داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 113 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 113

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔113تصادم روح بدروح کا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

''یا تم بے حس اور مردہ انسان ہو''۔

''یہ مجھے تمہاری فوج کے سامنے ثابت کرنا ہے کہ میں بے حس اور مردہ نہیں۔ میرے دل میں تمہارے خلاف کوئی دشمنی نہیں۔ میں تمہارے ان بادشاہوں کا دشمن ہوں جو میرے وطن پر قبضہ کرنے آئے ہیں اور جو ہمارے قبلہ اول پر قابض ہوچکے ہیں''۔

''تمہیں غلط باتیں بتا کر بھڑکایا جارہا ہے''… ویرا نے کہا… ''تم کچھ نہ جاننے والے دیہاتی ہو، جسے تم قبلہ اول کہتے ہو، وہ دراصل یہودیوں کا معبد ہے۔ وہ ہیکل سلیمانی ہے۔ صلاح الدین ایوبی اپنی سلطنت کو بہت دورتک پھیلانا چاہتا ہے۔ تم جیسے سیدھے سادے مسلمانوں کے مذہب جذبات کو بھڑکانے کے لیے وہ کہہ رہا ہے کہ وہ قبلہ اول ہے اور وہ مسجد ہے''۔

''ہم اپنے خطیب کے سوا کسی کی بات نہیں سنا کرتے''… تبریز نے کہا… ''تم سوجائو، میں تمہاری کوئی بات نہیں سنوں گا''۔

''مجھے نیند نہیں آئے گی''… ویرا نے کہا… ''میں تم سے ڈرتی ہوں، باتیں کرتے رہو… تمہارا خطیب حمص کا رہنے والا ہے یا کہیں باہر سے آیا ہے''۔

''حمص کا رہنے والا ہے''… تبریز نے جواب دیا اور اپنا کرتہ پہن کر لیٹ گیا۔

ویرا کو جاسوسی اور کردار کشی کی ٹریننگ ملی ہوئی تھی۔ دمشق میں اسے اسی مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا اور اب اسی مقصد کے لیے اس حمص لے جایا جارہا تھا۔ اس نے حمص کے خطیب اور وہاں کے مسلمانوں کے متعلق تبریز سے معلومات لینے کے لیے بہت باتیں کیں لیکن تبریز نے کوئی دلچسپی نہ لی اور بے رخی کا اظہار کرتا رہا۔ ویرا کا جسم ٹوٹا ہوا تھا۔ وہ اس کوشش میں تھی کہ اسے نیند نہ آئے مگر اس کی آنکھ لگ گئی۔

٭ ٭ ٭

ویرا کی آنکھ کھلی تو وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ باہر صبح کا دھندلکا تھا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا، تبریز سجدے میں پڑا تھا۔ وہ سجدے سے اٹھا، پھر سجدہ کیا اور کھڑا ہوگیا۔ وہ صبح کی نماز پڑھ رہا تھا۔ ویرا نے اپنے لباس کا جائزہ لیا۔ اسے رات نیند نے نہ سونے کے ارادے کے باوجود دبوچ لیا تھا۔ آنکھ کھلی تو وہ تبریز سے ڈر گئی لیکن وہ جس حالت میں سوئی تھی، اسی حالت میں جاگی اور اس نے تبریز کو خدا کے حضور سجدے میں پڑے دیکھا۔ اسے وہ خواب سمجھنے لگی۔ مسلمان کے متعلق اس کی رائے یہ تھی کہ وحشی قوم ہے لیکن تبریز جیسا تنومند جوان اس کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہا تھا۔ جس لڑکی نے نازوانداز سے سرکردہ مسلمانوں کو اپنے جال میں پھانس لیا تھا، اس کے لیے تبریز خواب کی دنیا کا ہی آدمی ہوسکتا تھا۔

ویرا پاک دامن نہیں تھی۔ بچپن سے اسے ابلیسیت کی تربیت دی گئی تھی۔ اس کے حسن اور جسم کی کشش کو چادو اثر بنانے کا خاص انتظام کیا گیا تھا۔ جوان ہونے تک بدی اس کی فطرت میں شامل ہوچکی تھی مگر انسانی فطرت کا یہ خاصہ ہے کہ برسوں کی مسلسل عرق ریزی کے بغیر اس کی اصلیت بدل نہیں سکتی، اس پر بہروپ چڑھایا جاسکتا ہے۔ ویرا کو طغیانی نے جو پٹخنیاں دی تھیں اور جس طرح موت کے منہ میں پھینکا تھا، اس سے اس کے جذبات اس پر غالب آگئے۔ وہ طغیانی سے تو زندہ وسلامت نکل آئی تھی مگر اس کی دہشت سے ابھی تک نہیں نکلی تھی۔ اس کے ساتھ اس پر تبریز کی دہشت گردی طاری ہوگئی تھی۔ اس مسلمان جوان سے اسے اور کوئی ڈر نہیں تھا۔ خوف یہ تھا کہ یہ کوئی خانہ بدوش یا بدو ہوا تو اسے کسی کے ہاتھ بیچ ڈالے گا۔ وہ بک جانے کے بعد کی اذیت ناک زندگی سے ڈر رہی تھی۔

رات گزر گئی۔ تبریز نے اس کے اتنے دلکش جسم کی طرف توجہ ہی نہ دی۔ وہ بے ہوشی کی نیند سوگئی تو بھی تبریز اس سے دور رہا۔ صبح طلوع ہوئی تو اس کی تھکن ختم ہوچکی تھی اور تبریزکا خوف بھی۔ رات تک وہ اسے گنوار، بے حس اور مردہ سمجھتی رہی تھی۔ اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگی۔ تبریز کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ ویرا کو یوں محسوس ہونے لگا جیسے یہ شخص براہ راست خدا سے ہم کلام ہو۔ اسے تبریز کے یہ الفاظ یاد آنے لگے کہ خدا صرف ان کی مدد کرتا ہے جن کی نیت اور روح پاک ہوتی ہے۔ تب اسے خیال آیا کہ اس کی اپنی نیت پاک نہیں۔ وہ تبریز کی قوم کے لیے ایک حسین دھوکہ بنی ہوئی ہے۔ اس لڑکی نے رات کو یہ بھی فیصلہ کرلیا تھا کہ اپنا آپ تبریز کے حوالے کرکے اسے کہے گی کہ اس کے عوض حمص پہنچا دو۔

اورروح؟… ویرا کو زندگی میں پہلی بار احساس ہوا کہ اس کا جسم روح سے محروم ہے اور اگر روح ہے بھی تو وہ کردار کی غلاظت میں دب گئی لیکن روح مرا نہیں کرتی۔ ویرا پر جو گزری تھی، اس سے اس کی روح بیدار ہوگئی تھی جو اسے شرمسار کررہی تھی۔ اسے تبریز کی شکل وصورت بدلی ہوئی نظر آنے لگی۔ اس کی نگاہ میں وہ فرشتہ بن گیا جو خدا سے ہم کلام تھا۔ لڑکی کے آنسو نکل آئے تھے۔ جوں جوں آنسو بہتے گئے، اسے ایسے لگا جیسے اس کا وجود تبریز کے وجود میں سماتا جارہا ہو۔

: تبریز نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے۔ وہ شاید بھول گیا تھا کہ اس گف میں کوئی اور بھی ہے، یا یہ کہ لڑکی گہری نیند سوئی ہے۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''خدائے عزوجل! مجھے گناہوں سے دامن پاک رکھنے کی ہمت عطا فرما۔ میری روح کو اتنی پاکیزگی عطا فرما کہ تیری اتنی خوبصورت امانت کو خیانت کے بغیر منزل تک پہنچا سکوں۔ تیرا یہ بندہ کمزور اور ناتواں ہے۔ مجھے شیطان کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور جرأت عطا فرما''۔

تبریز فرشتہ نہیں تھا۔ وہ انسانی فطرت کی کمزوریوں سے پناہ مانگ رہا تھا۔ اس نے ہاتھ منہ پر پھیریے اور گھوم کر دیکھا۔ ویرا اسے دیکھ رہی تھی۔ اس کے رخساروں پر آنسو بہے جارہے تھے۔ تبریز اسے کچھ دیر دیکھتا رہا۔ لڑکی نے کوئی حرکت نہ کی۔

''باہر جائو''… تبریز نے اسے کہا… ''اس طرف صاف پانی کا چشمہ ہے، منہ دھوآئو''… اس نے اپنے سر پر لپیٹا ہوا موٹے کپڑے کا گز بھر لمبا چوڑا رومال اتار کر اسے دیتے ہوئے کہا… ''منہ اچھی طرح دھوئو اور بالوں کو بھی جھاڑ پونچھ لو۔ میں تمہیں اسی روپ میں تمہارے رشتے داروں کے حوالے کرنا چاہتا ہوں جس طرح تم طغیانی میں گرنے سے پہلے تھیں''۔

ویرا اس کے ہاتھ سے رومال لے کر ایسے انداز سے باہر نکل گئی جیسے گونگا اور بہرہ بچہ کسی کے اشارے پر چل پڑا ہو۔ تبریز کے پاس کھانے پینے کا جو سامان تھا، وہ گھوڑے کے ساتھ بندھا تھا۔ اب کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ ویرا کے انتظار میں بیٹھ گیا۔ ویرا منہ سر دھو کر واپس آئی تو تبریز کو یوں دھچکا سا لگاجیسے کسی نے اسے کانٹا چٹھو دیا ہو۔ اس سے پہلے ویرا کے بال مٹی سے اٹے ہوئے اور جڑے ہوئے تھے۔ چہرے کا بھی یہی حال تھا۔ اب بال اور چہرہ ڈھل گئے تو تبریز جیسے اسے پہچان ہی نہ سکا۔ وہ ایسے طلسمانی بالوں کو کبھی تصور میں بھی نہیں لاسکا تھا۔ دور درازرہنے والے دیہاتی نے ایسا حسن کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چہرہ اتنا ملائم اور آنکھوں میں ایسی دل کشی اسے حیران کررہی تھی۔ تبریز اس تبریز کے ہاتھ سے نکلنے لگا جو کچھ دیر پہلے خدا کے حضور کھڑا تھا، اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالا اور بولا… ''کھانے کے لیے کچھ نہیں۔ ہمیں خالی پیٹ سفر کرنا پڑے گا، چلو''۔

وہ اٹھنے لگا تو ویرا نے اس کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''ذرا دیر بیٹھو۔ میں کچھ پوچھنا چاہتی ہوں، کچھ جاننا چاہتی ہوں''… تبریز رات بھر اس لڑکی کے لیے دہشت بنا رہا تھا، اب اس کی ذہنی کیفیت یہ تھی جیسے یہ لڑکی اس پر غالب آگئی ہو۔ کچھ کہے بغیر اٹھتے اٹھتے بیٹھ گیا… ''تم جب خدا کے ساتھ باتیں کررہے تھے تو خدا تمہیں نظر آرہا تھا؟''

''خدا ہمیں نظر نہیں آیا کرتا''… تبریز نے کہا… ''میں عالم نہیں، اس لیے بتا نہیں سکتا کہ خدا نظر آئے بغیر کس طرح اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ خدا میری باتیں، میری دعائیں سن لیتا ہے''۔

''تمہیں یقین ہے کہ یہ خدا تھا جس نے تمہیں اپنی قوت دی کہ تم نے مجھے طغیانی سے نکال لیا؟'' ویرا نے پوچھا۔

''ہمیں خطیب نے بتایا ہے کہ روح پاک ہو تو خدا ہر مشکل میں مدد دیتا ہے''…تبریز نے جواب دیا… ''اگر میں اس ارادے سے تمہیں بچانے کی کوشش کرتا کہ تم بہت خوبصورت ہو اور تمہیں بچا کر کہیں لے بھاگوں گا تو میں بھی تمہارے ساتھ ڈوب جاتا''۔

''مگر میری روح پاک نہیں ہے''… ویرا نے دکھیارے سے لہجے میں کہا… ''خدا نے میری مدد کیوں کی؟ مجھے ڈوبنے سے کیوں بچایا؟''

''حمص چل کے خطیب سے پوچھیں گے''… تبریز نے کہا… ''مجھے میں اتنی عقل نہیں''۔

''اور تم نے میرے جسم سے کیوں بے رخی کی؟''… ویرا نے اس سے پوچھا۔

''اگر میں ایسا کرتا جیسے تمہیں ڈر تھا تو میں تمہارے خنجرسے نہ بچ سکتا''… تبریز نے جواب دیا… ''تم خدا کی امانت ہو، اور''… وہ چپ ہوگیا۔ ذرا دیر بعد بے اختیار بولا… ''تم بہت ہی خوبصورت ہو ویرا! آئو چلیں''… وہ بے قرار سا ہوکر اٹھنے لگا۔ ویرا نے اسے اٹھنے نہ دیا۔ تبریز نے کہا… ''مجھے اپنے قریب زیادہ دیر نہ بیٹھنے دو۔ مجھے اتنے سخت امتحان میں نہ ڈالو لڑکی! مجھے خدا کے حضور سرخرو ہونے دو''۔

''تمہیں اپنے خدا کی قسم!''… ویرا نے کہا… ''مجھے بھی خدا کے حضور سرخرو ہونے کے قابل بنائو، تم اپنے جیسے انسانوں سے بہت اونچے ہو، تم خدا کے ایلچی ہو''۔

''تم رو کیوں رہی ہو؟''

''میں گناہ گار ہوں''… ویرا نے جواب دیا… ''خدا مجھ سے ناراض ہے۔ جب اونٹ نے مجھے طغیانی میں گرا دیا تھا تو بھی مجھے خدا یاد نہیں آیا تھا۔ میں سمجھتی تھی کہ جو کچھ ہے وہ جسم ہے اور مجھے اپنے جسم کو بچانا چاہیے۔ تم مجھے طغیانی سے نکال کر یہاں لے آئے تو بھی میرے سامنے یہی مسئلہ آگیا کہ مجھے تم سے اپنا جسم بچانا ہے۔ اپنے جسم کو بچانے کے لیے ہی میں نے تمہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی مگر ناکام رہی۔ میں طغیانی سے بھی بچ گئی۔ تم سے بھی بچ گئی لیکن تمہاری عبادت اور دعا نے مجھے بتایا کہ مجھے بچانے والی قوت کوئی اور تھی۔ مجھے بتائو وہ

مجھے بچانے والی قوت کوئی اور تھی۔ مجھے بتائو وہ قوت کیا ہے؟ کہاں ہے؟''

''یہ خدا کی قدرت ہے''… تبریز نے جواب دیا… ''یہ روح کی پاکیزگی کا کرشمہ ہے''۔

''میری ساری زندگی ایک گناہ ہے''۔

''مجھے صاف لفظوں میں بتائو''… تبریز نے پوچھا… ''تم رقاصہ ہو؟ امیروں وزیروں کے پاس رہتی ہو؟ میں نے سنا ہے کہ ایسی لڑکیاں بہت خوبصورت ہوتی ہیں۔ میں نے ایسی خوبصورت لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی''۔

ویرا خاموش رہی۔ اس کی آنکھوں سے آنسو آگئے۔ وہ سرک کر تبریز کے قریب ہوگئی۔ تبریز پرے سرک گیا۔ ویرا نے کہا… ''مجھے ڈر آتا ہے۔ طغیانی کی دہشت مجھے ابھی تک ڈرا رہی ہے۔ مجھے اپنے قریب رکھو''۔

''نہیں''… تبریز نے عجیب سے مسکراہٹ سے کہا… ''میرے اتنا قریب نہ آئو، میں بھٹک جائوں گا''۔

''دیکھ لیا، میں کتنی گناہ گار ہوں؟''… ویرا نے کہا… ''تم اس لیے مجھ سے دور رہنا چاہتے ہو کہ بھٹک نہ جائو۔ میں نے بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے''… اس نے دیکھ لیا کہ تبریز کے پاس مذہب جذبات ہیں اور جذبہ بھی لیکن اس کی سوچ میں گہرائی نہیں ہے۔ اگر اسے کسی سانچے میں ڈھالا جائے تو ڈھل جائے گا۔ ویرا نے اس کے ساتھ کھل کر باتیں شروع کردیں۔ کہنے لگی… ''اگر میں تمہیں کہوں کہ آئو ہم ساری عمر کے سفر میں اکٹھے رہیں تو کیا جواب دو گے؟''

تبریز نے اس کے چہرے کو دیکھا، ذرا سا مسکرایا اور سنجیدہ ہوگیا۔ بولا… ''آئو چلیں۔ سورج نکل آیا ہے، سفر مشکل ہوجائے گا''۔

ویرا اپنی ذات میں ایک انقلاب محسوس کررہی تھی جسے وہ اچھی طرح سمجھ نہ سکی۔ وہ اس کے ساتھ اٹھ کر چل پڑی۔ وہ راستے کو کم اور تبریز کو زیادہ دیکھ رہی تھی۔ گزشتہ رات وہ تبریز کو قتل کرکے حمص کو بھاگ جانے کی فکر میں تھی لیکن وہ اب تیز چلنے سے گریز کررہی تھی۔ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تبریز کے ساتھ رہنے کی خواہش لیے ہوئے تھی۔ ایک بار اس نے تبریز کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا… ''آہستہ چلو''۔

''ہمیں آہستہ نہیں چلنا چاہیے''… تبریز نے کہا… ''ورنہ ایک اور رات آجائے گی''۔

''آنے دو''۔ ویرا نے کہا… ''میں تیز نہیں چل سکتی''۔

''جہاں رہ جائو گی، وہاں تمہیں اٹھالوں گا''… تبریز نے کہا… ''آہستہ نہ چلو''۔

٭ ٭ ٭

سلطان صلاح الدین ایوبی کے بھائی العادل نے صلیبی بادشاہ بالڈون کو حماة کے قلعے کے باہر بہت بڑی شکست دی تھی جس سے بوکھلا کربالڈون کی فوج بکھر کر پسپا ہوئی تھی۔ اس معرکے کی تفصیل سنائی جاچکی ہے۔ اس صلیبی بادشاہ نے بڑی مشکل سے اپنی بکھری ہوئی فوج کو یکجا کیا تھا۔ تب اسے اندازہ ہوا تھا کہ اس کا کتنا جانی نقصان ہوا ہے۔ اس کے پاس نصف سے کچھ زیادہ فوج رہ گئی تھی۔ وہ تو دمشق تک کے علاقے میں قبضہ کرنے آیا تھا۔ اس کی فوج العادل کے چھاپہ مار حملے میں مری تھی اور جب صلیبی بھاگے تو ان میں سے بہت سے وادیوں اور ویرانوں میں بھٹک گئے تھے۔ ان میں سے کئی ایک کو مسلمان گڈریوں، خانہ بدوشوں اور دیہاتیوں نے مار ڈالا اور ان کے ہتھیاروں اور گھوڑوں پر قبضہ کرلیا تھا۔

جب بالڈون نے بچی کھچی فوج کو حماة سے دور ایک جگہ جمع کرلیا تو اسے بتایا گیا کہ فوج کے وہ سپاہی اور عہدے دار جو اکیلے اکیلے آرہے تھے۔ مسلمان کے ہاتھوں قتل ہوگئے ہیں۔ بالڈون شکست سے بوکھلایا ہوا تھا، اس اطلاع سے اس کا غصہ اور تیز ہوگیا۔ اس نے حکم دیا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کا کوئی گائوں نظر آئے، اسے لوٹ لو۔ جوان لڑکیاں اٹھا لائو اورگائوں کو آگ لگا دو۔ چنانچہ یہ فوج جب نفری اور دیگر نقصان پورا کرنے اور حملے کی ازسرنو تیاری کرنے کے لیے پیچھے جارہی تھی، مسلمانوں کے گائوں تباہ کرتی گئی۔

: اب یہ فوج حمص سے چھ سات میل دور خیمہ زن تھی۔ بالڈون اس کوشش میں تھا کہ کوئی صلیبی حکمران اس کے ساتھ تعاون کرے اور اپنی فوج اسے دے دے، جس سے وہ العادل سے شکست کا انتقام لے سکے اور دمشق تک اپنی حکمرانی جسے وہ صلیب کی حکمرانی کہتا تھا، قائم کرنے کا عزم پورا کرسکے۔ اسی سلسلے میں وہ ایک اور صلیبی بادشاہ ریجنالٹ آف شائتون کے ہاں گیا ہوا تھا۔

ویرا کی تلاش سے مایوس ہوکر بوڑھا عیسائی اور اس کے ساتھی رات بھر چلتے رہے اور صبح حمص پہنچے۔ قافلے کے دوسرے لوگ بھی پہنچ گئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی حمص کا نہیں تھا، انہیں آگے جانا تھا۔ تبریز کا گھوڑا ان کے ساتھ تھا۔ انہوں نے گھوڑا ایک مسجد کے امام کے حوالے کرکے بتایا کہ اس کا مالک حمص کا رہنے والا تھا۔ وہ طغیانی میں گھوڑے سے گر کر ڈوب گیا تھا ور گھوڑا باہر آگیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد گھوڑا پہچان لیا گیا۔ جب گھوڑا تبریز کے گھر پہنچا تو وہاں کہرام بپا ہوگیا۔

وہاں ایک یہودی تاجر کا گھر تھا۔ یہ ایک دولت مند یہودی تھا۔ وہ جو اپنے آپ کو ویرا کا باپ کہتا تھا، اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس یہودی کے گھر میں بیٹھا تھا۔ وہ بتا چکا تھا کہ ویرا ڈوب گئی ہے۔ سب افسوس کا اظہار کررہے تھے لیکن ان کا مسئلہ افسوس کرنے سے حل نہیں ہوسکتا تھا۔ بوڑھے نے یہودی میزبان سے پوچھا کہ حمص کے مسلمانوں کی سرگرمیاں اور عزائم کیا ہیں۔

''بہت خطرناک''… میزبان نے جواب دیا… ''انہیں باقاعدہ ٹریننگ دی جارہی ہے اور یہ قصبہ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں کا اڈا بنتا جارہا ہے۔ خطیب صرف خطیب نہیں فوج کا کمان دار اور استاد معلوم ہوتا ہے''۔

''اگر اسے قتل کرادیا جائے تو کیا فائدہ ہوگا''… بوڑھے عیسائی نے پوچھا۔

''کچھ بھی نہیں''… یہودی تاجر نے جواب دیا… ''اس کا نقصان یہ ہوگا کہ مسلمان ہم پر شک کرکے ہم میں سے کسی کو بھی زندہ نہیں رہنے دیں گے۔ یہ قصبہ ان کی سلطنت میں ہے''۔

''یہاں جو عیسائی اور یہودی گھرانے ہیں، کیا ان کی لڑکیاں کچھ نہیں کرسکتیں؟''… بوڑھے نے پوچھا۔

''آپ جانتے ہیں کہ اس کام کے لیے کتنی ٹریننگ اور تجربے کی ضرورت ہوتی ہے''… میزبان نے جواب دیا… ''ہماری لڑکیوں میں کوئی ایک بھی اتنی چالاک نہیں''۔

''اور آپ ضروری سمجھتے ہیں کہ یہاں کے مسلمان جنگی ٹریننگ حاصل نہ کریں؟''… بوڑھے نے پوچھا۔

''آپ کیا حکم لے کر آئے ہیں؟''… میزبان نے پوچھا۔

''حکم تو بڑا صاف ہے''… بوڑھے نے کہا… ''ان مسلمانوں کو آپس میں ٹکرانا اور انہیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف کرنا ہے۔ و یرا کے لیے یہ کام مشکل نہیں تھا۔ اس کے بغیر یہ مہم ممکن نہیں رہی۔ ہمیں دو لڑکیاں یہاں لانی پڑیں گی''۔

''وقت کم ہے''… میزبان نے کہا… ''آپ جانتے ہیں کہ رملہ کی لڑائی کو کتنے مہینے گزر چکے ہیں جس میں صلاح الدین ایوبی کو شکست ہوئی تھی۔ آپ اگر حقیقت کو قبول کریں تو یہ شکست صلاح الدین ایوبی کے عزم اور جذبے کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ وہ سنبھل چکا ہے اورا س نے فوج تیار کرلی ہے۔ )قاہرہ سے جاسوس جو خبریں بھیج رہے ہیں، وہ اچھی نہیں۔ صلاح الدین ایوبی قاہرہ سے کوچ کرنے والا ہے۔ ابھی یہ پتہ نہیں چل سکا کہ وہ کس طرف کوچ کرے گا اور کہاں حملہ کرے گا۔ ادھر اس کے بھائی العادل کو دمشق سے کمک مل گئی ہے۔ اس نے شاہ بالڈون کو ایسی شکست دی ہے کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی شاہ بالڈون سنبھل نہیں سکا۔ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ صلاح الدین ایوبی شب خون اور چھاپوں کی جنگ لڑتا ہے۔ ہماری فوجوں کی رسد اس سے محفوظ نہیں رہتی۔ اگر حمص کے مسلمانوں نے اسے چھاپہ ماروں کے لیے اڈا مہیا کردیا تو یہ لوگ ہماری رسد اور آگے جانے والی کمک کے لیے مصیبت بن جائیںگے''…

''ان حالات میں آپ کا یہ طریقہ کار بالکل بے کار ثابت ہوگا کہ تربیت یافتہ لڑکیوں کو یہاں لاکر مسلمانوں میں رقابت پیدا کی جائے اور ان کی کردار کشی کی جائے۔ اس کے لیے حالات اور مقامات مختلف ہوتے ہیں۔ میں آپ کے ان افسروں پر حیران ہوں جنہوں نے ایک لڑکی یہاں بھیجی تھی''۔

''پھر کیا کیا جائے؟''

''صفایا''… میزبان نے اپنے ہاتھ کو تلوار کی طرح دائیں بائیں جنبش دے کر کہا… ''پورے قصبے کو آبادی سمیت ختم کرنا پڑے گا۔ اس صورت میں ہم بھی یہاں نہیں رہ سکیں گے۔ ہم اپنے بیوی بچوں اور مال ودولت کو یہاں سے پہلے نکال دیں گے۔ مجھے امید ہے کہ صلیبی بادشاہ ہمیں کسی دوسری جگہ آباد کرنے میں مدد دیں گے اور ہمارا مالی نقصان پورا کردیں گے۔ میں یہودی ہوں۔ میں ہیکل سلیمانی کی خاطر اپنا گھر تباہ کرانے میں تیار ہوں''۔

''لیکن اس قصبے کی تباہی کا انتظار کیا ہوگا؟''… بوڑھے نے پوچھا… ''اس کے لیے فوج کی ضرورت ہے''۔

''فوج موجود ہے''… یہودی نے کہا… ''شاہ بالڈون کی فوج پانچ چھ میل دور خیمہ زن ہے۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ اس فوج نے پسپائی کے راستے میں آنے والی تمام مسلمان بستیوں کو تباہ وبرباد کردیا ہے۔ اس سے حمص بھی تباہ کرایا جاسکتا ہے۔ میں آج ہی روانہ ہوجائوں گا اور شاہ بالڈون کو بتائوں گا کہ ہمارا قصبہ اس کی فوج کے لیے کس قدر خطرناک ہے''۔

''مقصد یہ نہیں کہ قصبہ تباہ کرایا جائے''… بوڑھے نے کہا… ''بلکہ یہ یہاں کے کسی مسلمان کو زندہ نہ رہنے دیا جائے''۔

''اور لڑکیوں کو فوج اٹھالے جائے''۔

سب متفق ہوگئے اور فیصلہ ہوا کہ میزبان یہودی اسی رات شاہ بالڈون کی خیمہ گاہ کو روانہ ہوجائے۔ وہ باہر نکلے تو انہیں ایک گھوڑا سوار قصبے میں داخل ہوتا نظر آیا۔ وہ کوئی اجنبی تھا۔ خطیب کا گھر نظر آرہا تھا۔ یہ سوار خطیب کے گھر کے سامنے گھوڑے سے اترا۔ دروازے پر دستک دی۔ خطیب باہر آیا۔ اجنبی سے ہاتھ ملایا اور اسے اندر لے گیا۔

''یہ سوار دمشق یا قاہرہ کا قاصد ہے''… میزبان یہودی نے کہا۔

٭ ٭ ٭

عشاء کی نماز کے بعد نمازی چلے گئے۔ پانچ چھ آدمی خطیب کے پاس بیٹھے رہے۔ ان میں یہ اجنبی گھوڑ سوار بھی تھا۔ خطیب نے کسی سے کہا کہ مسجد کا دروازہ اندر سے بند کردیا جائے۔

''میرے دوستو!''… خطیب نے کہا… ''ہمارا یہ دوست الملک العادل کی طرف سے خبر لایا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی بہت جلد قاہرہ سے کوچ کرنے والے ہیں۔ آپ سب فوجی ہیں اور شب خون کے استاد ہیں۔ آپ کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے۔ تربیت اور مشق تیز کردو۔ العادل نے یہ اطلاع بھیجی ہے کہ صلیبی بادشاہ بالڈون کی فوج جو حماة سے بھاگی تھی، ہمارے قریب کہیں پڑائو ڈالے ہوئے ہے۔ ہمیں اس پر نظر رکھنی ہے اور اس کی نقل وحرکت کی اطلاع العادل تک پہنچانی ہے۔ انہوں نے یہ حکم بھی بھیجا ہے کہ اگر ہم ضروری سمجھیں تو صلیبیوں کی اس فوج پر شب خون ماریں یا چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھیں تاکہ یہ فوج چین سے نہ بیٹھ سکے''…

''اس کے ساتھ ہی العادل نے یہ بھی کہا کہ اس فوج نے مسلمانوں کے بہت سے گائوں تباہ کردئیے ہیں۔ چونکہ العادل کے پاس فوج کی کمی تھی، اس لیے صلیبی فوج کا تعاقب نہ کیا جاسکا۔ انہوں نے کہا کہ اگر بالڈون کی فوج اور پیچھے اپنے علاقے میں چلی جاتی ہے تو اسے نہ چھیڑا جائے کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ حمص کو تباہ کردے گی۔ ہمیں تربیت اور مشق تیز کرنے کو کہا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ سلطان ایوبی کسی طرف حملہ کریں تو بالڈون ان پر عقب یا پہلو سے حملہ کردے۔ اس صورت میں ہمیں بالڈون کے عقب پر شب خون مارنے ہیں اور اسے یہیں الجھائے رکھنا ہے''۔

خطیب نے ایک آدمی کو یہ کام سونپا کہ وہ اس فوج کو دیکھ آئے۔

اس وقت تبریز اور ویرا اس حالت میں قصبے میں داخل ہوئے کہ ویرا تبریز کی پیٹھ پر تھی۔ راستے میں پانی تو مل گیا تھا لیکن کھانے کو کچھ نہیں ملا تھا۔ ویرا صلیبیوں کی شہزادی تھی۔ وہ پیدل سفر کی عادی نہیں تھی۔ تبریزرات کے لیے کہیں رکنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے ویرا کو پیٹھ پر اٹھا لیا اور باقی سفر اسی طرح طے کیا۔ اس نے لڑکی کو اپنے گھر کے سامنے اتارا اور اسے اندر لے گیا۔ اس کے گھر والوں کو یقین نہیں آرہا تھا کہ تبریز زندہ ہے۔ اس کا گھوڑا پہلے ہی گھر پہنچ چکا تھا۔ اس نے گھر والوں کو بتایا کہ اس پر کیا بیتی ہے۔

: ویرا کو معلوم تھا کہ اس کی منزل یہودی تاجر کا گھر ہے۔ اس نے کہا کہ وہ اس کے گھرفوراً جانا چاہتی ہے۔ شاید اس کا باپ زندہ آگیا ہو، تبریز اس کے ساتھ گیا۔ اسے یہودی تاجر کا گھر معلوم تھا۔ راستے میں اندھیرا تھا۔ ویرا اچانک رک گئی اور تبریز سے لپٹ گئی۔ کبھی چہرہ اس کے سینے پر رگڑتی اور کبھی اس سے الگ ہوکر اس کے ہاتھ چومتی اور آنکھوں سے لگاتی۔

''ہماری منزل جدا ہیں''… ویرا نے جذبات اور رقت سے بوجھل آواز میں کہا… ''مگر ہم کسی دوراہے پر پھر ملیں گے۔ میں اپنی روح سے بیگانہ تھی، وہ مل گئی ہے اور میں نہیں جانتی تھی محبت کیا ہے؟ وہ تم نے دے دی ہے۔ دل میں تمہاری یاد لے کے جارہی ہوں۔ تم مجھے بھول جائو گے''۔

''نہیں ویرا''… تبریز کی جذباتی کیفیت ویرا سے زیادہ متزلزل تھی۔ کہنے لگا… ''میں تمہیں بھول نہیں سکوں گا۔ میں نے تمہیں راستے میں کہا تھا کہ اب تک ایک باطل مذہب کی پجاری رہی ہو، باقی عمر اسلام کے سائے میں گزارو۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔ میرے دل میں اب کوئی لڑکی نہیں سما سکے گی۔ تم اب اسی قصبے میں رہو گی۔ ہم ملا کریں گے لیکن وہاں جہاں کوئی دیکھ نہ سکے''۔

تبریز نے امانت میں خیانت نہیں کی تھی۔ دوران سفریہ لڑکی اس کی مرید ہوگئی تھی۔ پھر یوں ہوا کہ لڑکی تبریز کے دل میں اتر گئی۔ اب وہ دل پر پتھر رکھ کر اسے یہودی کے حوالے کرنے جارہا تھا… وہ جب اسے یہودی کے گھر لے گیا تو وہاں اسے بوڑھا عیسائی ملا۔ اس نے ویرا کو گلے لگا لیا۔ یہودی تاجر گھر نہیں تھا۔ وہ فیصلے کے تحت شاہ بالڈون کی خیمہ گاہ کو روانہ ہوگیا تھا۔ تبریز بوڑھے کے اصرار کے باوجود وہاں رکا نہیں۔ وہاں سے وہ مسجد چلا گیا۔ دروازہ اندر سے بند تھا۔ اس نے دستک دی، دروازہ کھلا تو وہ اندر چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک سال کے اندر اپنی فوج تیار کرلی تھی۔ اس نے مزید انتظار نہ کیا، جس رات حمص کا ایک یہودی تاجر شاہ بالڈون سے یہ کہنے جارہا تھا کہ وہ اپنی فوج سے حمص کے مسلمانوں کو تباہ وبرباد کردے، اس رات سلطان ایوبی کی فوج قاہرہ سے نکل گئی تھی۔ اس کی منزل دمشق تھی۔ کوچ بہت تیز تھا۔ سلطان ایوبی وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس دور کے وقائع نگاروں کے مطابق، سلطان ایوبی دمشق قیام کرکے وہاں کے حالات، غداریوں اور سازشوں کا جائزہ لے کر اور ان کا سدباب کرکے العادل سے ملنا چاہتا تھا اور وہاں سے اسے جنگی کارروائی کا آغاز کرنا تھا مگر راستے میں ہی اس نے راستہ بدل دیا۔

اس کی وجہ یہ ہوئی کہ اسے عزالدین کا ایک ایلچی راستے میں ملا۔ وہ سلطان ایوبی کے نام قاہرہ پیغام لے کر جارہا تھا۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ سلطان ایوبی وہاں سے کوچ کر آیا ہے۔ا دھے راستے میں اس نے ایک فوج آتی دیکھی۔ جھنڈوں سے پہچانا گیا کہ یہ سلطان ایوبی کی فوج ہے۔ وہ قلب میں چلا گیا جہاں سلطان ایوبی تھا۔ ایلچی نے اسے عزالدین کا پیغام دیا۔ عزالدین نورالدین زنگی مرحوم کے مشیروں میں سے تھا، جسے امیر کا درجہ حاصل تھا۔ وہ مرد مومن تھا۔ اس لیے زنگی کا منظور نظر تھا۔ زنگی نے وفات سے پہلے اسے حلب کے صوبے میں قارا حصار کے نام کا قلعہ دے کر اس کا امیر بنا دیا تھا۔ خاصا علاقہ اس قلعے کے تحت آتا تھا۔ اس سے ملحق ابن لاعون کی ریاست تھی جو صلیبیوں کے ساتھ صلیبی اور مسلمانوں کے ساتھ مسلمان بن جاتا تھا۔ اس نے صلیبیوں کی شہہ پر عزالدین کے علاقے میں سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ عزالدین اکیلا اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا تھا۔ وہ حلب اور موصل والوں سے مدد نہیں لینا چاہتا تھا کیونکہ جب سے حلب اور موصل کے حکمرانوں الملک الصالح اور سیف الدین وغیرہ نے سلطان ایوبی کے خلاف محاذ قائم کیا تھا، عزالدین نے ان کے ساتھ تعلقات توڑ لیے تھے۔

 اس نے سلطان ایوبی کو جو پیغام بھیجا، وہ یوں تھا… ''قابل احترام سلطان صلاح الدین ایوبی بن نجم ایوب سلطان مصر وشام! آپ پر اور سلطنت اسلامیہ پر اللہ کی رحمت ہو۔ میری وفاداری کے متعلق آپ کو شک نہیں ہوگا۔ میں نے تل خالد کی طرف سے صلیبیوں کا راستہ روک رکھا ہے۔ تمام تر علاقہ اور پیش قدمی کے راستے میں میرے چھاپہ ماروں کی نظر میں رہتے ہیں۔ صلیبیوں نے مجھے راستے سے ہٹانے کے لیے ابن لاعون کے ساتھ گٹھ جوڑ کرلیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ میری سرحد اس علاقے سے ملتی ہے جو دراصل آرمینیوں کا علاقہ ہے۔ ان آرمینیوں نے میری سرحدی چوکیوں پر حملے شروع کردئیے ہیں۔ آپ آگاہ ہوں گے میرے پاس فوج کی کمی ہے۔ صلیبیوں اور آرمینیوں نے میرے پاس دوبار ایلچی قیمتی تحائف کے ساتھ بھیجے تھے۔ وہ مجھے دعوت دے رہے ہیں کہ میں ان کا اتحادی بن جائوں اور آپ کے خلاف لڑوں۔ انکار کی صورت میں انہوں نے مجھے حملے کی دھمکی دی ہے''…

''میری جگہ کوئی اور ہوتا تو اپنی زمین کے تحفظ کے لیے یہ دعوت قبول کرلیتا۔ یہ جگہ اتنی دور ہے کہ وقت پڑے تو مدد کو آنے والے بروقت نہیں پہنچ سکتے۔ اس کے باوجود میں نے اس کی دعوت کے بجائے ان کی دھمکی قبول کی ہے اور میں نے یہ اقدام اللہ کے بھروسے پر کیا ہے۔ میں اپنا قلعہ اور اپنا علاقہ اور اس کے ساتھ اپنی جان قربان کردوں گا۔ صلیبیوں کے ساتھ اتحاد نہیں کروں گا۔ میں نورالدین زنگی مرحوم کی روح کے آگے جواب دہ ہوں اور میں ان لاکھوں شہیدوں کے آگے جواب دہ ہوں جو قبلہ اول کے نام پر قربان ہوچکے ہیں… مجھے معلوم نہیں کہ آپ کا آئندہ اقدام کیا ہوگا۔ مجھے یہ معلوم ہے کہ رملہ کے حادثے کے بعد آپ تنظیم نو اور دیگر تیاریوں میں مصروف ہوں گے۔مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ محترم الملک العادل میری مدد کو آنے کے قابل نہیں۔ میں آپ کو اپنے احوال سے خبردار رکھنا ضروری سمجھتا تھا۔ اگر آپ حکم دیں تو میں اپنے علاقے اور قاراحصار سے دستبردار ہوکر اپنی فوج آپ کے پاس لے آئوں۔ دوسری صورت میں مجھے ہدایت دیں کہ میں کیا کروں۔ میں کسی قیمت پر صلیبیوں اور آرمینیوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کروں گا''۔

سلطان ایوبی نے یہ پیغام پڑھا۔ اسی وقت اپنے سالاروں اور مشیروں کو بلایا۔ پیغام انہیں پڑھ کر سنایا ور یہ حکم دے کر سب کو حیران کردیا کہ کوچ کا راستہ بدل دو۔ ہم ابن لاعون کے علاقے پر یلغار کریں گے۔ سلطان ایوبی ڈکٹیٹروں کی طرح حکم نہیں دیا کرتا تھا ور وہ جذبات سے مغلوب ہوکر بھی کوئی جنگی کارروائی نہیں کیا کرتا تھا مگر اس حکم کے پیچھے جنگی فہم وفراست کے ساتھ جذبات بھی کارفرما تھے۔

''قاراحصار میرے محترم استاد نورالدین زنگی مرحوم کی نشانی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اور عزالدین کے الفاظ میں مجھے زنگی مرحوم کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ میں اس شخص کو تنہا نہیں رہنے دوں گا جو ہمارے مقصد اور عزم کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتا ہے''۔

''سلطان محترم!'' ایک سالار نے کہا… ''ہم حقائق کو سامنے رکھیں تو کسی بہتر فیصلے پر پہنچ سکیں گے''۔

''حقائق یہ ہیں کہ ہمیں پہلے دمشق جاکر وہاں کے حالات کا جائزہ لینا تھا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اب اگر ہم دمشق چلے گئے تو ابن لاعون تل خالد پر حملہ کردے گا اور عزالدین اس کے آگے نہیں ٹھہر سکے گا۔ آگے حلب ہے۔ تم سب الملک الصالح اور اس کے مشیروں کو اچھی طرح جانتے ہو۔ بے شک وہ اس معاہدے کا پابند ہے جو اس نے ہمارے ساتھ کررکھا ہے، لیکن معاہدہ لوہے کی دیوار نہیں ہوتی کہ ٹوٹ نہ سکے۔ وہ فوراً صلیبیوں کے ساتھ سمجھوتہ کرکے ایک بار پھر ہمارے خلاف لڑنے کو آجائے گا۔ میں صلیبیوں کو حلب نہیں لینے دوں گا اور عزالدین کو میں اکیلا نہیں چھوڑوں گا''۔

: کچھ دیر عملی پہلوئوں پر بحث ومباحثہ ہوا اور طے ہوا کہ تل خالد کی سمت کوچ ہوگا۔ سلطان ایوبی نے عزالدین کے ایلچی کو زبانی پیغام دیا جس میں کہا کہ عزالدین ابن لاعون سے ملے اور اسے دوستی کا دھوکہ دے لیکن اسے اپنے علاقے میں دخل انداز نہ ہونے دے۔ اس کے ساتھ دوستی کی شرائط پر بات چیت کرتا رہے اور اسے یہاں تک دھوکہ دے کر وہ اپنی فوج اس کے حوالے کردے گا۔ سلطان ایوبی نے ایلچی کو بتا دیا کہ اس نے اپنی فوج کو تل خالد کی طرف تیز کوچ کا حکم دے دیا ہے۔ ایلچی روانہ ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

صلیبی جاسوس سلطان ایوبی کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے اور صلیبیوں تک خبریں پہنچا رہے تھے، جن کے مطابق انہوں نے اپنے قلعوں اور اپنے علاقوں کا دفاع مضبوط کرلیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ سلطان ایوبی کے اقدامات کے متعلق کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی۔ صلیبیوں کے مشترکہ ہیڈکوارٹر میں جب جاسوسوں نے یہ اطلاع دی کہ سلطان ایوبی کی فوج دمشق کے راستے سے ہٹ کر کسی دوسری سمت جارہی ہے تو ان کے جرنیلوں نے کہا کہ ایوبی اپنے آزمائے ہوئے میدانوں میں لڑنا چاہتا ہے۔

حمص کا یہودی تاجر جو حمص کو تباہ کرانے کے لیے شاہ بالڈون کے پاس گیا تھا، واپس آگیا تھا۔ اسے بالڈون نہیں ملا تھا۔ وہ اپنے صلیبی دوستوں سے مدد مانگنے گیا تھا۔ اس کے جرنیلوں نے یہودی سے کہا تھا کہ وہ شاہ بالڈون کے حکم کے بغیر کوئی اقدام نہیں کرسکتے، کریں گے ضرور۔ یہودی حمص واپس آیا تو اسے بتایا گیا کہ ویرا زندہ آگئی ہے اور اسے تبریز نام کا ایک مسلمان لایا ہے۔ تبریز کو عیسائیوں اور یہودیوں نے نقد انعام پیش کیا تھا جو اس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کردیاتھا کہ اس نے اپنا فرض ادا کیا ہے۔

اب یہودی تاجرویرا کو بے کار سمجھتا تھا کیونکہ قصبے کو تباہ کرانے کا انتظام ہوچکا تھا۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ ویرا کو واپس ہیڈکوارٹر میں بھیج دیا جائے لیکن ویرا چالاک لڑکی تھی۔ اس نے کہا کہ وہ خطیب کے اعصاب پر غالب آجائے گی اور مسلمانوں کو جنگی تربیت دینے والوں کے درمیان رقابت کی دشمنی پیدا کردے گی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہاں کے مسلمانوں کے عزائم معلوم کرنے کے لیے بھی اس کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اسے حمص ہی میں رہنے دیا گیا لیکن کسی کو پتہ نہ چلا کہ وہ صرف تبریز کی خاطر وہاں کچھ دن اور رکناچاہتی ہے۔

وہ تبریز سے ملتی رہی۔ رات کو وہ قصبے سے دور نکل جاتے اور بہت دیر وہیں بیٹھے رہتے تھے۔ اس صلیبی لڑکی کے مقابلے میں تبریز کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی۔ وہ تو امراء وزراء اور بادشاہوں کے محلات میں رہنے والی لڑکی تھی۔ دمشق میں اس نے انتظامیہ کے دو امراء کو اپنے قدموں میں بٹھا لیاتھا اور ان کے ہاتھ ایسی سازش تیار کرادی تھی۔ جس کی اطلاع پر سلطان ایوبی دمشق جارہا تھا مگر طغیانی کی دہشت اور تبریز کے کردار نے اسے ایسا جھٹکا دیا تھا کہ اس کی ذات میں روح اور جذبات بیدار ہوگئے تھے۔ وہ تبریز کی پوجا کرنے لگی تھی اور تبریز اس کی محبت میں گرفتار ہوچکا تھا۔

''تبریز ایک بات بتائو''۔ ایک رات ویرا نے اس سے پوچھا… ''خطیب اور دوسرے چند ایک آدمی جو تمہیں جنگی تربیت دیتے ہیں، وہ کہاں سے آئے ہیں؟''

: تبریز جواب دینے لگا تو ویرا بول اٹھی… ''رہنے دو، جانے دو تبریز! ہمیں اس سے کیا، کوئی کچھ کرتا پھرے۔ ہم اتنی خوبصورت رات کو جنگ کی باتوں سے کیوں مکدر کریں''۔

اس طرح وہ دو حصوں میں کٹ گئی تھی۔ تبریز کے ساتھ ہوتی تو وہ معصوم اور پاک لڑکی ہوتی تھی۔ اسے یہ بھی یاد نہیں رہتا تھا کہ وہ جاسوس ہے۔ اس نے ایک ہی بار تبریز سے خطیب اور دوسرے استادوں کے متعلق پوچھا لیکن اسے اس نے دھوکہ سمجھا اور تبریز کو جواب دینے سے روک دیا۔ یہی ویرا جب یہودی تاجر کے گھر میں بیٹھی ہوتی تو مسلمانوں کی تباہی کی باتیں کرتی تھی۔

٭ ٭ ٭

ڈیڑھ دو مہینے گزر گئے تھے۔ ایک شام ویرا تبریز کے گھر چلی گئی اور اس کی ماں کے ساتھ باتیں کرتی رہی۔ اس نے تبریز کو اشارہ کیا جسے وہ سمجھتا تھا۔ وہ چلی گئی۔ شام کا اندھیرا گہرا ہوتے ہی تبریز اس جگہ پہنچ گیا، جہاں وہ ملا کرتے تھے۔ ویرا آگئی تھی۔ تبریز کو قصبے سے دور لے گئی۔ وہ گھبرائی ہوئی تھی۔ تبریز کے پوچھنے پر بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کی گھبراہٹ کی وجہ کیا ہے۔ انہیں آوازیں سنائی دیں۔ کوئی ویرا کو پکار رہا تھا۔ تبریز نے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ ویرا نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا کہ اس کے آدمی اسے تلاش کررہے ہیں… ''چلو اور دور نکل چلیں''… ویرا نے کہا اور اسے اور دور لے گئی۔ اسے ابھی تک کوئی پکار رہا تھا۔

''ان آوازوں کو مت سنو تبریز!'' ویرا نے کہا… ''میں جب تمہارے پاس ہوتی ہوں تو میں اپنے کسی آدمی کی آواز نہیں سننا چاہتی''۔

آگے چٹانیں تھیں۔ ویرا تبریز کو چٹانوں کے پیچھے لے گئی۔ تبریز حیران سا ہوکے اس کے ساتھ چلتا رہا اور وہ ایک جگہ رک گئے۔ وہاں کسی کی آواز نہیں پہنچی تھی… تبریز چونک اٹھا اور بولا… ''شور سا سنائی دیتا ہے۔ تم بھی سننے کی کوشش کرو۔ ایسے لگتا ہے جیسے چیخ وپکار ہورہی ہے اور گھوڑے دوڑ رہے ہیں''۔

''تمہارے کان بج رہے ہیں''۔ ویرا نے ہنس کر کہا… ''ہوا کے تیز جھونکے چٹانوں سے ٹکرا کر گزر رہے ہیں۔ یہ ان کی آوازیں ہیں''۔

ویرا نے اسے اپنے بازوئوں اور ریشمی بالوں میں گرفتار کرکے اس کی آنکھوں، کانوں اور عقل پر قبضہ کرلیا۔ تبریز مان گیا کہ یہ آوازیں ہوا کی ہیں جو بہت دور کے شور کی طرح سنائی دیتی ہیں مگر اسے معلوم نہ ہوسکا کہ یہ آوازیں اس کی اپنی بستی کے لوگوںکی ہیں اور وہاں قیامت بپا ہوچکی ہے جو یہودی تاجر بپا کرانا چاہتا تھا۔ ویرا کو معلوم تھا، وہ نہیں چاہتی تھی کہ یہ آوازیں تبریز کے کانوں تک پہنچیں۔

جاری ھے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں