داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 79 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 79



صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔79- گناہوں کا کفارہ
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اسی روز جس وقت گمشتگین اپنے سالاروں اور کمانڈروں کو اشتعال انگیز تقریر سے جوش دلا رہا تھا، سیف الدین اور حلب کی فوجیں بھی ایسی ہی اشتعال انگیز تقریریں سن رہی تھیں۔ حلب کا ایک سالار گھوڑے پر سوار اپنی فوج سے کہہ رہا تھا۔ ''یہ وہی صلاح الدین ہے جس نے حلب کا محاصرہ کیا تھا۔ تم نے اسی صلاح الدین کو اس کی اسی فوج کو حلب سے بھگایا تھا۔ رب کعبہ کی قسم! یہ روایت جھوٹی ہے کہ صلاح الدین جس قلعے میں جس شہر کو محاصرے میں لیتا ہے اسے فتح کرکے دم لیتا ہے۔ وہ حلب کے محاصرے میں کیوں کامیاب نہیں ہوا تھا؟ اس نے محاصرہ اٹھا کیوں لیا تھا؟ صرف اس لیے کہ تم شیر ہو۔ تم جان پر کھیل جانے والے سرفروش ہو۔ تم نے شہر سے نکل نکل کر اس پر جو حملے کیے تھے انہیں وہ برداشت نہیں کرسکا۔ فتح اس کی ہوتی ہے جس پر خدا خوش ہوتا ہے۔ خدائے ذوالجلال کی خوشنودی تمہیں حاصل ہے۔ صلاح الدین ایوبی پر خدا کیوں خوش ہوگا۔ وہ لٹیرا ہے۔۔ اس نے دمشق پر قبضہ کیا اور اس شہر کے لوگوں کی اس نے جو حالت کی ہے وہ وہاں جاکر دیکھو کسی عورت کی عزت محفوظ نہیں رہی۔ ہمیں دمشق چھوڑ کر حلب آنا پڑا۔ ہمیں وہاں واپس جانا ہے۔ ہمیں صلاح الدین ایوبی سے انتقام لینا ہے… اور اللہ کے سپاہیو! یہ نہ سوچنا کہ تم مسلمان ہوکر مسلمان فوج کے خلاف لڑنے جارہے ہو۔ وہ مسلمان کافر سے بدتر ہے جو مسلمانوں کے شہروں کو فتح کرتا پھر رہا ہے۔ تم پر ایسے مسلمان کا قتل خدا نے فرض کردیا ہے''۔
''خلافت کے محافظو! تمہارے دشمن صلیبی نہیں صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج ہے۔ صلیبیوں کو دشمن اس شخص نے بنایا ہے۔ نورالدین زنگی نے قوم پر سب سے بڑا ظلم یہ کیا ہے کہ صلاح الدین کو مصر کی امارت دے دی ورنہ یہ شخص چھوٹے سے ایک جیش کی کمان کرنے کے بھی قابل نہ تھا۔ میں اسے اپنی فوج میں سپاہی کی حیثیت سے بھی نہ رکھو۔ آج اس شخص کی موت اسے ان چٹانوں میں لے آئی ہے۔ اب اس کے سامنے تمہاری تلواریں، تمہاری برچھیاں اور تمہارے گھوڑے ہوں گے اور اس کے پیچھے چٹانیں اور پہاڑیاں ہوں گی۔ تم اسے اور اس کی فوج کو پیس کر رکھ دے گے۔ تمہیں حلب کی توہین اور بربادی کا انتقام لینا ہے اگر تم نے صلاح الدین کو یہاں، انہی پہاڑیوں میں ختم نہ کیا تو وہ سیدھا حلب پر آئے گا۔ اس کی نظریں حلب پر لگی ہوئی ہیں۔ وہ تمہیں اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ تمہاری بہنیں اور بیٹیاں اس کے سالاروں کے حرم کی زینت بنیں گی اگر میں جھوٹا ہوں تو نورالدین زنگی کا بیٹا جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ سیف الدین والئی موصل جھوٹا نہیں ہوسکتا۔ گمشتگین جھوٹا نہیں ہوسکتا اگر اتنے امراء جھوٹے نہیں ہیں تو اکیلا صلاح الدین ایوبی جھوٹاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کی تین فوجیں اسے کچلنے کے لیے آئی ہیں۔ تم سب سچے ہو۔ غیرت اور حمیت والے ہو۔ ثابت کردو کہ غیرت اور حمیت کی خاطر تم اپنے بھائی کا بھی خون بہا سکتے ہو''۔
فوج بظاہر خاموشی سے سن رہی تھی لیکن اس کے اندر اشتعال نے طوفان بپا کررکھا تھا۔ سالار نے حقائق پر پردہ ڈال کر فوج کے جذبات کو مشتعل کردیا اور فوج نعرے لگانے لگی۔ ''ہم غلام نہیں بنیں گے۔ صلاح الدین ایوبی زندہ نہیں رہے گا''۔ ایک شور تھا جو زمین وآسمان کو ہلا رہا تھا۔
سیف الدین کے کیمپ کی بھی کیفیت جذباتی تھی۔ وہ بھی اپنی فوج کے جذبات کو بھڑکا رہا تھا۔ اس نے سپاہیوں کے لیے یہ سہولت بھی پیدا کردی تھی کہ دو علماء سے یہ فتویٰ لے لیا تھا کہ میدان جنگ میں روزہ فرض نہیں۔ تمام فوج خوش تھی۔ سیف الدین نے کہا کہ ہم اس وقت حملہ کریں گے جب صلاح الدین ایوبی کی فوج کا دم خم ٹوٹ چکا ہو۔ پھر ہماری منزل دمشق ہوگی۔ دمشق میں بے اندازہ دولت ہے جو تمہاری ہوگی۔
٭ ٭ ٭
: ادھر لشکروں اور فوجوں کی باتیں ہورہی تھیں۔ ادھر سلطان صلاح الدین ایوبی کے کیمپ میں چھ چھ آٹھ آٹھ، دس دس چھاپہ ماروں کے حساب سے سکیمیں بن کرہی تھیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج سے کوئی خطاب نہیں کیا، کوئی جوشیلی تقریر نہیں کی۔ اس کی نظر اس زمین پر تھی جس پر اسے لڑنا تھا۔ اس زمین کے خدوخال سے وہ زیادہ سے زیادہ جنگی فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔ اس نے جو بھی بات کی اپنے سینئر اور جونئیر کمانڈروں سے کی اور وہ بھی حقیقت کی بات کی۔ کبھی کبھی وہ اس وجہ سے جذباتی ہوجاتا تھا کہ اس کے مسلمان بھائی فلسطین کے راستے مں حائل ہوگئے ہیں اور مسلمان مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوں گے۔ اس کا اس کے پاس کوئی علاج نہیں تھا۔ وہ صلح اور امن کے لیے ایلچی بھیج کر اپنی توہین کراچکا تھا۔ اب وہ تصادم کے لیے پوری طرح تیار تھا۔ اس نے مصر سے آئی ہوئی کمک کو اپنی سکیم کے مطابق تقسیم کردیا تھا اور دشمن کے انتظار میں بے چین ہورہا تھا۔ اس نے اپنے مشیروں سے اس خیال کا اظہار بھی کیا تھا کہ دشمن شاید یہ چاہتا ہے کہ پہاڑیوں سے نکل کر اس پر حملہ کیا جائے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی چٹانوں سے نکلنے سے گریز کررہا تھا۔ وہ دشمن کو پہل کرنے کا موقعہ دے رہا تھا۔ وہ اگر چاہتا تو اپنے چھاپہ ماروں سے دشمن کے کیمپوں میں تباہی مچا سکتا تھا۔ یہ اس کا خصوصی طریقہ جنگ تھا لیکن اس نے چھاپہ ماروں کو بھی استعمال نہ کیا۔ وہ دشمن کی چال اور حرکت دیکھ رہا تھا۔
دمشق میں نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ نے اپنا ایک اور محاذ کھول رکھا تھا۔ جب سے سلطان صلاح الدین ایوبی دمشق سے نکلا تھا، اس عظیم عورت نے لڑکیوں کی ایک رضا کار فوج تیار کرنی شروع کردی تھی۔ لڑکیوں کو زخمیوں کو میدان جنگ سے اٹھانے، خون روکنے اور ابتدائی مرہم پٹی کی تربیت دی جاتی تھی لیکن زنگی کی بیوہ انہیں تیغ زنی، تیر بازی اور تیز اندازی کی تربیت بھی دے رہی تھی۔ اس مقصد کے لیے اس نے چند ایک تجربہ کار مرد اپنے ساتھ رکھے ہوئے تھے۔ اسے معلوم تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر عورت کی موجودگی کو پسند نہیں کرتا اور یہ تو سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ لڑکیوں کو فوج میں شامل کرے گا۔ اس کے باوجود زنگی کی بیوہ لڑکیوں کو جنگی تربیت دے رہی تھی۔ وہاں کیفیت یہ بھی کہ کسی کو یہ کہنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو مرہم پٹی وغیرہ کی تربیت کے لیے بھیجا کرے۔ لوگ اپنی بیٹیوں کو تربیت کے لیے بھیج کر فخر محسوس کرتے تھے۔ دس بارہ سال کی عمر کے بچے اپنے طور پر لکڑی کی تلواریں بنا کر تیغ زنی کرتے رہتے تھے۔
زنگی کی بیوہ کی فوج میں چار لڑکیوں کا اضافہ ہوا۔ ان میں ایک تو فاطمہ تھی جسے سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک چھاپہ مار جاسوس حرن سے بلکہ گمشتگین کے حرم سے نکال لایا تھا۔ دوسری موصل کے خطیب ابن المخدوم کی بیٹی منصورہ تھی۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ اسے اپنے باپ کے ساتھ کس طرح موصل سے نکالا گیاتھا۔ باقی دو وہ لڑکیاں تھیں جنہیں حلب سے گمشتگین کے پاس تحفے کے طور پر بھیجا گیا تھا۔ا نہیں سالار شمس الدین اور سالار شادبخت نے حرن کے قاضی کوقتل کرکے وہاں سے نکالا تھا۔ یہ حمیرہ اور سحر تھیں۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس محاذ پر پہنچی تھیں جہاں سے انہیں دمشق بھیج دیا گیا تھا۔ ایسی بے ٹھکانہ لڑکیوں کو نورالدین زنگی کی بیوی کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ یہ چاروں اس کے پاس پہنچیں تو انہوں نے وہاں لڑکیوں کو تربیت حاصل کرتے دیکھا۔ یہی ان کی خواہش تھی جو فوری طور پر پوری ہوگئی۔
انہوں نے زنگی کی بیوہ کو اپنی اپنی آپ بیتی سنائی۔ وہاں انہیں ان لڑکیوں کے سامنے لے گئی اور انہیں کہا کہ وہ تمام لڑکیوں کو تفصیل سے سنائیں کہ دشمن کے قبضے میں ان پر کیا گزری ہے۔ چاروں نے اپنی اپنی کہانی سنائی۔ خطیب کی بیٹی منصورہ ذہنی طور پر زیادہ مستعد اور ہوشیار تھی۔ اس نے لڑکیوں سے کہا۔ ''عورت قوم کی آبرو ہوتی ہے، دشمن جب کسی شہر پر قبضہ کرتا ہے تو اس کی فوج سب سے پہلے عورتوں پر ہلہ بولتی ہے۔ تم نے ان دو لڑکیوں (حمیرہ اور سحر) سے سن لیا ہے کہ جو علاقے صلیبیوں کے قبضے میں ہیں وہاں صلیبی مسلمانوں کے ساتھ کتنا ہولناک سلوک کررہے ہیں۔ وہاں کسی مسلمان لڑکی کی عزت محفوظ نہیں۔ خدانخواستہ دمشق بھی ان کے قبضے میں آگیا تو تمہارا بھی وہی حشر ہوگا۔ اگر ہم نے خون کی قربانی دینے سے گریز کیا تو صلیبی ہمارے آقا بن کر رہیں گے۔ انہوں نے ہمارے بہت سے امراء کو خرید لیا ہے۔ اب صلیبی بھی تمہارے دشمن اور مسلمان امراء بھی تمہارے دشمن ہیں اگر تم فتح حاصل کرنا چاہتی ہو تو انتقام کے جذبے کو زندہ وپائندہ رکھو۔ میرے محترم والد کہا کرتے ہیں کہ جو قوم ان معصوموں کو فراموش کردیتی ہے جو کفار کی بربریت کا شکار ہوئے تھے وہ زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتی''۔
: ''میری بہنو! میں محترم سلطان صلاح الدین ایوبی کی مرید ہوں۔ ان کے نام پر سولی چڑھنے کو تیار ہوں لیکن مجھے ان کا یہ اصول پسند نہیں کہ عورت محاذ پر نہ جائے۔ انہوں نے جو سوچا ہے ٹھیک ہی سوچا ہے لیکن عورت کو کمزور سمجھا جارہا ہے۔ نوجوان اور خوبصورت لڑکیوں کو حرموں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ ہمیں مرد کی تفریح کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔ اس طرح قوم کی آدھی قوت بیکار ہوکر رہ گئی ہے۔ دشمن لشکر لے کر آتا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہماری فوج آدھی بھی نہیں ہوتی۔ ہم مردوں کے دوش بدوش لڑیں گی اور فوج کی کمی پوری کریں گی۔ میں موصل میں جاسوسوں کے گروہ میں رہی ہوں۔ میں اس محاذ پر لڑ کر آئی ہوں۔ یہ میرے والد کی غلطی تھی کہ انہوں نے جذبات میں آکر والئی موصل پر اپنے اصل خیالات کا اظہار کردیا۔ اگر وہ نہ پکڑے جاتے تو وہاں ارادے کچھ اور تھے۔ ہم وہاں تباہ کاری نہ کرسکے اور ہمیں وہاں سے نکلنا پڑا''۔
ان چاروں لڑکیوں کی آپ بیتی اور منصورہ کی باتوں نے لڑکیوں کے جذبے کی شدت میں اضافہ کردیا۔ا ن میں سے چار سو لڑکیاں تربیت حاصل کرکے تیار ہوچکی تھیں۔ انہیں محاذ کے لیے روانہ کیا جانے لگا۔ چاروں لڑکیوں نے چند دنوں میں کچھ تربیت حاصل کرلی تھی۔ انہیں روک لیا گیا لیکن ان میں انتقام کا جذبہ اتنا زیادہ تھا کہ وہ اسی جیش کے ساتھ محاذ پر جانے کی ضد کرنے لگیں۔ فاطمہ، حمیرہ اور سحر کی ضد اتنی سخت تھی کہ تینوں رو پڑیں۔ ان کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔زنگی کی بیوہ نے انہیں بھی چار سو کے اس جیش میں شامل کرلیا۔ ان کے ساتھ ایک سو مردوں کو بھیجا گیا۔ یہ رضاکار تھے۔ انہوں نے لڑنے کی تربیت حاصل کرلی تھی۔ ان کا کمانڈر حجاج ابووقاص تھا۔
نورالدین زنگی کی بیوہ نے حجاج وقاص کو ایک تحریری پیغام دے کر کہا۔ ''یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو دے دینا۔ میں نے سب کچھ لکھ دیا ہے۔ تم انہیں یہ بتانا کہ یہ لڑکیاں زخمیوں کی دیکھ بھال کے لیے تیار کی گئی ہیں۔ تم ایک بار پھر سن لو۔ ان لڑکیوں اور رضاکار محافظوں کو اپنے ساتھ رکھنا۔ انہیں شب کو شب خون مارنے کی تربیت دی گئی ہے اور لڑکیاں بھی لڑ سکتی ہیں۔ زخمیوں کو سنبھالنے کے بہانے تم سب لڑو گے۔ فوج کے سامنے رکاوٹ نہ بن جانا۔ جہاں موقعہ ملے دشمن کو کمزور کرو۔ میں نے لڑکیوں کو بتا دیا ہے کہ دشمن کے ہاتھ زندہ نہ آئیں۔ وہ خود کہتی ہیں کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہوا تو وہ اپنی تلوار سے اپنے آپ کو ختم کردیں گی''۔
چار سو لڑکیوں اور ایک سو رضاکار مردوں کا یہ دستہ گھوڑوں پر سوار دمشق سے روانہ ہوا تو سارا شہر امڈ کر باہر آگیا۔ لوگوں نے جانے والوں پر پھول برسائے۔ اس قسم کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ ''واپس نہ آنا، آگے جانا… صلاح الدین ایوبی سے کہنا کہ دمشق کی تمام عورتیں آئیں گی… اللہ تمہیں فتح دے گا… اسلام کا کوئی دشمن زندہ نہ رہے''… شہر کے بہت سے آدمی گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار دور تک اس جیش کے ساتھ گئے۔
٭ ٭ ٭
رمضان کا مہینہ تھا۔ راستے میں ایک رات پڑائو کرنا تھا۔ افطاری کے وقت سے کچھ دیر پہلے یہ قافلہ ایک جگہ رک گیا۔ لڑکیاں کھانے کی تیاریوں میں مصروف ہوگئیں اور مرد خیمے نصب کرنے لگے۔ اپریل کا مہینہ تھا۔ راتیں سرد ہوجاتی تھیں۔ گھوڑوں کے اس قافلے کے ساتھ اونٹ بھی تھے جن پر خیمے لدے ہوئے تھے ان خیموں میں برچھیاں، تلواریں اور تیروکمان لپٹے ہوئے تھے۔ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے بارہ گھوڑ سوار آگئے۔ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار تھے۔ جو دمشق سے محاذ پر جانے والے راستے کی حفاظت میں گھوم پھر رہے تھے۔ انہوں نے لڑکیوں اور رضاکاروں کے قافلے کو دیکھ لیا تھا۔
 ان آٹھ سواروں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میرکارواں حاج ابووقاص آگے بڑھا۔ چھاپہ ماروں کا کمانڈر انطانون تھا۔ اس نے ابووقاص سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہے ہیں۔ ابووقاص نے اسے مکمل جواب دیا اور اسے مطمئن کردیا۔ چھاپہ ماروں کو دیکھ کر بہت سی لڑکیاں دوڑی گئیں اور ان کے گرد جمع ہوگئیں۔ سب کا یہی ایک سوال تھا کہ محاذ کی کیا خبر ہے۔ انطانون نے انہیں بتایا کہ جنگ ابھی شروع نہیں ہوئی اور کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ کس وقت شروع ہوجائے۔
فاطمہ بیتابی سے آگے بڑھی اور انطانون کا ہاتھ پکڑ لیا۔ انطانون نے فاطمہ کو گمشتگین کے حرم سے نکالا تھا ابووقاص نے انطانون سے کہا کہ وہ افطار ان کے ساتھ کریں اور کھانا بھی انہی کے ساتھ کھائیں۔ سب بکھر گئے ہر کوئی کسی نہ کسی کام میں مصروف تھا۔ انطانون اور فاطمہ نے اتنا سا موقعہ پیدا کرلیا کہ انطانون نے اسے رات کو ملنے کی ایک جگہ بتا دی۔ دمشق سے دور اس ویرانے میں اذان کی صدائے مقدس گونجی۔ سب نے روزہ افطار کیا۔ نماز پڑھی اور کھانا کھایا۔ سب دن بھر کے تھکے ہوئے تھے۔ جنہیں سونا تھا وہ سوگئے۔ لڑکیوں نے ٹولیوں میں بٹ کر گیت گانے شروع کردئیے۔ چھاپہ ماروں نے ان سے کچھ دور اپنا ڈیرہ جما لیا۔ انطانون اپنی پارٹی کو یہ کہہ کر چلا گیا کہ وہ ادھر ادھر دیکھ بھال کرنے جارہا ہے۔
فاطمہ چپکے سے لڑکیوں میں سے غائب ہوگئی۔ وہ خیمہ گاہ سے دور ایک جگہ کھڑی انطانون کا انتظار کررہی تھی۔ انطانون بھی آگیا۔ فاطمہ کے ساتھ اس کی پہلی ملاقات حرن میں ہوئی تھی۔ اس وقت انطانون سلطان صلاح الدین ایوبی کا جاسوس تھا۔ اس نے اس لڑکی کو صرف اس لیے پھانسا تھا کہ وہ حرن کے حکمران اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن گمشتگین کے حرم کی لڑکی تھی۔ اسے وہ اپنی جاسوس کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ فاطمہ نے ایک صلیبی مشیر کو قتل کردیا اور انطانون گرفتار ہوکر فرار ہوا اور فاطمہ کو ساتھ لے آیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فاطمہ کو دمشق بھیج دیا اور انطانون اپنی درخواست پر چھاپہ مار دستے میں شامل ہوگیا۔ اب اتنے دنوں بعد فاطمہ اسے اچانک مل گئی تو انطانون نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ اس لڑکی کے بغیر اس کی زندگی روکھی پھیکی ہوگئی ہے اور یہ لڑکی اس کے دل میں اتر گئی ہے۔ یہ تعلق صرف اتنا ہی نہیں تھا کہ لڑکی کو جاسوسی کے لیے استعمال کرنا تھا۔ کچھ ایسی ہی کیفیت فاطمہ کی تھی۔
ان کی ملاقات جذباتی تھی۔ وہ اپنے اپنے قابو میں نہیں رہے تھے لیکن انطانون نے اس کی بازوئوں سے نکل کر کہا… ''فاطمہ! ہمارا فرض ابھی پورا نہیں ہوا۔ میں حرن میں بھی اپنا فرض پورا نہیں کرسکا تھا۔ ) تمہیں وہاں سے نکال لانا کوئی کارنامہ نہیں تھا اور یہ میرے فرائض میں شامل بھی نہیں تھا۔ میں سلطان کے آگے شرمسار ہوں اور میں اپنی قوم کے آگے بھی شرمسار ہوں۔ میں چھاپہ مار دستے میں اسی لیے شامل ہوا ہوں کہ فرض پورا نہ کرسکنے کے گناہ کا کفارہ ادا کرسکوں۔ سلطان محترم نے مجھ پر ذمہ داری عائد کردی ہے کہ ان سات چھاپہ ماروں کی کمان اور قیادت مجھے دے دی ہے۔ اب ایک بار پھر تم میرے راستے میں نہ آجانا۔ مجھے تم سے محبت ہے لیکن مجھے پہلے فرض ادا کرنے دو''۔
''میں بھی فرض ادا کرنے آئی ہوں''۔ فاطمہ نے کہا۔ ''میں گمشتگین کو قتل کرنے آئی ہوں''۔
''ناممکن ہے''۔ انطانون نے کہا۔ ''محترم سلطان عورت کو محاذ سے بہت دور رکھتا ہے۔ وہ شاید تم سب کو واپس بھیج دے گا''۔
''میں واپس نہیں جائوں گی''۔ فاطمہ نے غصے سے کہا۔ ''میں ثابت کردوں گی کہ عورت حرم کے لیے نہیں جہاد کے لیے پیدا کی گئی ہے… انطانون! میری یہ خواہش پوری کرو کہ مجھے اپنے ساتھ لے چلو۔ مجھے مردانہ کپڑے پہنا کر اپنے ساتھ رکھو''۔
''ایسا ہو نہیں سکتا''۔ انطانون نے کہا۔ ''اگر میں تمہیں اپنے ساتھ رکھ بھی لوں تو میری توجہ تم پر لگی رہے گی۔ میں اپنا کام نہیں کرسکوں گا اور اگر میں پکڑا گیا تو مجھے اس جرم میں قیدخانے میں ڈال دیں گے کہ میں نے ایک لڑکی اپنے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ میری اور تمہاری نیت کتنی ہی نیک کیوں نہ ہو یہ جرم معمولی نہیں… فاطمہ! جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی۔ اپنے آپ کو قابو میں رکھو۔ تم جدھر جارہی ہو جائو۔ ہوسکتا ہے سلطان تم سب کو زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے اپنے ساتھ رکھ لے''۔
''تم پھر مل سکوگے!'' فاطمہ نے پوچھا۔
: ''شاید کہیں زندہ یا مردہ مل جائوں''۔ انطانون نے جواب دیا۔ ''چھاپہ مار اپنے متعلق بتا نہیں سکتا کہ وہ کس وقت کہاں ہوگا اور اس کی لاش کہاں سے ملے گی۔ چھاپہ ماروں کی لاشیں ملا نہیں کرتیں۔ وہ دشمن کی جمعیت میں جاکر مرا کرتے ہیں۔زندہ رہا تو سیدھا تمہارے پاس آئوں گا''۔
''ہوسکتاہے تم زخمی ہوجائو تم میں ہی تمہاری مرہم پٹی کروں''۔ فاطمہ نے کہا۔
''چھاپہ ماروں کی مرہم پٹی دشمن کیا کرتا ہے''۔ انطانون نے جواب دیا۔ ''فاطمہ جذبات میں نہ آئو۔ ہمیں 
جذبات کو بھی اورایک دوسرے کو بھی قربان کرنا پڑے گا۔ اگر تم یہ چاہتی ہو کہ تم جیسی لڑکیاں حرموں میں نہ جائیں اور وہ صلیبیوں کے وحشی پن سے بچی رہیں تو میرا خیال دل سے نکال دو۔ میدان جنگ میں تمہیں جو فرض سونپا جائے صرف اسے دل میں رکھنا۔ تم گمشتگین کو قتل نہیں کرسکو گی۔ یہ ارادہ بھی دل سے نکال دو''۔
٭ ٭ ٭
سلطان صلاح الدین ایوبی کی سرگرمیاں دو ہی تھیں۔ میدان جنگ کا نقشہ دیکھتا اور اس کی لکیروں میں کھویا رہتا یا گھوڑے پر سوار اپنی فوج کی مورچہ بندیاں دیکھتا رہتا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے یا موزوں وقت تک کے لیے دفاعی جنگ لڑنے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ وہ اصل جنگ قرون کے اندر لڑنا چاہتا تھا جس کی اس نے سکیم بنا رکھی تھی لیکن ایک پہلو اسے پریشان کررہا تھا۔بائیں پہلو پر تو چٹانیں اور ان کے پیچھے پہاڑیاں تھیں لیکن دائیں پہلو پر چٹانیں زیادہ نہیں تھیں۔ ان کے پیچھے کچھ میدان تھا۔دشمن اس طرف پیش قدمی کرکے یا ہلہ بول کر آگے نکل سکتا تھا۔ اس سے سلطان ایوبی کا سارا پلان تباہ ہونے کا خطرہ تھا۔ اس کے پاس اتنی فوج نہیں تھی کہ اس میدان میں سواروں اور پیادوں کی دیوار کھڑی کرسکتا۔ قریبی چٹان پر اس نے تیر انداز بٹھا دئیے تھے لیکن یہ انتظام کافی نہیں تھا۔ میدان کے لیے اس نے دو دستے سوار اور پیادہ تیار کرلیے تھے لیکن انہیں ابھی چھپا کر رکھا ہوا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کو یہ میدان پریشان کررہا تھا۔ ان دستوں کے علاوہ اس نے ایک منتخب دستہ اپنے پاس رکھ لیا تھا۔
وہ ایک چٹان پر کھڑا ادھر دیکھ رہا تھا کہ دور افق سے اسے گرد اٹھتی نظر آئی۔ ایسی گرد فوجی اچھی طرح پہچانتے تھے۔ وہ کوئی سوار فوج آرہی تھی۔ گرد کے پھیلائو سے پتہ چلتا تھا کہ گھوڑے ایک صف میں نہیں چار چار یا چھ چھ کی ترتیب میں ایک دوسرے کے پیچھے آرہے ہیں۔ دشمن کے سوا ور کون ہوسکتا تھا۔ سلطان ایوبی نے غصے سے پوچھا۔ ''کیااس راستے پر اپنا ایک بھی آدمی نہیں تھا؟ تیاری کا حکم دو''۔
تیاری کے نقارے بچ اٹھے۔ فوج کو جس طرح دفاع کے لیے تیاری کی مشق کرائی گئی تھی، وہ اسی طرح تیار ہوگئی۔ ذرا سی دیر بعد گھوڑے نظر آنے لگے۔ ان کی چال دشمن والی یا حملے والی نہیں تھی۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا کہ دوچار سوار دوڑائو، دیکھو یہ کون لوگ ہیں… سوار دوڑا دئیے گئے اور جب وہ واپس آئے تو دور سے چلانے لگے۔ ''دمشق سے رضا کار آئے ہیں۔ ساتھ عورتوں کی فوج ہے''۔
''عورتوں کی فوج؟'' سلطان ایوبی نے حیران ہوکر پوچھا۔ ''عورتوں کی فوج؟'' اس نے ذرا توقف سے سکون کی آہ لے کر کہا۔ ''یہ فوج میری بیوہ بہن نے تیار کرکے بھیجی ہوگی۔ زنگی مرحوم کی بیوہ ہی یہ کام کرسکتی ہے''… سلطان ایوبی نے ہنسنا شروع کردیا۔ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ وہ اتنا کبھی نہیں ہنسا تھا۔ ہنستے ہنستے وہ سنجیدہ ہوگیا اور اپنے پاس کھڑے سالاروں سے کہنے لگا۔ ''میری قوم کی بچیاں تمہیں فتح یاب کرکے دم لیں گی۔ ہم کیوں نہ مر مٹیں ان بچیوں کی آبرو پر… لیکن میں انہیں واپس بھیج دوں گا اگر ایک بھی لڑکی دشمن کے ہاتھ چڑھ گئی تو میںمر کر بھی چین حاصل نہیں کر سکوں گا''۔
وہ چٹان سے اتر کر آگے چلا گیا۔ لڑکیوں اور رضاکاروں کی فوج قریب آگئی۔ اس کا کمانڈر ابو وقاص گھوڑے سے اتر کر سلطان ایوبی کے پاس آیا۔ سلام کے بعد نورالدین زنگی کی بیوہ کا تحریری پیغام دیا۔ اس نے لکھا تھا… ''میرے بھائی! اللہ تمہارا حامی وناصر ہو۔ میرا شوہر زندہ ہوتا تو تم اتنے سارے دشمنوں کے سامنے اکیلے نہ ہوتے۔میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتی۔ جو مجھ سے ہوسکتا تھا وہ پیش کررہی ہوں۔ ان لڑکیوں کو میں نے زخمیوں کو سنبھالنے اور زخموں کی مرہم پٹی کی تربیت دلائی ہے۔ دوائیوں کا ذخیرہ بھی بھیج رہی ہوں۔ ایک سو رضا کار بھی ساتھ ہیں… بوڑھے فوجیوں نے انہیں جنگی تربیت دی ہے۔ تقریباً تمام کو شب خون مارنے کی مشق بھی کرائی ہے۔ یہ سب جوش اور جذبے والے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ ان لڑکیوں کو تم محاذ پر رکھنا پسند نہیں کرو گے۔ میں تمہارے خیالات سے آگاہ ہوں لیکن یہ خیال رکھنا کہ تم نے انہیں واپس بھیج دیا تو دمشق والوں کا دل ٹوٹ جائے گا۔ تم نہیں جانتے کہ اس شہر میں لوگوں میں کیا جذبہ ہے۔ مرد تو محاذ پر جانے کو تیار ہیں۔ عورتیں بھی تمہاری قیادت میں لڑنے کو بیتاب ہیں۔ اس جیش کو سارے شہر نے عقیدت اور ولولے سے رخصت کیا ہے۔ : یہاں تو بچے بھی فوجی تربیت حاصل کررہے ہیں۔ تمہیں فوج کی کمی محسوس نہیں ہوگی''۔
پیغام پڑھ کر سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔ اس نے لڑکیوں کی طرف دیکھا۔ وہ تھیں تو لڑکیاں لیکن گھوڑوں پر وہ سپاہی لگتی تھیں۔ سلطان ایوبی نے سب کو گھوڑوں سے اتار کر اپنے سامنے کھڑا کرلیا۔ اس نے کہا۔ ''میں تم سب کو میدان جنگ میں خوش آمدید کرتا ہوں، تمہارے جذبے کا صلہ میں نہیں دے سکتا۔ خدا دے گا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ لڑکیوں کو محاذ پر بلائوں گا۔ میں ڈرتا ہوں کہ تاریخ کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی نے اپنی بیٹیوں کو لڑایا تھا۔ میں تمہارے جذبات کو مجروح بھی نہیں کرسکتا۔ تمہیں اپنے پاس رکھنے سے پہلے میں تمہیں موقعہ دینا چاہتا ہوں کہ سوچ لو۔ تم میں اپنے کوئی ایسی لڑکی ہے جو اپنی مرضی سے نہیں آئی تو وہ الگ ہوجائے اور وہ لڑکیاں بھی الگ ہوجائیں جن کے دل میں ذرا بھی شک اور خوف ہے''۔
کوئی ایک بھی لڑکی الگ نہ ہوئی۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''میں تمہیں پیچھے محفوظ جگہ رکھوں گا۔ جنگ کے دوران تمہیں آگے نہیں جانے دوں گا۔ پھر بھی یہ علاقہ ایسا ہے کہ تم دشمن کی زد میں آسکتی ہو۔ ہوسکتا ہے تم میں سے کئی تیروں سے ماری جائیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میں سے کوئی دشمن کے ہاتھ چڑھ جائے۔ یہ بھی سن لو کہ برچھی اور تلوار کا زخم بہت گہرا اور بڑا ہی بھیانک ہوتاہے''۔
ایک لڑکی کی آواز بلند ہوئی۔ ''آپ تاریخ سے ڈرتے ہیں اور ہم بھی تاریخ سے ڈرتی ہیں۔ ہم واپس چلی گئیں تو تاریخ کہے گی کہ قوم کی بیٹیوں نے صلاح الدین ایوبی کو تنہا چھوڑ دیا ور گھروں میں بیٹھی رہی تھیں''۔
ایک اور لڑکی نے کہا۔ ''خدا صلاح الدین کی تلوار میں اور زیادہ قوت دے۔ ہم حرموں کے لیے پیدا نہیں ہوئیں''۔
تیسری لڑکی نے کہا۔ ''تین چاند پہلے میرا بیاہ ہوا تھا۔ اگر آپ نے مجھے واپس بھیج دیا تو میں اپنے خاوند کو اپنے اوپر حرام سمجھوں گی''۔
''تمہارا خاوند خود کیوں نہیں آیا؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔ ''اس نے اپنی دلہن کو کیوں بھیج دیا ہے''۔
''وہ آپ کی فوج میں ہے''۔ لڑکی نے جواب دیا۔
پھر تمام لڑکیوں نے چلانا شروع کردیا۔ اس کے سوا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ اپنے جوش اور جذبے کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ یہ شور ذرا تھما تو کسی لڑکی کی آواز سنائی دی… ''محترم سلطان! ہمیں لڑنے کا موقعہ دیں ہم آپ کو مایوس نہیں کریں گی''۔
''یہ بھول جائو کہ میں تمہیں لڑائی میں شریک ہونے دوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''تمہیں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم کردوں گا''۔
اس نے اسی روز لڑکیوں کو چار چار کی ٹولیں میں تقسیم کردیا۔ ہر ٹولی کے ساتھ ایک ایک رضاکار لگا دیا گیا۔ رضا 
کاروں کے متعلق کہا گیا تھا کہ انہیں جنگی ٹریننگ دی گئی ہے لیکن سلطان ایوبی نے انہیں زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام دیا کیونکہ وہ باقاعدہ فوج کے سپاہی نہیں تھے۔ انہیں فوج کے ساتھ مل کر لڑنے کا تجربہ نہیں تھا۔ لڑکیوں اور رضاکاروں کی خیمہ گاہ قرون سے دور بنائی گئی۔ انہیں سپاہیوں کے حوالے کردیا گیا جو زخمیوں اور لاشوں کو اٹھانے اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا کام کرتے تھے۔ ان سپاہیوں نے لڑکیوں اور رضاکاروں کو ٹریننگ دینی شروع کردی۔ فاطمہ، منصورہ، حمیرہ اور سحر ایک ٹولی میں آگئیں۔ ان کا ایک ٹولی میں اکٹھا ہوجانا قدرتی امر تھا کیونکہ وہ اکٹھی دمشق پہنچیں اور ان کے دلوں میں ایک ہی جیسی خواہش اور ولولہ تھا۔ ان کے ساتھ آذر بن عباس نام کا ایک رضاکار تھا۔ اس کا چھوٹا سا خیمہ الگ تھا اور اس کے قریب ہی چاروں لڑکیوں کے لیے بڑا خیمہ نصب کیا گیا تھا۔ ان لڑکیوں میں خطیب کی بیٹی منصورہ، جسانی اور دماغی لحاظ سے تیز اور ہوشیار تھی۔ شام سے کچھ دیر پہلے اس نے دیکھا کہ ان کا ساتھی رضاکار آذر ایک چٹان پر چڑھتا جارہا ہے۔ وہ اوپر چلا گیا ور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ منصورہ بھی اوپر چلی گئی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ وادیوں میں اور ڈھلانوں پر سپاہی نظر آرہے تھے۔ آذر نے منصورہ سے کہا۔ ''آئو آگے چلیں''۔ وہ اس کے ساتھ چلی گئی۔ آذر قدرتی مناظر اور پہاڑی علاقے کی تعریفیں کرتا رہا۔: آذر خوبرو جوان تھا۔ اس کی باتوں میں زندہ دلی اور چاشنی تھی۔ اس نے منصورہ کے ساتھ بڑی شگفتہ سی باتیں شروع کردیں۔ منصورہ نے بھی اس میں دلچسپی لینی شروع کردی۔ وہ سورج غروب ہونے سے ذرا پہلے واپس آئے۔ اتنے سے وقت میں آذر منصورہ کے دل میں اتر چکا تھا۔ افطاری کے بعد لڑکیاں اپنے خیمے میں بیٹھی کھانا کھا رہی تھیں۔ فوج کے کسی کمانڈر نے خیمے میں جھانک کر دیکھا اور لڑکیوں سے پوچھا کہ انہیں کوئی تکلیف تو نہیں؟ لڑکیوں نے آرام اور اطمینان کا اظہار کیا تو کمانڈر خیمے سے ہٹ گیا۔ باہر آذر کھڑا تھا۔ اس نے کمانڈر کو باتوں میں لگا لیا۔ وہ بہت دیر باہر کھڑے باتیں کرتے رہے۔ منصورہ ان کی باتیں سن رہی تھی۔ آذر نے کمانڈر سے پوچھا کہ اتنی تھوڑی فوج سے وہ تین فوجوں کا مقابلہ کس طرح کریں گے۔
''دشمن کے لیے پھندا تیار ہے''۔ کمانڈر نے کہا۔ ''جنگ اس میدان میں نہیں ہوگی جہاں دشمن کی توقع ہے، ہم اسے اس جگہ گھسیٹ لائیں گے جہاں ہم نے وسیع پیمانے پر گھات تیار رکھی ہوئی ہے''۔ اس کمانڈر نے آذر کی جذباتی اور جوشیلی باتوں سے متاثر ہوکر تفصیل سے بتا دیا کہ سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو کس طرح تقسیم کیا ہے اور وہ کیا کرے گا۔ مصر کی کمک کے متعلق بھی تفصیل بتا دی۔
اسی رات کا واقعہ ہے۔ آدھی رات کے لگ بھگ منصورہ کی آنکھ کھل گئی۔ اسے آذر بن عباس کے خیمے سے باتیں سنائی دیں۔ وہ سمجھی کہ آذر کا کوئی دوست ہوگا لیکن اسے یہ الفاظ سنائی دئیے۔ ''تم ابھی نکل جائو، کچھ باتیں تم نے خود معلوم کرلی ہیں۔ باقی میں نے بتا دی ہیں۔ میرے لیے یہاں سے نکلنا ممکن نہیں تھا۔ اچھا ہوا تم آگئے۔ اب راستہ سمجھ لو''۔ اس آدمی نے آذر کو بتایا کہ وہ کس طرف سے نکلے۔ اسے سارا راستہ سمجھا کر کہا۔ ''تم پیدل جارہے ہو۔ پیدل ہی جانا چاہیے۔ صبح سے پہلے پہنچ جائو گے۔ جلدی پہنچنے کی کوشش کرنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کل ہی اندھا دھند حملہ کریں۔ پھندا تیار ہے اور مضبوط ہے۔ قرون کے اندر نہ آئیں۔ خدا حافظ!''۔
منصورہ کو اس آدمی کے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ وہ چلا گیا تھا۔ منصورہ نے خیمے کا پردہ ذرا سا ہٹا کر باہر دیکھا۔ آذر اپنے خیمے سے باہر کھڑا تھا۔ وہ ایک طرف چل پڑا۔ منصورہ نے اپنے خیمے کی کسی لڑکی کو جگائے بغیر اپنے سامان سے خنجر نکالا ور باہر نکل گئی۔
٭ ٭ ٭
آسمان پر ہلکے ہلکے بادل تھے جن کی وجہ سے چاندی بہت ہی دھندلی تھی۔ منصورہ کو آذر سائے کی طرح نظر آرہا تھا۔ کچھ فاصلہ رکھ کر اور اوٹ میں ہو کر اس نے آذکر کا تعاقب کیا۔ آذر ایک چٹان کے دامن میں ہوگیا اور چلتا گیا۔ منصورہ بھی اسی راستے پر ہوگئی۔ راستے میں کوئی سنتری یا کوئی اور فوجی ادھر آتا جاتا نظر نہ آیا۔ اس لیے منصورہ سمجھ گئی کہ لڑکیوں اور رضاکاروں کے خیمے اگلے مورچوں سے بہت پیچھے لگائے گئے ہیں اور اس سے پیچھے کوئی فوج نہیں۔ منصورہ کو معلوم نہیں تھا۔ وہاں کئی جگہوں پر فوج موجود تھی لیکن جو آدمی آذر کے پاس آیا تھا وہ اسے ایسا راستہ بتا گیا تھا جو اسے فوج کی نظر سے بچا سکتا تھا۔ وہ ایک کٹی ہوئی چٹان کے اندر چلا گیا۔ منصورہ رکی، ذرا دیر بعد وہ بھی چٹان کے کٹائو میں داخل ہوگئی۔
آگے وادی تھی جس میں درخت بھی تھے۔ آذر کسی درخت کے پیچھے رک جاتا، ادھر ادھر دیکھتا ور چل پڑتا۔ منصورہ کے بھی چلنے، رکنے اور چھپنے کا انداز یہی تھا۔ کچھ دور اونچی پہاڑی کا دامن آگیا۔ منصورہ بھی اس میں داخل ہوئی تو یخ ہوا کے تیزوتند جھونکے نے اس کے پائوں اکھاڑ دئیے اور اس کا جسم سن ہونے لگا۔ آذر نے کسی شک کی بنا پر پیچھے دیکھا اور رک گیا۔ منصورہ بڑے سے ایک پتھر کے پیچھے بیٹھ گئی۔ آذر آگے کو چل پڑا۔ منصورہ اٹھی اور جس طرف پہاڑی کا سایہ تھا اس طرف ہوگئی۔
درے سے باہر نکلے تو کھلا میدان تھا۔ آذر تیز چل پڑا۔ منصورہ نے بھی رفتار تیز کردی وہ عورت تھی، بہت سا فاصلہ طے کر چکی تھی۔ ٹھنڈ بھی تھی اور نیچے پتھر تھے۔ وہ تھک گئی یہ تو اس کا جذبہ تھا جو اسے تعاقب میں چلائے جارہا تھا۔ اب وہ اس سوچ میں پڑ گئی کہ اس تعاقب میں انجام کیا ہوگا اگر آذر دوڑ پڑا تو وہ اس تک نہیں پہنچ سکے گی وہ جس شک پر اس کے تعاقب میں گئی تھی وہ یقین میں بدل چکا تھا۔ آذر دشمن کی طرف جارہا تھا۔ منصورہ نے تعاقب کا یہ پہلو تو سوچا ہی نہیں تھا کہ اسے پکڑے یا پکڑوائے گی کیسے۔ اب تو وہ بہت تیز چل پڑا تھا اگر اسے پکڑنا ہی تھا تو یہ دوبدو مقابلہ تھا۔ منصورہ کے پاس خنجر تھا۔ اس نے خنجر زنی کی تربیت موصل میں اپنے باپ سے لی تھی لیکن وہ صرف تربیت تھی۔ دشمن سے کبھی مقابلہ نہیں ہوا تھا۔ یہ دشمن تنو مند مرد تھا۔ کیا منصورہ اسے زیر کرکے پکڑ سکے گی؟
: وہ سوچتی گئی اور تیز چلتی گئی۔ آذر اچانک رک گیا اور اس نے پیچھے دیکھا۔ منصورہ کے قریب ایک درخت تھا وہ پھرتی سے درخت کی اوٹ میں ہوگئی۔ درخت کے ساتھ جگہ ذرا بلند تھی اور وہاں پتھر تھے۔ منصورہ کا پائوں پتھروں پر پھسلا ور وہ گر پڑی۔ رات کے سکوت میں پتھروں کی آواز بہت اونچی سنائی دی۔ آذر پیچھے کو آیا۔ منصورہ نے اسے آتے دیکھ لیا۔ وہ اٹھی نہیں، درخت کے پیچھے بیٹھ گئی اور آذر کو دیکھتی رہی۔ اس نے خنجر نکال لیا۔ آذر درخت کے بالکل قریب آگیا تو منصورہ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی۔ آذر درخت سے ذرا آگے ہوا تو منصورہ نے اس کے پائوں پر جھپٹا مارا اور اس کے دونوں ٹخنے پکڑ لیے۔ وہ اب پیٹ کے بل تھی۔ اس نے پوری طاقت سے آذر کے ٹخنے پیچھے کو کھینچے۔ وہ منہ کے بل گرا۔ دوسرے لمحے منصورہ اس کے پیٹ پر گھٹنے رکھ چکی تھی اور اس کے خنجر کی نوک آذر کی گردن پر تھی۔ یہ عمل دو تین سیکنڈ میں مکمل ہوگیا۔
ایک لڑکی ایک ہٹے کٹے جوان کو اپنے گھٹنوں اور جسم کے تمام تر وزن سے بے بس نہیں کرسکتی تھی لیکن گردن پر خنجر کی نوک نے آذر کو حرکت نہ کرنے دی۔ اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر پرے جا پڑی تھی۔
''کون ہو تم؟'' آذر نے پیٹ کے بل بے بس پڑے ہوئے پوچھا۔
''جس کے ہاتھ سے تم بچ کر نہیں جاسکو گے''۔ منصورہ نے جواب دیا۔
''تم عورت ہو؟''
''ہاں!'' منصورہ نے جواب دیا۔ ''میں عورت ہوں جسے تم اچھی طرح جانتے ہو۔میرا نام منصورہ ہے''۔
''اوہ، پاگل لڑکی!'' آذر نے ہنس کر کہا۔ ''تم نے کیا مذاق کیا ہے؟ میں تو ڈر ہی گیا تھا۔ ہٹو، اترو، اپنا خنجر ہٹا لو، میری کھال میں اتر رہا ہے''۔
''یہ مذاق نہیں آذر… تم کہاں جارہے ہو؟''
''خدا کی قسم میں کسی اور لڑکی کے پیچھے تو نہیں جارہا''۔ آذر نے دوستانہ لہجے میں کہا۔ ''تم سے زیادہ اچھی کوئی لڑکی ہے ہی نہیں۔ میں تمہیں دھوکہ تو نہیں دے رہا''۔
''مجھے نہیں تم میری قوم کو دھوکہ دینے جارہے تھے''۔ منصورہ نے کہا۔ ''تم مجھے سب سے زیادہ اچھی لڑکی سمجھتے تھے اور میں نے تمہیں سب سے زیادہ اچھا مرد سمجھا تھا مگر اب نہ میں تمہارے لیے اچھی ہوں، نہ تم میرے لیے اچھے ہو۔ فرض نے جذبات پر مہر ثبت کردی ہے۔ تم اپنا فرض ادا کرنے چلے تھے، میں اپنا فرض ادا کررہی ہوں۔ اگر تم میرے خاوند ہوتے، میرے جسم اور روح کے مالک اور میرے بچوں کے باپ ہوتے تو بھی میرا خنجر تمہاری گردن پر ہوتا''۔
''تم نے مجھے کیا سمجھ کر گرالیا ہے؟'' آذر نے کہا۔
''نام کا مسلمان اور صلیبیوں کا جاسوس''۔ منصورہ نے کہا۔ ''تم صلیبیوں کے دوستوں کو بتانے جارہے ہو کہ احتیاط سے حملہ کرنا اور قرون کے اندر نہ آنا''۔
''تم گنوار لڑکی کیا جانو جاسوس کسے کہتے ہیں''… آذر نے کہا۔ ''میں دشمن کو دیکھنے جارہا تھا''۔
''میں جانتی ہوں جاسوس کیسے ہوتے ہیں''۔ منصورہ نے کہا۔ ''میں بہت بڑے جاسوس کی بیٹی ہوں۔ ابن المخدوم ککبوری کا نام کبھی سنا ہے؟ وہ موصل کے خطیب تھے۔ میں ان کے گروہ کی جاسوس ہوں۔ میں نے اپنے باپ کو موصل کے قید خانے کے تہہ خانے سے نکلوا کر فرار کرایا اور خود ان کے ساتھ موصل سے فرار ہوکر آئی ہوں۔ تم اناڑی جاسوس ہو۔ تجربہ کار جاسوس دور جا کر باتیں کیا کرتے ہیں۔کسی کے خیمے کے پاس کھڑے ہوکر راز کی باتیں نہیں کیا کرتے۔ تم رضا کار بن کر آئے تھے۔ یہاں کیا کررہے ہو؟''
''میرے اوپر سے اٹھو''… آذر نے کہا۔ ''خنجر ہٹائو، میں ایک ضروری بات کرنا چاہتا ہوں''۔
''تمہاری زبان آزاد ہے''… منصورہ نے کہا۔ ''کہو ضروری بات کہو، میں سن رہی ہوں آذر خاموش ہو گیا۔ اس کا جسم بے حس ہوگیا۔ اس نے ماتھا زمین سے لگا دیا۔ منصورہ کے سامنے اب یہ مسئلہ آگیا کہ اسے باندھے کیسے اور وہاں سے کس طرح لے جائے اگر اسے قتل کرنا ہوتا تو اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں