داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 81 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 81


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔81- گناہوں کا کفارہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان صلاح الدین ایوبی کو اطلاع ملی تو وہ دوڑتا ایک چٹان پر جا چڑھا۔ اسے دشمن کے کیمپ کی طرف آسمان لال سرخ ہوتا نظر آیا۔ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ''آفرین، آفرین۔ اللہ تمہیں صلہ دے''۔
موصل کی فوج فوری طور پر جوابی حملے کے قابل نہ رہی۔ سلطان ایوبی کے چھاپہ مار سرگرم ہوگئے۔ انہوں نے تین راتیں گمشتگین، سیف الدین اور الملک الصالح کے کیمپوں میں اتنی تباہی مچائی کہ ان کے مرکز بھی ہل گئے۔ آخر انہوں نے کسی اور طرف سے حملے کا فیصلہ کرکے کوچ کا حکم دیا۔ تب انہیں پتہ چلا کہ ان کے عقب میں سلطان ایوبی کی فوج آچکی ہے۔ یہاں سلطان ایوبی نے اپنی مخصوص چالوں سے دشمن کو بے حال کردیا۔ وہ مارتا بھی نہیں تھا چھوڑتا بھی نہیں تھا۔ یہ جنگ ''ضرب لگائو اور بھاگو'' کے اصول پر لڑی جارہی تھی۔ دشمن کی فوج بکھرتی جارہی تھی اور اس کے سپاہی بکھر بکھر کر ہتھیار ڈالتے جارہے تھے۔ یہی سلطان ایوبی کا مقصد تھا۔
١٩ رمضان المبارک ٥٧٠ھ (١٣اپریل ١١٧٥ئ) کی صبح سحری سے فارغ ہوتے ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے پلان کی آخری کڑی پر عمل کیا جس کی ہدایات وہ ایک روز پہلے جاری کرچکا تھا۔ اس نے کھلا حملہ کردیا۔ کوئی قابل ذکر مزاحمت نہ ہوئی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں تک جا پہنچا جہاں گمشتگین اور سیف الدین کی خیمہ گاہیں تھیں مگر وہ دونوں غائب تھے۔ وہ ایسی بزدلی سے بھاگے کہ اپنی ذاتی خیمہ گاہیں جن میں جنگل میں منگل بنا ہوا تھا، جوں کی توں چھوڑ گئے۔ حرم کی لڑکیاں، ناچنے گانے والیاں اور ان کے سازندے وہیں تھے۔ سلطان ایوبی کی فوج گئی تو لڑکیاں خوف سے ادھر ادھر بھاگنے لگیں۔ انہیں پکڑ کر سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا۔ اس نے ان تمام کو رہا کرکے دمشق بھیجنے کا انتظام کردیا۔ دلچسپ خیمہ گاہ والئی موصل سیف الدین کی تھی۔ وہاں لڑکیوں کے علاوہ خوشنما پنجرے بھی تھے جن میں رنگ برنگے پرندے بند تھے۔
اس رات سلطان صلاح الدین ایوبی کے سامنے ایک اور لڑکی لائی گئی جو دشمن کے اس کیمپ میں لاشوں کو پہچانتی پھر رہی تھی جس پر سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ ماروں نے شب خون مارا اور آتش گیر مادے کے مٹکے تباہ کیے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے پہچان لیا اور کہا۔ ''تم میرے ایک جاسوس انطانون کے ساتھ حرن سے آئی تھیں''۔
''جی ہاں!'' اس نے کہا۔ ''میرا نام فاطمہ ہے، میں لڑکیوں کی فوج کے ساتھ دمشق سے آئی ہوں''۔ وہ زخمی بھی تھی۔ کہنے لگی۔ ''مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ انطانون یہاں شب خون مارنے آیا تھا، اس کی لاش ڈھونڈ رہی ہوں''۔
''نہ ڈھونڈو''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔
''وہ بھی کہتا تھا کہ چھاپہ ماروں کی لاشیں نہیں ملا کرتیں''۔ فاطمہ نے اداس لہجے میں کہا۔ ''اس نے مجھے کہا تھا کہ آئو ایک دوسرے کو فرض پر قربان کردیں۔ مجھے خوشی ہے کہ اس نے گناہ کا کفارہ ادا کردیا ہے۔ میرا فرض ابھی باقی ہے۔ میں گمشتگین کو قتل کرنے آئی تھی''۔
اس لڑکی کی جذباتی حالت دیکھ کر کوئی بھی اپنے آنسو نہ روک سکا… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا۔ ''دمشق سے جو لڑکیاں آئی ہیں ان سب کو واپس بھیج دو۔ انہوں نے دشمن کو شکست دینے میں میری بہت مدد کی ہے۔ اس وقت میں ہی جانتا ہوں کہ مجھے مدد کی کتنی ضرورت تھی۔ یہ لڑکیاں جیسے غیب سے آئی تھیں لیکن میں انہیں اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتا''۔
لڑکیوں کے احتجاج اور غصے کے باوجود انہیں دمشق بھیج دیا گیا۔ سلطان ایوبی اب کہیں رکنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے دشمن کو جو شکست فاش دی تھی، اس سے وہ پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اس نے حکم دے دیا کہ تمام فوج کو حلب کی سمت کوچ کے لیے تیار کیا جائے۔ اپنے سالاروں کو وہ اگلے پلان کے متعلق بتا رہا تھا، ایک گھوڑ سوار گھوڑا دوڑاتا آرہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں برچھی تھی اور برچھی میں کوئی چیز اڑ سی ہوئی تھی۔ وہ قریب آیا تو سلطان صلاح الدین ایوبی کے باڈی گارڈوں نے اسے روک لیا۔ سلطان ایوبی نے دیکھا کہ سوار نے کسی انسان کا سر برچھی میں اڑسا ہوا تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے آگے آنے کی اجازت دے دی۔
وہ آذر بن عباس تھا۔ وہی جاسوس جو دمشق جاتے ہوئے محافظوں کی حراست سے بھاگ گیا تھا، اس نے گھوڑے سے اتر کر برچھی سے سر اتارا اور سلطان ایوبی کے قدموں میں پھینک کر کہا۔ ''میں آپ کا مفرور قیدی ہوں، میں نے کہا تھا مجھے بخش دیں، میں گناہوں کا کفارہ ادا کروں گا، آپ نے میری عرض نہ مانی۔ میں نے راستے میں سوچا کہ مجھے جاسوس، باپ نے بنایا اور میرے دل میں دولت کا لالچ پیدا کیا ہے۔ میں صرف اس کام کے لیے بھاگا تھا، میں حلب گیا۔ اپنے باپ کو قتل کیا ور اس کا سرکاٹ کر لے آیاہوں اگر اس سے میرے گناہوں کا کفارہ ادا نہیں ہوتا  تو مجھے پھر قید کرلیں اور اسی طرح میرا سر کاٹ کر پھینک دیں''۔
سلطان ایوبی نے اسے حسن بن عبداللہ کے حوالے کردیا اور کہا۔ ''اسے اگر قابل اعتماد سمجھا جاسکتا ہے تو اس کے متعلق کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ اس نے میرے ایک سوال کا جواب دے دیا ہے۔ میں آج تک سوچتا رہا ہوں کہ دشمن کا جاسوس پوری معلومات لے گیا تھا، پھر بھی دشمن میرے پھندے میں آگیا۔ اب معلوم ہوا ہے یہ خبر دینے نہیں بلکہ اپنے باپ کو قتل کرنے گیا تھا''۔
اس سے اگلے دن سلطان ایوبی خیمے میں سویا ہوا تھا۔ باہر بہت سے آدمیوں کی باتوں سے اس کی آنکھ کھل گئی۔ باہر کوئی جھگڑا ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی نے دربان کو اندر بلا کر پوچھا کہ باہر کیا ہورہا ہے۔ دربان نے بتایا کہ نو آدمی آپ کے محافظ دستے کی وردیاں پہنے اور آپ کا جھنڈا اٹھائے آئے ہیں۔ کہتے ہیں وہ دمشق سے آئے ہیں۔ یہ رضاکارانہ آپ کے محافظ دستے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ انہیں روکاتو کہتے ہیں کہ وہ اتنی دور سے عقیدت اور جذبے سے آئے ہیں، وہ آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔
یہ شیخ سنان اور گمشتگین کے بھیجے ہوئے فدائی قاتل (حشیشین) تھے۔ ان کی چال کامیاب ہوگئی۔ سلطان ایوبی نے دربان سے کہہ دیا کہ انہیں اندر بھیجو۔ ان سے برچھیاں باہر رکھوالی گئیں۔ وہ خیمے میں گئے اور فوراً ہی انہوں نے خنجر اور تلواریں نکال لیں۔ سلطان ایوبی کے دو محافظ بھی ان کے ساتھ آگئے تھے۔ ایک فدائی نے سلطان ایوبی پر حملہ کیا۔ سلطان نے پھرتی سے حملہ روک لیا اور اپنی تلوار اٹھالی۔ پہلے ہی وار سے اس نے حملہ آور کا پیٹ چاک کردیا۔ خیمے میں جگہ تھوڑی تھی۔ دوسرے فدائیوں نے بھی سلطان ایوبی پر حملے کیے۔ دونوں محافظوں نے جم کر مقابلہ کیا۔ باہر سے دوسرے محافظ بھی آگئے۔ خیمے کے اندر تلواریں اور خنجر ٹکرانے لگے۔ باڈی گارڈوں نے قاتلوں کو اپنے ساتھ الجھا لیا۔ وہ خیمے سے باہر آگئے۔ سلطان ایوبی کی لمبی تلوار نے کسی کو قریب نہ آنے دیا۔ فدائیوں میں سے پانچ چھ مارے گئے۔ باقی بھاگنے لگے۔ انہیں زندہ پکڑ لیاگیا۔ خیمے کے اندر سے ایک فدائی نکلا۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی کی ادھر پیٹھ تھی۔ زخمی فدائی نے پیچھے سے سلطان پر حملہ کیا۔ ایک باڈی گارڈ نے بروقت دیکھ لیا، وہ چلایا۔ ''سلطان نیچے''۔ اور حملہ آور کی طرف دوڑا۔ سلطان ایوبی فوراً بیٹھ گیا۔ قاتل کی تلوار ہوا کو کاٹتی سلطان کے اوپر سے گزر گئی۔ باڈی گارڈ نے فدائی کے پہلو میں برچھی اتار دی۔ وہ تو پہلے ہی زخموں سے مر رہا تھا، وہ گرا اور مرگیا۔
سلطان ایوبی اس حملے سے بھی بال بال بچ گیا۔
بعض یورپی مؤرخوں نے لکھ ہے کہ سلطان ایوبی پر یہ قاتلانہ حملہ کرنے والے اس کے اپنے باڈی گارڈ تھے جو ایک عرصے سے اس کے ساتھ تھے لیکن اس دور کے وقائع نگاروں کی تحریروں سے شکوک رفع ہوجاتے ہیں۔ بہائوالدین شداد نے اور ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدود نے لکھا ہے کہ یہ شیخ سنان کے بھیجے ہوئے نو فدائی تھے جو حلف اٹھا کر آئے تھے کہ سلطان ایوبی کو قتل کردیں گے ورنہ زندہ نہیں لوٹیں گے۔ وہ سلطان ایوبی کو تو قتل نہ کرسکے البتہ ان میں سے زندہ کوئی بھی نہ لوٹا۔ جو زندہ رہے انہیں سزائے موت دے دی گئی۔

جاری ھے ، ( 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں