داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 117 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 117

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔117 سانپ اور صلیبی لڑکی

ـــــــ

سانپ ڈیڑھ بالشت لمبا ہوگا مگر اس نے اسحاق داویشکی کے اتنے قوی ہیکل گھوڑے کو اوندھا کردیا۔ منزل ابھی بہت دور تھی۔ صحرائے سینا ابھی آدھا باقی تھا۔ اسحاق داویشکی ترکی کا رہنے والا تھا۔ جسمانی لحاظ سے وہ تنومند تھا، خوبرو تھا، چہرے کی رنگت میں کشش تھی۔ اس کی آنکھیں نیلی تھیں۔ اسے دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ مسلمان ہے یا صلیبی۔ وہ جتنا تنومند اور خوبرو تھا، اس سے کہیں زیادہ دماغی لحاظ سے چست اور چالاک تھا۔ وہ اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج میں شامل ہوا تھا جب اس کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ اس نے فوجی ملازمت کو ذریعہ معاش نہیں سمجھا تھا۔ وہ مردمومن کی صحیح تصویر تھا۔ صلیب کے پجاریوں کے عزائم سے آگاہ ہوکر اسلام کی پاسبانی کے لیے دمشق آیا اور فوج میں شامل ہوگیا تھا۔ جب سلطان ایوبی کو مصر کی امارت سونپی گئی تو اسحاق کو مصر بھیج دیا گیا تھا۔ وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو ترک کہلاتا تھا۔

ترکی کے بے شمار باشندے سلطان ایوبی کی فوج میں تھے۔ سلطان ایوبی کو ان پر بھروسہ اور اعتماد تھا۔ اس نے جب کمانڈو فورس بنائی تو اس کے لیے زیادہ تر نفری ترکوں کی تیار کی۔ اسی فورس میں سے جاسوس بھی منتخب کیے گئے تھے۔ ان میں اسحاق ترک بھی تھا۔ وہ غیرمعمولی طور پر ذہین اور دلیر چھاپہ مار تھا۔ اسے کمان دار بنا دیا گیا تھا، پھر اسے صلیبیوں کے علاقوں میں جاسوسی کے لیے بھیجا گیا تھا۔ وہ فرض کا شیدائی تھا۔ جان کی بازی لگا کر زمین کی تہوں سے بھی راز نکال لیا کرتا تھا مگر اب صحرائے سینا میں ذرا جتنے سانپ نے اسے بڑے ہی کڑے امتحان میں ڈال دیا۔ وہ ان مسلمان علاقوں میں تھا جن پر صلیبیوں نے قبضہ کررکھا تھا، وہاں سے حلب چلا گیا اور اب وہ ایک نہایت اہم اطلاع لے کر قاہرہ جارہا تھا۔ اس وقت سلطان ایوبی قاہرہ میں تھا۔ اسحاق ترک کو بہت جلدی پہنچنا تھا راستے میں وہ کم سے کم آرام کررہا تھا۔

وہ سرسبز علاقوں سے نکل گیا تھا۔ آگے ریت کا وہ سمندر تھا جس سے کوئی بھٹکا ہوا مسافر کبھی زندہ نکل کر نہیں گیا۔ صحرا انسان اور حیوان کا دشمن ہے۔ اسحاق ترک ریگزار کا بھیدی تھا… سرسبز علاقے سے اس نے پانی گھوڑے کے ساتھ باندھ لیا تھا۔ اسے راستے کا بھی علم تھا جہاں ایک دو جگہ پانی مل جاتا تھا۔ اس صحرا میں اس نے لڑائیاں بھی لڑی تھیں۔ حلب سے آتے ہوئے جب وہ اس میںداخل ہوا تھا تو اسے کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا تھا۔ صلیبیوں اور صحرائوں سے وہ کبھی نہیں ڈرا تھا۔ اسی جنگ وجدل اور مسافت کو وہ زندگی سمجھتا تھا۔ یہ اس کا عقیدہ تھا کہ خدا کی خوشنودی اسی جہاد میں ہے۔

وہ صحرائی ٹیلوں میں گھوڑے کو ذرا آرام دینے کے لیے رک گیا۔ دوپہر کا سورج کچھ آگے نکل گیا تھا۔ اسحاق ترک ایک ٹیلے کے سائے میں لیٹ گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔ گھوڑا بڑی زور سے ہنہنایا۔ اسحاق ترک نے دیکھا کہ جہاں وہ سویاتھا، اس سے چار پانچ قدم دور دیڑھ بالشت لمبا سانپ جس کا رنگ سیاہ اور اس پر سفید اور گول دھبے تھے، تڑپ رہا تھا۔ دم کی طرف اس کا آدھا جسم کچلا ہوا تھا۔ گھوڑا وہیں کھڑا تھا۔ اسحاق سمجھ گیا کہ سانپ کاٹنے سے پہلے یا بعد گھوڑے کے پائوں کے نیچے آیا ہے۔ وہ اب چلنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ اسحاق ترک نے اس کا سر اپنے پائوں تلے مسل ڈالا۔

گھوڑے کے زندہ رہنے کی امید ختم ہوگئی تھی۔ صحراکا بچھو اور یہ سانپ اتنے زہریلے ہوتے ہیں کہ جسے ڈس لیںاسے پانی پینے کی مہلت نہیں ملتی۔ صحرائوں کے مسافرجلا دینے والے سورج سے اور لوٹ کر قتل کردینے والے ڈاکوئوں سے اتنا نہیں ڈرتے، جتنا اس سانپ اور بچھو سے ڈرتے ہیں۔ یہ سانپ میدانی اور پہاڑی علاقوں کے سانپوں کی طرح آگے کو نہیں رینگتا بلکہ پہلو کی طرف عجیب سی چال سے رینگتاہے۔ اسحاق نے اپنے گھوڑوں کو مایوسی سے دیکھا۔ گھوڑا بڑی زور سے کانپا۔ اس کا منہ کھل گیا تھا۔ یہ اعلیٰ نسل کا جنگی گھوڑا تھا جو لق ودق صحرا، بھوک اور پیاس کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ یہ تو ایک نقصان تھا کہ ایسا اعلیٰ گھوڑاضائع ہوگیا تھا مگر اس وقت نقصان یہ ہوا کہ اسحاق ترک کو پیدل قاہرہ تک پہنچنا تھا۔ وہ بہت جلدی میں تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس نے یہ راز جو وہ سینے میں لے کے جارہا تھا، فوراً سلطان ایوبی تک نہ پہنچایا تو بہت بڑے جنگی نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اس نے گھوڑے کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کی نظر گھوڑے کے ایک پائوں پر پڑی۔ کھر کے ذرا اوپر خون کے چند قطرے جمے ہوئے تھے۔ یہاں سانپ نے کاٹا تھا۔ گھوڑا مرچکا تھا۔ اسحاق نے گھوڑے کی زین سے کھجوروں کا تھیلا اور پانی کا ایک مشکیزہ کھولا اور چل پڑا۔ اس نے مرے ہوئے سانپ کو دیکھا اور نفرت سے کہا… ''سانپ اور صلیبی کی فطرت ایک سی ہے''۔

٭ ٭ ٭

 وہ ریتلے ٹیلوں کے علاقے سے نکل گیا۔ سورج افق سے کچھ دور رہ گیا تھا۔ اس کا قہر عروج پر تھا۔ وہ اپریل ١١٨٢ء کے دن تھے جو دنیا کے لیے بہار کے دن تھے مگر صحرائوں میں کبھی بہار نہیں آتی۔ اسحاق ترک کے سامنے افق تک پھیلا ہوا ریت کا سمندر تھا جس میں چھوٹی چھوٹی خشک جھاڑیاں تھیں۔ ریت اس طرح جھلس رہی تھی جیے ایک آدھ میل آگے پانی ہی پانی ہو اور اس میں سے شفاف بھاپ اٹھ رہی ہو۔ اسحاق ابھی تازہ دم تھا۔ وہ کھجوروں کے تھیلے، مشکیزے، تلوار اور خنجر کا بوجھ محسوس نہیں کررہاتھا۔ اس کی چال میں جان تھی اور قاہرہ بہت جلدی پہنچنے کے عزم میں ابھی کوئی لرزہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ وہ چلتا گیا اور سورج غروب ہوگیا۔

وہ ذرا سی دیر کے لیے رکا۔ چند ایک کھجوریں کھائیں، پانی پیا اور چند منٹ لیٹ کر اٹھ بیٹھا۔ وہ بہت خوش تھا کہ بڑی ہی قیمتی اطلاع سلطان ایوبی کے لیے لے جارہا ہے۔ اسے کچھ کھانے اور پینے کی جیسے ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس کی روح سیر تھی۔ فرض کے شیدائی جب فرض ادا کرلیں تو ان کی روحیں مسرور ہوجاتی ہیں۔ اسحاق ترک بھی روحانی مسرت سے سرشار تھا۔ وہ اٹھا۔ ستاروں کو دیکھا۔ سمت کا تعین کیا اور چل پڑا۔ صحرا کی رات اتنی خنک ہوتی ہے جتنا دن گرم اور جھلسا دینے والا ہے۔ رات کو چلنا آسان ہوتاہے۔ وہ چلتا گیا۔ اس نے چلتے چلتے بہت کچھ سوچا۔ یہ بھی سوچا کہ وہ اتنی لمبی مسافت اتنے کم عرصے میں طے نہیں کرسکے گا۔ اس کایہی ایک علاج تھا کہ کوئی اکیلا وکیلا گھوڑ سوار یا شتر سوار مل گیا تو اس سے گھوڑا یااونٹ چھین لے گا اور اگر کوئی قافلہ رکا ہوا نظر آگیا تو گھوڑا یا اونٹ چوری کرلے گا۔ اسی توقع پر چلتا گیا۔

رات گزرتی جارہی تھی۔ اس کے پائوں تلے سے ریگزار پیچھے ہٹتا جارہا تھا اور اسے تھکن کا احساس بھی ہونے لگا تھا لیکن اسے ٹریننگ ایسی ملی تھی کہ تھکن، نیند، بھوک اور پیاس کو کئی روز تک برداشت کرسکتا تھا۔ تھکن کے پہلے احساس کو اس نے ایک جنگی ترانے کے حوالے کردیا۔ وہ بلند آواز سے ترانہ گانے لگا… رات کے آخری پہر وہ ایک جگہ بیٹھ گیا۔ تھوڑا ساپانی پیا اور وہیں سوگیا۔ ابھی سورج طلوع نہیں ہوا تھا جب اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بھوک کے احساس کو دبا لیا۔ پانی بھی نہ پیا۔ منزل ابھی بہت دور تھی۔ کھجوریں اور پانی بچانے کی ضرورت شدید تھی۔وہ اٹھا اور چل پڑا۔

اسے صحرا کا ایک اور خطرہ دور سے ہی نظر آنے لگا۔ یہ ریت کی گول گول ٹیکریاں تھیں جو دور دور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ یہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان کی بلندی بھی ایک جیسی ہوتی ہے۔ ان میں کوئی اجنبی داخل ہوجائے تو باہر نکل نہیں سکتا۔ یہ بھول بھلیاں بنی ہوتی ہیں۔ بعض مسافر ایک ہی ٹیکری کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ سفر طے کررہے ہیں۔ صحرائوں کے بھیدی بھی ان سے ڈرتے ہیں۔ اسحاق ترک کو پہلا احساس یہ ہوا کہ یہ ٹیکریاں اس کے راستے میں نہیں آنی چاہئیں تھیں۔ اس سوال نے اسے پریشان کردیا۔ کیا وہ اس راستے سے بھٹک گیاہے جس سے وہ واقف تھا؟ وہ اب ادھر ادھر کہیں نہیں جاسکتا تھا۔ اسے انہی میں سے گزرنا وہ بڑھتا گیا اور ٹیکریوں میں داخل ہوگیا۔ اس وقت تک سورج اوپر آچکا تھا اور صحرا تپنے لگا تھا۔ وہ ٹیکریوں میں گھومتا، موڑ مڑتا گیا۔ ریت اس کے پائوں جکڑنے کی کوشش کررہی تھی، وہاں کی ریتلی زمین بتارہی تھی کہ اسحاق سے پہلے یہاں سے کبھی کوئی مسافر نہیں گزرا۔ اسحاق چلتا گیا۔ سورج سر پر آگیا تو بھی وہ ریت کی انہی ڈھیروں میں گھومتا مڑتا جارہا تھا۔ وہ ایک اور موڑ مڑا تو ٹھٹھک کر رک گیا۔ اس نے زمین پر اپنے ہی پائوں کے نشان دیکھے جو ایک اور ٹیکری کے گرد مڑ گئے تھے۔ تب اسے احساس ہوا کہ وہ صحرا کے بے حد خطرناک دھوکے میں آگیا ہے۔ وہ ساتھ والی ٹیکری پر چڑھ گیا۔ ہر سونگاہ دوڑائی۔ اسے یوں نظر آیا جیسے ساری دنیا ریت کے گول گول اونچے اونچے ڈھیروں کے سوا کچھ بھی نہیں۔

سورج کی آگ اور ریت کی گرمی نے اس کے جسم کی نمی چوسنی شروع کردی تھی۔ ریت نے اس کے پائوں جکڑ جکڑ کر من من وزنی کردئیے تھے۔ اس نے پانی پیا اور سمت کا اندازہ کرکے نیچے اترا۔ اب اسے دماغ حاضر رکھنا تھا۔ ہر موڑ ذہن میں محفوظ رکھتا تھا۔ وہ ٹریننگ کے مطابق چل پڑا۔ اب وہ جن دو ڈھیری نما ٹیکریوں کے درمیان سے گزرتا انہیں ذہن میں نقش کرلیتا۔ آگے چلتا، پیچھے دیکھتامگر صحرا کے ظالم اثرات اس کے دماغ کو مائوف کرنے لگے تھے۔ اس میں برداشت کی قوت اوسط درجہ انسانوں سے زیادہ تھی، ورنہ وہ کبھی نہ اٹھنے کے لیے گر پڑتا۔

: سورج افق سے تھوڑا ہی اوپر رہ گیا تھا جب وہ صحرا کے اس دھوکے سے نکل گیا مگر اس کی ٹانگوں میں جسم کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں رہی تھی۔ یہ فرض کی لگن تھی جو اسے چلائے جارہی تھی۔ اس نے آگے دیکھا تو اسے ایک قطار میں کئی گھوڑے اس کا راستہ کاٹ کر جاتے نظر آئے۔ گھوڑوں پر سوار بھی تھے۔ اس نے سواروں کو پکارا، پھر اور زیادہ اونچی آوازسے پکارا۔ کسی بھی سوار نے اس طرف نہ دیکھا۔ گھوڑے دائرے میں چلنے لگے۔ اسحاق ترک رک گیا۔ اس نے آنکھیں بند کرکے سرکو زور زورسے جھٹکے دئیے۔ وہ سمجھ گیا کہ یہ گھوڑے نہیں واہمہ ہے اور یہ سراب ہے جو صحراکا ایک خطرناک دھوکہ ہوتاہے۔ اس کا ذہن صاف ہوا تو گھوڑے غائب ہوگئے۔ جھلستی ریت اور اس کی بھاپ نما چمک دور تک دیکھنے نہیں دیتی تھی۔ وہ اب قدم گھسیٹ رہا تھا۔

٭ ٭ ٭

اسے دن اور رات کا بھی احساس نہ رہا۔ ایک جگہ اس کا پائوں پھسلا تو وہ گر پڑا اور لڑھکتا ہوا دور نیچے چلا گیا۔ اس سے وہ ذرا سا بیدار ہوا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ وہ نادانستہ مٹی کی ایک ٹیکری پر چڑھ گیا تھا اور وہاں سے گرا تو نیچے آپڑا۔ تھا۔ اس نے پانی کی شدید ضرورت محسوس کی۔ حلق میں کانٹے چبھ رہے تھے اور ہونٹ خشک لکڑی کی طرح اکڑ گئے تھے مگر اس کے پاس نہ پانی کا مشکیزہ تھا، نہ کھجوروں کا تھیلا۔ اس نے اٹھ کر ادھر ادھر دیکھا۔ دونوں کا کہیں نام ونشان نہ تھا۔ وہ مایوسی اور بے بسی کے عالم میں چلا۔ ادھر ادھر دیکھا اسے ہر سو سفید سفید اور شفاف شفاف سے شعلے نظر آئے جو اس سے کچھ دور دور گول دائرے کی شکل میں اسے گھیرے ہوئے تھے۔ وہ اب لاشعوری طور پر یا نیم غشی کی کیفیت میں چل رہا تھا۔

وہ رک گیا۔ اسے دو آدمی اور ایک عورت کھڑی نظر آئی۔ تینوں اسی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ان کے عقب میں تھوڑی دور کھجور کے درخت بھی اسے دکھائی دئیے۔ ان کے قریب ٹیلے تھے۔ اسحاق ترک نے اسے بھی واہمہ اور سراب سمجھا۔ اس پر جو مایوسی طاری ہوگئی تھی اس میں اضافہ ہوگیا جس سے اس کے جسم میں اگر کچھ سکت رہ گئی تھی، وہ بھی نہ رہی۔ اس نے ان آدمیوں اور عورت کو آواز دینے کو بے کار سمجھا۔ سراب اور واہمے بولا نہیں کرتے۔ مسافروں کو اپنی طرف گھسیٹتے اور پیچھے ہٹتے جاتے ہیں، حتیٰ کہ انسان ہار کر گر پڑتا ہے اور ریت اس کا گوشت پوست چوس کر اسے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا دیتی ہے۔ اسحاق ترک میں اتنی سی زندگی رہ گئی تھی کہ اس نے ان آدمیوں اور عورت کو واہمہ سمجھا مگر اس نے چلنے کے لیے قدم اٹھایا تو اس کی ٹانگیں دہری ہوگئیں اور اس کی آنکھوں کے سامنے صحرا، سراب اور واہمہ گپ تاریکی میں چھپ گئے۔

اسے باتیں سنائی دیں۔ وہ آہستہ آہستہ ہوش میں آرہا تھا۔ باتیں صاف ہونے لگیں۔ وہ ریت پر گرا تھا۔ ریت آگ پر رکھی ہوئی لوہے کی چادر کی طرح تپ رہی تھی لیکن ہوش میں آتے وہ خنکی محسوس کررہا تھا۔

''وہیں مرنے دیا ہوتا''… اسے ایک مردانہ آواز سنائی دی… ''اٹھائو اور اسے باہر پھینک دو۔ کوئی بھولا بھٹکا مسافر ہے''۔

''ذرا اسے ہوش میں آنے دو''… یہ آواز کسی عورت کی تھی۔ ''مجھے شک ہے، یہ بے ہوشی میں بڑبڑا رہا تھا… ''قاہرہ کتنی دور ہے؟ سلطان… سلطان صلاح الدین ایوبی! ہوشیار ہوکر قاہرہ سے نکلنا۔ بڑی قیمتی خبر لایاہوں''… شک رفع کرلینا چاہیے''۔

اسحاق ترک اسے بھی واہمہ یا خواب سمجھنے لگا۔اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ آوازیں انہی دو آدمیوں اور عورت کی ہیں جنہیں اس نے صحرا میں اپنے سامنے کھڑے دیکھا تھا۔ انہیں اس نے واہمہ سمجھا تھا لیکن یہ انسان حقیقی تھے۔ واہمہ نہیں تھے۔

''تم اس کے پاس بیٹھو''… ایک آدمی نے کہا… ''اگر ہوش میں آگیا تو اسے پانی پلا دینا اور کھانے کے لیے بھی کچھ دے دینا، پھر ہمیں بتانا کہ یہ کون ہے''… آدمی باہر نکل گئے۔

اسحاق نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ اس کے کانوں میں گھوڑے کے ہنہنانے کی آواز پڑی۔ وہ یکلخت بیدار ہوگیا اور اٹھ بیٹھا۔ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا… ''یہ گھوڑا مجھے دے دو''۔

''لوتھوڑا سا پانی پی لو''… ایک نسوانی آوازنے اسے اپنی طرف متوجہ کیا۔ اس کے ہونٹوں کی طرف ایک پیالہ بڑھ رہا تھا۔ عورت نے کہا… ''تھوڑا پینا، ایک ہی بار سارا نہ پی لینا، مرجائو گے''۔

اسے پانی کی ہی ضرورت تھی۔ اس نے دیکھنے سے پہلے کہ پانی پلانے والی کون ہے، پیالہ اپنے ہاتھ میں لیا اور ہونٹوں سے لگا کر دو تین گھونٹ پئے۔ پیالہ ہونٹوں سے الگ کرکے بولا… ''میں جانتا ہوں کہ اس حالت میں زیادہ پانی نہیں پینا چاہیے''۔

اس نے عورت کو دیکھا۔ وہ جوان لڑکی تھی۔ اس کا لباس اسی علاقے کا صحرائی خانہ بدوشوں کی طرح تھا لیکن اس کے نقش ونگار اور رنگ روپ سے دھوکہ ہوتا تھا کہ وہ خانہ بدوش نہیں۔ اس کے سر پر لپٹے ہوئے رومال میں سے جو بال نظر آرہے تھے، وہ بھی خانہ بدوش لڑکیوں جیسے نہیں تھے لیکن اس علاقے میں کوئی امیر کبیر لڑکی تو نہیںا سکتی تھی، خانہ بدوش ہی ہوسکتی تھی۔

''تم کسی قافلے کے ساتھ ہو؟''… اسحاق نے لڑکی سے پوچھا۔

''یہ تاجروں کا قافلہ ہے''… لڑکی نے جواب دیا اور پوچھا… ''تم کہاں سے آئے ہو اور کہاں جارہے ہو؟''

اسحاق ترک نے جواب دینے کے بجائے پانی کا پیالہ منہ سے لگا لیا۔ پانی کی نمی نے اس میں سوچنے کی قوت کچھ بحال کردی تھی۔ اسے یاد آگیا کہ وہ سلطان ایوبی کا جاسوس ہے اور اسے اپنا آپ کسی پر ظاہر نہیں کرنا چاہیے۔

''میں بھی تاجروں کے ایک قافلے کے ساتھ تھا''… اس نے سوچ کر جواب دیا… ''یہاں سے بہت دور ایک رات ڈاکوئوںنے حملہ کردیا جو کچھ تھا، لے گئے۔ اونٹ اور گھوڑے بھی لے گئے۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھٹک گیا''۔

''میں تمہارے لیے کچھ کھانے کو لاتی ہوں''… لڑکی نے کہا اور باہر نکل گئی۔

وہ ایک خیمے میں تھا جس میں دیا جل رہا تھا۔ اس نے خیمے سے ذرا چھپ کر باہر دیکھا۔ چاندنی رات تھی۔ اسے باہر تین چار آدمی ادھر ادھر پھرتے دکھائی دئیے۔ اسے لڑکی کی ہنسی سنائی دی۔ پھر اس نے لڑکی کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ وہ پیچھے ہٹ کر اپنی جگہ بیٹھ گیا۔ لڑکی نے اس کے آگے کھانا رکھا جووہ کھانے لگا۔

''تم اب قاہرہ جارہے ہو؟''… لڑکی نے پوچھا۔

''نہیں''… اسحاق ترک نے جھوٹ بولا… ''سکندریہ جارہا ہوں''۔

''سلطان صلاح الدین ایوبی تو قاہرہ میں ہے''… لڑکی نے مسکرا کر کہا۔ ''سکندریہ جا کر کیا کرو گے؟''

''میرا سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ کیا تعلق ہوسکتاہے؟''… اسحاق نے حیرت سے کہا۔

''ہمارا تو ہے''… لڑکی نے کہا… ''وہ ہمارا سلطان ہے، ہم مسلمان ہیں، ہم اس کے حکم پر جانیں قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں''۔

''لیکن مجھ سے تم نے یہ کیوں کہا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی قاہرہ میں ہے؟''… اسحاق ترک نے پوچھا۔

''سنو''… لڑکی نے اس کے سر پرہاتھ رکھ کر پیار سے کہا… ''تمہیں گھوڑا چاہیے۔ تم سلطان کے پاس جارہے ہو، ہم تمہاری مدد کریں گے۔ تمہیں گھوڑا دیں گے۔ تم بہت جلدی سلطان تک پہنچ جائو گے''۔

''تمہیں کیسے پتہ چلا؟''

''یہ مت پوچھو''… لڑکی نے کہا… ''تم اپنا فرض ادا کررہے ہو، ہمیں اپنا فرض ادا کرنے دو۔ ہم تمہیں گھوڑا دے کر سمجھیں گے کہ ہم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے''۔

لڑکی کا انداز ایسا تھا کہ اسحاق پسیج گیا۔ اس نے کہا… ''ہاں مجھے بہت جلدی سلطان کے پاس پہنچنا ہے''۔

''کوئی بہت ضروری خبر ہے؟''

''مجھے سے ایسی باتیں نہ پوچھو''… اسحاق نے جواب دیا… ''تمہیں ان کے ساتھ دلچسپی نہیں ہونی چاہیے''۔

''میں تمہارے لیے گھوڑے کا انتظام کرتی ہوں''… لڑکی نے اٹھتے ہوئے کہا… ''آرام کرلو۔ رات ابھی 

شروع ہوئی ہے۔ آخری پہر روانہ ہونا''۔

لڑکی خیمے سے نکل گئی۔ اسحاق ترک کی جسمانی حالت ایسی تھی کہ وہ فوراً سوگیا۔

: ''کون کہتا تھا اسے وہیں پڑا رہنے دیتے؟''… لڑکی نے خیمے سے باہر جاکر اپنے آدمیوں سے کہا… ''مجھے استاد مانتے ہو؟ یہ ایوبی کا جاسوس ہے۔ کہتا ہے مجھے ایک گھوڑا دے دو، سلطان کے پاس جلدی پہنچنا ہے۔ وہ جب بے ہوشی میں بڑبڑا رہا تھا تو میں نے کان لگا کر سنا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کا نام لے رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ بڑی قیمتی خبر لایا ہوں''… لڑکی نے اسحاق ترک کے ساتھ جو باتیں کیں اور جو اس سے کہلوائی تھیں، سب کو سنادیں۔

یہ تاجروں کا قافلہ نہیں تھا۔ یہ سب صلیبی جاسوس اور تخریب کار تھے جو مصر میں کچھ عرصہ اپنی زمین دوز کارروائیاں کرکے واپس اپنے یا کسی اور مسلمان علاقے کو جارہے تھے۔ ان کے ساتھ ان کے محافظ بھی تھے۔ ان دس بارہ آدمیوں کے ساتھ دو جوان لڑکیاںتھیں۔ ان کا استعمال اور رول وہی تھا جو آپ اس سلسلے کی پہلی کہانیوں میں پڑھ چکے ہیں۔ یہ دونوں خوبصورت اور تربیت یافتہ تھیں۔ یہ گروہ تاجروں کے بھیس میں جارہا تھا۔ ان کے پاس اونٹ بھی تھے اور گھوڑے بھی۔ سفر کے دوران یہاں پانی اور سایہ دیکھ کر رک گئے تھے۔ شام سے کچھ دیر پہلے انہوںنے دور سے اسحاق ترک کو آتے دیکھا۔ دو صلیبی اور ایک لڑکی اس کی طرف چل پڑے۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ اس آدمی کو اپنے کیمپ سے دور رکھیں۔ وہ دیکھ رہے تھے کہ یہ آدمی بہت بری حالت میں چلا آرہا ہے اور یہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گا۔

اسحاق ترک نے انہیں دیکھا تو اسے سراب اور واہمہ سمجھا۔ پھر وہ گر پڑا اور بے ہوش ہوگیا۔ یہ دونوں صلیبی اور لڑکی اس تک پہنچے۔ سب سے پہلے لڑکی نے کہا تھا کہ یہ کوئی عام قسم کا مسافر نہیں۔ دونوں آمیوں نے رائے دی کہ یہ کوئی اناڑی مسافرہے، ورنہ اس حال کو نہ پہنچتا۔ تاہم اسحاق کی شکل وصورت اور جسم سے شک ہوتاتھا کہ یہ کوئی معمولی آدمی نہیں۔کچھ از راہ مذاق اور کچھ شک کی بناء پر وہ اسے اپنے کیمپ میں اٹھا لے گئے اور ایک خیمے میں لٹا دیا۔ اس کے منہ میں پانی اور شہد ٹپکاتے رہے۔ اس دوران اسحاق ترک بڑبڑاتا رہا۔ اس پر غشی طاری تھی۔ غشی اور نیند میں ذہن لاشعور بیدارہوتا ہے۔ جاسوس کو یہ خاص طور پر بتایا جاتا تھا کہ وہ دشمن کے علاقے میں بے ہوش ہونے سے بچیں۔ بے ہوشی میں انسان کی زبان سے بعض اوقات سینے کے راز نکل آتے ہیں۔ اسحاق کو صحرا نے بے بس اور بے ہوش کردیا تھا، ورنہ اس میں حیران کن قوت برداشت اور قوت مدافعت تھی۔ اگر بے ہوشی میں اس کی زبان بند رہتی تو اس کا اصل روپ بے نقاب نہ ہوتا۔

اسحاق ہوش میں آیا تو اس قدر ذہین اور چالاک ہوتے ہوئے بھی ایک لڑکی کے جال میں آگیا۔ یہ لڑکی کی استادی تھی۔ وہ بھی تربیت یافتہ تھی اور وہ حسین تھی۔ اس کی زبان پر یقین کرتے ہوئے وہ اسے مسلمان سمجھ بیٹھا۔ لڑکی نے باہر جاکر اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس کا شک صحیح نکلا ہے اور یہ خوبرو شخص سلطان ایوبی کا جاسوس ہے۔

''موٹا شکار ہے''… اس گروہ کے سربراہ نے کہا… ''اب اس سے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ کیا راز اپنے ساتھ لے جارہا ہے اور یہ راز کہاں سے لایا ہے''۔

''اگر اس نے یہ بتا دیا کہ وہ راز کہاں سے لایا ہے تو اس سے یہ بھی پوچھیں گے کہ وہاں اس کے ساتھی کون کون ہیں''… ایک آدمی نے کہا۔

''لیکن اس پر یہ ظاہر نہ ہونے پائے کہ ہم کون ہیں''… سربراہ نے کہا… ''میں صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کو اچھی طرح جانتاہوں۔ موت قبول کرلیتے ہیں، کوئی راز نہیں دیتے۔ خاصی استادی سے بات کرنی ہوگی''۔

''میں ان مسلمانوں کو زیادہ اچھی طرح جانتی ہوں''۔ لڑکی نے معنی خیز مسکراہٹ سے کہا… ''راز تو راز، یہ اپنے خنجر سے اپنا دل نکال کر میرے قدموں میں رکھ دے گا''۔

''تم ان مسلمانوں کو جانتی ہو جن پر حکمرانی اور دولت کا نشہ سوار ہوتاہے''۔ ایک اور صلیبی نے کہا۔ ''تمہارا پالا کبھی کسی غریب مسلمان اور سپاہی سے نہیں پڑا۔ وہ مسلمان دولت اور رتبے کے شیدائی ہوتے ہیں جنہیں تم گمراہ کرلیتی ہو۔ جن مسلمانوں کے پاس دولت کے بجائے ایمان ہے، کبھی ان کے قریب جاکر دیکھنا''۔

: ان کے پاس ایک اور صلیبی لڑکی بیٹھی تھی جس نے ابھی تک کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ سربراہ نے اس کی طرف دیکھا اور قدرے طنزیہ لہجے میں اسے کہا… ''کیا تم اس مسلمان کے سینے سے راز نکال سکتی ہو، باربرا؟'' لڑکی نے اسے خالی خالی نگاہوں سے دیکھا۔ سربراہ نے کہا… ''تم نے قاہرہ میں ہمیں بہت خراب کیا تھا۔ میرنیا کی استادی دیکھو اور اس سے کچھ سیکھو۔ میں تمہیں اور کوئی موقع نہیں دوں گا۔ ذرامیرنیا کی عقل پر غور کرو۔ ہم سب اس آدمی کو بھٹکا ہوا کوئی مسافر اور بے کار آدمی سمجھتے تھے لیکن اس نے اسے پہچان لیا کہ یہ موٹا شکارہوسکتا ہے۔ میں تمہیں اسی لیے مصر سے نکال کر لے جارہا ہوں کہ تم صلیب کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچاتی ہو''۔

''تمہارا انجام بہت برا ہوگا''۔ ایک اور صلیبی نے کہا… ''تمہیں اس پیشے سے محروم کردیا جائے گا جس میں تمہیں شہزادیوں کی طرح رکھا جاتا ہے۔ اس سے نکال دیا گیا تو کسی کی داشتہ بن کر رہنے یا عصمت فروشی کے سوا تمہارا کوئی ٹھکانہ نہیںہوگا''۔

''اونہہ!'' دوسری لڑکی جس کا نام میرنیا تھا نفرت سے بولی… ''یہ تو ہے اس قابل''۔

باربرا نے میرنیا کی طرف قہر بھری نظروں سے دیکھا۔ اس کے چہرے کا رنگ غصے سے لال ہوگیا لیکن خاموش رہی۔ وہ بھی میرنیاکی طرح خوبصورت تھی لیکن جب مصر گئی تھی، اس کی استادی ماند پڑ گئی تھی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا سربراہ بھی مصر میں تھا اور زمین دوز کارروائیاں کررہا تھا۔یہ لوگ کسی جگہ آپس میں ملا کرتے تھے۔ سربراہ رتبے والا افسر تھا اور خوبرو بھی تھا۔ وہ باربرا کو پسند کرتا تھا اور اس نے باربرا کے ساتھ شادی کرنے کا وعدہ بھی کررکھا تھا۔سربراہ جس جاسوس کی سفارش کردے اسے ترقی اور انعام دلا دیا کرتا تھا۔ باربرا بہت خوش تھی مگر میرنیا نے سربراہ پر اپنا جادو چلا لیا۔ اس لڑکی نے اپنی فن کاری سے سربراہ کو باربرا کے خلاف بدظن کردیااور اس کے ساتھ محبت کا کھیل کھیلنے لگی۔ باربرا بجھ کے رہ گئی۔ جاسوسی اور تخریب کاری سے اس کی طبیعت اچاٹ ہوگئی۔ ایسے موقعے بھی آئے کہ وہ شک میں پکڑی جانے لگی تھی لیکن بچ گئی۔

اسے سلطان ایوبی کے فوج کے کسی بڑے اہم حاکم کے ساتھ لگایا گیا تھا لیکن وہ مطلوبہ کام نہ کرسکی۔ سربراہ کو معلوم ہوگیا کہ اس کے دل میں میرنیاکے خلاف رقابت پیدا ہوگئی ہے۔ اس نے بہترسمجھا کہ پورے گروہ کو واپس لے جائے اور اس کی جگہ نیا گروہ بھیجا جائے۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ باربرا میرنیا سے جلنے لگی تھی۔ سربراہ اس کا دشمن بن گیا تھا۔ میرنیا اس کے ساتھ طنز اور نفرت سے بات کرتی تھی۔ اسے اپنا انجام نظر آرہا تھا۔ اب میرنیا نے اسے کہا کہ یہ تو ہے ہی اسی قابل تو اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑک اٹھی۔

''اس آدمی کے سینے سے صرف میں راز نکال سکتی ہوں''۔ میرنیا نے کہا۔ ''یہ باربرا کے بس کا روگ نہیں''۔

باربرا غصے سے اٹھی اور اپنے خیمے میں چلی گئی۔

٭ ٭ ٭

''یہ آدمی رات کو کہیں بھاگ کے نہیں جاسکتا''۔ سربراہ نے کہا… ''ابھی اس کے پاس بھاگنے کی کوئی وجہ بھی نہیں۔ پھر بھی احتیاط لازمی ہے، اسے بے ہوش کردینا چاہیے''۔

تھوڑی دیر بعد میرنیا اس خیمے میں داخل ہوئی جس میں اسحاق ترک سویا ہوا تھا۔ دیا جل رہا تھا۔ میرنیا کے ہاتھ میں ایک رومال تھا جو بے ہوش کرنے والی دوائی میں بھیگا ہوات تھا۔ وہ دبے پائوں اسحاق کے پاس گئی اور بیٹھ گئی۔ اس نے رومال اسحاق کی ناک پر رکھ دیا۔ کچھ دیر بعد رومال ہٹایا اور باہر نکل گئی۔ اپنے ساتھیوں کے پاس جاکر کہنے لگی… ''کل سورج نکلنے کے بعد ذرا ہوش میں آئے گا''۔

''اطمینان سے سوجائو''۔ سربراہ نے کہا… ''کل ہم صلاح الدین ایوبی کے اس جاسوس کو اس کی خواہش کے مطابق گھوڑا ضرور دیں گے لیکن وہ اس گھوڑے پر قاہرہ نہیں، بیروت جائے گا۔ یہ ہمارا ہم سفر ہوگا''۔

سلطان ایوبی کے ایک جاسوس کو پکڑ لینا ان کے لیے بہت بڑی کامیابی تھی۔ وہ شراب پینے اور خوشیاں منانے لگے۔ میرنیا اچھل کود رہی تھی مگر باربرا جیسے اس جشن سے لاتعلق تھی۔ اسی لیے وہ اپنے خیمے میں چلی گئی تھی۔ بہت دیر بعد سب ایک ایک کرکے اپنے اپنے خیمے میں چلے گئے۔ باربرا بھی جاچکی تھی۔ اس ٹولے کا سربراہ میرنیا کو اپنے ساتھ وہاں سے دور لے گیا۔باربرا خیمے میں تنہا لیٹی اداسیوں اور ناکامیوں میں الجھی ہوئی تھی۔ اس کے دل میں انتقام کی آگ سلگنے لگی تھی۔ باہر کے جشن شراب نوشی کا شور اس آگ کو بھڑکا رہا تھا۔ جب شور ختم ہوا تو وہ اور زیادہ بے چین ہوگئی۔ اس نے خیمے کا پردہ ہٹا کر دیکھا۔ اسے اپنا سربراہ اور میرنیا ٹیلے کی طرف جاتے نظر آئے۔ چاندنی رات میں وہ کچھ دور تک نظر آئے اور غائب ہوگئے۔

: باربرا کے کانوں میں میرنیا کے یہ الفاظ گونج رہے تھے… ''صرف میں اس کے سینے سے راز نکال سکتی ہوں''… باربرا کے دماغ میں یہ سوچ آئی کہ وہ میرنیا کو ناکام کرسکتی ہے۔ اس کا یہ طریقہ ہوسکتا تھا کہ وہ اسحاق ترک کو بتا دے کہ ہم سب صلیبی جاسوس ہیں تاکہ وہ اپنا اصل روپ چھپا لے۔ اس نے یہ بھی سوچا کہ وہ اسحاق کو وہاں سے بھگا دے۔ یہ سب انتقامی سوچیں تھیں۔ وہ سب کے سوجانے کا انتظار کرتی رہی۔ اسے نیند آرہی تھی۔ اس کے خیمے کا پردہ اٹھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ کون ہے۔ اسے سرگوشی سنائی دی… ''باربرا''۔

''چلے جائو مارٹن''۔ باربرا نے غم وغصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا… ''چلے جائو یہاں سے''۔

مارٹن جانے کے بجائے خیمے کے اندر چلا گیا اور باربرا کے پاس جابیٹھا۔ بولا… ''تمہیں آخر ہوکیا گیا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ ہمارا یہ لیڈرمیرنیا کے ساتھ دل سے محبت کرتا ہے؟ اور کیا وہ تمہیں دل سے چاہتا رہا ہے؟ یہ سب بدمعاشی ہے باربرا۔ تم دل پر بوجھ ڈال کر اپنے فرائض سے لاپروا ہوگئی ہو۔ اگر سچی محبت کی خواہش مند ہو تو وہ میرے دل میں ہے، میں نے تمہیں کب دھوکہ دیا ہے؟''

''تم سراپا دھوکہ ہو''۔ باربرا نے جل کر کہا… ''ہم سب دھوکہ ہیں۔ میں اپنے فرائض سے لاپروا نہیں ہوئی، میرا دل تو دنیا سے بھی اچاٹ ہوگیا ہے۔ ہم سب کو بچپن سے فریب کاری کی ٹریننگ دی گئی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ہم مسلمانوں کو فریب دے کر انہیں صلیب کے مقابلے میں بے کار کردیں مگرہم ایک دوسرے کو بھی فریب دیتے ہیں۔ ہم صلیب کو گلے میں لٹکا کر بدکاری کرتے تھے، ایک دوسرے کو دھوکے دیتے ہیں۔ مسلمان ہم سے زیادہ عقل مند ہیں کہ وہ جاسوسی اور تخریب کاری کے لیے اپنی لڑکیوں کو استعمال نہیں کرتے۔ ہمارے لیڈر نے پہلے مجھے محبت کا جھانسہ دیا۔ میرنیا چونکہ زیادہ ہوشیارہے۔ اس لیے اس نے لیڈر پر قبضہ کرلیا۔ تم نے مجھ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا سارا گروہ بے کار واپس جارہا ہے۔ اگر تمہارے ساتھ ہم دو لڑکیاں نہ ہوتی تو تم مرد اپنا کام خوش اسلوبی سے کرتے۔ عورت کا وجود مردوں کے درمیان دشمنی پیدا کرتا ہے''۔

''اسی لیے ہم مسلمانوں کے درمیان اپنی تربیت یافتہ عورتوں کو چھوڑ دیتے ہیں''۔ مارٹن نے کہا… ''ان کے درمیان دشمنی پیدا کرنا ہی ہمارا مقصد ہے۔ ہم یہ اس لیے کرتے ہیں کہ اسلام کو زوال آئے اور صلیب کی حکمرانی قائم ہو''۔ اس نے جھنجھلا کر باربرا کو اپنی طرف گھسیٹ کر کہا… ''اتنی پیاری رات کو ایسی خشک باتوں سے بے مزہ نہ کرو باربرا۔ آئو باہر چلیں۔ دیکھو چاندنی کتنی حسین ہے''۔

''میرا دل ٹوٹ چکا ہے''۔ باربرا نے کہا… ''میں ناکام ہوچکی ہوں۔ میرے دل میں نفرت پیدا ہوگئی ہے۔ میں کہیں نہیں جائوں گی۔ تم جائو''۔

''ایک روز تم میرے قدموں میں آبیٹھو گی اور کہو گی، مارٹن! مجھے بچائو۔ دیکھو یہ لوگ مجھے کتوں کے حوالے کررہے ہیں۔ اس وقت میں تمہاری مدد نہیں کرسکوں گا''۔

''میں اب بھی کتوں کے حوالے ہوں''۔ باربرا نے حقارت سے کہا… ''میں تم سے کبھی مدد نہیں مانگوں گی۔ یہاں سے چلے جائو''۔

مارٹن غصے سے اٹھا اور باہر نکل گیا۔ وہ خیمے کا پردہ ہٹا کر اسے دیکھتی رہی اور انتظار کرتی رہی کہ مارٹن سوجائے۔ اسے معلوم تھاکہ سربراہ اور میرنیا بہت دیر سے آئیں گے… کچھ دیر بعد وہ خیمے سے نکلی۔ وہ اٹھی نہیں، پائوں پر بیٹھے بیٹھے ایک طرف کو سرکتی گئی۔ آگے ذرا گہرائی تھی۔ اس میں اتر گئی، وہاں سے جھک کر چلتی چشمے کے پیچھے گئی اور دور کا چکر کاٹ کر اسے خیمے کے قریب پہنچ گئی جس میں اسحاق ترک بے ہوش پڑا تھا۔ باربرا کو معلوم نہیں تھا کہ اسے بے ہوش کردیا گیا ہے۔ وہ بیٹھ گئی اور پائوں پر سرکتی خیمے کے اندر چلی گئی۔ دیا جل رہا تھا۔ اس نے اسحاق کو ہلایا مگر وہ نہ جاگا۔ اس کے سر کو پکڑ کر جھنجھوڑا، اسے بلایا۔ اسحاق ترک پر کچھ اثر نہ ہوا۔

''اٹھو بدبخت''۔ اس نے اسحاق کے منہ پر تھپڑ مار کر کہا… ''تم دھوکے میں آگئے ہو۔ ہم سب جاسوس ہیں۔ تم قاہرہ نہیں پہنچ سکو گے، بیروت کے قید خانے کے تہہ خانے میں اذیت ناک موت مرو گے''۔

 اسحاق بے ہوش پڑا رہا جیے مر گیا ہو۔ باربرا کو خیمے کے باہر ہلکی ہلکی ہنسی کی آوازیں سنائی دینے لگیں، مگر وہ گھبرائی نہیں۔ وہ تربیت یافتہ تھی۔ آوازیں قریب آگئیں تو بھی وہ اسحاق کے پاس بیٹھی رہی۔ آوازیں خیمے تک پہنچ گئیں۔ ان میں ایک آواز میرنیا کی تھی، وہ سربراہ کے ساتھ اپنے قیدی کو دیکھنے آئی تھی۔

''ہم سب مسلمان ہیں''۔ باربرا نے اسحاق سے مخاطب ہوکر بلند آواز سے کہا… ''ہم تمہیں ایسا گھوڑا دیں گے جو تمہیں دو دنوں میں قاہرہ پہنچا دے گا''۔

''باربرا!'' اسے اپنے سربراہ کی آواز سنائی دی۔ اس نے گھوم کے دیکھا، خیمے میں سربراہ اور میرنیا کھڑے تھے۔ سربراہ نے کہا… ''تم اپنا فرض ابھی ادا نہیں کرسکو گی۔ اسے بے ہوش کردیا گیا ہے''۔

''یہ میرا شکار ہے باربرا!''۔ میرنیا نے طنزیہ مسکراہٹ سے کہا… ''یہ صرف مجھے معلوم ہے کہ اس کے سینے سے میں کیسے راز نکال سکتی ہوں''۔

''سربراہ اور میرنیا ہنس پڑے۔ باربرا اس طنزیہ ہنسی کو سمجھ گئی۔ اپنے آپ کو قابو میں رکھتے ہوئے بولی… ''میں نے کوئی غلطی تو نہیں کی، اپنا فرض ادا کررہی ہوں''۔

''جائو سوجائو''۔ سربراہ نے اسے کہا۔

وہ اٹھی اور باہر نکل گئی۔ سربراہ نے اسحاق کی نبض پر ہاتھ رکھا، پھر میرنیا کو ساتھ لے کر باہر نکل گیا۔ اسحاق ترک سلطان ایوبی کے لیے بڑی ہی اہم اطلاع لیے گہری بے ہوشی میں پڑا رہا۔

٭ ٭ ٭

''علی بن سفیان!'' قاہرہ میں سلطان ایوبی نے اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان سے کہا… ''ادھر سے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں آئی۔ اس کا یہ مطلب ہے کہ وہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ کوئی ہلچل نہی۔ میں تسلیم نہیں کرسکتا''۔

''اور میں یہ تسلیم نہیں کرسکتاکہ وہاں کوئی تبدیلی یا ہلچل ہو تو ہم تک اطلاع نہ پہنچے''… علی بن سفیان نے کہا… ''وہاں ہمارے جو آدمی ہیں وہ معمولی سوجھ بوجھ والے نہیں، اسحاق ترک کو آپ بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ زمین کا سینہ چیر کررازاور خبریں لانے والا آدمی ہے۔ باقی بھی اسی جیسے ہوشیار اور عقل والے ہیں''۔

''صلیبی ان واقعات سے ضرور فائدہ اٹھائیں گے جو اس طرف رونما ہوئے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''بالڈون اپنے فرنگی لشکر کے ساتھ حلب اور موصل کے اردگرد موجود ہے''۔

''مگر الملک الصالح مرگیا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''اب حلب کا حکمران عزالدین ہے۔ وہ صلیبیوں کے ہاتھ آنے والا نہیں''۔

''علی!'' سلطان ایوبی نے قدرے حیرت سے کہا… ''تم بھی خوش فہمیوں میں مبتلا ہورہے ہو؟ تم شاید اس خیال سے عزالدین کو پکا مسلمان سمجھتے ہو کہ میں اسے اپنا دوست سمجھتا ہوں اور میں نے اس کی مدد کے لیے اپنا منصوبہ بدل کر تل خالد پر حملہ کیا اور آرمینیوں سے ہتھیار ڈلوائے تھے مگر میں اپنے مسلمان حکمرانوںاور امراء پر بھروسہ نہیں کرسکتا۔ عزالدین ہمارا اتحادی ہوسکتا ہے، اس کے امرائ، وزراء میں صلیبیوں کے بہی خواہ موجود ہیں۔ علی! تم نے دیکھا نہیں کہ مومن قسم کے حکمران بھی اپنے وزیروں اور مشیروں کے خوشامدانہ مشوروں کے جال میں آکر مومن رہتے ہوئے بھی وطن اور قوم کو غلط فیصلوں سے تباہی کی کھائیوں میں پھینک دیتے ہیں؟ میں مشیروں کے خلاف نہیں۔ یہ قرآن پاک کا حکم ہے جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خدا نے دیا تھا کہ فیصلے سے پہلے مشورہ کرلیا کرو، مگر حکمران میں اتنی عقل ہونی چاہیے کہ مشورہ دینے والوں کی نیت اور کردار کو سمجھے۔ خوشامد حکمرانی کے نشے کو اور تیز کرتی ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ حکمران خوشامد کی سریلی لوریوں سے میٹھی نیند سوجاتاہے۔ سوئے ہوئے ذہن والا حکمران کتنا ہی غازی اور زاہد کیوں نہ ہو قوم اور وطن کو لے ڈوبتا ہے۔ یہی خطرہ مجھے عزالدین کی طرف سے نظر آرہا ہے''۔

 ''میں اس توقع پر بات کررہا ہوں کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ نے عزالدین کے ساتھ شادی کرلی ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''آپ تک یہ اطلاع پہنچ چکی ہے کہ محترمہ رضیع خاتون نے یہ شادی صرف اس لیے قبول کی کہ حلب اور موصل کی امارتیں ان کی فوجیں ہماری اتحادی رہیں۔ اس خاتون کو شادی کی اور کیا ضرورت ہوسکتی تھی؟''

''اس کے باوجود مجھے شک ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اور میرے شک کی وجہ یہ ہے کہ عزالدین صلیبیوں کے خطرے کی براہِ راست زد میں ہے۔ وہ اپنے تحفظ کے لیے بھی صلیبیوں کا درپردہ اتحادی بن سکتا ہے۔ مجھے وہاں کی اطلاع جلدی ملنی چاہیے ۔ تم میری آنکھیں اور کان ہو علی ! میں نے اندھیرے میں کبھی پیش قدمی نہیں کی ''۔

''کچھ دن اور انتظار کر لیا جائ

ے''۔علی بن سفیان نے کہا ۔

''میں زیادہ دیر انتظار نہیںکروں گا ''۔ سلطان ایوبی نے کہا … '

جاری ھے



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں