داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 108 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 108

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔108 ایک منزل کے مسافر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

وکٹر کو جو کچھ معلوم ہوسکاتھا وہ اس نے امام کو بتا دیا۔ وہ اٹھا اور امام کے روکنے پر بھی نہ رکا۔ کہنے لگا… ''آپ بالکل مطمئن رہیں۔ آپ کو کوئی نہیں پکڑ سکے گا'' اور وہ باہر نکل گیا۔ وہ شہر سے بھی نکل گیا۔ اس کے زخموں سے خون بند ہوچکا تھا۔ امام نے دونوں زخموں پر پٹیاں باندھ دی تھیں۔ اس نے اس خیال سے دونوں پٹیاں اتار کر پھینک دیں کہ جن کے پاس وہ جارہاتھا، وہ یہ نہ پوچھ بیٹھیں کہ مرہم پٹی کس سے کرائی ہے۔زخموں سے پھر خون رسنے لگا۔ وہ اس جگہ گیا جہاں چنگیز اور عورت کی لاشیں پڑی تھیں۔ رات کے پچھلے پہر کا چاند اوپر اٹھ آیا تھا۔ وکٹر کو شراب کی صراحی اور دو پیالے پڑے نظر آئے۔ اس نے عورت کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ موت بھی اس کے چہرے کا حسن نہیں بگاڑ سکی تھی۔ اس کے کھلے ہوئے ریشمی ملائم بال اس کے سینے پر بکھر گئے تھے۔ وکٹر نے شراب کی صراحی کو دیکھا اور زیرلب کہا… ''انسان نے اپنی تباہی کے کیسے کیسے ذریعے اختیارکیے ہیں''۔

اس نے چنگیز کو دیکھا اور اس کے پاس بیٹھ گیا۔ چنگیزکا جسم برف کی طرح سرد ہوچکاتھا۔ وکٹر نے اس کاہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا… ''تم اچھی طرح جانتے تھے کہ عورت مرد کی کتنی بڑی کمزوری ہے اور شراب نے بادشاہوں کے تختے الٹ دئیے ہیں۔ تم نے اس کمزوری کو اپنے اندر ڈال لیا… میں بھی آرہا ہوں میرے دوست! جلاد مجھے جلدی ہی تمہارے پاس پہنچا دے گا۔ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ میں آرہا ہوں دوست، میں آرہا ہوں''۔

وہ اٹھا اور بہت تیز قدم اٹھاتا ہوا اس عمارت کی طرف چل پڑا جس میں افسررہتے تھے۔ اس کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے نیام سے خنجر نکالا۔ اس پر خون جم گیا تھا۔ اس نے اسے اپنے خون سے ترکیا اور خنجر ہاتھ میں رکھا۔ خون زیادہ نکل جانے سے وہ کمزوری محسوس کرنے لگا تھا… اس نے ایک دروازے پر دستک دی۔ اسے معلوم تھا کہ جس کے پاس اسے جانا ہے، اس کی رہائش یہی ہے۔ کچھ دیر بعد ایک ملازم نے دروازہ کھولا۔ وکٹر نے افسر کانام لے کر کہاکہ اسے جگائو اور بتائو کہ ایک قاتل آیا ہے۔ ملازم اندر کو دوڑا۔

اندر سے گالیوں کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ افسر گالیاں بکتا آیا۔ دروازے پر آکر قہر بھری آواز میں پوچھا… ''کون ہو تم، کسے قتل کرکے آئے ہو؟'' ملازم قندیل اٹھائے دوڑا آیا۔ افسر نے روشنی میں وکٹر کو دیکھ کر پوچھا… ''تم؟ کسی سے لڑائی ہوگئی تھی؟''

''میں دو انسانوں کے قتل کا اقبال کرنے آیا ہوں''۔ وکٹر نے کہا… ''مجھے گرفتار کرلیں''۔

افسر نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مار کر کہا… ''قتل کا تمہیں یہی وقت ملا تھا؟ دن کو کیوں نہ قتل کیا؟ میں تمہارے باپ کا نوکر ہوں جو اس وقت تمہیں گرفتار کروں گا؟ اتنی گہری نیند سے مجھے جگا دیا ہے''۔ اس نے اپنے ملازم سے کہا… ''اوئے، لے جائو! اسے قید خانے میں بند کردو''۔

ملازم وکٹر کو بازو سے پکڑ کر چل پڑا تو افسر نے گرج کر کہا… ''اوئے، رک جائو۔ جنگلی کہیں کے۔ تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ یہ راستے میں تمہیں بھی قتل کردے گا۔ اندر لائو اسے، اس نے کیاکیا ہے؟''

''میں نے ایک آدمی اور ایک عورت کا قتل کیا ہے جناب!'' وکٹر بلند آواز سے بولا۔

''قتل کیا ہے؟''… افسر نے حیرت اور گھبراہٹ سے پوچھا… ''قتل کیا ہے؟… اگر مسلمان قتل کیا ہے تو جائو اپنی مرہم پٹی کرائو۔ تم اسے قتل نہ کرتے تو وہ تمہیں قتل کردیتا۔ اگر کسی صلیبی کو قتل کیا ہے تو تمہیں بھی قتل ہونا چاہیے۔ اندر آکر بتائو''۔

''آپ نے میرے ساتھ ایک بڑا ہی خوبرو آدمی دیکھا ہوگا''… وکٹر نے اندر جاکر کہا۔ اس نے چنگیز کا وہ عیسائی نام بتایا جس سے وہ جانا پہچانا جاتا تھا۔ کہنے لگا… ''میری دوستی ایک عورت کے ساتھ تھی، میرے اس ساتھی نے اس عورت کو ورغلایا اور میرے اور اس کے تعلقات توڑ ڈالے۔ اس عورت کے ساتھ دوستی کرلی اور اس سے میری بے عزتی کرائی۔ میں اس عورت کی دوستی سے دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ ان دونوں نے مجھے بہت مشتعل کیا۔ میں نے آج رات انہیں اکٹھے بیٹھے دیکھ لیا۔ میں دراصل انہیں دیکھنے ہی گیا تھا۔ انہیں میں نے ایسی حالت میں دیکھا جو میری برداشت سے باہر تھی۔ میں نے عورت پر حملہ کیا اور اسے خنجر سے مار ڈالا، پھر اپنے رقیب کے ساتھ خنجر بازی ہوئی۔ مجھے یہ دو زخم آئے ہیں۔ اسے بھی دو ہی زخم آئے ہیں مگر مہلک ثابت ہوئے ہیں، کہیں بھاگ جانے کے بجائے آپ کے پاس آگیا ہوں''۔

افسر نے کہا… ''عورت کے لیے قتل ہونا یا قتل کرنا عقل مندی تو نہیں''۔

یہ افسر بالکل سنجیدہ نہیں لگتا تھا۔ وہ شاید وکٹر کو چھوڑ دیتا مگر صبح ہوتے ہی لاشیں دیکھی گئیں۔ ہرمن اور اس کے نائب کو پتہ چلا تو دونوں غصے سے پاگل ہونے لگے۔ مقتولہ ان کی بڑی قیمتی اور کارآمد مخبر اور جاسوس تھی

 اور چنگیز اس عورت کاشکار تھا جس سے اس گروہ کا سراغ لگانا تھا۔ یہ گروہ محفوظ ہوگیا تھا۔وکٹر کے زخموں سے خون بہہ رہا تھا۔ کسی نے اس کی مرہم پٹی کی نہ سوچی۔ ہرمن نے اسے پیٹنا شروع کردیا جس سے وکٹر بے ہوش ہوگیا۔ اس کے بعد وہ کبھی بھی ہوش میں نہ آیا۔ دوسرے دن بے ہوشی کی حالت میں اسے جلاد کے حوالے کردیا گیا۔ جلاد کے کلہاڑے نے ایک ہی وار سے اس کا سرتن سے جدا کردیا۔

اس کے سر اور دھڑ کو جب ایک گڑھے میں پھینکاجارہا تھا، اس وقت امام کا روانہ کیا ہوا ایک جاسوس تریپولی سے دور نکل گیا تھا۔ اسے اونٹ پر بھیجا گیا تھا کیونکہ قاہرہ تک کا سفر بڑا ہی لمبا اور بڑا ہی کٹھن تھا جسے صرف اونٹ برداشت کرسکتا تھا۔

٭ ٭ ٭

٥٧٢ھ ہجری (١١٧٧ عیسوی) کے اوائل کا ایک مہینہ تھا۔ قاہرہ کے فوجی علاقے میں غیرمعمولی رونق اور چہل پہل تھی۔ کسی میدان میں گھوڑے دوڑائے جارہے تھے اور کہیں پیادہ سپاہیوں کو ٹریننگ دی جارہی تھی۔ شتر سواروں کی رونق الگ تھی۔ قاہرہ سے دور پہاڑی علاقے میں منظر ایسا تھا جیسے جنگ لڑی جارہی ہو۔ یہ سلطان ایوبی کی فوج کی جنگی مشق تھی۔ ایک وادی میں آتش گیر مادہ پھینک کر آگ لگائی گئی تھی جو بیس پچیس گز تک پھیلی ہوگئی تھی۔ سوار گھوڑے دوڑاتے ان شعلوں میں سے گزر رہے تھے۔ ایک جنگی مشق دور ریگستان میں ہورہی تھی۔ کسی سپاہی کو پانی اپنے ساتھ رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔

یہ بڑی ہی سخت ٹریننگ تھی جو نئے رنگروٹوں کو دی جارہی تھی۔ بھرتی ابھی جاری تھی۔ فوج کے تمام سالار اور دیگر افسر اس ٹریننگ میں مصروف تھے۔ سلطان ایوبی سلطنت کے دوسرے مسائل اور امور کی طرف رات کو توجہ دیتا تھا۔ اس کا دن ٹریننگ کی نگرانی کرتے اور سالاروں کو ہدایات دیتے گزرتا تھا۔ اس نے سب سے کہہ دیا تھا کہ اگر صلیبیوں نے شام پر فوج کشی نہ کی تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ انہوں نے لڑائی سے توبہ کرلی ہے یا ان کی عقل جواب دے گئی ہے مگر ان دونوں میں سے ایک بھی بات صحیح نہیں۔ وہ ضرور آئیں گے۔

''اس وقت تک کسی نہ کسی مقبوضہ علاقے سے اپنے کسی آدمی کو آناچاہیے تھا''… سلطان ایوبی نے اپنے پاس کھڑے ایک سالار سے کہا۔ وہ ایک چٹان پر کھڑا جنگی مشق دیکھ رہا تھا۔ اس نے کہا… ''صلیبی آئیں گے ضرور۔ یہ مجھے کوئی جاسوس ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کدھر سے آئیں گے، کہاں آئیںگے اور ان کی نفری کتنی ہوگی''۔

وہ چٹان سے اتر کر کسی اور طرف جانے لگا تو اسے دور سے گرد اڑتی نظر آئی جو ایک یاد دوگھوڑوں کی تھی۔ سلطان رک گیا۔گرد قریب آئی تو اس میں سے دو گھوڑے برآمد ہوئے۔ ایک پر علی بن سفیان سوار تھاا ور دوسرے کو سلطان پہچان نہ سکا۔ وہ تریپولی سے امام کا بھیجا ہوا جاسوس تھا جو وہاں سے اونٹ پر روانہ ہواتھا۔ بہت دنوں بعد قاہرہ پہنچا تھا۔ علی بن سفیان نے اس سے رپورٹ لی اور اسے گھوڑے دے کر ساتھ لے آیا تاکہ رپورٹ سلطان ایوبی کو فوراً دی جائے۔

جاسوس نے سلطان ایوبی کو بتایا… ''صلیبی ایک برق رفتار اور طوفانی حملے کے لیے تیاریاں کررہے ہیں۔ فوجوں کا اجتماع شروع ہوگیا ہے۔ سب سے زیادہ فوج حونین کے شاہ رینالٹ کی ہے، وہ اس طوفانی یلغار کی قیادت کرنا چاہتا ہے''۔

''وہی رینالٹ جسے نورالدین زنگی نے گرفتار کرکے قید میں ڈال دیا تھا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اسے وہ اپنی شرائط پر رہا کرنا چاہتے تھے، مگر زنگی کی بے وقت موت ریناٹ کی رہائی کا باعث بنی۔ اقتدار اور زروجواہرات کے لالچی امراء نے نورالدین زنگی کے کمسن بیٹے کو کٹھ پتلی بنایا اور رینالٹ کو رہا کردیا۔ آج وہ رینالٹ اسلام کا خاتمہ کرنے آرہا ہے … ہاں! تم آگے سنائو۔ انہیں یلغار کرنی چاہیے تھی اور کون ہوگا؟''

''تریپولی کا ریمانڈ ہوگا۔ زیادہ تر افواج کا اجتماع وہیں ہورہا ہے اور حملے کی تفصیلات وہیں طے ہورہی ہیں۔ تیسرا بالڈون ہوگا۔ اس کی فوج بھی کم نہیں۔ یہ معلوم نہیں کیا جاسکتا کہ صلیبی فوج کب کوچ کرے گی۔ حملہ شام پر ہوگا۔ حلب، حرن اور حماة کے نام سنے گئے ہیں۔ کوچ جلدی ہوگا''۔

''علی بن سفیان!''… سلطان ایوبی نے کہا… ''مجھے تریپولی سے آخری اطلاعات کا انتظار رہے گا''۔

 ''ان اطلاعات کا انتظار نہ کریں جن کی آپ توقع لگائے بیٹھے ہیں''۔ علی بن سفیان کے بجائے جاسوس نے جواب دیا… ''صلیبیوں کے عسکری ایوان میں ہمارے آدمی تھے، دونوں مارے گئے ہیں''… اس نے راشد چنگیز اور وکٹر کا واقعہ سنا دیا۔ سلطان ایوبی کی آنکھیں لال ہوگئیں۔ جاسوس نے کہا… ''رینالٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی فوج میں اڑھائی سو نائٹ ہوںگے۔ اپنے ان دونوں جاسوسوں نے مرنے سے پہلے امام کو بتایا تھا کہ صلیبی آپ کو چھاپہ مار اور شب خون مارنے کا طریقہ استعمال کرنے کی مہلت نہیں دیں گے۔ انہوں نے کچھ ایسی چالیں سوچ لی ہیں جن سے وہ آپ کو مجبور کردیںگے کہ آپ پوری فوج کو سامنے لا کرلڑیں۔ انہیں آپ کی اس کمزوری کا علم ہے کہ آپ کے پاس فوج کی کمی ہے۔ اسی کے پیش نظر وہ بہت زیادہ فوج لا رہے ہیں، تاکہ آپ گھوم پھر کر نہ لڑسکیں''۔

جاسوس کی یہ اطلاع ملنے کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی باہر کم نظر آنے لگا۔ وہ کمرے میں بند رہنے لگا۔کاغذ پر ممکنہ میدان جنگ کا نقشہ بنا کر اس پر پیش قدمی اور دیگرچالوں کی لکیریں کھینچتا رہتا۔ کبھی اچانک اپنے سالاروں کو بلا کر ان کے ساتھ بحث میں الجھ جاتا اور انہیں موقع دیتا کہ وہ بھی رائے دیں اور چالیں سوچیں۔ ان سالاروں میں ایک عیسیٰ الہکاری تھا جو ایک قابل سالار ہونے کے علاوہ عالم اور قانون دان بھی تھا۔اسے بعض مورخوںنے سلطان ایوبی کا دست راست بھی کہاہے۔

ایک روز سلطان ایوبی نے خلاف توقع کوچ کا حکم دے دیا۔ اس نے فوج کا خاصاحصہ سوڈان کی سرحد کے ساتھ خیمہ زن کردیا کیونکہ ادھر سے بھی حملے کا خطرہ تھا۔ اس کے لیے سب سے بڑی مصیبت یہی تھی کہ وہ پیش قدمی کرتا تھا تو اس کے عقب میں بھی دشمن ہوتاتھا۔ صلیبیوں کے لیے وہ مصر کی ساری فوج نہیں لے جاسکتا تھا۔ اس نے کوچ کیا تو مورخوں کے اعدادوشمار کے مطابق، اس کے پاس جو فوج تھی وہ ایک ہزار پیادہ تھی۔ یہ سب مملوک تھے۔ (مملوک آزادکیے ہوئے غلاموں کو کہاجاتا تھا) یہ لڑاکے اور جنگجو تھے۔ ان کے علاوہ آٹھ ہزار گھوڑ سوار تھے جن میں مصری بھی تھے اور وہ سوڈانی بھی جنہیں ١١٦٩ء میں سلطان ایوبی نے بغاوت کے جرم میں فوج سے نکال کر انہیں زرخیز زمینوں پر آباد کردیا تھا۔ اب وہ مصر کے وفادار تھے۔ ان پر اعتماد کیا جاسکتا تھا مگر یہ ایک ہزار مملوک اور آٹھ ہزار سوار نئے نئے فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ انہوں نے ابھی جنگ دیکھی ہی نہیںتھی۔ ان کی ٹریننگ بمشکل مکمل ہوئی تھی۔

سلطان ایوبی اپنی فوج اپنے بھائی العادل کی زیر کمال حلب کے مضافات میں چھوڑ آیا تھا۔ اسے کسی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ صلیبی اتنی جلدی شام تک نہیں پہنچیں گے۔ اس نے کوچ بہت تیز کرایا اور حلب جاپہنچا۔ وہاں اسے پتہ چلا کہ صلیبیوں نے حرن کے قلعے کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ آپ نے حرن کا مکمل ذکر پچھلی کہانیوں میں پڑھا ہے۔ سلطان ایوبی نے محاصرہ کرنے والی صلیبی فوج کو محاصرے میں لے لیا۔ اس کی یہ چال ایسی اچانک تھی کہ صلیبی جم کر لڑ نہ سکے۔ سلطان ایوبی نے بہت سے قیدی پکڑے اور صلیبیوں کو بہت نقصان پہنچایا۔ اس نے پیش قدمی جاری رکھی اور دو اہم مقامات، بڈیا اور رملہ پر قبضہ کرلیا۔

یہ فتوحات قدرے آسان تھیں۔ مصرسے آئے ہوئے نئے سپاہیوں کے حوصلے بڑھگئے۔ وہ سمجھے کہ جنگ اسی طرح ہوتی ہے جس میں فتح ہماری ہی ہوتی ہے۔ اس سے نئے سپاہی غیرمحتاط ہوگئے۔ صلیبیوں نے غالباً دانستہ پسپا ہوکر سلطان ایوبی کو دھوکہ دیا تھا۔ انہوں نے تھوڑی سی فوج کی نمائش کی تھی۔ یہ فرنگی (فرینکس) تھے۔ رینالٹ اور بالڈون کی فوجیں ابھی سامنے نہیں آئی تھیں۔ وہ اسی علاقے میں موجود تھے۔ اب صلیبیوں نے ایسے سخت اقدامات کیے تھے کہ سلطان ایوبی کے جاسوس دشمن کے علاقے سے نکل ہی نہ سکے۔ تریپولی کے جاسوس کے بعد ادھر سے کوئی آہی نہ سکا۔

رملہ کے قریب ایک ندی تھی جس کا پانی تو گہرا نہیں تھا، ندی گہرائی میں تھی اور چوڑی بھی۔ عیسیٰ الہکاری نے رملہ کو فتح کرکے اپنے دستوں کو رملہ کے اردگرد پھیلا دیا۔ اچانک ندی کے کنارے کی اوٹ میں صلیبیوں کی فوج یوں نکلی جیسے سیلاب کناروں سے باہر آگیا ہو۔ یہ فوج جانے کب سے وہاں چھپی بیٹھی تھی۔ عیسیٰ الہکاری کے دستے بے خبری میں مارے گئے۔ وہ بکھرے ہوئے بھی تھے۔ مقابلہ نہ کرسکے۔ تریپولی کے جاسوس کی یہ اطلاع صحیح ثابت ہوئی کہ صلیبی ایسی چالیں چلیں گے جن سے سلطان ایوبی اپنے مخصوص طریقہ جنگ سے لڑنے کے قابل نہیں رہے گا۔

اس وقت کے ایک وقائع نگار ابن اسیر نے لکھا ہے۔ ''فرنگی اس طرح ندی سے نکلے جیسے انسانوں اور گھوڑوں کا سیلاب کناروں سے باہر آکر آبادیوں کو اپنے ساتھ بہائے لے جارہا ہو۔ سلطان ایوبی کی فوج بے خبری میں مکمل گھیرے میں آگئی''۔

: مشہور مورخ جیمز نے لکھا ہے… ''شاہ بالڈون صلاح الدین ایوبی سے پہلے اپنی فوج رملہ کے مضافات میں لے آیا تھا۔ صلاح الدین ایوبی کی فوج نے رملہ کا شہر فتح کرلیا اور اس کے ہر اول کے ایک سالار ایولن نے شہر کو آگ لگا دی تھی۔ صلیبیوں (فرنگیوں) کی گھات کامیاب رہی۔ ایوبی گھیرے میں آگیا۔ اس کے دستے بکھر گئے۔ اس نے کئی دستے یکجا کرلیے اور اپنی خصوصی چال کے مطابق جوابی حملہ کیامگر میدان صلیبیوں کے ہاتھ میں تھا۔ صلاح الدین ایوبی کا حملہ نہ صرف ناکام رہا بلکہ اس کے لیے پسپائی بھی ناممکن ہوگئی''۔

نئے رنگروٹ جو چند ایک مقامات آسانی سے فتح کرکے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ انہیں کوئی شکست دے ہی نہیں سکتا۔ وہ ایسے بھاگے کہ انہوں نے مصر کا رخ کرلیا۔ بھاگنے والوں میں ان کی تعداد زیادہ تھی جنہیں بعض غیرمحتاط فوجی افسروں نے مال غنیمت کا لالچ دے کر بھرتی کیاتھا۔ سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ یہ سب ناتجربہ کار تھے۔ سلطان ایوبی اس کیفیت میں رہ گیاتھا کہ وہ ایک اونٹ پر سوار ہوکر میدان کارزار سے نکلا ور اپنی جان بچائی۔

قاضی بہائوالدین شداد جو اس جنگ کا عینی شاہد ہے، اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے… ''سلطان ایوبی نے مجھے اس شکست کی وجہ ان الفاظ میں بتائی تھی… ''صلیبیوں نے میری چال چل کر میری فوج کو اس وقت جنگ میں گھسیٹ لیا جب میں اسے جنگی ترتیب میں نہیں لاسکا تھا۔ دوسری وجہ یہ ہوئی کہ میری فوج کے پہلوئوں پر جو دستے تھے، وہ جگہ آپس میں بدل رہے تھے۔ یہ بہت بڑی نقل وحرکت تھی۔ صلیبیوں نے اس کیفیت میں حملہ کردیا۔ ان کا حملہ اتنا شدید اوراچانک تھا کہ میرے نئے سپاہی اور سوار گھبرا کر پیچھے کو بھاگاٹھے اور انہوں نے مصر کا رخ کرلیا۔ وہ راستے سے بھٹک گئے اور دور دور بکھر گئے۔ میں انہیں یکجا نہ کرسکا۔ دشمن نے میری فوج سے بہت سے جنگی قیدی پکڑے۔ ان میں عیسیٰ الہکاری بھی تھا''… سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو مروانے کے بجائے حکم دے دیا کہ اپنے اپنے طور پر میدان جنگ سے نکلو اور قاہرہ پہنچنے کی کوشش کرو''۔

سلطان ایوبی نے صلیبیوں کو ساٹھ ہزار دینار زر فدیہ ادا کرکے عیسیٰ الہکاری کو رہا کرالیا۔ ایک مصرف وقائع نگار محمد فرید ابوحدید نے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی نے اپنے بھائی شمس الدولہ توران شاہ کو اس جنگ اور اپنی شکست کا حال لکھا تھا جس میں اس نے عربی کا ایک شعر بھی لکھا تھا۔ اس کے معنی یہ ہیں۔

''میں نے تمہیں اس وقت یاد کیا جب صلیبی برچھیاں چل رہی تھیں، دشمن کی سیدھی اور گندمی رنگ کی برچھیاں ہمارے جسموں میں داخل ہوکر ہمارا خون پی رہی تھیں''۔

یہ معرکہ جمادی الاول ٥٧٣ہجری (اکتوبر ١١٧٧ز) میں لڑا گیا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس حالت میں قاہرہ پہنچا کہ اس کا سرجھکا ہوکاتھا۔ اس کے ساتھ کوئی فوج نہیں تھی۔ اس کا محافظ دستہ بھی ساتھ نہیں تھا۔ اس نے قاہرہ پہنچتے ہی مزید بھرتی کا حکم دیا۔ شام کے محاذ پر وہ اپنے بھائی العادل اور بڑے قابل سالاروں کو حماة کے علاقے میں چھوڑ آیا تھا۔


جاری ھے


 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں