داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 114 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 114

: صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔114تصادم روح بدروح کا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

یہ آوازیں تبریز کے کانوں تک پہنچیں۔ یہ انتظام اس طرح ہوا تھا کہ یہودی تاجر ایک بار پھر بالڈون سے ملنے گیا تھا۔ اسے بالڈون مل گیا تھا۔ یہودی نے اسے بتایا کہ حمص کے مسلمان کیا کررہے ہیں اور وہ کس طرح صلیبی فوج کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ بالڈون کا یہ من پسند شکار تھا۔ اس نے یہودی کو بتایا کہ وہ کسی رات چپکے سے حمص پر حملہ کرائے گا۔ اس نے یہودی سے یہ بھی کہا کہ عیسائی اور یہودی اس رات حملے سے پہلے قصبے سے نکلیں، اگر وہ دن کے دوران نکلے تو مسلمانوں کو شک ہوگا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔ یہودی نے واپس آکر جب اپنے آدمیوں کو یہ سکیم بتائی تو ویرا نے کہا کہ وہ تبریز اور اس کے کنبے کو بچانا چاہتی ہے۔

''اسے ہم صلیب سے غداری کہیں گے''۔ بوڑھے عیسائی نے کہا۔

''سانپ کے بچوں کو بچانا کہاں کی عقل مندی ہے؟'' یہودی تاجر نے کہا۔

''یہاں مسلمانوں کے دو گھر ایسے ہیں جن کے ساتھ میرے دلی تعلقات ہیں''۔ وہاں کے رہنے والے ایک عیسائی نے کہا۔ ''لیکن میں انہیں بچانے کی نہیں سوچ رہا، ہمیں مسلمان کا خون چاہیے۔ مسلمان میرا ذاتی دوست ہوسکتا ہے میرے مذہب کا وہ دشمن ہی ہوگا''۔

''میں اسے زندہ رکھنا چاہتی ہوں جس نے مجھے موت کے منہ سے نکالا تھا''۔ ویرا نے غصے سے کہا۔

''ہم نے اسے اتنا انعام پیش کیا تھا جو اس نے کبھی خواب میں نہیں دیکھا ہوگا''۔ یہودی تاجر نے کہا۔ ''اس نے کہا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔ ہم نے اسے انعام پیش کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے۔ اب وہ ہمارا دشمن اور ہم اس کے دشمن ہیں''۔

''میں اسے دشمن نہیں سمجھتی''۔ ویرا نے جھنجھلا کر کہا… ''یہ صرف ایک مرد ملا ہے جس نے میرے جسم پر ذرہ بھر توجہ نہیں دی۔ تم سب گناہ گار ہو، تم میں کون ہے جس کی نیت میرے حق میں صاف ہے۔ میری آنکھوں میں اپنے چہرے دیکھو''۔

''تم صرف تبریز کو بچالو''۔ یہودی تاجر نے کہا… ''لیکن اسے کیسے بچائو گی؟ اگر تم نے اسے بتایا کہ کیا ہونے والا ہے تو وہ ساری آبادی کو نہیں بتا دے گا؟ اور اگر تم اس کے پورے کنبے کو گھر سے نکل جانے کو کہو گی تو وہ وجہ نہیں پوچھیں گے؟ تم کیا بتائو گی؟ تم ایک مسلمان کو نیکی کا صلہ دیتے دیتے، ان تمام مسلمانوں کو چوکنا کردو گی جو ہمارے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں''۔

''مجھے اناڑی نہ سمجھو''… ویرا نے کہا… ''میں صلیب کو دھوکہ نہیں دوںگی''۔

حملے کی شام ویرا تبریز کے گھر گئی اور اسے باہر لے گئی۔ اس کے آدمیوں کو معلوم تھا کہ رات کو وہ اکثر کہاں چلی جاتی ہے۔ اس نے انہیں بتا رکھا تھا کہ تبریز کو محبت کا دھوکہ دے کر وہ اس سے بھید لیتی ہے۔ وہ اسے باہر لے گئی تو قصبے سے عیسائی اور یہودی دبے پائوں نکلنے لگے۔ انہوں نے ویرا کی تلاش میں ایک آدمی بھیجا جو اسے پکارتا رہا، لیکن ویرا تبریز کو دور ہی دور لے جاتی رہی۔ وہ اسے اتنی دور لے جانا چاہتی تھی جہاں سے اسے قصبے کا شور نہ سنائی دے۔ ویرا کی تلاش میں جو آدمی گیا تھا وہ مایوس ہوکر واپس چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

قصبے پر نیند کا غلبہ طاری ہوچکا تھا۔ صلیبی فوج کے پیادے دبے پائوں قریب آگئے تھے۔ ان کی تعداد قصبے کی آبادی سے کئی گنا زیادہ تھی۔ پیادہ فوج بالکل قریب آگئی تو عقب سے گھوڑ سوار بھی آگئے۔ مسلمان گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ فوج نے طغیانی کی طرح یلغار کردی۔ فوجیوں نے مشعلیں جلا لی تھیں۔ دو تین جھونپڑوں کو آگ لگا دی گئی تاکہ روشنی ہوجائے۔ صلیبی سپاہی دیواریں پھلانگ کر گھروں میں داخل ہوئے۔ زیادہ تر مسلمان جاگنے سے پہلے ہی مارے گئے۔ جو بروقت جاگ اٹھے اور ہتھیار اٹھا سکے، انہوں نے مقابلہ کیا۔ بعض لڑکیوں نے خودکشی کرلی۔ صلیبی گھوڑ سواروں نے قصبے کو گھیر رکھا تھا۔ کسی کو باہر کو بھاگتا دیکھتے تھے تو اسے برچھی یا تلوار کا شکار کرلیتے تھے۔

یہ تھی وہ چیخ وپکار اور شور جو چٹانوں میں بیٹھے ہوئے تبریز نے سنا تھا۔ اس کا گھر تباہ ہوچکا تھا۔ بچہ بچہ کٹ گیا تھا۔ شاہ بالڈون نے مسلمانوں کی اس بستی سے بھی اپنی شکست کا انتقام لے لیا تھا۔

''تم آج مجھے اتنی دور کیوں لے آئی ہو؟'' تبریز نے پوچھا اور کہا… ''تم آج بولتی کیوں نہیں؟ گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟''

''اس لیے کہ تم میرا ساتھ نہیں دو گے''۔ ویرا بہت ہوشیار لڑکی تھی۔ کہنے لگی… ''میں تمہیں کہیں اور لے جارہی ہوں ''… اسے خاموش دیکھ کر بولی۔ ''کل واپس آجائیں گے''۔

''کہاں؟''

: ''کیا تمہیں مجھ پر بھروسہ نہیں؟'' ویرا نے اسے بازوئوں میں لے کر اس کا چہرہ اتنا قریب کرلیا کہ اس کے بکھرے ہوئے ریشمی بال تبریز کے گالوں کو چھونے لگے۔ یہ وہی بال تھے، جنہیں گف میں ڈھلا ہوا دیکھ کر تبریز نے اپنی ذات میں عجیب سا لرزہ محسوس کیا تھا۔ اب تو ویرا کی محبت اس کے دل میں دور تک اتر گئی تھی۔ اس پر خمار سا طاری ہوگیا… ''ہم کب تک چوروں کی طرح ملتے رہیں گے؟ میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو مجھ سے ابھی یہ نہ پوچھو کہ میں تمہیں کہاں لے جارہی ہوں۔ یہ سمجھ لو کہ ہم وہاں چلیں گے جہاں ہمارے درمیان مذہب کی دیواریں حائل نہیں ہوں گی تم مرد ہو، مجھے دیکھو، کمزور سی عورت ہوکر تمہاری محبت کی خاطر کتنا بڑا خطرہ مول لے رہی ہوں''۔

کمزور دراصل تبریز تھا۔ ویرا اس کی عقل پر غالب آگئی تھی۔ وہ اس کوشش میں تھی کہ تبریز اپنے قصبے میں واپس نہ جائے۔ وہ جانتی تھی کہ وہاں اسے اپنے گھر کے جلے ہوئے کھنڈر اور گھر والوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں گی، پھر وہ پاگل ہوجائے گا۔ ہوسکتا تھا ویرا کو کسی شک کی بنا پر قتل ہی کردے۔ ویرا کے دماغ میں کچھ اور آگیا تھا۔ اس نے محبت کی خاطر اور طغیانی سے بچانے اور اسے باعزت حمص لانے کے صلے میں صلیبیوں کے ہاتھوں قتل ہونے سے بچا لیا تھا ور اب اپنے گھر کی بربادی دیکھنے کی اذیت سے بچانا چاہتی تھی۔ اس نے تبریز کو اٹھا لیا اور چل پڑی۔ تبریز اس کے ساتھ یوں جارہا تھا جیسے ہیپناٹائز کرلیا گیا ہو۔

صبح طلوع ہوئی تو حمص جلے ہوئے کھنڈروں میں تبدیل ہوچکا تھا، وہاں کوئی مسلمان زندہ نہیں رہا تھا۔ بڑی مسجد کے مینار کھڑے تھے۔ خطیب اور اس کے ساتھی مقابلے کے بغیر شہید ہوگئے تھے۔ اس وقت ویرا تبریز کو ساتھ لیے صلیبی فوج کی خیمہ گاہ تک پہنچ چکی تھی۔ تبریز کا دماغ بیدار ہوگیا۔ اس نے ویرا سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا لینے آئی ہے۔ ویرا نے اس کے وسوسے اپنی زبان کے کمان سے رفع کردئیے۔ اسے ایک طرف کھڑا کرکے اس نے ایک کمان دار سے بات کی۔ کمان دار نے اسے کوئی راستہ سمجھایا۔ ویرا تبریز کو ساتھ لیے ادھر چلی گئی۔

وہ جہاں پہنچے وہ شاہ بالڈون کی ذاتی خیمہ گاہ تھی جس پر محل کا گمان ہوتا تھا۔ محافظوں نے بہت کچھ پوچھ کر ویرا کو بالڈون کے خیمے میں جانے دیا۔ کچھ دیر بعد تبریز کو اندر بلایاگیا۔ بالڈون نے اسے سر سے پائوں تک دیکھا اور کہا… ''یہ لڑکی تمہیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتی ہے۔ اس نے ایسی خواہش کا اظہار کیا ہے جسے ہم رد نہیں کرسکتے۔ تمہیں کسی قسم کا شک یا ڈر نہیں ہونا چاہیے''۔

''میں اپنا مذہب تبدیل نہیں کروں گا''۔ تبریز نے کہا۔

''تمہیں مذہب تبدیل کرنے کو کس نے کہا ہے''۔ ویرا نے کہا۔

''پھر کیا ہوگا؟'' تبریز نے پوچھا۔ ''میں یہاں رہ کر کیا کروں گا؟ مجھے واپس جانا ہے''۔

''تبریز!'' ویرا نے اسے اپنی طرف متوجہ کرکے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں اور کہا… ''میں نے تمہیں کیا کہا تھا۔ مجھے بھی وہیں جانا ہے جہاں تمہیں جانا ہے''۔

تبریز کچھ بھی نہ سمجھ سکا۔

٭ ٭ ٭

 عزالدین کا ایلچی سلطان صلاح الدین ایوبی کا جواب لے کر کبھی کا عزالدین کے پاس پہنچ چکا تھا۔ سلطان ایوبی کی ہدایت کے مطابق عزالدین نے ابن لاعون سے ایک ملاقات کرلی تھی اور اسے یقین دلا دیا تھا کہ وہ اس کے ساتھ دوستی کرلے گا اور سلطان ایوبی کو دھوکہ دے گا۔ اس نے ابن لاعون کو ایسے سبز باغ دکھائے تھے کہ وہ پوری طرح اس کے جھانسے میں آگیا تھا۔ اس کے بعد ابن لاعون اسے ملنے قارا حصار آیا تھا۔ قاراحصار زرخیز اور سرسبز علاقہ تھا جسے دیکھ کر ابن لاعون کے چہرے پر رونق آگئی تھی۔

اس سے چند ہی روز بعد سلطان ایوبی اپنی فوج کے ساتھ قارا حصار کے قریب جاکر خیمہ زن ہوا۔ اس کی فوج تھکی ہوئی تھی لیکن وہ آرام میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ خطرہ بھی تھا کہ حملے میں تاخیر ہوگئی تو ابن لاعون کو فوج آمد کی خبر مل جائے گی۔ اسے توقع تھی کہ ابن لاعون کے ساتھ بڑا سخت مقابلہ ہوگا۔ اس خطرے کے پیش نظر اس نے حلب کی فوج کو بھی بلا لیا تھا۔ یہ اس معاہدے کے تحت تھا جو سلطان ایوبی نے الملک الصالح کو شکست دے کر اس کے ساتھ کیا تھا۔

آدھی رات سے کچھ دیر بعد سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو یلغار کے لیے کوچ کا حکم دیا۔ انٹیلی جنس رپورٹوں سے معلوم ہوگیا تھا کہ آرمینیوں کی چوکیاں کہاں کہاں ہیں اور ان میں کتنی کتنی نفری ہے۔ نفری جتنی بھی تھی وہ بے خبر پڑی تھی۔ عزالدین کی طرف سے تو انہیں حملے کا خطرہ ہی نہیں تھا اور سلطان ایوبی کا وہاں اتنی خاموشی سے پہنچ جانا، ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا۔ سلطان ایوبی کی یلغار سہ طرفی تھی۔ ہر حملہ آور کالم کے ساتھ عزالدین کے مہیا کیے ہوئے گائیڈ تھے۔ سلطان اس کالم کے ساتھ تھا جس نے نہرالاسود (دریائے سیاہ) کی طرف سے حملہ کیا تھا۔

یہ دریا ابن لاعون کے ملک کی سرحد تھا۔ اس پر کشتیوں کا پل بنا ہوا تھا۔ دریا کے کنارے آرمینیوں کا قلعہ مخاضتہ الاحزان تھا۔ ابن لاعون اسی قلعے میں مقیم تھا۔ اسے سر کرنے سے تمام تر علاقہ فتح ہوسکتا تھا۔ اسی لیے سلطان ایوبی اپنی فوج کے اس کالم کے ساتھ رہا۔ اس کی قیادت سلطان ایوبی کا بھتیجا فرخ شاہ کررہا تھا جو غیرمعمولی طور پر بہادر اور حرب وضرت کا ماہر تھا۔ دوسرے دو کالموں نے چوکیوں پر حملے کرکے دشمن کی فوج کو ہلاک یا قید کرلیا اور چوکیوں کو آگ لگا دی۔ دہشت پھیلانے کے لیے بعض بستیوں کو بھی آگ لگا دی گئی۔

ابن لاعون کی آنکھ اس وقت کھلی جب سلطان ایوبی کے جانباز کمندیں پھینک کر قلعے کی دیواروں پر چڑھ گئے تھے اور منجنیقوں سے وزنی پتھر پھینک کر قلعے کا دروازے توڑا جاچکا تھا۔ قلعے میں فوج سوئی ہوئی تھی۔ ابن لاعون دوڑ کر قلعے کے ایک مینار پر گیا۔ دور اسے آگ کے شعلے نظر آئے۔ وہ ابھی سوچ بھی نہ پایا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اور وہ کیا کرے کہ سلطان ایوبی کا ایک جانباز جیش اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس کے محافظوں نے مقابلہ خوب کیا لیکن مارے گئے اور ابن لاعون کو قید کرلیا گیا۔

صبح طلوع ہورہی تھی جب ابن لاعون کو سلطان ایوبی کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ سلطان ایوبی حکم دے چکا تھا کہ قلعے کو مسمار کردیا جائے۔ اس کی فوج اس کام کے لیے کافی نہیں تھی۔ عزالدین بھی سلطان ایوبی کے ساتھ تھا۔ سلطان ایوبی کے کہنے پر ابن لاعون کے ہر طرف قاصد اس حکم کے ساتھ دوڑا دئیے کہ تمام فوج ہتھیارڈ ال کر قلعے کے قریب آجائے… فوج کے آنے تک سلطان ایوبی نے عزالدین کے کہنے پر ابن لاعون کے ساتھ صلح کی شرائط طے کرلیں۔ ان میں ایک یہ تھی کہ ابن لاعون اپنی آدھی فوج سلطان ایوبی کے حوالے کردے۔ دوسری یہ کہ ابن لاعون کی فوج کی حد مقرر کردی گئی۔ تیسری یہ کہ ابن لاعون سالانہ جزیہ دیتا رہے… اور ایسی چند شرائط تھیں جنہوں نے ابن لاعون کو برائے نام حکمران رہنے دیا۔

جب ابن لاعون کی فوج ہتھیار ڈال کر قلعے کے قریب اکٹھی ہوگئی تو سلطان ایوبی نے اس فوج کو حکم دیا کہ قلعے کو اس طرح مسمار کردے کہ اس کا یہاں نشان بھی نہ رہے۔ شکست خوردہ فوج نے اسی وقت قلعہ مسمار کرنا شروع کردیا اور سلطان ایوبی اپنی فوج کو مصافہ نام کے ایک گائوں کے قریب لے گیا۔ اس نے حلب کی فوج واپس بھیج دی اور اپنی فوج کو آرام کی لمبی مہلت دی۔ ابن لاعون کی جو آدھی فوج اس نے لے لی تھی، وہ عزالدین کو دے دی مگر سلطان ایوبی کو معلوم نہ تھا کہ اس کی فوج کی خیمہ گاہ جو سلسلہ کوہستان کے دامن میں ہے، اس کے اندر اور اس کی بلندیوں پر بالڈون کی فوج آچکی ہے اور وہ عقاب کی طرح اس پر جھپٹنے کو پرتول رہی ہے۔ سلطان ایوبی نے اس علاقے میں دیکھ بھال کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی کیونکہ اسے کسی فوج کا خطرہ نہیں تھا۔

: تقریباً تمام مورخوں کی تحریروں سے حیرت کا اظہار ہوتا ہے کہ سلطان ایوبی نے عزالدین کے پیغام پر کیوں اپنا اتنا بڑا پلان تبدیل کرکے ابن لاعون جیسے غیراہم حکمران پر فوج کشی کی جس میں اس نے بے شک فتح حاصل کی لیکن جو وقت اور جو فوج ضائع ہوئی، اس کی قیمت زیادہ تھی۔ ارنول نام کا مورخ لکھتا ہے کہ سلطان ایوبی اردگرد کے خطروں کو کم کرنا چاہتا تھا۔ اس وقت کے وقائع نگار جن میں اسد الاسدی قابل ذکر ہے، لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی عزالدین کا پیغام پڑھ کر جذبات کے غلبے میں آگیا تھا۔ بہرحال جنگ کے ماہرین نے سلطان ایوبی کے اس حملے کو سراہا نہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کو معلوم تھا کہ قریب ہی کہیں شاہ بالڈون کی فوج ہے جو سلطان ایوبی پر اس وقت حملہ کرسکتی تھی جب وہ ایک ہی رات میں حاصل کی ہوئی فتح کے مابعد کے انتظامات میں مصروف تھا۔ مورخ اس پر بھی حیران ہیں کہ بالڈون نے اپنی فوج کو اس وقت پہاڑی علاقے میں جنگی ترتیب میں پھیلا دیا تھا، جب سلطان ایوبی کی فوج پہاڑیوں کے دامن میں خیمے گاڑ رہی تھی۔ شاہ بالڈون نے حملے میں تاخیر کی۔ کسی بھی مورخ کو معلوم نہیں کہ یہ اس کی شاہانہ حماقت تھی یا کوئی مجبوری، اگر وہ اسی وقت حملہ کرتا تو سلطان ایوبی کی حالت وہی ہوتی جو رملہ میں ہوئی تھی۔ شکست اور پسپائی!

سلطان ایوبی کو وہاں خیمہ زن ہونے کے بعد بھی پتہ نہ چلا کہ شاہ بالڈون اس کے سرپر بیٹھا دانت تیز کررہا ہے۔ بلندیوں سے بالڈون کے دیکھ بھال والے آدمی سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ کو دیکھتے رہتے اور بالڈون کو بتاتے رہتے تھے۔ یہ غالباً پہلا موقع تھا کہ سلطان ایوبی کا جاسوسی اور دیکھ بھال کا نظام ڈھیلا پڑا گیا تھا۔

تبریز بھی اس فوج کے ساتھ تھا۔ ویرا نے ابھی تک اسے بتایا نہیں تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ کیوں لے آئی ہے۔ وہ شاید اسے عیسائی بنا کر جاسوس بنانا چاہتی تھی۔ اس میں دونوں باتیں تھیں۔ صلیب کی وفاداری بھی اور تبریز کی محبت بھی۔ شاہ بالڈون کو تبریز کے ساتھ کوئی دلچسپی تھی یا نہیں اسے ویرا کے ساتھ گہری دلچسپی تھی کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی۔ ایک روزویرا نے بالڈون سے کہا تھا کہ وہ اسے اس کے ہیڈکواٹر میں بھیج دے جو عکرہ میں تھا۔ بالڈون نے اسے روک لیا تھا۔

یہ اس جگہ کی باتیں ہیں جو حمص کے قریب تھی۔ ایک روز بالڈون کو جاسوسوں نے اطلاع دی کہ سلطان ایوبی کی فوج تل خالد کو جارہی ہے۔ بالڈون کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ سلطان ایوبی ابن لاعون پر حملہ کرنے جارہا ہے۔ وہ اس علاقے سے واقف تھا۔ اس نے فوراً اپنی فوج کو مصافہ کی پہاڑیوں کی طرف کوچ کرنے کا حکم دے دیا۔ اس کا پلان یہ تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو ان پہاڑیوں میں گھسیٹ کر لڑائے گا۔ اس پلان کے مطابق اس نے پہاڑیوں کی موزوں بلندیوں اور ڈھکی چھپی جگہوں میں اپنی فوج کو پھیلا دیا۔ یہ بہت بڑے پیمانے کی گھات تھی۔

اس نے جب حمص کے قریب کی خیمہ گاہ سے کوچ کا حکم دیا تھا ویرا نے اسے کہا کہ وہ اس کے پاس پناہ لینے آئی تھی۔ تبریز کے متعلق اس نے بالڈون کو ساری کہانی سنا کر بتایا تھا کہ وہ اسے کیوں ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہے۔ اب جبکہ بالڈون لڑنے کے لیے جارہا تھا، ویرا ور تبریز کا اس کے ساتھ رہنے کا کوئی مقصد نہیں تھا مگر بالڈون نے ویرا کو نہ جانے دیا۔

 ''میرے ہاں لڑکیوں کی کوئی کمی نہیں''۔ بالڈون نے کہا… ''مگر تم پہلی لڑکی ہو جس نے میرے دل پر قبضہ کرلیا ہے۔ تم میرے پاس ہوتی ہو تو مجھے روحانی سکون محسوس ہوتا ہے۔ تم کچھ عرصہ اور میرے ساتھ رہو''۔

ویرا اپنے بادشاہوں کو اچھی طرح جانتی تھی۔ بالڈون کی نیت کو سمجھنا، اس کے لیے مشکل نہیں تھا۔ اس نے صاف الفاظ میں اسے کہہ دیا… ''اگر بات روحانی سکون کی ہے تو مجھے یہ سکون اس مسلمان سے ملتا ہے، جس کا سارا کنبہ قتل کراکے میں اسے ساتھ ساتھ لیے پھرتی ہوں۔ میں بتا نہیں سکتی کہ میں نے اسے اس کے کنبے کے قتل سے بے خبر رکھنے کا جو گناہ کیا ہے ، اس کا کفارہ میرا ضمیر مجھ سے کس طرح ادا کرائے گا''۔

''تمہاری بھی روح ہے؟'' بالڈون نے طنزیہ کہا… ''تمہارا ضمیر ہے؟ راتیں مسلمان امراء کے ساتھ گزارنے والی گناہ کا کفارہ ادا کرنے کی بھی سوچ سکتی ہے؟''

''آپ کے سامنے میں صرف جسم ہوں، دلکش جسم''… ویرا نے کہا۔ ''اور جب میں تبریز کے پاس ہوتی ہوں تو روح ہوتی ہوں، پیار کی پیاسی روح''۔

بالڈون بادشاہ تھا۔ اس نے بادشاہوں کی طرح حکم دیا… ''تم میرے ساتھ رہوگی''… اس نے دربان کو بلا کر کہا… ''اس مسلمان کے پائوں میں زنجیر ڈال دو جو ہماری خیمہ گاہ میں رہتا ہے''۔

اور جب بالڈون مصافہ کی پہاڑیوں میں پہنچا، تب تبریز زنجیروں میں بندھا ہوا قیدی تھا ور ویرا ایسی قیدی جسے زنجیر نہیں ڈالی گئی تھی، وہ محافظوں کے پہرے میں تھی۔ یہاں آکر بالڈون اپنی فوج کے ڈیپلائے میں مصروف ہوگیا۔ فارغ ہوا تو اس نے ویرا کو تڑپانا شروع کردیا۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ تبریز کو اپنے سامنے بلا لیتا۔ ویرا کو سامنے کھڑا کرلیتا اور حکم دیتا کہ تبریز کو کوڑے مارے جائیں۔ کوڑے تبریز کی پیٹھ پر پڑتے تو چیخیں ویرا کی نکل جاتی تھیں۔ بالڈون ویرا سے کہتا… ''تم اپنے آپ کو مجھ سے بچا نہیں سکتیں، میں تمہیں اس زبان درازی کی سزا دے رہا ہوں جو تم نے میرے ساتھ کی تھی''۔

تبریز تو جیسے گونگا اور بہرہ ہوگیا تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اسے یقین نہیں آتا تھا کہ اسے یہ سزا ویرا دلا رہی ہے۔ ویرا کی چیخوں اور آہ زاری سے وہ سمجھ گیا کہ ویرا بھی مظلوم ہے۔ تبریز برداشت کرتا مگر ایک روز ویرا کی برداشت ٹوٹ گئی۔ وہ بالڈون کے پاس چلی گئی۔ اس کے پائوں پکڑ کر معافی مانگی اور کہا کہ جب تک کہیں گے اور جس طرح کہیں گے، آپ کے ساتھ رہوں گی۔ تبریز کو چھوڑ دیں۔ بالڈون کے حکم سے تبریز کی زنجیریں کھول دی گئیں اور اس کی مرہم پٹی کا انتظام کردیا گیا۔ ویرا شاہ بالڈون کی تنہائی کی رونق بن گئی۔

چند دنوں بعد بالڈون نے رات شراب اورویرا کے حسن سے بدمست ہوکر اسے کہا… ''اگر میں صلاح الدین ایوبی کو تبریز کی طرح زنجیروں میں باندھ کر تمہارے سامنے کھڑا کردوں تو مان جائوں گی کہ میں اتنا بوڑھا نہیں جتنا تم مجھے سمجھتی ہو؟''

''میں صلاح الدین ایوبی سے کہوں گی کہ میں ملکہ بالڈون ہوں''… ویرا نے کہا… ''اپنی تلوار میرے قدموں میں رکھ دو''۔

''دو روز بعد میں تمہیں یہ کرکے دکھادوں گا، جو میں نے کہا ہے''… بالڈون نے کہا۔

''ممکن نظر نہیں آتا''… ویرا نے کہا۔

''تم نے دیکھا نہیں کہ صلاح الدین ایوبی نے میرے قدموں میں پڑائو ڈال رکھا ہے؟''… بالڈون نے کہا… ''پرسوںصبح کی تاریکی میں ہم اس پر حملہ کریں گے۔ پیشتر اس کے کہ اسے معلوم ہو کہ یہ کیا ہوا ہے، وہ میرا قیدی ہوگا۔ اسے میری موجودگی کا علم نہیں''۔

٭ ٭ ٭

: تبریز آزاد تھا۔ اس کے متعلق بالڈون نے کوئی فیصلہ نہیں کیا تھا کہ وہ چلا جائے، رہے یا کیا کرے۔ وہ شاہی مہمان بنا ہوا تھا۔ صبح طلوع ہوئی تو ویرا تبریز کے خیمے میں گئی۔ تبریز بے تابی سے اسے ملا اور اس پر برسا۔

''زیادہ باتوں کا وقت نہیں''… ویرا نے اسے کہا… ''میں آج تمہارے احسان کا صلہ اور تمہاری محبت کا جواب دینا چاہتی ہوں۔ میں جو کہتی ہوں وہ کرنا۔ مجھ سے کچھ نہ پوچھنا۔ میں نے بہت گناہ کیے ہیں۔ تمہارا حمص تباہ ہوچکا ہے۔ وہاں نہ جانا، وہاں کھنڈر ہوں گے اور تمہیں وہاں اپنے گھروالوں کی ہڈیاں ملیں گی''… اس نے تبریز کو اس تباہی کی اور تبریز کو بچانے کی تفصیل سنا کر کہا… ''تمہیں بالڈون کی فوج سے انتقام لینا ہے۔ آج رات اس طرح پہاڑی علاقے سے نکل جائو کہ تمہیں کوئی دیکھ نہ سکے۔ صلاح الدین ایوبی کے پاس جائو اور اسے بتائو کہ صلیبی فوج تمہارے سرپربیٹھی ہے اور پرسوں تم پر حملہ کرے گی''… ویرا نے اسے بالڈون کے حملے کا سارا پلان بتا دیا اور کہا… ''اب میری طرف نہ دیکھو، ورنہ یہاں سے ہل نہیں سکو گے۔ میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہماری منزلیں جدا جدا ہیں۔ آج ہم دونوں نے اپنی اپنی منزل پالی ہے''۔

اگر ویرااسے حمص کی تباہی اور قتل عام کی کہانی نہ سناتی تو تبریز وہاں سے اتنی جلدی نہ چلتا۔ وہ آنکھوں میں آنسو لے کر ویرا سے جدا ہوا… شام تاریک ہوتے ہی وہ چپکے سے نکلا اور بچتا بچاتا نکلا آیا۔ سلطان ایوبی کی فوج کی خیمہ گاہ میں آیا اور کہا کہ وہ سلطان کے پاس جانا چاہتا ہے۔ اسے وہاں پہنچا دیا گیا۔ سلطان ایوبی نے اس کی ساری داستان تحمل سے سنی اور اس سے بالڈون کی فوج اور اس کے پلان کے متعلق پوری اطلاع لی۔ اس نے اسی وقت اپنے سالاروں کو بلایا اور ضروری احکام دئیے۔

شاہ بالڈون نے تیسری رات کے آخری پہر سلطان ایوبی کی خیمہ گاہ پر حملہ کیا مگر وہ صرف خیمے تھے، فوج نہیں تھی۔ اچانک فضا میں فلیتے والے تیروں کے شرارے اڑے اور خیموں پر گرے۔ خیمے جن کے اندر خشک گھاس اور اس پر آتش گیر سیال چھڑکا ہوا تھا۔ مہیب شعلے بن گئے۔ بالڈون نے یہ حالت دیکھی تو اس نے اپنے مزید دستوں کو حملے کے لیے بھیجا۔ ان پر دائیں اور بائیں سے تیروں کی بوچھاڑیں پڑیں۔ صبح ہوگئی، بالڈون کی اس فوج پر جو وادیوں میں چھپی ہوئی تھی، حملہ ہوگیا۔ تب بالڈون کو احساس ہوا کہ اس نے سلطان ایوبی کو بے خبری میں نہیں لیا بلکہ وہ خود سلطان ایوبی کی گھات میں آگیا ہے۔

بالڈون ایک بلنڈی پر جاکھڑا ہوا اور اپنی فوج کا حشر دیکھنے لگا۔ عقب سے اس پر تیر آئے مگر وہ اس کے دو محافظوں کو لگے۔ وہ بھاگ کر نیچے اترا تو آگے سے سلطان ایوبی کے سپاہی آگئے۔ بالڈون ایک تنگ سے راستے سے نکل بھاگا۔

اکتوبر ١١٧٩ء (٥٧٥ ہجری) کے اس معرکے میں بالڈون قیدی ہوتے ہوتے بچا۔ سلطان ایوبی نے رملہ کی شکست کا انتقام لے لیا جس سے اس کی فوج کا حوصلہ بلند اور خوداعتمادی بحال ہوگئی… اور ویرا اور تبریز تاریخ کی تاریکیوں میں روپوش ہوگئے۔

جاری ھے ،


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں