داستان ایمان فروشوں کی ۔124 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی ۔124




صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر124 سنت، سارہ اور صلیب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

کہ سارہ کو بخار نہیں۔'' تم نخلستان کا پھول ہو جو بادشاہوں کی خواب گاہوں میں آکر مزجھا جاتا ہے''۔ جیکب نے دل ہی دل میں سارہ سے کہا …… '' تم صبح کا ستارہ ہو جو سورج کی چمک سے بجھ جاتا ہے اور رات کو پھر چمک اُٹھتا ہے۔ تمہاری زندگی راتوں کے اندھیرے میں بیت رہی ہے۔ تمہاری قسمت اندھیرے میں لکھی گئی تھی …… تم مجھے کیوں اچھی لگتی ہو؟ مجھ سے بار بار کیوں پوچھتی ہو کہ میں نے چھ کلموں کا ذکر کیوں کیا تھا ؟ تم کسی مسلمان کی ماں کی کوکھ کی پیداوار تو نہیں؟ تمہاری رگوں میں کسی مسلمان باپ کا خون تو نہیں ؟ اس راز سے پردہ کون اُٹھائے؟ میں تمہارے لیے راز ہوں، تم میرے لیے راز ہو؟؟۔

جیکب کو یاد آیا کہ صلیبی فوج مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹتے رہتے ہیں۔ ان کی بچیوں کو اُٹھا لے جاتے ہیں اور انہیں اپنے رنگ میں رنگ کر جاسوسی اور بے حیائی اور رقص کی تربیت یتے ہیں۔ سارہ بھی شاید انہی بد نصیب لڑکیوں میں سے ہوگئی ، ورنہ یہ قوم احساسات اور جذبات کے لحاظ سے مردہ اور بے حیائی میں پوری طرح زندہ ہوتی ہے۔ جیکب بھول گیا کہ وہ کہاں کھڑا ہے ۔ کسی مرد کو ان کمروں میں آنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سارہ اُس کے دل میں ایسی اُتری تھی کہ وہ خطروںسے بے نیاز ہوگیا تھا ۔ اُس سے رہا نہ گیا ۔ اُس نے قندیل بھجا دی اور اس کے ساتھ ہی سارہ کی آنکھ کھل گئی ۔

جیکب کو اُس کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی …… '' کون ہو؟'' 

''جیکب ''

'' اس وقت یہاں کیوں آگئے ہو؟'' سارہ نے ایسے لہجے میں کہا جس میں محبت بھی تھی ، ہمدردی بھی ۔ '' کسی نے دیکھ لیا تو تم سیدھے قید خانے میں جائو گے ۔ مجھے باہر بلا لیا ہوتا ''۔

'' یہ پریشانی مجھے اس خطرے میں لے آئی ہے کہ تم بیمار ہو؟'' جیکب نے اندھیرے میں اُ س کے پلنگ پر بیٹھتے ہوئے کہا …… '' روشنی اس لیے گل کردی ہے کہ کوئی دیکھ نہ لے ۔ میں کسی اورنیت سے نہیں آیا سارہ! معلوم نہیں کیا کشش ہے جو مجھے یہاں لے آئی ہے۔ تمہیں بخار تو نہیں ؟'' 

''میری روح علیل ہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں تو جب بھی محفلوں اور ضیافتوں میں ناچتی ہوں ، میرا دل ساتھ نہیں ہوتا ۔ میرا جسم ناچتا ہے اورروح مر جاتی ہے ، مگر آج مجھے کہا گیا کہ موصل سے دو بڑے ہی اہم مہمان آرہے ہیں تو روح کے ساتھ میرا جسم بھی بے جان ہوگیا ۔ مجھے متلی آنے لگی اور سرچکرانے لگا ۔ مجھے اِن بادشاہوں کی جنگوں اور ان کے امن اور دوستی کے معاہدوں کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن میرے کانوںمیں جب یہ بات پڑی کہ موصل سے اہم مہمان آرہے ہیں تو مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے صلیبیوں اور مسلمانوں میں سے کسی ایک کے ساتھ میرا گہرا تعلق ہے۔ میں ابھی تک یہ نہیں سوچ سکی کہ میرا روحانی تعلق کس کے ساتھ ہے۔ صرف یہ احساس جاگ اُٹھا کہ میں اس محفل میں نہیں ناچ سکوں گی ۔ میں موصل کے مہمانوں کا سامنا نہیں کر سکوں گی یا وہ مجھے دیکھ کر وہاں سے بھاگ جائیں گے ''۔

''کیوں؟'' جیکب نے پوچھا …… ''موصل والوں کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟''

''میں بتا نہیں سکتی ''۔سارہ نے کہا …… '' میں تو اپنے آپ کو بھی یہ بتانے سے ڈرتی ہوں کہ موصل والوں کے ساتھ میرا کیا تعلق ہے''۔ 

'' سارہ!'' جیکب نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا …… '' تم اپنا مجھ سے کیوں چھپا رہی ہو؟ کیا تمہیں کسی قافلے سے اغوا کیا گیا تھا ؟ تم کس باپ کی بیٹی ہو؟'' 

سارہ کوئی جواب نہ دے سکی ۔ جیکب چونک اُٹھا۔ دونوں نے کھڑکی کی طرف دیکھا جو کھلی ہوئی تھی ، وہاں ایک سایہ کھڑا نظر آیا۔ سارہ نے جیکب کے کان میں سرگوشی کی …… '' پلنگ کے نیچے ہوجائو '' …… جیکب نے اندھیرے سے فائدہ اُٹھایا۔ آہستہ سے سرک کر فرش پر بیٹھا اور آواز پیدا کیے بغیر پلنگ کے نیچے چلا گیا ۔ سارہ لیٹ گئی۔ 

'' سارہ !'' کھڑکی کے ساتھ کھڑے سائے کی آواز آئی۔ یہ ایک بوڑھی عورت کی آواز تھی جو بعض راتیں ناچنے گانے والیوں کو دیکھا کرتی تھی کہ کوئی لڑکی غیر حاضر تو نہیں ۔

اُس کی آواز پر سارہ نہ بولی۔ عورت نے اُسے ایک اور آواز دی ۔ سارہ پھر بھی نہ بولی۔ عورت نے تحکمانہ لہجے میں کہا …… '' سارہ تم سوئی ہوئی نہیں ہو ۔ مجھے جواب دو ۔ قندیل کیوں بجھی ہوئی ہے؟''

سارہ نے منہ سے ایسی آوا ز نکالی جیسے ہڑبڑا کر جاگ اُٹھی ہو۔ گھبراہٹ کی اداکاری کرتے ہوئے بولی ۔ '' کون ہو؟ کیا ہو گیا ہے؟''

 '' میں اُدھر آکر بتاتی ہوں''۔ عورت کا سایہ کھڑکی سے ہٹ گیا ۔ وہ دروازے کی طرف سے آنا چاہتی تھی ۔ سارہ نے جھک کر جیکب سے کہا …… '' وہ دوسری طرف سے آرہی ہے ، باہر آئو اور کھڑکی سے کود جائو''۔

'' نہیں سارہ!'' جیکب نے پلنگ کے نیچے سے نکل کر کہا …… '' میں اسے جانتا ہوں ، آنے دو اسے ۔ میں اس کی مٹھی گرم کردوں گا تو خاموشی سے چلی جائے گی ''۔

''یہ خبیث عورت ہے''۔سارہ نے کہا …… '' یہ درپردہ لڑکیوں کی دلالی کرتی ہے۔ تم فوراً نکلو یہاں سے ، ورنہ میرا جھوٹ مجھے مروا دے گا ۔ میں اسے سنبھال لوں گی ''۔

وہ عورت ابھی دروازے تک آئی ہی تھی کہ جیکب کھڑکی سے باہر کود گیا ۔سارہ نے قندیل جلا دی ۔ عورت اندر آئی۔ جسم کے لحاظ سے وہ عورت کم اور مردزیادہ تھی ۔ وہ سارہ پر برس پڑی۔سارہ نے اُسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ اس کمرے میں اور کوئی نہیں تھا اور شاید خواب میں بول رہی ہوگی۔ عورت نے اُسے کہا کہ خواب میں عورت کی آواز مرد جیسی بھاری نہیں ہوجایا کرتی۔

'' یہ کیا ہے؟'' عورت نے جھک کر پلنگ کے قریب فرش پرگرا ہوا ایک رومال اُٹھایا۔یہ گزبھرلمبا اور اتنا ہی چوڑا کپڑا تھا جو مرد گرمی سے بچنے کے لیے سر پر ڈال لیا کرتے تھے ۔'' یہ کس کا ہے؟ یہ اُس کا ہے جو تمہارے پاس آیا بیٹھا تھا ۔ وہ کون تھا ؟ تم نے اُس سے کتنی رقم لی ہے؟'' 

'' میں عصمت فروش نہیں ''۔ سارہ نے غصے سے کہا …… '' میں رقاصہ ہوں۔ تم جانتی ہو، میں کسی مرد کو منہ نہیں لگاتی ''۔

'' سنو سارہ!'' عورت اُس کے پاس بیٹھ گئی اور اُس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر شفقت سے بولی …… '' یہ تو میں بھی جانتی ہوں کہ تم رقاصہ ہو مگر تم یہ نہیں جانتی کہ رقاصہ فوج کی جرنیل یا شہر کی حاکم نہیں ہوا کرتی۔ میں اتنی سی بات کہہ دوں گی کہ تمہارے پاس رات کو آدمی آیا تھا وہ تمہیں بیروت کے کسی انتہائی گھٹیا قحبہ خانے میں بیچ ڈالیں گے یا تمہیں قید میں ڈال دیں گے۔ اس نشے میں بات نہ کرو کہ تم شاہی رقاصہ ہو۔ یہاں تمہارا کوئی مقام نہیں ''۔

''تم مطلب کی بات کرو''۔سارہ نے کہا…… '' تم مجھ پر جو مہربانی کرنا چاہتی ہو، اُس کا معاوضہ کیا لوگی ؟ میں ابھی ادا کردیتی ہوں''۔

'' میں تم سے کچھ بھی نہیں لوں گی''۔ عورت نے کہا ۔ '' میں کسی اور سے معاوضہ وصول کروں گی۔ تمہاری ہاں کی ضرورت ہے''۔

سارہ اُس کا مطلب سمجھ گئی۔ باہر سے شاہی مہمان آتے ہی رہتے ہیں ۔ ان میں عیسائی بھی ہوتے تھے، مسلمان بھی ۔ شاہی حیثیت کے مہمانوں کی خاطر تواضع کے لیے لڑکیاں موجود رہتی تھیں لیکن اُس کے ساتھ جو عملہ آتا تھا، انہیں اس قسم کی عیاشیاں مہیا نہیں کی جاتی تھیں۔ یہ عورت ان لوگوں سے مل کر اُن کے پاس لڑکیاں بھیجا کرتی اور منہ مانگا معاوضہ وصول کرتی تھی ۔ یہ اُس کا خفیہ کاروبار تھا ۔ بعض شاہی مہمان ایسے ہوتے تھے جو سرکاری طور پر دی ہوئی لڑکی سے مطمئن نہیں ہوتے تھے۔ یہ عورت درپردہ محل کے ایک دو ملازموں کے ذریعے اُن کی یہ ضرورت پوری کرتی اور انعام لیتی تھی۔ سارہ اُس کے ہاتھ کبھی نہیں آئی تھی مگر اب یہ لڑکی اُس کے جال میں آگئی ۔ وہ اگر بتاتی کہ اُس کے پاس جیکب آیا تھا اور اُس کے ساتھ اس کا تعلق پاک ہے تو یہ عورت کبھی یقین نہ کرتی اور دوسرا ظلم یہ ہوتا کہ جیکب کو قید میں ڈال کر بڑی ہی ظالمانہ اذیتیں دے دے کر ماردیا جاتا۔

''سارہ!'' عورت نے کہا …… '' اگر اپنے ہولناک انجام سے بچنا چاہتی ہو تو میری بات مان لو۔ باہرسے دو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ بہت دولت مند ہیں ۔ پرسوں سے دو ملازموں سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں اچھی قسم کی لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ یہ دراصل اُن کی عادت ہے۔ اپنے ہاں حرموں میں بیس بیس تیس تیس لڑکیاں جمع کیے رکھتے ہیں ۔ یہاں بھی چاہتے ہیں کہ ان کے کمروں میں لڑکیوں کی چہل پہل لگی رہے۔ کل تم اِن میں سے ایک پاس چلی جانا''۔

''کون ہیں وہ؟'' سارہ نے پوچھا …… '' اگر مسلمان ہیں تو میں اُن کے پاس نہیں جائوں گی ''۔

'' تو قید خانے میں جائو''۔ عورت نے کہا …… '' ہوش میں آئو۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ تم کیا ہو۔ اپنے پیشے کو دیکھو۔ شریف بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہ دِل کھول کر انعام دیں گے جس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا ''۔ے

'' اور پکڑے گئے تو؟''

'' تو قید خانے میں جائو''۔ عورت نے کہا …… '' ہوش میں آئو۔ اپنے آپ کو دیکھو۔ تم کیا ہو۔ اپنے پیشے کو دیکھو۔ شریف بننے کی کوشش نہ کرو۔ وہ دِل کھول کر انعام دیں گے جس میں تمہارا حصہ بھی ہوگا ''۔ے

'' اور پکڑے گئے تو؟''

'' میں پکڑنے والوں کا منہ بندرکھا کرتی ہوں''۔ عورت نے کہا …… '' کل رات تیار رہنا۔ اب تم سے بالکل نہیں پوچھوں گی کہ ابھی ابھی تمہارے پاس کون آیا تھا ''۔

عورت چلی گئی۔ سارہ کے آنسو بہنے لگے۔

جیکب بھاگنے والا آدمی نہیں تھا لیکن وہ اس ڈر سے نکل گیا کہ سارہ کی مصیبت آجائے گی۔ اُسے اُمید تھی کہ سارہ اسی غلیظ دُنیا کی لڑکی ہے، وہ اس عورت کو سنبھال لے گی۔ وہ شہر کی طرف چلا جا رہا تھا ۔ اس کے ذہن پر سارہ چھائی ہوئی تھی۔ سارہ سے اُسے دلی محبت ہوگئی تھی اور سارہ اس کے لیے معمہ بھی بن گئی ۔ اُسے رہ رہ کر یہی خیال آرہا تھا کہ سارہ کسی مسلمان باپ کی بیٹی ہے …… وہ چلتے چلتے شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں داخل ہوگئی۔ گلیوں کے موڑ مڑتا ایک مکان کے سامنے رُکا اور دروازے پر دستک دی ۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھلا۔

''کون؟''

''حسن ''۔ جیکب نے جواب دیا ۔

'' اتنی رات گئے؟'' دروازہ کھولنے والے نے پوچھا۔ '' فوراًاندر آجائو ۔ کسی نے دیکھا تو نہیں ؟''

''نہیں''۔ جیکب نے جواب دیا …… ''کافروں کی ضیافت سے ابھی فارغ ہوا ہوں۔ ایک ضروری اطلاع لایا ہوں''۔

وہ اندرچلا گیا ۔ دروازہ بند ہوگیا۔ اب وہ جیکب نہیں بلکہ حسن الادریس تھا۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کاجاسوس تھا ۔ اس نے ایک سال پہلے اپنے آپ کو ایک عیسائی ظاہر کرکے اور نام گلبرٹ جیکب بناکر صلیبی فوج میں ملازمت کرلی تھی ۔ گورے رنگ کا جوان تھا ۔ ٹریننگ کے مطابق وہ اداکاری اور چرپ زبانی کاماہر تھا ۔ اس کی شکل و صورت اور دراز قد کی بدولت اُسے محل کی خصوصی ڈیوٹی کے لیے منتخب کرلیا گیا تھا ۔ یہاں سے وہ قاہرہ کوخبریں بھیجتا رہتا تھا ۔ اس کے گروہ کا لیڈر حاتم اس مکان میں رہتا تھا جس میں داخل ہوگیا تھا ۔

'' موصل کے دو ایلچی بالڈون کے پاس آئے ہیں '' ۔ حسن نے اپنے لیڈر کو بتایا …… '' میں نے یقین کر لیا ہے کہ یہ دونوںموصل سے آئے ہیں اور دونوں مسلمان ہیں ۔ انہیں بالڈون اپنے کمرے میں لے گیا تھا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والئی موصل عزالدین کا کوئی پیغام لے کر آئے ہیں ''۔

'' اور یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف معاہدے کا پیغام ہوگا ''۔ لیڈر نے کہا …… '' یہ معلوم کر لیا ہے کہ ان کے درمیان کیا طے پایا ہے؟ سلطان ابھی تک اس دھوکے میں ہیں کہ عزالدین اور عمادالدین ہمارے دوست ہیں یا کم از کم ہمارے خلاف نہیں لڑیں گے''۔

'' ان کی بات چین بند کمرے میں ہوئی ہے''۔ حسن نے کہا …… '' میرا خیال ہے کو جو کچھ طے ہونا تھا ، ہوچکاہے۔ میں نے ان میں سے ایک ساتھ بات کی تھی ۔ وہ بہت خوش نظر آرہا تھا ۔ بدبخت نے شراب اس قدر پی لی تھی کہ اس نے نشے میں مجھے بڑا صاف اشارہ دے دیا کہ وہ دونوں مسلمان ہیں اور موصل سے آئے ہیں۔ مجھے کہتا تھا کہ وہ ہماری یعنی صلیبیوں کی محبت دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ پائوں پر کھڑا نہ ہوسکا اور گر پڑا''۔

'' ہم سلطان کو صرف یہ اطلاع بجھوائیں کہ بیروت میں موصل کے دو آدمی آئے تھے، کافی نہیں ''۔ حاتم نے کہا ……'' ہم اپنے سلطان سے بہت شرمسار ہیں کہ اُن تک ہماری یہ اطلاع نہیں پہنچ سکی کہ بیروت کو محاصرے میں لینے کا منصوبہ ترک کردیں ، کیونکہ بالڈون کو اس منصوبے کی اطلاع قاہرہ سے مل گئی ہے''۔

''اس میں ہمارا کوئی قصور نہ تھا ''۔حسن نے کہا ۔ '' اسحاق ترک برقت ورانہ ہوگیا تھا۔ وہ دھوکہ دینے والا آدمی نہیں تھا ۔ وہ راستے میں صحرا کا شکا ر ہوگیا یا پکڑا گیا ہوگا''۔

'' بیروت کے محاصرے میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا جو نقصان ہوا ہے۔ ہمیں اس کا ازالہ کرنا ہے''۔ حاتم نے کہا…… '' اُن کے لیے یہ خبر بہت اہم ہے کہ موصل والے بیروت والوں کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرر ہے ہیں لیکن ہمیںپوری اطلاع دینی چاہیے کہ معاہدے میں کیا کیا شرائط طے ہوئیں اور کیا منصوبہ بنا ہے۔ اس وقت سلطان بہت بڑے خطرے میں بیٹھے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہوں گے کہ وہ دوستوں کے درمیان محفوظ ہیں لیکن وہ دراصل دشمنوں کے گھیرے میں پڑائو ڈالے ہوئے ہیں ''۔ حاتم نے حسن سے پوچھا …… '' محل میں تم کوئی ایسا ذریعہ پیدا نہیں کر سکتے جو اندر کی باتیں بتا سکے ؟''۔

''باتیں بند کمرے میں ہوئی ہیں ''۔ حسن نے جواب دیا …… '' بالڈون یا اس کے مشیروں اور سالاروں سے تو پوچھا نہیں جاسکتا ۔ ان دونوں آدمیوں کے سینے سے راز نکالنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جو موصل سے آئے ہیں۔ میں ذریعہ پیدا کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اگر نہ ہوا تو دوسرا طریقہ اختیار کریں گے ۔ یہ جب واپس جائیں گے تو انہیں راستے سے اغوا کر لیا جائے گیا یا ضرورت پڑی تو ختم کردیا جائے گا ''۔

'' انہیں ختم کرنے سے ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوگا''۔ حاتم نے کہا …… '' ہمیں بالڈون اور عزالدین کے منصوبے کی ضرورت ہے''۔

'' میری یہی کوشش ہوگی ''۔ حسن نے کہا …… '' اگر منصوبہ نہ ملا تو دونوں کو سلطان ایوبی کے پاس پہنچا دیا جائے گا''۔

'' اگر انہیں قتل کرنا ہوا تو وہ میں یہیں سے کراسکتا ہوں''۔ حاتم نے کہا …… '' جس قدر جلدی ہوسکے ، مجھے بتائو کہ تم مطلوبہ معلومات حاصل کرسکتے ہو یا نہیں۔ میں صبح ایک آدمی کو سلطان کو یہ خبر دینے کے لیے روانہ کردوں گا کہ بالڈون کے پاس عزالدین کے ایلچی آئے ہیں اور ان کے درمیان کوئی معاہدہ ہوگیا ہے ، تاکہ سلطان اس خوش فہمی میں نہ پڑے رہیں کہ عزالدین اُن کا دوست ہے۔ تم بہت تھوڑے وقت میں مکمل اطلاع حاصل کرنے کی کوشش کرو': ''۔

'' میری کامیابی کے لیے دُعا کریں ''۔ حسن اُٹھا اور باہر نکل گیا ۔

٭ ٭ ٭

'' صلیبی چھاپہ ماروں کو زندہ پکڑنے کی کوشش کرو''۔ سالار صارم مصری نے اپنے چھاپہ مار دستوں کے کمانداروں کو ہدایات دے رکھی تھیں …… '' لیکن پانی جان کو خطرے میں نہ ڈالو جہاں حملہ کرو، وہاں کاری ضری لگا ئو اور نکلنے کی کوشش کرو اور جب تم پر حملہ ہو تو جم کر لڑرو اور دشمن کو نکلنے نہ دو ۔ یہ اتنی زیادہ فوج تمہارے بھروسے پر آرام کی نیند سوتی ہے اور اتنی زیادہ رسد تمہاری ذمہ داری پر پڑی ہے''۔

چھاپہ ماروں کو اپنی ذمہ داری کا پورا پورا احساس تھا ۔ سلطان ایوبی نے خیمہ گاہ سے دُور چٹانوں اور بلند جگہوں پر بیس سے چالیس کی نفری کی چوکیاں قائم کر رکھی تھیں جن کے ذمے دیکھ بھال اور خیمہ گاہ کی حفاظت تھی ۔ ایسی ہی ایک چوکی جو پہاڑیوں میں گھری ہوئی ایک چٹان پرتھی دشمن کے تیروں کا نشانہ بنی ہوئی تھی ۔ اس کے پیچھے اونچی پہاڑیاں تھیں اور ایک وادی ۔ اس میں وادی میں سے فوج گزر سکتی تھی ۔ اس ڈھکی چھپی گزرگاہ پر نظر رکھنے کے لیے یہ چوکی قائم کی گئی تھی ، وہاں دو سوار گھوڑوں کے ساتھ ہر وقت تیار رہتے تھے، وہاں روز مرہ کا معمول بن گیا تھا کہ سورج غروب ہونے کے بعد تین چار تیر آتے اور دو سپاہیوں کو ختم کر دیتے ۔ ایک شام ایک گھوڑے کو بیک وقت تین تیر لگے اور گھوڑا تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ تیر قریب کی پہاڑی سے آتے تھے۔ اس کے فوراً بعد اندھیرا چھا جاتا تھا ، اس لیے تیر چلانے والوں کو ڈھونڈا نہیں جا سکتا تھا ۔

ایک روز شام سے پہلے چوکی کے دو سپاہی پہاڑی پر کہیں چھپ کر بیٹھ گئے ۔ سورج غروب ہونے کو تھا ۔ دو تیر آئے ، دونوں اِن سپاہیوں کی پیٹھوں میں لگے۔ دونوں شہید ہوگئے۔ صبح اُن کی اَدھ کھائی ہوئی لاشیںاُٹھائی گئیں۔ رات کو بھڑئیے لاشوں کو کھاتے رہے تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ صلیبی چھاپہ ماروں کا کام ہے۔ ایک روز دس سپاہیوں کا ایک گشتی جیش علاقے کی تلاشی کے لیے بھیجا گیا ۔ پہاڑی علاقوں میں جا کر چار چار افراد میں تقسیم ہوکر بکھر گئے۔ ایک جگہ دس بارہ سال کی عمر کا ایک بچہ نظر آیا۔ وہ سپاہیوں کو دیکھ دوڑ پڑااور ایک بلندچٹان کے دامن میں غائب ہوگیا۔ وہ گڈریا ہو سکتا تھا لیکن وہاں کوئی بھیڑ بکری اور کوئی اونٹ نہیں تھا۔ سپاہی وہاںتک گئے تو انہیں چٹان میں تنگ سا ایک دہانہ نظر آیا جو کسی غار کا تھا ۔ بچہ اِسی میں چلا گیا ہوگا۔

سپاہیوں نے دہانے کے ساتھ کان لگائے تو اندر سے دھیمی دھیمی آواز سنائی دی ۔ کسی بچے کا غار میں چھپ جانا کوئی عجیب بات نہیں تھی ۔ یہ سپاہی اس بچے سے صلیبی چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بہت پکارا لیکن غار میں خاموشی چھاگئی۔ سپاہیوں نے دھمکی دی کہ جو کوئی اندر ہے، باہر آجائے ، ورنہ ہم اندر آکر سب کو قتل کر دیں گے۔ اندر سے ایک جوان عورت نکلی۔ وہ اس علاقے کی زبان میں سپاہیوں کو کوسنے لگی۔ پھر روپڑی اور کہا کہ مجھے قتل کردو ، میرے بچوں کو بخش دو۔ اُس کے دو بچے تھے۔ ایک دس بارہ سال کا جو باہر سے دوڑا تھا اور دوسرا چند مہینوں کا تھا جو اِس عورت نے اندر سلایا ہوا تھا ۔

سپاہیوں نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان سپاہی ہیں مگر عورت انہیں گالیاں دینے لگی اور منت سماجت بھی کرنے لگی۔ اس نے بتایا کہ دور روز ہوئے اس کے گائوں میں پندرہ سولہ صلیبی سوار آئے اور گائوں پر قبضہ کرلیا …… انہوں نے تمام گھروں کی تلاشی لی ۔ اس عورت کے خاوند کو قتل کردیا۔ قتل اس طرح کیا کہ انہوں نے گائوں کے تمام بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور تمام عورتوں کو ایک جگہ اکٹھا کرکے کہا کہ کسی کو پتہ نہ چلنے دیںکہ اس گائوں میں سپاہی رہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی اور گھوڑوں کی خوراک کی ذمہ داری گائون پر ڈال دی ۔ ان کے کماندار نے تلوار نکال لی۔ اس عورت کا خاوند سب سے آگے کھڑا تھا ۔ کماندار نے خاوند کو بازو سے پکڑکر آگے کیا اور تلوار کے ایک ہی وار اُس کا سر تن سے جدا کردیا۔ اُس نے گائوں والوں سے کہا کہ کسی نے اُن کے حکم کی نافرمانی کی تو اُسے ایسی سزا ملے گی۔

ان سپاہیوں نے اپنے لیے تین جھونپڑے خالی کرالیے اور گائوں کی عورتوں کو بلا کر اُن سے خدمت خاطر کرانے لگے۔ یہ عورت رات کو موقعہ پا کر وہاں سے بھاگ آئی۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ سپاہی ابھی تک گائوں میں موجود ہیں یا نہیں۔ یہ گائوں وہاں سے تھوڑی ہی دُور تھا۔ سپاہی عورت کو وہیں چھوڑ کر گائوں کی طرف گئے۔ پہاڑی سلسلہ کھل جاتا تھا، وہاں وسیع میدان تھا جس میں پندرہ بیس جھونپڑوں کا ایک گائوںتھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کا گشتی جیش گھوڑوں پر سوار تھا۔ انہوں نے گائوں پر یلغار کرنے کے لیے گھوڑے دوڑا دئیے۔ اُس وقت صلیبی پاہی جو گائوں پر قابض تھے ، گائوںمیں موجود تھے۔ انہوں نے شاید پہرہ کھڑا کر رکھا تھا۔ گھوڑسوار ابھی گائوں سے کچھ دُور ہی تھے کہ تمام صلیبی سپاہی باہر آگئے اُن کے آگے چند ایک بچے او عورتیں تھیں۔

: ۔ انہوں نے بچوں اور عورتوں کو ایک جگہ اکٹھے کرکے کھڑا کردیا اور خود ننگی تلواریں ہاتھوں میں لے کر اُن کے نیم دائرے میں کھڑے ہوگئے۔ ایک نے سلطان ایوبی کے سواروں سے مخاطب ہو کر چلا کر کہا …… '' اگر تم آگے آئو گے تو ہم اِن بچوں اور عورتوں کو قتل کر دیں گے ''۔ 

سوار بیس پچیس قدم دُور رُک گئے۔ وہ مسلمان بچوں اور عورتوں کو صلیبیوں کے ہاتھوں قتل نہیں کرانا چاہتے تھے۔ 

'' بزدلو!'' …… سلطان ایوبی کے چھاپہ مار جیش کے کماندار نے کہا …… '' صلیب کی خاطر لڑنے آئے ہو تو مردوں کر طرح سامنے آکر لڑو۔ عورتوں اور بچوں کی ڈھال کے پیچھے کیوں کھڑے ہو''۔

'' تم سب واپس چلے جائو''…… صلیبی کماندار نے کہا …… '' ہم گائوں سے چلے جائیں گے''۔

جن بچوں اور عورتوں کو صلیبی سپاہیوں نے یرغمال بنا رکھا تھا ، ان میں سے ایک عورت نے سلطان ایوبی کے سپاہیو ں سے بلند آواز سے کہا …… '' اسلام کے سپاہیو! رُک کیوں گئے ہو۔ ہمیں اپنے گھوڑوں تلے روند ڈالو۔ ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ جانے دو۔ ہم اپنے بچوں سمیت مرنے کو تیار ہیں ''۔

صلیبی کمان دار نے تلوار کا بھرپوروار کیا۔ اس عورت کا سر اس کے جسم سے کٹ کر گر پڑا۔ سلطان ایوبی کے گشتی جیش نے اپنے سپاہیوں کو تیروکمان نکالنے کا حکم دیا ۔ پلک جھپکتے انہوں نے کمانیں کندھوں سے اُتاردیں، آگے کیں اور ترکشوں سے ایک ایک تیر نکال کر کمانوں میں ڈال لیا ۔ تم صلیبی سپاہی بچوں اور عورتوں کے پیچھے بیٹھ گئے۔

'' جھوٹے مذہب کے پجاریو!'' …… مسلمان کمان دار نے کہا …… '' سپاہی بچوں اور عورتوں کی پیٹھ پیچھے نہیں چھپا کرتے ''۔

صلیبی ایک غلطی کر بیٹھے تھے۔ وہ شاید بھول گئے تھے کہ گائوں میں مرد بھی ہیں ۔ ان مردوں کو صلیبیوں نے بہت خوفزدہ کر رکھا تھا ۔ وہ بھی اپنے بچوں اور عورتوں کے قتل سے ڈرتے تھے۔ اتنے میں ایک عورت نے للکار کر کہا …… '' یہ کافر تو بزدل ہیں، تم ہمارے خون سے کیوں ڈرتے ہو''…… اس نے اپنے سامنے کھڑے تین چار سال کے بچے کو اُٹھایا اور اُسے آگے زمین پر پھینک کر کہا …… '' میں اپنے اس بچے کی قربانی خوشی سے دیتی ہوں۔ہلّہ بولو۔ دس کافروں کی جان لینے کے لیے میں اپنا بچہ قربان کرتی ہوں''۔

'' ایک صلیبی تلوار نے سونتے اس عورت کو قتل کرنے کو اُٹھا مگر اسے اتنی مہلت نہ ملی۔ ان کے عقب سے گائوں کے تمام آدمی برچھیاں، لاٹھیاں اور جو ہاتھ لگا اُٹھائے صلیبی سپاہیوں پر ٹوٹ پڑے۔ صلیبی بچوں اور عورتوں کے پیچھے تیروں سے بچنے کے لیے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جب مقابلے کے لیے اُٹھے، مسلمان سپاہیوں نے ہلہ بول دیا ۔ ان میں دو تین سپاہی چلا رہے تھے ۔ '' عورتیں نکل بھاگیں ، بچوں کو ایک طرف کرلو''۔

ان کے گھوڑے صحرائی آندھی کی طرح آرہے تھے۔ عورتوں نے بچوں کو اُٹھایا اور نکل بھاگیں۔ گائوں کے آدمی گھوڑوں سے بچنے لگے۔ ذرا سی دیر میں دو صلیبیوں کے سوا باقی تمام کو مار ڈالا گیا۔ گائوں والوں نے اُن کی لاشوں کا قیمہ بنا دیا ۔ وہ دو زندہ صلیبیوں کو بھی اپنے ہاتھوں مارنا چاہتے تھے لیکن مسلمان جیش کے کماندار نے بڑی مشکل سے انہیں سمجھایا کہ ان دونوں سے باقی ساتھیوں کا سراغ لگایا جائے گا۔

ان دونوں کو سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کے نائب سربراہ حسن بن عبد اللہ کے حوالے کر دیا گیا ۔ اس نے اِن سے کہا کہ وہ اپنے چھاپہ مار دستوں کے متعلق سب کچھ بتا دیں۔ وہ سپاہی تھے۔ انہوں نے سب کچھ بتا دیا۔ یہ بالڈون کی فوج کے چھاپہ مار تھے۔ کم و بیش ایک ہزار چھاپہ مار سلطان ایوبی کی فوج اور رسد کو نقصان پہنچانے کے لیے بیروت سے بھیجے گئے تھے ۔ ان کا ابھی کوئی مستقل اڈہ نہیں تھا ۔ وہ تمام علاقے میں پارٹیوں میں تقسیم ہو گئے تھے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ اسی طرح طرح چھوٹے چھوٹے گائوں پر قبضہ کرکے وہاں سے خوراک حاصل کریں اور سلطان ایوبی کی فوج کے لیے مصیبت بنے رہیں۔ 

انہیں سلطان ایوبی کے سامنے لے جایا گیا۔ اُس نے ان کی باتیں سنیں اور حکم دیا …… '' اِن دونوں کو دُور لے جاکر قتل کردیا جائے۔ یہ قاتل اور لٹیرے ہیں ''…… اس نے اپنے سالاروں سے کہا …… '' اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صلیبی چھاپہ ماروں کو موصل میں یا کسی اور قلعے میں رہنے کی اجازت نہیں ملی ورنہ گائوں کو اڈے نہ بناتے'' ۔ سلطان ایوبی نے حکم دیا …… '' ایسے ہر ایک گائوں میں تھوڑی تھوڑی نفری بھیج دو ۔ سپاہیوں کو سختی سے کہنا کہ گائوں میں کسی کو پریشان نہ کریں۔ اپنی اور گھوڑوں کی خوراک فوج کی رسد سے لیں۔ کسی گائوں سے اناج کا ایک دانہ اور چارے کا ایک تنکا بھی نہ لیا جائے ''۔

٭ ٭ ٭

: حسن حاتم کو رپورٹ دے کر واپس آیا تو وہ باقی رات سو نہ سکا۔ اُس کے ذہن پر سارہ سوار تھی ۔ اُسے دن کو ہی پتہ چل گیا تھا کہ سارہ کو اس عورت نے پکڑ لیا تھا ۔ اس کی اسے کوئی سزا تو نہیں ملی ؟ حسن کو معلوم تھا کہ وہ عورت کون ہے لکین اس عورت سے مل کر وہ سارہ کی سفارش نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ اُسے بتا نہیں سکتا تھا کہ رات سارہ کے کمرے میں وہی تھا۔ حسن یہ بھی سوچ رہا تھا کہ وہ موصل کے ایلچیوں سے کس طرح معلوم کرے کہ بالڈون کے ساتھ انہوں نے کیا معاہدے طے کیا ہے ۔ یہ راز انہی سے لیا جا سکتا تھا ۔ اس اجلاس میں کوئی ملازم اندر نہیں تھا جس سے حسن کچھ معلوم کرلیتا۔ وہ جس قدر ذہن پر زور دے کر اس مسئلے کا حل ڈھونڈتا تھا ، سارہ اتنی ہی زیادہ اُس کے ذہن پر غالب آتی جا رہی تھی ۔

'' سارہ!'' …… اُس کے منہ سے سرگوشی نکل گئی جو غیر ارادی تھی ۔ اس سے وہ چونک اُٹھا ۔ اسے کچھ ایسا اطمینان ہونے لگا جیسے اس مسئلے کا حل مل گیا ہو اور سارہ اس مسئلے کو حل کردے گی۔ اسے یہ سوال پریشان کرنے لگا …… '' کیا سارہ کسی مسلمان باپ کی بیٹی ہے؟'' …… اور دوسرا سوال یہ کہ اسے اگر اپنا بچپن یاد آجائے تو کیا وہ اس کا مسئلہ حل کر سکتی ہے؟ اس کا یہی ایک ذریعہ تھا کہ سارہ موصل کے کسی ایک ایلچی کو اپنا گرویدہ بنالے اور اُس پر شراب اور اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسکے سینے راز نکال لیے مگر سوال یہ تھا کہ سارہ مان جائے گی ؟ کہیں اسے ہی نہ پکڑوادے۔

جاسوسوں کو خطرے مول لینے پڑتے ہیں ۔ حسن کو اپنی زبان کے فن کا کمال دکھانا تھا ۔ اسے سارہ کی باتیں یاد آرہی تھیں جن سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ مسلمانوں کو پسند کرتی ہے۔ حسن کہ یہ بھی احساس ہوگیا تھا کہ سارہ کو شک ہوگیا ہے کہ وہ (حسن )مسلمان ہے۔ حسن کادماغ سوچ سوچ کر تھک گیا ۔ اسے دُور سے صبح کی اذان کی آوازسنائی دینے لگی۔ اُس کے دماغ پر اسلام اور خدا کا تقدس طاری ہوگیا۔ اس کی مدد خدا ہی کر سکتا تھا ۔ اس نے اُٹھ کر وضو کیا اورکمرے کا دروازہ بند کرلیا ۔ صلیبیوں کی ا س دنیا میں وہ مسلمان نہیں عیسائی تھا ۔ حسن الادریس نہیں گلبرٹ جیکب تھا ۔ وہ چھوٹے سے کمرے میں اکیلا رہتا تھا جہاں اُس نے حضرت عیسٰی کا بت صلیب کے ساتھ لٹکا رکھا تھا ۔ دیوار کے ساتھ کسی مصور کی بنائی ہوئی مریم کی تصویر آویزاں کر رکھی تھی ۔ قریب ہی صلیب لٹک رہی تھی ۔ اُس نے یہ بُت ، تصویر اور صلیب پلنگ کے نیچے رکھ دی ۔ دروازے کے اندر والی زنجیر چڑھا کر قبلہ رُو ہوا اور نماز پڑھنے لگا۔ وہ ہر روز اسی طرح چھپ کر نماز پڑھا کرتا تھا مگر اس کی جذباتی حالت کبھی ایسی نہیں ہوئی تھی جیسی اس صبح کی نماز میں ہوئی۔ اُس نے آنسو نکل آئے۔ اس کے منہ سے یہ الفاظ (تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ) بلند آواز سے نکل گئے تھے ۔ اُسے پہلی بار محسوس ہوا۔ جیسے خدا اُس کے سامنے کھڑا ہے اور اتنی قریب کھڑا ہے کہ وہ خدا کو چھو سکے گا۔ اس نے نماز ختم کرکے دو نفل پڑھے اوردُعا کے لیے ہاتھ اُٹھائے ۔ اُس کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اُس کی زبان سے الفاظ اس کے سوچے بغیر پھسلنے لگے …… '' قبلہ اوّل کے خدا! آج تیرا نام لینے والے ، تیرے رسول ۖ کاکلمہ پڑھنے والے مسلمان اُن انسانوں کے ڈر سے تیری مسجدِ اقصٰی میں تیرے حضور سجدہ کرنے سے ڈرتے ہیں ۔ جو تیرے رسول ۖ کے منکر ہیں ۔ آج تیرا قبلہ اوّل ویران ہوگیاہے۔ جو زمین تیرے رسول ۖ کے قدموں سے مقدس اور مبارک ہوئی تھی ، اس پر آج صلیب کا سیاہ سایہ پڑ گیا ہے جس بنی اسرائیل کو تیر ذات نے دھتکار دیا تھا ، وہ آج تیرے قبلہ اوّل کو ہیکل سلیمانی کہہ رہی ہے…… 

'' میرے خدا ! اپنی عظمت کا پتہ دے۔ مجھے بتا تو عظیم ہے یا خدائے یہود۔ مجھے بتا حضرت عیسٰی علیہ السلام تیرے پاس ہیںیا صلیبیوں کی صلیب پر لٹک رہے ہیں ۔ اپنی عظمت کا پتہ دے۔ قرآن کی عظمت کا پتہ دے۔ اپنے رسول ۖ کی عظمت کا پتہ دے اور مجھے اس کا سبب بنا کہ میں تیرے رسول ۖ اور تیرے قرآن کی عظمت کا پتہ یہودیوں اور صلیبیوں کو دوں۔ مجھے ہمت عطا فرما کہ میں ان چٹانوں کو ریزہ ریزہ کر سکوں جو سلطان صلاح الدین ایوبی اور قبلہ اوّل کے درمیان حائل ہوگئی ہیں۔ مجھے روشنی دکھا کہ میں ان اندھیروں میں اپنے فرض کی منزل دیکھ سکوں۔ مجھے اتنے سخت امتحان میں ڈال کہ میری جان تیرے نام قربان ہوجائے لیکن وعدہ فرما کہ میری جان رائیگاں نہیں جائے گی۔ تجھے تیرے نام پر قربان ہونے والے شہیدوں کے یتیم بچوں کی قسم! مجھے ہمت اور روشنی عطا فرما کہ میں ان یتیموں کے باپوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لے سکوں'' ……

'' تجھے رسول ۖ کی اُمت کی اُن بیٹیوں کی قسم جن کی عصمتیں مسجد اقصٰی کی آبرو کی خاطر لُٹ گئی ہیں ۔ مجھے جرأت عطا فرما کہ کفر کے ہرقلعے کو مسمار کر سکوں۔ اپنے غازی بندوں کو، اپنے حجازی بندوں کو ہمت اور ہدایت عطا فرما کہ وہ اپنی غیرت کا انتقام لیں ا

 اور آنے والی نسلیں یہ نہ کہیں کہ ہم بے غیرت تھے۔ آج بت بھی تیرے نام پر ہنس رہے ہیں ۔ میرا خون کھول رہا ہے ۔ مجھے وہ شجاعت عطا کر کہ میں پتھر کے ان بتوں کا مذاق اُڑا سکوں۔ میرے خدا! اگر تو یہ نہیں کر سکتا تو میرے خون کو سرد کردے۔ مجھے ایسا بے غیرت بنادے کہ مجھے یاد ہی نہ رہے کہ غیرت کس چیز نام ہے۔ میری بینائی واپس لے لے کہ میں اسلام کی بیٹیوں کے حیا اور بے آبرو ہوتا نہ دیکھ سکوں ۔ میرے کان بند کردے کہ میں تیرا نام نہ سن سکوں۔ میں ان مسلمانوں کی فریاد نہ سن سکوں جو فلسطین میں صلیبیوں اور یہودیوں کے غلام ہوگئے ہیں''۔

حسن کی آواز بلند ہوگئی…… '' تو کہاں ہے؟ …… تو ہے کہ نہیں ؟…… بول میرے خدا! مجھے زبان دینے والے خدا! خودبھی بول۔ مجھے بتا سنت برحق ہے یا صلیب یا مجھے فیصلہ کرنے دے کہ سچا کون ہے! سنت یا صلیب۔ قرآن تیری آواز ہے یا کسی بندے کی ؟''

بڑی ہی ہولناک گڑگڑاہٹ سنائی دی جیسے چھت ہل رہی ہو۔ اس کے فوراً بعد رعد اتنی زور سے کڑکی کہ حسن کا کمرہ ہل گیا ۔ کمرے کی دروازوں میں سے حسن کو بجلی کی چمک دکھائی دی ۔ اُس نے اور زیادہ بلند آواز سے کہا …… '' اس بجلی سے مجھے بھسم کردے یا اپنی مسجدِ اقصٰی کو ۔ مسافر نہ رہیں ، منزل نہ رہے۔ بجلیاں ان پر بھی گرا جن کے سہاگ تیرے نام پر اُجڑ گئے ہیں۔ اپنے نام پر یتیم ہونے والوں پر بجلیاں گرا۔ اپنے رسول ۖ کے نام لیوائوں پر بجلیاں گرا تا کہ کسی کی فریادیں تیرے کانوں تک نہ پہنچ سکیں''۔

رعد پھر کرکی اوراس کے بعد گھٹائیں کرجنے لگیں۔ بیروت کا ساحل قریب ہی تھا ۔ اُن دنوں سمندر خاموش ہوا کرتا تھا مگر سمندر جوش میں آگیا۔اسکی لہروں کی مہیب آواز حسن کو یوں سنائی دینے لگی جیسے بحیرئہ روم کی غصے میں آئی ہوئی موجیں اُس کے کمرے کی دیواروں سے ٹکرا رہی ہوں۔ گھٹائوں کی گرج ، رعد کی کڑک اور سمندر کاجوش مل جل کر قیامت کا شور بن گئے۔ حسن کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔

'' ایسے ہی طوفان میرے اندر اُٹھا کہ میں کفر کے ہر نشان کو اُڑاتا اور بہاتا لے جائوں۔ میرے خون کے قطرے بہادے لیکن مسجدِاقصٰی کے صحن میں ۔ میں شرمسار ہوں کہ قبلہ اوّ ل کا پاسبان صلاح الدین ایوبی یہاں تیرا لشکر لے کر آیا تو میں اُسے خبردار نہ کر سکا کہ بیروت سے دُور رہے کہ یہاں کفار کا پھندا تیار ہے۔ یہ میری مجبوری تھی ۔ یہ میرا گناہ تھا ۔ مجھے جرأت اور شجاعت عطا کر کہ میں گناہ کا کفارہ ادا کرسکوں ، ورنہ یہ بت میری روح کو بھی طعنے دیتے رہیںگے تیرا تو خدا ہی کوئی نہیں۔ مجھے ان بتوں کے آگے شرمسار نہ کر، مجھے شہیدوں کی روحوں کے آگے شرمسار نہ کر، مجھے شہیدوں کی روحوں کے آگے شرمسار نہ کر، اگر میری دعا قبول نہ ہوئی تو روزِ قیامت میرے مُردے میں جان نہ ڈالنا، ورنہ میںتیرا گریبان پکڑ لوں گا اور تیری مخلوق سے کہوں گا کہ یہ ہے وہ خدا جس نے اپنے رسول ۖ کی لاج نہیں رکھی، اُس خدا نے رسولۖ کے نام لیوائوں کی اتنا مجبور اور بے بس کیاکہ قبلہ اوّل ویران ہوگیا اوراس پر صلیب اور یہود کے سیاہ سائے پڑ گئے ''۔

رعد زور سے کڑکی حسن کے کمرے کی چھت، دروازے اور کھڑکی کے کواڑ بڑی زور سے کھٹکے اور چھت پر یوں آوازیں آنے لگیں جیسے گھوڑے دوڑرہے ہوں۔ موسلا دھار بارش شروع ہوگئی تھی ۔ طوفانِ بادوباراں زمین و آسمان کو ہلا رہا تھا حسن کے دِل پر ایسی گرفت آگئی جس میں خوف بھی تھا اور جذبات کی شدت بھی ۔ کبھی اُسے ایسے لگتا جیسے وہ خواب دیکھ رہا ہو۔ اُس نے خدا سے اس طرح کبھی باتیں نہیں کی تھیںے وہ چھپ کر نماز پڑھتا تھا اور مختصر الفاظ میں دُعا مانگ کر حسن سے جیکب بن جایا کرتا تھا ۔

اُس رات جب وہ حاتم کو رپورٹ دے کر آیا تھا ۔ اُس کی جذباتی کیفیت کچھ اور تھی ۔ اس پر نیند کا اثر بھی تھا۔اُس کے سامنے مسئلہ ایسا آگیا تھا کہ وہ سوچ سوچ کر دیوانہ ہونے لگا تھا۔ اُس کے لیے آسان راستہ یہ تھا کہ جس مسئلے کا کوئی حل نہیں ۔ اسے ذہن سے اُتار دے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی ، علی بن سفیان اور اس کے لیڈر حاتم کو کیا خبرتھی کہ عزالدین کے ایلچی بالڈون کے پاس آئے ہیں اور کوئی معاہدہ ہو رہا ہے۔ وہ خاموش رہتا۔ اس کے گھر میں اس کے ماں باپ کو اس کی تنخواہ اور غیر ممالک میں جاسوسی کے فالتو پیسے باقاعدہ پہنچ رہے تھے۔ بیروت میںاُسے چھی پوزیشن اور عیش و عشرت کا سامان حاصل تھا مگر وہ ایمان والا مردِ مومن تھا ۔ اپنے فرائض کو نماز روزے کی طرح متبرک سمجھتا تھا ۔ اُسے احساس تھا کہ قوم کا ہر فرد یہ سمجھ لے کہ یہ کام کوئی اور کرے گا تو یہ رویہ سیدھا شکست ، قوم کی تباہی اور کفار کی فتح کی طرف لے جاتا ہے۔

٭ ٭ ٭

: رات بھر جاگتے ہوئے جوان اور توانا حسن کو تیند نے مصلے پر ہی دبوچ لیا ۔ اس جذباتی کیفیت میں اُسے نیند نہیں چاہیے تھی لیکن اُس سوچ نے کچھ ایسا قرار اور سکون محسوس کیا کہ روح نے جسم اور دماغ کو سلا دیا ۔ وہ وہیں اوندھا ہوگیا۔ اسے اتنی مہلت نہ ملی مصلّٰی چھاپ کر اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کا بت، مریم کی تصویر اور صلیب پلنگ کے نیچے سے اُٹھا کر اپنی اپنی جگہ رکھ دیتا۔ دروازہ کھول دیتا اور جیکب کے بہروپ میں پلنگ پر سوجاتا۔ وہ خوابوں کی دُنیا میں پہنچ گیا۔ اُس نے مسجدِ اقصٰی دیکھی ۔ یہ مسجد اُس نے ایک بار دیکھی تھی جب وہ بیت المقدس میں جاسوسی کے ایک مشن پر گیا تھا ۔ یہ مسجد ویران تھی ۔ اُس کے کھلے ہوئے دروازے اپنے نمازیوں کی راہ دیکھ رہے تھے مگر مسلمان چھوٹی چھوٹی مسجدوں یا گھروں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ صلیبیوں اور یہودیوں کے بچوں نے مسجدِ اقصٰی کے صحن کو کھیل کا میدان بنایا ہوا تھا جہاں بے شمار بچے جوتوں سمیت کھیل رہے تھے۔ صلیبیوں نے وہاں کے مسلمانوں کو خوف زدہ کر رکھا تھا ۔ حسن مسجدِ اقصٰی کے مقدس مقام اور مسلمانوں کے لیے اس کی اہمیت سے اچھی طرح واقف تھا ۔ وہ جب وہاں گیا تھا تو اُس کا نام ریلف نکلسن تھا ۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں