داستان ایمان فروشوں کی قسط 121 - اردو ناول

Breaking

بدھ, جون 16, 2021

داستان ایمان فروشوں کی قسط 121

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر121 سانپ اور صلیبی لڑکی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ہمرازوں کی محفل میں نہ گئی۔ عزالدین اس کی مزاج پرسی کے لیے گیا تو انوشی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ وہ بات کرتی تو زبان ہکلاتی تھی ۔ عزالدین نے اپنے طبیب کو بلایا۔ طبیب نے دوا دی جو انوشی نے یہ کہہ کر رکھ لی کہ کھالے گی۔ اُس نے کہا کہ وہ آرام کرنا چاہتی ہے، یہ شب بیداری اور زیادہ شراب پی لینے کے اثرات ہیں۔ عزالدین اور طبیب چلے گئے۔ انوشی دروازہ اندر سے بند کرکے لیٹنے کی بجائے کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ بہت بے چین تھی ۔ اس نے کئی بار کھڑکی کا پردہ اُٹھا کر باہر دیکھا اور کمرے میں کبھی ٹہلتی، کبھی رُکتی اور پھر کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھتی ۔ 

اس نے اپنے زیورات والا خوشنما بکس کھولا۔ اس میں سے ایک انگوٹھی نکالی ۔ اس کے نگینے والی جگہ ڈبیا کی شکل کی تھی ۔ خوشنما اور وزنی انگوٹھی تھی ۔ اس نے اس پر جڑی ہوئی چھوٹی سی ڈبیا کو جو انگوٹھی کا حصہ تھی ، کھولا۔ اس میں سفید سفوف بھرا ہوا تھا ۔ اس نے سفوف کو ذرا سی دیر دیکھا اور دبیا بند کرکے انگوٹھی اپنی انگلی میں ڈال لی ۔ اس سے اُسے کچھ سکون محسوس ہوا جیسے اس نے اپنی بے چینی اور اداسی کا ذریعہ پیدا کر لیا ہے۔

رات آدھی گزر گئی تھی ۔ اس کی ذاتی خادمہ اس کے کمرے کے قریب ایک کمرے میں سوئی ہوئی تھی ۔ انوشی نے اُسے کہہ دیا تھا کہ آج رات اُسے اس کی ضرورت نہیں ۔ آدھی رات کے بعد وہ خادمہ کے کمرے میں گئی اور اسے جگا کر کہا کہ عامر بن عثمان کو بلا لائو۔ اس کی خادمہ اس کی اور عامر کی ملاقاتوں کی رازدان تھی ۔ وہ گئی اور عامر بن عثمان کو بلا لائی۔ انوشی نے خادمہ سے کہا کہ وہ کمرے کے باہر بیٹھی رہے۔

''عامر!'' انوشی ایسے لہجے میں بولی جس سے عامر واقف نہیں تھا …… ''آج شام وہ کون تھا جو سیر گاہ میں تم سب کے ساتھ بیٹھا تھا ''۔ 

''کوئی بھی نہیں ''۔ عامر نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا …… '' میرے پاس کوئی نہیں آیا تھا ۔ میں تو خاتون کی سواری کے ساتھ محافظ بن کے جاتا ہوں اور اُن سے دُور رہتا ہوں ''۔

''عامر !'' انوشی نے بالکل ہی بدلے ہوئے لہجے میں کہا …… '' مجھ سے زمین کی تہوں کے راز پوچھ لو ۔ میں نے تمہیں دل کی گہرائیوں سے چاہا ہے مگر تم نے مجھے کوئی سیدھی سادی صحرائی لڑکی سمجھ لیا ۔ تم ، رضیع خاتون ، شمس النساء اور ان کی خادمہ اکھٹے بیٹھے تھے اور ایک اجنبی تمہارے درمیان بیٹھا تھا ۔ راز ونیاز کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ثبوت چاہتے ہو؟ میں نقاب اوڑھ کر اور مستور ہو کر وہاں گئی تھی ۔ تم سب سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے ۔ پھر وہ اجنبی وہاں اُٹھا اور چلا گیا ۔ میں وہاں سے آگئی ''۔

اسحاق ترک جب ان لوگوں سے اُٹھ کرجا رہا تھا تو اس نے کسی کے قدموں کی دبی دبی آہٹ سنی تھی اور کچھ دور ایک سایہ سا بھی دیکھا تھا ۔ یہ انوشی تھی جو چوری چھپے رضیع خاتون، شمس النساء اور عامر بن عثمان کے پیچھے گئی تھی ۔ 

عامر بن عثمان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے کوئی بے معنی سے بات کی ۔ انوشی استاد تھی ۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کے شکوک بے بنیاد نہیں ۔ اس نے کہا …… '' اگر شمس النساء اکیلی ہوتی تو میں سمجھتی کہ اس شہزادی نے تمہیں گھیر رکھا ہے مگر یہ معاملہ کچھ اور ہے …… مجھے بتائو کہ تم مجھ سے یہ راز کی باتیں کیوں پوچھتے رہتے ہو ؟''

'' ویسے ہی ''۔ عامر نے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا …… '' ان باتوں کے ساتھ میری کیا دل چسپی ہو سکتی ہے ۔ میں صرف اس سے لطف اُٹھاتا ہوں کہ ہم ان بادشاہوں کو کیا سمجھتے ہیں اور یہ اندر سے کیا ہیں؟''

'' عامر!'' انوشی نے قہر بھری آواز میں کہا …… '' تم جانتے ہو میں کون ہوں۔ میرے اشارے پر اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بج سکتی ہے۔ مجھے میرے پیاسے جذبات نے دھوکہ دیا اور میں تمہاری محبت کے نشے میں اپنے فرائض فراموش کربیٹھی اور تم اپنا فرض ادا کرتے رہے۔ پھر بھی میرے دل میں تمہاری محبت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تم میرے کمرے میں زندہ اور سلامت ہو۔ میں اگر چاہتی تو اس وقت تم قید خانے کی اُٹ کوٹھری میں بیہوش بڑے ہوتے جہاں اذیتوں کے بعد غداروں اور جاسوسوں کو ڈالا جاتا ہے۔ میں نے تمہیں اس جہنم سے بچا لیا ہے۔ مجھے صرف یہ بتا دو کہ تم نے میرے سینے سے راز نکال کر اس اجنبی کو دئیے ہیں اور وہ قاہرہ چلا گیا ہے۔ میرا خلوص اور میری محبت دیکھو کہ میں نے اس آدمی کو نکل جانے کی مہلت دی ۔ میں اُسے اُسی وقت پکڑواسکتی تھی مگر تمہاری محبت نے میرا زہر چُوس لیا ہے ''…… اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ '' میں جو اتنا دلنشیں دھوکہ ہوں ، دھوکے کا شکا ہوگئی ہوں۔ تم جیت گئے ہو ۔ سچ کہہ دو عامر ، سچ کہہ دو ''۔

'' ہاں انوشی !'' عامر نے کہا …… تم نے اپنا فرض ادا کیا ہے، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ تم مجھے قید خانے میں بند کرادو ''

: انوشی کے آنسو بہہ نکلے تھے لیکن اُس نے قہقہہ لگایا اور کہا ۔ '' بس اتنی سی بات پوچھنی تھی جو تم نے بتا دی ہے۔ تمہیں کوئی قید خانے میں نہیں ڈال سکتا ۔ اب میں بھی خوشنما پنجرے سے آزادہونا چاہتی ہوں۔ تم شراب نہیں پیتے۔ میں تمہیں بادشاہوں کا شربت پلائوں گی ''۔

وہ اُٹھی اور اُس میز کے پاس جا کھڑی ہوئی جس پر صراحی رکھی تھی ۔ اس کی پیٹھ عامر کی طرف تھی ۔ انوشی نے دو پیالے اپنے سامنے رکھے۔ ناخن سے انگوٹھی کے ساتھ جڑی ہوئی ڈبیہ کھولی۔ اس میں جو سفوف تھا وہ کچھ ایک پیالے میں اور باقی دوسرے پیالے میں ڈال دیا ۔ عامر نہ دیکھ سکا ۔ انوشی نے دونوں پیالوں میں صراحی سے مشروب ڈالا ۔ ایک پیالہ عامر کو دے دیا ، ایک اپنے ہاتھ میں رکھا ۔ 

''سونگھ لو''۔ انوشی نے کہا …… '' یہ شراب نہیں شربت ہے ۔ یہ میری محبت کا جام ہے۔ پی لو''۔اس نے پیالہ ہونٹوں سے لگالیا۔ عامر نے بھی پیالا ہونٹوں سے لگا لیا ۔ دونوں نے پیالے خالی کر دئیے۔ انوشی نے اس کے ہاتھ سے پیالہ لے لیا اور دونوں پیالے پرے پھینک کر بازو عامر کے گلے میں ڈال دئیے۔ اپنے رخسار اس کے گالوں سے رگڑتی ہوئی بولی …… '' اب ہم آزاد ہیں ''۔

انوشی اُچک کر عامر سے الگ ہو گئی اور بولی ۔ '' تم بھی غنودگی محسوس کر رہے ہو؟''

''ہاں !'' عامر نے جواب دیا …… '' میں گہری نیند سے اُٹھ کر آیا ہوں ۔ نیند پریشان کر رہی ہے ''۔

'' اب ہم دونوں اتنی گہری نیند سوئیں گے کہ ہمیں کوئی جگا نہیں سکے گا ''۔ انوشی نے ایسی آواز میں کہا جس میں غنودگی کا نمایاں اثر تھا۔ کہنے لگی ۔ '' میں تم سے زیادہ تھکی ہوئی ہوں۔ گناہوں نے تھکا دیا ہے '' …… اس کا سر ڈولنے لگا ۔ اُس نے سنبھل کر کہا …… '' زیادہ باتوں کا قوت نہیں عامر! تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ اب ہم اگلے جہاںمیں اکھٹے اُٹھائے جائیں گے۔ میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں، تم اپنا فرض ادا کر چکے ہو۔ میں نے اس شرب میں وہ زہر ملا دیا تھا جو مجھ جیسی لڑکیوں کو دے کر پردیس بھیجا جا تا ہے۔ یہ ضرورت کے وقت کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس سے کوئی تکلیف اور تلخی محسوس نہیں ہوتی ۔ بڑ ی میٹھی غنودگی میں انسان ہمیشہ کی نیند سو جاتا ہے۔ میں لیے زندہ نہیں رہنا چاہتی کہ زندہ رہی تم تمہیں سزا دلادوں گی۔ تمہیں اس لیے زندہ نہیں رہنے دیا کو کوئی اور لڑکی یہ نہ کہے کہ عامر کو اُس سے محبت ہے''۔

عامر بن عثمان لیٹ گیا تھا جیسے وہ انوشی کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ انوشی کا سر ڈول رہا تھا ۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے دورازے تک گئی۔ خادمہ دروازے کے ساتھ کھڑی تھی ۔ اُسے اندر بلا کر کہا …… '' ہم دونوں نے زہر پی لیا ہے ۔ سب کو بتا دینا کہ ہم نے خود زہر پیا ہے۔ کسی اور نے نہیں پلایا۔ کوئی صلیبی ملے تو اُسے بتا دینا کہ سوڈان کی پری اپنا فرض ادا کرکے مری ہے ''۔

اُس کی آواز دب گئی ۔ وہ گرتی گرتی عامر تک پہنچی ۔ خادمہ دوڑتی باہر نکلی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں کئی لوگ آگئے۔ انہوںنے دیکھا کہ عامر بن عثمان پلنگ پر چِت پڑا ہے اور انوشی اس کے ساتھ لگی اس طرح لیٹی ہوئی ہے کہ اس کا سر عامر کے سینے پر اور اس کا ایک ہاتھ عامر کے سر پر تھا ، جس کی انگلیاں بالوں میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ دونوں مرے ہوئے تھے ۔ 

٭ ٭ ٭

اُس وقت اسحاق ترک موصل جا چکا تھا ۔ انوشی نے یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اجنبی سلطان ایوبی کا جاسوس ہو سکتا ہے اُس کا تعاقب نہ کیا ، نہ گرفتار کرانے کی سوچی ۔ اُ سنے زندگی کی یہ چند ہی ساعتیں روحانی سکون پایا تھا جو اُس نے عامر کے ساتھ پیار کے دھوکے میں گزاری تھیں۔ اس نے اس پیار کا صلہ یہ دیا کہ اسحاق کو جانے دیا ۔ 

اسحاق ترک قاہرہ سے ابھی کوئی دنوں کی مسافت جتنا دُور تھا کہ اس کے گھوڑے کو سانپ نے ڈس لیا ۔  اس حادثے کی تفصیلات اس کہانی کی پچھلی قسط میں سنائی جا چکی ہیں ۔ مندرجہ بالا واقعات اس حادثے سے پہلے کے ہیں جو یہ واضح کرنے کے لیے سنانا ضروری تھے کہ اسحاق ترک کتنی اہم معلومات لے کر قاہرہ جا رہا تھا۔ اسلام کی عزت اور بے عزتی کا دارومداد اس پر تھا کہ یہ اکیلا مجاہد اتنے وسیع اور ایسے ظالم صحرا سے گزر کر قاہرہ بروقت پہنچتا ہے یا نہیں ، مگر اُس کے گھوڑے کی سانپ نے ڈس کر ماردیا اور یہ سوار صحرا کے مظالم سے بے ہوش ہوگیا ۔ ہوش میں آیا تو وہ صلیبیوں کے خیمے میں پڑا تھا جہاں دو صلیبی لڑکیاں بھی تھیں۔ ایک کانام میرنیا اور دوسری کا باربرا تھا ۔ یہ تفصیلات پچھلی قسط میں پڑھ لیں تا کہ وہ واقعات ایک بار پھر آپ کے ذہن میں تازہ ہوجائیں۔

: اسحاق ترک بے ہوشی میں بڑبڑارہا تھا جس سے صلیبیوں کی اس ٹولی پر ظاہر ہوگیا کہ یہ مسلمان جاسوس ہے اور کوئی اہم خبر لے کر قاہرہ جارہاہے۔ دونوں لڑکیوں، میرنیا اور باربرا کی آپس میں رقابت تھی ۔ دونوں اپنے کمانڈر کو چاہتی تھیںاور کمانڈر باربرا کو محبت کا دھوکہ دے کر میرنیا کے ساتھ گہری دوستی لگائے ہوئے تھا ۔ باربرا نے انتقام لینے کے لیے اسحاق کو چوری چھپے بتا دیا کہ وہ صلیبی جاسوسوں کے جال میں آگیاہے۔ اسحاق اس چال میں ایسی بُری طرح آیا کہ اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ سلطان ایوبی کا جاسوس ہے اور حلب سے آیا ہے۔صلیبیوں کے سربراہ نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے؟ اسحاق نے بتایا کہ خبر صرف اتنی سی ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ رضیع خاتون نے عزالدین کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ صلیبی سربراہ نے کہا کہ یہ خبر پرانی ہوگئی ہے اور اب سلطان ایوبی شام کی طرف پیش قدمی کرنے والا ہے۔

اس صلیبی نے اسحاق ترک سے کہا کہ وہ صلیبیوں کے لیے جاسوسی کرے اور یہ بھی بتائے کہ وہ کیا راز لے کے جارہا تھا اور بیروت میں جو مسلمان جاسوس ہیں وہ کون کون ہیںاور کہاں کہاں ہیں اور اگر وہ نہیں بتائے گا تو اُسے صلیبی علاقے میں جا کر کسی قید خانے کے تہہ خانے میں بند کردیا جائے گا۔ اسحاق نے یہ سوچ کر ہتھیار ڈال دئیے کہ وہ ان کی حراست سے فرار کی کوشش کرے گا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ صلیبیوں کے لیے جاسوسی کرے گا ۔ اس سے یہ بھی پوچھا جارہاتھا کہ وہ کیا راز لے کے جارہا ہے۔ اس نے چند ایک باتیں گھڑ لیں جو زیادہ تر شام کے مسلمان امراء سے تعلق رکھتی تھیں ۔ بیروت کے متعلق اس نے بے خبری کااظہار کر دیا اور یہ بھی کہا کہ اُسے بیروت کے راستے کابھی علم نہیں۔ 

جیسا کہ پچھلی قسط میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کی پارٹی تھی ۔ ان کے ساتھ ان کے محافظ بھی تھے اور دو لڑکیاں۔ اس پارٹی کی نفری آٹھ نو تھی ۔ یہ قاہرہ سے بیروت کو واپس جارہے تھے ۔ ان کے سربراہ نے اسحاق کو بتایا تھا کہ وہ رات کو روانہ ہو رہے ہیں۔ اسحاق نے جب یہ سنا کہ وہ بیروت جا رہے ہیں تو وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا ۔ وہاں اُس کی ملاقات اپنے نائٹ سے بھی ہو سکتی تھی لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا ، اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ اُسے سلطان ایوبی کو بالڈون کی فوج کا ڈیپلائے بتانا تھا اور اُسے خبردار کرنا تھا کہ وہ بیروت کا محاصرہ ترک کردے۔ اس کے بعد اسحاق جان دینے کے لیے تیار تھا مگر وہ قیدی بن چکا تھا اور نہتہ تھا ۔

رات کو اس قافلے نے وہاں سے کوچ کیا ۔اسحاق کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر ایک اونٹ پر سوار کردیا گیا تھا ۔ اس اونٹ پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔ سلطان ایوبی کا یہ جاسوس بیروت سے قاہرہ روانہ ہوا تھا مگر قاہرہ پہنچے بغیر بیروت کو واپس جا رہا تھا ۔ مسافت بڑی ہی لمبی تھی ۔ اسحاق ترک اس اُمید پر جا رہا تھا کہ فرار کی کوئی صورت پیدا کرلے گا۔

٭ ٭ ٭

 '' میں اب ایک دن بھی انتظار نہیں کرسکتا ''۔ صلاح الدین ایوبی اپنے سالاروں سے کہہ رہاتھا ……'' فوج تیاری کی حالت میں ہے۔ اس حالت میں فوج کو زیادہ عرصہ رکھنا مناسب نہیں ہوتا۔ سپاہیوں کے عصاب تھک جاتے ہیں ۔ یہ کیفیت جنگ کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صلیبیوں کو تیاری کی حالت میں دبوچ لینا چاہتا ہوں۔ ہم جب بھی لڑے اپنے علاقوںمیں لڑے ہیں اور اسی پر خوش ہوئے کہ ہم نے دشمن کو پسپا کر دیا ہے۔ دشمن ہماری ہی زمین پر حملہ آور ہوا پسپا ہو کر ہماری ہی زمین پر رہا۔ اب میرا ہر قدم جارحانہ ہوگا ۔ فرنگی فوج بیروت میں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اگر بالڈون نے کوئی نقل و حرکت کی ہوتی تو اطلاع آجاتی ۔ میرا قیاس یہ ہے کہ وہ اور دوسرے صلیبی ہمارے مسلمان امراء کو اپنا حمائتی اور ہمارا دشمن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ایک پھر ہمیں خانہ جنگی میں اُلجھائیں گے۔ وہ زمین دوز کاروائیوں میں لگے رہیں، ہم بیروت کو محاصرے میں لیں گے اور اللہ کی مدد شامل حال رہی تو یہ عظیم شہر ہمارے قبضے میں آجائے گا ''۔

سالاروں کے اس اجلاس میں سلطان ایوبی کی بحریہ کا امیر البحر بھی موجود تھا ۔ ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے اسکا نام حسام الدین لولوع لکھا ہے۔ یہ بحری جنگ کا ماہر اور غیر معمولی طور پر قابل امیر البحر مانا جاتا تھا۔ بیروت چونکہ بحیرئہ روم کے ساحل پر واقع تھا اس لیے سلطان ایوبی محاصرہ مکمل کرنے کے لیے سمندر کی طرف سے بھی فوج بھیجنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔

'' جن دستوں کو بحری جہازوں سے جانا اور اور ساحل پر اُترنا ہے وہ سکندریہ پہنچ چکے ہیں ۔ حسام الدین کو ہدایات دی جا چکی ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' سمندر سے جانے والے دستے جلدی منزل پر پہنچ جائیں گے، اس لیے یہ کچھ دن بعد روانہ ہوں گے تا کہ خشکی والے دستے پہنچ جائیں، سمندری دستے ساحل پر اتریں گے۔ تیز رفتار قاصد ہمیں اُترنے کی اطلاع دیں گے۔ شہر پر اُن کی یلغار طوفانی ہوگی۔ اگر فرنگیوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو آپ سب کو جازت ہوگی کہ شہرہ کو تباہ و بربادکردیں۔ عورت، بچے، بوڑھے اور مریض پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جائے گا ۔انہیں پناہ میں لیا جائے گا ۔ فوجیوں کو ہلاک نہیں کیا قید کیا جائے گا ۔ کسی صورت میں لوٹ مار نہیں ہوگی۔ آپ سب کو اجازت ہوگی کہ ان حکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو موقعہ پر قتل کردیں، خواہ وہ کتنے ہی اونچے عہدے کے عسکری کیوں نہ ہوں۔ خشکی کی طرف سے جانے والے دستوں کی پیش قدمی امن کے انداز سے نہیں ، جنگی رفتار سے ہوگی۔ پڑائو بغیر خیموں کے ہوں گے۔ کوئی سامان نہیں کھولا جائے گا ۔ سب کو پانی محدود مقدار میں ملے گا۔ کھانا پکایا نہیں جائے گا ۔ کھجوروں وغیرہ کا ذخیرہ ساتھ جارہا تھا ۔ جانوروں کو پوری طرح خوراک دی جائے گی ''۔ 

سلطان نے چادر جتنے چوڑے کپڑے پر قاہرہ سے بیروت تک کا نقشہ تیار کرایا تھا جو اُس نے دیوار کے ساتھ لٹکایا اور پیش قدمی کے راستے پر انگلی چلاتے ہوئے کہا ۔ '' یہ ہوگا ہمارا پیش قدمی کا راستہ ''۔ اجلاس کی خاموشی اور زیادہ گہری ہوگئی ۔ سلطان ایوبی نے سب کے چہروں کو دیکھا اور مسکرا کر بولا …… '' خاموش کیوں ہو؟ کہتے کیوں نہیں کہ ہم دشمن کے علاقوں میں سے گزر کر جا رہے ہیں …… میرے دوستو ! ہم احتیاط کے اصولوں پر جنگ لڑتے رہے ہیں ۔ پیش قدمی سے پہلے ہم پہلوئوں کی حفاظت اور پسپائی کا راستہ دیکھتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صلیبی فلسطین پر قابض ہیں اور وہ دمشق اور بغداد پر قابض ہو کر مکہ اور مدینہ کی طرف بڑھنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں ۔ زیاد کا بیٹا طارق سمندر سے دور مصر کے ساحل پر بیٹھا رہتا تو یورپ تک اسلام کا پرچم کبھی نہ پہنچتا ۔ قاسم کا بیٹا محمد اس خطرناک اور اس قدر لمبی مسافت طے کرکے ہندوستان پہنچا تھا جس سے تاریخ کے ورق بھی پھڑپھڑا اُٹھے تھے۔ صلیبی بہت دور سے ہماری سرزمین پر آئے تھے ۔ اگر آپ اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں تو ہمیں آگ میں سے گزرنا ہوگا۔ اگر صرف حکومت کرنی ہے تو آئو مصر اور شام کو ٹکڑوں میں بانٹ لیں اور بادشاہ بن کے بیٹھ جائیں۔ پھر اپنی اپنی بادشاہی کو قائم رکھنے کے لیے صلیبیوں اور یہودیوں سے مدد لیتے رہیں گے اور اپنا دین و ایمان ان کے پاس گروی رکھ دیں گے ''۔ 

''محترم سلطان !'' ایک سالار نے اُ ٹھ کر کہا …… '' ہم احکام اور ہدایات کے منتظر ہیں ۔ ہم میں سے کوئی بھی اس سے خوفزدہ نہیں کہ ہم دشمن کے علاقے سے گزریں گے۔ ہمیں یہ بتائیے کہ ان علاقوں سے گزرتے ہوئے ہماری ترتیب کیا ہوگی؟ کیا ہر دستہ اپنی حفاظت خود کرے گا ؟''

'' نہیں !'' سلطان ایوبی نے کہا …… '' میںانہیں ہدایات کی طرف آرہا تھا ۔ ہر دستہ اپنی پیش قدمی جاری رکھے گا ۔ دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جو کچھ ہوتارہے اس کی طرف آپ دھیان نہیں دیں گے۔رسد اکٹھی نہیں جارہی۔ اسے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے تا کہ دشمن

: تا کہ دشمن اسے تباہ نہ کر سکے ۔ ساری فوج کی حفاظت چھاپہ مار جیش کریں گے ۔ چھاپہ ماروں کے سالار صارم مصری یہاں موجود ہیں۔ انہیں بہت پہلے ہدایات دے دی گئی تھیں۔ انہوں نے چھاپہ ماروں کو تربیت اور مشق دے لی ہے۔ باقی سب اپنی نظریں بیروت پر رکھیں گے ''۔ 

سلطان ایوبی نے ہر قسم کی ہدایات دے کر کہا …… '' کوچ آج رات کے پہلے پہر ہوگا اور سب سے ضروری احتیاط یہ کرنی ہے کہ اس کمرے سے باہر کسی کو پتہ نہ چلے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ سپاہیوں اور کمانڈروں تک کے کان میں نہ پڑے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ''۔ 

سلطان ایوبی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بیروت میں اس کے استقبال کا انتظام کر دیا گیا ہے اور وہ فرنگیوں کو بے خبری میں شاید نہ دبو چ سکے ۔

رات کو جب فوج کوچ کر رہی تھی، سلطان ایوبی اپنی ہائی کمان کے سالاروں کے ساتھ راستے میں کھڑا ہر دستے کی سلامی لے رہا اور دعائیں دے رہا تھا ۔ اُس کے پاس اُس کے ایک بیٹے کا بزرگ اتالیق بھی کھڑا تھا ۔ سلطان ایوبی اساتذہ اور علماء کی بہت قدر کیا کرتا تھا ۔ محمد ابو حدید کی تحریروں کے مطابق جب فوج کا آخری دستہ بھی چلا گیا تو سلطان ایوبی بھی روانہ ہونے لگا ، اس کے بیٹے کے اتالیق نے عربی کاایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یوں ہے۔

'' آج نجد کے پھو عرار کی خوشب سے لطف اُٹھالو۔ شام کے بعد یہ پُھول نہیں ملا کرتا ''۔ 

یہ مصری وقائع نگار لکھتا ہے کہ اُس وقت تک سلطان ایوبی کا مزاج ہشاش بشاش تھا مگر یہ شعر سن کر اُس پر اداسی طاری ہوگئی ۔ اس نے بوقت رخصت اس شعر کو بدشگوفی سمجھا ۔ وہ فوج کے پیچھے روانہ ہوگیا۔ راستے میں اُس نے اپنے سالاروں سے کہا …… '' اس بزرگ سے مجھے توقع تھی کہ الوداعی کے وقت دعا دئیں گے ۔ انہوں نے ایسا شعر سنا دیا ہے جس نے میرے دل پر بوجھ ڈال دیا ہے '' …… اورہوا بھی یہی کہ اس روانگی کے بعد سلطان ایوبی مصر آہی نہ سکا۔ اس کی باقی عمر سرمینِ عرب پر جنگ و جدل میں ہی گزر گئی ۔ مصر والوں کو عرار کا یہ پھول پھر کبھی نظرنہ آیا۔ 

مصر سے سلطان کی روانگی مئی ١١٨٢ء میں ہوئی تھی.

صحرا کا وہ خطہ بڑا ہی ہولناک تھا جہاں صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کاقافلہ داخل ہوگیا تھا ۔ اسحاق ترک اُن کا قید تھا لیکن اب اُس کے ہاتھ بندے ہوئے نہیں تھے۔ دو دن اور دو راتیں بعد اُ س کے ہاتھ کھانے کے وقت کے سوا ہر وقت بندھے رہتے تھے۔اُس نے اس پارٹی کے سربراہ سے کہا تھا کہ وہ بھاگ نہیں سکتا ۔ بھاگ کر جائے گا کہاں۔ پاپیادہ تو وہ کہیں جا نہیں سکتا ۔ بڑی مشکل سے دو کوس چلے گا اورصحرا اُسے اسی طرح بے ہوش کرکے ختم کردے گا جس طرح وہ بے ہوش ہو کر پکڑا گیا تھا۔ سربراہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے ہاتھ کھول دئیے تھے اور اُن سے کہا تھا کہ اس پر نظر رکھیں۔ اسحاق ترک نے اُن پر اعتماد جما لیا ۔ اُس نے سلطان ایوبی اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تھا۔ اُس نے صلیبی سربراہ کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ ان کا جاسوس بن جائے گا مگر اس سے جب یہ پوچھتے تھے کہ وہ کیا راز لے کر جا رہا تھا تو وہ صحیح جواب نہیں دیتا تھا ۔

دو صلیبی لڑکیوں کی رقابت بدستور چل رہی تھی ۔ میرنیا اپنے سربراہ کی منظورِ نظر تھی اور باربرا کو سربراہ نے اس حد تک دھتکار دیا تھا کہ اُس کے ساتھ جو بھی بات کرتا طنزیہ انداز سے کرتا تھا۔ باربرا بجھ کے رہ گئی تھی ۔ میرنیا اس کوشش میں تھی کہ وہ اسحاق ترک کے سینے سے وہ راز نکال لے جو وہ قاہرہ لے کے جارہا تھا ۔ اس دلکش لڑکی نے راتوں کو اسحاق کے پاس بیٹھ کر اُس کے جذبات کو مشتعل کرنے کا ہر دائو آزما لیا لیکن اسحاق پتھر کا بُت بنا رہا ۔باربراہ کی خواہش یہ تھی کہ اسحاق میرنیا کو کچھ بھی نہ بتائے۔ پارٹی کے سربراہ کے بعد کا رتبہ مارٹن نام کے ایک آدمی کا تھا ۔ یہ آدمی باربرا کو چاہتا تھا مگر باربرا نے اُسے بُری طرح دھتکار دیا تھا ۔وہ اس لڑکی کو دھمکیاں بھی دے چکا تھا کہ اُس نے قاہرہ میں جو غلطیاں کی ہیں اُن کی سزا دلائے گا ۔ یہی دھمکی اُسے سربراہ بھی دے چکا تھا ۔ وہ مایوس تو تھی ہی ، اب خوفزدہ بھی رہنے لگی تھی۔

باربرا کا خون اُس وقت کھولتا تھا جب میرنیا اُس کے ساتھ طنزیہ بات کرتی تھی ۔ ایک روز اس نے باربرا سے کہا …… '' باربرا ! تم اس کام کے قابل نہیں ہو۔ تمہاری کھوپڑی میں دماغ میں ہے ہیں نہیں۔ تم کسی قحبہ خانے میں ناچنے اور گاہکوں کادل پرچانے والی عورت ہو۔ میرا کمال دیکھو۔ صحرامیں بھی ایک مسلمان جاسوس پکڑلیا ہے۔ یہ میرا شکا ر ہے۔ تم اس کے قریب نہ جانا۔ بیروت میں اس کا مجھے انعام ملے گا ''۔

 باربرا جل اُٹھی ۔ اُ س رات اُس کا دماغ جیسے جواب دے گیا ۔ مارٹن تو اُس کے پیچھے پڑا ہی رہتا تھا ۔ اس رات وہ خود مارٹن کے پاس گئی اور اُسے کہا کہ میرنیا سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ اُس نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ بیروت پہنچ کر اُسے سزا ملے گی کیونکہ قاہرہ میں اُس سے اپنی زمین دوز سرگرمیوں میں کوتا ہی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بے بس اورتنہا محسوس کر نے لگی تھی ۔ وہ مارٹن سے مدد، ہمدردی اور پناہ مانگ رہی تھی ۔ مارٹن تو اس کا شیدائی تھا۔ اُس نے باربرا سے مدد کا معاوضہ یہ مانگا کہ اُسی کی ہوجائے۔ باربرا کون سی شریف لڑکی تھی ۔ وہ مان گئی ۔ گناہوں میں پلی ہوئی اور گناہوں کی تربیت یافتہ لڑکی کے لیے یہ معاوضہ جو مارٹن نے مانگا تھا کوئی زیادہ نہیں تھا …… مارٹن نے فوراً ایک ترکیب سوچ لی اور باربرا کو بتادی ۔ اس پر عمل درآمد کے لیے اگلی رات مقرر کی گئی ۔ 

اگلی رات جہاں قیام کیا گیا وہ صحرا کا بڑا ہی ہولناک خطہ تھا ۔ دُور دُور تک عجیب و غیریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے۔ بعض ستونوں اور میناروں جسے تھے۔ بعض ٹیڑھی ٹیڑھی دیواروں کی طرح اور کچھ جانوروں کی شکلوں کے بھی تھے، یہ ٹیلے بکھرے ہوئے تھے ۔ پانی اور سبزے کا وہاں نام و نشان نہ تھا ۔ رات کو یہ ٹیلے یو ں نظر آتے تھے جیسے دیو کھڑے ہوں۔ اس خطے میں قافلہ شام کا اندھیرا پھیل جانے کے بعد روکا۔ مارٹن نے اندھیرے سے یہ فائدہ اُٹھایا کہ اپنا گھوڑا اپنے خیمے کے ساتھ باندھا اور زین اتار کر اس کے قریب رکھ دی ۔ 

اسحاق کے لیے الگ خیمہ تھا جو مارٹی نے اپنے قریب نصیب کرایا تھا ۔ اسحاق کے متعلق اب سربراہ بھی مطمئن ہوگیا تھا ۔ رات گھوڑوں اور اونٹوں کے اردگرد محافظ ہوتے تھے ۔ ایسا امکان نہیں تھا کہ اسحاق گھوڑا کھول لے گا، کسی کو پتہ چلے بغیر زین کس لے گا اور بھاگ نکلے گا …… قافلے والے تھکے ہوئے تھے ۔ سب سے ہوگئے۔ اسحاق بھی سو گیا ۔ آدھی رات کو کسی کے آہستہ آہستہ ہلانے وہ جاگ اُٹھا اور سرگوشی سنائی دی …… '' اُٹھو ، ساتھ والے خیمے کے پاس گھوڑا کھڑا ہے ۔ زین پاس پڑی ہے ۔ دیر نہ کرو ، بھاگو''۔

''کون ہو تم؟''

'' باربرا!'' لڑکی نے جواب دیا …… '' مجھ سے یہ پوچھنا کہ مجھے تم سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے ۔ یہ میں ہی تھی جس نے تمہیں بتایا تھا کہ ہم سب صلیبی جاسوس ہیں اور تمہیں غلط بتایا جا رہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ وقت ضائع نہ کرنا۔ سب سوئے ہوئے ہیں ۔ جلدی اُٹھو۔ گھوڑے والے خیمے سے بائیں طرف ہوجاتا ۔ آگے راستہ صاف ہے ۔ میں اپنے خیمے میں چلی گئی ۔ وہاں کمان پڑی تھی ۔ اُس نے کمان اور تیروں کی ترکش اُٹھا ئی اور خیمے سے باہر نکل کر اُس راستے کے قریب بیٹھ گئی جو اس نے اسحاق کو فرار کے لیے بتایا تھا ۔ اسحاق نے بڑی تیزی سے گھوڑے پر زین ڈال کر کس لی۔ گھوڑا کھولا اور دبے پائوں چل پڑا۔ ریت پر گھوڑوں کے قدموں کی آہٹ نہیں تھی ۔ سب سوئے ہوئے تھے۔خیمے سے ذرا دُور جاکر وہ گھوڑے پر سوار ہوا۔ کچھ اور آگے جا کر اُس نے ایڑ لگائی۔ صحراکی خاموش اور خنک رات میں کمان کی ''پنگ'' سنائی دی اور ایک تیر اسحاق کی پیٹھ میں اُتر گیا ۔ فوراً بعد دوسرا تیر آیا اور یہ بھی اُس کی پیٹھ میں لگا ۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی کا شور سنائی دیا …… '' بھاگ گیا ۔بھاگ گیا ۔ اُٹھو ، جاگو''۔

سب جاگ اُٹھے ۔ مشعلیں جلالی گئیں۔ باربرا شوربپا کیے ہوئے تھی کہ قیدی بھاگ گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کمان تھی ۔ بہت جلدی گھوڑے دوڑا دئیے گئے ۔ انہیں زیادہ دُور نہیں جانا پڑا۔ اسحاق کو دو تیروں نے گھوڑے سے گرادیا تھا اور گھوڑا کچھ دور پڑا تھا ۔ تیر قریب سے چلائے گئے تھے اس لیے جسم میں گہرے اُترگئے تھے۔ اسحاق ابھی ہوش میں تھا ۔ اُسے اُٹھا کر لے آئے ۔ سربراہ نے اُس سے پوچھا کہ اُسے بھاگنے میں کس نے مدد دی تھی ؟ اس نے جواب دیا …… '' نہیں ۔ میں نے گھوڑا اور زین دیکھی ۔ سب سو گئے تھے ۔ میں بھاگ اُٹھا '' …… اُس کے فوراً بعد وہ غشی میں چلا گیا اور غشی میں ہی شہید ہوگیا ۔

'' میںنے اُسے گھوڑے پر سوار ہوتے اور بھاگتے ہوئے دیکھا تھا '' ۔ باربرا نے کہا …… '' اتفاق سے کمان اور ترکش میرے خیمے میں تھے۔ میں نے اُٹھا ئی اور اُس کے پیچھے دوڑی ۔ یکے بعد دیگرے دو تیر چلائے۔ دونوں ۔ اُسے لگ گئے ورنہ یہ نکل گیا تھا ''۔

'' آج ہی یہ اتفاق کیوں ہوا کہ کمان اور ترکش تمہارے خیمے میں تھے؟ '' میرنیا نے باربرا سے پوچھا۔

'' اور مارٹن ! یہ گھوڑا تمہارا تھا ''۔ سربراہ نے کہا…… '' یہ کہاں تھا اور زین کہاں تھی ؟''

'' یہ گھوڑا قیدی کے خیمے کے قریب بندھا تھا ''۔ ایک محافظ نے کہا ۔

: '' تم میرے اس کارنامے پر مٹی ڈالنا چاہتے ہو؟'' باربرا نے غصے سے کہا …… '' یہ کوئی اہم راز قاہرہ لے جارہا تھا ۔ میں نے اُسے صرف بھاگنے سے نہیں روکا بلکہ ایک راز قاہرہ پہنچنے سے روکا ہے''۔

یہ دراصل مارٹن کا تیار کیا ہوا ڈرامہ تھا کہ اسحاق کو بھاگنے کی سہولت دو اور باربرا گھات میں بیٹھ کر اُس پر تیر چلائے تا کہ یہ کارنامہ باربرا کے کھاتے میں لکھا جائے،مگر اُن کا سربراہ تجربہ کار جاسوس اور سراغرساں تھا ۔ اس نے مارٹن اور باربرا کو گہری نظروں سے دیکھا اور کہا …… '' مارٹن! میں اس پیشے میں تم سے بہت عرصہ پہلے آیا تھا ۔ بیروت پہنچنے تک تم اور باربرا کوئی بہتر جواب سوچ لو ''۔

'' یہ ان لوگوں کی ذاتی اور رقابت اور دوستی دشمنی کی سیاست تھی جس کا شکار سلطان ایوبی کا ایک بڑاہی قیمتی جاسوس ہوگیا تھا ''۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی کی پیش قدمی بہت تیز تھی ۔ اُس کی فوج آدھی سے زیادہ مسافت طے کرکے اس علاقے میں داخل ہوگئی تھی جس پر صلیبیوں کا سیایہ پڑا ہوا تھا ۔ اُس جگہ تک فوجیوں کا حلیہ ایک جیسا تھا ۔ گرد کی تہوں میں کسی کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ مئی کا مہینہ تھا جب صحرا لوہے کی طرح تپ رہا تھا ۔ سب نے منہ سر کپڑوں میں لپیٹ رکھے تھے ۔ کوئی بھی اجازت کے بغیر پانی نہیں پی سکتا تھا ۔ دستے ترتیب میں نہیں رہے تھے ۔ گھوڑوں اور اونٹوں کے سواروں نے پیادوں کو باری باری گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار کرنا شروع کردیا۔ فضا جل رہی تھی …… اور ایک گونج دُور دُور تک سنائی دے رہی تھی …… '' لا الٰہ اللہ ۔ لا الٰہ اللہ '' …… کبھی چند سپاہی مل کر کوئی ترانہ گاتے تھے اور فوج جنون اور وجد کی کیفیت میں چلی جا رہی تھی ۔ 

سلطان صلاح الدین ایوبی فوج کے درمیان جا رہا تھا ۔ اُس نے اپنے آپ کو بھی پانی پینے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اُس نے گھوڑے سے ذرا اوپر اُٹھ کر دیکھا اور گھوڑے کا رُخ بدل کر ایڑ لگا دی ۔ اس کی ہائی کمان کے سالار اوردگر عملہ جس میں تیز رفتار قاصد تھے اُس کے پیچھے تھے ۔ آگے وہی علاقہ تھا جہاں اسحاق ترک شہید ہوا تھا ۔ ڈرائونی شکلوں کے ٹیلے تھے ۔ سلطان ایوبی نے ان ٹیلوں کے درمیان جاکر گھوڑرا روک لیا اور چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر صارم سے کہا …… '' صارم دوست ! یہاں سے تمہارا کام شروع ہوتا ہے ۔ اپنے دستوں کو پھیلادو۔ ہر جیش دوسرے سے دُور رہے۔ آگے جانے والے جیش فوراً جلے جائیں''۔ 

'' اور باقی فوج اسی طرح چلتی رہے''۔ صارم مصری کے جانے کے بعد سلطان ایوبی نے دوسروں سے کہا …… '' کچھ بھی ہوجائے فوج پیش قدمی جاری رکھے۔ ہم دشمن کے علاقے میں آگئے ہیں ''۔ 

احکام اور ہدایات کے کر سلطان ایوبی نے گھوڑا آہستہ آہستہ چلایا۔ اُسے ایک طرف زمین پر ایسے آثار نظر آئے جیسے یہاں کوئی مسافر رُکے ہوں۔ وہیں ایک لاش پڑی نظر آئی جو ریت میں دبی ہوئی تھی لیکن نظر آتی تھی ۔ سلطان رُک گیا ۔ یہ لاش کھائی ہوئی تھی ۔ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ ایک آدمی نے اس ڈھانچے کو سیدھا کیا۔ پیٹھ میں دو تیر لگے ہوئے تھے۔ چہرے کا گوشت سوکھ گیا تھا ۔ 

'' جانے دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ' ' کسی قافلے کا مقتول معلوم ہوتا ہے ۔ صحرا میں آکر انسان پاگل ہوجاتے ہیں ''۔

سلطان ایوبی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اُس کا اپنا قابلِ اعتماد جاسوس اسحاق ترک تھا جو اُسے یہ بتانے آرہا تھا کہ بیروت نہ جانا۔ صلیبیوں نے وہاں اپنی فوج کو جس طرح پھیلا رکھا تھا اس کا نقشہ اُس نے ذہن میں محفوظ کر لیا تھا …… اسحاق کی ہڈیوں کا پنجر اُسے کچھ بھی نہ بتا سکا ۔

چھاپہ مار جیس اس طرح پھیل گئے کہ پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کے پہلوئوں میں دو تین میل دُور تک چلے گئے۔ چند ایک جیش ہراوّل سے بھی آگے نکل گئے اور عقب میں بھی چلے گئے ۔ اُن کی جنگ بیروت سے دُور ہی سے شروع ہو گئی۔ اس ڈرائونے علاقے سے آگے نکل گئے تو رات آگئی۔ فوج چلتی رہی ۔ آدمی رات کے قریب پڑائو کا حکم ملا ۔ فوج رُک گئی لیکن چھاپہ مار متحرک اور سرگرم رہے۔ اُن کے لیے احکام یہ تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے اور وہ بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے ہلاک کردو۔ کوئی قافلہ دیکھو تو اُسے بھی روک لواور فوج بہت دُور آگے نکل جائے تو اُسے چلنے کی اجازت دے دو۔ 

فوج چلتی رہی ۔ رُکتی رہی ۔ سورج طلوع ہوتا ، مجاہدوں کے اس قافلے کو جھلساتا اور غروب ہوتا رہااور سلطان کو پہلی اطلاع ملی کہ صلیبیوں کی سرحد کی ایک چوکی پر اپنے چھاپہ ماروں نے شبخون مار کر سب کو ختم کر دیا ہے۔ ریگزار ختم ہوتا جا رہا تھا ۔درخت بھی نظر آنے لگے تھے اور کہیں کہیں سبزہ بھی دکھائی دیتا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے گائوں بھی نظر آنے لگے تھے۔

: بیروت میں بالڈون اپنے مختلف فوجی شعبوں سے رپورٹ لے رہا تھا ۔ اُس کے پاس ابھی وہی اطلاع تھی کہ سلطان ایوبی بیروت کا محاصرہ کریگا ۔ اس نے اس کا انتظام تو کر لیا تھا لیکن اُسے اس سے آگے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ سلطان ایوبی نے قاہرہ سے کوچ کیا ہے یا نہیں ۔ اس دوران جاسوسوں کا یہ قافلہ بھی بیروت پہنچ گیا تھا جس نے اسحاق ترک کو پکڑا اور مارا تھا ۔ یہ قافلہ بھی بالڈون کو کوئی خبر نہ دے سکا ۔ بالڈوںن نے دیکھ بھال کے لیے بیس پچیس گھو سواروں کا ایک جیش آگے بھیجا تھا ۔ وہ بھی واپس نہیں آیا تھا ۔وہ واپس آبھی نہیں سکتا تھا ۔ 

گھوڑ سواروں کا جیش بہت دُور نکل گیا تھا ۔ اُسے دُور سے گرد اُٹھتی نظر آئی جو کسی قافلے کی نہیں ہو سکتی تھی ۔ زمین سے اُٹتھے ہوئے گرد کے یہ بادل فوج کے ہی اُڑائے ہوئے ہو سکتے تھے ۔ گھوڑ سوار ٹیلوں کے اندر چلے گئے ۔ ان کاکمانڈر ایک ٹیلے پر چڑھا اور دیکھنے لگا ۔ کہیں سے ایک تیر آیا جو اُس کی گردن کے آرپار ہوگیا۔ دوسرے سورا رنیچے تھے ۔ اچانک ان پر تیر برسنے لگے۔ ان میںسے چند ایک نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن صارم مصری کے چھاپہ ماروں نے کسی کو زندہ نہ جانے دیا ۔ اُن کے ہتھیار اور گھوڑے قبضے میں لے لیے گئے۔ 

کوئی خبر نہ ملنے کے باوجود بالڈون اور اُس کے جرنیل مطمئن تھے ۔ انہوں نے بیروت کو محاصرے سے بچانے کے لیے نہایت کارگر انتظامات کر رکھے تھے۔ وہ اس لیے بھی مطمئن تھے کہ سلطان ایوبی آگے بڑھتا جا رہا تھا ۔ چھاپہ ماروں کے حملوں اور سرگرمیوں کی اطلاعیں زیادہ آنے لگی تھیں۔ اب تو یہ اطلاعیں بھی آنے لگیں تھیں کہ اتنے میل دوردُ شمن کے ایک دستے کے ساتھ جھڑپ میں اتنے چھاپہ مار شہید اور اتنے زخمی ہوگئے ہیں۔ سلطان ایوبی ایسی ہر اطلاع پر ایک ہی جواب دیتا …… '' شہیدوں کو کہیں دفن کردو …… زخمیوں کو پیچھے بھیج دو '' …… 

یہ سلطان ایوبی کی جنگی اہلیت کا کمال تھا کہ وہ اپنی فوج کو ایسے علاقے سے صحیح و سالم لے جا رہا تھا جہاں جگہ جگہ دشمن موجود تھا ۔ اُس کے تھوڑی تھوڑی نفری کے چھاپہ مار جیش شبخون مارتے ، دشمن کی جمعیت کو بکھیرتے اور بیکار کرتے جا رہے تھے ۔ بعض شبخون بڑے پیمانے کی لڑائی کی صورت اختیار کر جاتے تھے، لیکن چھاپہ مار جم کر نہیں لڑتے تھے ۔ وہ بھاگتے دوڑتے ، وارکرتے اور دشمن کی بڑی سے بڑی جمعیت کو بکھیر دیتے تھے۔ یہ جھڑپیں اور خون خرابہ سلطان ایوبی کی فوج سے دُور دُور ہوتا تھا ۔ 

سکندریہ میں حسام الدین لولوع کا بحری بیڑہ تیار تھا ۔ جہازوں میں جانے والی فوج بھی تیار تھی ۔ حسام الدین نے سلطان ایوبی کی مسافت اور رفتار کے حساب اندازے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک روز اُس نے فوج کو جہازوں میں سوار ہونے کا حکم دیا اور رات کے وقت جہازوں کے لنگر اُٹھا کر بادبان کھول دئیے گئے۔ جہاز سمندر کے سینے پر سرکنے لگے ۔ کھلے سمندر میں جاکر حسام الدین نے جہازوں کو دُور دُور پھیلا دیا ۔ وہ ماہر امیر البحر تھا ۔ اُس کے جہازوں میں جو فوج جا رہی تھی اُس کے سالار اور نائب سالار سلطان ایوبی کے تربیت یافتہ تھے ۔ وہ اندھا دھند نہیں جارہے تھے ۔ انہوں نے دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ فوجی ماہی گیروں کے بہروپ میں چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیوں میں آگے بھیج دئیے تھے۔



جاری ھے 



،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں