داستان ایمان فروشوں کی قسط 123 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 123


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر123 سنت، سارہ اور صلیب

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

بیروت کے محاصرے کی ناکامی سلطان صلاح الدین ایوبی کی دوسری شکست تھی ۔ اس ناکامی میں اُس نے کھویا کچھ بھی نہیں تھا مگر پایا بھی کچھ نہیں تھا ۔ اس لیے وہ اسے اپنی شکست سمجھتا تھا ۔ اگر سلطان ایوبی کی نہیں تو یہ اُس کی انٹیلی جنس کی شکست ضرورتھی ۔ بیروت والوں کو قبل از وقت پتہ چل گیا تھا کہ سلطان ایوبی بیروت کو محاصرے میں لینے آرہا ہے۔ صلیبیوں کو یہ خبر قاہرہ سے ہی ملی ہوگی ، حالانکہ سلطان نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں کے سوا کسی کو پتہ نہیں چلنے دیا تھا کہ اُس کا ہدف کیا ہے۔

''آپ اسے شکست نہ کہیں ''۔ ایک سالار نے سلطان ایوبی کو مایوسی کے عالم میں دیکھ کر کہا …… '' بیروت وہیں ہے جہاں پہلے تھا ۔ وہیں رہے گا ۔ ہم اس شہر پر ایک اور حملہ کریں گے''۔

'' اتنا بڑا شکار میرے ہاتھ سے نکل گیا ''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا ……'' میں اسے محاصرے میں لینے اور اس پر قابض ہونے آیا تھا لیکن میں خود محاصرے میں آگیا اور مجھے محاصرہ اُٹھا کر پسپا ہونا پڑا ۔ یہ شکت نہیں تو اور کیا ہے ؟ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ یہ شکست ہے۔ میرے مشیروں اور سالاروں میں بھی ایمان فروش موجود ہیں ''۔

خیمے میں سناٹا طاری ہوگیا ۔ اُس وقت سلطان ایوبی نصیبہ کے مقام پر خیمہ زن تھا ۔ بہت دِن گزر گئے تھے ۔ اُس کی فوج بہت تھکی ہوئی تھی ۔ بہت سی نفری زخمی بھی تھی ۔ اُس نے قاہرہ سے بیروت تک بہت تیز پیش قدمی کرائی تھی۔ مہینوں کا فاصلہ دنوں میں طے کیا تھا ۔ فاصلہ طے کرنے کے فوراً بعد فوج کو صلیبیوں کے محاصرے سے نکلنے کے لیے خون ریز لڑائی لڑنی پڑی ، پھر تیز رفتار پسپائی ہوئی۔ سلطان ایوبی نے فوج کو مکمل آرام دینے کے لیے نصیبہ کے مقام پر پڑائو کیا …… آرام فوج کے لیے تھا ۔ سلطان ایوبی کی تو نیند بھی اُڑ گئی تھی ۔ دِن کو وہ بے چینی سے خیمے میں ٹہلتا یا باہر نکل کر اِدھر اُدھر گھومتا رہتا تھا ۔ اپنے سالاروں کے ساتھ بھی کم ہی بولتا تھا ۔ اسی کیفیت میں اسے ایک سالار نے کہا کہ اسے شکست نہ کہیں۔ سلطان ایوبی کا جواب سن کر سالار خاموش ہوگیا۔ سلطان ایوبی اپنے خیمے میں ٹہل رہا تھا ۔ وہاں ایک اور سالار بھی تھا ۔ بہت دیر تک دونوں سالار خاموش رہے ۔ سلطان ایوبی کے مزاج میں جیسے غصہ تھا ہی نہیں ، پھر بھی سالار اس کے ساتھ بات کرتے ڈرتے تھے۔ 

'' تم دونوں کیا سوچ رہے ہو؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔

''میں سوچ رہا ہوں کہ آپ اسی طرح مایوسی اور غصے کی حالت میں رہے تو آپ کے فیصلے مزید نقصان کا باعث بنیں گے ''۔ایک سالار نے کہا …… '' میں نے آپ کو اس حالت میںرملہ کی شکست کے وقت بھی نہیں دیکھا تھا ۔ اپنے آپ کو ٹھنڈا کریں اور اس جذباتی کیفیت سے نکلنے کی کوشش کریں''۔

''اورمیں سوچ رہا ہوں کہ کفار ہماری جڑوں میں اُترگئے ہیں ''۔دوسرے سالار نے کہا …… '' ہم اس وقت اپنی سرزمین پر کھڑے ہیں ۔ ہماری جنگ صلیبیوں سے ہے اور ہمارا مقصد فلسطین کی آزادی ہے مگر مسلمان امراء میں سے کوئی ایک بھی امیر ہمارے پاس نہیں آیا۔ عزالدین اور عمادالدین کہاں ہیں ؟ کیا انہوں نے ہمارے ساتھ معاہدہ نہیں کیا تھا کہ ضرورت کے وقت ہمیں اپنی فوج دیں گے ؟ ان کا یہ سر درد یہ بتاتا ہے کہ وہ ابھی تک صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں تو کیا ہم آپس میں لڑتے رہیںگے؟''

سلطان ایوبی خیمے میں ٹہل رہا تھا ۔ آسمان کی طرف دیکھ کر اُس نے آہ بھری اور کہا …… '' میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ جب غیر مذہب کے اثرات قبول کیے جاتے ہیں تو اس کا نتیجہ یہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ اور بھگت رہے ہیں ۔ صلیبی اور یہودی مسلمانوں کو اپنا غلام بنانے کے لیے انسانی فطرت کی سب سے بڑی کمزوری کو استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ کمزوری لالچ ہے ۔ انسانوں پر حکومت کرنے کا لالچ ، بادشاہ اور شہزادہ بننے کا لالچ اوریہ لالچ کہ میں روئی جیسے ملائم قالینوں پر چلوں اور لوگ ننگے پائون گرم ریت پر چلیں۔ اُن کے پائوں جلیں تو میرے آگے سجدے کریں۔ جب یہ لالچ دِل میں اُتر جاتا ہے تو دل سے ایمان نکل جاتا ہے۔ عقل پر ایسا پردہ پڑتا ہے کہ قومی غیرت اور خود داری بے معنی سے جذبے بن جاتے ہیں ۔ جب کوئی انسان اس مقام پر پہنچ جاتا ہے تو وہ غداری کو قابلِ فخر اقدام سمجھتا ہے ۔ صلیبیوں نے ہمارے پیتر امراء کو اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے اپنی تہذیب کی بے حیائی مسلمانوں میں بھی پھیلا دی ہے ۔ جب تہذیب بدل جاتی ہے تو مذہب ایک کمزور سا خول بن کے رہ جاتا ہے جو اُتار کر پھینکا بھی جا سکتا ہے اور قوم کو دھوکہ دینے کے لیے اپنے اوپر چڑھایا جاسکتا ہے''۔

دونوں سالار خاموشی سے سن رہے تھے ۔سلطان صلاح الدین ایوبی ٹھہری ٹھہری آواز میں بول رہا تھا ۔ وہ چپ ہوگیا ، 

: ، پھر گہرا سانس لے کر بولا …… '' تم محسوس نہیں کر رہے کہ یہ بھی شکست ہے کہ میں جو عمل کے میدان کا مرد ہوں، خیمے میں کھڑا عورتوں کی طرح باتیں کرتا رہا ہوں۔ ہمیں اس وقت بیت المقدس میں ہونا چاہیے تھا ۔ میری پیشانی مسجدِ اقصٰی میں سجدے کرنے کو تڑپ رہی ہے۔ مجھے اُن شہیدوں کے خون کا اخراج ادا کرنا ہے جو فلسطین کی آبرو اور آزادی پر قربان ہوگئے ہیں '' …… سلطان ایوبی کی آواز میں یکلخت قہر آگیا۔ اس نے ٹہلتے ٹہلتے رُک کر سالاروں کے سامنے کھڑے ہو کر کہا …… '' کیا تم اُن بچوں کا سامنا کر سکتے ہو جنہیں میرے حکم اور میرے عزم نے یتیم کیا ہے؟ کیا تم اُن عورتوں کے سامنے جا کر اپنا سر اونچا کر سکتے ہوجن کے خاوند نعرے لگاتے ہمارے ساتھ آئے اور اُن کے لہولہان جسم گھوڑوں کے سُمّوں سے قیمہ ہوگئے ؟ تم اُن خوبرو اورجوان چھاپہ ماروں کو کیسے بھول سکتے ہو جو ہم سے بہت دُور دشمن کے علاقوں میں دُور ادر جا کر شہید ہوئے ؟ …… میں اُ ن میں سے کسی کی ماں کے سامنے جانے سے ڈرتا ہوں ۔ ڈرتا اس لیے ہوں کہ اُ س نے یہ کہہ دیا کہ میرا بیٹا واپس کرو یا مجھے قبلہ اول لے چلو جہاں میں اپنے بیٹے کے شہادت پرشکرانے کے نفل پڑھوں تو میں اس ماں کو کیاجواب دوں گا ؟

''شہیدوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا محترم سلطان!'' یہ چھاپہ ماردستوں کے سالار صارم مصری کی آواز تھی جو سلطان ایوبی کے خیمے کے دروازے میں آن کھڑا ہوا تھا ۔ سلطان ایوبی کی اُدھر پیٹھ تھی ۔

'' کسی شہید کی ماں اپنے بیٹے کے خون کا حساب نہیں مانگے گی ۔ رسول ۖ کا کلمہ پڑھنے والی مائوں کا دودھ آبِ زمزم جیسا پاک اور مقدس ہے۔ اُس دودھ کے پلے ہوئے بیٹے آپ کے حکم سے نہیں اللہ کے حکم سے لڑا کرتے ہیں۔ آپ اُن کے خون کا اخراج اپنے ذمے نہ لیں۔ غداروں کے خون کی بات کریں۔ ہماری تلواریں غداروں کے خون کی پیاسی ہیں ''۔

''تم نے میرے حوصلے میں جان ڈال دی ہے صارم!'' سلطان ایوبی نے کہا …… '' میرے یہ دونوں رفیق بھی مجھے یہی کہہ رہے تھے کہ مایوس اور جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ''۔

'' ضرورت ہے بھی کیا !'' صارم مصری نے کہا …… '' شکست شکست ہے مگر دائمی نہیں ۔ ہم اسے فتح میں بدل سکتے ہیں اور بدل کر دکھا ئیں گے ''۔ 

'' اگر بات میدانِ جنگ کی ہوتی تو میں ایک بازو کٹوا کر بھی مایوس اور پریشان نہ ہوتا ''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔'' مشکلیہ پیدا ہوگئی ہے کہ دشمن زمین کے نیچے چلا گیا ہے ۔ صلیبی اور یہودی ہماری قوم میں ایسے زہریلے اثرات چھوڑ رہے ہیں جو پُر کشش اور طلسماتی ہیں۔ قوم اور فوج کے متعلق مجھے اطمینان ہے۔ سپاہی اور عام آدمی اِن اثرات کو قبول نہیں کرتا ۔ انہیں وہ چند ایک افراد قبول کرتے ہیں کرچکے ہیں جن کا اثر قوم پر ہے۔ یہ اُمراء اور حاکموں کا طبقہ ہے۔ ان میں بعض مذہبی پیشواء بھی شامل ہیں اور ان میں چند ایک سالار بھی ہیں جو ریاستوں کے حکمران بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ یہ ایمان فروشوں کا گروہ ہے جو سیدھے سادے لوگوں کو مذہب کا دھوکہ دے کر اُ ن میں مذہب کا جنون پیدا کرتے اور انہیں مسلمان بھائیوںکے خلاف اکساتے ، بھڑکاتے اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غیر مذہب کے لوگ مسلمان امراء اور اسی سطح کے طبقے کو اپنے زیر اثر لیتے ہیں ۔ پھر یہ طبقہ لوگوں کو مذہب اور محبت کا دھوکہ دیتا اور انہیں بھوکا اور بے بس رکھتا ہے تا کہ لوگ یہ نہ دیکھ سکیں کہ یہ طبقہ درپردہ کیا کر رہا ہے''۔ 

'' مگر ہم عالم نہیں ''۔ ایک سالار نے کہا …… ''ہم خطیب اور مسجدوں کے امام نہیں کہ تلواریں پھینک کر لوگوں کووعظ اور خطبے سناتے پھریں۔ ہمیں یہ مسئلہ تلوار سے حل کرنا ہوگا۔ ان پتھروں کو گھوڑوں کے سموں تلے روندنا ہوگا''۔

''یہ لوگ قرآن کے منکر ہیں ''۔سلطان ایوبی نے کہا …… '' قرآ ن کا حکم بڑا واضح ہے کہ کفار کو دوست مت سمجھو۔ ان کی باتوں میں نہ آنا۔ تم نہیں جانتے کہ اُن کے دِل ہمارے خلاف کدورتوں سے بھرے ہوئے ہیں''۔

'' یہ لوگ نام کے مسلمان ہیں''۔ صارم مصری نے کہا …… ''قرآن کا اُن کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ''۔

: ''یہ صورت حال بہت نقصان دہ ہے کہ ان لوگوں نے قرآن مجید بھی ہاتھوں میں اُٹھا رکھا ہے اور کفار کے اشاروں پر بھی ناچ رہے ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' قوم نے ہمیشہ ایسے ہی سربراہوں کے ہاتھوں دھوکہ کھایا ہے جن کے ہاتھ میں قرآن اور دِل میں صلیب ہے۔ یہ لوگ اذان کی آواز پر خاموش ہوجاتے ہیں مگر ان کے دِلوں میں گرجوں کے گھنٹے بجتے ہیں ۔ قوم ان کا اصلی روپ نہیں دیکھ سکتی اور ان کے دِل کی آواز نہیں سن سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ ایک خانہ جنگی میں ایک دوسرے کا خون بہا چکے ہیں اور دوسرے خانہ جنگی کی تلوار ہماری گردن پر لٹک رہی ہے''۔

'' ہم اس طوفان کو روک سکیں گے''۔ ایک سالار نے کہا …… '' لیکن مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ ہم اب کوئی معاہدہ اور کوئی صلح نامہ نہیں کریں ۔ ہمیں اپنے بھائیوں کا خون بہانا پڑے گا اور ہمیں ان کے ہاتھوں مرنا بھی ہوگا ''۔

سلطان ایوبی کے چہرے پر اُداسی کا سایہ آگیا ۔ ان کی آنکھیں جیسے اُفق پر کسی چیز کو دیکھ رہی تھیں۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ اس کی نظریں آنے والی صدیوں کا سینہ چا ک کر رہی ہیں۔ خیمے میں ایک بار پھر گہرا سکوت طاری ہوگیا ۔ تینوں سالار اپنے سلطان کے اس تاثر سے جو ابس پر کبھی کبھی طاری ہوا کرتا تھا ، اچھی طرح واقف تھے۔

''میرے عزیز رفیقو!'' سلطان ایوبی نے کہا…… '' مجھے نظر آرہا ہے کہ میرے رسول ۖ کی اُمت آپس میں لڑلڑکر ختم ہوجائے گی ۔ صلیبی اور یہودی اسے خانہ جنگی میں اُلجھائے رکھیں گے۔ حکمرانی کا لالچ بھائی کو بھائی کا دشمن بنائے گا۔ فلسطین خون سے لال ہوتا رہے گا ۔ مسلمان حکمران سلطنتوں میں بٹ کر عیش و عشرت میں پڑے رہیں گے ۔ ہمارا قبلہ اوّل اُمتِ رسول ۖ کا پکارتا رہے گا اور اُس پکار کو کوئی مسلمان نہیں سنے گا ۔ اگر کوئی فلسطین کر سرزمین کو آزاد کرانے کے لیے اُٹھے تو وہ کوئی ہم جیسا دیوانہ ہوگا ۔ ایسے دیوانوں کو خود اپنے مسلمان حکمران دھوکے دیں گے اور درپردہ دوست بنے رہیں گے۔ تم نے کہا ہے کہ ہم اس طوفان کو روک سکیں گے ، مگر ہمارے مرنے کے بعد یہ طوفان پھر اُٹھے گا ''۔ 

'' پھر ایک اور صلاح الدین ایوبی پیدا ہوگا''۔ سالار صارم مصری نے کہا …… '' ایک اور نورالدین زنگی پیدا ہوگا۔ مسلمان مائیں مجاہدین کو جنم دیتی رہیں گی ''۔

'' اور یہ مجاہدین عیاش حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونے بنے رہیں گے''۔ سلطان ایوبی نے طنزیہ لہجے میں کہا ……' ' اور وہ وقت بھی آجائے گا جب فوج بھی عیاش سپاہیوں کا گروہ بن جائے گی اور اس کے سالار کفار کے ہاتھوں میں کھیلیں گے ''۔ سلطان ایوبی اس انداز سے خاموش ہوگیا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔ اُس نے تینوں سالاروں کی طرف باری باری دیکھا اور کہا …… '' مگر ہم یہ باتیں کب تک کرتے رہیں گے؟ ہم چاروں ایک دوسرے کو خطبے سنا رہے ہیں ۔اللہ کے سپاہی خطیب نہیں ہوا کرتے۔ ہمیں عمل کرنا ہے۔ ہم میدانِ عمل کے مرد ہیں۔ صارم! تم نے میری پہلی ہدایت کے مطابق اپنے چھاپہ مار دستوں کو میری بتائی جگہوں پرپھیلا رکھا ہوگا اورء تم جانتے ہو کہ ہماری یہ خیمہ گاہ کس خطرے میں ہے''۔

'' اچھی طرح جانتا ہوں سلطانِ محترم!'' سالار صارم مصری نے جواب دیا …… '' ہم بیروت کا محاصرہ اُٹھا کر اس طرف آئے تھے تو ہماری توقع کے خلاف صلیبیوں نے ہمارے تعاقب میں فوج نہیں بھیجی تھی ، لیکن ہم اس خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوئے کہ صلیبی ہمیں بخش دیں گے۔ میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں وہ کھلا حملہ نہیں کریں گے۔ وہ ہم پر ہمارے انداز کے شب خون ماریں گے، بلکہ اُن کے چھاپوں اور شبخونوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ خیمہ گاہ سے بہت دُور سے فرنگیوں اور ہمارے گشتی دستوں کی چھوٹی چھوٹی جھڑپوں کی خبریں آنے لگی ہیں ۔ میں نے چھاپہ ماردستوں دُور دُور تک پھیلا رکھا ہے۔ مجھے شک ہے کہ کفار کا اڈہ کہیں باہر نہیں ، بلکہ موصل میں ہے اور والئی موصل عزالدین انہیں پناہ اور مدد دے رہا ہے ''۔

'' اگر ایسی بات ہے تو مجھے اس کی اطلاع مل جائے گی ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' اگر موصل میںہی صلیبیوں کا خفیہ اڈہ ہوا تو میں اس کا بندوبست کرلوں گا ''۔ اُس نے دوسرے دو سالاروں سے کہا …… '' ہمیں مسلمان اُمراء کے اُن قلعوں پر قبضہ کرنا ہوگا جو موصل اور حلب کے درمیان ہیں۔ میں اِن دونوں شہروں کو ایک دوسرے سے کاٹ دینا چاہتا ہوں۔ وہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے قابل نہیں رہیں گے ۔ اُن کے قاصدوں کو بھی راستہ نہیں ملے گا۔ میں نے بہت کوشش کی ہے کہ میری تلوار کسی مسلمان کے خلاف نیام سے نہ نکلے لیکن میں ناکام رہا۔ ان حکمرانوں اور اُمراء کو ختم کروں گا جو صلیبیوں کے دوست ہیں ۔ میں خود قوم کی آڑ میں نہیں بیٹھوں گا ، نہ قوم کا خون بہنے دوں گا۔ میںاُن اُمراء کو گھٹنوں بٹھادوں گا : جو قوم کو گمراہ کر رہے ہیں ''۔ 

سلطان ایوبی نے نقشہ نکالا اور اپنے سالاروں کو دکھانے لگا۔

٭ ٭ ٭

بیروت میں بالڈون کے محل میں اُس نے اپنے سالاروں اور تین چار صلیبی حکمرانوں کو مدعو کر رکھا تھا ۔ بہت بڑی ضیافت کا اہتمام تھا ۔ بے شمار صلیبی مہمانوں میں دو مسلمان بھی شراب کے پیالے اُٹھائے اِدھر اُدھر گھومتے پھرتے نظر آرہے تھے ۔ شراب پیش کرنے والی لڑکیاں ایسے باریک ریشمی لباس میں ملبوس تھیں کہ عریاں لگتی تھیں۔ جوں جوں شراب اثر دکھا تی جارہی تھی لڑکیوں کے ساتھ مہمانوں کی دست درازی بڑتھی جا رہی تھی اور لڑکیاں پہلے سے زیادہ بے حیا ہوتی جا رہی تھیں۔ ان دو مسلمانوں کی طرف دوسرے مہمانوں کی نسبت زیادہ توجہ دی جا رہی تھی ۔ دو لڑکیاں ان کے اِرد گرد اٹھکیلیاں کرتی پھر رہی تھیں۔ یہ دونوں مہمان لباس اور شکل و صورت سے کسی شاہی خاندان کے افراد معلوم ہوتے تھے ۔ 

ایک صلیبی آیا۔ دونوں سے کہا کہ انہیں بالڈون نے اپنے کمرے میں بلایا ہے۔ دونوں شراب کے پیالے رکھ کر چلے گئے۔ وہ جس غلامِ گردش سے گزر کر بالڈون کے کمرے میں گئے ۔ اس میں ایک آدمی ہاتھ میں برچھی اُٹھائے فوجی انداز سے ٹہل رہا تھا ۔ اس کا لباس خاص قسم کا تھا ۔ اُس کے پہلو میں جو تلوار لٹک رہی تھی ، اس کی نیام پالش سے چمک رہی تھی ۔ اُس کے سر پر فولاد کی چمک دار خود تھی ۔ محل میں اس لباس میں کئی ایک آدمی سینے تانے اور گردنیں اکڑائے ٹہل رہے تھے ۔ یہ محل کے خصوصی ملازم تھا جو سالاروں کے کمرے کے سامنے موجود رہتے اورضیافتوں میں برآمدوں اور غلامِ گردشوں میں ٹہلتے رہتے تھے۔ فانوسوں کی روشنی میں اُن کا لباس اور اُن کی چال اچھی لگتی تھی ۔ یہ دراصل نمائش کے لیے رکھے گئے تھے اور یہ تربیت یافتہ لڑاکے بھی تھے۔ 

یہ آدمی جس نے دو مسلمانوں کو بالڈون کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا، گورے رنگ کا تھا ۔ وہ رُک کر انہیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ وہ دونوں بالڈون کے کمرے میںداخل ہوگئے اور دروانہ بند ہوگیا۔ اس دروازے کے سامنے اسی آدمی جیسے لباس میں دو آدمی پہرے پر کھڑے تھے ۔ ان میں سے ایک نے اُسے کہا …… '' ہیلو جیکب ، اِدھر کیوں گھومتے پھر رہے ہو؟ اُدھر جائو جہاں پریاں ناچ رہی ہیں۔ ہم تو یہاں سے ایک قدم بھی اِدھر اُدھر نہیں ہو سکتے''۔

'' جیکب نے اُن کے مذاق کا جواب دے کر کہا …… '' یہ دو آدمی جو اندر گئے ہیں مسلمان معلوم ہوتے ہیں۔ کون ہیں یہ ؟'' 

'' تمہیں ان سے کیا دل چسپی ہے؟''

'' تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ اِن سے مجھے کیا دلچسپی ہے؟'' …… جیکب نے کہا …… '' کیا تم نہیں جانتے کہ مسلمان کے خلاف کتنی نفرت پائی جاتی ہے؟ یہ دونوں کسی جنونی صلیبی یہودیوں کے ہاتھوں قتل ہوسکتے ہیں ۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری ہمیں دے دی گئی ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ مسلمان ہیں یا مسلمان علاقے کے عیسائی ''۔

'' یہ مسلمان علاقے کے مسلمان ہیں ''۔ اُسے جواب ملا ۔ '' یقین سے نہیں کہا جاسکتا ، جہاں تک ہم جانتے ہیں، یہ موصل سے آئے ہیں ۔ غالباً عزالدین کے ایلچی ہیں ''۔

'' صلاح الدین ایوبی کے خلاف مدد مانگنے آئے ہوں گے''۔ جیکب نے کہا …… '' اِن ایلچیوں کو کون بتائے کہ صلاح الدین ایوبی ختم ہو چکا ہے۔ رملہ سے شکست کھا کر بھاگا تو بیروت کو محاصرے میں لینے آگیا ۔ اُس کے بحری بیڑے کو آگے آنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا کہ ہماری فوج نے ایوبی کی فوج کا تعاقب نہیں کیا ، ورنہ آج ایوبی قید خانے میں ہوتا ''۔

'' تم اپنا کام کرودوست !'' ایک پہرے دار نے طنزیہ کہا …… '' سلطان صلاح الدین ایوبی قید ہوگیا تو اُس کی سلطنت تمہیں نہیں ملے گی ۔ اگر شاہ بالڈون مارا گیا تو بیروت کی بادشاہی تمہارے نام نہیں لکھی جائے گی ''۔

جیکب وہاں سے ہٹ آیا لیکن گھوم گھوم کر بند دروازے کو دیکھتا رہا جس کے پیچھے یہ دونوں مسلمان ہوگئے تھے۔ وہ دونوںعزالدین والئی موصل کے ہی ایلچی تھے۔ اس سلسلے کی پچھلی قسط میں بیان کیا جا چکا ہے کہ سلطان ایوبی جب بیروت کا محاصرہ اُٹھا کر موصل کی طرف گیا تھا تو عزالدین نے بہائوالدین شداد کو خلیفہ کی طرف اس عرضداشت کے ساتھ دوڑادیا تھا کہ سلطان ایوبی کے ساتھ اس کی صلح کرادیں۔ دوسرے لفظوں میں اُس نے یہ درخواست کی تھی اُسے سلطان ایوبی سے بچایا جائے۔ خلیفہ نے یہ کام شیخ العلماء کے سپرد کردیا اور سلطان ایوبی نے عزالدین کو بخش دیا ۔ عزالدین نے بظاہر سلطان ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کا معاہدہ کر لیا تھا لیکن اُس نے درپردہ دو ایلچیوں کو صلیبی حکمران بالڈون کے پاس بھیج دیا تھا ۔ یہ دو ایلچی اب بالڈون کے کمرے میں بیٹھے تھے ۔

: '' والئی موصل نے کہا ہے کہ آپ نے صلا ح الدین ایوبی کا تعاقب نہ کرکے بہت بڑی غلطی کی ہے''۔ ایک ایلچی نے بالڈون کو بتایا …… '' آپ نے اُس کی فوج کو آرام کرنے کا موقعہ دے دیا ہے۔ والئی موصل نے کہا کہ میں تحریری پیغام نہیں دے سکتا کیونکہ راستے میں پکڑے جانے کا خطرہ ہے۔ میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ دمشق کی طرف پیش قدمی کریں اور اس شہر کو محاصرے میں لے کر اس پر قبضہ کرلیں۔ آپ کی فوج ایسے راستے سے اور اتنی تیزی سے دمشق پہنچے کہ صلاح الدین ایوبی دمشق بروقت نہ پہنچ سکے۔ میں آپ کے ساتھ وعدہ کرتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی جب آپ کے حملے کی اطلاع پر یہاں سے روانہ ہوگا تو موصل اور حلب کی فوجیں آمنے سامنے لڑنے کی بجائے اس کی فوج پر شبخون مارتی رہیں گی۔ اس سے اُس کی پیش قدمی بہت سست ہوجائے گی اور آپ دمشق پر آسانی سے قبضہ کرلیں گے ۔ ہمارے علاقوں میں جو چھوٹے موٹے اُراء ہیں، میں ان سب کو اپنے ساتھ ملا لوں گا ۔ آپ ان کے قلعے استعمال کر سکتے ہیں۔ میں آپ کی فوج کو موصل کے اندر قیام کی اجازت نہیں دے سکتا، کیونکہ اس سے صاف ظاہر ہوجائے گا کہ میرا اور آپ کا اتحاد ہے۔ میں صلاح الدین ایوبی کو یہ تاثر دے رہا ہوں کہ میں اُس کا دوست ہوں ''۔

ایلچی جب یہ پیغام دے رہا تھے ، اس وقت بالڈون کے ساتھ اُس کے دو جرنیل تھے۔ عزالدین کے ایلچی بھی فوجی مشیر تھے۔ جنگی امور کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ بالڈون ان کے ساتھ اس مسئلے پر بحث اور بات چیت کرتا رہا۔اُس نے دیکھ لیا تھا کہ یہ مسلمان اُس کے جال میں آگئے ہیں۔ چنانچہ اُس نے اپنی شرطیں عائد کرنی شروع کردیں۔

'' عزالدین کو شاید پوری طرح احساس نہیں کہ صلاح الدین ایوبی کو بے خبری میں نہیں دبوچا جا سکتا ''۔ بالڈون نے کہا …… '' ہم دمشق کو محاصرے میں لیں گے تو وہ برق رفتار پیش قدمی کرکے ہم پر عقب سے حملہ کردے گا۔ میں اسے ممکن نہیں سمجھتا کہ ہم دمشق کی طرف پیش قدمی کریں تو صلاح الدین ایوبی کو قبل از وقت خبر نہ ہو۔ وہ عقاب اور گدھ کی طرح بہت دُور سے شکار کودیکھ لیتا ہے اور ایسا جھپٹا مارتا ہے کہ پسپائی بھی محال ہو جاتی ہے۔ ہم ابھی کھلی جنگ کا خطرہ مول نہیں لے سکتے۔ ہم اس کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔ فوری طور پر ہم نے یہ بندوبست کردیا ہے کہ چھاپہ ماردستے بھیج دئیے ہیں جو صلاح الدین ایوبی کی فوج کو آرام سے نہیں بیٹھنے دیں گے۔ اِن دستوں کے لیے ہمیں مستقل اڈے کی ضرورت ہے ۔ یہ آپ مہیا کر دیں گے تو ہم صلا ح الدین ایوبی کی فوج کو صرف چھاپہ مار دستوں سے ہی بے حال کر سکتے ہیں ۔ وہ نہ لڑنے کے قابل رہے گا ، نہ بھاگ سکے گا ۔ آپ ہمارے دستوں کو پناہ ، مدد اور خوراک وغیرہ مہیا کرتے رہیں۔ ہم اسلحہ اور سامان بھیجتے رہیں گے ۔ آپ حلب کے والی عمادالدین سے بھی کہہ دیں کہ ہم پر بھروسہ رکھے اور ہمارے چھاپہ مار دستوں کو بوقتِ ضرورت پناہ اور مدد دیتا رہے۔ دوسرے اُمراء اور قلعہ دار بھی آپ کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ ان کا خیال رکھیں کہ ان میں سے کوئی صلاح الدین ایوبی کے پاس جاکر اس کا اتحادی نہ بن جائے''۔

اتحاد کی شرائط طے کر لی گئیں۔ عزالدین نے ان ایلچیوں کو پورا اختیار دے دیا تھا کہ وہ شرائط طے کرکے آئیں اور جو مراعات صلیبیوں کو دینا مناسب سمجھیں، دے آئیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنا ایمان ایک صلیبی حکمران کے ہاں صرف اس لیے گروی رکھ دیا کہ اُن کی حکمرانی محفوظ رہے۔ انہوں نے اپنا کام تو کر لیا تو ضیافت میں شریک ہونے کے لیے چلے گئے۔ انہیں دراصل شراب اورشراب پلانے والی لڑکیوں کے ساتھ ہی دلچسپی تھی ۔

'' اِن مسلمانوں پر زیادہ اعتماد نہ کریں''۔ ایک جرنیل نے بالڈون سے کہا …… '' انہوں نے ضرورت محسوس کی تو آپ کو بتائے بغیر صلاح الدین ایوبی کے پائوں میں جا بیٹھیں گے''۔

'' مجھے اپنے چھاپہ ماروں کے لیے ایک اڈہ چاہیے ''۔ بالڈون نے کہا …… '' موصل میرا اڈہ بن گیا تو میں آہستہ آہستہ پوری فوج وہاں لے جائوں گا اور عزالدین کو وہاں سے بے دخل کردوں گا ۔ ہم سب کا منصوبہ یہ ہونا چایے کہ ان مسلمانوں کو ہم متحد نہ ہونے دیں بلکہ انہیں آپس میں لڑاتے رہیں اور آہستہ آہستہ ان کے علاقوں پر قابض ہوجائیں۔ ہم سب نے دیکھ لیا ہے کہ مسلمان کو عیش و عشرت اور حکمرانی کا لالچ دے دو تو وہ اپنی خودداری اور اپنا مذہب تمہارے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ عزالدین ، عمادالدین اور دوسرے چھوٹے موٹے مسلمان اُمراء صرف اس لیے صلاح الدین ایوبی کے خلاف ہیں کہ وہ سب خود مختار حکمران بنے رہنا چاہتے ہیں اور عیش و عشرت کی خاطر پُر سکون زندگی کی خواہش رکھتے ہیں ، مگر صلاح الدین ایوبی عیش و عشرت اور حکمرانی کا قائل نہیں۔ وہ ان سب کو ایک محاذ پرمتحد کرکے فلسطین سے ہمیں بے دخل کرنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہے لیکن جنہیں وہ متحد کرنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ جنگ و جدل سے ڈرتے ہیں ۔ مجھے اُمید ہے کہ عزالدین اور اُس کا ٹولہ ہمارے ہاتھ سے نکلے گا نہیں ے

: نہیں ے اگر کسی نے نکلنے کی کوشش کی تو اُسے ہم حشیشین کے ہاتھوں قتل کرادیں گے۔

'' بالڈون نے اپنے جرنیلوں کو چند ایک ہدایات دے کر کہا …… '' عزالدین کے ان دونوں ایلچیوں کی اتنی زیادہ خاطر تواضع کرو کہ ان کی عقل بالکل ہی ماری جائے اور انہیں یاد ہی نہ رہے کہ ان کا مذہب کیاہے؟۔ اس نے جس ہدایت پر سختی سے عمل کرنے کو کہا وہ یہ تھی کہ اس کمرے میں ان ایلچیوں کے ساتھ جو باتیں ہوئی ہیں وہ کمرے سے باہر نہ جائیں''۔بالڈون نے کہا …… ''صلاح الدین ایوبی کے جاسوس بیروت میں موجود ہیں''۔

دونوں ایلچی شراب اور لڑکیوں کے نشے میں بد مست ہوئے جا رہے تھے۔ مہمان اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے شراب پی رہے تھے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ جیکب ان دونوں ایلچیوں کو ڈھونڈ رہا تھا ۔ اُن میں سے ایک الگ مل گیا۔ جیکب نے فوجی انداز سے اُسے سلام کیا اور پوچھا…… '' آپ غالباً موصل کے مہمان ہیں ؟ ہم موصل والوں سے بہت محبت کرتے ہیں ''۔

'' ہم موصل کے حکمران عزالدین کے ایلچی ہیں ''۔ ایلچی نے شراب کے نشے میں بدمت ہوتے ہوئے کہا …… '' ہم یہ معلوم کرنے آئے ہیں کہ بیروت کے صلیبیوں کے دِل میں موصل کے مسلمانوں کی کتنی محبت ہے؟'' …… ایلچی کی جس طرح زبان لڑکھڑا رہی تھی، اسی طرح اُس کی ٹانگیں بھی لڑکھڑا گئیں۔ وہ اتنی زیادہ پی چکا تھا کہ پائون پر کھڑا بھی نہں رہ سکتا تھا ۔ اُس نے جیکب کے کندھے پر بازو سے ہاتھ مار کر کہا …… '' شراب کا یہی کمال ہے انسان کے دل سے مذہب نکل جاتا ہے اور اس کی جگہ محبت آجاتی ہے۔ مجھے صلیب سے محبت ہے اور مجھے تمہاری اس برچھی سے محبت ہے، جس روز یہ برچھی صلاح الدین ایوبی کے سینے میں اُتر جائے گی ، اُس روز میں سالارِ اعظم بن جائوں گا ۔

جیکب وہاں زیادہ دیر کھڑا نہیں رہ سکتا کیونکہ اس کی ڈیوٹی گھومنے پھرنے کی تھی ۔ وہ یلچی کو جھومتا لڑکھڑاتا چھوڑ کر اِدھر اُدھر ہوگیا۔ کچھ دیر بعد اُ س نے دیکھا کہ ایلچی کو دو آدمی تھام کر لے جارہے تھے۔ وہ ہوش میں نہیں تھا ۔ آدھی رات کے قریب جیکب کی ڈیوٹی ختم ہوگئی۔ ناچ گانا جاری تھا ، جیکب اور اُس کے ساتھیوں کی جگہ دوسرے آدمی آگئے ۔ جیکب اپنے کمرے میں گیا ۔ وردی اُتاری اور اپنے پکڑے پہن لیے۔ وہ بہت تھکا ہوا تھا ۔ اُسے جوجانا چاہیے تھا لیکن وہ باہر نکل گیا ۔ اُس کا رُخ کسی اور طرف تھا لیکن وہ اُس طرف چلا گیا جہاں لڑکیاں رہتی تھیں۔ یہ ایک عمارت تھی جس کا ایک حصہ اتنا خوبصورت تھا جیسے وہاں شہزادیاں رہتی ہوں۔ یہ اُن لڑکیوں کی رہائشگاہ تھی جو جاسوسی کے لیے اور کردار کی تخریب کاری کے لیے مسلمانوں کے علاقوں میں اُمراء اور سالاروں اور حکمرانوں کو صلیب کے جال میں پھانسنے کے لیے بھیجی جاتی تھیں۔ انہیں اُن علاقوں میں جو صلیبیوں کے قبضے میں آگئے تھے ، مسلمان جاسوسوں کو پھانسنے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔

اسی عمارت کے دوسرے حصے میں ناچنے اور گانے والی لڑکیاں رہتی تھیں۔ ان کی قدروقیمت جاسوس لڑکیوں جتنی نہیں تھی جو جسمان حسن کے لحاظ سے جاسوس لڑکیوں سے کم نہیں تھیں۔ اُن کا کام صرف یہ تھا کہ محل کی ضیافتوں پر ناچا کرتی تھیں۔ باہر کے مہمان آئیں تو ناچ گانا ضرور ہوتا تھا۔ اُس رات موصل کے مسلمان ایلچیوں کے اعزاز میں جو ضیافت دی گئی تھی ، اس میں ناچ گانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ اُن میں سارہ نہیں تھی ۔ سارہ بہت خوبصورت لڑکی تھی ۔ اُس کے خدو خال اور اُس کے بالوں اور آنکھوں کا نگ یورپ کی لڑکیوں جیسا نہیں تھا ۔ وہ بیروت کی ہی رہنے والی ہو سکتی تھی ، مصر کی بھی اور وہ یونان کی بھی ہو سکتی تھی ۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاںکی رہنے والی ہے۔

: جیکب کسی اور طرف جا رہا تھا ۔ اُسے یاد آگیا کہ ناچنے گانے والیوں میں اُسے سارہ نظر نہیں آئی تھی۔ اس کی غیرحاضری کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ بیمار ہے یا اس پیشے سے تنگ آکر بھاگ گئی ہے۔ جیکب کومعلوم تھا کہ سارہ اس پیشے خوش نہیں ہے ، کیونکہ وہ خود نہیں آئی ، لائی گئی ہے۔ جیکب بھی اسی محل کے قریب رہتا تھا اور اس کی ڈیوٹی محل میں ہی ہوتی تھی ۔ ایسی ہی ایک ضیافت کے دوران سارہ اتفاق سے جیکب سے ملی تھی ۔ سارہ کو سب مغرور لڑکی کہا کرتے تھے ، کیونکہ وہ کسی کے ساتھ بولتی نہیں تھی۔ جیکب میں نہ جانے اُسے کیا نظر آیا کہ اُسے وہ پسند کرنے لگی ۔ جیکب کو بھی یہ لڑکی اچھی لگنے لگی۔

ایک رات سارہ محل سے فارغ ہوکر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی ۔ اسے جیکب مل گیا ۔ سارہ نے اسے کہا میں '' میں اکیلی جا رہی ہوں، میرے ساتھ کمرے تک نہیں چلو گے؟''

'' اکیلے جاتے ڈر آتا ہے؟'' جیکب نے کہا …… '' یہاں سے تمہیں کوئی اغوا کرکے نہیں لے جا سکتا ''۔

'' میں اب اغوا نہیں ہوسکتی '' ۔ سارہ کی مسکراہٹ بجھ گئی۔ کہنے لگی …… '' اب تو اپنے آپ کو خود ہی اغوا کروں گی …… میرے ساتھ چلو ۔ اکیلے جاتے ڈر تو نہیں آتا۔ تمہارے ساتھ کی ضرورت ہے''۔

ساری جیسی حسین لڑکی کا جیکب کو پسند کرنا کوئی عجوبہ نہیں تھا ۔ جیکب مردانہ حسن اور وجاہت کا شاہکار تھا ۔ چند اور لڑکیوں نے بھی اس کے ساتھ دوستی کی پیشکش کی تھی لیکن جیکب ان سے دُورہی رہا تھا ۔ دُور رہنے کی وجہ تھی کہ یہ سب ناپاک اور عصمت بریدہ لڑکیاں تھیں۔ جیکب نے اُن کی پیشکش ٹھکرا کر اپنی قیمت چڑھالی اور اپنی کشش میں اضافہ کر لیا تھا ۔ وہاں تو یہ عالم تھا کہ بدکاری کو گناہ کی بجائے تفریح بلکہ جائز تفریح سمجھا جاتا تھا ۔ پہلی ملاقات میں جیکب سارہ کو بھی ایسی ہی بدکار لڑکی سمجھا تھا لیکن سارہ میں سنجیدگی اور متانت سی تھی جو جیکب کو اچھی لگی تھی ۔ سارہ جو جب یہ پتہ چلا کہ جیکب شراب بھی نہیں پیتا تو وہ اُسے زیادہ اچھا لگنے لگا تھا ۔ پھر ایک رات سارہ نے اُس کے منہ سے اپنی تعریف کرانے کے لیے پوچھا تھا …… '' تم نے میرے رقص کی کبھی تعریف نہیں کی ۔ دوسرے مجھے راستے میں روک کر میرف فن اور جسم کی تعریف کیا کرتے ہیں ؟''

'' میری زبان سے تم اپنے فن کی تعریف کبھی نہیں سنو گی '' …… جیکب نے جواب دیا …… '' البتہ تمہارے جسم میں جادو کا سا اثر تھا ۔ بہت اچھا جسم ہے۔ خدا نے تمہارے چہرے مہرے میں جو کشش پیدا کی ہے۔ وہ خدا کے بندوں کی نظروں کو جکڑ لیتی ہے لیکن یہ جسم ناچتا ہوا اچھا نہیں لگتا ، نہ کسی کو انگلیوں پر نچاتا ہوا اچھا لگتا ہے۔ یہ جسم کی ایک مرد کی ملکیت ہوتا ہے۔ وہ مرد چھ کلمے پڑھ کر اس جسم کو احترام اور پیار کے ساتھ مستور کرکے لے جاتا تو اس جسم پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے ۔ تم خدا کی توہین کر رہی ہو''۔ 

''جیکب ؟'' سارہ نے اسے حیران سا ہو کر کہا …… '' تم کون سے چھ کلموں کی بات کرتے ہو؟ عیسائی اپنی دلہنوں کو مستور کرکے بھی نہیں لے جاتے ''۔

جیکب گھبرا گیا ، پھر اچانک قہقہہ لگا کر بولا …… '' میرے دماغ پر مسلمان سوار رہتے ہیں ۔ میری اپنی تو شادی نہیں ہوئی ، مسلمانوں کی شادیاں دیکھی ہیں ''۔

اُس نے وضاحت کی کہ ''چھ کلمے '' اُس کے منہ سے نکل گئے ہیں مگر سارہ اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھتی رہی ، پھر وہ چپ سی ہوگئی اور خلائوں میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔ بے تاب سی ہو کر اُس نے جیکب کے بازو پر ہاتھ رکھا اور پوچھا …… '' تم مسلمان تو نہیں جیکب؟ میرا کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ تم جاسوس ہو۔ ہو سکتا ہے ملازمت کی خاطر تم نے اپنے آپ کو عیسائی بنا رکھا ہو یا عیسائی مذہب قبول کر لیا ہو''۔

''جیکب مسلمان نہیں ہوا کرتے سارہ!'' جیکب نے کہا …… '' میرانام گلبرٹ جیکب ہے …… تم اتنی پریشان اور اداس کیوں ہوگئی ہو؟ معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں مسلمان کے خلاف اتنی نفرت ہے کہ تم ان کلموں کا نام بھی نہیں سننا چاہتی ''۔

'' تمہیں راز کی ایک بات بتائوں ؟'' سارہ نے کہا …… '' شیاد تم اچھا نہ مانو، مجھے مسلمان اچھے لگتے ہیں ۔ اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ وہ چھ کلمے پڑھ کر اپنی دلہنوں کو مستور لے کے جاتے ہیں ''۔ اس نے آہ بھر کر کہا …… '' عورت عریاں کردی جاتی ہے تو اُسے احساس ہوتا ہے کہ مستور ہونے میں جو روحانی اقرار تھا ، وہ چھن گیا ہے۔ ناچنے میں بھی لذت نہیں اور اپنے حسن کا جادو طاری کرکے دوسروں کو انگلیوں پر نچانے پر بھی قرار نہیں ۔ میں جب تنہائی میں آئینے کے سامنے کھڑی ہوتی ہوں تو آئینے میں مجھے ایک قابل نفرت عورت نظر آتی ہے۔ میں اپنے عکس کو مستور نہیں کر سکتی ۔ اس پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔ البتہ میری روح پر سیاہ پردہ پڑ گیا ہے''۔

''تم اس پیشے سے اتنی متنفر ہو تو نکل بھاگو یہاں سے ؟''جیکب نے کہا ۔

''کدھر؟'' سارہ نے کہا …… '' یہاں سے بھاگوں گی تو کسی قحبہ خانے والوں کے قبضے میں آجائوں گی …… 

 …… کیا تم میرے رقص کو کو پسند کرتے ہو یا مجھے ؟''

'' میں اُس سارہ کو پسند کرتا ہوں جو اس پیشے سے نفرت کرتی ہے، اُدارس اور پریشان رہتی ہے''۔ جیکب نے کہا …… '' میں کہہ چکا ہوں کہ تم خدا کی توہین کر رہی ہو''۔

'' تم فوج میں کسطرح آگئے ہو؟'' سارہ نے کہا …… '' تمہیں دیہاتی گرجے میں پادری ہونا چا ہیے تھا …… تم ہر روز کتنی شراب پیتے ہو؟''

''اس کی بو سے بھی نفرت ہے''۔

'' پھر تم مسلمان ہو''۔ سارہ نے وثوق کے لہجے میں کہا …… '' اگر تم نہیں تو تمہارا باپ مسلمان تھا ۔ تم عورت کو مستور دیکھتا چاہتے ہو۔ تمہیں رقص پسند نہیں ۔ تمہیں شراب کی بو سے بھی نفرت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ تم مجھے اچھے لگتے ہو۔ مجھے تو جو کوئی بھی دیکھتا ہے ، کھاجانے کی نظروں سے دیکھتا ہے۔ تم میرے دل کے درد کو سمجھتے ہونا؟'' 

'' سمجھتا ہوں سارہ !'' جیکب نے کہا …… '' یہ درد میرے دل نے محسوس کیا تھا ''۔

پھر وہ کئی بار ملے ۔ سارہ جیکب کے ساتھ دل ی باتیں کیا کرتی تھی۔ اُس نے جیکب سے کئی بار کہا تھا کہ تمہاری چال ڈھال اور تمہارے خیالات مسلمانوں جیسے ہیں ۔ جیکب نے کئی بار اُس سے پوچھا تھا کہ وہ مسلمانوں کو اتنا زیادہ پسند کیوں کرتی ہے؟ سارہ نے کبھی کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا تھا ۔ البتہ دونوں نے یہ محسوس کیا تھا کہ وہ ایک دوسرے کے دل میں اُتر گئے ہیں ۔ 

٭ ٭ ٭

ضیافت کی رات جب جیکب اپنی ڈیوٹی سے فارغ ہو کر کسی اور طرف جارہا تھا ، وہ ساری کی رہائش کی طرف چل پڑا ۔ ضیافت میں سارہ کی غیر حاضری کی وجہ بیماری ہی ہو سکتی تھی ۔ اس عمارت میں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ جیکب نے وہاں جانے کا خطرہ مول لے لیا کہ تمام لڑکیاں ضیافت میں گئی ہوئی تھیں اور وہاں ملازم عورتیں بھی نہیں تھیں۔ جیکب اندھیرے طرف سے گیا ۔ وہ سارہ کا کمرہ جانتا تھا ۔ وہ دبے پائوں کمرے کے دروازے تک پہنچا۔ ہاتھ لگایا تو کواڑ کھل گیا ۔ ایک کمرے سے گزر کر وہ دوسرے کمرے میں گیا۔ وہاں چھوٹی سی قندیل جل رہی تھی ، جس کی مدھم سی روشنی میں اُسے سارہ سوئی ہوئی نظر آرہی تھی ۔ اُسے یہ لڑکی دودھ پیتے بچے کی طرح معصوم لگی۔ اُس کا ہاتھ اپنے ہی بکھرے ہوئے بالوں میں اُلجھا ہوا تھا ۔ کھڑکی کھلی تھی ۔ بحیرئہ روم کی ٹھنڈی ہوا کے تیز جھونکوں سے سارہ کے بکھرے ہوئے بال آہستہ آہستہ ہل رہے تھے۔ وہ گہری نیند سوئی ہوئی تھی ۔ جیکب نے ہاتھ اُس کی پیشانی پر رکھا۔ پیشانی اتنی ہی گرم تھی جتنی اُس عمر کی سوئی ہوئی لڑکی کی گرم ہونی چاہیے تھی ۔ جیکب کو یہ اطمینا ن ہوگیا کہ سارہ کو بخار نہیں۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں