داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 78 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, اگست 14, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 78


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔77- جب سلطان ایوبی پریشان ہوگیا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وہ سب اوپر آئے پھر رسہ کھینچ کر باہر کی طرف پھینکا اور سب نیچے اتر گئے۔ عہدے دار کو قید خانے کے باہرسے ایک گیڈر کے بولنے کی آواز سنائی دی۔ اس نے سنتری کو دوسری طرف بھیج دیا اور خود وہاں آیا جہاں رسہ لٹک رہا تھا۔ وہ تیزی سے رسہ اتر گیا۔

یہ سب اس مکان میں چلے گئے جہاں صاعقہ اور باڈی گارڈ تھے۔ اپنے باپ کو دیکھ کر صاعقہ کے جذبات بے قابو ہوگئے۔ جب صبح طلوع ہوئی تو موصل سے میلوں دور چار گھوڑے جارہے تھے۔ ایک پر خطیب سوار تھا، دوسرے پر صاعقہ، تیسرے پر قید خانے کا عہدے دار اور چوتھے پر ایک اور آدمی۔ یہ آدمی سلطان ایوبی کے جاسوسوں میں سے تھا۔ وہ باڈی گارڈ کو پکڑ کر لانے والی پارٹی میں بھی تھا۔ اس نے باڈی گارڈ سے بڑے قیمتی راز اگلوائے تھے۔ وہ جب موصل سے بہت دور پہنچ گئے تھے، اس وقت باڈی گارڈ کی لاش اسی مکان میں کہیں دفن کی جاچکی تھی۔ رات کو جب یہ پارٹی فرار ہوئی تھی، باڈی گارڈ کو قتل کردیا گیا تھا۔

اس وقت قید خانے میں بھی قیامت بپا ہوچکی تھی۔ اندر دو سنتریوں کی لاشیں پڑی تھیں۔ خطیب غائب تھا۔ عہدے دار کا بھی کسی کو علم نہ تھا کہ کہاں چلا گیا ہے اور دیوار کے ساتھ باہر کی طرف ایک رسہ لٹک رہا تھا۔ والئی موصل کے ہاں تو ایک روز پہلے سے ہی یہ قیامت بپا ہوچکی تھی کہ سیف الدین نے یہ حکم دے دیا تھا کہ اس کا باڈی گارڈ صاعقہ کو قید خانے کے بہانے کسی اور جگہ لے جانے اور اس تک پہنچانے کے لیے گیا تھا لیکن لڑکی اتنی خوبصورت تھی کہ باڈی گارڈ کی نیت خراب ہوگئی اور وہ اسے کہیں بھگا لے گیا۔ یہ تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ باڈی گارڈ کو لڑکی سمیت پکڑ لیا گیا ہے۔

٭ ٭ ٭

حرن کے قید خانے میں سالار شمس الدین اور شادبخت قید تھے۔ سلطان ایوبی نے حکم دے دیا تھا کہ انہیں وہاں سے نکالنے کا بندوبست کیا جائے لیکن انہوں نے حرن میں اپنا جوگروہ تیار کررکھا تھا، وہ پہلے ہی بندوبست کرچکا تھا۔ ان سالاروں نے فوج اور انتظامیہ کی ہر سطح پر ایک دو آدمی داخل کررکھے تھے۔ سالاروں کے فرار میں دشواری یہ تھی کہ انہیں قید خانے کے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ وہاں سے نکالنے کے لیے کوئی خصوصی طریقہ اختیار کرنے کی ضرورت تھی۔ خدا نے ان کی مدد کی۔ گمشتگین کو حلب سے بلاوا آگیا اور وہ اپنے اعلیٰ حکام، مشیروں اور محافظوں کو ساتھ لے کر روانہ ہوگا۔ شمس الدین اور شادبخت کی گرفتاری کے متعلق صرف گمشتگین کے قریبی حلقوں کو علم تھا۔ قاضی کے قتل کو بھی شہرت نہیںدی گئی تھی۔ فوج تک کو ابھی معلوم نہ تھا کہ ان کے دو اعلیٰ کمانڈروں کو قید خانے میں ڈال دیا گیا ہے۔

گمشتگین کے جانے کے ایک رو زبعد قید خانے کے داروغہ نے دیکھا کہ تین گھوڑ سوار گھوڑے دوڑاتے آرہے ہیں۔ وہ گرد سے باہر آئے تو اس نے دیکھا کہ ان کے ساتھ دو گھوڑے خالی ہیں۔ دن کا وقت تھا۔ گھوڑے قید خانے کے دروازے پر آکر رک گئے۔ ایک سوار نے حرن کی فوج کا جھنڈا بھی اٹھا رکھا تھا۔ یہ جھنڈا میدان جنگ میں سالار اعلیٰ کے ساتھ ہوتا تھا۔ ان سواروں میں ایک کمان دار تھا اور د وسرے دو سوار سپاہی تھے۔ وہ محافظ دستے کے معلوم ہوتے تھے۔ قید خانے کا داروغہ جو بڑے دروازے کی سلاخوں میں سے دیکھ رہا تھا۔ اس کمان دار کو جانتا تھا، وہ باہر آگیا۔ کمان دار سے پوچھا کہ وہ کیوں آئے ہیں؟

''بادشاہوں کے حکم نرالے ہوتے ہیں''… کمان دار نے کہا… ''شراب کے نشے میں ان سالاروں کو قید میں ڈال دیا جن کے بغیر فوج ایک قدم نہیں چل سکتی۔ اب حکم ملا ہے کہ دونوں کو قید خانے سے نکالا جائے''۔

 ''آپ دونوں سالاروں کو لینے آئے ہیں؟''… داروغہ نے پوچھا۔

''ہاں!'' کمان دار نے کہا… ''انہیں جلدی لے جانا ہے''۔

''آپ کے پاس قلعہ دار امیر گمشتگین کا تحریری حکم نامہ ہے؟''… داروغہ نے کہا… ''وہ تو کہیں باہر چلے گئے ہیں''۔

''میں وہیں سے آیاہوں''… کمان دار نے کہا… ''میں رات کو ہی آگیا تھا، انہیں اب تحریری حکم نامہ جاری کرنے کا ہوش نہیں رہا۔ ہماری فوج حلب اور موصل کی فوجوں کے ساتھ مل کر سلطان ایوبی پر حملہ کرنے جارہی ہے۔ ) اگر ہم نے وقت ضائع کردیا تو ایوبی حملہ کردے گا۔ خطرہ بڑھ گیا ہے۔ گمشتگین اسی سلسلے میں حلب گیاہے۔ اسے جو خطرہ نظر آرہا ہے، اس نے اس کے ہوش ٹھکانے کردئیے ہیں۔ اسے احساس ہوگیاہے کہ ان دو سالاروں کے بغیر وہ لڑ نہیں سکے گا۔ اس نے مجھے حلب کے راستے پر واپس دوڑا دیا کہ ان دونوں کو ان کے جھنڈے کے ساتھ پورے اعزاز سے لائو۔ اسی حکم کے تحت ہم ان کا جھنڈا اور گھوڑے لائے ہیں''۔

داروغہ اسے اندر لے گیا۔ دونوں سپاہی بھی ساتھ چلے گئے۔ وہ تہہ خانے میں گئے۔ سالار دو مختلف کوٹھڑیوں میں بند تھے۔ پہلے ایک سالار کو نکالاگیا۔ کمان دار نے اسے فوجی انداز سے سلام کرکے کہا… ''امیر حرن گمشتگین نے آپ کی رہائی کا حکم بھیجا ہے۔ آپ کا گھوڑا اور آپ کا ذاتی محافظ ہمارے ساتھ ہے۔ آپ کے لیے حکم ہے کہ تیار ہوکر فوراً حلب پہنچیں''۔

''معلوم ہوتا ہے شراب کا نشہ اتر گیا ہے''… سالار نے کہا۔

''میری حیثیت ایسی نہیں کہ آپ کی رائے کی تائید یا تردید کرسکوں''… کمان دار نے کہا… ''میرا کام حکم پہنچانے اور آپ کے ساتھ جانے تک محدود ہے''۔

داروغہ نے ان کی باتیں غور سے سنیں۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ کوئی گڑ بڑ نہیں لیکن دوسرے سالار کو نکالنے لگے تو داروغہ کو شک ہوگیا۔ اس سالار نے کمان دار کو دیکھا تو جذبات سے مغلوب ہوکر بولا… ''تم آگئے؟ سب ٹھیک ہے؟''… اس نے داروغہ کی موجودگی کو نظر انداز کردیا تھا۔ داروغہ اناڑی نہیں تھا۔ اس کی عمر قید خانے میں گزری تھی۔ اس نے کوٹھڑی کا تالا کھول دیا تھا۔ دروازہ کھلنا باقی تھا۔ اس نے تالا پھر چڑھا دیا اور بولا۔ ''تحریری حکم نامہ کے بغیر میں انہیں رہا نہیں کروں گا''۔

کمان دار نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ مارا اور اس سے چابی چھین لی۔ دو سپاہی جو سالاروں کے باڈی گارڈ بن کے آئے تھے، داروغہ کی پیٹھ کے ساتھ لگ گئے۔ دونوں نے خنجر نکال کر ان کی نوکیں اس کی پیٹھ پر رکھ دیں۔ کمان دار نے اسے سرگوشی میں کہا… ''تم سلطان صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار جانبازوں کے قبضے میں ہو۔ تم جانتے ہو سلطان ایوبی کے چھاپہ مار کیا کیا کرتے ہیں۔ اونچی آواز نہ نکلے''۔

کمان دار نے دروازہ کھولا۔ داروغہ کو دھکیل کر اس طرح کوٹھڑی میں لے گئے کہ قریب سے گزرنے والوں کو بھی شک نہیں ہوسکتا تھا کہ یہاں کوئی جرم ہورہا ہے۔ اندر لے جا کر اسے سلاخوں والے دروازے سے پرے کرلیا گیا۔ ایک سپاہی نے بڑی تیزی سے ایک رسی جو بمشکل پون گز لمبی تھی، اس کی گردن کے گرد لپیٹ کر رسی کو مروڑا اور دو تین جھٹکے دئیے۔ داروغہ کی آنکھیں باہر نکل آئیں۔ وہ ٹھنڈا ہوگیا تو اسے پتھر کے اس چوڑے بنچ پر ڈال دیا گیا جس پر قیدی سویا کرتے تھے۔ لاش پر کمبل ڈال دیا گیا۔ اس سالار نے بے موقع جذباتی ہوکر یہ مشکل پیدا کردی تھی۔

ان لوگوں نے باہر نکل کر دروازے پر تالا چڑھا دیا اور چابی اپنے ساتھ لے گئے۔ باہر کے دروازے کی چابیاں داروغہ کے پاس تھیں۔ وہ بھی اس سے چھین لی گئی تھیں۔ یہ پارٹی وہاں سے چلی۔ تہہ خانے سے اوپر آئی تو نیچے کے سنتری نے جاکر خالی کوٹھڑیوں کو دیکھنا چاہا۔ وہ دور سے دیکھ رہا تھا کہ قید خانے کا داروغہ دو قیدیوں کو رہا کررہا تھا۔ سنتری یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس نے دونوں قیدی سالاروں کو باہر جاتے دیکھا ہے لیکن ایک کوٹھڑی میں ایک قیدی پڑا ہے۔ اس پر چونکہ کمبل پڑا تھا، اس لیے وہ پہچان نہ سکا کہ وہ کون ہے۔ دوسری کوٹھڑی خالی تھی۔ اس نے کمبل میں لپٹے ہوئے قیدی کو آوازیں دیں مگر وہ نہ بولا۔ دروازہ مقفل تھا۔ سنتری نے سلاخوں میں سے برچھی اندر کی۔ اس کی نوک قیدی تک پہنچ گئی۔ اس نے نوک قیدی کو چبھوئی۔ وہ پھر بھی نہ اٹھا۔ برچھی سے اس نے کمبل ہٹا کر اس کا چہرہ ننگا کردیا۔ یہ دیکھ کر گھبرا گیا کہ وہ تو قید خانے کا داروغہ تھا۔ آنکھوں اور چہرے سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ مرا ہوا ہے۔

: اس نے وہیں سے چلانا شروع کردیا… ''خبردار، خبردار، قیدی نکل گئے''… وہ اوپر کو دوڑا۔ اس کی پکار پر نقارہ بجنے لگا۔ یہ الارم تھا۔ اس وقت فرار ہونے والی پارٹی بڑے دروازے پر پہنچ گئی تھی۔ سنتری دوڑا آرہا تھا۔ بڑے گیٹ کی چابیاں کمان دار کے پاس تھیں۔ انہوں نے قدم تیز کردئیے اور اندرونی تالے کو چابی لگائی۔ سنتری نے دور سے کہا… ''انہیں روک لو۔ داروغہ کوٹھڑی میں مرے ہوئے ہیں''۔

نقارے کی آواز پر قید خانے کے تمام سنتری اپنی اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گئے۔ باہر کی گارڈ دوڑی آئی۔ دروازہ کھول دیا گیا چونکہ یہ خطرے کا الارم تھا۔ اس لیے باہر سے آنے والی گارڈ کی نفری ٹریننگ کے مطابق بہت تیزی سے دروازے میں داخل ہوئی۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہوا کرتا تھا کہ قیدیوں نے بغاوت کردی ہوگی یا کہیں آگ لگ گئی ہوگی۔ وہ سنتری جو چیختا چلاتا آرہا تھا، باہر سے آنے والی گارڈ کے سیلاب میں گم ہوگیا۔ اس ہڑ بونگ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہونے والے باہر نکل گئے۔ گھوڑے باہر کھڑے تھے۔ وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے لیکن گھوڑے گھوم کر چلے تو کسی نے انہیں للکارا… ''رک جائو، مارے جائو گے''… انہوں نے گھوڑوں کو ایڑی لگادی۔ پیچھے سے ایک ہی بار تیروں کی بوچھاڑ آئی۔ دوتیر کمان دار کی پیٹھ میں اتر گئے اور ایک تیر ایک سالار کے گھوڑے کے پیچھے حصے میں لگا۔ کمان دار نے جسم میں دو تیر لے کر بھی اپنے آپ کو سنبھالے رکھا۔ سالار شمس الدین کا گھوڑا تیر کھا کر بدکا۔ شمس الدین نے اسے سنبھالنے کی کوشش کی اور اسے کمان دار کے گھوڑے کے قریب لے جاکر اس کے گھوڑے پر کود گیا۔ کمان دار آگے کو جھک گیا۔ شمس الدین نے اس کے ہاتھ سے باگیں لے لیں۔ پیچھے سے اور تیر آئے لیکن گھوڑوں کی رفتار اچھی تھی، زد سے نکل گئے۔

انہوں نے پیچھے دیکھا، قید خانہ دور رہ گیا تھا لیکن دس بارہ گھوڑ سوار ان کے تعاقب میں گھوڑے دوڑا چکے تھے۔ آگے علاقہ کھلا تھا۔ آبادی دوسری طرف تھی۔ فرار ہونے والوں نے گھوڑوں کو انتہائی رفتار پر ڈال دیا۔ ان کے پاس ہتھیاروں کی کمی تھی۔ دونوں سالار نہتے تھے۔ کمان شہید ہورہا تھا۔ وہ مقابلہ کرنے کی حالت میں نہیں تھا۔ آگے چٹانیں اور ٹیلے آگئے۔ ایک سالار نے کہا… ''بکھر جائو، اکیلے اکیلے ہوجائو''… وہ منجھے ہوئے سوار تھے۔ تعاقب کرنے والے ابھی دور تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ فرار ہونے والے ایک دوسرے سے دور دور ہوکر چٹانوں میں غائب ہوگئے ہیں۔ وہ سست پڑ گئے اور نکلنے والے نکل گئے۔

جاری ھے

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں