اس سے پہلے اسحاق کے گھر پہنچ جاتا۔ سورج بہت اوپر آچکا تھا۔
جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں