داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 112 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 112

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔112 تصادم روح بدروح کا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

حمص پرسکون قصبہ تھا۔ یہ حلب کے شمال میں آج کے شام اور لبنان کی سرحد کے قریب واقع تھا۔ پرسکون اس لیے تھا کہ ابھی جنگ کی لپیٹ میں نہیں آیا تھا۔ا س کے مضافات سے کبھی کبھی صلیبی فوج گزرا کرتی تھی۔ اس کے قریب سے ایک چھوٹا سا دریا گزرتا تھا، اس لیے حمص فوجوں کی عام گزرگاہ نہیں بن سکتا تھا۔ اس قصبے میں مسلمانوں کی آبادی اتنی زیادہ تھی کہ اسے مسلمانوں کی بستی کہا جاتا تھا۔ چند ایک گھرانے عیسائیوں کے بھی تھے اور چند ایک یہودیوں کے بھی۔ تجارت عیسائیوں اوریہودیوں کے قبضے میں تھی۔ یہ لوگ دور کے علاقوں میں کاروبار کے سلسلے میں جاتے رہتے تھے، اس لیے وہ باہر کی دنیا کی جو خبریں لاتے تھے، انہیں سچ سمجھا جاتا تھا۔ وہ صلیبی فوج کے متعلق وہ ڈرائونی باتیں سنایا کرتے تھے۔

ان کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ حمص کے مسلمانوں پر صلیبی فوج کی دہشت طاری رہے اور کم از کم اس بستی کا کوئی مسلمان اسلامی فوج میں نہ جائے لیکن اس کا اثر الٹا ہورہا تھا۔ مسلمانوں نے ڈرنے کے بجائے جنگی تیاریاں شروع کردی تھیں۔ انہیں ان تیاریوں سے کوئی حکماً نہیں روک سکتا تھا۔ یہاں صلیبیوں کی حکمرانی نہیں تھی۔ حمص کے مسلمان گھوڑ سواری، نیزہ بازی، تیغ زنی اور تیراندازی کی مشق کرتے رہتے تھے۔ یہ تربیت لڑکیوں کو بھی دی جاتی تھی۔ ان کا قائد بڑی مسجد کا خطیب تھا جس کا علم اور عمل جہاد پر مرکوز تھا۔ اس نے مسلمانوں کو بتا رکھا تھا کہ قبلہ اول کو آزاد کرانا ہے اور صلیبیوں کو عرب کی سرزمین سے بے دخل کرنا ہے۔

''… اور یہ جنگ کیوں لڑی جارہی ہے؟'' خطیب اپنے خطبوں میں اس سوال کا جواب ان الفاظ میں دہراتا رہتا تھا… ''صلیبی عرب پر قبضہ کرکے اپنی بادشاہی قائم کرنے کی کوشش میں ہیں اورہم یہاں اللہ کی بادشاہی قائم کرنے کے لیے جان ومال کی قربانیاں دے رہے ہیں۔ انہوں نے عرب کو میدان جنگ صرف اس لیے بنایا ہے کہ خدائے ذوالجلال کا عظیم پیغام عرب کو عطا ہوا ہے اور اس پیغام نے ہر عربوں پر یہ فرض عائد کردیا ہے کہ ہم یہ پیغام جو ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو غارحرا میں عطا ہوا تھا، تمام تر بنی نوع انسان تک پہنچائیں۔ طارق بن زیاد نے بحیرہ روم کے مصر والے ساحل پر کھڑے ہوکر خدائے عزوجل سے کہا تھا… ''اگر تیری ذات باری مجھے ہمت واستقلال عطا فرمائے تو میں تیرا نام سمندر پار لے جائوں''… اور اس کے سینے سے جذبہ ایمان کا شعلہ جو اٹھا تو اس نے گھوڑا سمندر میں ڈال دیا۔ اس کی فوج کشتیوں میں یورپ کے ساحل پر اتری۔ زیاد کے بیٹے طارق نے حکم دیا… ''کشتیوں کو آگ لگا دو، ہم واپس جانے کے لیے نہیں آئے''۔

''مگر آج صلیبی اس عزم کے ساتھ اللہ کی اس سرزمین پر آئے ہیں کہ وہ واپس نہیں جائیں گے۔ انہوں نے اس سرزمین کو تہہ تیغ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ خدا کے اس عظیم پیغام کو جو ساری دنیا میں پھیلانے کے لیے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا ہوا تھا، یہیں ختم کردیا جائے۔ یاد رکھو مسلمانو! اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو پتھروں کو موم کردیتا ہے۔ ہمارے مذہب کے بنیادی اصول انسانوں کی روح میں اتر جاتے ہیں کیونکہ یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔ حقوق العباد ایک ایسا اصول ہے جو صرف اسلام نے انسان کو دیا ہے۔ اسلام ایک نظریہ ہے صرف عقیدہ نہیں۔ صلیب کے علمبردار جانتے ہیں کہ اسلام کو فروغ کا موقع ملا تو کرۂ ارض پر پرچم رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقدس سائے تلے آجائے گا اور صلیب کا نام ونشان مٹ جائے گا۔ اسی لیے صلیبی اپنی تمام تر جنگی قوت لے کر یہاںآگئے ہیں۔ وہ علم وفضل کے اس سرچشمے کو بند کرنے آئے ہیں''…

''یہودیوں کے ساتھ ان کا سودا ہوا ہے کہ وہ بیت المقدس کو فتح کرکے ان کے حوالے کردیں گے تاکہ یہودی مسجد اقصیٰ کو جو ہمارا قبلہ اول ہے، ہیکل سلیمانی بنا لیں۔ یہ یہودیوں کا ایک پرانا خواب ہے جسے وہ عملی شکل میں لانے کو بے تاب ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنی بیٹیاں اور اپنی دولت صلیبیوں کے حوالے کردی ہے۔ ان دونوں چیزوں نے ہماری صفوں میں غدار پیدا کردئیے ہیں۔ تم سب تک صلاح الدین ایوبی کا پیغام پہنچا رہا ہوں۔ اسے اپنے دلوں پر نقش کرلو۔ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاسبان صلاح الدین ایوبی نے اپنی فوج کو اور قوم کو یہ بتا رکھا ہے کہ یہ دو فوجوں کی نہیں، دو مذہبوں کی جنگ ہے۔ یہ قبلہ اول اور ہیکل سلیمانی کی جنگ ہے۔ اگر ہم نے آج باطل کو ہمیشہ کے لیے ختم نہ کیا تو ایک روز باطل ہمارے مذہب کو ختم کردے گا۔ ہماری روحیں دیکھیں گی اور تاریخ دیکھے گی کہ فلسطین پریہودی قابض ہیں اور مسجد اقصیٰ ہیکل سلیمانی میں تبدیل ہورہی ہے''…

: ''حمص کے مسلمانو! تم صلاح الدین ایوبی کی فوج کے سپاہی نہیں ہو مگرا للہ کے سپاہی ہو۔ تم پر جہاد فرض کردیا گیا ہے۔ قرآن کا حکم ہے کہ اپنے وطن اور اپنے مذہب کے دفاع کے لیے گھوڑے اور اسلحہ تیار رکھو اور جہاد کی تیاری میں مصروف رہو… اور یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارے مذہب کا دشمن صرف میدان جنگ میں تمہارے خلاف نہیں لڑتا۔ اس کا ایک محاذ اور بھی ہے۔ وہ افواہوں کے ذریعے تم پر اپنی فوج کی دہشت اور اسلامی فوج کے خلاف وسوسے پیدا کرتا ہے۔ سرکردہ افراد کو حسین لڑکیوں اور سونے کی چمک دمک سے اپنا گرویدہ بناتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں انسان کی بہت بڑی کمزوری ہیں۔ ان میں جب شراب شامل ہوجاتی ہے تو مسلمان اپنا ایمان اپنے ایمان کے دشمن کے قدموں میں رکھ دیتا ہے۔ ایسا ہوچکا ہے اور ہورہا ہے۔ صلیبی ہمیں خانہ جنگی میں الجھا کر ہماری جنگی قوت کو کمزور کرچکے ہیں۔ یہ گناہ ان چند ایک امراء کا تھا جو صلیبیوں کے بڑے ہی دلکش جال میں آگئے تھے مگر ان کے گناہوں کی سزا قوم اور فوج کو اور سلطنت اسلامیہ کو ملی''…

''خانہ جنگی کرانے والے قوم اور فوج کو جذبات میں الجھا کر بڑھکاتے اور مرواتے ہیں اور خود اپنے محلات میں ان حرموں میں بدمست رہتے ہیں جنہیں صلیبیوں اور یہودیوں نے اپنی لڑکیوں سے رونق دی ہے۔ یاد رکھو، یہ ساری چٹانیں سونا بن جائیں اور تمہارے قدموں میں رکھ دی جائیں تو بھی یہ جہاد کا صلہ اور انعام نہیں بن سکتیں۔ جہاد کا انعام روح کو ملا کرتا ہے۔ روح زروجواہرات سے خوش نہیں ہوا کرتی۔ جہاد کا انعام خدا کا پاس ہے۔ تم اللہ کی راہ میں جان دے دو گے تو بھی زندہ رہو گے۔ یہ جسم کی ہی لعنت ہے، جس نے جسمانی لذت کو شعار بنایا۔ اس نے اپنے بھائی کا گلا کاٹا اور مرتد کہلایا۔ قرآن پاک تمہیں روحانی لذت سے سرشار کرتا ہے''۔

اور اس طرح اس خطیب نے حمص کے مسلمانوں کو روحانی لذت سے سرشار کررکھا تھا۔ جنگی تربیت اسی کی زیر نگرانی اور اسی کی ہدایات کے تحت ہوتی تھی۔ وہ خود تیغ اور خنجر زنی کاماہر تھا۔ حمص میں اس تربیت سے رونق رہتی تھی۔ قصبے میں تین مسجدیں تھیں، جہاں جہاد کی باتیں ہوتی تھیں مگر وہاں جو صلیبی اور یہودی رہتے تھے، وہ مسلمانوں کے ہمدرد بن کر حوصلہ شکن خبریں سناتے رہتے تھے۔ مسلمان اپنے خطیب اور اماموں سے ان خبروں کے متعلق پوچھتے اور بے قرار ہوتے رہتے تھے۔ خطیب نے حمص کے ایک جواں سال آدمی، تبریز کو اس مقصد کے لیے دمشق بھیج رکھا تھا کہ وہاں سے صحیح صورت حاصل معلوم کرکے آئے۔

٭ ٭ ٭

تبریز صحیح صورت حال معلوم کرکے حمص کو واپس جارہا تھا۔ اسے دمشق تک جانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ راستے میں ہی اس کا کام ہوگیا تھا۔ اس نے حماة سے بہت دور صلیبی فوج دیکھی تھی جو ایک جگہ پڑائو کیے ہوئے تھی۔ اس نے دور سے جھنڈوں سے پہچان لیا تھا کہ یہ صلیبی فوج ہے۔ پھر اسے دو شتر سوار ملے تھے جو مسلمان تھے۔ انہوں نے بھی اسے بتایا تھا کہ یہ صلیبیوں کی فوج ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ یہ فوج مسلمانوں کے ہاتھوں بہت زیادہ نقصان اٹھا کر آئی ہے۔ تبریز نے انہیں بتایا کہ وہ حمص سے یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ صلیبی فوج کہاں تک پہنچی ہے اور عرب کے کتنے علاقے فتح کرچکی ہے۔

''وہ پہاڑیاں تمہیں نظر آرہی ہیں''۔ شتر سواروں نے اسے بتایا تھا… ''یہی راستہ تمہیں ان پہاڑیوں کے اندر لے جائے گا۔ اپنی فوج وہیں ہے۔ دمشق بہت دور ہے۔ تم اپنی فوج کے کسی بھی آدمی سے پوچھ لینا، تمہیں سب کچھ معلوم ہوجائے گا۔ ہم اتنا ہی جانتے ہیں کہ رملہ میں لڑائی ہوئی تھی جس میں مسلمان نقصان اٹھا کر ادھر ادھر ہوگئے تھے، پھر صلیبیوں سے حماة کے قلعے کے قریب لڑائی ہوئی تھی جس میں صلیبی نقصان اٹھا کر بھاگے… تم آگے چلے جائو لیکن کسی صلیبی سپاہی کے قریب نہ جانا۔ اسے جونہی پتہ چلا تم مسلمان ہو، وہ تمہیں قتل کردے گا''۔

 سورج غروب ہونے کو تھا، جب وہ حماة کی پہاڑیوں سے گزر رہا تھا۔ ایک فراخ وادی تھی۔ آگے سے چند ایک سوار آرہے تھے۔ تبریز راستے سے ہٹا نہیں۔ ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آیا اور اسے غصے سے کہا کہ وہ راستے سے دور ہٹ جائے۔ ''سالار اعلیٰ آرہے ہیں''… تبریز ذرا سا الگ ہٹ گیا۔ سوار اسے اور پرے ہٹا رہا تھا۔ سالار اعلیٰ اور اس کے ساتھ کے سوار تیزی سے آرہے تھے۔ سالار اعلیٰ، سلطان ایوبی کا بھائی العادل تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کا محافظ ایک مسافر کے ساتھ بہت غصے سے بول رہا ہے اور مسافر شاید راستے سے ہٹ نہیں رہا۔ العادل قریب آکر رک گیا، تبریز کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور محافظ کے ساتھ کیوں جھگڑ رہا ہے۔

تبریز نے جواب دیا کہ وہ حمص سے یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کس حال میں ہے اور صلیبی فوج کو کتنی کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ حمص کے مسلمان جنگی تیاریوں میں مصروف رہتے ہیں اور وہ سلطان ایوبی کی فوج کا انتظار کررہے ہیں… ''ہماری بہنیں بھی جنگ کے لیے تیار ہیں اور ہمارے بچے اور بوڑھے بھی''۔

علی بن سفیان کا نائب حسن بن عبداللہ جو انٹیلی جنس کا ذمہ دار تھا، العادل کے ساتھ تھا۔ وہ تبریز کو بڑی غور سے دیکھ رہا تھا۔ تبریز جاسوس ہوسکتا تھا۔ اس کی سادگی بتا رہی تھی کہ وہ جاسوس نہیں لیکن شک لازمی تھا۔ جاسوس ظاہری طورپر اس سے زیادہ گنوار اور سادہ لگتے ہیں۔

''تمہارے خطیب کا نام کیا ہے؟'' حسن بن عبداللہ نے پوچھا۔

تبریز نے نام بتایا۔ اس وقت کی جو غیرمطبوعہ تحریریں موجود ہیں، ان میں یہ نام صاف نہیں۔ اس لیے اسے ہم خطیب کہیں گے۔ حسن بن عبداللہ نے العادل سے کہا کہ وہ اپنا آدمی ہے اور اس آدمی (تبریز) کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام جان فشانی سے کررہا ہے، تبریز کے خلاف جو شک پیدا ہوگیا تھا، وہ رفع ہوگیا۔ العادل کے حکم کے مطابق اسے مہمان کی حیثیت سے خیمہ گاہ میں بھیج دیا گیا، جہاں اس کی خاطر ومدارت کی گئی۔

رات حسن بن عبداللہ نے اسے اپنے خیمے میں بلایا اور خطیب کے نام یہ پیغام دیا… ''حالات دشوار ہیں لیکن اتنے نہیں جتنے آپ کو وہاں صلیبی بتا رہے ہیں۔ لوگوں سے کہو کہ سچ اسے سمجھیں جو ان کی آنکھوں کے سامنے ہو اور جو انہیں مسجد میں بتایا جائے۔ ادھر ادھر کی باتوں اور خبروں کو سچ نہ سمجھیں۔ آپ لوگ بڑے خطرناک علاقے میں ہیں۔ اپنی بستی کے صلیبیوں اور یہودیوں پر نظر رکھیں اور یہ بھی خیال رکھیں کہ وہ آپ کی سرگرمیوں پر نظر نہ ڈال سکیں، جنہیں آخر دم تک چھپائے رکھنا ہے''۔

حسن بن عبداللہ نے تبریز کو ایسا پیغام دیا جو حمص کے مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا تھا لیکن اسے یہ نہ بتایا کہ وہ کون سی سرگرمیاں ہیں جنہیں آخر دم تک چھپائے رکھنا ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ حمص کے مسلمانوں کو سلطان ایوبی کے حکم کے تحت جنگی تربیت دی جارہی تھی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب کبھی ضرورت پڑے، وہ صلیبی فوج پر عقب سے شب خون ماریں۔ ظاہری طورپر ان کے وفادار رہیں۔ اس مقصد کے لیے حمص میں تین چار تجربہ کار چھاپہ مار بھیج دئیے گئے تھے جو وہاں اپنے مطلب کی ٹرینگ دے رہے تھے۔ خطیب ان کا کمانڈر تھا۔ ان کے ساتھ ابھی باقاعدہ رابطہ نہیں رکھا گیا تھا، کیونکہ ابھی ان لوگوں کی ضرورت نہیں تھی۔

دوسری صبح تبریز حمص کو روانہ ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

وہ زمانہ قافلوں کی صورت میں چلنے کا تھا۔ لوگ اکیلے اکیلے بھی سفر کرتے تھے۔ ایسے اکیلے مسافروں کو جہاں چند آدمی سفر میں نظر آتے تھے، وہ ان سے جاملتے اور اس طرح قافلے بنتے اور بڑے ہوتے جاتے تھے۔ تبریز آیا اکیلا تھا۔ واپس جارہا تھا کہ اسے مختصرسا ایک قافلہ مل گیا جو حمص کی سمت جارہا تھا۔ اس میں حمص کے یہودی تاجر بھی تھے۔ دو عیسائی کنبے اونٹوں پر سوار تھے اور کچھ لوگ پیدل جارہے تھے۔ تبریز اس قافلے میں شامل ہوگیا۔ قافلہ چلتا گیا۔ راستہ لمبا تھا۔ دو راتیں قیام کرنا پڑا۔ تیسرا دن سفر کا آخری دن تھا۔ آدھی رات سے پہلے قافلے کو حمص پہنچ جانا تھا۔ آگے ایک دریا تھا۔ جو بہت بڑا نہیں تھا۔ اس کی گہرائی زیادہ سے زیادہ کمر تک رہتی تھی۔ لوگ اس میں آسانی سے گزر جایا کرتے تھے۔

سفر کے آخری روز کا سورج سر پر آیا تو افق سے سیاہ گھٹا اٹھتی نظر آئی۔ قافلہ اور تیز چلنے لگا تاکہ بارش سے پہلے منزل تک پہنچ جائے یا چٹانی علاقے میں پہنچ کر چھپنے کی جگہ ڈھونڈ لی جائے اور اگر ممکن ہو تو طغیانی آنے سے پہلے ہی دریا پار کرلیا جائے۔ یہ ان لوگوں کی حماقت تھی۔گھٹا کی رفتار قافلے کی نسبت زیادہ تھی اورگھٹا جانے کہاں سے برستی آرہی تھی۔ وہ تمام علاقہ چٹانی اور پہاڑی تھا۔ قافلہ دریا کے قریب پہنچا تو گھٹا دنیا کو تاریک کرچکی تھی اور مینہ ایسا موسلادھار برسنے لگا تھا کہ آنکھیں کھول کر چلنا ممکن نہ رہا۔ ایک بوڑھے عیسائی نے کہا کہ دریا چڑھ رہا ہے، ابھی گزر سکتے ہیں، فوراً پار ہوجائو۔

اس بوڑھے کے ساتھ والے اونٹ پر ایک جوان اور خوبصورت عیسائی لڑکی سوار تھی۔ قافلہ دریا کے کنارے پر پہنچ چکا تھا۔ اس کا پانی مٹیالا ہوگیا تھا اور اس کی روانی میں طغیانی والا جوش پیدا ہوگیا تھا۔گہرائی میں کوئی اضافہ معلوم نہیں ہوتا تھا۔ بارش بہت تیز تھی۔ گھٹا نے گہری شام کا منظر بنا رکھا تھا۔ سورج غروب ہونے کو ہی تھا۔ ایک آدمی نے گھوڑا دریا میں ڈال دیا۔ چند قدم آگے جاکر اس نے چلا کر کہا… ''آجائو، پیدل چلنے والے بھی آجائو، پانی گہرا نہیں''۔

یہ کسی نے بھی نہ دیکھا کہ شدید اور خطرناک طغیانی کا ریلا آرہا ہے۔ اوپر کی طرف بہت مینہ برسا تھا اور وہ پہاڑی علاقہ تھا جس کی طغیانی بہت ہی تیز ہوا کرتی تھی۔ اونٹ اور گھوڑے شاید اس خطرے کو محسوس کررہے تھے۔ یہی جانور بڑے آرام اور اطمینان سے دریا میں سے گزر جایا کرتے تھے مگر بارش میں وہ دریا میں بدک رہے تھے، حالانکہ پانی گہرا نہیں تھا۔ اچانک دریا بپھر گیا۔ اونچی اونچی لہریں کسی کو سنبھلنے کا موقع دئیے بغیر آگئیں۔ دریا کے کنارے ڈوب گئے۔ پانی گہرا ہوگیا۔ پیدل چلنے والے ڈوبنے لگے تو وہ تیرنے لگے۔ اونٹوں نے واویلا بپا کردیا۔ قافلہ دریا میں بکھر گیا۔ دوسرا کنارہ دور تو نہیں تھا لیکن طغیانی جو بڑھتی جارہی تھی، آگے جانے ہی نہیں دے رہی تھی، پھر قافلے والوں کو ایک دوسرے کاہوش نہ رہا۔

عیسائی لڑکی کی چیخ سنائی دی۔ تبریزک وہیں قریب تھا۔ اس نے چیخ سن لی اور یہ بھی دیکھ لیا کہ وہ اونٹ جس پر عیسائی لڑکی سوار تھی، طغیانی کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس کے پائوں اکھڑ گئے۔ طغیانی نے اسے گرا دیا۔ اس کی پیٹھ پر بیٹھی لڑکی دریا میں جاپڑی۔ طغیانی کا یہ عالم تھا کہ کبھی لہریںاوپر کو اٹھتی اور گرتی تھیں اور کبھی بھنور بن جاتی تھیں۔ شور اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو کسی کی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ اگر تبریز قریب نہ ہوتا تو لڑکی کی چیخ کوئی بھی نہ سن سکتا۔ وہ گھوڑے پر سوار تھا اورگھوڑا سیدھا تو نہیں جارہا تھا لیکن طغیانی کا مقابلہ کررہا تھا۔تبریز نے لڑکی کو پانی میں گرتے دیکھا تو اس نے گھوڑے کو دریا کے رخ میں ڈال دیا لیکن گھوڑااتنی تیزی سے تیر نہیں سکتا تھا۔

تبریز گھوڑے سے کود گیا اور بہت تیزی سے تیرتا لڑکی کے پیچھے گیا۔ ایک لہر نے لڑکی کو اوپر اٹھایا اور تبریز نے دیکھ لیا۔ طغیانی کا زور بھی تھا اور تبریز کے جوان بازوئوں کی قوت بھی تھی کہ اس نے تھوڑی ہی دورلڑکی کو جاپکڑا۔ وہ ابھی ڈوبی نہیں تھی لیکن وہ تیر بھی نہیں رہی تھی۔ تبریز کے لیے اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوگیا۔ اسی کوشش میں پانی انہیں بہت آگے لے گیا۔ تبریز نے اسے اپنے اوپر ڈالا اور کنارے کی طرف تیرنے لگا۔ لڑکی دوبارہ اس کی پیٹھ سے لڑھک گئی۔ وہ ہوش میں نہیں تھی، اگر تبریز کے جسم میں طاقت اور دل میں بے خوفی نہ ہوتی تو وہ لڑکی کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کی فکر کرتا۔ طغیانی کا زور اور اس کا شور حوصلے پست کررہا تھا۔

: جس جگہ سے قافلہ دریا میں اترا تھا، وہاں سے کم وبیش دو میل دور تبریز لڑکی کو سنبھالے کنارے سے جالگا، وہاں چٹانیں تھیں۔ بارش ابھی تھمی نہیں تھی۔ تبریز نے لڑکی کو ایک چپٹی چٹان پر لٹایا۔ وہ زندہ تھی، ہوش میں نہیں تھی۔ اسے معلوم نہیں تھا کہ بے ہوش کو کس طرح ہوش میں لایا جاتا ہے۔وہ لڑکی کو دیکھتا رہا۔ لڑکی بے ہوشی میں ازخودہی پیٹ کے بل ہوگئی۔ پیٹ پرزور پڑا تو منہ سے دریا کا پانی نکلنے لگا۔ تبریز نے اس کی کمر پر ہاتھ رکھ کر دبایا تو بہت سا پانی منہ کے راستے باہر نکل آیا۔ اس نے اور زور سے دبایا۔ پہلوئوں سے بھی پیٹ کو دبایا۔ اس سے لڑکی کا پیٹ پانی سے خالی ہوگیا۔

گھٹا پھٹنے لگی۔ بارش کا زور کم ہوگیا اور کچھ روشنی بھی ہوگئی۔ تبریز نے لڑکی کو سیدھا کیا۔ لڑکی نے ذرا سی آنکھ کھولی اور بند کرلی۔ تبریز کا جسم شل ہوچکا تھا۔ اس نے اپنا گھوڑا دریا میں چھوڑ دیا تھا۔ وہ دریا سے نکل گیا تبریز کو معلوم نہیں تھا کہ گھوڑے کا انجام کیا ہوا۔ تبریز کی تھکن کم ہوگئی تھی۔ سورج غروب ہونے کو تھا۔ اسے خیال آیا کہ رات آرہی ہے اور پناہ ڈھونڈنا ضروری ہے۔ اسے امید تھی کہ یہ چٹانی علاقہ ہے، اس میں کہیں نہ کہیں گٹ یا غار مل جائے گی۔ لمبی مسافت کے مسافر مٹی کے ٹیلوں اور ریتلی چٹانوں میں غاریں بنائے رکھتے تھے جو دوسرے مسافروں کے بھی کام آتی تھیں۔

اس نے لڑکی کو پیٹھ پر ڈالا اور دو چٹانوں کے درمیان چل پڑا۔ پناہ ملنے کا اسے یقین نہیں تھا، امید تھی۔ وہ دل میں خدا سے مدد مانگتا چلا جارہا تھا۔ کچھ ادھر ادھر گھومتے پھرتے، وہ ایک کشادہ سی جگہ جا پہنچا جہاں ایک چٹان کے ساتھ اسے تین چار اونٹ کھڑے نظر آئے۔ یہ کسی مسافر کے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ ان پر زینیں وغیرہ نہیں تھیں۔ اونٹوں تک گیا تو اسے آوازیں سنائی دیں۔ ادھر دیکھا تو چٹان میں اسے ایک فراخ اور اونچا دہانہ نظر آیا۔ اس میں تیرہ چودہ سال عمر کے دو لڑکے کھڑے تھے۔ وہ دونوں بارش میں دوڑے آئے۔

''تم دریا سے نکل کر آئے ہو؟'' ایک لڑکے نے پوچھا… ''وہاں آجائو، بہت اچھی جگہ ہے''۔

وہ جگہ واقعی بہت اچھی تھی۔ چٹان بھر بھری تھی۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ مسافروں نے یا قریب کہیں رہنے والے گڈریوں نے اسے کاٹ کاٹ کر کمرہ بنا دیا ہے۔ یہ ایک کشادہ گف تھی۔ اندر سے بالکل خشک تھی۔ لڑکوں نے وہاں آگ بھی جلا رکھی تھی۔ تبریز نے لڑکی کو فرش پر ڈال دیا۔ وہ ابھی تک ہوش میں نہیں آئی تھی۔ ایک طرف خشک گھاس اور درختوں کی خشک ٹہنیوں کا ڈھیر پڑا تھا۔

''تم یہاں کیا کررہے ہو؟'' تبریز نے لڑکوں سے پوچھا۔

''ہمارا گھر دریا کے پار ہے''۔ ایک لڑکے نے جواب دیا… ''ہم کبھی کبھی اونٹوں کو ادھر لے آتے ہیں۔ گھاس تو ادھر بھی بہت ہے لیکن ہم یہاں کھیلنے کے لیے آتے ہیں اور اونٹوں کو بھی چرنے چگنے کے لیے ساتھ لے آتے ہیں۔ ایک جگہ سے دریا چوڑا ہے، وہاں پانی ہمارے گھنٹوں تک ہوتا ہے۔ آج بھی ہم آگئے اور بارش شروع ہوگئی۔ یہیں آگ جلا کر کھیلتے رہے''۔

''گھر کس طرح جائو گے؟'' تبریز نے پوچھا… ''دریا چڑھا ہوا ہے''۔

 ''اس دریا کا زور زیادہ دیر نہیں رہتا''۔ ایک لڑکے نے بڑے اطمینان سے کہا… ''ہم جہاں سے گزرتے ہیں، وہاں طغیانی میں خطرہ نہیں ہوتا۔ پانی پھیلا جاتا ہے''۔

بارش تھم گئی تھی۔ سورج غروب ہورہا تھا۔ لڑکے اپنے اونٹوں کو لے کر چلے گئے۔ تبریز نے ان سے مدد نہ مانگی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ لڑکی کو اٹھا کر ان کے گائوں چلا جائے۔ لڑکوں کے جانے کے بعد اس نے آگ پر خشک ٹہنیاں پھینکیں۔ شعلہ اٹھا تو اس نے اپنا کرتہ اتارا جو گلے سے ٹخنوں تک لمبا تھا، اسے آگ پر خشک کرنے لگا۔ وہ دل میں شکر ادا کررہا تھا۔ خدا نے اسے ایسی طوفانی بارش میں ان لڑکوں کو آگ جلانے کے لیے بھیج دیا تھا۔ اس دوران لڑکی نے آنکھیں کھول دیں اس کے چہرے پر خوف کا تاثر نظر آیا۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا پھر تبریز کو دیکھا تو اس کا منہ دہشت سے کھل گیا۔ تبریز نے اپنا چغہ نما کرتہ اتار رکھا تھاا ور طغیانی کے مٹیالے اور گدلے پانی نے اس کے بالوں اور چہرے کو خوفناک بنا رکھا تھا۔

''ڈرو نہیں''۔ تبریز نے کہا… ''مجھے پہچانتی نہیں ہو؟ میں تمہارا ہم سفر تھا''۔

''مگر تم مسلمان ہو''۔ لڑکی اٹھ بیٹھی اوربولی… ''مجھے تم پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ مجھے جانے دو''۔

''جائو'' تبریز نے کہا… ''چلی جائو''۔

وہ اٹھی۔ اس سے چلا نہیں جارہا تھا۔گف کے باہر ایک قدم رکھا تو باہر تاریک رات کے سوا کچھ نظر نہ آیا۔ اندر آگ کی روشنی تھی۔ اس نے گھوم کر تبریز کو دیکھا جو ٹہنیوں کی آگ کی روشنی میں پراسرار سا انسان نظر آرہا تھا۔ وہ لڑکی کو دیکھتا رہا۔ لڑکی پائوں پرکھڑا نہ رہ سکی۔ ایک دو قدم آگے آکر گر پڑنے کے انداز سے بیٹھ گئی اور بے بسی سے تبریز کو دیکھنے لگی۔

''تمہاری نسبت مجھے وہ گھوڑا زیادہ عزیز تھا جسے میں نے دریا میں چھوڑا اور تمہیں ڈوبنے سے بچایا''… تبریز نے کہا۔

''میری قیمت بیس گھوڑوں سے زیادہ ہے''۔ لڑکی نے نقاہت زدہ آواز میں کہا… ''تم نے مجھ جیسی لڑکی کبھی نہیں دیکھی ہوگی۔ مجھے ذلیل وخوار کرکے بیچ ڈالو گے۔ تمہیں کون روک سکتا ہے''۔

''مجھے خدا روک سکتا ہے''۔ تبریز نے کہا… ''اور خدا نے مجھے روک رکھا ہے۔ یہ ایک معجزہ ہے کہ میں نے تمہیں اس طغیانی سے بچایا ہے، جس میں اونٹ اوندھا ہوگیا تھا۔ پھر یہ معجزہ نہیں تو اور کیا ہے کہ ہمیں سر پر یہ چھت اور جلتی ہوئی آگ مل گئی۔ میں نے خدا سے مدد مانگی تھی۔ خدا صرف ان کی مدد کرتا ہے جن کی نیت صاف ہوتی ہے۔ یہ آگ دو لڑکے جلا گئے ہیں، وہ فرشتہ تھے۔ میں اپنے مذہب کی روشنی میں بات کررہا ہوں۔ تم اس لیے ڈرتی ہو کہ تمہارا مذہب باطل ہے اور تم ا س لیے ڈرتی ہو کہ تمہاری نگاہ اپنے جسم پر ہے جو بہت دلکش ہے اور تمہاری نظر میں اپنا چہرہ ہے جو بہت حسین ہے۔ میری نگاہ میری اپنی روح پرہے جو تمہارے جسم سے زیادہ دلکش اور تمہارے چہرے سے زیادہ حسین ہے۔میں جانتا ہوں تھوڑی دیر بعد تم مجھے اپنا جسم پیش کرکے کہو گی کہ مجھے منزل پر پہنچا دو۔ کان کھول کر سن لو، میں اپنی روح کو ناپاک نہیں ہونے دوں گا۔ میرے دل میں یہ خرافات ڈالنے کی کوشش نہ کرو کہ میں نے تم جیسی لڑکی کبھی نہیں دیکھی ہوگی''۔

تبریز کے بولنے کے انداز میں کوئی ایسا تاثر تھا جس نے لڑکی کے ہونٹ سی دئیے اور وہ حیرت اور خوف سے بھری ہوئی آنکھوں سے تبریز کو دیکھ رہی تھی۔ تبریز کی باتوں میں جو خلوص اور عزم تھا، وہ صاف محسوس ہورہا تھا۔

''آگ کے قریب سرک آئو''۔ تبریز نے کہا… وہ کرتہ آگ پر خشک کررہا تھا۔ لڑکی یوں سرک کر آگ کے قریب ہوگئی جیسے اس میں حکم عدولی کی جرأت نہیں تھی۔ تبریز نے کرتے کا ایک سرا اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا… ''اسے پکڑو اور آگ کے اوپر رکھو''۔ اس نے کرتے کو دوسری طرف سے پکڑے رکھا اوردونوں کرتے کو آگ پر ہلانے جلانے لگے۔ لڑکی کے کپڑے بھیگے ہوئے تھے۔ ''کرتہ خشک ہوجائے تو تم پہن لینا، پھر تمہارے کپڑے خشک کرلیں گے''۔

''نہیں''۔ لڑکی نے گھبرا کر کہا… ''میں اپنے کپڑے نہیں اتاروں گی''۔

 ''تم اپنی کھال بھی اتار کر آگ پر رکھ دو گی''۔ تبریز نے کہا۔ ''میرے فرض کے راستے میں آنے کی کوشش نہ کرو لڑکی! میں تم پر ثابت کروں گا کہ وحشی مسلمان ہوتے ہیں یا عیسائی۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کتنی پاک دامن ہو۔ تم میری پناہ میں ہو۔ میں تمہیں کوئی سخت بات نہیں کرسکتا۔ تم عورت ہو۔ میرا مذہب حکم دیتا ہے کہ مجبور عورت پر ہاتھ نہ اٹھائو''۔

''تم نے مجھے کس طرح طغیانی سے نکالا تھا؟'' لڑکی نے پوچھا… ''کیا باقی لوگ پارہوگئے تھے؟''

تبریز نے اسے تفصیل سے بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ اسے باقی لوگوں کے متعلق بالکل معلوم نہیں۔ لڑکی کا ڈر دور نہ ہوا، کچھ کم ہوگیا تھا اور اس کی جسمانی حالت بھی اچھی ہوتی جارہی تھی۔ تبریز کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ اپنے بوڑھے باپ کے ساتھ حمص جارہی ہے۔ وہ دونوں اس علاقے سے نقل مکانی کرکے آرہے تھے جو مسلمانوں کی حکمرانی میں تھا۔ حمص میں ان کے رشتہ دار رہتے تھے۔ لڑکی اپنے باپ کے لیے پریشان تھی۔ قافلہ طغیانی میں سے نکل گیا تھا۔ کوئی کہیں جاکنارے لگا، کوئی کہیں جالگا۔ وہ ایک دوسرے کو پکارتے اکٹھے ہونے لگے۔ لڑکی اور تبریز ان میں نہیں تھے۔ وہ اونٹ بھی لاپتہ تھا جس پر لڑکی سوار تھی اور تبریز کا گھوڑا کنارے لگ گیا تھا۔وہ دور کھڑا تھا۔ قافلے کا ایک آدمی اسے پکڑ لایا اور سب نے یقین سے کہہ دیا کہ حمص کا اتنا خوبصورت جوان جو راستے میں قافلے سے ملا تھا، گھوڑے سے گر کر ڈوب گیا ہے۔ تبریز کا تو کسی کو دکھ نہیں تھا، لڑکی کے غم میں اس کا بوڑھا باپ، دو عیسائی اور ایک یہودی نڈھال ہوئے جارہے تھے۔ وہ آگے جانے کے بجائے دریا کے کنارے دور تک جانے کی سوچ رہے تھے۔ قافلے کے کچھ اور لوگ کہتے تھے کہ بے کار ہیں، وہ ڈوب گئی ہوگی۔ وہ چاروں سوارہوئے اور دریا کے ساتھ چل پڑے۔ اس وقت تبریز لڑکی کو طغیانی سے نکال چکا تھا اور اسے چپٹی چٹان پر لٹا کر اس کا پیٹ پانی سے خالی کررہا تھا، وہاں دریا کا موڑ تھا۔ چٹانیں بھی تھیں۔ اس لیے لڑکی کی تلاش میں آنے والے تبریز اور لڑکی کو دیکھ نہ سکے۔ وہ جب اس جگہ آئے، اس وقت تبریز لڑکی کو پیٹھ پر اٹھائے چٹانوں کے اندر چلا گیاتھا۔ تلاش کرنے والے آگے نکل گئے۔ وہ پھر واپس نہیں آئے۔ سورج غروب ہوگیا تو حمص کے راستے پر ہولیے۔

''اتنی قیمتی لڑکی ضائع کرنے پر انہوں نے ہمیں سزائے موت نہ دی تو ہم سمجھیں گے کہ وہ بہت ہی رحم دل ہوگئے ہیں''۔ بوڑھے نے کہا… ''کیا جواب دو گے کہ وہ کس طرح ڈوبی؟''

''کہہ دیں گے طغیانی میں اس نے من مانی کی''۔ یہودی نے کہا… ''کہتی تھی کہ الگ اونٹ پر دریا پار کروں گی۔ اس نے ضد کی اور طغیانی کا زور اسے ہم سے دور لے گیا… وہ دریا سے نکل آتی تو ہمیں مل جاتی۔ مرگئی ہے''۔

''جو جی میں آئے کہو''۔ ایک عیسائی نے کہا… ''ہماری یہ کوتاہی بخش بھی دی جائے تو کیا تم سب کو افسوس نہیں کہ اتنی کارآمد لڑکی ضائع ہوگئی ہے؟ دوسری لڑکی لاتے ایک مہینے سے زیادہ عرصہ لگے گا''۔

''میں نے کئی بار مشورہ دیا تھا کہ اس کام کے لیے دو لڑکیوں کی ضرورت ہے''۔ بوڑھے نے کہا… ''حمص کے مسلمان جوش سے پھٹے جارہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں رہا کہ وہ جو جنگی تربیت حاصل کررہے ہیں وہ کوئی جذباتی یا وقتی جوش نہیں۔ میں نے ان کی تربیت بہت غور سے دیکھی ہے۔ میرا تجربہ کہتا ہے کہ یہ شب خون اور چھاپے مارنے کی باقاعدہ تربیت ہے۔ میں نے اس کے چاروں استاد دیکھے ہیں۔ وہ قاہرہ سے بھیجے گئے ہیں یا دمشق سے اوروہ ماہر چھاپہ مار معلوم ہوتے ہیں''۔

 ''اگر یہ لوگ ہماری حکمرانی میں ہوتے تو ہم دیکھتے کہ یہ کس طرح جنگی تربیت لیتے ہیں''… ایک عیسائی نے کہا۔

''تم کیا سمجھتے ہو، یہاں یہ اپنی تربیت مکمل کرلیں گے؟''… یہودی نے کہا… ''ہم انہیں آپس میں ٹکرا دیں گے''۔

''اسی مقصد کے لیے میں اس لڑکی کو دمشق سے لارہا تھا''۔ بوڑھے نے کہا… ''حمص میں فساد پیدا کرنے کا کام مجھے سونپا گیا تھا۔ میں نے اس لڑکی کا نام لیا تھا۔ انہوں نے مجھے ہی حکم دیا کہ لڑکی کے باپ بن جائو اور حمص لے جائو۔ کوئی پوچھے تو بتائو کہ نقل مکانی کررہا ہوں''۔

رات کے اندھیرے میں وہ چلتے جارہے تھے اور اپنی اس خفیہ مہم کے متعلق باتیں کرتے جارہے تھے، جس کے لیے انہیں حمص جانا تھا۔ بوڑھا صلیبیوں کا تجربہ کار جاسوس تھا اور نفسیاتی تخریب کاری کا ماہر۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہہ رہا تھا… ''مسلمان تو ہر جگہ جنگی تربیت حاصل کرتے ہیں۔ دمشق میں نورالدین زنگی کی بیوہ لڑکیوں کو باقاعدہ جنگی تربیت دے رہی ہے۔ بستی بستی یہ جوش دیکھنے میں آیا ہے مگر حمص اور اس کے گردونواح کے علاقے کو ایسی اہمیت حاصل ہے کہ یہاں مسلمانوں کے چھاپہ ماروں کو اڈا نہیں ملنا چاہیے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ یہ صلاح الدین ایوبی کا ایک خفیہ منصوبہ ہے۔ اسے کامیاب نہیں ہونا چاہیے''۔

''حمص سرحد پر ہے''۔ یہودی نے کہا… ''اگر مسلمانوں نے یہاں اڈا بنا لیا تو ہمارے لیے خطرناک ہوگا۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ یہاں کے مسلمانوں کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے اور ان کے دلوں پر قبضہ کرلیا جائے''۔

''یہ ممک نظر نہیں آتا''۔ بوڑھے نے کہا… ''مجھے بتایا گیا ہے کہ ہمارے آدمیوں نے بہت افواہیں پھیلائی ہیں مگر مسلمان ان پر کان نہیں دھرتے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے خطیب کا ان پر بہت اثر ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جنگی تربیت اسی کی ہدایات کے مطابق ہورہی ہے۔ مجھے حمص نہیں جانا چاہیے تھا کیونکہ ہم لڑکی گم کر بیٹھے ہیں۔ میں اب اس لیے وہاں تک جانا چاہتا ہوں کہ خطیب کو دیکھوں کہ وہ کون ہے اور کیا وہ عالم ہے یا کوئی فوجی کماندار۔ یہ بھی دیکھنا ہے کہ اسے اپنے ہاتھ میں لیا جاسکتا ہے یا نہیں۔ مجھے اور تم سب کو حمص کے عیسائی اور یہودی گھرانوں میں سے ایک یا دو لڑکیوں کا انتخاب کرنا ہے جو اس مہم میں ہماری مدد کرسکیں۔ تم جانتے ہو لڑکیوں کو کیا کرنا ہے''۔

''میں نے تمہیں یہ دمشق میں بھی بتایا تھا کہ یہاں کے مسلمان ایمان کے پکے ہیں''۔ ایک عیسائی نے کہا… ''ابھی تک ہم کسی ایک کو بھی نہیں خرید سکے''۔

''میں ساری عمر اس دریا پر لعنت بھیجتا رہوں گا جس نے ہمیں ویرا سے محروم کردیا ہے''۔

٭ ٭ ٭

''میرا نام ویرا ہے''۔ لڑکی نے تبریز کے پوچھنے پر بتایا… ''ہم غریب لوگ ہیں۔ مسلمانوں نے دمشق میں ہمارا جینا محال کردیا تھا۔ خدا غریب کی بیٹی کو حسن نہ دے۔ بڑے بڑے امیر مجھے خریدنے کی کوشش کرتے تھے۔ ایک نے تو مجھے اغوا کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ میرا باپ مجھے قاضی کے پاس لے گیا۔ اس نے ہماری فریاد سن لی اور میری حفاظت کا انتظام کردیا مگر وہاں حکومت مسلمانوں کی تھی۔ ہم ڈرتے رہے۔ میرے باپ نے یہی بہتر سمجھا کہ دمشق سے نکل ہی جائیں۔ حمص میں ہمارے رشتے دار ہیں۔ اب ہم ان کے پاس جارہے تھے۔ معلوم نہیںمیرا باپ زندہ ہوگا یا نہیں… کیا تم ایک مظلوم اور مجبور لڑکی پر رحم نہیںکرو گے؟''

: ''رات گزرتی جارہی تھی۔ بوڑھا عیسائی جسے ویرا اپنا باپ کہتی تھی، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت دور نکل گیا تھا''۔

''میرا جامہ خشک ہوگیا ہے''۔ تبریز نے کرتہ اس کی طرف پھینکتے ہوئے کہا… ''میں باہر نکل جاتا ہوں۔ اٹھو اپنے کپڑے اتارو اور یہ پہن لو۔ تمہیں سر سے پائوں تک ڈھانپ لے گا، پھر اپنے کپڑے خشک کرکے پہن لینا''۔

''میں تمہارے ہاتھ میں مجبور ہوں''۔ ویرا رندھی ہوئی آواز میں بولی… ''میرے ساتھ اس درندے کا سا سلوک نہ کرو جو شکار کو مارنے سے پہلے اس کے ساتھ کھیلتا ہے''۔

''میں کہہ رہا ہوں یہ بھیگے ہوئے کپڑے اتار دو''۔ تبریز نے غصے سے کہا اور باہر کو چل پڑا۔

ویرا نے اسے باہر جاتے اور ایک طرف ہوتے دیکھا۔ وہ اوٹ میں ہوگیا جہاں سے ویرا کو نظر نہیں آتا تھا۔ ویرا نے ذرا آگے ہوکر دیکھا۔ وہ گف کی طرف پیٹھ کیے کھڑا تھا۔ آگ اتنی زیادہ تھی کہ روشنی تبریز کی پیٹھ پر پڑ رہی تھی۔ ویرا نے اپنے فراک کے اندر ہاتھ ڈالا۔ اس نے اندر کمر کے گرد کپڑا لپیٹ رکھا تھا۔ اس نے کپڑے میں خنجر اڑسا ہوا تھا۔ ویرا نے خنجر نکال لیا وہ دبے پائوں آگے بڑھی۔ تبریز بے خبر کھڑا تھا۔ ویرا اس سے ایک قدم دور رہ گئی تو اس نے خنجر دائیں طرف کرکے پہلو میں گھونپنے کووار کیا۔ تبریز بجلی کی تیزی سے گھوما اور لڑکی کے دائیں ہاتھ کی کلائی اتنی زور سے مروڑی کہ لڑکی گھوم گئی اور اس کے ہاتھ سے خنجر گر پڑا۔

تبریز کے بچنے کا باعث یہ تھا کہ وہ جہاں کھڑا تھا، وہاں سے چند ہی قدم آگے ایک اور چٹان تھی۔ آگ تبریز کے پیچھے تھی۔ تبریز کو سامنے والی چٹان پر اپنا سایہ نظر آیا۔ اس نے پیچھے نہ دیکھا کیونکہ سائے کا دایاں بازو دائیں کو پھیلا تو اسے خنجر کا سایہ صاف نظر آگیا۔ ویرا پہلو میں وار کرکے پیٹ چاک کرنا چاہتی تھی۔ سائے کی حرکت دیکھ کر تبریز پیچھے گوما اور لڑکی کی کلائی پکڑ لی۔ خنجر گرا تو اس نے ویرا کی کلائی چھوڑ کر خنجر اٹھالیا۔ اس نے نوک لڑکی کی طرف کی تو وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور ہاتھ جوڑ کر التجا کی… ''جو کہو گے مانوں گی، مجھے قتل نہ کرنا''۔

''میں اس کے سوا تمہیں کچھ نہیں کہوں گا کہ یہ کپڑے اتار دو اور میرا کرتہ پہن لو''… تبریز نے حکم کے لہجے میں کہا… ''تم نے دیکھ لیا ہے کہ تم مجھے قتل نہیں کرسکتیں۔ میری آنکھیں آگے ہیں، کھونپڑی کے پیچھے نہیں، یہ میری روح کی آنکھیں ہیں جن سے میں نے تمہیں دیکھ لیا تھا… کیا میں اپنے سامنے تمہارے کپڑے نہیں اتروا سکتا؟ میں تمہیں کپڑوں کے بغیر نہیں دیکھنا چاہتا''۔

وہ ایک دفعہ پھر وہیں جاکھڑا ہوا۔ ویرا گف کے ایک کونے میں چلی گئی۔ اس نے بڑی تیزی سے اپنا فراک اتارا، پھر زیرجامہ بھی اتار دیا اور تبریز کا کرتہ پہن لیا جس میں وہ گردن سے پائوں تک مستور ہوگئی۔ اس نے تبریز کو آواز دے کر کہا… ''آجائو''۔

تبریز اندرآگیا۔ ویرا کا فراک اٹھا کر ایک طرف سے اس کے ہاتھ میں دیا ور آگ پر خشک کرنے لگا۔ ویرا اسے کنکھیوں سے دیکھتی رہی تھی۔ تبریز نے اس سے کوئی بات نہ کی۔ ویرا کو اس کی خاموشی پریشان کررہی تھی۔ اس کا دل مان نہیں رہا تھا کہ یہ جوان آدمی اسے بخش دے گا۔ اب تو خنجر بھی اس جوان کے پاس تھا… وہ خاموشی سے کپڑے خشک کرتے رہے۔ جب خشک ہوگئے تو تبریز لڑکی کو یہ کہہ کر باہر نکل گیا کہ یہ پہن لو۔ لڑکی نے ایک بار پھر ڈرتے ڈرتے کپڑے بدلے اور تبریز کو اندر بلا لیا۔

''یہ خنجر اپنے پاس رکھو''… تبریز نے خنجر اس کی طرف پھینک کر کہا… ''اور سوجائو، صبح روانہ ہوں گے''۔

''تم مجھے دھوکہ دے رہے ہو''… ویرا نے کہا… ''یا تم بے حس اور مردہ انسان ہو''۔

جاری ھے



 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں