داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 111 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 111

: صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔111جب فرض نے محبت کا خون کیا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے۔ مگر قاہرہ میں یہ پراپیگنڈہ بہت تیزی سے بڑھتا جارہا تھا کہ اپنی فوج بدکار اور عیاش ہوگئی ہے اور رملہ کی شکست اسی کی سزا ہے۔ قاہرہ کی انٹیلی جنس کو یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ یہ پراپیگنڈہ کہاں سے اٹھ رہا ہے۔ کیا یہ نئے سپاہیوں کی غیرمحتاط باتوں کا نتیجہ ہے یا دشمن کے باقاعدہ ایجنٹ سرگرم ہیں؟ یہ بھی دیکھا گیا کہ لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے ہچکچاتے تھے۔ اس شکست سے پہلے مصریوں کا رویہ یہ نہیں تھا علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے اپنے مخبروں اور جاسوسوں کا جال بچھا دیا مگر اس کے سوا کچھ پتہ نہیں چلتا تھا کہ لوگ فوج کو بدنام کررہے ہیں۔ سلطان ایوبی کے خلاف بھی باتیں سنی سنائی جانے لگی تھیں۔

وہ سیاہ ریش سفید پوش جو دو بیٹیوں کے ساتھ ایک گائوں میں ٹھہرا تھا، وہیں کا ہوکے رہ گیا۔ گائوں والوں نے اسے ایک مکان دے دیا تھا۔ اس نے کھلی محفل میں بیٹھنے اور باتیں کرنے سے پرہیز شروع کردیا تھا کہ اسے مصریوں کے گناہ معاف کرانے کے لیے تین ماہ کا چلہ کرنا ہے۔ وہ اب مکان سے باہر تھوڑی سی دیر کے لیے نکلتا، خاموش رہتا، حاضرین کو ہاتھ لہرا کر سلام کرتا اور اندر چلا جاتا تھا۔ اس کے خاص مصاحبوں میں وہی سپاہی تھے جو اس کے ساتھ آئے تھے اور دو وہ آدمی تھے جنہوں نے ٹیلوں کے علاقوں میں اس کے آگے سجدہ کیا تھا۔ ان سب نے اس کی اتنی تشہیر کردی تھی کہ دور کے لوگ بھی اس کی جھلک دیکھنے کو پہنچ جاتے تھے۔

٭ ٭ ٭

ایک شام علی بن سفیان کا ایک جاسوس اپنی خفیہ ڈیوٹی پر قاہرہ کے مضافات میں کسی بہروپ میں گھوم پھر رہا تھا۔ شام ہوگئی۔ وہ نماز پڑھنے کے لیے ایک مسجد میں چلا گیا۔ نماز کے بعد امام نے دعا مانگی۔ دعا ختم ہوئی تو ایک نمازی نے رملہ کی شکست کی بات شروع کردی۔ اس نے سلطان ایوبی کی فوج کے خلاف وہی باتیں کیں جو سیاہ ریش نے کی تھیں۔ اس نمازی نے سیاہ ریش کا حوالہ اس طرح دیا کہ وہ غیب دان ہے اور جنات اسے رزق پہنچاتے ہیں۔ اس نے سفر کی پوری روئیداد سنائی اور بتایا کہ کس طرح غیب سے انہیں پانی اور کھجوریں ملی تھیں۔ تمام نمازی انہماک سے اس کی باتیں سنتے رہے۔ اس نے بات ختم کی تو نمازیوں نے اس سے اس قسم کی باتیں پوچھنی شروع کردیں… ''وہ مرادیں پوری کرتا ہے؟… لاعلاج مریضوں کو شفا دیتا ہے؟… آنے والے وقت کا حال بتاتا ہے؟… اولاد دیتا ہے؟''

سنانے والے نے انہیں بتایا کہ ابھی وہ سب کو یہی ایک بات بتاتا ہے کہ سلطان ایوبی اور اس کی فوج میں فرعونوں والی خصلتیں پیدا ہوگئی تھیں اور شکست کی وجہ یہی ہے اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ نہ خود فوج میں بھرتی ہونا، نہ کسی کو ہونے دینا، ورنہ نقصان اٹھائو گے کیونکہ گناہوں کی سزا کا ابھی وقت پورا نہیں ہوا اور یہ بھی کہ وہ تین ماہ کا چلہ کررہا ہے۔ اس کے بعد وہ بتائے گا کہ مصر والوں کے گناہ بخشے گئے ہیں یا نہیں۔

یہ آدمی مسجد سے نکل کر گائوں سے باہر کو چل پڑا۔ علی بن سفیان کا جاسوس اس کے پیچھے گیا اور اس سے پوچھا کہ وہ اس عالم سے کس طرح مل سکتا ہے۔ اس نے اپنا مدعا یوں بیان کیا… ''میں فوج میں ہوں۔ تمہاری باتیں سن کر میرے دل میں یہ ڈر پیدا ہوگیا ہے کہ اپنی فوج کے گناہوں کی سزا مجھے بھی ملے گی۔ میں بھی دمشق اور حلب کے محاذوں پرگیا تھا۔ میں نے بھی وہی گناہ کیے ہیں جن کا ذکر تم کررہے ہو۔ مجھے اس عالم بزرگ کے پاس لے چلو۔ اگر وہ کہے گا کہ فوج سے بھاگ جائو تو بھاگ جائوں گا۔ وہ جو خدمت کہے گا، کروں گا۔ میں خدا کے قہر سے ڈرتا ہوں''… اس نے اتنی منت سماجت کی کہ اس کے آنسو نکل آئے۔

''میرے ساتھ چلو''۔ اس آدمی نے کہا… ''لیکن کسی سے ذکر نہ کرنا کہ تم اس کے پاس گئے تھے۔ وہ آج کل چلے میں ہے، کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا۔ وہ جو پوچھے صرف اس کا جواب دینا، فالتو بات نہ کرنا''۔

''تم اسی گائوں کے رہنے والے ہو؟''۔ جاسوس نے پوچھا… ''تم نے بتایا تھا کہ تم رملہ کے محاذ سے آئے ہوئے سپاہی ہو''۔

''اسی لیے تو میں قرآن پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ یہ بزرگ خدا کے مصاحبوں میں سے ہے''۔ سپاہی نے کہا… ''میں نے میدان جنگ کا قہر دیکھا ہے اور میں نے سفر کا قہر بھی دیکھا ہے لیکن اس بزرگ نے ریگزار کو گلزار بنا دیا تھا۔ میں اب فوج میں واپس نہیں جارہا''۔

گائوں دور نہیں تھا۔ وہ باتیں کرتے پہنچ گئے۔ رات گہری ہوچکی تھی۔ سپاہی نے جاسوس کو اندھیرے میں کھڑا رہنے کو کہا اور اس مکان میں چلا گیا جہاں سیاہ ریش سفید پوش رہتا تھا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا۔ سپاہی نے کہا کہ وہ پیچھے والے دروازے سے اندر چلا جائے۔ وہ خود اس کے آگے آگے چل پڑا اور دونوں دروازے میں داخل ہوگئے۔ ڈیوڑھی سے گزرے، صحن سے گزرے اور ایک کمرے میں داخل ہوگئے۔ صحن میں روشنی تھی دونوں لڑکیاں جنہیں سیاہ ریش نے اپنی بیٹیاں بتایا تھا، ایک اور کمرے میں تھی۔ انہیں جب صحن میں قدموں کی آہٹ سنائی دی تو دونوں نے دریچے کا کواڑ ذرا سا کھول کر دیکھا۔ ایک لڑکی اتنی چونکی کہ اس کے منہ سے ''اوہ'' نکل گئی۔

''کیا ہوا؟'' دوسری لڑکی نے پوچھا… ''کون ہے یہ؟''

''شاید مجھے دھوکہ ہوا ہو''۔ اس نے جواب دیا… ''میں نے اس شخص کو کہیں پہلے بھی دیکھا ہے''… اور وہ گہری سوچ میں کھو گئی۔

جاسوس نے کمرے میں جاکرسیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا۔ اس کے پائوں پر ماتھا رگڑا۔ وہ فرش پر دری بچھا کر بیٹھا ہوا تھا۔ جاسوس نے گڑگڑا کر التجا کی کہ اسے گناہوں کی بخشش دلائی جائے۔ اس نے وہی باتیں کیں جو وہ سپاہی کے ساتھ کرچکا تھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیاہ ریش نے اپنی تسبیح اس کے سر پر پھیری اور مسکرا کر اس کے سر پر ہاتھ رکھا۔

''اس سے میری تسکین نہیں ہوگی''۔ جاسوس نے آنسو بہاتے ہوئے کہا… ''اپنی زبان سے مجھے تسکین دیں۔ مجھے کوئی حکم دیں جو میں بجا لائوں۔ مجھے حکم دیں کہ میرا جو ایک ہی بچہ ہے، اسے آپ کے قموں میں ذبح کردوں۔ مجھے حکم دیں کہ سلطان ایوبی کو قتل کردو تو میں آپ کا یہ حکم بھی بجا لائوں گا۔ کچھ بولیں۔ کچھ کہیں پھر دیکھیں میں کیا کرتا ہوں''۔

ایک اور آدمی اندر آگیا تھا اور وہ جاسوس کی باتیں غورسے سن رہا تھا ور اسے بڑی گہری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے جاسوس سے کہا… ''تم اتنے بیزار اور بے تاب کیوں ہوئے جارہے ہو؟ تم اب مرشد کے سائے میں آگئے ہو''۔

''میرے گناہ اتنے گھنائونے ہیں جو مجھے راتوں کو سونے بھی نہیں دیتے''۔ جاسوس نے کہا… ''میں نے حماة کے قریب ایک گائوں میں ایک مسلمان گھرانے کی لڑکی کو اغوا کرنے کے لیے لڑکی کے جوان بھائی کو قتل کردیا تھا اگر میں فوج میں نہ ہوتا تو مجھے جلاد کے حوالے کردیا جاتا لیکن مجھے کسی نے پوچھا تک نہیں''۔

سیاہ ریش نے آنکھیں بند کرلیں۔ اس کے ہونٹ ہل رہے تھے۔ اس نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے پھر جاسوس کی طرف اشارہ کیا۔ ذرا دیر بعد وہ مسکرایا اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ جاسوس سے کہا… ''بہت مشکل سے تمہارے ساتھ بات کرنے کی اجازت لی ہے۔ غور سے سنو۔ ہم تمہارے گناہ بخشوا دیں گے۔ تم کل پھر یہاں آئو۔ کسی کے ساتھ ذکر نہ کرنا، ورنہ تمہارے خاندان کا انجام بہت خوفناک ہوگا۔ یہ آدمی (سپاہی) تمہیں گائوں سے باہر ملے گا اور میرے پاس لے آئے گا۔ تمہارے ماتھے پر لکھا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے جائیں گے بلکہ تمہیں اور تمہارے خاندان کا اتنا رزق حلال ملے گا جو تم نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا۔ اب چلے جائو، کل آجانا''۔

: سیاہ ریش پھر مراقبے میں چلا گیا۔ سپاہی نے اور دوسرے آدمی نے جاسوس کو اٹھایا اور صحن میں لے جاکر اسے سیاہ ریش کی ایسی معجزہ نما باتیں سنائی جنہوں نے جاسوس کو مسحور کرلیا۔ دونوں لڑکیاں دریچے کے کواڑ کی اوٹ سے اسے دیکھ رہی تھیں، جو لڑکی اسے پہلی بار دیکھ کر چونکی تھی، اس نے دوسری لڑکی سے کہا… ''اسے میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے۔ یہ دھوکہ نہیں، وہی ہے، وہی ہے''۔

''یہ وہی معلوم ہوتا ہے جو ہم پہلے بھی پکڑ چکے ہیں''۔ یہ جاسوس اپنے محکمے کے حاکم اعلیٰ علی بن سفیان کو بتا رہا تھا… ''وہی مراقبہ، چلہ، جنات اور لوگوں کے جذبات کو قبضے میں لے کر ان پر اپنا جادو چلانا۔ اپنی فوج کا جو سپاہی مجھے اس کے پاس لے گیا تھا۔ وہ صرف فوج کے خلاف باتیں کرتا تھا۔ وہ اس قسم کی باتیں مسجد میں نمازیوں کے ساتھ کررہا تھا۔ اس نے میرے ساتھ جو باتیں کیں، ان سے پتہ چلتا تھا کہ اس کے اور بھی کئی ساتھی ہیں اور وہ مسجدوں میں جاکر نمازیوں کو فوج کے خلاف اکساتے ہیں۔ محاذ کی چھوٹی جھوٹی باتیں سناتے ہیں اور زور اس پر دیتے ہیں کہ فوج میں بھرتی ہونا گناہ ہے''۔

''انہیں ایسی باتیں مسجدوں میں ہی کرنی چاہئیں''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''مسجد میں کہی ہوئی بات کو لوگ وحی کا درجہ دیتے ہیں۔ لوگ جذبات کے غلام ہیں۔ اسی کو مرشد مان لیتے ہیں جو ان کے جذبات کو پہلے بھڑکائے پھر الفاظ میں ان کی تسکین کردے… تم کل پھروہاں جائو۔ مجھے وہ گائوں اور مکان سمجھا دو۔ ادھر ادھر دیکھ کر زیادہ سے زیادہ معلومات لانے کی کوشش کرنا۔ تمہاری لائی ہوئی اطلاع کے بعد ہم وہاں چھاپہ ماریں گے''۔

''مجھے ڈر ہے کہ چھاپے سے وہاں کے لوگ مشتعل ہوجائیں گے'' جاسوس نے کہا… ''سپاہی نے بتایا تھا کہ گائوں کا بچہ بچہ اس کا مرید ہوچکا ہے اور دور دور سے لوگ اس کی زیارت کے لیے آتے ہیں''۔

''ہمیں لوگوں کے ساتھ نہیں چلنا'' علی بن سفیان نے کہا… ''لوگوں کے جذبات کا خیال صرف وہ حکمران رکھا کرتے ہیں جو ان پر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ ایسے حکمران لوگوں کے جذبات سے کھیلا کرتے ہیں، تاکہ رعایا خوش رہے اور اس کے آگے سجدے کرے۔ ہمیں سلطنت اسلامیہ اور انہیں لوگوں کے وقار کا تحفظ کرنا ہے۔ ہم ان لوگوں کو حقیقت دکھائیں گے۔ ہم انہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کا غلام اور مرید نہیں بنانا چاہتے۔ ہم انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ اسلام کے پاسبان تم بھی اتنے ہی ہو جتنا تمہارا سلطان ہے۔ ہم انہیں اسلام کا دشمن دکھائیں گے۔ ہم قوم پر جذبات پرستی کا نشہ طاری کرکے اسے سلانا نہیں چاہتے، قوم کو حقائق کے جھٹکے دے کر جگانا ہے… تم جاکر وہ بھی دیکھو جو تمہیں ابھی نظر نہیں آیا''۔

جاسوس کے وہاں جانے کا وقت رات کا تھا۔ علی بن سفیان نے بھیس بدلا اور اس گائوں میں چلا گیا۔ اس نے مکان بھی دیکھ لیا اور اس نے لوگوں کی عقیدت مندی کی بے تابیاں بھی دیکھ لیں۔ لوگوں کی باتیں بھی سنیں۔ فوج کے خلاف طوفان اٹھایا جارہا تھا۔ علی بن سفیان نے مکان کے پچھواڑے کو دور سے دیکھا۔ وہاں چھوٹا سا ایک دروازہ تھا جو بند تھا۔ وہاں درخت تھا ور دائیں بائیں دو مکانوں کے پچھواڑے تھے۔ اس طرف کوئی انسان نہیں تھا۔ ہجوم مکان کے سامنے تھا۔ دروازہ کھلا اور ایک سفید ریش آدمی پرانے سے چغے میں ملبوس دروازے سے نکلا۔ علی بن سفیان اوٹ میں ہوگیا۔ اس نے کھلے ہوئے دروازے میں ایک خوبصورت اور جوان لڑکی کو کھڑے دیکھا۔ لڑکی نے فوراً دروازہ بند کردیا۔

: سفید ریش آدمی ہاتھ میں لاٹھی لیے جھکا جھکا گائوں سے نکل گیا۔ علی بن سفیان اسے دیکھتا رہا۔ دور جاکروہ رک گیا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ایک طرف سے ایک گھوڑ سوار آیا۔ سفید ریش آدمی گھوڑے پر سوارہوگیا اور قاہرہ کی طرف چلا گیا۔ جو آدمی گھوڑا لایا تھا، وہ گائوں کی طرف چلا گیا۔ علی بن سفیان اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور سفید ریش سوار کے پیچھے گیا مگر فاصلہ رکھا۔ سفید ریش نے کئی بار پیچھے دیکھا۔ علی بن سفیان اس کے پیچھے جاتا رہا۔ آگے جاکر سفید ریش نے قاہرہ کے راستے کے بجائے گھوڑا دوسرے راستے پر ڈال دیا۔ رفتار معمولی تھی۔ علی بن سفیان نے بھی گھوڑا اسی راستے پر ڈال دیا۔

قاہرہ شہر نظر آرہا تھا۔ دور نہیں تھا۔ ادھر ادھر ایک ایک دو دو جھونپڑے یا خیمے نصب تھے۔ کہیں خانہ بدوشوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ سفید ریش سوار نے کئی راستے بدلے اوروہ پیچھے دیکھتارہا۔ علی بن سفیان اس کے پیچھے رہا۔ سفیدریش کی بے چینی صاف ظاہر ہونے لگی تھی۔ آخر اس نے قاہرہ کا رخ کرلیا اورگھوڑے کی رفتار ذراتیز کرلی۔ علی بن سفیان نے بھی باگوں کو جھٹکا دیا۔ ہلکی سی ایڑی لگائی اور گھوڑے کی چال بدل کر تیز ہوگئی۔ فاصلہ پندرہ بیس قدم رہ گیا۔ وہ اب شہر میں تقریباً داخل ہوچکے تھے۔ سفید ریش سوار نے گھوڑا روک لیا اور علی بن سفیان کے راستے میں ہوگیا۔ علی بن سفیان نے بھی گھوڑا اس کے قریب جاکر روکا۔

''تم کوئی راہزن معلوم ہوتے ہو''۔ سفید ریش سوار نے کہا اور خنجر نکال لیا۔ بولا… ''میرا پیچھا کیوں کررہے ہو''۔

علی بن سفیان نے دیکھا کہ اس کی سفید داڑھی سے اس کی عمر ستر برس سے اوپر لگتی تھی مگر چہرہ، آنکھیں اور دانت بتاتے تھے کہ چالیس سے بہت کم ہے۔ علی بن سفیان بھی بہروپ میں تھا۔ اس نے اپنے کمر بند سے سوا گز لمبی تلوار لٹکا رکھی تھی جو اس کے چغے میں چھپی ہوئی تھی۔ اس نے بجلی چمکنے جیسی پھرتی سے تلوار نکال لی۔

''داڑھی اتار دو''۔ اس نے سفید ریش کے پہلو میں تلواررکھ کر کہا… ''اور میرے آگے آگے چل پڑو''۔ سفید ریش کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ علی بن سفیان نے تلوار کی نوک اس کی کنپٹی پر رکھ کر داڑھی میں الجھائی اور جھٹکا دیا، وہاں سے داڑھی چہرے سے الگ ہوگئی۔ آدھا چہرہ ننگا ہوگیا۔ علی بن سفیان نے اپنی داڑھی اتار دی اور بولا… ''ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتے ہیں، چلو چلیں''۔

وہ شہری انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ حاکم تو نہیں تھا لیکن چھوٹا اور غیراہم بھی نہیں تھا۔ مصر کا رہنے والا تھا۔ اس کے متعلق علی بن سفیان تک یہ اطلاعیں پہنچی تھیں کہ معزول کی ہوئی عباسی خلافت کا زمین دوز کارندہ ہے۔ اس خلافت کو جس کی گدی قاہرہ میں تھی۔ سلطان ایوبی نے سات آٹھ سال پہلے ختم کردیا تھا۔ خلیفہ العاضد تھا جس نے حشیشین، صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کررکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی مرحوم کے ساتھ بات کرکے اس خلافت کو معزول کیا اور امارت مصر کو خلافت بغداد کے تحت کردیا تھا۔ معزول شدہ خلافت عباسیہ کے پیروکار ابھی تک زمین دوز کارروائیوں میں مصروف تھے۔ رملہ کی شکست ان کے لیے زریں موقع تھا، چنانچہ سلطان ایوبی اور اس کی فوج کو بدکار، عیاش، ٹیری اور شکست کا ذمہ دار ثابت کرنے کی مہم میں عباسی خفیہ طریقوں سے سرگرم ہوگئے تھے۔

علی بن سفیان نے اس آدمی کو حراست میں لے لیا اور اپنے اس قید خانے میں جابند کیا، جہاں وہ ملزموں سے ابتدائی تفتیش کیا کرتا تھا۔ علی بن سفیان کا جاسوس رات کو سیاہ ریش بزرگ کے بتائے ہوئے وقت پر گائوں کے باہر جاکھڑا ہوا۔ گزشتہ رات والا سپاہی اسے لینے آگیا۔ سپاہی نے اسے کوئی نئی ہدایات دیں اور ساتھ لے گیا۔ وہ پچھلے دروازے سے اندر گیا مگر جاسوس کو گزشتہ رات والے کمرے کے بجائے ایک اورکمرے میں لے گئے۔ اسے کمرے میں سیاہریش بزرگ نظر نہ آیا، وہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ دروازہ بند ہوا تو اس نے دروازے کی طرف دیکھا۔ سپاہی بھی باہر نکل گیا تھا۔ اس نے دروازے کو ہاتھ لگایا تو اسے پتہ چلا کہ دروازہ باہر سے بند کردیا گیا ہے۔ اس کمرے کی نہ کوئی کھڑکی تھی، نہ روشن دان۔ وہ سمجھ گیا کہ اسے پہچان لیا گیا ہے اور اسے پکڑ لیا گیا ہے۔ فرارممکن نہیں تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ کیا کرے۔

: خاصی دیر بعد دروازہ کھلا۔ ان لڑکیوں میں سے ایک اندر آئی، جنہیں سیاہ ریش نے اپنی بیٹیاں بتایا تھا۔ وہ اب مستور نہیں تھی لیکن یورپی لڑکیوں کی طرح عریاں بھی نہیں تھی۔ اس کا لباس عرب کی مسلمان لڑکیوں جیسا تھا۔ نقش ونگار عرب اور یورپ کے ملے جلے تھے۔ وہ ا ندر آئی تو باہر سے کسی نے دروازہ بند کرکے زنجیر چڑھا دی۔ کمرے میں قندیل جل رہی تھی۔ جاسوس نے لڑکی کو دیکھا تو اس کی آنکھیں جیسے حیرت سے ساکن ہوگئی ہوں۔ لڑکی مسکرا رہی تھی۔

''پہچاننے کی کوشش کررہے ہو؟''… لڑکی نے کہا… ''اتنی جلدی بھول گئے؟ تم میرے شہر سے بچ کر نکل آئے تھے، مگر اپنے شہر میں آکر میرے قیدی بن گئے۔ اب نہیں نکل سکو گے''۔

جاسوس نے لمبی آہ بھری جس میں سکون بھی تھا، اضطراب بھی۔ اسے تین سال پہلے کے وہ دن یاد آگئے جب اسے جاسوسی کے لیے عکرہ بھیجا گیا تھا۔ عکرہ صلیبیوں کے قبضے میں تھا۔ وہاں ان کا بڑا پادری رہتا تھا جسے صلیب اعظم کا محافظ کہتے تھے۔ صلیبی بادشاہ جو اپنی فوجیں عرب علاقوں میں قبضہ کرنے کی غرض سے لے کر آتے، عکرہ ضرور جاتے اور صلیب اعظم کے محافظ کو سلام کرتے تھے۔ اس لیے جنگی لحاظ سے یہ اہم جگہ تھی۔ علی بن سفیان نے وہاں اپنے جاسوس بھیج رکھے تھے۔ انہوں نے عیسائیوں کے بہروپ میں وہاں ایک خفیہ اڈا بھی قائم کررکھا تھا۔ ان میں سے تین چار پکڑے گئے اور دوشہید ہوگئے تو وہاں کے زمین دوز کمانڈر نے مزید جاسوس مانگے تھے۔ ان میں اسے بھی بھیجا گیا تھا جو اب مصر میں ایک کمرے میں بند تھا۔

اس کا رنگ اچھا، قدبت اور زیادہ اچھا اور چہرہ دل کش تھا۔ دماغی لحاظ سے وہ تیز اور ہوشیار تھا۔ وہ گھوڑے کی سواری کا اتنا ماہر تھا کہ فوجی نمائشوں اور میلوں میں حیران کردینے والے کرتب دکھایا کرتا تھا۔ اداکاری میں بھی مہارت رکھتا تھا۔ اس نے سیاہ ریش کے سامنے اپنے آنسو نکال لیے تھے۔ وہ عیسائی نام سے عکرہ میں داخل ہوا تھا اور اس نے وہاں کوئی اپنی دردناک کہانی سنائی تھی اور بتایا تھا کہ وہ حلب کی مسلمان فوج میں نئے سپاہیوں کوگھوڑ سواری اور رسالے کی لڑائی کی ٹریننگ دیا کرتا تھا لیکن مسلمانوں نے اس کی نوجوان بہن کو اغوا کرکے اسے فوج سے نکال دیا۔

اس کی اداکاری سے متاثر ہوکر اسے سواری کی ٹریننگ دینے کے لیے رکھ لیاگیا لیکن اس کے شاگرد فوجی نہیں تھے بلکہ جوان لڑکیاں تھیں اور بڑے بڑے فوجی افسروں کے لڑکے۔ اسے پتہ چلا کہ ان لڑکیوں کو مسلمان علاقوں میں جاسوسی کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ پھر مرد بھی اس کے حوالے کیے جانے لگے۔ یہ سب صلیبی جاسوس تھے۔ وہ ان میں گھل مل گیا تھا اور ان سے اسے بڑی قیمتی معلومات مل جاتی تھیں۔

یہ لڑکی جو اب قاہرہ کے مضافات کے ایک گائوں میں اسے کہہ رہی تھی کہ اب نہیں نکل سکو گے، عکرہ میں اس کی شاگرد تھی۔ وہ جاسوسی کا تجربہ رکھتی تھی، گھوڑ سواری نہیں جانتی تھی۔ علی بن سفیان کا یہ جاسوس اسے اچھا لگنے لگا تھا۔ پھر استادی شاگردی بڑے گہرے لگائو کی صورت اختیار کرگئی۔ لڑکی نے یہاں تک ارادہ کرلیا تھا کہ وہ اس آدمی کی خاطر جاسوسی جیسا ذلیل پیشہ ترک کردے گی اور اس کی بیوی بن کر باعزت زندگی گزارنے لگے گی۔ اس مسلمان جاسوس نے محبت کا جواب محبت سے دیا تھا لیکن اپنے فرض کو نظرانداز نہیں کیا تھا۔ لڑکی نے اپنے کام میں دلچسپی لینی چھوڑ دی تھی۔ وہ اس آدمی کی ہو کے رہ گئی تھی۔

: ایک روز عکرہ میں دو مسلمان جاسوس پکڑے گئے۔ ان میں سے ایک نے اپنے گروہ کے ان تمام آدمیوں کی نشاندہی کردی جنہیں وہ جانتا تھا۔ ان میں یہ جاسوس بھی تھا۔ عجیب بات یہ ہوئی کہ اسی لڑکی نے اس سے پوچھا… ''تم جاسوس تو نہیں ہوسکتے۔ تم مسلمان تو نہیں؟ مجھے پتہ چلا ہے کہ یہاں کا جاسوسی کا محکمہ تمہارے متعلق تفتیش کررہا ہے اور تم پر نظر رکھی جارہی ہے''۔

وہ ہنس پڑا اور الزام کی تردید کی، مگربے چین ہوگیا۔ رات کو وہ اپنے زمین دوز کمانڈر سے ملا۔ کمانڈر نے اسے بتایا کہ گروہ کے بہت سے آدمیوں کی نشاندہی ہوگئی ہے اور بہترہے کہ وہ یہاں سے نکل جائے۔ وہ کمانڈر کے گھر سے نکلا تو اسے پتہ چل گیا کہ دو آدمی اس کے پیچھے پیچھے آرہے ہیں۔ یہ تعاقب تھا۔ وہ چلتا گیا اور اصطبل میں گیا۔ ایک گھوڑے پر زین کسی تو دونوں آدمی آگئے۔ اس سے پوچھا کہ وہ کہاں جارہا ہے۔ وہ پھرتیلا اور ہوشیار تھا۔ کود کرگھوڑے پرسوار ہوا اور ایڑی لگا دی۔ ایک آدمی اس کے گھوڑے تلے کچلا گیا… وہ عکرہ سے نکل آیا۔

٭ ٭ ٭

''میں نے تمہیں پہچان لیا ہے''… اس نے لڑکی سے کہا۔ وہ ایک دوسرے کو تین سال بعد دیکھ رہے تھے۔ اس نے کہا… ''مجھے حیران نہیں ہونا چاہیے تھا، تم آخر جاسوس ہو''۔

''تین سال پہلے میں نے تمہاری محبت کے دھوکے میں آکر جاسوسی چھوڑ دینے کا عہد کیا تھا''… لڑکی نے کہا… ''تم اگر مجھے بتا دیتے کہ تم مسلمان ہو اور جاسوس ہو تو بھی میں تمہیں دھوکہ نہ دیتی، شاید تمہارے ساتھ آجاتی۔ تمہارے بھاگ آنے کے بعد جب مجھے پتہ چلا تھا کہ تم مسلمان جاسوس تھے تو مجھے دکھ نہیں ہوا تھا۔ تمہارے کھو جانے کا بہت غم تھا''۔

''کیا اب تمہارے دل میں میری محبت نہیں؟''… جاسوس نے پوچھا… ''تم اب میرے ملک میں ہو، میرے ساتھ آئو، یہاں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا''۔

''محبت اب بھی ہے''… لڑکی نے کہا… ''مگر اس پر فرض غالب آگیا ہے۔ یہ تمہارا جرم ہے۔ میں نے تو تمہاری محبت کی خاطر جاسوسی چھوڑ دینے کا ارادہ کرلیا تھا مگر تم نے میرے ارادوں کو کچل ڈالا اور جاسوسی کی غلاظت میں مجھے ڈبو آئے۔ تین سال گزر گئے ہیں۔ اتنی لمبی مدت میں میں اپنے آپ کو بری طرح ناپاک کرچکی ہوں۔ اسلام کے خلاف نفرت میری روح میں اترگئی ہے۔ اب نہیں۔ اب تم میرے قیدی ہو۔ میں اپنے گروہ کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ میں جس آدمی کے ساتھ آئی ہوں، اسے میں نے ہی بتایا تھا کہ تم جاسوس ہو۔ میں نے اسے عکرہ کی ساری بات سنا دی تھی۔ اگر میں تمہیں صحن میں گزرتے اتفاق سے نہ دیکھ لیتی تو ہم سب گرفتارہوچکے ہوتے۔ تمہیں میں نے پکڑوایا ہے''۔

''یہ آدمی جو غیب دان اور مرشد بنا ہوا ہے، مسلمان ہے یا صلیبی؟''…جاسوس نے پوچھا۔

''اب پوچھ کر کیا کرو گے؟''… لڑکی نے پوچھا۔

''جاسوسی ایک عادت بن گئی ہے''… جاسوس نے کہا… ''مرنے سے پہلے جاننا چاہتا ہوں۔ اب یہ راز باہر تو نہیں لے جاسکوں گا''۔

'یہ مسلمان ہے''… لڑکی نے کہا… ''مسلمانوں کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ استادوں کا استاد ہے''۔

کمرے کا دروازہ کھلا سیاہ ریش ایک آدمی کے ساتھ اندر آیا۔ لڑکی سے بولا… ''اگر تمہاری بات پوری ہوگئی ہے تو باہر نکل جائو''… لڑکی جاسوس کو گہری نظروں سے دیکھتی باہر نکل گئی۔ سیاہریش نے جاسوس سے پوچھا… ''مجھے صرف یہ بتا دو کہ میرا راز کس کس کو معلوم ہے۔ کیا تم نے علی بن سفیان کو بتا دیاہے کہ میں مشکوک آدمی ہوں؟''

''نہیں''… جاسوس نے جواب دیا… ''میں جاسوس ضرور ہوں، جاسوسی کے خیال سے یہاں نہیں آیا تھا''۔

سیاہ ریش کے ہاتھ میں چمڑے کا چابک (ہنٹر) تھا۔ اس نے پوری طاقت سے جاسوس کو مارا ور کہا… ''میں سچی بات سننا چاہتا ہوں''۔

دروازہ زور سے کھلا۔ وہی لڑکی اندر آئی۔ اس نے سیاہ ریش کے دونوں بازو پکڑ کر التجا کی… ''اسے مارو مت سب کچھ بتا دے گا''۔

''میں کچھ نہیں بتائوں گا''۔ جاسوس نے کہا۔

سیاہ ریش نے چابک گھمایا تو لڑکی دوڑ کر جاسوس کے آگے ہوگئی۔ چلا کر بولی… ''مارو نہیں، اس کے جسم کی چوٹ میرے دل کا زخم بن جائے گی''۔

''تم اسے بچانا چاہتی ہو؟''… دوسرے آدمی نے گرج کر پوچھا۔

''نہیں''… لڑکی نے روتے ہوئے کہا… ''یہ کچھ نہ بتائے تو تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا سرتن سے جدا کردو۔ اذیت دے کر نہ مارو''۔

لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے گئے پھر جاسوس پرتشدد شروع ہوگیا۔ اسے رات بھر سونے نہ دیا گیا۔ اس سے بہت کچھ پوچھا جارہا تھا۔ اسے بہت کچھ بتایا جارہا تھا مگر وہ بت بنا چوٹ پر چوٹ کھا رہا تھا۔ سحر کا وقت تھا۔ لڑکی پھر اس کمرے میں آگئی۔ اس وقت جاسوس نیم غشی کی حالت میں تھا۔ وہ فرش پرپڑا تھا۔ اب اسے تلوار کی نوک جگہ جگہ چبھوئی جارہی تھی۔ لڑکی اس کے اوپر لیٹ گئی اور چیخنے لگی… ''یہ میں برداشت نہیں کرسکتی۔ میں تمہیں بتا چکی ہوں کہ یہ میری پہلی اور آخری محبت ہے۔ اس کی اذیت میری اذیت ہے۔ یہ اپنا فرض ادا کررہا ہے، میں اپنا فرض ادا کررہی ہوں۔ ہمارے لیے یہی کافی ہے۔ اسے جان سے ماردو، اذیت نہ دو''۔

جاسوس نے نیم بے ہوشی کی حالت میں اپنے اوپر پڑی لڑکی کو بازوئوں کے گھیرے میں لے لیا اور مری ہوئی آواز میں بولا… ''تم چلی جائو۔ ایسا نہ ہو کہ میں اپنے فرض سے بھٹک جائوں۔ یہ اذیتیں میرے فرض کا حصہ ہیں۔ تم اپنے مذہب پر قربان ہوجائو، مجھے اپنے مذہب پر قربان ہوجانے دو''۔

لڑکی پاگل ہوئی جارہی تھی۔ اسے ایک بار پھر گھسیٹ کر باہر لے گئے۔ سیاہ ریش نے حکم کے لہجے میں کہا… ''اس بدبخت لڑکی کو کسی کمرے میں بند کردو''۔

٭ ٭ ٭

: دن آدھا گزر چکا تھا۔ علی بن سفیان اس جاسوس کے انتظار میں بیزارہوا جارہا تھا۔ا یک روز پہلے اس نے جس آدمی کو سفید داڑھی کے بہروپ میں پکڑا تھا اسے بھی گزشتہ رات قید خانے میں ایسی ہی اذیتیں دے کر اس سے کہلوا لیا گیا تھا کہ یہ سیاہ ریش کون ہے اور اس کی اصلیت اور اس کا مشن کیا ہے۔ دن کے پچھلے پہر علی بن سفیان نے اس شک کی بناء پر کہ اس کا جاسوس پکڑا نہ گیا ہو۔ فوج کا ایک چھاپہ مار جیش تیار کیا۔ اس مکان کے متعلق پتہ چل ہی چکا تھا کہ تخریب کار جاسوسوں کا اڈا بن گیا ہے۔

چھاپہ مار اس قدر تیری سے آئے کہ گائوں میں کسی کو سنبھالنے کا موقع نہ ملا۔ وہ گھوڑوں سے اتر کر بندروں کی طرح مکان کی دیواریں پھلانگ گئے۔ دروازے توڑ دئیے گئے۔ اندر جتنے آدمی تھے، انہیں پکڑ لیا گیا۔ علی بن سفیان کے جاسوس کی اب یہ حالت تھی کہ بے ہوش پڑا تھا اور اس پر نزاع کی کیفیت طاری تھی۔ ایک کمرے میں اسے چاہنے والی لڑکی فرش پر پڑی تھی۔ ایک خنجر اس کے دل میں اترا ہوا تھا۔ وہ اتنا ہی کہہ سکی… ''میں نے خودکشی کی ہے''… اور وہ مرگئی۔

سیاہ ریش کو اس ہجوم کے سامنے کھڑا کیا گیا جو گائوں کے اندر اور باہر جمع تھا ور اسے کہا گیا کہ وہ لوگوں کو بتائے کہ اس کی اصلیت کیا ہے اور وہ کس مقصد کے تحت فوج اور سلطان کو بدنام کررہا تھا۔ اس نے بتا دیا۔ ایک لڑکی مرچکی تھی۔ دوسری کو لوگوں کے سامنے کیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ لڑکی مسلمان نہیں صلیبی ہے۔ یہ بھی سب کو بتایا گیا کہ ٹیلوں کے علاقے میں آگ کے قریب جو پانی اورکھجوریں پڑی تھیں۔ وہ اس کے گرہو کے آدمیوں نے رکھی تھیں۔ یہ گروہ اس سے دور دور سفر کرتا تھا۔

علی بن سفیان نے اپنے تہہ خانے میں اس آدمی اور اس کے گروہ سے جو باتیں اگلوائیں، ان سے پتہ چلا کہ اس نے محاذ سے بھاگے ہوئے نئے فوجیوں کو اپنے اثر میں لے لیا تھا۔ا س کے ساتھ اپنے آدمی بھی تھے۔ یہ تمام لوگ مسجدوں میں اور ان جگہوں پر جہاں لوگ اکٹھے ہوئے تھے، مصر کی فوج کے خلاف باتیں کرتے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ قوم اور فوج کے درمیان شکوک اور نفرت کی دیوار کھڑی کی جائے۔ اس سے صلیبی بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ اس مہم میں مصر کی انتظامیہ کے چند ایک حاکم بھی شامل تھے اور معزول شدہ عباسی خلافت کے خفیہ پیروکاربھی۔ مختصر یہ کہ دشمن تو اس مہم میں شریک تھا ہی، خود وہ مسلمان بھی اس میں شامل ہوگئے تھے جن کاکوئی نہ کوئی مفاد وابستہ تھا۔

''جب کبھی فوج اورقوم میں نفرت پیدا ہوگئی، سمجھ لو سلطنت اسلامیہ کا زوال شروع ہوگیا''… سلطان ایوبی نے کہا۔ اس نے حکم دیا… ''تمام مسجدوں کے اماموں کو رملہ کی شکست کے اصل اسباب بتانے کا انتظام کرو اور امام ساری قوم کو بتائیں۔ اگر کسی کو ذمہ داریاں اور الزامات عائد کرنے سے تسکین ہوتی ہے تو ساری ذمہ داری مجھ پر ڈالو۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سولی پر جان دے کر قوم کے گناہوں کا کفارہ ادا کیا تھا۔ میں فلسطین کے میدان جنگ میں جان دے کراپنی قوم کے ہر اس فرد کے گناہوں کا کفارہ ادا کروں گا جو تخت وتاج کے نشے میں میری فوج اور مقبوضہ فلسطین کے راستے میں حائل ہورہاہے اور میرے خون کے قطروں سے آواز آئے گی کہ شکست کی ذمہ داری فوج نہیں تھی اور میری کسی فوج نے کوئی گناہ نہیں کیا تھا''۔

جاری ھے


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں