صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔109 جب فرض نے محبت کا خون کیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آج وہ رملہ اسرائیلیوں کے قبضے میں ہے جہاں آٹھ سو سال پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں سے شکست کھائی تھی۔ رملہ جو بیت المقدس سے دس میل دور شمال میں واقع ہے، اردن کے علاقے میں ہے۔ جون ١١٦٧ء کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیلیوں نے اردن کے اس تمام علاقے پر قبضہ کرلیا تھا جو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔ دس برس گزر گئے ہیں، اسرائیلیوں نے یہ علاقہ خالی کرنے کے بجائے اس پر مکمل قبضہ کرلیاہے۔ اور کہا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں یہاں سے نکال نہیں سکتی۔ انہوں نے رملہ کو (اور اس تمام مقبوضہ علاقے کو) اس وقت بھی قتل گاہ بنایاتھا جب انہوں نے اس پر قبضہ کیا تھا، یہ آج بھی قتل گاہ ہے۔ گزشتہ ایک سال سے رملہ میں جو مسلمان رہ گئے، وہ اسرائیل حکومت کے خلاف مظاہرے کررہے ہیںاور اسرائیلی انہیں ظلم وتشدد اور رائفلوں کی گولیوں سے خاموش کررہے ہیں۔
اسرائیلیوں کی ہٹ دھرمی اور عربوں کے آپس میں اختلاف بتا رہے ہیں کہ اسرائیلی اس علاقے کو نہیں چھوڑیں گے۔ دس برس تو گزر گئے ہیں لیکن آٹھ سو سال پہلے جب یہ علاقہ اور یہی رملہ صلیبیوں کے قبضے میں آیا تھا تو سلطان صلاح الدین ایوبی ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھا تھا۔ وہ میدان جنگ سے بڑی مشکل سے جان بچا کر نکلا تھا۔ اس کی فوج ایسی بری طرح بھاگی کہ بکھر کر مصر کا رخ کرلیا۔ فوج کی خاصی نفری صلیبیوں کی قیدی ہوگئی اور کچھ نفری قاہرہ تک بے سروسامانی کی حالت میں پاپیادہ جاتے صحرا اور سفر کی صعبتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ ایسی شکست حوصلے اور جذبے توڑ دیا کرتی ہے۔ سنبھلتے سنبھلتے مدتیں گزر جاتی ہیں لیکن سلطان ایوبی مصر جا کر نہ صرف سنبھلا بلکہ اس علاقے میں واپس گیا جہاں سے شکست کھا کر بھاگا تھا اور اس نے صلیبیوں کے لیے قیامت بپا کردی۔
رملہ آج پھر سلطان صلاح الدین ایوبی کاا نتظار کررہا ہے۔
سلطان ایوبی کے سامنے صرف یہ مسئلہ نہیں تھا کہ شکست کا انتقام لینا ہے اور صلیبیوں کی پیش قدمی کو روکنا ہے، اسے بہت سے خطروں نے گھیر رکھا تھا۔ اس کی صفوں میں غداروں کی کمی نہیں تھی۔ سوڈان کی طرف سے حملے کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔ سوڈانیوں کو معلوم تھا کہ سلطان ایوبی کے پاس فوج نہیں رہی اور جو ہے وہ شکست خوردہ اور زخم خوردہ ہے۔ یہ خطرہ تو سب سے بڑا تھا کہ صلیبیوں کے پاس فوج دس گنا زیادہ تھی اور اس فوج کے حوصلے کو رملہ کی فتح نے مضبوط کردیا تھا۔ ایک یہ خطرہ بھی تھا کہ جو مسلمان امراء سلطان ایوبی کے مخالف تھے، وہ اس کی شکست سے فائدہ اٹھا سکتے تھے۔ وہ ایک بار پھر متحد ہوکر سلطان ایوبی کی اس فوج کے لیے مصیبت بن سکتے تھے جسے وہ محاذ پر چھوڑ آیا تھا۔ اس فوج کا سالار اعلیٰ اس کا اپنا بھائی العادل تھا جس پر سلطان ایوبی کو مکمل اعتماد تھا۔
اور ایک خطرہ صلیبی جاسوسوں کا بھی تھا۔ پسپائی کے وقت صلیبیوں کے جاسوسوں کا بھی مصری فوج کے بھیس میں مصر پہنچ جانا آسان تھا۔ یہ جاسوس مصر میں افواہیں پھیلا کر قوم کی خوصلہ شکنی کرسکتے تھے۔
اس شکست کے بعد العادل قرون حماة تک پیچھے ہٹ آیا تھا۔ اس داستان کی پچھلی اقساط میں آپ نے حماة کی جنگ کی تفصیل پڑھی ہے۔ یہاں سلطان ایوبی نے اپنے مخالف مسلمان امراء کو شکست دی تھی۔ حماة کا قلعہ بھی تھا۔ صلیبی سلطان کو شکست دے کر حماة کی طرف بڑھے۔ العادل خود بھی قابل سالار تھا اور اس کے ساتھ جو سالار تھے وہ مردان حر تھے۔ ان کا دین وایمان سلطان ایوبی کی طرح پختہ تھا۔ العادل اپنے بھائی سلطان ایوبی کا شاگرد تھا۔ جنگی چالوں کی مہارت اس سے سیکھی تھی۔ اسے اندازہ تھا کہ صلیبی اتنی بڑی اور اتنی آسان فتح کے بعد رملہ میں ہی خیمہ زن نہیں ہوجائیں گے۔ اس نے کسی بہروپ میں اپنے جاسوس پیچھے چھوڑے اور خود فوج کے ساتھ حماة کا رخ کیا۔ اسے پتہ چل گیاتھا کہ سلطان ایوبی مصر چلا گیا ہے۔
اس کا اندازہ صحیح ثابت ہوا۔ جاسوسوں نے اسے اطلاع دی کہ صلیبیوں کی فوج حماة کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔ العادل نے اپنی فوج کی کیفیت دیکھی۔ اچھی نہیں تھی۔ سپاہیوں کا حوصلہ مجروح ہوگیا تھا۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی بھی کمی ہوگئی تھی۔ رسد کی کیفیت بھی تسلی بخش نہیں تھی۔ البتہ وہ فوج کو بڑی اچھی جگہ لے آیا تھا جہاں سبزہ، پانی اور علاقہ پہاڑی تھا۔ العادل نے فوج کو ایک جگہ جمع کرلیا۔ اس نے دیکھا کہ اونٹوں کی خاصی تعداد زخمی ہے۔ اس نے ان اونٹوں کو ذبح کرا دیا اور فوج سے کہہ دیا کہ پیٹ بھر کر گوشت کھائو۔ اس طرح اس نے رات کو ایک وسیع وادی میں جشن کا منظر بنا دیا۔ شام کو ہی اس نے حلب اور دمشق کو اس پیغام کے ساتھ قاصد دوڑا دئیے تھے کہ جس قدر رسد، جانور اور اسلحہ بھیج سکتے ہو، بھیجو۔
رات جب سپاہی اونٹ کا گوشت کھا کر سیر ہوچکے تو العادل ایک ٹیکری پر چڑھ گیا۔ اس کے دائیں بائیں دو مشعل بردار کھڑے تھے۔ اس نے انتہائی بلند آواز میں کہا… ''اللہ اور رسول صلی اللہ وآلہ وسلم کے مجاہدو! اس حقیقت کو قبول کرو کہ ہم شکست کھا کر آئے ہیں۔ کیا تم اس حالت میں اپنی مائوں، اپنی بہنوں، اپنی بیویوں اور اپنی بچیوں کے سامنے جائو گے اور انہیں یہ بتائو گے کہ ہم اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکروں سے شکست کھا کر آئے ہیں؟ کیا تمہاری مائیں تمہیں دودھ کی دھاریں بخش دیں گی؟ وہ گھروں میں بیٹھی اس خبر کا انتظار کررہی ہیں کہ ہم نے قبلہ اول کو کفار کے قبضے سے آزاد کرالیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ جن علاقوں میں کفار قابض ہیں، وہاں وہ مسلمان عورتوں کو بے آبروکررہے ہیں۔ ذرا سوچو کہ اپنی مائوں اور بہنوں کو کیا جواب دو گے؟ تم میں سے جو یہاں سے پیچھے جانا چاہتے ہیں، الگ کھڑے ہوجائیں، میں انہیں نہیں روکوں گا۔ انہیں گھروں کو جانے کی اجازت نہیں ہے''۔
العادل خاموش ہوگیا۔ فوج پر بھی خاموشی طاری تھی۔ کوئی ایک بھی سپاہی الگ نہ ہوا۔
''سالار اعلیٰ ہمیں اپنا مقصد بتائیں''… کسی سپاہی کی آواز گرجی… ''آپ کو کس نے بتایا ہے کہ ہم گھروں کو جانا چاہتے ہیں؟''
''اگر میں پسپائی میں مارا گیا تو یہ میری وصیت ہے کہ میری لاش دفن نہ کی جائے''… ایک اور آواز گرجی۔ ''گدھوں اور بھیڑیوں کے لیے پھینک دی جائے''۔
پھر کئی آوازیں سنائی دیں۔ ہر آواز میں جذبے کا جوش تھا۔ العادل کا سینہ پھیل گیا۔ اس نے کہا… ''دشمن تمہارے پیچھے آرہا ہے۔ تمہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ رملہ کی فتح اس کی آخری فتح ہے… آج کی رات اور کل کا دن مکمل آرام کرو۔ کل رات تمہیں بتا دیا جائے گا کہ ہم کیا کریں گے''۔
العادل نے فوج سے فارغ ہوکر اپنے سالاروں اور کمان داروں کو اپنے خیمے میں بلا لیا ور انہیں ہدایات دیں کہ کل رات وہ اپنے دستوں کو کہاں کہاں لے جائیں گے۔ حماة کا قلعہ قریب ہی تھا۔
صلیبی بہت تیزی سے پیش قدمی کررہے تھے۔ یہ بالڈون کی فوج تھی۔ اسے معلوم تھا کہ آگے حماة کا قلعہ ہے اور العادل کی فوج اسی قلعے میں ہوگی۔ اسے جاسوسوں کے ذریعے یہ بھی معلوم تھا کہ جو فوج حماة کی طرف پسپا ہوکر گئی ہے اس کا کمانڈر العادل ہے اور العادل سلطان ایوبی کا بھائی ہے۔ یہ تو معمولی سا فوجی بھی سمجھ سکتا تھا کہ تھکی ہوئی اور شکست خوردہ فوج اپنے قریبی قلعے میں ہی جائے گی۔ چنانچہ صلیبی بادشہ بالڈون نے برق رفتار پیش قدمی کرکے حماة کے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ اس نے اعلان کیا کہ قلعے کا دروازہ کھول دیا جائے، ورنہ قلعے کو زمین سے ملا دیا جائے گا۔ وہ اس خیال میں تھا کہ العادل کی فوج لڑنے کی حالت میں نہیں۔ اعلان کے جواب میں قلعے کی دیوار سے تیروں کی بوچھاڑیں آئیں۔
: بالڈون نے ایک بار پھر اعلان کرایا کہ یہ خون خرابہ بے مقصد ہوگا۔ تم لڑ نہیں سکو گے۔ قلعہ ہمارے حوالے کردو۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ کسی قیدی کے ساتھ ناروا سلوک نہیں کیا جائے گا… قلعے کے اوپر سے آواز آئی۔ ''اتنی دور رہو جہاں تک ہمارے تیر نہ پہنچ سکیں۔ قلعہ تمہیں دینے کے بجائے اسے ہم خود زمین سے ملا دیں گے۔ ہمارا خون بے مقصد نہیں بہے گا۔ تم بے مقصد موت مرو گے''۔
قلعے کی دیواروں پر جو کھڑے تھے، انہیں صلیبیوں کی فوج یوں دکھائی دے رہی تھی جیسے سمندر کی موجیں ہر طرف سے قلعے کو نرغے میں لیے ہوئے ہوں۔ اس کے مقابلے میں قلعے میں جو فوج تھی، وہ نہ ہونے کے برابر تھی لیکن اس قلیل فوج کے کمانڈر ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نہ تھے۔ فوج بہت تھکی ہوئی تھی۔ یہ تعاقب تھا۔ بالڈون اس کوشش میں تھا کہ العادل کو کہیں آرام کرنے اور اپنی فوج کو ازسرنو منظم کرنے کی مہلت نہ دے۔ وہ العادل کو زندہ پکڑنا چاہتا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کا بھائی ہونے کی وجہ سے العادل بڑا ہی قیمتی قیدی تھا۔ اس کے عوض صلیبی سلطان ایوبی سے کڑی شرطیں منوا سکتے تھے۔ کوئی علاقہ لے سکتے تھے۔ بالڈون کو پوری توقع تھی کہ وہ قلعہ، قلعے کی فوج اور العادل سمیت لے سکے گا۔
٭ ٭ ٭
بالڈون نے اپنی فوج کو قلعے سے اتنی دور پیچھے ہٹا لیا تھا جہاں تک قلعے والوں کے تیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اسے ایسا خطرہ تو تھا ہی نہیں کہ باہر سے کوئی فوج اس پر حملہ کردے گی۔ سلطان ایوبی بھی وہاں نہیں تھا۔ اس کی فوج بھی نہیں تھی۔ بالڈون کو حماة کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا۔ شام کے فوراً بعد وہ اپنے کمانڈروں کو اگلے روز کے احکامات دے کر اپنی ذاتی خیمہ گاہ میں چلا گیا تھا جو فوج سے کچھ دور پیچھے تھی۔ اس دور کے جنگجو بادشاہوں کی خیمہ گاہیں شیش محل سے کم نہیں ہوتی تھیں۔ بالڈون تو فاتح تھا۔ تین چار صلیبی لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں اور چار وہ مسلمان لڑکیاں تھیں جنہیں صلیبی کمانڈروں نے مفتوحہ علاقے سے پکڑا اور بالڈون کو بطور تحفہ پیش کی تھیں۔ یہ لڑکیاں عرب کے حسن کا شاہکار تھیں۔
صلیبی لڑکیوں نے انہیں ذہن نشین کرادیا تھا کہ ان کا رونا اور آزاد ہونے کے لیے تڑپنا بے کار ہے۔ انہیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ خوش قسمت ہیں جو صلیب کے بادشاہ کے حصے میں آئی ہیں جو لڑکیاں صلیبی فوجیوں کے قبضے میں آگئی ہیں، ان کا حشر دیکھ کر زمین اور آسمان کانپتے ہیں… ''تمہیں آخر کسی مسلمان امیر یا حکام کے حرم میں جانا تھا جہاں تم قیدقی ہوتیں۔ دو چار سال بعد جب تمہاری نوجوانی کی کشش ماند پڑنے لگتی تو تمہیں کسی سوداگر کے ہاتھ فروخت کردیا جاتا۔ تم اگر اپنی فوج کے ہاتھ چڑھ جاتیں تو تمہارے مسلمان بھائی تمہارا وہی حشر کرتے جو ہماری فوج کرتی ہے۔ عورت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، اسے جس کے ساتھ بیاہ دیا جائے یا وہ جس کے قبضے میں آجائے، وہی انسان اس کا خدا اور اس کا مذہب بن جاتا ہے۔ پھر کیوں نہ تم اس انسان کے پاس رہو جو میدان جنگ کا بادشاہ ہے۔ ایک ملک کا بادشاہ ہے اور دل کا بھی بادشاہ ہے''۔
پہلے روز لڑکیاں تڑپی تھیں۔ ان پر تشدد نہ کیا گیا، انہیں کوئی دھمکی نہ دی گئی۔ بالڈون نے جب دیکھا کہ یہ نوجوان ہیں اور خوبصورت بھی ہیں تو اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے جرنیلوں سے کہا تھا کہ ان لڑکیوں کو ٹریننگ دے کر بہتر طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ایسی قیمتی لڑکیوں کو عیاشی کا ذریعہ بنا کر ضائع نہیں کرنا چاہیے چنانچہ اس نے انہیں اپنے پاس رکھ لیا تھا مگر اس سے یہ توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ انہیں بیٹیاں بنا کر رکھے گا۔ اس نے ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کی توقع تھی لیکن انہیں اپنی قوم کی شہزادیوں جیسی اہمیت دی، انہیں سبز باغ دکھائے اور باتوں باتوں میں انہیں آسمان تک پہنچا دیا۔
: ''ہمیں اپنی عصمت کی قربانی دینی ہی پڑے گی''… ان میں سے ایک لڑکی نے اس وقت کہا جب چاروں کو تنہائی میں باتیں کرنے کا موقع ملا تھا… ''ہمیں فرار ہونا چاہیے''۔
''اور انتقام لینا چاہیے''۔ دوسری نے کہا۔
''لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک ہم ان پر یہ ظاہر نہ کریں کہ ہم نے ان کی غلامی دلی طور پر قبول کرلی ہے''… پہلی لڑکی نے کہا… ''ہمیں اپنا اعتماد پیدا کرنا ہے''۔
''میرے والد سلطان ایوبی کی فوج میں ہیں''… ایک اور لڑکی نے کہا… ''آج کل مصر میں ہیں۔ انہوں نے بتایا تھا کہ کافروں کی لڑکیاں اپنی قوم اور اپنی صلیب کی خاطر اپنی عزت کی قیمت دے کر ہمارے بڑے بڑے حاکموں کو صلیب کی وفادار بنا لیتی ہیں، کسی کو قتل کرنا ہو تو قتل کرادیتی ہیں۔ ہماری فوج کے راز معلوم کرکے اپنے حاکموں تک پہنچاتی ہیں''۔
''میں جانتی ہوں''… ایک اور لڑکی بولی… ''ان کی لڑکیاں وہی کام کرتی ہیں جو ہمارے مرد جاسوس دشمن کے ملک میں جا کر کرتے ہیں''۔ وہ چپ ہوگئی۔ ادھر ادھر دیکھ کر راز داری سے بولی… ''اگر ہم انہیں کہہ دیں کہ ہم ان کا مذہب قبول کرتی ہیں تو ایسا موقع پیدا ہوسکتا ہے کہ ہم اس بادشاہ کو قتل کردیں''۔
''اور کچھ نہ ہوا تو فرار کا موقع پیدا کیا جاسکتا ہے''… ایک لڑکی نے کہا۔
جس رات بالڈون کی فوج نے حماة کے قلعے کو محاصرے میں لے رکھا تھا، اس سے دو راتیں پہلے لڑکیوں نے پیش قدمی کے دوران صلیبی لڑکیوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ ان کی باتیں سمجھ گئی ہیں اور وہ کسی وقت بھی مذہب تبدیل کرلیں گی۔ بالڈون کو بتایا گیا تو اس نے چاروں لڑکیوں کو بیش قیمت ہار پیش کیے اور چاروں کے گلے میں چھوٹی چھوٹی صلیبیں لٹکا دیں مگر اس نے صلیبی لڑکیوں کو الگ کرکے کہا… ''میں ان چاروں میں سے کسی کے ہاتھ سے کچھ کھائوں، پئوں گا نہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے ڈر کی وجہ سے مذہب تبدیل کیا ہو۔ زبان سے مذہب تبدیل کیا جاسکتا ہے، دل کی تبدیلی آسان نہیں ہوتی۔ ان کے دلوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو۔ مسلمانوں کو خریدنا کوئی مشکل نہیں، لیکن مسلمانوں پر بھروسہ کرنا بھی خطرے سے خالی نہیں جو مسلمان ایمان کے پکے ہیں، وہ ایسی ایسی قربانی دے ڈالتے ہیں جس کا ہماری قوم تصور بھی نہیں کرسکتی۔ یہ لڑکیاں کہیں بھاگ کر نہیں جاسکتیں لیکن ان پر نظر رکھنا کہ یہ مجھ پر وار نہ کرجائیں''۔
٭ ٭ ٭
محاصرے کی پہلی رات یہ چاروں لڑکیاں الگ خیمے میں سوئی ہوئی تھیں۔ بالڈون بھی ان کے ساتھ ہنس کھیل کر سوگیا تھا۔ تمام چھوٹے بڑے کمانڈر بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے تھے۔ فوج کو بھی ہوش نہیں تھی۔ صرف سنتری اور بالڈون کے باڈی گار ڈ کے چارپانچ سپاہی جاگ رہے تھے۔ قرون حماة کی ایک وادی قلعے کی طرف نکلتی تھی۔ آگے قلعے تک میدان تھا۔ اس وادی سے کم وبیش ایک ہزار پیادہ سپاہی دبے پائوں نکلے۔ ان کے کمانڈر نے انہیں ٹولیوں میں بانٹ کر پھیلا دیا۔ وہ آگے بڑھتے گئے۔ بالڈون کی فوج کے خیمے دور نہیں تھے۔
یہ پیادہ سپاہی العادل کے تھے۔ العادل قلعے میں نہیں تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ صلیبی قلعے کا محاصرہ کریں گے، چنانچہ اس نے اپنے تمام دستے حماة کی پہاڑیوں میں چھپالیے تھے۔ اس نے قلعے میں اطلاع بھجوائی تھی کہ محاصرے سے گھبرائیں نہیں۔ العادل نے قلعہ دار کو اپنی سکیم بتا دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ قلعہ دار صلیبیوں کی للکار کا جواب پوری دلیری سے اور تیروں کی بوچھاڑ سے دے رہا تھا۔ قلعہ دار العادل کا ماموں شہاب الدین الحارمی تھا۔ رات کو العادل کے ایک ہزار پیادوں نے ٹولیوں میں تقسیم ہوکر اور پھیل کر شب خون کے انداز کا حملہ کیا۔ انہوں نے سب سے پہلے خیمے کی رسیاں کاٹیں اور اوپر سے صلیبیوں کو برچھیوں سے چھلنی کرنا شروع کردیا۔ خیموں کے نیچے پھنسے ہوئے سپاہی کیا مزاحمت کرسکتے تھے۔
یہ جم کر لڑنے والا معرکہ نہیں تھا۔ یہ سلطان ایوبی کا مخصوص طریقہ جنگ تھا… ''ضرت لگائو اور بھاگو''… اتنی بڑی فوج کے خلاف ایک ہزار سپاہی جم کر لڑ بھی نہیں سکتے تھے۔ ٹولیوں کو مختلف کام دئیے گئے تھے۔ یہ دو تین ٹولیوں نے صلیبیوں کے گھوڑوں، اونٹوں اور خچروں کے رسے کھول دئیے۔ یہ ایک ہزار سپاہی بگولے کی طرح آئے اور دائیں بائیں کو نکل گئے۔ صلیبیوں کی فوج میں ایسا شور اٹھا کہ ایسی ہڑبونگ مچی کہ زمین وآسمان کانپنے لگے۔
باڈون کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے کمانڈر بھی جاگ اٹھے۔ خیمے سے باہر جاکر بالڈون نے دیکھا کہ کہیں آگ لگی ہوئی ہے۔ العادل کے سپاہیوں نے خیموں کو آگ لگا دی تھی۔ حملے کے وقت انہوں نے اللہ اکبر کے نعرے لگائے تھے۔ یہ نعرے مسلمان لڑکیوں نے بھی سنے تھے۔ وہ سمجھ گئیں کہ یہ مسلمان فوج کا حملہ ہے۔ ایک لڑکی نے کہا کہ بھاگ چلو لیکن دو لڑکیاں جوش میں آگئیں۔ وہ بالڈون کو قتل کرنے کے لیے تیار ہوگئیں، وہاں مشعلیں جلا دی گئیں۔ بالڈون کے باڈی گارڈ اس کے اردگرد گھوڑوں پر سوار کھڑے ہوگئے۔
اتنے میں زمین بڑی زور سے ہلنے لگی اور ہزاروں گھوڑوں کی ٹاپ سنائی دینے لگی۔ یہ العادل کے سوار تھے جن کی تعداد مسلمان مورخ دو ہزار بتاتے ہیں اور یورپی مورخ چار ہزار سے زیادہ۔ ان گھوڑ سواروں نے پھیل کر بڑا ہی شدید اور خون ریز ہلہ بولا۔ صلیبی مقابلے کی حالت میں نہیں تھے۔ انہیں ابھی معلوم ہی نہیں ہوسکا تھا کہ یہ کیاہورہا ہے اور حملہ آور کہاں سے آئے ہیں۔ ان کے نعروں سے ثبوت ملتا تھا کہ مسلمان ہیں۔ العادل کے سوار صلیبیوں کے محاصرے کو توڑتے ہوئے اور راستے میں جو آیا اسے گھوڑوں تلے روندتے یا تلواروں اور برچھیوں کا نشانہ بناتے ہوئے قلعے کی طرف نکل گئے۔ کمانڈروں کی پکار پر انہوں نے گھوڑے پیچھے کو موڑے اور ایڑی لگا دی۔ وہ ایک بار پھر افراتفری میں بھاگتے دوڑتے صلیبیوں میں سے گزرے۔
قلعے کی دوسری طرف جو صلیبی فوج تھی، اس پر حملہ نہیں ہوا تھا۔ اس حصے نے ادھر کا شوروغوغا اور گھوڑوں کی قیامت خیز آوازیں سنیں تو ان میں بھی بھگڈڑ مچ گئی۔ ادھر کے صلیبی سپاہی ادھر کو بھاگے۔ ان کے ہزار ہا گھوڑے، اونٹ اور خچریں کھول دی گئی تھیں۔ انہوں نے بھاگ دوڑ کر سپاہیوں کو کچلنا اور خوف زدہ کرنا شروع کردیا۔ بالڈون کی فوج کا وہ حصہ بھاگ اٹھا۔
ادھر چاروں مسلمان لڑکیاں لاپتہ ہوگئیں۔ ان میں سے ایک اس کوشش میں تھی کہ مسلمان سپاہیوں کو بتائے کہ بالڈون یہاں ہے مگر وہاں سب سوار تھے اور سرپٹ گھوڑے دوڑا رہے تھے۔ وہ صلیبیوں کی فوج سے دور نکل گئی۔ دو تین سواروں کے ساتھ چیختی چلاتی دوڑی مگر وہاں اس قدر شور تھا کہ کسی نے اس کی آواز نہ سنی، کوئی اس کی طرف توجہ نہ دے سکا۔ وہ دور پیچھے نکل گئی۔ ایک سوار نے گھوڑا روک لیا۔ لڑکی نے اسے ہانپتی کانپتی آواز میں بتایا کہ وہ مسلمان ہے اور اس جیسی تین اور مسلمان لڑکیاں صلیبی بادشاہ کے قبضے میں ہیں۔ بالڈون کی خیمہ گاہ جو اس کا جنگی ہیڈکوارٹر بھی تھا، فوج سے الگ اور دور تھی۔ لڑکی کی آوازپر جس سوار نے گھوڑا روکا تھا، وہ کوئی کمان دار تھا۔ اس نے لڑکی کو گھوڑے پر بٹھایا اور پیچھے لے گیا۔
وہاں العادل کا ایک سالار تھا جس نے لڑکی کی پوری بات سنی۔ لڑکی نے بالڈون کے ہیڈکوارٹر کی نشاندہی کی۔ سالار نے وہاں شب خون مارنے اور بالڈون کو پکڑنے کے لیے دو جیش تیار کیے اور خود ان کی قیادت کی۔ اس نے سرپٹ گھوڑے دوڑا کر بالڈون کی خیمہ گاہ کو گھیرے میں لے لیا۔ ان کے ساتھ جلتی ہوئی مشعلیں بھی تھیں۔ سالار نے بالڈون کو للکارا۔ خیموں کو آگ لگانے کی دھمکی دی۔ ان میں ملازم، صلیبی اور تین مسلمان لڑکیاں اور چند ایک سپاہی تھے۔ ان سب کو پکڑ لیا گیا۔ بالڈون کے متعلق پوچھا گیا مگر کوئی نہ بتا سکا کہ وہ کہاں ہے۔
: اس وقت بالڈون گھبراہٹ کے عالم میں آگے چلا گیا تھا۔ اسے معلوم ہوگیا تھا کہ یہ مسلمان فوج کا شب خون ہے، لیکن وہاں اس قدر بھگڈر تھی اور اتنے زیادہ گھوڑے دوڑ رہے تھے اور زخمی ایسی بری طرح چیخ رہے تھے کہ صورت حال پر قابو پانا بالڈون کے بس کا روگ نہیں تھا۔ وہ واپس اپنی خیمہ گاہ کو چل پڑا۔ اس کے ساتھ باڈی گارڈز بھی تھے۔ وہ خیمہ گاہ سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ ادھر سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتا آیا۔ گھوڑا اس کے سامنے روک کر بالڈون سے کہا کہ وہ کہیں چلا جائے اپنی خیمہ گاہ میں نہ جائے، کیونکہ وہاں مسلمان فوج پہنچ چکی ہے۔ بالڈون نے وہیں سے گھوڑے کا رخ پھیر لیا۔
رات بھر العادل نے ''ضرت لگائو اور بھاگو'' کی کارروائی جاری رکھی۔ جب صبح طلوع ہوئی تو حماة کے قلعے کے اردگرد صلیبیوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں۔ ان میں زخمی بھی کراہ رہے تھے اور ان میں العادل کے شہیدوں کی لاشیں بھی تھیں۔ خچریں، گھوڑے اور اونٹ دور دور بکھرے ہوئے چر رہے تھے۔ وہاں بالڈون تھا نہ اس کی فوج۔ صلیبی اپنی رسد بھی پھینک گئے تھے۔ العادل نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ وہ دشمن کا سامان اکٹھا کرے اور اس کے جانوروں کو پکڑے۔ العادل کا یہ حملہ دلیری، جذبے، فن حرب وضرب کے لحاظ سے قابل تعریف حملہ تھا مگر جنگی نقطہ نگاہ سے اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جاسکا۔ ضرورت یہ تھی کہ افراتفری میں بھاگتے ہوئے صلیبیوں کا تعاقب کرکے ان کی جنگی قوت کو مکمل طور پر تباہ کردیا جاتا، پھر پیش قدمی کرکے اس علاقے میں داخل ہوا جاتا جو صلیبیوں نے فتح کرلیاتھا۔ قیدی پکڑے جاتے جنہیں اپنے قیدی چھڑانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا، مگر العادل کے لیے ممکن نہ تھا کہ کامیاب شب خون سے کوئی بڑی کامیاب حاصل کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس کے پاس فوج کی کمی تھی۔ وہ تعاقب کے قابل نہیں تھا۔ شب خون اور چھاپہ مارنے سے دشمن کو پریشان اور ادھ موا کیا جاتا ہے۔ اسے شکست دے کر علاقے پر قبضہ کرنے کے لیے پوری فوج حملہ کرتی ہے۔ العادل نے ایک کام تو کرلیا تھا لیکن اگلے مرحلے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں تھا۔
البتہ اس نے یہ کامیابی حاصل کرلی کہ اس نے اس قلیل فوج کے جذبے پر رملہ کی شکست کا جو برا اثر پڑا تھا، وہ صاف ہوگیا اور سپاہیوں کے جذبے تروتازہ ہوگئے۔ ان کے دلوں میں یہ اعتماد بحاء ہوگیا کہ صلیبی ان سے برتر نہیں اور وہ کسی بھی میدان میں صلیبیوں کو شکست دے سکتے ہیں۔ ضرورت فوج میں اضافے کی تھی۔ یہ کامیابی بھی حاصل کی گئی کہ حماة کے قلعے کو بچا لیا گیا، ورنہ صلیبیوں کو ایک قلعہ بند اڈا مل جاتا۔
العادل اپنے ہیڈکوارٹر میں دانت پیس رہا تھا۔ اس کے سالاروں کی جذباتی حالت اس سے زیادہ مشتعل تھی۔ اگر ان کے پاس فوج ہوتی تو وہ اس شب خون کے بعد بہت بڑی کامیابی حاصل کرلیتے اور بالڈون اپنی فوج کو زندہ نہ لے جاسکتا۔ العادل نے کاتب کو بلایا اور اپنے بڑے بھائی سلطان صلاح الدین ایوبی کے نام خط لکھوانے لگا۔
: ''برادر بزرگوار، سلطان مصر وشام!''
''اللہ آپ کو سلطنت اسلامیہ کے وقار کی خاطر عمر طویل عطا فرمائے۔ میں اس امید پر خط لکھ رہا ہوں کہ آپ بخیروعافیت قاہرہ پہنچ چکے ہوں گے۔ کسی نے اطلاع دی تھی کہ آپ شہید ہوگئے ہیں پھر معلوم ہوا کہ زخمی ہوئے ہیں۔ میں اور میرے سالار فکر مند رہے۔ آپ نے دانش مندی کی جو راستے سے قاصد بھیج کر ہمیں بتا دیا کہ آپ زندہ وسلامت ہیں اور قاہرہ جارہے ہیں۔ مجھے توقع ہے کہ آپ نے رملہ کی شکست کو دل پر بار نہیں بنایا ہوگا۔ ہم انشاء اللہ شکست کا انتقام لیں گے۔ کھوئے ہوئے علاقے واپس لیں گے اور بیت المقدس سے بھی آگے جائیں گے''…
''آپ شکست کے اسباب پر غور کررہے ہوں گے۔ میں اس کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں کروں گا۔ ہمیں شکست کے راستے پر اپنے بھائیوں نے اسی روز ڈال دیا تھا جس روز ہمارے خلاف صف آراء ہوئے تھے۔ جب دو بھائی آپس میں لڑتے ہیں تو ان کے دشمن ہمدردی کے پردے میں انہیں ایک دوسرے کے خلاف مشتعل کرتے ہیں۔ ہمارے بھائیوں کو بادشاہی کے نشے نے اندھا کیا۔ وہ دولت جس کی ضرورت سلطنت اسلامیہ کو تھی، خانہ جنگی میں ضائع ہوئی۔ ہماری فوج کی بہترین اور تجربہ کار نفری تباہ ہوگئی۔ ان کی فوج جو اسی خلافت کی فوج تھی جس کے ہم ہیں، صرف اس لیے ضائع ہوگئی کہ چند ایک افرادن ے تخت وتاتج کے خواب دیکھنے شروع کردئیے تھے جس قوم کے سربراہوں میں تخت وتاج کا لالچ پیدا ہوگا اس کو وہ اپنے اپنے عزائم کے مطابق دھڑوں میں تقسیم کرکے آپس میں ضرور لڑائیں گے۔ ہمیں اس طرف بھی توجہ دینی پڑے گی کہ قوم دھڑوں اور گروہوں میں تقسیم نہ ہونے پائے۔ مذہبی فرقہ بندیاں ہی کیا کم تھیں کہ سلطانی کے حصول کے لیے قوم گروہوں میں تقسیم ہونے لگی ہے۔ ہمیں شکست تک اسی فرقہ بندی نے پہنچایا ہے مگر اس کی سزا آج سالاروں اور سپاہیوں کو مل رہی ہے۔ ہماری بہترین فوج خانہ جنگی میں ضائع ہوئی۔ اس کمی کو ہم نے نئی بھرتی سے پورا کیا اور شکست کھائی۔ میدان جنگ سے بے ترتیب بھاگنے والے تمام نئے سپاہی تھے''…
''میں نے اور میرے سالاروں نے رملہ کی شکست کے فوراً بعد ثابت کردیا ہے کہ فوج نہیں ہاری۔ میرے پاس وہی پیادہ اور سوار نفری تھی جو آپ نے میری کمان میں دی تھی۔ آپ نے مجھے محفوظہ (ریزرو) میں رکھا مگر میدان جنگ کی کیفیت اس قدر تیزی سے بدل گئی کہ مجھ تک آپ کا کوئی حکم نہ پہنچ سکا۔ یہ بھی پتہ نہ چلا کہ آگے کیا ہورہا ہے اور میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں۔ پسپا ہونے والے ایک کمان دار نے جو دائیں پہلو پر تھا، مجھے بڑی ہی تشویشناک اطلاع دی اور مشورہ دیا کہ میں اپنے دستے استعمال نہ کروں اور حملے کی لغزش نہ کروں۔ میں نے یہی بہتر سمجھا کہ کم از کم ان دستوں کو جو معرکے میں ابھی شریک ہی نہیں ہوئے، بچا لوں۔ میں نے اپنے جذبات پر قابو پالیا اورعقل سے کام لیا۔ میں نے حماة کی طرف کوچ کا حکم دے دیا''…
''میرے دستوں کا جذبہ کسی حد تک مجروح ہوگیا تھا۔ میں دعا کرتا رہا کہ دشمن میرے سامنے آئے اور میں اپنے دستوں کے جذبے میں جان ڈالوں۔ میں نے مخبر پیچھے چھوڑ دئیے تھے۔ حماة کے کوہستان میں مجھے مخبروں نے یہ قیمتیں خبریں دیں کہ بالڈون میرے تعاقب میں آرہا ہے۔ وہ اس غلط فہمی میں اپنی تمام تر فوج حماة کے قلعے کو محاصرے میں لینے کو آیا کہ میں قلعے میں ہوں گا لیکن میں نے آپ کے طریقہ جنگ کے عین مطابق کوہستان کے اندر دستے چھپا دئیے تھے اور قلعہ دار کو صورت حال اور اپنی متوقع چال کے متعلق تفصیلاً بتا دیا تھا۔ میری توقع اللہ نے پوری کی۔ بالڈون کی فوج پر جس کی قوت ہم سے دس گنا زیادہ تھی، میرے جانباز جیشوں نے بڑا ہی دلیرانہ اور کامیاب شب خون مارا یہ آپ کی اس فوج کا شب خون تھا جس کے متعلق تاریخ کہے گی کہ اس نے شکست کھائی تھی۔ میری خواہش ہے کہ یہ شب خون تحریر میں لا کر کاغذات میں رکھ لیا جائے تاکہ آنے والی نسلیں یہ نہ کہیں شکست کے بعد قوم مر ہی جاتی ہے''…
''اگر آپ وہ منظر دیکھتے جو اگلے روز کے سورج نے ہمیں دکھایا تو آپ شکست کے صدمے کو بھول جاتے۔ مجھے افسوس ہے کہ بالڈون میرے پھندے سے نکل گیا۔ اسے پکڑا نہیں جاسکا۔ میں اس وقت ایک ٹیکری پر کھڑا کاتب سے یہ خط لکھوا رہا ہوں۔ مجھے حماة کا قلعہ نظر آرہا ہے۔ اس پر وحدت مصر وشام کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ قلعے کے اردگرد صلیبیوں کی لاشوں کے علاوہ کچھ اور دکھائی دیتا ہے تو وہ ہزاروں گدھ ہیں جو لاشوں کو کھا رہے ہیں۔ آسمان سے گدھ اتر رہے ہیں۔ کہیں کہیں سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ یہ آگ گزشتہ رات میرے چھاپہ ماروں نے لگائی تھی۔ بالڈون کی فوج جس افراتفری میں بھاگی ہے، اس سے میں وثوق سے کہتا ہوں کہ بالڈون جوابی حملہ نہیں کرسکے گا۔ تاہم میں اس کے لیے تیار ہوں''…
''اگر میرے پاس اتنے ہی دستے اور ہوتے جتنے اب ہیں تو میں صلیبیوں کا تعاقب کرتا اور شکست کو فتح میں بدل دیتا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے سالاروں، کمان داروں اور تمام تر سپاہ کا لڑنے کا جذبہ تروتازہ ہوگیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ آرام سے نہیں بیٹھے ہوںگے۔ فوج کے لیے بھرتی اور نئی تنظیم میں مصروف ہوگئے ہوں گے۔ آپ اطمینان سے تیاری کریں، میں چھاپہ مار جنگ جاری رکھوں گا۔ دشمن کو کہیں بھی آرام سے بیٹھنے نہیں دوںگا۔ اس طرح میں کسی علاقے پر قبضہ تو نہیں کرسکوں گا، البتہ آپ کو تیاری کا وقت مل جائے گا۔ میں نے دمشق بھائی شمس الدولہ کو پیغام بھیج دیا ہے کہ مجھے چند ایک دستے اور دیگر سامان بھیجے۔ حلب، الملک الصالح کو بھی پیغام بھیج دیا ہے کہ معاہدے کے مطابق مجھے مدد دے۔ میں آپ کو اللہ کے بھروسے پر تسلی دے رہا ہوں کہ میرے متعلق فکر نہ کریں۔ میں اور میرے سالار آپ کی خیریت اور سرگرمیوں کے متعلق جاننے کو بے تاب ہیں۔ اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ اسی کی ذات باری سے مدد مانگتے ہیں اور ہم سب کو اسی کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔''
''الملک العادل''
العادل نے خط پڑھوا کر سنا۔ اس پر دستخط کیے اور قاصد کو دے کر قاہرہ کو روانہ کردیا۔
٭ ٭ ٭
قاہرہ کی فضا پر مایوسی کے بادل چھائے ہوئے تھے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی وہاں پہنچ چکا تھا۔ شہر میں اور شہر کے مضافات میں یہی ایک آواز ابھرتی سنائی دیتی تھی، شکست، شکست، شکست… شکوک اور شبہات بھی ابھرنے لگے تھے۔ شکست جیسے حادثات اور ایسے واقعات جن کے متعلق لوگوں کو کچھ پتہ نہ چل سکے، ایسی فضا پیدا کردیتے ہیں جس سے افواہیں پھوٹتی، پھلتی، پھولتی اور پھیلتی ہیں۔ یہ عمل قاہرہ کے اندر بھی اور اردگرد بھی شروع ہوگیا تھا۔ وہاں دشمن کے تخریب کار اور جاسوس بھی موجود تھے جو یورپ کے باشندے نہیں مصر کے رہنے والے مسلمان تھا۔ اس کی انہیں اجرت ملتی تھی کہ لوگوں میں یہ مشہور کریں کہ صلیبیوں کے پاس اتنی جنگی قوت ہے جس کے سامنے دنیا کی کوئی فوج نہیں ٹھہر سکتی۔ سلطان ایوبی کی ہاری ہوئی فوج کے خلاف یہ مشہور کیا جانے لگا کہ بے کار اور عیاش فوج ہے۔ جہاں جاتی ہے، لوٹ مار کرتی اور مسلمان خواتین کی آبروریزی سے بھی گریز نہیں کرتی۔ سلطان ایوبی کی جنگی اہلیت کے خلاف بھی باتیں شروع ہوگئیں۔
لوگ جس قدر سیدھے سادھے ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ افواہوں اور جذباتی باتوں کو مانتے ہیں۔ مصریوں نے دہشت کو بھی قبول کرنا شروع کردیا تھا۔ زیادہ تر دہشت وہ سپاہی پھیلاتے تھے جو اکیلے یا دو دو چار چار کی ٹولیوں میں مصر کی سرحد میں داخل ہورہے تھے۔ یہ دیہات کے رہنے والے تھے، جنہیں بھرتی کرکے اور تھوڑی سی ٹریننگ دے کر میدان جنگ میں لے جایا گیا تھا۔ العادل نے ٹھیک لکھا تھا کہ بادشاہی کے لالچی مسلمان امراء اپنی اور سلطان ایوبی کی فوج کو خانہ جنگی میں ضائع نہ کرادیتے تو نئی بھرتی کو میدان جنگ میں لے جانے کا خطرہ مول نہ لیا جاتا۔ ایک غلطی بھرتی کرنے والے چند ایک حکام نے کی تھی جو یہ تھی کہ فوج میں کشش پیدا کرنے کے لیے انہوں نے بھرتی ہونے والوں کو مال غنیمت کا لالچ دیا تھا جبکہ ضرورت یہ تھی کہ انہیں جہا دکے فضائل اور اغراض ومقاصد بتائے جاتے اور بتایا جاتا کہ ان کا دشمن کون ہے، کیسا ہے اور اس کے عزائم کیا ہیں۔
: یہ سپاہی پاپیادہ بھی آرہے تھے۔ اونٹوں اور گھوڑوں پر بھی آرہے تھے۔ جب کوئی سپاہی کسی آبادی میں داخل ہوتا تھا، لوگ اسے گھیر لیتے، کھیلاتے پلاتے اور میدان جنگ کی باتیں پوچھتے تھے۔ یہ گنوار سپاہی شکست کی خفت مٹانے کے لیے اپنے کمانڈروں کو نااہل اور عیاش ثابت کرتے اور صلیبی فوج کے متعلق دہشت ناک باتیں سناتے تھے۔ بعض کی باتوں سے پتہ چلتا تھا جیسے صلیبیوں کے پاس کوئی مافوق الفطرت قوت ہے جس کے زور پر وہ جدھر جاتے ہیں، صفایا کرتے جاتے ہیں۔
ایسے مورخوں کی تعداد زیادہ تو نہیں لیکن دو تین نے جن میں ارنول قابل ذکر ہے۔ لکھا ہے کہ صلیبی ایک خفیہ ہتھیار لائے تھے اور یہی ان کی فتح کا باعث بنا تھا۔ تاریخ کی مختلف تحریروں میں اس خفیہ ہتھیار کا آگے چل کر کوئی ذکر نہیں ملتا۔ قاضی بہائوالدین شداد کی ڈائری میں جو عینی شہادت ہے، ایسے کسی ہتھیار کا ذکر نہیں۔ اس دور کے دیگر وقائع نگاروں اور کاتبوں کی تحریریں بھی اس پراسرار ہتھیار کے متعلق خاموش ہیں۔ غالباً یہ ہتھیار اس پراپیگنڈے کا ایک خالی ہتھیار تھا جسے مصر (اور دیگر مسلمان علاقوں) میں صلیبیوں کی دہشت پھیلانے کے لیے کیا گیا تھا۔ ہوسکتا ہے اس کے بہت زیادہ ذکر سے مورخوں نے اسے حقیقی سمجھ لیا ہو۔
یہ خفیہ ہتھیار دراصل پراپیگنڈا تھا جس کا مقصد یہ تھا کہ قوم کی نظروں میں فوج کو ذلیل ورسوا کردیا جائے تاکہ سلطان ایوبی کی فوج قوم کے تعاون اور نئی بھرتی سے محروم ہوجائے۔ دوسرا یہ کہ مسلمانوں پر صلیبیوں کی دھاک بیٹھ جائے۔ تیسرا یہ کہ سلطان ایوبی کے خلاف عدم اعتماد کی فضا پیدا ہوجائے۔ چوتھا یہ کہ کچھ اور لوگ سلطانی کے دعوے دار بن جائیں اور ایک بار پھر خانہ جنگی شروع کرائی جائے۔
سلطان ایوبی دشمن کے اس ہتھیار سے اچھی طرح واقف تھا۔ اس نے قاہرہ پہنچتے ہی اپنی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر علی بن سفیان، کوتوال غیاث بلبیس اور ان دونوں کے نائبین کو بلا کر پوری وضاحت سے بتا دیا تھا کہ اب وہ دشمن کے اس زمین دوز حملے کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور اپنے جاسوسوں اور مخبروں کو زیرزمین کرکے سرگرم کردیں… مگر لوگ جاننا چاہتے تھے کہ اس شکست کے اسباب کیا ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے۔
٭ ٭ ٭
رملہ سے قاہرہ تک کی مسافت بڑی ہی لمبی تھی اور سفر بھیانک اور کٹھن تھا۔ راستے میں پہاڑی علاقے بھی تھے، مٹی اور ریت کے ٹیلوں کی بھول بھلیاں بھی اور صحرا بھی تھا جو بھولے بھٹکے مسافروں کا خون چوس لیا کرتا ہے۔ سلطان ایوبی کے وہ سپاہی جو میدان جنگ سے مصر کو چل پڑے تھے، وہ اس لمبی اور بھیانک مسافت میں بکھر گئے تھے۔ ان کی واپسی کا منظر ہیبت ناک تھا۔ ان میں جو ریگزار کے سفر سے آشنا نہیں تھے، وہ جہاں گرتے، وہاں سے اٹھ نہیں سکتے تھے۔ ان کی لاشیں صرف ایک روز سالم نظر آتی تھیں۔ اگلے روز صحرائی لومڑیاں اور بھیڑئیے ان کی ہڈیاں بکھیر دیتے تھے۔ ٹولیوں میں آنے والے اس انجام سے بچے رہتے تھے اور جو اونٹوں، خچروں اور گھوڑوں پر سوار تھے، ان کے زندہ واپس آجانے کے امکانات زیادہ تھے۔
ایسی ہی ایک ٹولی چلی آرہی تھی۔ یہ سب سپاہی تھے اور وہ اونٹوں اور گھوڑوں پر سوار تھے۔ راستے میں ان کے اکیلے دھکیلے ساتھی ان کے ساتھ ملتے گئے اور یہ ٹولی تیس چالیس افراد کا قافلہ بن گیا۔ وہ اس بھیانک ریگزار میں سے گزر رہے تھے جو آج صحرائے سینائی کہلاتا ہے۔ اکٹھے ہونے کی وجہ سے ان کا حوصلہ قائم تھا مگر افق تک پانی کے آثار نظر نہیں آتے تھے۔ دور دور میدان جنگ سے زندہ نکلے ہوئے فوجی، ایک ایک دو دو قدم گھسیٹتے جاتے نظر آتے تھے۔ وہ ایک دوسرے کی کوئی مدد نہیں کرسکتے تھے، سوائے اس کے کہ کوئی مرجاتا تو اس کا کوئی ساتھی اسے ریت میں دفن کردیتا تھا۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں