داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 116 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 116

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔116 جب بیٹا مر رہا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

''ہم اپنا مقصد بتا چکے ہیں''۔

''یروشلم سے آئے ہو یا عکرہ سے؟''۔ ابن خطیب نے پوچھا۔

''ہم تاجر ہیں''۔ ایک نے جواب دیا… ''ہم ہر ملک میں جاتے ہیں۔ یروشلم اور عکرہ بھی جاتے ہیں، تم کس شک میں ہو؟''

''شک میں نہیں''۔ ابن خطیب نے کہا… ''مجھے یقین ہے۔ میں آپ تینوں کو جانتا ہوں۔ آپ مجھے نہیں جانتے۔ میں آپ کا آدمی ہوں۔ میرا نام ابن خطیب ہے لیکن میرا نام کچھ اور ہے۔ ہرمن اچھی طرح جانتا ہے''۔

ہرمن صلیبیوں کے جاسوسی اور سراغ رسانی کے نظام کا سربراہ اور اس فن کا ماہر تھا۔ ابن خطیب نے کوئی خفیہ لفظ بولا جو صلیبیوں کے جاسوس ایک دوسرے کی شناخت کے لیے بولا کرتے تھے۔ تاجر جو دراصل بالڈون کے بھیجے ہوئے مشیر تھے، مسکرائے۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ الملک الصالح کے ہاں صلیبی جاسوس موجود ہیں۔ ابن خطیب نے انہیں یقین دلا دیا کہ وہ انہی کا جاسوس ہے۔

''آپ اسی مقصد کے لیے آئے ہیں؟'' ابن خطیب نے پوچھا… ''مجھے سے نہ چھپائیں، ورنہ آپ کو اندر نہیں جانے دیا جائے گا''۔

''ہاں!'' ایک صلیبی نے کہا… ''اسی مقصد کے لیے… اور ہمیں یہ بتائو کہ صلاح الدین ایوبی کے جاسوس محل میں موجود ہیں؟''

''موجود ہیں لیکن ان پر ہماری نظر ہے''۔ ابن خطیب نے کہا… ''ان سے ہم آپ کو چھپائے رکھیں گے لیکن مجھے آپ کے مقصد سے پوری واقفیت ہونی چاہیے''۔

ان تینوں نے اپنے خفیہ الفاظ اور طریقوں سے یقین کرلیا کہ ابن خطیب انہی کا آدمی ہے۔ انہوںنے اسے اپنا مقصد بتا دیا۔ ابن خطیب نے اندر جاکر الملک الصالح کو اطلاع دی کہ تاجر شرف ملاقات چاہتے ہیں۔ 

''تم محافظ دستے کے نئے کمان دار ہو؟'' الملک الصالح نے پوچھا۔

''جی حضور!'' اس نے جواب دیا۔

''کہاں کے رہنے والے ہو؟''

اس نے کسی گائوں کا نام لیا تو الملک الصالح نے کہا… ''ہم ہر وقت ہر کسی سے نہیں مل سکتے۔ آئندہ خیال رکھا جائے، ان تینوں کو اندر بھیج دو''۔

اس نے باہر جاکر تینوں کو اندر جانے کو کہا اور آنکھ مار کر ہدایت کی کہ بہت سنبھال کر بات کریں۔

٭ ٭ ٭

رات عشاء کی نماز کے بعد ابن خطیب جامع مسجد کے امام کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔ دو اور آدمی بھی تھے۔

''اب اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں رہی کہ الملک الصالح ایک بار پھر صلیبیوں کے جال میں آرہا ہے''… ابن خطیب نے کہا… ''میں نے آپ کو پہلے ایلچی اور تحفوں کی اطلاع دی تھی۔ وہ صلیبیوں کی طرف سے آئے تھے اور ساتھ ایک بڑی ہی خوبصورت لڑکی تھی۔ آج پتہ چل گیا ہے کہ وہ ایلچی بالڈون کی طرف سے آیا تھا۔ آج تین تاجر الملک الصالح سے تجارت کی بات چیت کرنے کے لیے آئے ہیں۔آپ جانتے ہیں کہ میں نے دو سال بیت المقدس میں صلیبیوں کے درمیان رہ کر جاسوسی کی ہے۔ ان تینوں کے چہرے اور زبان کا لہجہ بتاتا تھا کہ انہوں نے جو عربی لباس پہن رکھا ہے، یہ بہروپ ہے۔ میں نے اس کا جاسوس بن کر ان کا اصل روپ دیکھ لیا ہے۔ بیت المقدس کی جاسوسی نے آج مجھے بہت فائدہ دیا ہے۔ میں ان کے خفیہ (کوڈ) الفاظ جاتا ہوں اور خفیہ اشارے بھی۔ محترم علی بن سفیان کی تربیت کی برکت آج دیکھی ہے''۔

ابن خطیب سلطان ایوبی کا جاسوس تھا جو تھوڑا ہی عرصہ گزرا حلب میں آیا اور الملک الصالح کے ایک ایسے نائب سالار کی کوشش سے محافظ دستے کا کمانڈر بنا دیا گیا جو سلطان ایوبی کا حامی تھا۔ ابن خطیب علی بن سفیان کا خصوصی پر ذہین اور بے خوف جاسوس تھا۔ وہ دو سال بیت المقدس میں صلیبی بادشاہوں اور جرنیلوں کے ہیڈکوارٹر میں رہا اور اس نے کامیاب جاسوسی کی تھی۔ جامع مسجد کا امام ان تمام تر جاسوسوں کا کمانڈر تھا جو سلطان ایوبی نے حلب میں بھیج رکھے تھے۔ عشاء کی نماز کے بعد جسے کوئی رپورٹ دینی ہوتی، وہ مسجد میں جاکر امام کو دیتا تھا۔ امام اپنے طورپر تصدیق کرکے رپورٹ سلطان ایوبی تک پہنچا دیتا تھا۔ ابن خطیب بڑی ہی قیمتی رپورٹ لایا تھا۔

a: اتنے میں ایک ادھیڑ عمر عورت آگئی۔ وہ سر سے پائوں تک سیاہ برقع نما کپڑے میں مستور تھی۔ اندر آکر اس نے چہرہ بے نقاب کیا۔ اسے دیکھ کر سب ہنس پڑے۔ وہ الملک الصالح کی خادمہ تھی۔ یہ اس کی خواب گاہ کی دیکھ بھال کرتی اور اس کی درپردہ زندگی کی راز دان تھی۔ وہ اسی روز امام کو رپورٹ دے چکی تھی کہ صلیبیوں کی طرف سے الملک الصالح کے پاس ایک لڑکی آئی ہے جو شکل وصورت، جسم، رنگ، نازو ادا اور زبان کی چاشنی کے حاظ سے سرتا پا ایسا جادو ہے جس سے کوئی زاہد اور پرہیز گار بھی نہیں بچ سکتا۔ وہ امام کو بتا چکی تھی کہ الصالح کا باقاعدہ حرم نہیں لیکن اس کی راتیں عورت کے بغیر نہیں گزرتیں۔ عورت اس کی کمزوری بن گئی ہے۔

''… مگر اس لڑکی نے جو مجھے یہودی معلوم ہوتی ہے، الصالح کو اپنا غلام بلکہ قیدی بنا لیا ہے''۔ خادمہ نے کہا۔ ''وہ اتنا پاگل ہوگیا ہے کہ مجھے سے باچھیں کھلا کر پوچھتا ہے، یہ لڑکی تمہیں پسند ہے؟ میں اس کے ساتھ شادی کرلوں؟… میں نے ایک بار اسے کہا کہ اپنی بہن سے پوچھ لیں۔ اس نے مجھے سختی سے کہا کہ اس کی بہن کے ساتھ ذکر نہ کروں''۔ خادمہ بھی جاسوس تھی۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہ الملک الصالح پوری طرح اس لڑکی کے جال میں آگیا ہے۔ اب کوئی اور لڑکی اس کی خواب گاہ میں داخل نہیں ہوسکتی۔

''اب سوچنا یہ ہے کہ اسی وقت سلطان ایوبی کو اطلاع دے دی جائے یا دیکھ لیا جائے کہ صلیبی کیا کرتے ہیں یا الصالح سے کیا کرواتے ہیں''۔ امام نے کہا… ''میری رائے ہے کہ الصالح کوئی ٹھوس کارروائی کرلے جو معاہدے کے خلاف ہو تو سلطان کو اطلاع دی جائے''۔

''سلطان مصر چلے گئے ہیں''۔ ایک اور نے کہا جو بوڑھا تھا اور دانش مند معلوم ہوتا تھا… ''ادھر العادل ہیں۔ وہ سلطان سے حکم منگوائے بغیر کوئی کارروائی نہیں کریں گے۔ اتنے عرصے میں یہاں کے حالات ایسے ہوسکتے ہیں جو شاید قابو سے نکل جائیں۔ کیوں نہ کوئی ایسی کارروائی سوچی جائے جو اس سلسلے کو یہیں پر ختم کردے''۔

''میں آپ کو ایک مشورہ دیتی ہوں''۔ خادمہ نے کہا۔ ''الصالح کی توجہ صرف لڑکی پر ہے، وہ بھلا برا سوچنے کے بھی قابل نہیں رہا۔ یہ لڑکی دن کے وقت بھی اسے شراب میں مدہوش رکھتی ہے۔ بدبخت پہلے بھی پیتا تھا لیکن صرف رات کو پیتا تھا ور اتنی زیادہ اس نے کبھی نہیں پی تھی۔ نشے کی حالت میں وہ اپنی بہن کے سامنے نہیں ہوتا تھا۔ اسے دن کو ملتا تھا۔ اب یہ حالت ہے کہ جب پوچھتی ہے تو میں کہہ دیتی ہوں کہ سلطنت کے کام ایسے ہیں کہ الصالح کو فرصت نہیں… میرا مشورہ یہ ہے کہ لڑکی کو غائب کردیا جائے تو الصالح کے ہوش ٹھکانے نہیں رہیں گے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکے گا کہ صلیبیوں سے کوئی بات کرے یا نہ کرے''۔

اس کارروائی پر بحث مباحثہ ہوتا رہا۔ ابن خطیب نے کہا کہ وہ تاجروں کو بھی غائب کرسکتا ہے۔ یہ فیصلہ ہوا کہ موقعہ دیکھ کر پہلے لڑکی کو غائب کیا جائے مگر یہ کام آسان نہیں تھا، بلکہ ناممکن تھا۔ تاہم انہوں نے اسی کارروائی کا فیصلہ کرلیا۔

٭ ٭ ٭

 ٭ ٭ ٭

یہ نومبر ١١٨١ء کے دن تھے۔ اونٹوں کا قافلہ باہر رکا رہا۔ لوگ خریدوفروخت کرتے رہے۔ تینوں صلیبی مشیر عربی تاجروں کے بھیس میں الصالح سے ملتے ملاتے رہے۔ وہ اپنی شرائط خفیہ طور پر طے کررہے تھے۔ ١٧/١٦نومبر (٨/٧رجب ٥٧٧ہجری) کی رات الصالح نے بہت بڑی ضیافت کا اہتمام کیا جس کی بظاہر کوئی وجہ نہیں تھی لیکن درپردہ اس ضیافت کی تقریب یہ تھی کہ صلیبی مشیروں کے ساتھ الصالح نے خفیہ معاہدہ کرلیا تھا جس کا علم صرف دو سالاروں کو تھا۔ رات کی ضیافت میں سینکڑوں مہمان تھے۔ ان میں صلیبی مشیر بھی تھے جو ابھی تک عربی تاجروں کے لباس میں تھے۔ ان کے قافلے کے شتربان بھی اس میں مدعو تھے لیکن وہ شتربانوں کی حیثیت سے ضیافت میں نہیں آئے تھے۔ ان میں دراصل شتربان کوئی بھی نہیں تھا۔ ان میں بعض جاسوس تھے اور باقی صلیبی فوج کے افسر۔ ضیافت میں یہودی لڑکی بھی تھی اور الصالح کی بہن بھی مگر اسے انتظامات کی دیکھ بھال سونپی گئی تھی۔

اس رات محافظ دستے کی پابندیاں بھی کم ہوگئی تھیں۔ مہمانوں کا ریلا چلا آرہا تھا۔ کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کم از کم الصالح کوئی خطرہ محسوس نہیں کررہا تھا۔ شراب کا دور چل رہا تھا۔ سالم بکرے روسٹ کیے گئے تھے۔ وسیع میدان میں قناتیں اور شامیانے لگائے گئے تھے۔ جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی، ضیافت کا رنگ نکھرتا آرہا تھا۔ ہر طرف مہمانوں کی چہل پہل تھی۔

یہودی لڑکی ادھر ادھر پھدکتی پھر رہی تھی۔ وہ کسی سے مل کر آرہی تھی کہ اسے خادمہ نے روک لیا اور کسی سالار کا نام لے کر کہا کہ وہ کسی ضروری بات کے لیے بلا رہا ہے۔ لڑکی کو معلوم تھا کہ وہ اس کا اپنا آدمی ہے۔ وہ ادھر چلی گئی اور پھر واپس نہیں آئی۔ الصالح کو ابھی پتہ نہیں چلا تھا کہ لڑکی غائب ہوگئی ہے۔ ابن خطیب اس رات ڈیوٹی پر نہیں تھا۔ اس نے تین تاجروں میں سے ایک کے ساتھ بات کرنے کا موقع پیدا کرلیا اور کہا… ''آپ تینوں یہاں سے نکلیں، ورنہ مارے جائیں گے۔ بہت بڑا خطرہ ہے۔ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کی اطلاع ملی ہے کہ مہمانوں کے بھیس میں یہاں موجود ہیں''… اس نے اسے ایک جگہ بتا کر کہا کہ تینوں وہاں آجائیں۔ آگے انہیں لے جاکر چھپانے کا انتظام کرلیا گیا ہے۔

''اب ہمیں یہاںسے نکلنا ہی ہے''۔ صلیبی نے کہا۔ ''ہمارا کام ہوچکا ہے''۔

''پھر جلدی نکلیں''۔ ابن خطیب نے کہا… ''ورنہ صبح تک آپ کی لاشیں یہاں سے نکلیں گی''۔

اس صلیبی نے یہ بات اپنے ساتھیوں کے کانوں میں جاڈالی اور و ایک ایک کرکے وہاں سے اس طرح نکلے کہ کسی کو شک نہ ہو۔ اگر وہ محل کے اندر ہوتے تو نکلتے دیکھے جاسکتے تھے۔ وہ میدان تھا۔ اندھیرے راستے سے گئے۔ آگے ابن خطیب تین گھوڑوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ خود بھی گھوڑے پر سوار تھا۔ ضیافت میں رقص وسرور اور مہمانوں کا اتنا شور تھا کہ کسی کو چار گھوڑوں کے قدموں کی آواز نہ سنائی دی اور الصالح کو علم ہی نہ ہوسکا کہ اس کے خصوصی مہمان فرضی خطرے سے بھاگ کر حقیقی خطرے میں چلے گئے ہیں۔

٭ ٭ ٭

 آبادی سے دور ایک جھونپڑا نما مکان تھا۔ تینوں صلیبی اس میں بیٹھے تھے۔ ابن خطیب خدا کا شکر ادا کررہا تھا کہ ان کی جانیں بچ گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے شتربانوں کے متعلق فکر کا اظہار کیا۔ ابن خطیب نے انہیں تسلی دی کہ سب کو نکال لیا جائے گا۔ اس نے ان سے پوچھا کہ وہ اسے بتا کر جائیں کہ کیا معاملہ طے ہوا ہے تاکہ وہ اس کے مطابق چوکنا رہے۔ انہوں نے اسے بتایا کہ الصالح کو درپردہ جنگی سامان اور گھوڑے دیں گے۔ اس کی فوج کو ٹریننگ دیں گے۔ جاسوس دیں گے اور جب و ہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑے گا تو صلیبی فوج سلطان ایوبی پر عقب سے حملہ کرے گی۔ مختصر یہ کہ الصالح سلطان ایوبی کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ توڑ دے گا لیکن اس وقت توڑے گا جب صلیبی اسے اشارہ دیں گے۔

''اب ہمیں روانہ ہوجانا چاہیے؟'' ایک صلیبی نے پوچھا۔

''ہاں!'' ابن خطیب نے کہا… ''آپ کی روانگی کا وقت آگیا ہے۔ میرے ساتھ آئو''۔

ابن خطیب نے کمرے کا دروازہ کھولا۔ یہ دوسرا دروازہ تھا۔ اس نے تینوں سے کہا کہ چلو، وہ کمرہ تاریک تھا۔ تینوں اس کمرے میں گئے تو پیچھے سے ایک کی گردن کے گرد ایک بازو لپٹ گیا اور ایک ایک خنجر ہر ایک کے دل میں اتر گیا۔ کمرے کے ایک کونے میں ایک گہرا گڑھا پہلے ہی کھود لیا گیا تھا۔ تینوں کو اس میں پھینک دیا گیا۔

اسی کمرے کے ایک کونے میں یہودی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی جو اندھیرے میں کسی کو نظر نہیں آتی تھی۔اس کے ہاتھ پائوں بندھے ہوئے تھے اور منہ میں کپڑا ٹھونسا ہوا تھا۔ اسے بھی ضیافت سے خادمہ کے ذریعے بلا کر کامیابی سے اغوا کرلیا گیا تھا۔ کمرے میں ابن خطیب کے علاوہ پانچ آدمی تھے۔ انہوں نے لڑکی کے ہاتھ پائوں کھول دئیے اور منہ سے کپڑا نکال دیا۔ لڑکی اپنے صلیبیوں کا حشر دیکھ چکی تھی۔ اس نے کہا کہ مجھے دوسرے کمرے میں لے چلو۔ اسے وہاں لے گئے۔ وہاں ایک دیا جل رہا تھا۔

''کیا تم نے مجھ سے زیادہ خوبصورت لڑکی کبھی دیکھی ہے؟'' لڑکی نے پوچھا۔

''کیا تم نے ہم سے زیادہ ایمان والے کبھی دیکھے ہیں؟'' ابن خطیب نے کہا… ''ہم تمہیں اتنی مہلت نہیںدیں گے کہ تم الصالح کی طرح ہمارے ایمان بھی خرید سکو''۔

''میں اپنی جان کی بخشش مانگ رہی ہوں''۔ لڑکی نے کہا… ''مجھے تم لوگ پسند نہیں کرتے تو بتائو کتنا سونا مانگتے ہو۔ صبح تمہارے قدموںمیں رکھ دوں گی، پھر میں یہاں سے یروشلم چلی جائوں گی''۔

ابن خطیب نے اپنے ساتھیوں کی طرف دیکھا۔ اس نے دو ساتھیوں کے چہروں پر عجیب سے تاثرات دیکھے۔ ابن خطیب نے بڑی تیزی سے خنجر نکالا اور لڑکی کے دل میں اتار دیا۔ وہ گری تو اسے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں لے گیا اور گڑھے میں پھینک دیا۔ سب نے مل کر گڑھا مٹی سے بھر دیا۔

امام کو رات کو ہی اطلاع دے دی گئی کہ کام مکمل کردیاگیا ہے۔ ادھر الصالح تینوں صلیبیوں اور لڑکی کے متعلق کہہ رہا تھا کہ بہت دیر سے نظر نہیں آئے… آدھی رات کے کچھ دیر بعد جب آخری مہمان بھی رخصت ہوگیا تو وہ اپنے ہم رازوں سے یہی پوچھ رہا تھا کہ وہ کہاں ہیں۔ وہ کہیں بھی نہ ملے۔ وہ لڑکی کے لیے بے قرار ہورہا تھا۔ اس نے خادمہ کی جان کھالی۔ باقی رات نہ خود سویا، نہ اس نے اپنی ذاتی ملازموں کو سونے دیا۔ خادمہ نے امام سے کہا تھا کہ لڑکی کے بغیر وہ ہوش کھوبیٹھے گا۔ اس کی رائے صحیح ثابت ہوئی۔ وہ توپاگل ہوا جارہا تھا۔

٭ ٭ ٭

صبح اس کی حالت پاگلوں سے بھی بدتر تھی۔ اس نے اپنے دو ہم راز سالاروں کو اپنے سامنے کھڑا کر رکھا تھا۔ انہوں نے ابن خطیب کو بلا لیا اور پوچھا کہ اس نے ایک لڑکی اور عربی تاجروں کو باہر جاتے تو نہیں دیکھا؟

''میں نے انہیں دیکھا تھا''۔ ابن خطیب نے کہا… ''میں اپنے دستے کے ساتھ باہر مستعد کھڑا تھا۔ آدھی رات سے پہلے تینوں تاجر باہر آئے۔ ان کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ وہ چلے گئے اور اندھیرے میں غائب ہوگئے۔ مجھے دوڑتے گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں سنائی دی تھیں۔ میں نے انہیں واپس آتے نہیں دیکھا''۔

وہ سالار بھی جو سلطان ایوبی کا حامی تھا، آگیا۔ اسے معلوم تھا کہ صلیبی اور لڑکی کہاں ہیں۔ اس نے الصالح کو صلیبیوں کے خلاف بھڑکانا شروع کردیا۔ اس نے کہا… ''وہ اتنی خوبصورت لڑکی کو آپ کے پاس نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ انہوں نے آپ کو دھوکہ دے کر آپ سے کوئی بڑا ہی نازک راز حاصل کرلیا ہے۔ یہ شاید آپ کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کیا راز ہوگا''۔

الصالح پر خاموشی طاری ہوگئی۔ اسے غالباً یہ احساس ہوگیا تھا کہ لڑکی اسے دن کے وقت بھی شراب میں بے ہوش رکھتی رہی ہے۔ اس حالت میں معلوم نہیں وہ اس سے کیا کچھ کہلواتی رہی ہے۔ اسے شدید صدمہ ہوا، وہ رات بھر سویا بھی نہیں تھا۔ بہت دنوں سے وہ دن رات شراب پیتا رہا تھا۔ اس کے اثرات کے علاوہ غصہ اور پچھتاوا بھی تھا۔ اس نے غصے سے حکم دیا… ''وہ جوان کے ساتھ قافلہ آیا تھا، ان سب کو قید میں ڈال کر مارڈالو۔ ان کے اونٹوںا ور سامان کو سرکاری ملکیت میں لے لو''۔

اسی شام الصالح کو پیٹ میں درد کی ٹیس اٹھی۔ طبیب نے دوائی دی لیکن مرض بڑھتا گیا اور رات کو درد پیٹ سے ناف تک پھیل گئی۔ ٩ رجب ٥٧٧ہجری یعنی اگلے روز اس کی حالت طبیبوں کے بس سے باہر ہوگئی۔ طبیب ہر لمحہ اس کے پاس موجود رہنے لگے مگر افاقہ ہونے کے بجائے درد بڑھتا گیا۔ رات بھی ایسے ہی گزری۔ دوسرے دن اس پر غشی طاری ہونے لگی۔ طبیبوں نے اسے تو نہ بتایا، سالاروں وغیرہ کو بتا دیا کہ الصالح کا جانبر ہونا مشکل ہے۔ جامع مسجد کے امام کو بلا لیا گیا۔ اس نے سرہانے بیٹھ کر قرآن خوانی شروع کردی۔ رات کو الصالح نے آنکھ کھولی۔ امام کو دیکھا اور مری ہوئی آواز میں کہا… ''اگر قرآن برحق ہے تو اس کی برکت سے مجھے صحت یاب کرو''۔

''میں یہ کہنے سے نہیں ڈروں گا کہ آپ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں''… امام نے کہا… ''قرآن کی برکت ان کے لیے ہے جو اس کے ہر فرمان پر عمل کرتے ہیں… خدا سے گناہوں کی بخشش مانگیں، اپنی ماں سے گناہوں کی معافی مانگیں''۔

اس وقت اس کی بہن شمس النساء پاس کھڑی روی رہی تھی۔ الصالح کے منہ سے نکلا… ''ماں… میری ماں کو بلائو۔ اسے کہو کہ تمہارا گناہ گار بیٹا مر رہا ہے۔ آکر دودھ کی دھاریں اورگناہ بخش دو''۔

امام نے شمس النساء کی طرف دیکھا۔ اس نے بھائی کے ماتھے پر پیار سے ہاتھ پھیر کر کہا… ''ابھی دمشق کے لیے روانہ ہوجاتی ہوں۔ ماں کو لے کر آئوں گی''… وہ تیز تیز قدم اٹھاتی باہر نکل گئی۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ اپنے محافظوں کے ساتھ دمشق کے راستے پر جارہی تھی۔

قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے۔ ''١٣رجب کے روز الصالح کی حالت اتنی بگڑی کہ قلعے کے دروازے بند کردئیے گئے۔ الصالح نے ذرا ہوش میں آکر عزالدین کو اپنا جانشین مقرر کیا۔ عزالدین سیف الدین کے مرنے کے بعد موصل کا والی بنا تھا۔ وہ موصل میں تھا۔ اب اسے حلب کا والی بھی بنا دیا۔ الصالح نے تمام امراء اور سالاروں کو بلا کر وہ حلف اٹھائیں کہ عزالدین کو اپنا والی تسلیم کرتے ہیں اور اس کے وفادار رہیں گے۔سب نے حلف اٹھایا۔ ٢٥رجب ٥٧٧ہجری الملک الصالح غشی کے عالم میں فوت ہوگیا۔ موصل کو قاصد دوڑایاگیا کہ عزالدین کو کہہ کر بلا لائے کہ اسے حلب کا والی مقرر کیا گیا ہے''۔ جس وقت شمس النساء دمشق میں اپنی ماں کے قدموں میں بیٹھی ماں سے کہہ رہی تھی کہ اس کا اکلوتا بیٹا مر رہا ہے اور دودھ کی دھاریں بخشوانے کے لیے اسے بلا رہا ہے اور ماں نے کہا تھا کہ میں دودھ کی دھاریں بخش دوں گی، اس کے گناہ اللہ بخشے گا۔ اس وقت الصالح فوت ہوچکا تھا۔ شمس النساء حلب واپس گئی تو اس کے اکلوتے بھائی کا جنازہ قلعے سے نکل رہا تھا۔

عزالدین کو قاصد نے الصالح کی موت کا پیغام دیا تو وہ اسی وقت روانہ ہوگیا۔ راستہ چھوٹا کرنے کے لیے وہ کسی اور راستے سے جارہا تھا۔ راستے میں اس کا گزر سلطان ایوبی کے بھائی العادل کی فوج کی خیمہ گاہ سے ہوا۔ وہ العادل سے ملنے رک گیا۔ العادل کو معلوم نہیں تھا کہ الصالح مرگیا ہے۔ عزالدین نے اسے یہ خبر سنائی اور یہ بھی کہ اسے حلب کا والی مقرر کیا گیا ہے۔

العادل نے اسے کہا… ''تم آئندہ خانہ جنگی کو روک سکتے ہو اور حلب کو دمشق سے ملا سکتے ہو۔ غدار مرگیا ہے، تم تو ایمان فروش نہیں''۔

 عزالدین گہری سوچ میں کھوگیا۔ کچھ وقت بعد اس نے العادل سے کہا… ''ہاں! میں حلب اور دمشق کو ایسے رشتے میں جکڑ سکتا ہوں جو کبھی نہیں ٹوٹے گا لیکن… لیکن اسے مضبوط بنانے کے لیے تم ایک کام بلکہ میری خواہش پوری کرسکتے ہو… میں نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں، اگر وہ عظیم عورت مان جائے تو''…

''میں آج ہی دمشق چلا جائوں گا''۔ العادل نے کہا۔ ''مجھے امید ہے، وہ مان جائے گی''۔

العادل دمشق گیا۔ رضیع خاتون کو یہ خبر سنائی کہ اس کا بیٹا مر گیا ہے۔

''اللہ اس کے گناہ معاف کرے''۔ ماں نے کہا۔

کچھ دیر بعد العادل نے کہا کہ الصالح عزالدین کو اپنا جانشین مقرر کرگیا ہے اور عزالدین نے اس کے ساتھ شادی کی خواہش ظاہر کی ہے۔ رضیع خاتون نے انکار کردیا۔

''یہ شادی آپ کی اور عزالدین کی نہیں ہوگی''۔ العادل نے کہا۔ ''یہ دمشق اور حلب کی شادی ہوگی۔ اس سے آئندہ خانہ جنگی رک جائے گی اور صلیبیوں کے خلاف محاذ مستحکم ہوسکے گا''۔

''عظمت اسلام کے لیے میں ہرقربانی کے لیے تیار ہوں''۔ رضیع خاتون نے کہا۔ ''میری ذاتی خواہشیں مرچکی ہیں''۔

٥شوال (١١فروری ١١٨٢ئ) عزالدین اور رضیع خاتو


ن کی شادی ہوگئی۔


اس کے ساتھ ہی جلد چہارم کا اختتام ہوا 

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں