داستان ایمان فروشوں کی ۔125 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی ۔125

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر125 سنت، سارہ اور صلیب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اُس کا نام ریلف نکلسن تھا ۔ اب وہ بیروت میں خواب میں مسجدِ اقصٰی کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کے گنبد پر بے شمار کبوتر بیٹھے تھے۔ کبوتر ایک بارگی اڑے اور تمام کبوتر فضا میں جاکر شرارے بن گئے۔ یہ شرارے مسجدِ اقصٰی کے اردگرد گرنے لگے۔ مسجد کے اندر سے صلیبیوں اور یہودیوں کا ایک ہجوم نکلا۔ ان سب کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ سب اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ وہ سب چیخ اور چلا رہے تھے مگر کسی کو آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔ فضا سے برستے ہوئے شرارے رنگ برنگ کے پرندے بن گئے اور ایک ایک کرکے مسجدِ اقصٰی کے سبز گنبد پر بیٹھنے لگے۔ اب مسجد میں نہ کوئی صلیبی تھا نہ یہودی ۔ حسن آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چلا ۔ آسمان نیلا تھا ۔ دن کی روشنی بھی نیلی تھی ۔ مسجد کے دروازے میں ایسی چمک دکھائی دی جیسے بہت بڑے آئینے پر سورج کی کرنیں پڑی ہوں۔

حسن کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اُس نے آنکھیں بند کرکے کھولیں۔ چمک یا نور کا یہ گولا وہاں نہیں تھا ۔ وہاں سارہ کھڑی مُسکرا رہی تھی۔ حسن حیرت زدہ ہو کے رُک گیا۔ سارہ پائوں سے سرتک چاندکی طرح سفید لبادے میں ملبوس تھی ۔ اُس کا چہرہ اور دونوں ہاتھ نظر آرہے تھے ۔ اُس کی مُسکراہٹ سے اُس کے دانت اتنے زیادہ سفید نظر آرہے تھے جتنی سفیدی اس زمین کے لوگوں نے کبھی نہیں دیکھی ۔ سارہ نے بازو پھیلا دئیے۔ اس کے ہونٹ ہلے نہیں تھے، لیکن حس کو اس مترنم آواز سنائی دی …… '' آجائو ، مسجدِ اقصٰی ہماری ہے۔ اس مسجد میں جو کافر داخل ہوگا اُس پر آسمان آگ برسائے گا اور جو مسلمان اس مسجد کے تقدس کو بھول گئے ہیں ، ان پر بھی آگ برسے گی۔میں نے اس کے صحن کو زم زم کے پانی سے دھویا ہے۔ میرے گناہ دُھل گئے ہیں آئو …… آئو ''۔

حسن کی آنکھ کھل گئی ۔ اُس نے پھر آنکھیں موند لیں۔ وہ اس خواب سے دست بردار نہیں ہونا چاہتا تھا مگر موندھی ہوئی آنکھوں میں اندھیرے کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ وہ اب حقیقت کی دُنیا میں لوٹ آیا تھا ۔ چھپ پر ادھر ادھر موسلا دھار بارش کا قیامت خیز شور اور جھکڑ کی چیخیں تھیں۔ اس میڈ سمندر کی بھی آواز تھی جو پہلے سے زیادہ غصے میں آگیا تھا ۔ بادو باراں اور بحیرئہ روم کے اس ہنگامے میں حسن کو ایسے لگا جیسے کسی نے اُس کے دروازے پر دستک ہوئی۔ یہ اس کا وہم بھی ہوسکتا تھا ۔ وہ وہم سے ہی بیدار ہوگیا۔ اُس نے صلیب، حضرت عیسٰی علیہ السلام کو بات اور مریم کی تصویر اُٹھا کر سب کو اپنی اپنی جگہ لٹکا دیا ۔ اس دوران دروازے پر دستک بڑی صاف ہوئی۔ حسن نے مصلّٰی لپیٹ کر تکیے کے نیچے رکھ دیا اور دروازہ کھول دیا ۔ 

دروازے میںسارہ کھڑی مُسکرارہی تھی ۔ بادوباراں کا یہ سماں کہ برآمدے سے پرے کچھ اور نظر نہیں آتا تھا ۔ سارہ کے کپڑوں اور بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا ۔

'' تم اس طوفان میں میرے پاس آئی ہو؟'' …… حسن نے اُسے بازو سے پکڑ کر اندر گھسیٹتے ہوئے کہا۔

'' نہیں جیکب !'' …… سارہ نے جواب دیا …… '' میں کسی اور پاس گئی تھی ۔ وہ ملا نہیں ۔ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔ رات بھر سب شراب پیتے اور بیہودگی کرتے رہے ہیں۔ اب شام کو ہی جاگیں گے۔ میں نے انتظار کیا لیکن مایوس ہو کر اِدھر آگئی۔ یہ طوفان آنے نہیں جانے دے رہا تھا ۔ دن کے وقت تو تمہارے پاس آنے سے مجھے کوئی نہیں روک سکتا ''۔

حسن نے ایک کپڑا اُٹھایا جو اُس نے سارہ کے سر پر ڈال دیا اور اپنے ہی ہاتھوں سے اس کے بال اس کپڑے سے خشک کرنے لگا۔ سارہ کو یہ بے تکلفی بہت پسند آئی۔ حسن نے اس کا چہرہ بھی پونچھ دیا ۔ پھر ایک چادراُسے دے کر کہا …… '' میں منہ اُدھر پھیر لیتا ہوں تم بھیگے ہوئے کپڑے اُتار کر چادر لپیٹ لو''۔

سارہ نے جب بھیگے ہوئے کپڑے اتارے تو وہ سوچنے لگی کہ اس شخص کو اتنی زیادہ روحانی محبت ہے کہ اُس کے جسم کی دل کشی کے ساتھ اسے کوئی دل چسپی نہیں یا ابس کا دِل بالکل ہی مردہ ہے…… سارہ نے جب اُسے کہا کہ میں نے کپڑے بدل لیے ہیں تو حسن نے منہ پھیرا اور اُس کے کپڑے برآمدے میں جاکر نچوڑلایا۔

'' اب بتائو تم کہاں گئی تھی '' …… حسن نے پوچھا …… '' اور رات میرے بعد کیا ہوا تھا ؟ وہ عورت اندر آگئی تھی ؟


'' اسی سلسلے میں اِدھر آئی تھی '' …… سارہ نے کہا اور اُسے بتایا کہ رات کو اس عورت کو اس عورت نے اُس کے کمرے میں آکر معافی کی کیا شرط پیش کی ہے۔ اُس نے کہا …… '' میں نے یہ نہیں بتایا کہ تم میرے کمرے میں آئے تھے۔ میں نے صرف اس لیے یہ شرط مان لی کہ تمہارا نام لیا تو میرے ساتھ تمہیں بھی سزا ملے گی اور تم جانتے ہو کہ یہ سزا کیسی بھیانک ہوگی۔ تم شاید حیران ہوگئے ہوگے کہ میں کوئی پاک صاف لڑکی نہیں، پھر بھی میں موصل کے مہمانوں یا کسی اورکی خواب گاہ میں جانے کو پسند نہیں کرتی۔ میں رقاصہ ضرور ہوں لیکن میں یوں کھلونا بننا نہی

: لیکن میں یوں کھلونا بننا نہیں چاہتی جس طرح یہ بڑھیا مجھے بنانا چاہتی ہے۔ میری اپنی بھی کوئی پسند اور نا پسند ہے ۔ میںنے بہت گناہ کیے ہیں لیکن کسی کی آمدنی کا اور کسی اورکے گناہوں کا ذریعہ نہیں بنوں گی۔ اس عورت نے کہا ہے کہ وہ مجھے اس چوری چھپے کے کاروبار میں سے معاوضہ دے گی۔ وہ مجھے معاوضوں کی بھرکی سمجھتی ہے۔ میں نے اُسے کہہ دیا ہے کہ میں اس کی خواہش کے مطابق آج رات موصل کے ایک مہمان کے پاس چلی جائوں گی لیکن میں اب کوشش کر رہی ہوں کہ حاکموں کو بتادوں کہ اس عورت نے درپردہ کیا کاروبار شروع کر رکھا ہے''۔

'' اور وہ کہہ دے گی کہ رات تمہارے کمرے میں آدمی آتے جاتے ہیں ''۔ حسن نے کہا 

'' کہتی رہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں تو اب سبزا لینے کو بھی تیار ہوں اور خودکشی کے لیے بھی تیار ہوں۔ میں اس عورت کے بے نقاب کرکے رہوںگی ۔ میں رقاصہ ہوں۔ میں عصمت فروشی نہیں کروں گی''۔

'' میں سامنے آکر یہ کیوں نہ کہہ دوں کہ تمہارے کمرے میں مَیں گیا تھا ''۔ حسن نے کہا …… '' میںکہوں گا کہ میرا تمہارے ساتھ جسمانی نہیں ، جذباتی تعلق ہے''۔

اگر یہ کہنا ہوتا تومیں خود کہہ دیتی کہ میرے کمرے میں جیکب آیا تھا '' ۔ سارہ نے کہا …… '' مگر ایسا کہنا تمہیں گھوڑے کے پیچھے باندھ کر گھوڑا دوڑادینے کے برابر ہے۔ کوئی نہیں مانے گا کہ میرا تمہارا جذباتی تعلق ہے۔ یہ لوگ کسی کے جذبات سے واقف نہیں ۔ ان کے ہاں سب کچھ جسمانی ہے …… تم البر کو تو جانتے ہو۔ اٹلی کا رہنے والا ہے۔ نیک اوررحم دل افسر ہے۔بالڈون پر اُس کا خاصا اثرہے۔ صرف ایک بڑا افسر ہے جو مجھ جیسی لڑکیوں کو صاف ستھری نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ میں اُسے رات کی بات سنائوں گی اوراپنی عزت بچانے کی کوشش کروں گی۔ اگر میری یہ کوشش ناکام رہی تو میں سمندر میں کود جائوں گی ۔ اگر سمندر نے میری لاش اُگل دی تو تم بھی مجھے دیکھ لینا، ورنہ الوداع۔ بحیرئہ روم کی مچھلیاں کھائو گے توشاید اُن میں تم میرے جسم کی بوسونگھ سکو گے ''۔

''سارہ!'' حسن نے کہا …… '' تم عیسائی نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ رہنے والی کوئی ایک بھی لڑکی نہیں جو جسمانی عیاشی اور معاوضے کو تمہاری طرح ٹھکرادے۔ تم نے آج تک میرے ساتھ جو باتیں کی ہیں، ان سے مجھے یقین ہوگیا ہے تمہاری رگوں میں مسلمان کا خون ہے۔اس خون میں اب اُبال آیا ہے جب تم صلیبیوں کی گناہوں کی دلدل میں پھنس گئی ہو۔ کہو، میں جھوٹ بول رہا ہوں؟''۔

سارہ نے اُس کی طرف دیکھا ۔ آہ لی اور بولی …… ''سنو جیکب !''……

'' میں جیکب نہیں سارہ !'' حسن نے کہا …… '' میرا نام حسن الادریس ہے اور ملک شام کا رہنے والا ہوں۔ یہاں میرانام گلبرٹ جیکب ہے''۔

''جاسوس ہو؟''

'' کوئی اور وجہ بھی ہو سکتی ہے''۔ حسن نے کہا …… '' جاسوسی ہی وجہ نہیں ۔ جس طرح ہم دونوں ایک دوسرے کی رُوح میں اُتر گئے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم دونوں مسلمان کی اولاد ہیں ''۔اُس نے تکیے کے نیچے سے مصلّٰی نکالا اور دیوار میں سے ایک پتھر ہٹاکر اس کے پیچھے سے قرآن کا ایک چھوٹا سا نسخہ نکالا ۔ سارہ کو دکھا کر کہا …… '' میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا ، یہ بت، یہ تصویر اور یہ صلیب دھوکہ ہے ''۔

'' اگر میں کسی سے کہہ دوں کہ تم عیسائی نہیں ، مسلمان ہو تو کیا کرو گے؟'' سارہ نے ہنس کر کہا …… '' تم جاسوس نہیں ہو سکتے ۔ جاسوس اپنا آپ اس طرح ظاہر نہیں کیا کرتے ''۔ 

'' کہہ دو''۔ حسن نے کہا …… '' میں تمہاری نظروں کے سامنے اس طوفانِ بادوباراں میں غائب ہو جائوں گا ۔ جاسوس میری طرح اپنا آپ ظاہر نہیں کیا کرتے اورجب ظاہر ہوتے ہیں تو اتنی آسانی سے ہاتھ بھی نہیں آتے، جتنا تم سمجھتی ہو …… لیکن سارہ! مجھے یقین ہے کہ تم کسی سے نہیں کہو گی ''۔

حسن نے آگے بڑھ کر سارہ کا چہرہ اپنے ہاتھوں کے پیالے میں لے کر بالکل قریب کرلیا ۔ اُس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دھیمی مگر پُر اثر آواز میں کہا …… '' تم کسی سے نہیںکہوگی ہ یہ شخص جیکب نہیں حسن ہے۔ تم کہہ ہی نہیں سکو گی۔ ہماری رگو ں میں رسولۖ کے شیدائیوں کا خون ہے۔ یہ خون سفید نہیں ہوسکتا ۔ یہ خون اپنے قطروں کو دھوکہ نہیں دے سکتا '' …… سارہ کی آنکھوں کو حسن کی آنکھوں نے جکڑ لیا۔ وہ محسوس کرنے لگی جیسے یہ خوبرو جوان بڑے ہی حسین آسیب کی طرح اُس کے دماغ اوراس کے دِل پر غالب آگیا ہو۔ حسن کہہ رہا تھا …… '' تم رقص کے لیے نہیں مسجدِ اقصٰی کو کفار سے آزاد کرانے کے لیے پیدا ہوئی ہو۔ خدا نے مجھے خواب میں بشارت دے دی ہے۔ اب یہ نہ کہنا کہ تم مسلمان نہیں ۔ تم کہہ ہی نہیں سکو گی۔ بولو سارہ! میں نے تمہیں اپنا راز ے دیا ہے ، تم مجھے اپنا راز دے دو۔ مجھے تمہارے جسم سے کوئی سروکار نہیں ۔ میں تمہاری روح کو پاک دیکھنا چاہتا ہوں''۔

 '' گناہ کسی کے بھی تھے ''۔ حسن نے کہا …… '' میں نے آج تک تمہاری زبان سے جو باتیں سنی ہیں اور جس انداز سے تم نے یہ باتیں کی ہیں ، میں نے اندازہ لگایا ہے کہ یہ گناہ تمہارے دل اور وح میں چُبھ گئے ہیں ۔ تم صلیبیوں کے خلاف نفرت کا اور مسلمانوں کی پسندیدگی کا اظہار کرتی رہی ہو۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ یہ چبھن تمہیں بے چین رکھتی ہے''۔

'' جب سے تم نے میری رُوح کو پاک پیار سے آشنا کیا ہے ، مجھے عیش و عشرت کی یہ زندگی جہنم سے زیادہ آتشیں اور اذیت ناک محسوس ہونے لگی ہے۔ میں گناہوں میں پلی بڑھی اور گناہوں میں جوان ہوئی ۔ گناہوں کا حسن اب زہریلا ناگ بن گیا ہے۔ میں اب زندہ نہیں رہنا چاہتی ''۔

'' اپنی جان لینا بھی گناہ ہے''۔ حسن نے کہا …… '' اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ یہ اللہ کا وعدہ ہے۔ گناہوں کا کفارہ اداکردو، سب بے قراریاں روحانی سکون میں بدل جائیں گی ''۔

''کیا کروں؟'' سارہ نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا …… '' نماز پڑھا کروں؟ تارک الدنیا ہوجائوں؟ بتائو کیا کروں؟''

''جاسوسی ''۔ حسن نے جواب دیا ……'' صرف ایک بار۔ پہلی اور آخری بار…… لیکن تم اُس وقت تک جاسوسی نہیں کر سکو گی جب تک یہ نہ سمجھ لو کہ اس کا مقصد کیا ہے۔ انسان اپنے مقصد کی عظمت سے عظیم بنا کرتے ہیں۔ جانتی ہو نورالدین زنگی کا مقصد کیا تھا ؟ سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقصد کیا ہے؟ یہ تو بہت بڑے لوگوں کی باتیں ہیں ۔ میں اُن کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ، لیکن تم نے میری ذات میں اور میری آنکھوں میں ایسا تاثر دیکھا ہوگا جس نے تم سے سچ بات کہلوالی ہے۔ یہ دراصل میری ذات کا اثرنہیں یہ میرے مقصد کی عظمت ہے جو مجھے ایمان سے زیادہ عزیز ہے۔ مقصد کی ہی عظمت ہے اور اسی کا تقدس ہے کہ تمہارا یہ حسن اور تمہارے جسم کی یہ کشش جو عبادت گزاروں کو چونکا دیتی ہے ، مجھ پر اثر نہیں کر سکی ۔ کیوں نہیں کر سکی ؟ صرف اس لیے کہ میں انسانوں اور اشیاء کو روح کی نظروں سے دیکھا کرتا ہوں''۔

'' میں سلطان صلاح الدین ایوبی کا مقصد اچھی طرح جانتی ہوں''۔ سارہ نے کہا …… '' میں یہ بھی جانتی ہوں کہ صلیبی حکمران مسلمان اُمراء اور حکمرانوں کو مدد اورعیاشی کا سامان دے کر انہیں سلطان ایوبی کے خلاف لڑا رہے ہیں …… اور میں یہ بھی جانتی ہوں کہ صلیبی عالمِ اسلام کو صلیب کے سائے میں لانا چاہتے ہیں۔ حسن! میں نے یہ مقصد یہاں کر پہچانا ہے، ورنہ میں بھی صلیب کے سیلاب میں بہہ گئی تھی ۔ یہ سیلاب مجھے یہاں تک لے آیا ہے۔ میں یہ بھی سنائوں گی کہ کیسے۔ کچھ دنوں سے مسجدِ اقصٰی میرے دل پر غالب آگئی ہے۔ دو راتیں گزریں، میں نے خواب میں مسجدِ اقصٰی دیکھی ہے۔ میں نے ابھی تک یہ مسجد نہیں دیکھی۔ مجھے معلوم نہیں یہ کسی ہے۔ خواب میں یہ مسجد دیکھی اوراُس کے اندر گئی۔ مسجد خالی اور ویران تھی ۔ مجھے ایک گونج سنائی دی …… '' یہ تیرے خدا کا گھر ہے، اسے آباد کرو''…… میں دیکھ رہی ہوں کہ آواز کہاں سے آئی ہے لیکن میری آنکھ کھل گئی۔ یہ آواز میرے دل میں اُتر گئی ہے …… کیا اسے میں اپنا مقصد بنا سکتی ہوں؟'' 

'' یہ ہر مسلمان کا فرض ہے''۔ حسن نے کہا …… '' لیکن اس کے لیے قربانیاں دینی پڑتی ہیں ۔ میں بیروت میں ہر لمحہ موت کا انتظار کرتا ہوں۔ مں جس روز پکڑا گیا ، وہ زندگی کا آخری دن ہوگا''۔

'' میں قربانی دینے کو تیار ہوں''۔ سارہ نے کہا …… ''مجھے میرا فرض بتائو ''۔

'' تمہیں اس بوڑھی اور بھدی عورت نے موصل کے جس ایلچی کی تفریح کے لیے جانے کو کہا ہے ، تم اُس کے پاس چلی جائو'' …… حسن نے کہا 

سارہ نے اُسے اتنی زیادہ حیرت سے دیکھا کہ اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔

: '' ہاں سارہ!'' حسن نے کہا …… '' تمہیں یہ قربانی دینی ہوگئی ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی عورت کو جاسوسی کے لیے نہیں بھیجا کرتے ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک عورت کی عصمت بچانے کے لیے میں ایک مضبوط قلعہ دشمن کو دینے کے لیے تیار ہوں۔ ہم عصمتوں کے محافظ ہیں ، مگر سارہ! تم یہاں موجود ہو۔ ہمیں جو فرض ادا کرنا ہے ، وہ صرف تمہارے ذریعے ہو سکتا ہے۔ تمہارے لیے یہ کوئی نہیں بات نہیں ہوگی کہ کسی کی تفریح کا سامان بنو۔ میں تمہیں ایک دو طریقے بتائوں گا جن سے تم ان بوڑھے مسلمانوں کے سینوں سے راز بھی نکال سکوگی اور اپنی عزت بھی بچالوگی۔ تمہارا مقصد بڑا پاک اور بلند ہے ۔ مجھے اُمید ہے کہ خدا تمہاری آبروکی حفاظت کرے گا ''۔

مجھے بتائو کرنا کیا ہے''۔ سارہ نے کہا …… '' میں بے آبرو لڑکی ہوں۔ اگرخدا بھی مجھ سے یہی قربانی لے کر خو ش ہوسکتا ہے تو میں یہ قربانی دینے کے لیے تیار ہوں''۔

'' یہ دونوں ایلچی موصل کے حکمران عزالدین کی طرف سے آئے ہیں ''۔ حسن نے اُسے بتایا …… '' مجھے یقین ہے کہ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف بالڈون سے مدد لینے آئے ہیں۔ اس وقت ہماری فوج نصیبہ کے مقام پر خیمہ زن ہے۔ سلطان کو یہ خوش فہمی ہے کہ وہ اپنے دوستوں کے درمیان خیمہ زن ہیں مگر وہ اپنے مسلمان دشمنوں کے نرغے میں آئے ہوئے ہیں ۔ ہمیں یہ معلوم کرکے سلطان کو خبردار کرنا ہے کہ صلیبی کیسا جنگی اقدام کریں گے اور موصل او ر حلب اور دیگر چھوٹی چھوٹی مسلمان امارتوں کا رویہ کیا ہوگا۔ کیا وہ صلیبیوں کے اتحادی بن جائیں گے ؟'' حسن نے اُسے بڑی لمبی تفصیل سے اس کا کام سمجھا دیا اور یہ بھی بتایا کہ صلیبی لڑکیاں مسلمان علاقوں میں جاکر کس طرح مسلمان اُمراء سالاروں اوردیگر حکام پر اپنی پُر کشش نسوانیت کا جادو طاری کرکے راز لے آتی ہیں ۔ حسن نے کہا …… '' تمہیں خود کشی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ میں تمہیں پاک اور پُر مسرت زندگی میں داخل کررہا ہوں۔ تم مظلوم لڑکی ہو۔ تمہیں غالباً بچپن میں صلیبیوں نے کسی قافلے سے اغوا کیا تھا ۔ انہیں نے تمہیں گناہوں کی زندگی میںداخل کیا ہے''۔

'' نہیں حسن !'' سارہ نے کہا …… '' میں نے اپنے آپ کوخود ہی اغوا کیا تھا۔ یہ کہانی پھر کبھی سنائوں گی ۔ مجھے ابھی یہ کام کرنے دو۔ دُعا کرو اللہ مجھے سرخرو کرے اورمیں گناہوں کا کفارہ ادا کرسکوں''۔

بارش تھم گئی تو سارہ اپنے کپڑے پہن کر حسن کے کمرے سے نکلی ۔ وہ جب اُس عمارت میں داخل ہوئی جہاں اُس کا کمرہ تھا تو اُسے وہ عورت مل گئی جو ان سب لڑکیوں کی کمانڈر تھی ۔ اس نے سارہ کو دیکھا اور مُسکرا کر کہا …… '' رات کو تیار رہنا۔ میرے آدمی نے موصل کے ایک ایلچی کے ساتھ بات کرلی ہے۔ آج رات نہ کہیں ناچ گانا ہوگا نہ کوئی ضیافت۔ میں تمہیں اُس کے کمرے میں چھوڑ آئوں گی ''۔

'' میں تیار رہوں گی ''۔ سارہ نے کہا ۔ 

٭ ٭ ٭

موصل کے دونوں ایلچیوں کی حالت بھوکے بھیڑوں جیسی تھی ۔ وہ یہاں عزالدین کا اور اپنا ایمان فروخت کرنے آئے تھے۔وہ اپنی غداری کو کامیاب بنانے کے لیے صلیبی بادشاہ سے مدد لینے آئے تھے۔ یہ بادشاہ اپنے مفاد کی خاطر اور مسلمانوں کے حکمرانوں کو آپس میں لڑانے کی خاطر انہیں پشت پناہی اور مدد دے رہا تھا ۔ ان مسلمان ایلچیوں کے پاس نہ ایمان رہا تھا ، نہ ذاتی وقار اور نہ قومی رفار۔ اُن کی دلچسپی اب اس میں رہ گئی تھی کہ شاہ بالڈون انہیںزیادہ عیاشی کرائے اور انعام و کرام دے۔ اِن دونوں کو بیروت کے گردو نواح اور سمندر کی سیر کرانے کے لیے روک دیا گیا تھا۔ اس دوران ناچنے گانے والی لڑکیوں کی کمانڈر نے اپنے ایک آدمی کو اُن کے پاس بھیجاتھا۔ اس آدمی نے انہیں کہا تھا کہ وہ انہیں ایسی لڑکیاں لادے گا جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھی ہوں گی۔ ان دونوں کی باچھیں کھل گئیں اور معاوضہ طے ہوگیا۔ ان میں سے ایک کے پاس سارہ کو بھیجنے کے لیے تیار کیا گیا۔

رات سارہ کو سیاہ لبادے میں چھپا کر ایک ایلچی کے کمرے تک پہنچایا گیا۔ ایلچی جو والئی موصل عزالدین کا فوجی مشیر تھا، پچاس سال سے اوپر کی عمر کا آدمی تھا ۔گزشتہ رات اُس نے اس قدر شراب پی لی تھی کہ بے ہوش ہوگیا تھا ، لیکن آج رات وہ اپنے کمرے میں آہستہ آہستہ پی رہا تھا ۔ وہ ایک رقاصہ کا انتظار بے تابی سے کر رہا تھا جس کے حُسن کے اُسے افسانے سنائے گئے تھے۔ اُس کا دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی سر سے پائوں تک سیاہ لبادے میں مستور اس کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ دروازہ بند ہوگیا۔ ایلچی اُس کی طرف لپکا اور اُس کا چہرہ بے نقاب ہونے سے پہلے ہی بڑے فحش الفاظ کہہ کر اس سے لپٹ گیا۔ وہ اپنی عمر کو بھی بھول گیا۔

: سارہ نے اُس کے بازوئوں سے آزاد ہوکر سیاہ لبادے کو اُتار کر پرے پھینک دیا۔ اُس نے ایلچی کی طرف دیکھا تو حیرت سے اُس کامنہ کھل گیا۔ وہ پیچھے ہٹنے لگی حتیٰ کہ اس کی پیٹھ دیوار سے جالگی۔اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے کان ڈھانپ لیے۔ ایلچی نے سارہ کا چہرہ دیکھا تو اُسے ہچکی سی آئی اور اُس کے منہ سے سرگوشی نکلی…… '' سائرہ؟''

سارہ خاموشی سے اُسے دیکھتی رہی جیسے اُس کی زبان بند ہوگئی ہو۔ ایلچی نے گھبرائی ہوئی اور حیرت زدہ آواز میں ایک بار پھر پوچھا۔ '' سائرہ؟ تم سائرہ ہو؟'' …… وہ کھسیانی ہی ہنسی ہنس کر بولا۔ '' نہیں مجھے غلطی لگی ہے ۔ تمہاری شکل میری ایک بیٹی سے بالکل ملتی جلتی ہے۔ اُس کا نام سائرہ ہے''۔

'' وہ سائرہ میں ہی ہوں جو آپ کی بیٹی ہے''۔ سارہ کی زبان اچانک کھل گئی۔ اُس نے نفرت سے دانت پیس کر کہا …… '' میں ہی آپ کی بیٹی ہوں۔ محلات میں دوسروں کی بیٹیوں کو نچانے والے کی بیٹی بھی ناچ سکتی ہے۔ میں ایک بے غیرت باپ کی بے غیرت بیٹی ہوں''۔

ایلچی لڑکھڑایا اور پلنگ پر گرپڑنے کے انداز سے بیٹھ گیا۔ اب اس کی زبان بند ہو گئی تھی ۔ سائرہ اسی کی بیٹی تھی۔ باپ بیٹی کو جدا ہوئے دو سال گزر گئے تھے۔ 

'' ایمان فروشوں کی بیٹیاں عصمت فروش ہوا کرتی ہیں ''۔ سارہ آگے بڑھی اور باپ کے سامنے رُ ک کر نفرت سے دانت پیسنے لگی۔ اُس نے کہا …… '' آج اپنی غیرت اور اپنی عزت کا انجام دیکھ ۔ تو اپنی بیٹھی کی عصمت کا گاہک ہے۔ تیری بیٹی تیری خوابگاہ میں رات گزارنے آئی ہے'' …… سارہ نے تیر کی تیزی سے ایک ہاتھ آگے کیا اور کہا …… '' لا، میری اُجرت نکال۔ میں رات تیرے ساتھ بسر کرنے آئی ہوں''۔

'' تو … تو … '' اُس کے باپ کی زبان لڑکھڑاکر ہکلانے لگی …… '' تو گھر سے بھاگ آئی تھی ۔ میںبے غیرت نہیں ہو ں تو بے غیرت ہے''۔

'' جو باپ اپنی جوان بیٹی کے سامنے بیٹی کی عمر کی لڑکیوں سے ساتھ بے حیائی کی حرکتیں کرتا ہے اور اپنی بیٹی جیسی لڑکیوں کو نچاتا اور شراب کے نشے میں بدمست ہوکر ان کے ساتھ بیٹی کے سامنے دست درازی کرتا ہے، اُس باپ کی بیٹی غیرت والی نہیں بن سکتی۔ وہ بھی رقاصہ اور طوائف بنتی ہے۔ اپ اُس کی شادی کردے تو وہ اپنے خاوند کو دھوکے دیتی اور درپردہ کئی خاوند بنائے رکھتی ہے۔ سن میرے باپ! تجھے تیرا ماضی اور اپنا حال بتاتی ہوں۔ میںنے تیرے گھر میں دمشق میں ہوش سنبھالا تو تجھے عورتوں سے درپردہ عیش کرتے دیکھا۔ نورالدین زنگی مر گئے تو تو الملک الصالح کے ساتھ حلب کو بھاگ گیا۔ تو مجھے اور میری ماں کو بھی ساتھ لے آیا۔ حلب میں تو شراب بھی پینے لگا۔ تب میں لڑکپن میں تھی ۔ تیرے پاس گورے چٹے صلیبی آنے لگے۔ انہوں نے تجھے دولت دی ۔ بڑی خوبصورت لڑکیاں دیں اور تو کھلے عام شراب پینے لگا۔ تیرے گھر میں شراب کی محفلیں جمنے لگیں۔ لڑکیاں ناچنے لگیں۔ صلیبیوں نے میرے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی تو تُو خوش ہوا''……

'' پھر الملک الصالح مرگیا ۔ ترے پاس صلیبی پہلے سے زیادہ آنے لگے۔ تو پہلے سے زیادہ عیاش ہوگیا۔ عزالدین نے تجھے بہت بڑا عہدہ اور رُتبا دیا۔ میں تیری چہیتی رقاصہ لڑکیوں میں اُٹھنے بیٹھنے لگی ۔ اُن سے میں نے رقص سیکھا۔ تجھے پتہ چلا تو تُو خوش ہوا۔ صلیبیوں نے مجھے دیکھا تو انہوں نے تیرے سامنے مجھے اپنے سینوں سے لگایا۔ تو نے بُرا کیوں نہ منایا؟ صرف اس لیے کہ وہ میرے بدلے تجھے یورپ کی ایک لڑکی دے دیتے تھے تو تو نے اپنا ایمان بیچ ڈالا۔ صلاح الدین ایوبی کے خلاف سازشیں کیں۔ تیرا کردار ختم ہوگیا تو یہ بھی نہ دیکھ سکا کہ اپنی بیٹی کو بھی تو نے اپنی راہ پر ڈال دیا ہے۔ پھر ایک صلیبی نے مجھے سبز باغ دکھائے اور میں تیرے گھر کو خیر بادکہہ کر اپنے خیالوں میں جنت کو روانہ ہوگئی ۔ مجھ سے یہ مت پوچھ کہ میڈ جس طرح آج تیری خواب گاہ میں آئی ہوں، اس طرح کتنی خواب گاہوں کی رونق بنی ہوں۔ اُس صلیبی نے مجھے محبت کا فریب دے کر مجھے بیچ ڈالا۔ میں تجھ جیسے بے شمار دولت مندوں کی تفریخ کا ذریعہ بن کر بیروت پہنچی ، جہاں مجھے شاہی رقاصہ کی حیثیت سے رکھ لیا گیا۔ آج اپنا باپ میری عصمت کا گاہک ہے''۔

ایلچی نے سر اپنے ہاتھوں میں تھام لیا تھا ۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا ۔: '' آج تو اپنے ایمان کی قیمت وصول کرنے آیا ہے''۔ سارہ نے حقارت آمیز لہجے میں کہا …… '' تو فلسطین اور قبلہ اوّل کا سودا کرنے آیا ہے۔ اپنی بیٹی کی قیمت دینے آیا ہے''۔ سارہ کی آاز بھرا گئی ۔ اُس نے کہا …… '' یہ میری زندگی کی آخری رت ہے۔ میں باپ کے گناہوں کی سزا بھگ کر اس دُنیا سے جارہی ہوں''۔

اُس کے باپ نے آہستہ آہستہ سر اُٹھایا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اس کے گالوں کو تر کر رہے تھے۔ اُس نے اُٹھ کر دیوار لٹکتی ہوئی تلوار اُتاری۔ نیام سے نکالی اور سارہ کے آگے کرکے کہا …… '' یہ لو۔ اپنے ہاتھوں مجھے ختم کردو۔ شاید میرے گناہوں کا کفارہ ادا ہوجائے''۔

سارہ نے اُس کے ہاتھ سے تلوار لے لی اور کہا …… '' آج رسول ۖ کی اُمت اس مقام پر آپہنچی ہے جہاں ایک باپ اپنی بیٹی کے ہاتھ میں تلوار دے کر یہ کہنے کی بجائے کہ جا بیٹی قبلہ اوّل کو اس تلوار سے آزاد اور آباد کر، یہ کہہ رہا ہے کہ مجھے اس تلوار سے قتل کرکے میرے گناہوں کا کفارہ ادا کردے''۔ اپنے باپ کی جذباتی حالت اور شرمساری کے آنسو دیکھ کر سارہ کا لہجہ بدل گیا۔ باپ کا احترام لوٹ آیا۔ اُس نے کہا …… '' مرکر ہی گناہوں کا کفارہ ادا نہیں کیا جا سکتا ۔ ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ زندہ رہو اور دشمن کو قتل کرو۔ میں آپ کو بتائوں؟

باپ نے شکست خوردگی کے انداز سے بیٹی کی طرف دیکھا۔

'' شاہ بالڈون کے ساتھ آپ نے جو معاہدہ کیا ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کے لیے جو منصوبہ تیار اور طے کیا ہے ، وہ مجھے بتا دیں''۔ سار ہ نے کہا …… '' میں یہ سلطان تک پہنچا دوں گی۔ اس سے بڑی نیکی اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ آپ کے سارے گناہ بخش دئیے جائیں گے '' …… باپ خاموشی سے سن رہا تھا ۔ سارہ نے کہا …… '' ہم دونوں کی نجات اس میں ہے کہ ہم دونوں یہاں سے فرار ہو کر سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچ جائیں اور آپ اسے ساری بات اپنی زبانی سنا دیں''۔ میں تیار ہوں۔ باپ نے کہا …… '' لیکن ہم یہاں سے نکلیں گے کیسے ؟'' 

''انتظام ہو جائے گا''۔ سارہ نے کہا 

باپ نے بیٹی کو گلے لگا لیا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ اس کے اپنے گناہوں نے اس سے ہتھیار ڈلوا لیے تھے۔

٭ ٭ ٭

لڑکیوں کی کمانڈر عورت بہت خوش تھی کہ اُسے بڑا موٹا گاہک مل گیا ہے۔ وہ اطمینان سے سو گئی۔ اُسے معلوم تھا کہ سارہ صبح واپس آئے گی مگر سارہ حسن الادریس کے کمرے میں تھی ۔ اُس نے جب حسن کو بتایا کہ اس کا گاہک اس باپ تھا تو حسن کو چکر آگیا تھا ۔ سارہ نے حسن کو بتایا کہ اُس کے باپ نے گھر کا ماحول کس قدر گناہ آلود بنا رکھا تھا اور وہ کس طرح انہی گناہوں کی شیدائی ہو کر ایک صلیبی کے ساتھ گھر سے بھاگی اور کس طرح اس مقام تک پہنچی ۔ سارہ نے اُسے بتایا کہ اُس کا باپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس جانے کو تیار ہے۔

'' میں نے تمہیں کہا تھا کہ تمہارا مقصد پاک ہے''۔ حسن نے کہا ……'' مجھے اُمید ہے کہ خدا تمہاری آبرو کی حفاظت کرے گا ۔ خدا نے میری اُمید پوری کردی ہے…… اب میں تمہارے باپ سے ملوں گا اور اُسے کہوں گا کہ تیار رہنا''۔

دن کو حسن سارہ کے باپ سے ملا۔ بچ بچ کر بات کی ۔ اس کی غیرت کو جھنجوڑا اور جب دیکھا کہ وہ بہت ہی نادم ہے تو حسن نے اُسے وہاں سے نکلنے کا سہل طریقہ بتایا۔ اس کے ساتھ ساری بات طے کرکے وہ سارہ سے اُس محفوظ جگہ ملا جہاں وہ کبھی کبھی ملا کرتے تھے۔ سارہ کے باپ نے اپنے میزبانوں سے خواہش ظاہر کی کہ وہ اکیلے ذرا سیر کے لیے جانا چاہتا ہے۔ اُسے گھوڑا دے دیا گیا۔ وہ اپنے ساتھی ایلچی کو یہ بتا کر چلا گیا کہ شام تک لوٹ آئے گا۔ وہ شہر سے نکلا تو ایک جگہ حسن گھوڑے پر سوار اس کے انتظار میں کھڑا تھا ۔ ایک اور جگہ سارہ چھپی ہوئی تھی ۔ اُسے باپ نے اپنے گھوڑے پر سوار کرلیا اور وہ نصیبہ کی سمت روانہ ہوگئے۔

وہ بچ بچ اور چھپ چھپ کر چلتے رہے۔ بہت دُور نکل گئے توانہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے۔ سفر بہت لمباتھا جو انہوں نے ایک رات اور ایک دن میں طے کیا ۔ بیروت کے سراغ رسانوں کے لیے شاہ بالڈون قہر بنا ہوا تھا ۔ موصل کا ایک ایلچی لاپتہ ہوگیا تھا ۔ ایک شاہی رقاصہ جو شاہ بالڈون کو ذاتی طور پر اچھی لگتی تھی ، غائب تھی اور گلبرٹ جیکب نام کا ایک خصوصی باڈی گارڈ بھی لاپتہ تھا ۔ تینوں کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ لڑکیوں کی کمانڈر عورت کی زبان بند تھی ۔ وہ کسی کو بتانے سے ڈرتی تھی کہ اُس نے سارہ کو گمشدہ ایلچی کے کمرے میں بھیجا تھا۔ بیروت میں صرف ایک آدمی کو معلوم تھا کہ یہ تینوں کہا ں ہیں۔ اس آدمی کا نام حاتم تھا مگر حاتم گمنام سا فعل ساز تھا ۔ اُسے وہی لوگ جانتے تھے جو اُس سے گھوڑوں کو نعل لگوایا کرتے تھے۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ غریب سا نعل ساز سلطان ایوبی کے اُس جاسوس گروہ کا لیڈر ہے جو بیروت کے اندر سر گرم ہے۔ سراغ رساہ اپنے قیافوں اور قیاس آرائیوں سے بائولے ہوئے جا رہے تھے۔ 

حسن الا دریس ، سارہ

 حسن الا دریس ، سارہ اور اس کا باپ سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس پہنچ چکے تھے۔ سلطان ایوبی عادت کے مطابق خیمے ٹہل رہا تھا ے سارہ کا باپ اُسے بتا چکا تھا کہ بالڈون کے ساتھ اُس نے کیا منصوبہ تیار کیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اُسی وقت اپنے سالاروں کو بلا لیا اور نقشہ سامنے رکھ کر انہیں بتانے لگا کہ صلیبیوں کا منصوبہ کیا ہے اور ان کے خلاف وہ کیا کاروائی کرنا چاہتا ہے۔ 

 جاری ھے 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں