داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 115 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 115

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔115 جب بیٹا مر رہا تھا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ نومبر ١١٨١ء کا واقعہ ہے جب ماں بیٹی کی ملاقات ہوئی تھی۔ دو سال پہلے کا واقعہ ہے جب سلطان صلاح الدین ایوبی نے اب لاعون کو ایسی شکست دی کہ اس کا قلعہ اسی کی فوج کے جنگی قیدیوں سے اس طرح مسمار کرادیا تھا کہ اس کا نام ونشان نہیں رہا تھا۔ اس کا ملبہ دریا میں پھینک دیا گیا تھا۔ اس کے فوراً بعد سلطان ایوبی نے صلیبی بادشاہ بالڈون کو شکست دی تھی۔ یہ دراصل ایک مسلمان جاسوس کا کارنامہ تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کو بروقت اطلاع دے دی تھی کہ فوج فلاں پہاڑی مقام پر گھات میں بیٹھی ہے۔ آپ نے ان دونوں جنگوں کی تفصیلات پچھلی قسط میں پڑھی ہیں۔

یہ بالڈون کی دوسری پسپائی اور پٹائی تھی۔ اس سے پہلے وہ سلطان ایوبی کے بھائی العادل سے ایسی ہی شکست کھا چکا تھا۔ اب سلطان ایوبی نے اسے اٹھنے کے قابل نہیں رہنے دیا تھا لیکن وہاں وہ اکیلا صلیبی بادشاہ نہیں تھا۔ عالم اسلام میں کئی صلیبی افواج موجود تھیں۔ ان کے حکمران دل سے ایک دوسرے کے خلاف تھے لیکن ان کا دشمن مشترک تھا، اس لیے وہ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ ہر ایک کے دل میں یہی تھا کہ وہ اکیلا زیادہ سے زیادہ علاقوں پر قابض ہوجائے۔ اسی مقصد کے تحت بالڈون نے اکیلے العادل اور اس کے بعد سلطان ایوبی سے جنگیں لڑی تھیں۔ اس کے پاس فوج اور وسائل کی کمی نہیں تھی۔ اس کا اسلحہ بھی برتر تھا ور اس کے جانور بھی بہتر تھے لیکن ہار گیا۔

کچھ عرصہ تو اسے بکھری ہوئی فوج اکٹھی کرنے میں لگ گیا۔ اس دوران اسے اطلاع ملی کہ سلطان ایوبی ابن لاعون کو بھی شکست دے کر اس کی بادشاہی اور جنگی طاقت کمزور کر آیا ہے۔ ابن لاعون آرمینی تھا۔ آرمینی صلیبیوں کے دوست تھے۔ ان کی شکست صلیبیوں کے لیے اچھی خاصی چوٹ تھی۔ اس کے ساتھ ہی اسے اطلاع ملی کہ ابن لاعون کی سلطنت تل خالد اور اس کے قلعے قاراحصار پر حملے میں سلطان ایوبی کی فوج کے ساتھ الملک الصالح کی فوج کے دستے بھی تھے تو وہ بے چین ہوگیا۔ یہ تو اسے اور دوسرے صلیبی حکمرانوں کو پتہ چل چکا تھا کہ سلطان ایوبی نے الملک الصالح کو شکست دے کر اپنا خودمختار امیر بنا لیا ہے مگر انہیں یہ توقع تھی کہ الصالح اس معاہدے پر عمل نہیں کرے گا۔ یہ الصالح کی خصلت تھی۔ وہ بظاہر سلطان ایوبی کے تابع ہوگیا تھا مگر اس نے صلیبیوں کے ساتھ مراسم نہیں توڑے تھے۔ اب بالڈون کو پتہ چلا کہ الصالح نے سلطان ایوبی کو فوج دی تھی تو وہ یروشلم چلا گیا جہاں صلیبی بادشاہوں کا ہیڈکوارٹر بن گیا تھا۔ دوسرا ہیڈکوارٹر عکرہ تھا۔

''کیا آپ کو معلوم ہے کہ مسلمان پھر متحد ہورہے ہیں؟''… بالڈون نے صلیبی حکمرانوں اور جرنیلوں کی کانفرنس میں کہا… ''الملک الصالح کو آپ لوگ اپنا اتحادی سمجھتے رہے اور اس نے اپنی فوج صلاح الدین ایوبی کو دے دی تھی''۔

''ابن لاعون کی شکست ہماری شکست ہے''… فلپس آگسٹس نے کہا… ''اگر آپ گھات میں بیٹھنے کی بجائے ابن لاعون کی مدد کو پہنچتے، صلاح الدین ایوبی پر عقب سے حملہ کردیتے تو شکست اس کی ہوتی''۔

''جس طرح آپ میں سے کسی کو معلوم نہ ہوسکا کہ صلاح الدین ایوبی نے پیش قدمی کا رخ بدل کر تل خالد کا رخ کرلیا ہے، اسی طرح مجھے بھی معلوم نہ ہوسکا''۔

''یہ آپ کے نظام جاسوسی کی کوتاہی ہے''… گے آف لوزینان نے کہا… ''ہم بہت دور تھے۔ دیکھ بھال اور جاسوسی کا انتظام آپ کو کرنا چاہیے تھا۔ آپ قریب تھے۔ سلطان ایوبی کی فوج آپ کے قریب سے گزر گئی۔ آپ کو پتہ نہ چل سکا۔ آپ گھات میں چھپے رہے''۔

''مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے ساتھ ایک مسلمان جاسوس ہے''… بالڈون نے کہا… ''میں اسے بے ضرر آدمی سمجھتا رہا۔ وہ میرا قیدی تھا مگر بھاگ گیا اور سلطان ایوبی کو گھات کی خبر دے دی… لیکن اب یہ سوچنا ہے کہ ایوبی اور الصالح کا معاہدہ اور اتحاد کس طرح توڑا جائے''۔

''کیا آپ مسلمانوں کی کمزوریوں کو بھول گئے ہیں یا انہیں نظرانداز کررہے ہیں؟'' ایک اور صلیبی بادشاہ نے کہا۔ ''اس وقت الصالح بچہ تھا، جب ہم نے اس کے مشیروں، امیروں اور سالاروں کو تحفے تحائف اور عیاشی کا سامان دے کر اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ اب وہ جوان ہوگیا ہے۔ اسے اب ہاتھ میں لینا زیادہ آسان ہے۔ اپنا حربہ استعمال کریں اور مخصوص تحفہ اپنے ایلچی کے ہمراہ بھیج دیں۔ اگر آپ جنگی قوت سے اسے ساتھ ملانے کی سوچ رہے ہیں تو یہ خیال ذہن سے نکال دیں۔ سلطان ایوبی کی فوج اس علاقے میں موجود ہے۔

) العادل بھی اپنی فوج کے ساتھ یہیں ہے۔ الصالح کے پاس اپنی فوج کے علاوہ حرن اور موصل کی فوج بھی ہے۔ اگر آپ نے حلب پر حملہ کیا تو سلطان ایوبی تمام افواج کی کمان اپنے ہاتھ میں لے لے گا۔ اگر اس نے ہم پر فتح حاصل نہ کی تو یہ نقصان ضرور ہوگا کہ الصالح آپ کے ہاتھ سے ہمیشہ کے لیے نکل جائے گا۔ ہمیں فلسطین کا دفاع کرنا ہے۔ ہم نے اپنی افواج کو مختلف جگہوں پر پھیلا دیا ہے اور دیکھ رہے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی کدھر کا رخ کرتا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں۔ ان حالات میں ہم آپ کی مدد نہیں کرسکیں گے۔ آپ اپنے طورپر الصالح کو ہاتھ میں لے لیں''۔

٭ ٭ ٭

١١٨٠ء میں والئی موصل سیف الدین غازی مرگیا۔ اس کی جگہ عزالدین مسعودنے امارت سنبھال لی۔ اسی سال سلطان صلاح الدین ایوبی کا بھائی شمس الدولہ طور ان شاہ سکندریہ میں فوت ہوگیا۔ سلطان ایوبی مصر چلا گیا، وہاں کے حالات پھر بگڑنے لگے تھے۔ وہ اپنی فوج اپنے بھائی العادل کی زیرکمان پیچھے چھوڑ گیا تھا۔

١١٨١ء کا سال آگیا۔ بالڈون نے اپنی فوج کی کمی پوری کرلی تھی۔ اسے ٹریننگ بھی دے لی تھی۔ اس نے اپنی فوج کو سلطان ایوبی کی چالوں کے مطابق جنگی مشقیں بھی کرائی تھیں۔ وہ اگلی جنگ کے لیے تیار تھا لیکن الملک الصالح کو وہ اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا تھا۔

الصالح اب بچہ نہیں، جوان تھا۔ سلطنت کے کاروبار کو وہ سمجھنے لگا تھا۔ اس کی کمزوری اس کے مشیر اور سالار تھے جو درپردہ صلیبیوں کے حامی تھے۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ اس نے سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرلی تھی مگر اس کے دماغ سے ابھی بادشاہی کا خبط نکلا نہیں تھا۔ وہ خودمختار حکمران بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ ایک روز اسے اطلاع ملی کہ صلیبی بادشاہ بالڈون کا ایلچی آیا ہے۔ اس نے فوراً اسے اندر لانے کی اجازت دے دی۔ یہ ایلچی ذہنی تخریب کاری کا ماہر اور انسانی نفسیات کی کمزوریوں سے واقف تھا۔ اس نے الملک الصالح کو بتایا کہ وہ کچھ تحفے بھی لایا ہے۔

تحفوں میں ایک تو بیش قیمت ہیروں اور جواہرات اور سونے کے سکوں کا بکس تھا۔ دو تلواریں تھیں۔ پچاس اعلیٰ نسل کے گھوڑے تھے اور ایک لڑکی تھی۔ الصالح نے باہر جاکر گھوڑے دیکھے۔ ہیرے اور جواہرات دیکھے لیکن جس تحفے پر اس کی نظریں جم کر رہ گئیں وہ لڑکی تھی۔ وہ بہت دیر لڑکی کو ہی دیکھتا رہا۔ اس کی اٹھتی جوانی کی تمام تر کمزوریاں ایک جادو بن کر اس کی عقل پر غالب آگئیں۔ ایلچی نے اس کے ہاتھ میں بالڈون کا پیغام دیا جو عربی زبان میں لکھا ہوا تھا۔ اس نے کچھ دیر تو پیغام کی طرف دیکھا ہی نہیں۔ لڑکی اس کے خوابوں سے زیادہ حسین تھی۔

ایلچی نے پیغام کھول کر اس کے آگے رکھا۔ اس نے پڑھا۔ بالڈون نے لکھا تھا… ''عزیز الملک الصالح والئی حلب! میں ایلچی اور تحفوں کے بجائے اپنی فوج بھیج سکتا تھا لیکن میں آپ کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ آپ میرے دوست اور میرے بچے ہیں۔ ہم نے آپ کی مدد اس وقت کی ہے جب آپ بچے تھے اور صلاح الدین ایوبی آپ کی سلطنت پر قابض ہونے کے لیے آگیا تھا۔ ہمیں افسوس ہے کہ گمشتگین اور سیف الدین نے آپ کو دوستی کے دھوکے میں رکھا۔ ہم بھی اس دھوکے کو نہ سمجھ سکے۔ اگر آپ اکیلے ہوتے تو آپ کی فوج کبھی شکست نہ کھاتی۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ گمشتگین کس قدر فریب کار تھا۔ آپ کو اسے سزائے موت دینی پڑی۔ سیف الدین نے بھی آپ کو ہمیشہ دھوکے میں رکھا۔ وہ حلب پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ یہ ہم تھے جنہوں نے اسے ان عزائم سے باز رکھا''…

''آپ نے آخر صلاح الدین ایوبی سے شکست کھائی جس نے آپ کو اس کی اطاعت قبول کرنے پر مجبور کیا۔ آپ اتنے مجبور ہوئے کہ اسے آپ نے ابن لاعون پر حملہ کرنے کے لیے فوج دے دی۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ آپ جیسا غیور جنگجو اپنی یہ توہین برداشت نہیں کرسکتا مگر آپ تنہا تھے۔ میں خود جنگ وجدل میں الجھا رہا، ورنہ آپ کی مدد کو پہنچتا۔ اب میں آپ کی طرف توجہ دینے کے قابل ہوگیا ہوں۔ آپ نہ بھولیں کہ صلاح الدین ایوبی نے آپ کو ایسی خومختاری دی ہے جس کا مطلب غلامی ہے۔ وہ آپ کو آہستہ آہستہ غلام بنا رہاہے۔ اس نے عزالدین کی مدد کے لیے آرمینیوں کو شکست دی اور اسے اپنے احساس کی زنجیروں میں جکڑ لیا ہے۔ تمام چھوٹے چھوٹے امراء اس کی اطاعت قبول کرچکے ہیں۔ اب اس کی نظر آپ کے علاوہ موصل اور حرن پر ہے''…

 ''ذرا غور کریں کہ وہ مصر سے ہمارے خلاف لڑنے کے لیے فوج لایا تھا لیکن اس نے تل خالد پر جاحملہ کیا اور آپ سے بھی فوج لے لی۔ اب وہ پھر مصر چلا گیا ہے۔ اس کے جانے کا جو مقصد ہے، وہ ہمارے جاسوس ہمیں بتا چکے ہیں۔ وہ بے بہا خزانہ لے کر گیا ہے جو وہ قاہرہ اپنے خزانے میں رکھ کر واپس آئے گا۔ اس نے آپ کو کیا دیا آپ کی فوج کو اس نے مال غنیمت میں کتنا حصہ دیا ہے؟ اس نے یروشلم کی طرف پیش قدمی کیوں نہیں کی؟ کیا آپ کو کسی نے بتایا ہے کہ آرمینیوں کی کتنی لڑکیاں وہ اپنے ساتھ لے گیا ہے؟''…

''ان سوالوں کو اپنے ذہن میں الٹ پلٹ کریں۔ آپ پر صلاح الدین ایوبی کے کردار اور اس کی نیت کی اصل حقیقت واضح ہوجائے گی۔ آپ کے ساتھ ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ ہم اس خطے میں امن وامان قائم کرنے آئے ہیں۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ سلطان ایوبی یہاں سے ہمیں بے دخل کرکے یورپ پر حملہ کرنے اور اپنی سلطنت کو وسعت دینے کی سوچ رہا ہے۔ آپ کو اور دوسرے امراء کو وہ اپنی تھیلی کے سکے سمجھتا ہے۔ اگر آپ نے اپنے دفاع کا انتظام نہ کیا تو آپ کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ ہم یہاں یورپ کے دفاع کے لیے لڑ رہے ہیں، اگر آپ میری بات سمجھ گئے ہیں تو مجھے جواب دیں۔ میں اپنے مشیر بھیجوں گا جو آپ کی مالی اور جنگی ضرورت کا جائزہ لے کر مجھے بتائیں گے۔ میں نے جو گھوڑے بھیجے ہیں، یہ تحفہ ہے۔ میں آپ کی فوج کے لیے ایسے سینکڑوں گھوڑے بھیج سکتا ہوں۔ یورپ سے ہم نے جدید ہتھیار منگوائے ہیں۔ وہ بھی آپ کو دئیے جائیں گے۔ آپ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ کیا ہوا معاہدہ نہ توڑیں، درپردہ معاہدہ توڑ دیں اور اپنے دفاع کی تیاری کریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں''۔

الملک الصالح کے نوجوان اعصاب پر یہودیوں کی اتنی حسین اور دلکش لڑکی نے پہلے ہی قبضہ کرلیا تھا۔ پیغام کے الفاظ جادو کی طرح اس کے دل میں اترتے گئے۔ اس نے ایلچی کے آرام اور خوراک کا ایسا انتظام کرنے کا حکم دیا جیسے بالڈون خود آگیا ہو۔ پھر اس نے اپنے آپ کو لڑکی کے حوالے کردیا۔ اس نے اس سے زیادہ خوبصورت لڑکیاں بھی دیکھی تھیں لیکن اس لڑکی کا جو انداز تھا اور اس کی جو مسکراہٹ تھی، اس نے اس کے حسن میں طلسماتی اثر پیدا کررکھا تھا۔ الصالح اندھا ہوگیا۔

رات کو لڑکی اس کی خواب گاہ میں آئی تو اس کے ہاتھ میں صراحی اور پیالے تھے۔ یہ بھی تحفہ تھا۔ لڑکی نے اسے بتایا کہ یہ فرانس کی شراب ہے جو صرف بادشاہوں کے لیے تیار کی جاتی ہے۔

''آپ کے حرم میں تو کچھ بھی نہیں''۔ لڑکی نے اسے کہا… ''کیا آپ ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ آپ کا حرم آباد ہو؟''

''میرے حرم کے لیے تم اکیلی کافی ہو''۔ الملک الصالح نے مخمور آواز میں کہا۔

''میں اپنے جیسی لڑکیوں سے آپ کا حرم بھردوں گی''۔ لڑکی نے شراب کا پیالہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا… ''کیا یہ صحیح ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی ایک ہی بیوی ہے اور وہ کسی کو حرم میں عورتیں رکھنے کی اجازت نہیں دیتا؟''

''ہاں!'' الصالح نے جواب دیا… ''یہ صحیح ہے۔ وہ شراب کی بھی اجازت نہیں دیتا''۔

''آپ کو معلوم نہیں کہ اس کا اپنا ایک خفیہ حرم ہے جس میں غیرمعمولی طور پر حسین لڑکیاں ہیں۔ ان میں مسلمان بھی ہیں، یہودی بھی اور عیسائی بھی ہیں''۔

فانون کی رنگین اور ہلکی ہلکی روشنی اور فرانس کی شراب کے نشے میں یہ لڑکی طلسم بن کر اس پر چھاتی چلی گئی اور ذرا سی دیر بعد وہ لڑکی کے ریشمی بالوں کی زنجیروں میں جکڑا گیا… گناہ کی رات کی کوکھ سے سحر نے جنم لیا تو الصالح نے لڑکی سے کہا… ''یہاں میری ایک بہن بھی ہے۔ تم اس کے سامنے نہ آنا۔وہ ابھی پسند نہیں کرتی کہ میں شادی کے بغیر کسی لڑکی کے قریب جائوں۔ میں کسی وقت اسے بتائوں گا کہ تم مسلمان ہو اور میرے ساتھ شادی کرنے آئی ہو''۔

''اپنی بہن کو آزاد کیوں نہیں کرتے؟'' لڑکی نے کہا… ''اسے مردوں میں اٹھنے بیٹھنے دیں، وہ شہزادی ہے۔ آپ بادشاہ ہیں۔ صلاح الدین ایوبی آپ کی یہ حیثیت ختم کررہا ہے۔ ہم آپ کی بہن کو الگ سلطنت دے کر سلطانہ بنا دیں گے''۔

الملک الصالح تصوروں میں بادشاہ بن گیا۔

٭ ٭ ٭

'کیا خبر لائے ہو؟'' بالڈون نے شراب کے نشے میں بدمست لہجے میں اپنے ایلچی سے پوچھا۔

''کیا میں کبھی ناکام بھی لوٹا ہوں؟'' ایلچی نے جواب دیا۔ اس نے الملک الصالح کے محل میں چار روز قیام کیا تھا اور بڑی لمبی مسافت طے کرکے ابھی ابھی واپس آیا تھا۔ اس نے کہا… ''مسلمانوں پر فوج کشی کرکے آپ اتنی جانیں ضائع کرتے اور اتنے زیادہ گھوڑے مرواتے ہیں۔ مسلمانوں کے حکمرانوں سے صرف ایک لڑکی ہتھیار ڈلوا سکتی ہے''۔

''صرف لڑکی نہیں''۔ بالڈون نے کہا… ''مسلمان کو اگر لڑکی کا صرف تصور دے دو تو وہ اپنے نیک وبد کو بھول 

کر اسی تصور کا ہوجاتا ہے… کہو، تم کیا کرکے آئے ہو؟''

''اس نے تحریری جواب نہیں دیا''۔ ایلچی نے کہا… ''کہتا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کے جاسوس اور چھاپہ مار ہر طرف گھومتے پھرتے رہتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ پیغام پکڑا جائے۔ اس نے آپ کی ہر بات مان لی ہے۔ وہ صلاح الدین ایوبی کا حامی نہیں البتہ گھبرایا ہوا تھا اور اپنے آپ کو ایوبی کے مقابلے میں تنہا سمجھتا تھا۔ آپ کے پیغام نے اسے بہت حوصلہ دیا ہے۔ اس نے کہا کہ آپ اپنے مشیر بھیج دیں لیکن عربی تاجروں کے لباس میں ہوں اور یہاں ہر کسی کو یہی بتائیں کہ وہ شاہی سطح پر تجارت کی بات چیت کرنے آئے ہیں''۔

''وہ کسی شک میں تو نہیں؟'' بالڈون نے پوچھا۔

''آپ نے اسے یہودیوں کا جو تحفہ بھیجا ہے، اس نے کسی شک کی گنجائش نہیں رہنے دی''۔ ایلچی نے جواب دیا… ''میں نے وہاں چار روز قیام کیا ہے۔ اس دوران میں اس کے سالاروں سے ملتا رہا ہوں اور اس کے دوسرے حاکموں سے بھی ملا ہوں۔ ان میں بہت سے ایسے ملے ہیں جو ایوبی کے حق میں ہیں۔ میں نے ان میں سے دو کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور انہیں وعدے دئیے ہیں۔ چوری چھپے انہیں تحفے بھی دئیے ہیں، وہاں صلاح الدین ایوبی کے جاسوس بھی موجود ہیں۔ اس لیے کسی بات کو مخفی رکھنا ممکن نہیں۔ تاہم الملک الصالح کو اپنے ہاتھ میں سمجھئے۔ میں نے لڑکی کو ان دو جرنیلوں سے متعارف کروایا ہے جنہیں میں نے ہاتھ میں لیا ہے۔ وہ اپنا کام کرتی رہے گی۔ آپ اپنے آدمی جلدی روانہ کردیں''۔

یہ ایلچی صرف ایلچی نہیں تھا۔ بتایا جاچکا ہے کہ انسانی نفسیات سے کھیلنے والا استاد تھا۔ اس نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی اپنے افسروں کو اور اپنی قوم کو نصیحت اور وعظ کرتا رہتا ہے کہ بادشاہی کے خواب، دولت اور عورت ایسی بدعتیں ہیں جو انسان کے ایمان کو ختم کردیتی ہیں۔ اسے معلوم نہیں کہ جب یہ تینوں بدعتیں کسی عالم فاضل کے سامنے آجائیں تو اس کے بھی ایمان کے پائوں اکھڑ جاتے ہیں۔ یہ انسانی کمزوریاں ہیں۔ان کے سامنے وعظ بے کار ہوجاتے ہیں''۔

بالڈون نے اسی وقت تین مشیر تیار کرلیے۔ تجارتی سامان سے لدے ہوئے بہت سے اونٹوں کا ایک قافلہ حلب میں الصالح کے محل سے ذرا ہی دور رکا۔ اس کے ساتھ کئی ایک آدمی تھے۔ ان میں سے تین آدمی جو عربی لباس میں تھے، محل کی طرف چل پڑے۔ دربانوں نے انہیں روک لیا۔ تاجر الملک الصالح سے ملنا چاہتے تھے۔ کہتے تھے کہ وہ ہیرے اور کچھ اور بیش قیمت سامان لائے ہیں جو بادشاہ خریدتے ہیں اور وہ حلب کے ساتھ تجارت کرنے کی بات چیت کریں گے۔ محافظوں کے کمانڈر ابن خطیب نے انہیں سر سے پائوں تک دیکھا۔ ان کی باتوں میں دلچسپی لے کر انہیں بے تکلفی سے بولنے کا موقع دیا۔ وہ ان کی آنکھوں کا سبز اور نیلا رنگ اور چہرے کی رنگت کو غور سے دیکھتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ تجارت کی بات چیت براہ راست بادشاہ کے ساتھ کبھی بھی نہیں ہوئی۔ وہ انہیں الگ لے گیا۔

''آپ اپنا اصل مقصد بتائیں''۔ ابن خطیب نے پوچھا۔

''ہم اپنا مقصد بتا چکے ہیں''۔

''یروشلم سے آئے ہ


و یا عکرہ سے؟''۔ ابن خطیب نے پوچھا۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں