داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 110 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 110

 : صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔110جب فرض نے محبت کا خون کیا

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ریت میں دفن کردیتا تھا۔ سواروں کا یہ قافلہ چلا آرہا تھا۔ آگے وہ علاقہ آگیا جہاں مٹی کے اونچے نیچے ٹیلے دیواروں، ستونوں اور مکانوں کی طرح کھڑے تھے۔ کسی نے دور سے ایک ٹیلے پر ایک آدمی کا سر اور کندھے دیکھے اور وہ غائب ہوگیا۔ دیکھنے والے نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اس جگہ چل کر رک جائیں گے، وہاں کوئی اور بھی ہے۔ پانی نہ ملا تو سایہ مل جائے گا۔ قافلے میں اکثریت ان آدمیوں کی تھی جن کے دماغ تھکن اور پیاس سے مائوف ہوئے جارہے تھے۔ اس سے پہلے وہ جنگ کی باتیں کرتے رہے تھے مگر اب اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی۔ ان کے جانوروں میں ابھی جان تھی اور وہ اچھی طرح چلے جارہے تھے۔

ایک میل دور کے ٹیلے سوکوس کی مسافت بن گئی۔ قافلہ وہاں پہنچ گیا اور دو ٹیلوں کے درمیان سے اندر چلا گیا۔ اندر ٹیلوں کا سایہ تھا۔ سب جانوروں سے اترے۔ جانوروں کو سائے میں چھوڑ کر سب ایک عمودی ٹیلے کے سائے میں بیٹھ گئے۔ ابھی بیٹے ہی تھے کہ ایک یلے کی اوٹ سے ایک آدمی سامنے آیا اور بت بن کر کھڑا ہوگیا۔ وہ سر سے پائوں تک سفید کپڑوں میں ملبوس تھا۔ ایک لمبا اور سفید چغہ تھا جو کندھوں سے ٹخنوں تک چلا گیا تھا۔ اس کی داڑھی سیاہ تھی، لمبی نہیں تھی۔ خوبی سے تراشی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں عصا تھا جو عموماً عالم، فاضل یا خطیب ہاتھ میں رکھتے تھے۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔ اسے دیکھ کر سب پر خاموشی طاری ہوگئی۔ کسی نے آہستہ سے کہا… ''حضرت خضر علیہ السلام ہیں''۔

''یہ اس زمین کا انسان نہیں''… ایک اور نے سرگوشی کی۔

قافلے والوں کو ڈر محسوس ہونے لگا۔ وہ تو پہلے ہی ڈرے ہوئے تھے۔ اس پراسرار آدمی نے ان کے ڈر میں اضافہ کردیا۔ کسی میں ہمت نہیں تھی کہ اس سے پوچھتا کہ آپ کون ہیں۔ ایسے ظالم صحرا میں اس حیثیت کے کسی آدمی کی موجودگی حیران کن تھی۔ وہ کوئی فوجی ہوتا تو سپاہیوں کے اس قافلے میں سے کوئی بھی نہ ڈرتا… ان کے ڈر میں اس وقت دہشت آگئی، جب اس آدمی کے پہلو میں ایک عورت اس طرح آن کھڑی ہوئی جیسے اس آدمی کے جسم سے نمودار ہوئی ہو۔ وہ اس کے پیچھے سے سامنے ہوئی اور اس کے پہلو میں کھڑی ہوگئی تھی۔ فوراً بعد اسی طرح ایک اور عورت اس کے دوسرے پہلو میں نمودار ہوئی۔ دونوں عورتیں سر سے پائوں تک مستور تھیں، ان کی آنکھوں کے سامنے جالی کی طرح باریک کپڑا تھا۔ برقعہ نما لبادے سے ان کے ہاتھ بھی نظر نہیں آتے تھے۔

''تم پر اللہ کی رحمت ہو''… اس آدمی نے کہا… ''کیا میں آگے آکر بتا سکتا ہوں کہ ہم کون ہیں؟''

سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا پھر اس شخص اور عورتوں کی طرف دیکھا۔ کسی نے ڈرے ہوئے لہجے میں کہا… ''آپ ہمارے پاس آئیں اور بتائیں کہ آپ کون ہیں اور ہمیں آپ جو حکم دیں گے، ہم اس کی تعمیل کریں گے''۔

وہ ایسی چال چلتا ان تک پہنچا جو عام انسان کی چال نہیں تھی۔ اس کے چلنے میں اور سراپا میں جلال سا تھا۔ دونوں مستورات اس کے پیچھے پیچھے آئیں۔ سب احترام سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ احترام میں ڈر بھی شامل تھا۔ وہ ٹیلے کے ساتھ بیٹھ گیا۔ مستورات بھی اس کے پاس گئیں۔ جالی میں سے ان کی آنکھیں نظر آرہی تھیں۔ ان سے پتہ چلتا تھا کہ وہ خوبصورت عورتیں ہیں لیکن ان میں سے کسی میں بھی اتنی جرأت نہیں تھی کہ ان آنکھوں کا سامنا کرسکتا۔ سفید پوش شخص اور ان مستورات کے کپڑوں پر گرد تھی جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر میں ہیں۔

''میں بھی وہیں سے آیا ہوں جہاں سے تم آرہے ہو''… سیاہ ریش نے بھاگے ہوئے مصری سپاہیوں سے کہا… ''فرق یہ ہے کہ تم جہاں جارہے ہو، وہ تمہارا گھر ہے اور جہاں سے آیا ہوں وہ میرا گھر تھا''… اس کے لہجے میں سنجیدگی اور اداسی تھی۔

: ''ہم کس طرح یقین کریں کہ آپ انسان ہیں''… ایک سپاہی نے پوچھا… ''ہم آپ کو آسمان کی مخلوق سمجھ رہے ہیں''۔

''میں انسان ہوں''… سیاہ ریش بزرگ نے جواب دیا… ''اور یہ دونوں میری بیٹیاں ہیں۔ میں بھی تمہاری طرح رملہ سے بھاگ کر آرہا ہوں۔ اگر میرا پیرومرشد مجھ پر کرم نہ کرتا تو صلیبی مجھے قتل کردیتے اور میری ان دونوں بیٹیوں کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ یہ میرے مرشد کے مزار کی برکت ہے۔ میں رملہ کا رہنے والا ہوں۔ لڑکپن سے مذہب کا علم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ میں نے مسجدوں میں اماموں کی بہت خدمت کی اور ان سے علم حاصل کیا ہے۔ خدا اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذہب کے پرستاروں پر بہت کرم نوازی کرتا ہے۔ ایک رات مجھے خواب میں اشارہ ملا کہ بغداد چلے جائو اور وہاں کے خطیب کی شاگردی میں بیٹھ جائو''…

''میں پیدل چل پڑا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ ماں باپ بہت غریب تھے۔ چھوٹا سا مشکیزہ بھی میرے نصیب میں نہیں تھا کہ میں راستے کے لیے پانی ساتھ لے جاتا۔ علم کا عشق مجھے گھر سے نکال لے گیا۔ سب نے کہا یہ لڑکی راستے میں مرجائے گا۔ میری ماں بہت روئی تھی اور میرا باپ بھی بہت رویا تھا مگر میں چل پڑا۔ دن کے وقت پیاس اور بھوک میری جان نکال لیتی تھی۔ شام کے بعد جب میں اس امید پر کہیں گر پڑتا تھا کہ مرجائوں گا، میرے قریب پانی کا ایک پیالہ اور کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ رکھا ہوتا تھا۔ پہلی بار میں بہت ڈرا تھا۔ میں اسے جنات کا دھوکہ سمجھتا تھا لیکن رات کو خواب میں اشارہ ملا کہ یہ مرشد کی کرامت ہے۔ مجھے یہ پتہ نہ چلا کہ وہ مرشد کون ہے اور کہاں ہے۔ میں کھا پی کر گہری نیند سوگیا۔ صبح اٹھا تو وہاں پیالہ بھی نہیں تھا اور جس چنگیر میں روٹیاں تھیں، وہ بھی نہیں تھی''…

''بغداد پہنچنے تک راستے میں دو نئے چاند طلوع ہوئے۔ بہت لمبا سفر تھا۔ ہر رات مجھے پیالے میں پانی اور چنگیر میں کھانا ملتا رہا۔ بغداد میں جامع مسجد کے خطیب نے مجھے دیکھا تو میری عرض سنے بغیر بولے کہ میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں۔ وہ مجھے اپنے حجرے میں لے گئے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہاں ایک چنگیر پڑی تھی اور اس میں ایک پیالہ رکھا تھا۔ خطیب نے پوچھا کہ تمہیں ہر رات کھانا اور پانی ملتا رہا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ ملتا رہا ہے مگر حیران وپریشان ہوں کہ یہ چنگیر اور پیالہ مجھ تک ہر رات کون لے جاتا اور واپس لاتا رہا تو وہ بولے کہ خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی مدد کرنا چاہی تھی تو دریائے نیل کو حکم دیا تھا کہ راستے دے دو۔ دریا کا آگے کا پانی آگے اور پیچھے کا پانی پیچھے رہ گیا اور خشکی کی اس گلی سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نکل آئے تھے اور جب فرعون ان کے تعاقب میں اس گلی میں داخل ہوا تو دریا کے دونوں حصے آپس میں مل گئے اور دریا اسی طرح قہر سے بہنے لگا جیسے بہتا تھا۔ فرعون غرق ہوگیا''…

''خطیب مکرم نے کہا کہ ہم اس کی ذات کے تابع ہیں جس نے ہمیں پیدا کیا اور جو ہمیں باری باری اس دنیا سے اٹھاتا ہے۔ اس کا جو بندہ اس کے علم کے عشق سے دیوانہ ہوتا ہے جیسے تم ہوئے۔ اسے وہ صحرائوں میں پیاسا نہیں مرنے دیتا اور دریائوں میں ڈوبنے نہیں دیتا۔ اس کی ذات باری نے مجھے اشارہ دیا کہ ہم نے اپنے ایک بندے کے لیے مہینوں کے فاصلے اور ان فاصلوں کی صعوبتیں مٹا دی ہیں۔ تمہارے سینے میں جو علم ہے وہ اس لڑکے کے سینے میں منتقل کردو اور ہم نے تمہاری خدمت کے لیے جو دو جنات مقرر کررکھے ہیں انہیں کہو کہ اس لڑکے کو راستے میں پانی اور کھانا پہنچاتے رہیں… میں نے خدائے ذوالجلال کے حکم کی تعمیل کی۔ ہر رات تمہارے لیے یہاں سے کھانا اور پانی جاتا رہا ہے۔ حیران نہ ہو لڑکے! پریشان بھی نہ ہو۔ بہت کم خوش نصیبوں کے دلوں میں علم کا چراغ روشن ہوتا ہے جس کی خواہش تم لے کر آئے ہو۔ ارادہ نیک ہو، دل میں اللہ کی خوشنودی کی خواہش ہو تو جن وانس غلام ہوجاتے ہیں''۔

''کیا جنات آپ کے غلام ہیں؟''۔ ایک سپاہی نے پوچھا۔

''وہ نہیں''۔ اس نے جواب دیا… ''میں ان کا غلام ہوں، کوئی کسی کو غلام نہیں بنا سکتا۔ ہم سب ایک خدا کے ایک جیسے بندے ہیں۔ اونچا اور نیچا، امیری اور غریبی سے نہیں ہوتا۔ ایمان کی پختگی اور کمزوری سے انسانوں کی درجہ بندی ہوتی ہے''۔

: اس کی باتوں میں ایسا تاثر تھا جس نے سب کے دلوں کو موہ لیا اور سب دم بخود ہوکر سن رہے تھے۔ اس نے کہا… ''بغداد کے خطیب نے میری روح کو علم سے روشن کردیا۔ انہوں نے میری شادی بھی کرائی۔ وہیں میری یہ دونوں بچیاں پیدا ہوئیں۔ میں نے بہت چلے کیے اور قدرت کے کارخانے کے دو تین راز پالیے۔ تب ایک رات میرے خطیب استاد نے کہا کہ اب جا اور ان کی خدمت کر جو علم اپنے ساتھ قبروں میں لیے ابدی نیند سو رہے ہیں۔ انہوں نے مجھے واپس اپنے گھر رملہ چلے جانے کا حکم دیا۔ دو اونٹ دئیے۔ زاد راہ دیا اور کہا کہ گناہ کا کبھی خیال بھی دل میں نہ آنے دینا۔ رملہ پہنچو گے تو ایک رات تم اپنے ارادے کے بغیر اٹھ کر چل پڑو گے۔ شاید تمہیں بہت دور جانا نہیں پڑے گا۔ تمہارے قدم اپنے آپ رک جائیں گے۔ وہ ایک مقدس جگہ ہوگی۔ اس جگہ کو اپنا آستانہ بنا لیا مگر مجھے ایک وقت جو ابھی مستقبل تاریکیوں میں چھپا ہوا ہے، نظر آرہا ہے۔ گناہ ہوں گے اور تمہیںد وسروں کے گناہوں کی سزا ملے گی۔ شاید تمہیں ہجرت کرنی پڑے''…

''میں جب اپنی بیوی اور ان دو بچیوں کے ساتھ سفر میں تھا تو آفتاب کی تمازت میرے کنبے کے لیے خنک ہوگئی تھی۔ ہمیں اس جگہ سے بھی پانی مل جاتا تھا جہاں کی ریت کے ذرے پانیکی ایک بوند کو ترستے، جلتے انگاروں کے شرارے بن کر اڑتے رہتے ہیں۔ میں رملہ پہنچا تو میرے والدین مرچکے تھے۔ میری بیوی نے اجڑے ہوئے گھر کو آباد کیا… میں علم ودانش کے سمندر میں غوطے لگاتا رہا۔ میری بچیاں بڑی ہوگئیں اور ان کی ماں کو اللہ نے اپنے پاس بلا لیا۔ بچیوں نے گھر سنبھال لیا اور ایک رات جب میں گہری نیند سویا ہوا تھا، میری آنکھ اس طرح کھل گئی جیسے کسی نے جگایا ہو''…

''میں اٹھ کھڑا ہوا۔ بغداد کے خطیب کی برسوں پرانی بات یاد آئی کہ تم اپنے آپ جاگ اٹھو گے اور ارادے کے بغیر چل پڑو گے۔ ایسے ہی ہوا۔ میرے ذہن میں کوئی ارادہ، کوئی خیال نہیں تھا۔ میں گھر سے نکل گیا۔ آبادی سے بھی نکل گیا۔ کہیں کہیں ایسا لگتا تھا جیسے کوئی میرے آگے آگے جارہا ہو۔ معلوم نہیں یہ احساس تھا یا حقیقت۔ میں چلتا گیا، معلوم نہیں تم نے وہ جگہ دیکھی ہے یا نہیں، جہاں گہرائی ہے اور گہرائی میں ندی بہتی ہے۔ صلیبیوں کی فوج اسی گہرائی میں چھپی ہوئی تھی۔ میں نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو زمین کی آخری تہہ میں چھپا ہوا دشمن بھی نظر آتا ہے مگروہاں اس کی آنکھوں پر خدا نے ایسی پٹی باندھی کہ اسے یہ بھی معلوم نہ ہوسکا کہ وہ خود کہاں ہے۔ صلیبی فوج تمہارے فوج کو پھندے میں لاکر گہرائی سے نکلی اور حملہ کیا ور تمہارا جو حال ہوا، وہ تم جانتے ہو''…

''اس جنگ سے برسوں پہلے میں رات کو اپنے آپ یا غیب کی قوت کے زیراثر اس گہرائی میں پہنچ گیا اور ایک جگہ میرے قدم رک گئے۔ چاندنی رات تھی۔ مجھے ایک قبر نظر آئی جس کے اردگرد پتھروں کی دو ہاتھ اونچی دیوار تھی۔ میں نے آزمانے کے لیے قدم کسی اور سمت کو اٹھائے لیکن میں قبر کی طرف گھوم گیا اور پتھروں کی دیوار میں اندر جانے کو جو راستے بنا ہوا تھا، اس میں داخل ہوگیا۔ میرے ہاتھ اپنے آپ فاتحہ کے لیے اٹھے۔ مجھے ایسے لگا جیسے وہاں چاندنی زیادہ سفید تھی۔ میرے ذہن میں اپنے آپ خیال آیا کہ خطیب مکرم نے اسی جگہ کی نشاندہی کی تھی۔ میں قبر کے پاس بیٹھ گیا اور قبر پر ہاتھ رکھ کر عرض کی مجھ غلام کے لیے کیا حکم ہے۔ مجھے اس کے جواب میں کوئی آواز نہ سنائی دی۔ اپنے آپ ہی خیال آیا کہ مجھے جو فیض ملے گا، اسی سے ملے گا… میں نے رات وہیں گزار دی۔ صبح کے وقت ندی میں جاکر وضو کیا اور قبر پر نماز پڑھی۔ وہاں سے جب رخصت ہوا تو مجھ پر خمار سا طاری تھا، جیسے میں نے خزانہ پالیا ہو''…

 ''اس کے بعد مجھے اس قبر سے اسی طرح اشارے ملنے لگے کہ کوئی آواز نہیں سنائی دیتی تھی۔ میرے دل میں کوئی بات آئی جو میرا یقین بن جاتی تھی۔ میں نے قبر کی دیواریں اونچی کرکے اوپر گنبد بنوا دیا۔ میں دور دور تک گیا۔ حلب اور موصل کے علاوہ بیت المقدس تک گیا۔ اب کچھ عرصے سے مجھے اس مزار سے جو اشارے مل رہے تھے، وہ اچھے نہیں تھے۔ یہ جس برگزیدہ انسان کا مزار ہے، اس کی روح تڑپتی محسوس ہوتی تھی۔ قبر پر میں نے سبز چادر ڈالی تھی، ایک رات چادر پھڑپھڑائی۔ میں ڈر گیا اور میں نے چادر پر ہاتھ پھیر کر کہا… ''مرشد! میرے لیے کیا حکم ہے؟''

''مزار کے اندر سے مجھے آواز سنائی دی… ''تو دیکھ نہیں رہا کہ مسلمان شراب پی رہے ہیں؟ اس سے پہلے میں نے آواز کبھی نہیں سنی تھی۔ اس نے مجھے کہا کہ میں مسلمانوں کو شراب کی تباہ کاریوں سے خبردار کروں۔(اسلام اور انسان تاریخ اسلام اور انسانیت پر مبنی فیسبک پیج سے آپ پڑھ رہیں ، صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ، داستان ایمان فروشوں کی) میں نے حکم کی تعمیل کی، لیکن شراب پینے والے امراء اور حاکم تھے جن کے کانوں تک میری آواز نہ پہنچ سکی۔ پھر ایک رات قبر کی چادر نے پھڑپھڑا کر مجھے بتایا کہ مصر سے آئی فوج مسلمانوں کی آبادیوں میں مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو صلیبی فوج کیا کرتی ہے۔ اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج دمشق میں بھی تھی اور دمشق سے حلب تک اور وہاں سے رملہ تک جگہ جگہ موجود تھی۔ اس فوج کے کمان داروں نے جس مسلمان گھرانے میں کوئی قیمتی چیز اور رقم دیکھی، اٹھالے گئے۔ انہوں نے پردہ نشین خواتین پر دست درازیاں کیں۔ ان کی دیکھا دیکھی سپاہیوں نے بھی لوٹ مار اور آبرو ریزی شروع کردی۔ یہاں تک پتہ چلا کہ سالاروں اور کمان داروں نے مسلمان لڑکیاں اغوا کرکے اپنے خیموں میں رکھی ہوئی ہیں۔ مزار سے مجھے حکم ملتا تھا کہ میں سلطان ایوبی کے پاس جائوں اور اسے بتائوں کہ یہ فوج خلافت بغداد کی ہے۔ مصر کے فرعونوں کی نہیں۔ اگر فوج نے یہ گناہ جاری رکھے تو اس کا حشر فرعون موسیٰ جیسا ہوگا''…

''اس وقت سلطان ایوبی حلب کے قریب خیمہ زن تھا۔ میں اتنی لمبی مسافت طے کرکے اسے ملنے گیا تو اس کے محافظوں نے مجھ سے پوچھا کہ تم سلطان سے کیوں ملنا چاہتے ہو تو میں نے بتایا کہ میں رملہ سے آیا ہوں اور ایک پیغام لایا ہوں۔ انہوں نے پوچھا کہ پیغام کس کی طرف سے ہے۔ میں نے بتایا کہ جس نے پیغام دیا ہے، وہ زندہ نہیں۔ محافظوں نے قہقہہ لگایا اور ان کے کمان دار نے بلند آواز سے کہا کہ آئو تمہیں ایک پاگل دکھائوں۔ کہتا ہے قبر سے سلطان ایوبی کے لیے پیغام لایا ہوں۔ ایک نے کہا کہ یہ شیخ سنان کا بھیجا ہوا فدائی ہے۔ سلطان کو قتل کرنے آیا ہے۔ اسے پکڑ لو، کسی نے کہا کہ صلیبیوں کا جاسوس ہے، اسے قتل کردو۔ میں نے گرفتاری سے بچنے کے لیے یہ ظاہر کیا کہ میں پاگل ہوں۔ میں وہاں سے بھاگ آیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سلطان کے محافظوں کے ایک خیمے میں دولڑکیاں بیٹھی ہوئی تھیں''۔

''ہم نے اپنی فوج کے ساتھ کوئی عورت نہیں دیکھی''۔ ایک سپاہی نے کہا۔

: ''ہم نے اپنی فوج کے ساتھ کوئی عورت نہیں دیکھی''۔ ایک سپاہی نے کہا۔

''کیا تم اس وقت سے فوج کے ساتھ ہو، جب یہ دمشق گئی تھی؟'' سیاہ ریش نے کہا۔

''ہم سب پہلی بار ادھر آئے ہیں''۔ سپاہی نے جواب دیا۔ ''ہم فوج میں اتنے پرانے نہیں ہیں''۔

''میں پرانی فوج کی بات کررہا ہوں''۔ اس نے کہا۔ ''اس فوج کے کمان داروں اور سپاہیوں کو سزا مل چکی ہے۔ تم نئے تھے، تم نے ابھی کوئی گناہ نہیں کیا تھا، اسی لیے تم زندہ سلامت واپس آگئے ہو، جنہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے مسلمانوں کے گھر لوٹے تھے اور پردہ دار خواتین پر دست رازی کی تھی، وہ مارے گئے ہیں جو زیادہ گناہ گار تھے، ان میں سے کسی کی ٹانگیں کٹیں اور کسی کے بازو۔ وہ زندہ تھے تو گدھ ان کی آنکھیں نکال رہے تھے اور ان سے بھی زیادہ گناہ گار تھے وہ صلیبیوں کی قید میں چلے گئے ہیں جو ان کے لیے جہنم سے کم نہیں ہوگی، ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والی اذیتیں ہیں۔ وہ بھوکے پیاسے تڑپتے رہیں گے مگر مریں گے نہیں۔ مرنے کی دعائیں مانگیں گے، ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی''۔

''کیا ہماری شکست کی وجہ یہی ہے؟'' ایک سپاہی نے پوچھا۔

''مجھے دو سال پہلے اشارہ مل گیا تھا کہ یہ فوج تباہ ہوگی''۔ اس نے کہا… ''اور یہ فوج کفار کو موقع دے گی کہ وہ اسلام کی تذلیل کریں۔ اب یہ فوج اللہ کی درگاہ سے دھتکاری گئی ہے''۔

''آپ کہاں جارہے ہیں؟'' کسی نے پوچھا۔

''میں تمہاری طرح اللہ کے قہر سے جو صلیبی فوج کی صورت میں نازل ہوا ہے، بھاگ کر آیا ہوں''۔ سیاہ ریش نے جواب دیا ۔ ''صلیبی فوج طوفان کی طرح آئی۔ تمہاری فوج اسے روک نہ سکی۔ اگر صرف میری اپنی جان ہوتی تو میں اپنے مرشد کے مزار پر جان قربان کردیتا لیکن اپنی جوان بیٹیوں کی آبرو کو میں قربان نہیں کرسکتا تھا۔ صلیبی دو چیزوں کو نہیں چھوڑتے۔ رقم اور خوبصورت مستورات۔ مجھے مزار سے حکم ملا کہ اپنی بیٹیوں کو ساتھ لو اور مصر کی طرف نکل جائو۔ میں نے عرض کی کہ میں زندہ کی طرح پہنچوں گا۔ مزار سے آواز آئی کہ تم نے ہماری جو خدمت کی ہے، اس کے عوض تم خیریت سے قاہرہ پہنچ جائو گے لیکن وہاں خاموش نہ بیٹھنا۔ ہر کسی کو بتانا کہ گناہ کروگے تو تمہیں ایسی ہی سزا ملے گی جیسی تمہاری فوج نے بھگتی ہے۔ مجھے مزار نے بہت کچھ بتایا ہے جو میں مصر چل کر بتائوں گا… تم ایک دوسرے کو دیکھو۔ تمہارے چہرے لاشوں جیسے ہوگئے ہیں، تمہارے جسموں میں جان نہیں رہی۔ مجھے دیکھو میں اپنی بیٹیوں کے ساتھ پیدل آرہا ہوں۔ میرے پاس کچھ کھانے کے لیے بھی نہیں، کچھ پینے کے لیے بھی نہیں''۔

''کیا آپ ہمیں مصر تک اپنی طرح لے جاسکتے ہیں؟'' ایک سپاہی نے پوچھا۔

''اگر تم یہ وعدہ کرو کہ دلوں سے گناہ کا خیال نکال دو گے''۔ اس نے جواب دیا… ''اور یہ وعدہ بھی کرو کہ میں جس مقصد کے لیے مصر جارہا ہوں، اس میں میرا ساتھ دوگے''۔

''ہم سچے دل سے وعدہ کرتے ہیں''۔ بہت سی آوازیں سنائی دیں۔ ''ہمیں اپنا مقصد بتائیں ہم جب تک زندہ ہیں، آپ کا ساتھ دیں گے''۔

''میں صرف اپنی اور اپنی بیٹیوں کی عزت بچانے کے لیے رملہ سے نہیں بھاگا''۔ اس نے کہا… ''مجھے مزار نے حکم دیا ہے کہ مصر جاکر لوگوں کو بتائوں کہ تم فرعونوں کی سرزمین کی پیداوار ہو۔ اس مٹی میں گناہوں کی تاثیر ہے۔ حضرت یوسف علی السلام مصر میں نیلام ہوئے تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بے ادبی مصر میں ہوئی تھی۔ مصر میں پیغمبروں کے قبیلے فرعونوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ اے مصر والو! اس مٹی کی تاثیر سے اور اس کی فضا کے اثر سے بچو اور خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو۔ تمہاری تباہی اور سزا شروع ہوچکی ہے۔ میں یہ پیغام مصر والوں کے لیے لے جارہا ہوں۔ تم اگر یہ پیغام سارے ملک میں پھیلانے میں میری مدد کرو گے تو تمہاری دنیا بھی بہشت بنی رہے گی اور آخرت میں بھی تمہارے لیے بہشت کے دروازے کھول دئیے جائیں گے''۔

٭ ٭ ٭

: سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر باقی تھی۔ رملہ کی طرف سے آنے والے دو تین سپاہی قریب سے گزرے۔ سیاہ ریش نے کہا کہ انہیں روک لو۔ یہ رات تک زندہ نہیں رہیں گے۔ انہیں روک لیا گیا۔ وہ سسکیوں کی طرح پانی مانگ رہے تھے۔ سیاہ ریش نے انہیں کہا… ''پانی رات کو ملے گا۔ اس وقت تک اس خدا کو یاد کرو جس نے تمہیں رملہ سے زندہ نکالا اور نئی زندگی دی ہے''۔

کچھ دیر بعد دو آدمی گھوڑوں پر سوار ادھر سے گزرے۔ وہ فوجی نہیں تھے۔ انہوں نے اس قافلے کو دیکھا، پھر سیاہ ریش کو دیکھا۔ انہوں نے گھوڑے روک لیے، کود کر اترے، گھوڑوں کو وہیں چھوڑ کر دوڑے آئے۔ دونوں نے سیاہ ریش کے سامنے سجدہ کیا، پھر اس کے ہاتھ چومے اور پوچھا… ''یا مرشد! آپ کہاں؟'' اس کا جواب سن کر ان دونوں نے سپاہیوں کو بتایا کہ وہ کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ کی بھیجی ہوئی بزرگ وبرتر شخصیت کا ساتھ انہیں میسر آیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ سیاہ ریش نے ایک سال پہلے بتا دیا تھا کہ مصر کی گناہ گار فوج اس مزار کے علاقے میں آگئی تو تباہ ہوجائے گی۔

''ادھر ادھر دیکھو''۔ سیاہ ریش نے سب سے کہا… ''جہاں کہیں کوئی بھولا بھٹکا مصر کی طرف جاتا نظر آئے، اسے یہاں لے آئو۔ رات کو یہاں کوئی بھوکا اور پیاسا نہیں رہے گا''۔

گزرنے کا یہی ایک راستہ تھا۔ باقی تمام علاقہ ٹیلوں کا تھا اور یہ وسیع علاقہ تھا۔ اس کے اندر جانا بے کار تھا۔ باہر سے ہی پتہ چل رہا تھا کہ یہاں پانی کا نام ونشان نہیں۔ سب کو موت نظر آرہی تھی۔ مصر کی سرحد ابھی بہت دور تھی۔ یہ لوگ سہارے ڈھونڈ رہے تھے۔ وہ سیاہ ریش کے آگے بچھے جارہے تھے۔ اس کی ہر ایک بات ان کے دلوں میں بیٹھ گئی تھی مگر پیاس کی شدت سے دو تین سپاہی غشی کی حالت میں چلے گئے تھے۔ سیاہ ریش انہیں تسلیاں دے رہا تھا۔

سورج غروب ہوگیا پھررات تاریک ہوگئی۔ بہت دیر بعد جب صحرا خاموش تھا، ٹیلوں کے اندر سے ایک پرندے کی آواز سنائی دی۔ سب چونک اٹھے۔ ایسے جہنم میں جہاں پانی کا تصور بھی نہیں تھا اور موت سر پر منڈلا رہی تھی وہاں پرندے کی آواز غیرقدرتی تھی۔ یہ پرندہ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ سب کی سانسیں رک گئیں۔ یہ کوئی بدروح ہوسکتی تھی۔

''اللہ تیرا شکر''۔ سیاہ ریش نے سکون کی آہ لے کر کہا… ''میری دعا قبول ہوگئی ہے''۔ اس نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے دو سپاہیوں سے کہا… ''تم دونوں اس طرف جائو۔ چالیس قدم گنو، وہاں سے دائیں کو مڑ جائو۔ چالیس قدم گنو، وہاں سے بائیں کو مڑ جائو۔ آگے کہیں آگ جلتی نظر آئے گی۔ اس کی روشنی میں تمہیں پانی نظر آئے گا۔ شاید کھانے کے لیے بھی کچھ ہو۔ جو کچھ وہاں پڑا ہو، اٹھا لانا۔ یہ آواز پرندے کی نہیں غیب کا اشارہ ہے''۔

''میں نہیں جائوں گا''۔ایک سپاہی نے خوف زدہ لہجے میں کہا۔ ''میں جنات کی جگہ نہیں جائوں گا''۔

وہ دو آدمی اٹھ کھڑے ہوئے جو بعد میں گھوڑوں پر سوار آئے تھے اور سیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا تھا۔ ایک نے سپاہیوں سے کہا… ''مت ڈرو، جنات تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے۔ انہیں حکم ملا ہو ہے کہ یہ بزرگ جہاں جائیں انہیں کھانا اور پانی پہنچتا رہے گا۔ ہم ان کے معجزوں سے واقف ہیں… دو تین آدمی ہمارے ساتھ چلو''۔

وہ دو تین سپاہیوں کو ساتھ لے کر چل پڑے۔ سیاہ ریش کے کہنے کے مطابق انہوں نے قدم گنے اور مڑے۔ دو ٹیلوں کے درمیان سے گزرے تو انہیں ایک جگہ آگ جلتی نظر آئی۔ سب کلمہ طیبہ کا ورد کرتے آگے بڑھے۔ آگ کی روشنی میں پانی سے بھر ہوئے چار پانچ مشکیزے پڑے تھے اور کپڑے کے ایک تھیلے میں کھجوریں بھری ہوئی تھیں۔ انہوں نے مشکیزے اور تھیلا اٹھایا اور سیاہ ریش کے آگے یہ سامان جارکھا۔ اس نے سب میں تھوڑی تھوڑی کھجوریں تقسیم کیں اور دو مشکیزے ان کے حوالے کرکے کہا کہ ضرورت سے زیادہ پانی نہ پئیں، پانی بچانے کی کوشش کریں… اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہ رہی کہ سیاہ ریش کوئی عام قسم کا درویش نہیں، اللہ کے مصاحبوں میں سے ہے۔ اس نے سب کو تیمم کرایا اور باجماعت نماز پڑھائی۔ پھر سب سو گئے۔ ابھی سحر تاریک تھی جب اس نے سب کو جگا دیا اور قافلہ مصر کو روانہ ہوگیا۔ سیاہ ریش کو ایک اونٹ پر اور اس کی بیٹیوں کو دوسرے اونٹ پر سوار کرادیا گیا تھا… راستے میں انہیں تین چار سپاہی ملے جو مصر کو جارہے تھے۔ سیاہ ریش نے انہیں پانی پلایا، کھجوریں کھلائیں اور دوشتر سواروں کے پیچھے انہیں سوار کرادیا۔ اس قافلے سے دائیں طرف دور ایک اور قافلہ جارہا تھا۔ کسی نے کہا کہ انہیں بھی ساتھ ملا لیا جائے۔ سیاہ ریش نے کہا کہ وہ ہماری طرح بھاگے ہوئے لوگ معلوم نہیں ہوتے، ان کا اور ہمارا کوئی ساتھ نہیں۔ بہت دنوں بعد سپاہیوں کا یہ قافلہ سیاہ ریش کی قیادت میں مصر کی سرحد میں داخل ہوا۔ وہ دو آدمی جنہوں نے سیاہ ریش کے آگے سجدہ کیا تھا۔ راستے میں سپاہیوں کو سیاہ ریش کے معجزے سناتے گئے تھے۔ انہوں نے سپاہیوں سے کہا تھا کہ اسے جو کوئی اپنے گائوں میں رکھ لے گا، 

: اسے رزق کی کوئی کمی نہیں ہوگی اور خدا اس پر ہمیشہ مہربان رہے گا۔ ایک ہی گائوں کے تین چار سپاہی اسے وہاں رکھنے کے لیے تیار ہوگئے۔ سیاہ ریش سے کہا گیا کہ وہ ان کے گائوں چلے۔ اس نے کچھ باتیں پوچھیں اور ان کے گائوں جانے پر آمادہ ہوگیا۔

یہ ایک بڑا گائوں تھا جو قاہرہ سے دور نہیں تھا۔ قافلہ جب اس گائوں میں داخل ہوا تو سپاہیوں کو دیکھ کر گائوں کے لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے۔ ان کے جانوروں کے آگے چارہ ڈالا۔ قافلے والوں کو کھانا اور پانی دیا اور ان سے محاذ کی باتیں سننے بیٹھ گئے۔ انہیں سیاہ ریش کے متعلق بتایا گیا کہ خدا کے مصاحبوں میں سے ہے اور اسے خدا جنات کے ہاتھوں رزق پہنچاتا ہے۔ لوگوں کو اس کی مختصر سی داستان حیات بھی سنائی گئی۔

''محاذ کا راز مجھ سے پوچھو''۔ سیاہ ریش نے کہا… ''یہ سپاہی ہیں۔ یہ صرف لڑتے ہیں۔ انہیں کچھ علم نہیں ہوتا کہ انہیں لڑانے والوں کی نیت کیا ہے۔ ان چند ایک سپاہیوں نے جنہیں میں صحرا کی آگ سے زندہ نکال لایا ہوں، اس فوج کے گناہوں کی سزا بھگتی ہے جو ان سے بہت پہلے ملک شام کو گئی تھی۔ اس فوج نے ہر میدان میں فتح حاصل کی۔ وہاں کی وادیاں اور وہاں کے صحرا، سلطان ایوبی زندہ باد کے نعروں سے گونجتے لرزتے رہے۔ اس فوج نے ہر جگہ زروجواہرات اور عورتیں دیکھیں۔ وہاں کی عورتیں مصر کی عورتوں سے زیادہ خوبصورت ہیں۔ فتح کے نشے نے اس فوج میں فرعونیت پیدا کردی۔ دماغوں میں صرف مال غنیمت رہ گیا پھر اس فوج کے سالاروں، کمان داروں اور سپاہیوں نے قوم کی عزت اور غیرت کو خیرباد کہا اور مسلمانوں کے گھروں میں بھی لوٹ مار شروع کردی، جہاں کوئی خوبصورت عورت اور جوان لڑکی نظر آئی، اسے بے آبرو اور اغوا کیا۔ یہ سب مسلمان مستورات تھیں۔ انہیں خیموں میں رکھا گیا''۔

''کیا سلطان صلاح الدین ایوبی اندھا تھا؟'' کسی نے قہر آلود آواز میں پوچھا… ''وہ دیکھ نہیں سکتا تھا کہ اس کی سپاہ کیا کررہی ہے؟''

''خدا جب سزا دینے کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اماموں، عالموں اور حکمرانوں کی عقل پر بھی پردہ ڈال دیتا ہے''۔ سیاہ ریش نے کہا… ''سلطان صلاح الدین ایوبی خود فتح کے نشے سے بدمست ہوگیا تھا۔ وہ شاید خدا کے وجود کو اور اس کی لاٹھی کو بھول گیا تھا۔ اس کے گرد اس کے محافظوں اور عیاش سالاروں نے ایسا گھیرا ڈال رکھا تھا کہ کسی مظلوم کی فریاد اس تک پہنچ ہی نہیں سکتی تھی جو بادشاہ فریادیوں کے لیے انصاف کے دروازے اور اپنے کان بند کرلیتا ہے وہ اللہ کی بخشش سے محروم ہوجاتا ہے۔ مجھے دو سال سے اشارے مل رہے تھے کہ یہ فوج اعمال بد سے باز نہ آئی تو تباہ ہوگی۔ مجھے راتوں کو غیب کی آوازیں سنائی دیتی رہیں مگر جن کے لیے آوازیں آتی تھیں، ان کے کان بند تھے''…

''پھر خدا نے یوں کیا کہ ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ دیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی جو میدان جنگ کا بادشاہ ہے اور جسے صلیب کے کفار میدان جنگ کا دیوتا کہتے ہیں، عقل کا ایسا اندھا ہوا کہ ساری چالیں بھول گیا۔ اس کی چال دشمن چل گیا اور اسے ایسی شکست ہوئی کہ تن تنہا مصر پہنچا''۔

''ہم صلیبیوں سے شکست کا انتقام لیں گے''۔ ایک جوشیلے دیہاتی نے کہا… ''ہم اپنے بیٹوں کو قربان کردیں گے''۔

''فتح اور شکست خدا کے اختیار میں ہے''۔ سیاہ ریش نے کہا… ''اس کی ذات نے حکم شکست کا دیا ہو تو بندوں کا جوش سرد پڑ جاتا ہے۔ میں بھی اسی لیے یہاں آیا ہوں کہ مصر کے بچے بچے کو شکست کا انتقام لینے کے لیے تیار کروں لیکن سزا کا وقت ابھی ختم نہیں ہوگا تم اگر اپنے بیٹوں کو فوراً فوج میں بھرتی کراکے محاذ پر بھیج دو گے تو وہ مریں گے اور شکست کھائیں گے۔ ہر عمل کے لیے ایک وقت مقرر ہے وہ وقت ابھی دور ہے، جب شکست کو فتح میں بدل دو گے۔ سب سے پہلے خدا کو یاد کرو۔ اس سے اپنے ان بیٹوں کے گناہوں کی بخشش مانگو جنہیں تم نے ملک شام میں بھیجا تھا''۔

٭ ٭ ٭

''شکست کی ذمہ داری میرے سر پر ڈالو''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ وہ اپنے سالاروں، نائب سالاروں، کمان داروں اور شہری انتظامیہ کے حکام سے خطاب کررہا تھا… ''شکست کے اسباب بڑے واضح ہیں۔ مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں نئی بھرتی لے کر گیا۔ میں زیادہ انتظار کرتا اور مصر میں بیٹھا رہتا تو دشمن سارے شام میں پھیل جاتا۔ میں نے فوج کی جس کمی کو نئے سپاہیوں سے پورا کیا ہے، اس کے متعلق تم جانتے ہو کہ اس کا ذمہ دار کون ہے لیکن میں اب اس بحث میں وقت ضائع نہیں کروں گا کہ اس کا ذمہ دار فلاں ہے اور وہ گناہ فلاں نے کیا ہے۔ اگر جرم عائد کرنے ہیں تو مجھ پر کرو۔ فوج کو میں نے لڑایا ہے، اگر چالیں غلط تھیں تو میری تھیں۔ اس کا کفارہ مجھے ادا کرنا ہے اور میں کروں گا۔ فتح اور شکست ہر معرکے کا انجام ہوتا ہے۔ آج ہم اس انجام سے دوچار ہوئے ہیں جس کے لیے تم ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ اسی لیے تم سب کے چہروں پر اداسی اور آنکھوں میں بے چینی ہے۔ اگرتم مجھے شکست کی سزا دینا چاہتے ہو تو میں اس کے لیے بھی تیار ہوں۔ میرے کانوں میں یہ آوازیں بھی پہنچ رہی ہیں کہ میری فوج شام میں جاکر آبرو ریزی، لوٹ مار اور شراب خوری کی عادی ہوگئی تھی۔ مجھے یہ بھی بتایا جارہا ہے کہ میں نے خلیفہ بغداد پر دہشت طاری کرنے کے لیے دانستہ شکست کھائی ہے اور میں شکست کو فتح میں بدل کر خلیفہ کو اپنا مرید بنانے کی کوشش کروں گا۔ مجھے فرعون تک کہا جارہا ہے۔ میں کسی بھی الزام کا جواب نہیں دوں گا۔ ان الزامات کا جواب میری زبان نہیں میری تلوار دے گی۔ میں الفاظ سے نہیں عمل سے ثابت کروں گا کہ یہ کس کے گناہ تھے جن کی سزا مجھے اور میرے مجاہدین کو ملی ہے''۔

اتنے میں دربان نے اطلاع دی کہ حماة سے قاصد آیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے فوراً اندر بلایا۔ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور تھکن سے چور قاصد نے سلطان ایوبی کو العادل کا پیغام دیا۔ پیغام کھول کر پڑھا تو سلطان ایوبی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے پیغام ایک سالار کے ہاتھ میں دے کر کہا… ''یہ پڑھ کر سب کو سنائو''۔

جوں جوں سالار پیغام پڑھتا جارہا تھا، سب کی آنکھوں میں چمک آتی جارہی تھی۔ سسکیوں کی طرح تین چار سرگوشیاں سنائی دیں… ''زندہ باد، زندہ باد''۔

''یہ گناہ گاروں کا کارنامہ ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تم میں سے جو قاہرہ میں تھے، نہیں جانتے کہ العادل کے پاس کتنی فوج ہے۔ تم یہ بھی نہیں جانتے کہ بالڈون کے پاس دس گنا زیادہ فوج تھی۔ اس کے سوار زرہ پوش ہیں۔ اس کے پیادے لوہے کے خود پہنتے ہیں۔ کیا العادل کے مجاہدین نے ثابت نہیں کردیا کہ ہم شکست کو فتح میں بدل سکتے ہیں؟ کیا تم مجھ سے یہ توقع رکھتے ہو کہ سرپکڑ کر بیٹھ جائوں؟ اگلی جنگ کی تیاری کرو۔ مجھے فوج کی بھرتی دو۔ تمہیں قبلہ اول پکار رہا ہے۔ میں دشمن کے ساتھ کوئی سمجھوتہ اور کوئی معاہدہ نہیں کروں گا''۔

العادل کے پیغام نے جہاں سلطان ایوبی کو حوصلہ دیا، وہاں تمام سالاروں وغیرہ کے بھی مجروح حوصلے تروتازہ ہوگئے۔ ان میں سے بعض کے دلوں میں سلطان ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے تھے، وہ صاف ہونے لگے۔ العادل نے اسی ایک معرکے پر اکتفا نہیں کیا۔ اس نے اپنے دستوں کو تیس سے چالیس کی نفری کے جیشوں کے کمان داروں کو شب خون مارنے اور غائب ہوجانے کی ہدایات دیں۔ مقصد یہ تھا کہ دشمن کو پریشان رکھا جائے تاکہ وہ پیش قدمی بھی نہ کرسکے اور آرام سے بیٹھ بھی نہ سکے۔

بالڈون پہلے ہی نقصان اٹھا چکا تھا۔ وہ اس ارادے سے اتنی زیادہ فوج لے کر آیا تھا کہ دمشق تک کے علاقے پر قبضہ کرلے گا۔ اب اس کی یہ حالت ہوگئی کہ ہر رات خیمہ گاہ کے کسی نہ کسی حصے پر تیروں کی بوچھاڑ ہوتی یا حملہ ہوتا تھا۔ فوج کے بیدار ہونے تک حملہ آور دور نکل گئے ہوتے تھے۔ بالڈون نے فوج کو تمام تر علاقے میں دور دور پھیلا دیا۔ العادل کے چھاپہ ماروں کو پکڑنے کے لیے اس نے بھی ٹولیاں تیار کیں، جو رات کو گشت پر رہتی تھیں مگر ہر صبح بالڈون کو یہ خبر سننی پڑتی تھی کہ آج فلاں کیمپ پر حملہ ہوا ہے یا فلاں ٹولی ماری گئی ہے۔ وہ علاقہ پہاڑی تھا۔ اس سے العادل کے چھاپہ مار جیش خوب فائدہ اٹھا رہے تھے مگر یہ فائدہ العادل کو بہت مہنگا پڑ رہا تھا۔ چھاپہ مار اتنی دلیری سے شب خون مارتے تھے کہ دشمن کے کیمپ کے اندر چلے جاتے اور ان میں سے چند ایک جانیں قربان کردیتے تھے۔

اس طریقہ جنگ اور اس قرانی سے العادل کوئی علاقہ فتح نہیں کرسکتا تھا۔ وہ دشمن کو وہاں سے پیچھے بھی نہیں ہٹا سکتا تھا لیکن یہ فائدہ کچھ کم نہ تھا کہ صلیبیوں کی اتنی بڑی فوج پیش قدمی کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ اگر بالڈون پیش قدمی کرتا تو آمنے سامنے جنگ میں العادل اتنی قلیل فوج سے اس کے سامنے دو گھنٹے بھی نہ ٹھہر سکتا۔ اس نے بالڈون کے کیمپ میں کام کرنے والے مقامی لوگوں میں اپنے جاسوس بھی چھوڑ رکھے تھے۔ وہ دشمن کی ذرا ذرا سی حرکت کی اطلاع العادل کو دے

 وہ دشمن کی ذرا ذرا سی حرکت کی اطلاع العادل کو دے دیتے تھے۔ ایک بار ان جاسوسوں میں ایک نے صلیبیوں کے اس خشک گھاس کے پہاڑ جیسے انبار کو آگ لگا دی تھی جو انہوں نے گھوڑوں کے لیے جمع کررکھا تھا۔

العادل کو اطلاع مل چکی تھی کہ دمشق سے تھوڑی سی کمک آرہی ہے۔ حلب سے کمک ملنے کی توقع نہیں تھی۔ الملک الصالح نے پیغام کا جواب دیا تھا کہ صلیبی (فرینکس جنہیں فرنگی کہا جاتا تھا) قلعہ حرن کو محاصرے میں لینا چاہتے ہیں، اگر انہوں نے ایسا ہی کیا تو ان پر حلب کی فوج سے حملہ کیا جائے گا۔

٭ ٭ ٭

چند ایک یورپی مورخین نے صلیبی جنگوں کے اس دور کے متعلق لکھا ہے کہ رملہ کی شکست کے بعد اسلامی فوج کو ختم کردیا گیا۔ اس کے جو دستے بچ گئے تھے، انہوں نے لوٹ مار کو پیشہ بنا لیا۔ وہ صلیبیوں کے فوجی قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔

حقیقت یہ ہے کہ لوٹ مار خود صلیبی کرتے تھے۔ زیادہ تر مورخ اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس سلسلے کی کہانیوں میں مورخوں کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ صلیبی فوج مقبوضہ علاقوں میں مسلمان قافلوں کو لوٹ لیا کرتی تھی اور یہ لوٹ مار اس طرح کی جاتی تھی جیسے یہ کوئی فوجی ڈیوٹی ہو، جن مسلمان دستوں کے متعلق چند ایک مورخوں نے لکھا ہے کہ وہ لوٹ مار کرنے لگے تھے، وہ العادل کے چھاپہ مار جیش تھے جنہوں نے شاہ بالڈون کی اتنی بڑی فوج کو گوریلا آپریشن سے ایک ہی علاقے میں الجھا لیا تھا۔

پہلے کہا جاچکا ہے کہ شب خون (گوریلا آپریشن) العادل کو مہنگا پڑ رہا تھا لیکن اس کے ٹروپس کا جذبہ ایسا تھا کہ کوئی سپاہی منہ نہیں پھیرتا تھا۔ اکثر جیش مسلسل وادیوں وغیرہ میں ہی گھومتے اور بھٹکتے رہتے تھے۔ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی اپنے اڈے پر واپس نہیں آتے تھے۔ا سد الاسدی کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق وہ چیتوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے تھے اور جب شکار پر جھپٹتے تھے تو انہیں اپنی جانیں چلی جانے کا کوئی غم نہیں ہوتا تھا۔ وہ دشمن کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچانے کی کوشش میں شہید اور شدید زخمی ہوجاتے تھے۔ ان کی راتیں دشت وبیاباں میں گزرتیں اور وہ من پسند کھانوں سے اپنے آپ کو محروم رکھتے تھے۔


جاری ھے ،



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں