داستان ایمان فروشوں کی قسط 122 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جنوری 09, 2022

داستان ایمان فروشوں کی قسط 122

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر122 سانپ اور صلیبی لڑکی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

انہوں نے دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ فوجی ماہی گیروں کے بہروپ میں چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیوں میں آگے بھیج دئیے تھے۔ دنوں راتوں کی مسافت طے ہوچکی تھی ۔ اُفق پر بیروت اُبھرنے لگا تھا مگر کوئی کشتی واپس نہیں آئی تھی ۔ حسام الدین نے جہاز روک دئیے اور دیکھ بھال کے لیے ایک اور کشتی اتاری ۔ رات کو اُ س کے رُکے ہوئے جہاز کے قریب سمندر سے کسی نے چلا کرکہا …… '' رسہ پھینکو۔ رسہ پھینکو ''…… رسہ پھینکا گیا ۔ ایک بحری سپاہی اوپر آیا جو ادھ موا ہوچکا تھا ۔ وہ اُس کشتی میں تھا جو سمندر میں اتاری گئی تھی ۔ اُس نے بتایا کہ اُن کی کشتی کو صلیبیوں کی ایک کشتی نے روک لیا تھا ۔ اس میں فوج تھے۔ حسام الدین کے آدمیوں نے کشتی نکالنے کی کوشش کی ۔ تیروں کاتبادلہ ہوا ۔ یہ آدمی سمندر میں کود گیا ۔ اُس کے ساتھی پکڑے گئے یا مارے گئے اور آدمی یہ خبر لے کر آگیا کہ آگے دشمن بیدا رہے ۔اس سے یہ سمجھ لیا گیا کہ دیکھ بھال کے لیے جو آدمی پہلے بھیجے گئے تھے وہ بھی پکڑے گئے ہیں اور امکان یہی نظر آتاہے کہ ان آدمیوں سے دشمن کو بحری بیڑے کی آمد کا علم ہو گیا ہے۔

بحری بیڑہ بیروت سے اتنی دُور تھا کو سورج غروب ہوتے بادبان کھلے جاتے تو جہاز آدمی رات کو بیروت کے ساحل سے جالگتے مگر خطرہ یہ تھا کہ ساحل پر صلیبیوں نے آتشیں گولے پھینکنے کے لیے منجنیقیں لگا رکھی ہوں گی۔ جن سے جہازوں کو بچانا محال ہوجائے گا ۔ مگر ان خطروں سے ڈر کر پیچھے رہنا بھی مناسب نہیں تھا ۔ سلطان ایوبی کو سمندر کی طرف سے مدد کی شدید ضرورت ہوگی …… اس ثناء میں ایک کشتی نظر آئی ۔ یہ اپنے بحری بیڑے کی تھی۔ اس کے بحری سپاہی دو صلیبیوں کو سمندر سے پکڑ لائے تھے ۔ یہ اُسی کشتی میں تھے جس نے حسام الدین کے بیڑے کی کشتی پر حملہ کیا تھا ۔ یہ بھی سمندر میں کود گئے تھے اور تیرتے تیرتے اِدھر اُدھر نکل آئے تھے۔ انہیں ہاتھ پائون باندھ کر سمندر میں زندہ پھینک دینے کی دھمکی دی گئی تو انہوں نے بتایا کہ ساحل پر بالڈون کی فوج گھات میں ہے اور جہازوں کو آگ لگانے کے لیے منجتیقیں تیار ہیں۔ ان سپاہیوں سے مزید پوچھ گچھ سے معلوم ہواکہ بیروت کی فوج اندر کم اور شہر سے دُور دُور زیادہ ہے۔

یہ خبربڑی خوفناک تھی ۔ امیر البحر حسام الدین اور سالاروں نے باہم غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ فرنگیوں کو ہماری آمد کا پتہ چل چکا ہے۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ سلطان ایوبی کو علم ہے یا نہیں۔ فیصلہ ہوا کہ سلطان کو خبر کردی جائے۔ اس وقت اُسے بیروت کے قریب ہونا چاہیے تھا۔ اس فیصلے کے تحت اُسی وقت ایک کشتی اُتار دی گئی جس میں دو گھوڑے اور دو قاصد تھے۔ انہیں بتا دیا گیا کہ وہ سلطان ایوبی کو کیاخبر دیں گے. یہ بادبانی کشتی تھی ۔ ہوا کا رُخ فوافق تھا ۔ بیروت سے دُور جنوب کی طرف ساحل سے جا لگی۔ وہاں چٹانیں تھیں ۔ قاصدوں نے گھوڑے اتارے ، ان پر سوار ہوئے اور ہوا ہوگئے۔ کشتی وہیں چٹانوں میں چھپا دی گئی ۔

قاصد رات کو پہنچے مگر سلطان ایوبی فرنگیوں کے پھندے میں آچکا تھا ۔ سلطان ایوبی نے اپنے محفوظہ کے ایک دستے کو جوابی حملے کے لیے استعمال کیا مگر فرنگیوں نے جم کر مقابلہ کیا ۔ اگلے روز محاصرے کے ایک اور حصے پر ایسا ہی حملہ ہوا ۔ سلطان ایوبی نے اس کے خلاف بھی محفوظہ کو بھیجا۔ تب سلطان ایوبی نے محسوس کیا کہ وہ محفوظہ کو استعمال کیے بغیر جنگ جیت لیاکرتا تھا مگر یہاں اُس کے محفوظہ کی آدھی قوت ابتداء میں ہی لڑائی میں جھونکی گئی تھی ۔ وہ محاصرے کو کمزوز نہیں کرنا چاہتا تھا ۔ اُسے کچھ شک ہونے لگا ۔

: اُس کی دیکھ بھال اور چھاپہ ماروں کا انتظام نہایت اچھا تھا ۔ اُسے اطلاعیں ملنے لگیں کہ عقب میں ہر طرف دشمن موجود ہے۔ ایک چھاپہ مار جش میں سے صرف ایک سپاہی خون میں ڈوبا ہوا بچ کر آیا ۔ وہ صرف یہ بتا کر شہیدہوگیا کہ اُس کا پورا جیش فرنگیوں کے پورے دستے کے گھیرے میں آگیاتھا ۔ کوئی بھی زندہ نہیں رہا اور یہ کہ ہمارا محاصرہ فرنگیوں کی بہت بڑی فوج کے محاصرے میں ہے۔

اس کے فوراً بعد سمندری قاصد پہنچ گئے۔ انہوں نے سمندر کی خبر سنائی اور حسام الدین کے لیے حکم مانگا۔

'' صلیبیوں کو میں نے اس طرح تیاری کی حالت میں کبھی نہیں دیکھتا تھا ''۔ سلطان ایوبی نے اپنی ہائی کمان کے سالاروں وغیرہ سے کہا …… '' صاف پتہ چل رہا ہے کہ انہیں قبل از وقت پتہ چل گیا ہے کہ ہم بیروت کے محاصرے کے لیے آرہے ہیں ۔ ہم خود محاصرے میں آگئے ہیں ۔ اپنے مستقر سے اتنی دُور آکر میں ہاری ہوئی جنگ نہیں لڑ سکتا ''۔ اس نے حسام الدین کے قاصدوں سے کہا …… '' حسام الدین سے کہو کہ بیڑہ واپس لے جائے اور اس میں جو فوج ہے وہ سکندریہ اُتر کر دمشق روانہ ہوجائے ''۔ 

قاصد چلے گئے تو سلطان ایوبی نے موصل کی طرف پسپائی کی ہدایت دینی شروع کردی ، لیکن پسپائی آسان نہیں تھی ۔ اس کے لیے بھی چھاپہ ماروں کو استعمال کیا گیا ۔ راتوں کو دستے آہستہ آہستہ سمیٹے اور نکالے گئے۔ کچھ جھڑپیں ہوئیں لیکن چھاپہ ماروں اور عقبی دستے نے جان اور خون کی قربانیاں دے کر فوج کو وہاں سے نکال لیا ۔ فرنگیوں نے تعاقب نہ کیا ۔

موصل کے راستے میں سلطان ایوبی کو موصل سے آیا ہوا ایک جاسوس ملا جس نے اُسے اسحاق ترک کی روانگی اور موصل کے والئی عزالدین کے عزائم کے متعلق پوری اطلاع دی ۔ سلطان غصے سے لال ہوگیا ۔ اُس نے حکم دیا موصل کو محاصرے میں لے لیا جائے۔ 

قاضی بہائو الدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے …… '' سلطان صلاح الدین ایوبی بروز جمعرات رجب ٥٧٨ (١٠، نومبر ١١٨٢ئ) موصل کے قریب پہنچا، میںاس وقت موصل میں تھا ۔ عزالدین نے مجھے کہا ہے کہ میں خلیفہ کی مدد حاصل کرنے جائوں ۔ میں دجلہ کے ساتھ ساتھ اتنی تیز رفتاری سے گیا کہ دودنوں اور دو گھنٹوں میں بغداد پہنچ گیا ۔ خلیفہ نے مجھے کہا کہ وہ شیخ العلماء سے کہیں گے کہ موصل والوں اور سلطان ایوبی کے درمیان صلاح سفائی کرادی۔ صولے کے والئی نے آذر بائیجان کے حکمرانوں کو مدد کے لیے کہہ دیا تھا مگر اس حکمران نے جو شرائظ پیش کیں، اُن سے بہتر یہتھا کہ عزالدین سلطان ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال دے''۔ 

صلح صفائی کی بات چیت ہونے لگی۔ ١٦ شعبان ہجری (١٥ دسمبر ١١٨٢ئ) کے روز سلطان ایوبی نے موصل کا محاصرہ اُٹھا لیا اور نصیبہ کے مقام پر فوج کو لمبے عرصے کے لیے پڑائو ڈالنے کا حکم دیا۔

''بیروت کا محاصرہ صلیبیوں نے نہیں میرے ایمان فروش بھائیوں نے ناکام کیا ہے ''۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا …… '' میں آپس کے خون خرابے سے بچنا چاہتا تھا مگر یہ ممکن نظر نہیں آتا ''۔


جاری ھے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں