داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 118 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 118

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔118 سانپ اور صلیبی لڑکی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

میں زیادہ دیر انتظار نہیںکروں گا ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' تم جانتے ہو میں نے فوج کو تیاری کا حکم دے رکھا ہے ۔ یہ تمہارے سامنے کی بات ہے کہ میں دان رات فوج کو جنگی مشقیں کرارہا ہوں ۔ پر راز کی یہ بات بھی سُن لو کہ میں حلب اور مو صل کی طرف نہیں جائوں گا ۔میرا ہدف اب بیروت ہوگا ۔ میں اب دفاعی جنگ نہیں لڑوں گا ۔ حلب وغیرہ کے علاقوں میں اپنی فوج لے جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں ان علاقوں کے دفاع کے لیے جا رہا ہوں ۔ اب میرا انداز جارحانہ ہوگا ۔ بیروت فرنگیوں کا دل ہے، ٹانگوں اور بازئوں پر وار کرنے کی بجائے کیوں نہ ہم دشمن کے دل پر ایک ہی وار کرکے ختم کر دیں۔ اب میں قوم اور فوج کو جارحیت کی تربیت دے رہا ہوں۔ اپنے علاقوں میں لڑتے رہنے سے ہم بیت المقدس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے……معلوم کرو علی ! معلوم کرو۔ وہاں سے ابھی تک کوئی اطلاع کیوں نہیں آئی ۔ مجھے دو راز درکار ہیں ۔ ایک یہ کہ بیروت میں فرنگی فوجی کی سرگرمیاں کیا ہیں اور حل میں عزّ الدین کی نیت کیا ہے۔ کیا ہم ایک اور خانہ جنگی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ؟''

''بیروت میں اسحاق ترک ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''وہ خود نہ آیا تو کسی اور کو بھیج دے گا ''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''میں یہاں سے کسی کو روانہ کردیتا ہوں''۔

''میں زیادہ دن انتظار نہیں کر سکتا علی !''سلطان ایوبی نے کہا …… ''یہاں سے کسی کو روانہ کرو گے ۔ وہ جائے گا ۔ وہاں کے حالات معلوم کرے گا اور واپس آئے گا ۔ اس میں کم از کم تین مہینے لگ جائیں گے ، میں چند دنوں تک فوج کو کوچ کا حکم دے دوں گا ''۔

''تو پھر آپ اندھیرے میں پیش قدمی کریں گے؟'' علی نے پوچھا ۔

''چھاپہ ماروں کو ہر اول سے بہت آگے پھیلا کر رکھوں گا ''۔ ایوبی نے کہا …… '' میں اللہ کے حکم سے اللہ کی سر زمین کی آبرو کی خاطر جا رہا ہوں۔ میں اپنی سلامتی کے لیے سفر میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا ''۔

یہ اپریل ١١٨٢ء کے دن تھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان اپنے اُن جاسوسوں میں سے کسی کا انتظار بے تابی سے کر رہے تھے جو انہوں نے صلیبیوں کے مقبوضہ مسلمان علاقوں اور حلب وغیرہ میں بھیج رکھے تھے ۔ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ اس سے دو ماہ قبل نورالدین زنگی مرحوم کا بیٹا الملک الصالح جو والئی حلب بن کر سلطان ایوبی کے خلاف ہو گیا تھا ،مر گیا تھا ۔ سلطان ایوبی کے ساتھ جنگ نہ کرنے اور اُس کا اتحادی رہنے کے معاہدے کے باوجود وہ درپردہ صلیبیوں کا حواری رہا تھا۔ اُس کی موت صلیبیوں اور سلطان ایوبی کے لیے بہت اہم واقعہ تھا۔ الملک الصالح نے مرنے سے پہلے عزالدین مسعود کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یہ واقعہ بھی اہم تھا اور سب سے زیادہ اہم یہ واقعہ ہوا تھا کہ عزالدین کی خواہش کے مطابق نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ (الملک الصالح کی ماں) رضیع خاتون نے اُس کے ساتھ شادی کرلی تھی ۔ رضیع خاتون شادی کی خاطر شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ سلطان ایوبی کے بھائی العادل نے اس تک عزالدین کا پیغام لے کر اُسے کہا تھا کہ یہ شادی دمشق اور حلب کی ہوگی ، اس سے آئندہ خانہ جنگی کا خطرہ ختم ہو جائے گا اور صلیبیوں کے خلاف محاذ مضبوط کیا جاسکے گا ۔ رضیع خاتون یہ کہہ کر رضا مند ہوگئی تھی کہ میری ذاتی خواہشیں مر چکی ہیں ۔ میں عظمتِ اسلام کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔

اُس نے قربانی دے دی اورعزالدین کے ساتھ شادی کرلی ۔ حلب اور موصل کی امارتوں پر بڑی مدت سے صلیبیوں کے اثرات کا م کر رہے تھے جس کے نتیجے میں یہ امارتیں سلطان ایوبی کے خلاف متحد ہوگئیں اور تین سال مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوتی رہی تھی ۔ آپ اس کی تفصیلات پڑھ چکے ہیں ۔ اب رضیع خاتون نے عزالدین کے ساتھ شادی کرلی تو صلیبیوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ رضیع خاتون صلیبیوں کے سب سے بڑے دشمن زنگی کی بیوہ ہے اس لیے وہ حلب اور موصل اور دیگر مسلمان علاقوں سے صلیب کے اثرات ختم کردے گی ۔ ادھر مصر میں سلطان ایوبی کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ صلیبی جنگی کاروائی کریں گے۔ سلطان نے یہ بھی سوچا تھا کہ عرب سے اس کی غیر حاضری سے صلیبی فائدہ اٹھائیں گے۔ 

سلطان ایوبی نے حالات کا اور آنے والے حالات کا بھی جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بیشتر اس کے کہ صلیبی پیش قدمی کرکے حلب اور موصل کا محاصر ہ کرلیں ، وہ مصر سے برق رفتار پیش قدمی کرے اور بیروت کو محاصرے میں لے لے، یہ بڑا ہی نازک اور خطرناک فیصلہ تھا ۔ بیروت کو محاصرے میں لینے کے لیے اُسے فوج دشمن کے علاقے میں سے گزار کر لے جانی تھی ۔ راستے میں ہی تصادم کا خطرہ تھا ۔ بہرحال سلطان ایوبی نے تمام خطروں کا جائزہ لے لیا تھا اور ہر قسم کی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا ۔ : اُس نے جاسوسوں کی اطلاعات کے بغیر کم ہی کبھی پیش قدمی کی تھی لیکن اب حالات کا تقاضا کچھ اور تھا ۔ اُسے سب سے زیادہ ضرورت اس اطلاع کی تھی کہ عزالدین کی نیت کیا ہے اور کیا رضیع خاتون کا وہاں کوئی اثرپڑ رہا ہے یا نہیں ۔ 

علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے جاسوس اناڑی نہیں تھے ۔ راز حاصل کرتے اور قاہرہ تک پہنچانے کے لیے وہ جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ انہیں یہ سبق ہمیشہ یاد رہتا تھا کہ آدھی جنگ جاسوس جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لیا کرتے ہیں اور یہ بھی کہ صرف ایک جاسوس کی کوتاہی یا غلط اطلاع اپنی پوری فوج کو مروا سکتی ہے اور یہ بھی کہ صرف ایک جاسوس دشمن کی فوج سے ہتھیار ڈلوا سکتا ہے ۔ علی بن سفیان کواسحاق ترک پر پورا پورا بھروسہ تھا ۔ یہ بھروسہ بجا تھا ۔ اسحاق ترک بڑے ہی اہم راز لے کر قاہرہ کے لیے روانہ ہوا تھا ۔ وہ سلطان ایوبی کو خبر دار کرنے آرہا تھا کہ بالڈون کا فرنگی لشکر بیروت کے ارد گرد دور دور تک پھیل گیا ہے اور عزالدین صلیبیوں کی طرف جھک رہاہے، اس لیے سلطان کہیں بیروت کی طرف فوج نہ لے جائیں اور اگر اُدھر کوہی پیش قدمی کا ارادہ ہو تو اسحاق ترک سلطان کو فرنگیوں کی فوج کے پھیلائو اور پوزیشنوں کا نقشہ بتانے آرہا تھا …… مگر وہ راستے میں ہی صلیبی جاسوسوں کے گروہ کے جال میں آگیا تھا ۔ ''آخر و ہ کیا اطلاع ہے جو تم سلطان صلاح الدین ایوبی تک لے جارہے ہو''……صلیبی جاسوسوں کے اس گروہ کے سربراہ نے اسحاق ترک سے پوچھا اور کہا …… '' ہم بھی مسلمان ہیں ۔ سلطان کے وفادار اور شیدائی ہیں ۔ تمہارے لیے گھوڑا تیار کھڑا ہے ۔ کھانے پینے کا سامان گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے ''۔

'' اللہ ہمارے سلطان کو ایسے وفاداروں اور شیدائیوں سے محفوظ رکھے '' …… اسحاق نے کہا ۔ ''میں نے اس لڑکی کو کہا تھا کہ آدھی رات کے کچھ دیر بعد مجھے جگا دینا ۔ میں فوراً روانہ ہونا چاہتا تھا مگر تم نے مجھے جگا یا نہیں ۔ آدھا دن گزر گیا ہے ۔ وقت الگ ضائع ہوا اور اب میں روانہ ہوا تو گھوڑا اتنا سفر طے نہیں کر سکے گا جتنا رات کو کر سکتا ''۔

''تم بہت تھکے ہوئے تھے ''۔میرنیا نے پیار سے کہا …… ''تم ایسی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ تمہیں جگانا ظلم سمجھا ۔ گھوڑا اتنا اچھا ہے کہ جو وقت ضائع ہوا ہے گھوڑا اسے پورا کردے گا ''۔

اسحاق ترک کو ابھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ جسے وہ تھکن کے بعد کی گہری نیند سمجھتا رہا ہے وہ کسی دوائی کے اثر کی بے ہوشی ہے ۔ اتنا زیادہ وقت سونے کے بعد بھی اُس کا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ یہ دوائی کا اثر تھا جسے وہ تھکن کا اثر سمجھ رہا تھا ۔ وہ سفر کے قابل نہیں تھا لیکن فوراً روانہ ہونے کے لیے بے قرار تھا ۔ اُس کی آنکھ اس وقت کھلی تھی جب سورج سر پر آیا ہوا تھا ۔ جاسوسوں کا سربراہ اور میرنیا اُس کے ہوش میں آنے سے پہلے ہی اُس کے پاس بیٹھ گئے تھے ۔ اُس کی آنکھ کھلی تو اس کے ساتھ باتیں کرنے لگے ۔ انہوں نے ایسی باتیں کیں جن سے اسحاق ترک کو ان پر ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا۔ وہ انہیں مسلمان سمجھتا رہا لیکن وہ اُن کے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کررہا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کے لیے کیا اطلاع لے کے جا رہا ہے۔

سربراہ باہر نکل گیا ۔ یہ اشارہ تھا کہ میرنیا اسے اپنے جادو سے رام کرے۔ اس دلکش لڑکی نے اُسے جذبات کو مشتعل کردینے والے انداز سے کہا کہ وہ اسے دل و جان سے چاہنے لگی ہے اور بھی بہت کچھ کہا ۔ 

''قاہرہ چل کر عشق و محبت کے لیے وقت نکال سکوں گا

: ''۔ اسحاق نے کہا …… ''اگر تم مجھے دل و جا ن سے چاہتی ہو تو مجھے فرض ادا کرنے میں مدد دو''۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور خیمے سے نکل گیا ، کہنے لگا ۔''مجھے فوراً گھوڑا دو ''۔

''کچھ کھا پی لو ''۔ میرنیا نے اسے بازو سے پکڑ کر یمے میں واپس لے جاتے ہوئے کہا …… '' میں تمہیں بھوکا پیاسا تو نہیں جانے دوں گی ''۔ وہ اسحاق سے بغلگیر ہو گئی مگر اسحاق کو فرض نے پتھر بنا دیا تھا ۔ میرنیا نے اُسے بٹھا دیا اور خیمے کے دروازے میں جا کر بلند آواز سے کہا …… ''کھانا فوراً لائو ، وقت نہیں ہے ''۔

کھانا باربرا لے کر آئی اور اسحاق کے آگے رکھ کر پیچھے ہٹ گئی ۔ میرنیا اسحاق کے پاس بیٹھی تھی اور باربرا اُدھر جا کھڑ ی ہوئی جدھر میرنیا کی پیٹھ تھی ۔ اسحاق نے کھانا کھاتے ہوئے باربرا کی طرف دیکھا ۔ باربرا نے ہاتھ میں چھوٹی سی صلیب چھپا رکھی تھی ۔ اُس نے یہ صلیب اسحاق کو دکھائی ، اپنے سینے پر ہاتھ رکھا ۔ مرینا کی طرف اشارہ کیا پھر باہر کو اشارہ کرکے انگلی ہلائی اور انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی ۔ وہ خیمے سے نکل گئی ۔ یہ اشارے اتنے واضح تھے کو اسحاق صاف سمجھ گیا کہ یہ سب صلیبی ہیں اور انہیں کچھ نہیں بتانا۔ وہ چونک اٹھا لیکن استاد تھا۔ اپنے رد عمل کا اظہار نہ کیا ، شک پختہ ہو گیا ۔ اسے اس سوال کا جواب مل گیا کہ یہ لوگ اس پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ وہ سلطان ایوبی کے لیے کیا اطلاع لے کر جا رہا ہے ۔ تب اسے یہ خیال بھی آیا کہ اسے نیند پر اتنا قابوتھا کہ ایسی بے ہوشی کی نیند کبھی نہیں سویا تھا ۔ اسے جاگتے ہی ناک میں عجیب سے بُو بھی محسوس ہوئی تھی ۔ وہ جان گیا کہ اسے سوتے میں ہی بے ہوش کر دیا گیا تھا ، مگر اسے اس سوال کا کوئی جواب نہ سوجھا کہ دوسری لڑکی اُسے یہ اشارے کیوں کر گئی ہے ۔ کیا وہ کوئی مسلمان لڑکی ہے جو اُن کے جال میں پھنسی ہوئی ہے؟

میرنیااسے اپنی بڑی ہی پیاری باتوں اورمسحور کردینے والی مسکراہٹوں اورادائوں سے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی اور اسحاق کا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور ان لوگوں سے کس طرح رہائی حاصل کرے ۔ اُس نے میرنیا سے پوچھا کہ اس قافلے میں کتنے آدمی ہیں ۔ میرنیا نے بتا دیا ۔ کچھ اور باتیں پوچھیں اور کہا …… '' چلو مجھے گھوڑا دو '' …… وہ باہر نکل گیا ۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ باہر کتنے آدمی ہیں اور اس کے نکل بھاگنے کے امکانات کیا ہیں ؟ باہر اس نے کوئی گھوڑا نہ دیکھا جو اُسے بتایا گیا تھا کہ اس کے لیے تیار کھڑا ہے۔ میرنیا اُس کے پاس آن کھڑ ی ہوئی ۔

''گھوڑا کہا ں ہے؟'' اسحاق نے پوچھا ۔

''میں جا کر دیکھتی ہوں''۔وہ چلی گئی ۔

٭ ٭ ٭

''تم ٹھیک کہتے تھے ''۔میرنیا نے اپنے سربراہ کو جا کر بتایا ۔ ''یہ شخص پتھر ہے۔ وہ گھوڑے کے سوا کوئی بات نہیں کرتا ۔ ہم جو پوچھتے ہیں اس کا نام نہیں لینے دیتا ''۔

''اسے کوئی شک تو نہیں ہوا؟''

''ابھی نہیں ''۔میرنیا نے جواب دیا ۔ ''لیکن وہ بتائے گا کچھ بھی نہیں ''۔

''اس کا مطلب کہ تم ناکام ہو گئی ہو''۔

انہیں معلوم نہیں تھا کہ باربرانے ان سے انتقام لیا ہے اور اُس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ میرنیا کوئی جادوگرنی نہیں جو نا ممکن کام بھی کر دکھائے گی۔ وہ تو یہ بھی سوچ رہی تھی کہ سلطان ایوبی کے اس جاسوس کو وہاں سے بھاگ جانے دے میں مدد دے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔ 

اسحاق پھر خیمے سے نکل گیا ۔ اس نے میرنیا اور اس کے سربراہ کو دیکھ لیا ۔ وہ دور کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہ اُن کی طرف دوڑ ا گیا اور پوچھا کہ گھوڑا کہاں ہے۔

''کہیں بھی نہیں ہے ''۔ سربراہ نے بالکل ہی بدلے ہوئے لہجے میں کہا…… '' تم کہیں بھی نہیں جا سکو گے ''۔

اسحاق نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا ۔ وہاں نہ تلوار تھی نہ خنجر۔ اُس نے ان لوگوں کو اصلیت جان لینے کے باوجود کہا …… ''میں حیران ہوں کہ تم مسلمان ہوتے ہوئے میرے راستے میں آرہے ہو''۔

 ''اگر ہم سے عزت کرانا چاہتے ہو تو بتادو کہ اپنے سلطان کے لیے کیا پیغام لے کر جا رہے ہو''۔سربراہ نے پوچھا۔

''صرف اتنا سا پیغام ہے کہ ہمارے ایک امیر عزالدین نے نورالدین زنگی کی بیوہ کے ساتھ شادی کر لی ہے ''۔ اسحاق نے کہا ۔

''یہ خبر پرانی ہو گئی ہے ''۔ سربراہ نے کہا …… ''تمہارا سلطان دو ماہ گزرے یہ خبر سن چکا ہے اور وہ اپنی فوج کو شام میں لڑانے کے لیے تیار کر رہا ہے ۔ صحیح بات بتائو''۔

''کیا تم صحیح بات بتا دیا کرتے ہو؟''اسحاق ترک نے پوچھا۔

''تمہیں صحیح بات بتانی ہوگی''۔سربراہ نے کہا …… ''اور تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا ۔ تم نہتے ہو۔ نہتے نہ بھی ہوتے تو اتنے آدمیوں سے لڑ نہ سکتے …… سنو دوست! میں تمہارے زندہ رہنے اور شہزادوں کی طرح زندہ رہنے کی ایک صورت پیدا کر سکتا ہوں ۔ میری تجویز منظور کر لو۔ ہمارے ساتھ چلو۔ ہمارے لیے یہی کام کروجو صلاح الدین ایوبی کے لیے کر رہے ہو اور زروجواہرات میں کھیلو''۔ اس نے میرنیا کی طرف اشارہ کرکے کہا …… ''اس قسم کی لڑکیاں تمہاری خدمت کے لیے حاضر رہا کریں گے۔ کیوں صحرائوں میں مارے مارے پھر رہے ہو''۔ 

''میں صلیب کے لیے کام کروں؟''

''نہیں کرو گے تو ہمارے کسی قید خانے کے تہہ خانے میں بند رہو گے ''۔سربراہ نے کہا ۔'' وہ ایسی جہنم ہوگی کہ نہ مرو گے نہ جیو گے ۔ تم اس سزا کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ تصور بھی خوفناک ہوگا ۔ سوچ لو اور ہمارے ساتھ چلو ۔ تم واپس تو نہیں جا سکو گے ''۔

''تم مجھ پر کس طرح اعتماد کرو گے ''۔اسحاق ترک نے کہا …… ''میں تمہارے گروہ میں شامل ہو جائوں تو مجھے میرے ہی علاقے میں بھیجو گے۔ تم کس طرح یقین کرو گے کہ میں اپنے ہی علاقے میں نہیں رہ جائوں گا اور تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا ''۔

''ہمارے پاس اس کا انتظام ہے ''۔ صلیبی سربراہ نے کہا ۔ ''تم اپنے علاقے کی بات کرتے ہو، ہم تمہیںتمہارے گھر کے تہہ خانے سے بھی نکال لائیں گے ۔ تمہارا خیال ہے کہ تمہارے ملک میں ہمارے جتنے جاسوس ہیں ۔ ان میں تمہارے ملک کا کوئی باشندہ نہیں ؟ دس جاسوسوں کے ایک گروہ میں صرف دو آدمی ہمارے اور دس تمہارے اپنے بھائی ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی ہمیں دھوکہ دینے کی جرأت نہیں کر تا۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسی جرأت کرنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ ہم صرف اُسے قتل نہیں کرتے ۔ سب سے پہلے اس کے بیوی بچوں کوایک ایک کرکے قتل کرتے اور ہر لاش اُس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور جو ہمرے وفادار رہتے ہیں ان کے لیے یہ دنیا بہشت بنی رہتی ہے۔ اُن میں سے جو پکڑا جا تا ہے اُس کے گھر والوں کے گھر جا کر وہاں ہم نقدی کے انبار لگا دیتے ہیں ''۔

''مجھے سوچنے دو''۔ اسحاق نے کہا …… ''یہاں سے کب روانگی ہوگی؟''

''آج ہی ''۔سربراہ نے کہا …… ''آدھی رات کے بعد ۔ تم سوچ لو ۔ یہ بھی سوچ لینا کہ انکار کے بعد تم آزاد نہیں ہو سکو گے''۔

''میں جانتا ہوں''۔

''اور تمہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کیا راز لے کے جا رہے ہو''۔ سربراہ نے کہا ۔

''بتا دوں گا ''۔اسحاق نے جواب دیا ۔ ''میرا ذہن بہت حدتک آمادہ ہو گیا ہے''۔

''جائو ۔ ابھی آرام کرو''۔ سربراہ نے کہا ۔

اسحاق ترک خیمے کی طرف چل پڑا ۔ 

٭ ٭ ٭

دو ماہ پہلے کا ذکر ہے کہ عزالدین نے نورالدین زنگی کی بیوہ رضیع خاتون کے ساتھ شادی کر لی تو رضیع خاتون کو اس شادی کی صرف یہ خوشی تھی کہ وہ عزالدین کو اپنے زیر اثر رکھے گی اور حلب کی افواج سلطان ایوبی کی افواج کی اتحادی بن جائیں گی۔ خانہ جنگی میں مسلمانوں کی فوجوں کی بڑی ہی کارآمد نفری ماری گئی تھی ۔ اتنی زیادہ جنگی قوت ضائع ہوئی جو صلیبیوں کو سرزمین عرب سے نکال سکتی تھی اور فلسطین کو آزاد کرایا جا سکتا تھا ۔ رضیع خاتون کو توقع تھی کہ عزالدین اُسے اپنامشیر بنا لے گا مگر شادی کے کے پہلے روز جب رضیع خاتون نے اُس کے ساتھ اس قسم کی باتیں کیں تو اس نے دیکھا کہ عزالدین کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ۔ اس کے انداز میں اکتاہٹ تھی ۔ وہ اس کمرے میں سویا بھی نہیں ، محل کے کسی اور کمرے میں چلا گیا ۔

رضیع خاتون نے اُس کا یہ رویہ اس لیے برداشت کر لیا کہ اُس نے امارت کو ابھی ابھی ہاتھ میں لیا ہے اس لیے مصروف بھی ہوگا اور اُس کا ذہن امارت کے جھمیلوں میں اُلجھا ہوگا ۔ وہ خود امارت کے مسئلو ں میں ، خصوصاً فوج کے معاملات میں دلچسپی لینا اور کام کرنا چاہتی تھی ۔نورالدین زنگی کی زندگی میں اُس نے بہت کام کیے تھے ۔ اُس نے دمشق کی جوان لڑکیوں کو جنگی تربیت دے رکھی تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں مجاہدہ تھی ۔ اس لیے وہ سلطان ایوبی کی مرید تھی ۔ 

صبح ہوئی تو وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ ٹہلتی ٹہلتی محل کے اندر اندر کچھ دور چلی گئی۔ بہت بڑا محل تھا ۔ اُسے دور ایک باغیچہ نظر آیا ۔ اس میں پانچ چھ جوان لڑکیاں ہنس کھیل رہی تھیں ۔ وہ ابھی اُن سے دُور ہی تھی ۔ ایک ادھیڑ عمر عورت جس کا چہرہ کرخت سا تھا وہ دوڑی آئی اور رضیع خاتون سے کہنے لگی ۔ ''آپ اپنے کمرے میں چلی جائیں''۔

''کیوں؟''

''محترم امیر کا یہی حکم ہے ''۔ عورت نے بتایا …… ''آئیے، میں آپ کو وہ جگہ بتا ئوں جہاں آپ گھوم پھر سکتی ہیں ۔ انہوں نے سختی سے حکم دیا ہے کہ آپ کو ادھر نہ آنے دیا جائے ''۔

''اگر میں حکم نہ مانوں تو کیا ہوگا ؟''رضیع خاتون نے پوچھا۔

''مجھے گستاخی کا موقع نہ دیں ''۔عورت نے التجا کے لہجے میں کہا …… ''مجھے آقا کا حکم ماننا ہے اور منوانا بھی ہے ''۔

ایک اور ادھیڑ عمر عورت آگئی۔ وہ رضیع خاتون کے پاس رُک گئی۔ اُس نے رضیع خاتون کو ساتھ لیا اور اُس کے کمرے میں لے آئی ، کہنے لگی …… '' میں آپ کی خادمہ ہوں اورمجھے ہر وقت آپ کے پاس رہنے کا حکم ملا ہے اور یہ حکم مجھے بھی ملا ہے کہ آپ کو ایک خاص حد سے زیادہ باہر نہ جانے دیا جائے ''۔ رضیع خاتون سٹپٹا اُٹھی ۔ اس کی خادمہ نے کہا …… '' آپ گھبرائیں نہیں ۔ میں جانتی ہوں آپ کیا کیا خواب دیکھ کر یہاں آئی ہیں ۔ آپ کا ہر خواب خواب ہی رہے گا ۔ مجھے اپنا ہمدرد اور ہمراز سمجھیں۔ اس محل پر صلیبیوں کے گھنائونے سائے پڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کا بیٹا ان کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہا ، اب نیا امیر بھی جو آپ کا خاوند ہے صلیبیوں کا حاشیہ بردار بنے گا ۔ یہاں کے بہت سے وزیر اور مشیر صلیبیوں کے زیر اثر ہیں ''۔

''صلاح الدین ایوبی کے متعلق محل کے لوگوں کی کیا رائے ہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا …… کیا اُس کا کہاں کچھ اثر نہیں ؟

'' اتنا نہیں جتنا صلیبیوں کا ہے ''۔ خادمہ نے رازداری سے کہا ……''محل میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس موجود ہیں ۔ میں خود اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ۔ آپ کو میں اچھی طرح سے جانتی ہوں ، اسی لیے آپ کو بتا دیا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میں ابھی آپ کو ساری باتیں نہیں بتائوں گی ۔ آپ عزالدین سے شکایت کریں کہ آپ کو اُس نے اس کمرے کا قیدی کیوں بنا لیا ہے '' ۔

''وہ تو میں کروں گی ''۔

'' آپ پر اس کی نیت واضح ہو جائے گئی ''۔ خادمہ نے کہا …… '' بعد کے حالات تصدیق کر دیں گے کہ میں جھوٹ نہیںبول رہی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عزالدین نے آپ کے ساتھ شادی صرف اس لیے کی ہے کہ وہ آپ کو اپنا قیدی بنا لے۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے توڑنا چاہتا تھا اور وہ آپ کو دمشق سے نکالنا چاہتا تھا ۔ دمشق کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حمائتی اس لیے ہیں کہ آپ وہاں موجود تھیں۔ اب یہ ٹولہ دمشق کے لوگوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف اُکسائے گا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان ایک بار پھر خانہ جنگی میں کٹنے لگیں گے اور صلیبی اطمینا ن سے ہمارے علاقوں پر چھا جائیں گے ''۔

: '' کیا یہ اطلاع سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچا جا سکتی ہیں ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا ۔ 

'' یہ انتظام کیا جا چکا ہے ''۔ خادمہ نے جواب دیا ۔ '' ہمارے گروہ کے کماندار نے ایک بڑے ہی دانشمند اور دلیر آدمی کو بلا بھیجا ہے۔ اس کا نام اسحاق داویشکی ہے ۔ وہ ترک ہے۔ میں اُسے اچھی طرح جانتی ہوں ۔ آپ کے بیٹے کی وفات کے بعد وہ صلیبیوں کے علاقوں میں یہ دیکھنے کے لیے نکل گیا کہ صلیبیوں کہ عزائم کیا ہیں ۔ وہ آجائے گا ''۔ 

''مجھے مل سکے گا ؟''

'' ضرور ملوائوں گی ''۔ خادمہ نے جواب دیا …… '' مجھے اپنے کماندار نے کہا تھا کہ یہ باتیں آپ کو بتادوں ''۔


خادمہ نے رضیع خاتون کو محل کی اندرونی دنیا کے اِسرار بتا کر اُس کے پائوں تلے سے زمین نکل دی ۔ وہ اُن خوابوں سے بیدار ہوگئی جو دیکھ کر اُس نے والئی حلب عزالدین کے ساتھ شادی کر لی تھی ۔ رضیع خاتون عظیم عورت تھی ۔ اسلام کی تاریخ سازمجاہدہ تھی ۔ اپنے مرحوم خاوند نورالدین زنگی اور پاسبانِ اسلام صلاح الدین ایوبی کی طرح رضیع خاتون بھی جیسے صلیبیوں کے خلاف لڑنے اور سلطنتِ اسلامیہ کے اتحاد اور وسعت کے لیے پیدا ہوئی تھی ۔ اگر خادمہ نے اُسے جو راز بتا یا وہ حقیقت تھا تو اس عظیم مجاہدہ کی کمند ٹوٹ چکی تھی اور اُس کی تلوار کند کرکے اسے قیدی بنا لیا گیا تھا ۔ اس کی نوجوان بیٹی شمس النساء اسی محل میں تھی جس کے ساتھ ابھی اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔ 

یہاں ہم آپ کو یاد دلادیں کہ شمس النساء کی عمر اپنے باپ نورالدین زنگی کی وفات کے وقت آٹھ نو سال تھی ۔ اُس کا بڑا (اور واحد) بھائی الملک الصالح گیارہ سال کا تھا جسے زنگی کی وفات کے بعد مفاد پرست امراء اور فوجی حکام نے سلطان بنا دیا تھا۔ اسے وہ کٹھ پتلی بنانا چاہتے تھے ۔ سلطان ایوبی اس تباہ کن صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے مصر سے آیا ۔ یہ ایک قسم کی فوج کشی تھی ۔ زنگی کی بیوہ رضیع خاتون کی کوششوں سے دمشق پر سلطان ایوبی کا قبضہ ہوگیا ۔ الملک الصالح اپنی فوج کی بہت سی نفری کے ساتھ بھاگ کر حلب چلا گیا ۔ اپنی بہن شمس النساء کو بھی ساتھ لے گیا ۔ اُن کی ماں دمشق میں رہی اور صلیبیوں کے خلاف جہاد میں مصروف رہی ۔ شمس النساء پندرہ سولہ برس کی ہوئی تو اس کا بھائی بیمار ہو کر نزع کے عالم میں جا پہنچا۔ اُس نے ماں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ شمس النساء دمشق اپنی ماں کے پاس گئی اور کہا کہ اُس کا اکلوتا بھائی اُسے ملنا چاہتا ہے۔ رضیع خاتون نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اُس کے لیے وہ اُسی روز مر گیا تھا جس روز وہ سلطان بنا اور اس نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف تلوار اُٹھائی تھی ۔ شمس النساء واپس چلی گی …… اس کا بھائی الملک الصالح مر چکا تھا ۔

اب شمس النساء کی ماں رضیع خاتون اسی محل میں جہاں اس کا بیٹا مرا تھا اپنے بیٹے کے جانشین عزالدین کی بیوی بن کر آئی ۔ اُسے اپنی بیٹی جو اسی محل میں ہی ہو سکتی تھی ، ملنے نہ آئی۔ رضیع خاتون نے خادمہ سے پوچھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے اور کیا وہ اسے مل سکتی ہے؟

''وہ یہیں ہے''۔ خادمہ نے جواب دیا …… '' یہ آپ اپنے آقا سے پوچھ لیں کہ آپ شمس النساء سے مل سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر اس پر بھی پابندی ہوئی تو میں چوری چھپے ملاقات کرادوں گی ''

 '' تم اپنے گروہ کے جس کماندار کا ذکر کیا ہے اس کے ساتھ میری ملاقات ہو سکتی ہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا۔

''کچھ دن گزر جانے دیں ''۔ خادمہ نے جواب دیا۔ ''یہ پتہ چل جائے کہ آپ پر کیا کیا پابندی عائد ہوتی ہے ۔ آنے والے حالات کے مطابق ہر ایک مشکل کا حل نکل آئے گا ۔ آپ کی شادی اچانک ہوئی اور اتنی جلدی ہوئی کہ ہم سب کہ کو بعد میں خبر ہوئی ورنہ آپ کو پہلے ہی خبردار کر دیا جاتا تا کہ شادی کی پیش کش کو قبول نہ کریں ''۔

''اور میں یہ کس طرح یقین کر لوں کہ تم میری ہمدرد ہو اور میرے ہی خلاف جاسوسی نہیں کر رہی؟'' رضیع خاتون نے پوچھا۔

خادمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ رضیع خاتون کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی …… ''اگر میں کوئی امیر کبیر عورت ہوتی، کسی محل کی شہزادی ہوتی ، کسی شہزادے کی بیوی ہوتی اور میری حیثیت آپ جتنی ہوتی تو آپ مجھ سے ایسا سوال کبھی نہ پوچھتیں۔ آپ ہر جھوٹ کو سچ مان کر دھوکے کا شکار ہوجاتیں ، میری حیثیت ایسی ہے کہ میرا سچ بھی جھوٹ لگتا ہے ۔ کیا آپ کو ابھی تجربہ نہیں ہوا کہ صدات اور جذبہ صرف غریبوں کے دلوں میں رہ گیا ہے ؟ آپ کو آنے والے حالات بتائیں گے کہ آپ کو کس پر اعتبار کرنا چاہیے۔ ایک غریب خادمہ پر یا حلب کے بادشاہ پر جو آپ کا خاوند ہے ۔ آپ مجھ پر اعتبار کرنے کا خطرہ مول لے لیں، اور دُعا کریں اللہ آپ کی اور ہماری مدد کرے ''۔

خادمہ کمرے سے نکل گئی ۔ رضیع خاتون اُلجھے اُلجھے خیالوں میں بھٹکتی رہی گئی۔ وہ کمرہ جس کی سجاوٹ اور جس کا سامان شاہانہ تھا اُسے جہنم کی طرح نظر آنے گیا ۔

دو تین روز رضیع خاتون کو عزالدین نظر نہ آیا۔ اُسے کمرے میں کھانا وغیرہ پہنچایا جاتا رہا۔ خادمائیں اُس کی حاضری میں کھڑی رہیں۔ اس کے آرام اور دیگر ضروریات کا خیال اس طرح رکھا جاتا جیسے وہ کوئی ملکہ ہو مگر یہ شہنشاہی اُسے ذہنی اذیت دے رہی تھی ۔ وہ ایک سلطان کی بیوہ تھی ۔ اس کی زندگی میں بھی اُس نے اپنے آپ کو کبھی ملکہ یا شہزادی نہیں سمجھاتھا۔ اُس کی صرف یہ خواہش تھی کہ مردوں کے دوش بدوش میدانِ جنگ میں جائے، صحرائوں میں لڑے اور اُسے شہیدوں میں سے اُٹھایا جائے۔

ایک روز عزالدّین اس کے کمرے میں آگیا اور مصروفیت کی بنا پر اتنے دن نہ آسکنے کی معذرت کی ۔ 

''میں نے آپ کی غیر حاضری کی شکایت تو نہیں کی ''۔ رضیع خاتون نے کہا …… ''میں دلہن بن کے نہیں آئی ۔ میرے دل میں ایسی بھی کوئی خواہش نہیں کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ رہیں یا ہر رات میرے ساتھ گزاریں ۔ میری آدھی سے زیادہ ازدواجی زندگی تنہائی میں گزری ہے۔ نورالدّن نگی مرحوم محاذ پر رہتے تھے اور میں اُن کے نہیں اُن کی لاش کے انتظار میں رہتی تھی ۔ محاذ پر نہ ہوں تو سلطنت کے کاموں اور فوج کی تربیت میں مصروف رہتے تھے ، لیکن وہاں میں بھی مصروف رہتی تھی ۔ سلطنت کے بعض کاموں کی نگرانی اور شہیدوں کے گھروں کی دیکھ بھال میرے سپرد تھی۔ میں جوان لڑکیوں کو زخمیوں کی مرہم پٹی، تیغ زنی ، تیر اندازی اور گھوڑ سواری کی تربیت دیتی تھی ۔ وہاں میں ایک کمرے میں قید نہیں تھی جس طرح یہاں بن کر دی گئی ہوں۔ یہ قید مجھے پسند نہیں''۔

''میں یہ نہیں کہتا کہ نورالدین زنگی مرحوم نے سلطنت کے کوئی کام اپنی بیوی کے سپرد کرکے اچھا نہیں کیا تھا''۔ عزالدین نے کہا …… ''لیکن میں کسی سے نہیں کہلوانا چاہتا کہ حلب کی قسمت بنانے اور بگاڑنے میں ایک عورت کا ہاتھ ہے۔ تم میری بیوی ہو۔ میں تم پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا جس کا تعلق ازدواجی زندگی سے نہیں ''۔

چونکہ رضیع خاتون کو عزالدین کی نیت کا پتہ خادمہ سے چل چکا تھا اس لیے اس نے اپنے اس دوسرے خاوند کی ایسی باتوں سے اپنے آپ کو اس خود فریب میں مبتلا نہ کیا کہ وہ پیار کا اظہار کر رہاہے۔ وہ ایک بار، آج ہی ، اُس کی نیت کو بے نقاب کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی ، وہ کم عمر نہیں پختہ کار عورت تھی ۔

'' مگر جس طرح مجھے اس کمرے میں قید کر دیا گیا ہے یہ مجھے پسند نہیں ''۔ رضیع خاتون نے کہا ۔ ''میں آپ کے حرم کی کوئی زرخرید لڑکی نہیں ''۔

 ''رضیع خاتون! '' عزالدین نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا …… ''تمہیں ازداجی زندگی ذہن سے اتارنی ہوگی جو تم نے زنگی مرحوم کے ساتھ گزاری ہے ۔ انہوں نے تمہیں جو آزادی دے رکھی تھی ، وہ مجھے پسند نہیں اور یہ کسی بھی خاوند کو پسند نہیں آسکتی …… کیا تم باہر گھومنا پھرنا چاہتی ہو؟ چار گھوڑوں کی بھگی موجود ہے۔ جب چاہو باہر جا سکتی ہو ''۔

''جسے محل کے اندر گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں اُسے باہر جانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟'' رضیع خاتون نے پوچھا …… '' کیا واقعی آپ نے حکم دیا ہے کہ میں محل کے اندر کہیں نہیں جا سکتی ''۔

''میں نے یہ حکم تمہاری سلامتی کے لیے دیا ہے ''۔عزالدین نے جواب دیا …… '' تم جانتی ہو کہ حلب اور دمشق میں کیسی خونریز خانہ جنگی ہوئی تھی ۔ سلطان ایوبی نے تمہارے بیٹے کو شکست دے کر اُسے اطاعت کا معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا مگر یہاں کے لوگوں کے دلوں سے وہ دشمنی نکلی نہیں۔ محل کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جو تمہیں اور سلطان ایوبی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ سلطان ایوبی کی فوج کے ہاتھوں اُن کے گھر تباہ ہوئے اور اُن کے جوان بیٹے مارے گئے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ تم سلطان ایوبی کی حامی ہو اور دمشق پر تم نے قبضہ کرایا تھا ۔ اِن میں سے کوئی بھی تمہیں قتل یا اغوا کر سکتا ہے ''۔

''وہ آپ کو بھی قتل کر سکتے ہیں کیونکہ آپ صلاح الدین ایوبی کے دوست اور اتحادی ہیں ''۔ رضیع خاتون نے کہا …… '' تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ اس قسم کے افراد کو جو اتحادِ اسلامی کے خلاف ہیں ، پکڑا جائے؟ کیا آپ کے پاس ایسے جاسوس اور مخبر نہیں جو تخریبی عناصر کا سراغ لگا کر انہیں پکڑوا سکیں ؟''

''میں تمام انتظامامت کر رہا ہوں''۔ عزالدین نے ایسے لہجے میں کہا جو اکھڑا کھڑا سا تھ جیسے اس کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ ''میں تمہاری جان خطرے میں نہیں ڈانا چاہتا''۔

''کیا یہ خطرہ محل کے صرف اندرہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا ۔ '' آپ نے مجھے چار گھوڑوں کی بگھی پر جہاں میں چاہوں باہر گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ کیا باہر مجھے کوئی قتل یا اغوانہیں کر سکے گا ؟'' …… عزالدین کچھ جواب دینے ہی لگا تھا ۔ رضیع خاتون نے اسے بولنے نہ دیااور کہا …… '' میں نے آپ کے ساتھ شادی صرف اس لیے کہ ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم اپنا جو مقصد ادھورا چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں ، وہ آپ ، سلطان صلاح الدین ایوبی اور میں مل کر پورا کریں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ابھی تک آپ کے زیر سایہ ایسے عناصر پرورش پا رہے ہیں جو ایک اور خانہ جنگی کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں تو ان کا خاتمہ کیا جائے اور قوم میں اتحاد پیدا کرکے صلیبیوں کو اس سرزمین سے بے دخل کیا جائے ''۔

''کیا تمہیں یہ شک ہے کہ میں سلطان ایوبی کا اتحادی نہیں؟''

''کیا آپ مجھے یقین دلاسکتے ہیں کہ اس محل پر صلیبیوں کے وہ اثرات جو میرے بیٹے نے پیدا کیے تھے ختم ہو گئے ہیں ؟''رضیع خاتون نے پوچھا۔ ''کیا آپ کے تمام امراء اور سالار بغداد کی خلافت کے وفادار ہیں ؟''

''تم یہاں سفیر بن کے آئی ہو یا میری بیوی؟''عزالدین نے قدرے طنز سے کہا۔ 

''میں جو ارادے لے کے آئی ہوں وہ بتا چکی ہوں''۔ رضیع خاتون نے کہا …… ' میں اپنے بطن سے آپ کے بچے پیدا کرنے اور صرف بیوی بن کے اس کمرے میں رہنے کے لیے نہیں آئی۔ میں محل میں گھوم پھر کر یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ حلب صلیب کے سائے سے محفوظ ہے۔ اگر نہیںتو اس عظیم ظہر کو محفوظ کرنا ہے۔ میں اپنے اس ارادے سے باز نہیں آسکوں گی ''۔

''میں تمہیں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میرے کسی کام میں دخل نہ دینا ''……عزالدین نے کہا …… '' تم میری بیو ی اور یہی تمہاری حیثیت رہے گی۔ اگر تم آزاد ہونے کی کوشش کروگی تو میں نے تمہیں بگھی پر باہر جانے کی جو اجازت دی ہے وہ روک لونگا ''۔

''اگر میں یہ شرط قبول نہ کروں تو؟''

: ''تو اس کمرے میں قید رہو گی ''۔ عزالدین نے جواب دیا …… '' تم مجھ سے طلاق نہیں لے سکتی اور میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا ''۔ عزالدین باہر نکل گیا ۔ ''آپ نے غلطی کی ہے ''۔خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا ۔ خادمہ پچھلے دروازے کے ساتھ کان لگا ئے عزالدین اور رضیع خاتون کی باتیں سُن رہی تھی ۔ عزالدین باہر نکل گیا تو خادمہ پچھلے دروازے سے اندر آگئی۔ اس نے کہا …… '' اگر آپ ضد کریں گی تو یہ شخص آپ کو فی الواقع ایسی قید میں ڈال دے گا جو ہوگی آزادی مگر قید سے بدتر ہوگی۔ اب آپ نے آپ کی نیت جان لی ہے۔ اب ان کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی بات نہ کریں۔ ان کے سامنے خوش رہیں۔ بظاہر بے حس ہوجائیں۔ آپ جو ارادے لے کے آئی ہیں وہ ہم پورے کریں گے …… مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آقا نے آپ کو بگھی پر باہر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ ہم آپ کو اپنے کماندار سے ملوائیں گے اور اگر اسحاق ترک آگیا تو اس کی بھی ملاقات آپ سے کرائیں گے ''۔

دروازہ آہستی سے کھلا۔ دونوں نے دیکھا۔ رضیع خاتون کی بیٹی شمس النساء تھی ۔ وہ دروازے میں رُکی ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی مگر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ مسکراہٹ آنسوئوں میں بہہ گئی۔ ماں نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اورء دونوںکی ہچکیاں سنائی دینے لگیں۔ خادمہ باہر نکل گئی ۔ کچھ دیر دونوں الملک الصالح کو یاد کرکے روتی رہیں ۔

''تم اتنے دن کہاں رہی ''۔رضیع خاتون نے پوچھا۔

'' چچا (عزالدین )نے آپ سے ملنے سے منع کردیا تھا ''۔

''وجہ پوچھی تھی اُن سے؟''

''انہوں نے گول گول اور مہمل سی وجہ بتائی تھی ''۔ شمس النساء نے جواب دیا …… '' ابھی ابھی انہوں نے کہا ہے کہ اپنی ماں کے پاس جاتی رہا کرو۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میں بہت مصروف ہوتا ہوں، تم اپنی ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا کرو''۔

''انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اپنی ماں پر نظر رکھا کرو اور مجھے بتایا کرو کہ اس کے پاس کون آتا ہے اور کیا باتیں ہوتی ہیں؟''

''ہاں''۔ شمس النساء نے معصومیت سے جواب دیا …… '' انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں تو تھی جو میں سمجھ نہیں سکی ۔ میں نے کہہ دیا تھا کہ اچھا بتایا کروں گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمہاری ماں ضدی، وہمی اور جھگڑالو معلوم ہوتی ہے، اُسے یہ بتایا کروکہ میں بہت مصروف اور پریشان رہتا ہوں ''۔

''سنو بیٹی !'' رضیع خاتون نے کہا …… '' اب یہ معصومیت اور بھولپن ترک کردو ۔ تم جوان ہوگئی ہو ۔ میں یہ نہیں کہوں گی اب تمہاری شادی ہو جانی چاہیے۔ مجاہدوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پر لہو کی مہندی لگا کرتی ہے۔ زندہ قوموں کی بیٹیوں کی ڈولی کم ہی اُٹھا کرتی ہے۔ اُن کی لاشیں میدانِ جنگ سے اُٹھا ئی جاتی ہیں۔تمہاری بد نصیبی یہ ہے تم اپنے بھائی اور اس کے مشیروں کے سائے میں پل کر جوائی ہوئی ہو۔ یہ سب غدار ہیں۔ تمہارا بھائی بھی غدار تھا ۔ تم نے اپنے بھائی کی فوج کو اپنے باپ کی فوج اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑتے دیکھاہے۔ تمہارا بھائی، جسے میں اپنا بیٹا کہنے سے شرمندگی محسوس کرتی ہوں، صلیبیوں کا دوست تھا۔ ان صلیبیوں کا دوست جو تمہارے مذہب کے دشمن ہیں۔ تمہارا باپ ساری عمر اُن کے خلاف لڑتا رہا ہے ''۔

''بھائی الصالح کہا کرتا تھا کہ صلیبی 

بڑے اچھے لوگ ہیں ''۔ شمس النساء نے کہا …… '' وہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا ''۔

جاری ھے


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں