داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 107 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 107

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔107 ایک منزل کے مسافر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

''لیکن یہ بھی امکان ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے پردہ نہ اٹھائے''۔ ہرمن کے نائب نے عورت کے بالوں پر عریاں کندھوں پر اور اس کے سینے پر ہاتھ پھیر کر کہا… ''کیا تمہارے یہ ہتھیار بے کار ہوگئے ہیں؟ اس نے اپنا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔ اس نے قلعے کا دروازہ کھول دیا ہے۔ تمہیں اب اندر جاکر کونے کھدرے کی تلاشی لینی ہے۔ تم یہ کام بھی کرسکو گی۔ میں صبح ہرمن کو تفصیل سے بتا دوں گا کہ تم نے یہ کارنامہ کردکھایا ہے''۔

شام کے کھانے پر جب چنگیز اور وکٹر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے تھے، ہرمن آگیا۔ اس نے چنگیز کے ساتھ دوستانہ انداز سے ہاتھ ملایا اور کہا… ''تمہیں معلوم ہے کہ ہماری افواج تاریخ کی سب سے بڑی مہم پر جارہی ہیں۔ ہم تمہیں بھی ساتھ لے جارہے ہیں۔ بہت دور کی سیرا کرائیں گے۔ وکٹر بھی ساتھ ہوگا چونکہ دو تین بادشاہ ساتھ ہوںگے، اس لیے تم دونوں کا ساتھ جانا ضروری ہے''۔

''میں ضرور چلوں گا''۔ چنگیز نے کہا۔

ہرمن کو رپورٹ مل چکی تھی کہ راشد چنگیز جاسوس ہے اور آج رات اس کے محکمے کی ایک جواں سال اور دل نشیں عورت جس نے اسے بے نقاب کیا ہے، اس سے اس کے گروہ کے دیگر افراد کے نام اور پتے بھی حاصل کرلے گی۔ ہرمن نے اس عورت کو نئی ہدایات دی تھیں اور نائب سے کہا تھا کہ چنگیز کے گروہ کا انکشاف ہونے تک یہ عورت اسے اکیلے ملتی رہے اور اتنی ہوشیار رہے کہ چنگیز کو شک نہ ہو۔

چنگیز کا دھیان اپنے کام میں تھا ہی نہیں۔ وہ لمحے گن گن کر گزار رہا تھا۔ اتنی بڑی کامیابی اس نے کبھی بھی حاصل نہیں کی تھی کہ اتنا عظیم راز اسے ملا ہو اور اتنی حسین لڑکی اس پر مر مٹی ہو۔ اس رات کو تریپولی میں وہ آخری رات سمجھ رہا تھا۔ مکمل راز لے کر اس عورت کے ساتھ اسے اگلے روز تریپولی سے نکل جانا تھا… وہ آخر فارغ ہوگیا اور اپنے کمرے میں گیا۔ وکٹر بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس نے کپڑے بدلے۔ مصنوعی داڑھی نہ لی۔ خنجر چغے کے اندرچھپا لیا۔

''میں تمہیں آخری بار کہہ رہا ہوں کہ اس عورت اور شراب کے نشے سے آزاد ہوکر اور دماغ کو حاضر رکھ کر بات کرنا''۔ وکٹر نے اسے کہا… ''مجھے خطرہ محسوس ہورہا ہے کہ تم اس عورت کو پوری چھان بین کیے بغیر اسے اپنے سارے راز دے دوگے''۔

''سنووکٹر!'' چنگیز نے عجیب سے لہجے میں کہا… ''میں اس عورت کے خلاف کوئی بات نہیں سنوں گا۔ میں نے اس کے ساتھ بڑی لمبی ملاقاتیں کی ہیں۔ اس کی پوری کہانی سنی ہے۔ تم اسے نہیں سمجھ سکتے۔ میں بہتر سمجھتا ہوں۔ مجھے پاگل نہ سمجھو۔ یہ میری پہلی اور آخری محبت ہے''۔

وکٹر چپ رہا۔ اس نے چنگیز کے لہجے سے جان لیا تھا کہ وہ اپنے آپ میں نہیں۔ اسے پہ احساس تو تھا کہ چنگیز کی شکل وصورت اور قدبت میں اتنی کشش ہے کہ اس عورت سے کہیں زیادہ خوبصورت اونچے طبقے کی عورتیں بھی اسے نظر بھر کر دیکھتی ہیں لیکن اس عورت کے متعلق اسے وہم سا ہوچلا تھا کہ چنگیز کو دھوکہ دے رہی ہے اور اگر وہ دھوکہ نہیں دے رہی تو چنگیز اسے اپنی اصلیت بتا کر اپنے آپ کو خطرے میں ڈال رہا ہے، اگر یہ عورت مسلمان جاسوس ہی ہے تو اس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا کیونکہ اسے سرکاری طورپر نہیں بھیجا گیا تھا۔ وکٹر کو اطمینان محسوس نہیں ہورہا تھا۔

چنگیز چلا گیا۔ وکٹر گہری سوچ میں کھوگیا۔ چنگیز کے جانے کے بعد وہ سوجایا کرتا تھا مگر اس رات اسے نیند نہیں آرہی تھی۔ اپنے کمرے میں جاکر وہ لیٹنے کے بجائے بے چینی سے ٹہلنے لگا۔

٭ ٭ ٭

عورت اسی جگہ چنگیز کے انتظار میں کھڑی تھی۔ اس کے قریب زمین پر شراب کی صراحی اور دو پیالے پڑے تھے۔ اندھیرے میں چنگیز کو سائے کی طرح آتا دیکھ کر وہ دوڑ پڑی اور اس کے ساتھ لپٹ گئی جیسے بچہ ماں کے ساتھ لپٹ جاتا ہے۔ اس نے ایسے والہانہ پن اور خود سپردگی کا مظاہرہ کیا جس نے چنگیز کی عقل پر خمار طاری کردیا اور اس کے جذبات بیدار ہوگئے۔ اس کایاں عورت نے اپنے حسن وجوانی کے وہ سارے ہتھیار استعمال کیے جن پر ہرمن کے نائب نے ہاتھ پھیر کر کہا تھا کہ تمہارے یہ ہتھیار بے کار تو نہیں ہوگئے۔

''تم مجھے دھوکہ تو نہیں دے رہے؟'' اس نے چنگیز سے رندھی ہوئی آواز میں پوچھا… ''تمہاری محبت نے مجھے ایسا بے بس اور مجبور کردیا ہے کہ میں نے اپنا اتنا نازک راز تمہیں دے دیا ہے''۔

عورت اس کی کمر کے گرد ایک بازو لپیٹے اسے وہاں سے لے گئی جہاں صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ اسے وہاں بٹھایاا ور پیالوں میں شراب ڈال کر بولی… ''فتح کی خوشی میں ایک جام''… چنگیز اس قدر مسرور تھا کہ اس نے فوراً پیالہ لے لیا اور پی گیا۔ عورت نے اس کے پیالے میں اور شراب ڈال دی۔ چنگیز نے وہ بھی پی لی۔ ان سے آٹھ دس قدم دور ایک درخت تھا۔ کوئی پیچھے سے رینگتا ہوا آیا اور اس درخت کے تنے کی اوٹ میں بیٹھ گیا۔ رات خاموش تھی۔ : درخت کی اوٹ میں بیٹھے ہوئے آدمی کو چنگیزا ور عورت کی سرگوشیاں بھی سنائی دے رہی تھی مگر وہ سرگوشیوں میں نہیں ذرا اونچی آواز میں باتیں کررہے تھے۔

''اب بتائو کیا خبر لائی ہو''۔ چنگیز نے عورت سے پوچھا۔

''ایسی خبر لائی ہوں جو سلطان ایوبی نے کبھی خواب میں نہیں سنی ہوگی''۔ عورت نے کہا… ''میں صلیبیوں کی موت کا پروانہ لائی ہوں''… اس نے چنگیز کو صلیبیوں کا پلان اور پیش قدمی کا راستہ بتا دیا اور یہ بھی بتایا کہ وہ کہاں حملہ کریں گے۔ اس نے صلیبی فوج کی رسد کا راستہ بھی بتایا اور یہ بھی کہ کوچ کب ہوگا۔

''ہمیں یہاں سے جلدی نکل جانا چاہیے''۔ چنگیز نے کہا… ''کل رات نکل چلیں؟''

''نہیں!''عورت نے کہا… ''ہمیں جس راز کی ضرورت تھی، وہ مل گیا ہے لیکن میرے دل میں انتقام کی جو آگ بھڑک رہی ہے میں اسے سرد کرکے جائوں گی۔ صلیبیوں نے اپنی فوج کے لیے بے انداز رسد جمع کرلی ہے۔ خیموں اور ہتھیاروں کا کوئی حساب نہیں۔ آتش گیر سیال کے مٹکے بھی ہیں۔ اناج کے انبار ہیں۔ یہ ذخیرہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے۔ اسے تباہ کرنا کوئی مشکل نہیں۔ پہرے کا اتنا ہی انتظام ہے کہ سات آٹھ سپاہی رات کو گشت کرتے ہیں۔ مجھے معلوم ہے کہ صلیبیوں نے یہ ذخیرہ تین چار مہینوں میں جمع کیا ہے، اگر ہم نے اسے نذرآتش کردیا تو ان کا حملہ تین چار مہینوں کے لیے رک جائے گا۔ اس عرصے میں سلطان صلاح الدین ایوبی اپنی تیاریاں مکمل کرلے گا۔ تم ہرمن کو جانتے ہو۔ میں نے اس کے دل سے بھی راز نکال لیے ہیں۔ اس نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی نئی بھرتی کررہا ہے اور اس کی پہلی فوج اپنے ہی بھائیوں کے خلاف لڑ کر اتنا جانی نقصان اٹھا چکی ہے کہ لڑنے کے قابل نہیں رہی۔ یہ بدبخت صلیبی سلطان ایوبی کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ صلیبیوں کا کوچ التوا میں ڈالا جائے۔ اس کا واحد ذریعہ کمزوری یہ ہے کہ ان کی رسد جلا دی جائے۔ ان کے جو ہزاروں گھوڑے ہیں، انہیں ہلاک کرنے کا انتظام بھی ہوسکتاہے''۔

''رسد کو آگ کون لگائے گا؟'' چنگیز نے پوچھا۔

''یہ تمہیں معلوم ہوگا کہ یہاں تمہارے کتنے آدمی موجود ہیں''۔ عورت نے کہا… ''ان میں چھاپہ مار بھی ہوں گے۔ یہ کام ان کے سپرد کیا جائے، یہاں تمہارے کتنے چھاپہ مار موجود ہیں؟''

''سلطان ایوبی نے حکم دے رکھا ہے کہ دشمن کے مقبوضہ علاقوں میں تباہ کاری نہ کی جائے کیونکہ چھاپہ مار تو تباہ کاری کرنے کے بعد ادھر ادھر ہوجاتے ہیں۔ سزا بے گناہ مسلمان باشندوں کو ملتی ہے''۔ چنگیز نے کہا… ''صلیبی ان کے گھروں میں گھس کر ان کی مستورات کو بھی پریشان کرتے ہیں۔ اس لیے ہم نے چھاپہ ماروں کو واپس بھیج دیا تھا۔ یہاں جاسوس ہیں، وہ تخریب کاری بھی کرسکتے ہیں۔ وہ یہاں کے چند ایک جوانوں کا تیار کرسکتے ہیں''۔

''انہیں کسی جگہ اکٹھا کرنے کا انتظام ہوسکتا ہے؟'' عورت نے پوچھا اور چنگیز کے پیالے میں شراب ڈال کر اپنے ہاتھوں پیالہ اس کے منہ کے ساتھ لگا دیا۔

''ہم نے ایک مسجد کو خفیہ اڈا بنا رکھا ہے''۔ چنگیز نے شراب کا پیالہ پی کر کہا۔ اس نے مسجدکا محل وقوع بتا دیا اور کہا… ''اس مسجد کا امام ہماری جماعت کا امیر ہے۔ بہت قابل اور دلیر انسان ہے۔ میں آج رات ہی اسے بتا دوں گا۔ وہ کل ان جوانوں کو مسجد میں اکٹھا کرلے گا۔ وہ سب نماز پڑھنے کے بہانے آئیں گے''۔

''صرف ایک قابل اور دلیر آدمی سے کام نہیں چلے گا''۔ عورت نے کہا… ''امام کے ساتھ تم ہوگے اور تین چار اور ذہین آدمیوں کا ہونا ضروری ہے، تاکہ اس تباہ کاری کامنصوبہ دانش مندی سے بنے۔ یہ ذخیرہ اس وقت تباہ کیا جائے گا، جب ہم دونوں یہاں سے نکل جائیں گے، ورنہ شہر کی ناکہ بندی ہوجائے گی''۔

''صرف امام نہیں''۔ چنگیز نے کہا… ''یہاں ہمارا ایک سے ایک بڑھ کر قابل آدمی موجود ہے''۔ اس نے چند ایک آدمیوں کے نام بتا دئیے اور کہا… ''میں ان سب کو مسجد میں بلا سکتا ہوں''۔

یہ عورت چنگیز سے یہی راز لینا چاہتی تھی۔ اس نے اس گروہ کے متعلق کچھ اور باتیں پوچھیں جو چنگیز نے بتا دیں اور کہا… ''اس محل میں، میں اکیلا نہیں۔ میرے ساتھ وکٹر نام کا جو آدمی ہے، وہ بھی ہمارے گروہ میں ہے''۔

''وکٹر بھی؟'' عورت نے چونک کر کہا۔

''ہاں!''۔ چنگیز نے کہا… ''کیا تم ہماری استادی کی تعریف نہیں کروگی کہ ہم نے ایک عیسائی کو بھی اپنا جاسوس بنا رکھا ہے؟''

عورت کچھ دیر خاموش رہی، پھر بولی… ''کل دن کو میں تمہارے کمرے میں آئوں گی۔ مجھے وہاں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا''۔

 عورت جانے کے لیے اٹھی۔ درخت کی اوٹ میں چھپے ہوئے آدمی نے حرکت کی۔ اس نے بیٹھے بیٹھے کمر بند سے خنجر نکالا اور آٹھ دس قدم کا فاصلہ دو چھلانگوں میں طے کر کے عورت کو پیچھے سے ایک بازو سے جکڑ لیا۔ اس کا خنجر والا ہاتھ اوپر اٹھا، تیزی سے نیچے آیا اور خنجر عورت کے سینے میں اتر گیا۔ عورت کی ہلکی سی چیخ سنائی دی اور یہ آواز… ''میرے سینے میں خنجر اتر گیا ہے''۔

چنگیز نے خنجر نکالا اور اس آدمی کو للکار کر اس پر حملہ کیا۔ اس آدمی نے گھوم کر عورت کو آگے کردیا اور کہا… ''میں وکٹر ہوں چنگیز! اس بدبخت کو زندہ نہیں رہنا چاہیے''… عورت سسک رہی تھی۔ وکٹر نے اسے پیچھے سے ایک بازو میں دبوچ رکھا تھا۔

''تم ذلیل عیسائی!'' چنگیز شراب کے نشے میں کہہ رہا تھا… ''سانپ کے بچے نکلے؟''… وہ گھوم کر اس پر حملہ کرنے لگا۔

وکٹر نے عورت کو آگے کردیا اور اسے ڈھال بنا کر بولا… ''ہوش میں آئو چنگیز! تم نے اسے سب کچھ بتا کر سارا کھیل برباد کردیا ہے، اگر یہ زندہ رہی تو کل ہم سب گرفتار ہوجائیں گے''۔

چنگیز بپھرے ہوئے چیتے کی طرح اس کے اردگرد گھوم اور پھنکار رہا تھا۔ لڑکی ابھی ہوش میں تھی۔ کراہتے ہوئے بولی… ''چنگیز! میرے خون کا انتقام تمہارے سر ہے۔ عیسائی ہمارے دوست نہیں ہوسکتے۔ میں اب زندہ نہیں رہوں گی۔ یہ ہمارا نہیں، صلیبیوں کا جاسوس ہے''۔

چنگیز نے جست لگا کر وکٹر پر حملہ کیا۔ وکٹر نے باربار اسے کہا کہ وہ دھوکے میں آگیا ہے اور اس عورت کو قتل کرکے لاش دور پھینک آئیں گے مگر چنگیز اب جاسوس نہیں، وہ مرد بن چکا تھا جس کی محبوبہ کو ایک اور مرد نے پکڑ رکھا تھا اور اس کے سینے میں خنجر بھی اتار چکا تھا۔ اس نے سامنے سے عورت کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ وکٹر پیچھے کو گرا اور عورت اس کے اوپر گری۔ چنگیز نے وکٹر پر خنجر کا وار کیا۔ وہ ہوشیار اور پھرتیلا تھا۔ ایک طرف ہوگیا اور اٹھا۔ چنگیز نے اس پر ایک اور وار کیا۔ خنجر اس کے کندھے میں لگا۔

وکٹر نے سنبھل کر جوابی حملہ کیا۔ چنگیز کا بھی زندہ رہنا خطرناک تھا۔ وکٹر کا خنجر چنگیز کے پیٹ میں لگا۔ چنگیز نے اس پر ایک اور وار کیا۔ خنجر اس کے کندھے میں لگا۔

وکٹر نے سنبھل کر جوابی حملہ کیا۔ چنگیز کا بھی زندہ رہنا خطرناک تھا۔ وکٹر کا خنجر چنگیز کے پیٹ میں لگا۔ چنگیز نے خنجر کھا کر وار کیا جو وکٹر کے بازو کو چیر گیا۔ اس نے چنگیز کے سینے میں خنجر مارا۔ چنگیز شراب کے نشے میں پائوں پر کھڑا رہنے کے قابل نہیں تھا۔ وکٹر نے ایک اور وار اس کے سینے پر ہی کیا اور چنگیز گر پڑا۔ اس نے عورت کے دل پر ہاتھ رکھا۔ دل خاموش تھا۔ وہ مرچکی تھی۔ چنگیز بھی آخری سانس لے رہا تھا۔ وہ ہوش میں نہیں تھا۔

وکٹر کے کندھے اور بازو سے خون بہہ رہا تھا۔ اس نے عورت کے کپڑے پھاڑے اور بازو ر باندھ لیے۔ کندھے کے زخم میں کپڑا ٹھونس دیا تاکہ خون بند ہوجائے۔ وہ چل پڑا۔ اس نے رفتار تیز کرلی۔ زخموں پر کپڑاباندھ لینے کے باوجود خون نہ رکا۔ اس نے پروا نہ کی اور چلتا گیا۔ وہ ایک گلی میں داخل ہوگیا اور دو ایک موڑ مڑ کر وہ ایک فراخ گلی میں چلا گیا۔ تریپولی پر گہری نیند طاری تھی۔ گلیاں سنسان تھی۔ تمام گھروں کے دروازے بند تھے۔ صرف ایک دروازہ کھلا ہوا تھا۔ یہ خدا کے گھر کا دروازہ تھا۔ یہ مسجد تھی۔ وہ اس مسجد میں پہلی بار آیا تھا۔ چنگیز نے اسے بتا رکھا تھا کہ کبھی اس مسجد میں جانے کی ضرورت پڑے تو مسجد کے صحن میں چلے جانا۔ بائیں دیوار میں ایک دروازہ ہے جو امام کے گھرکا ہے۔ وکٹر نے یہ مسجد باہر سے دیکھی تھی۔ یہ سلطان ایوبی کے تریپولی میں موجود جاسوسوں کا خفیہ ہیڈکوارٹر تھا ور مسجد کا امام مسجد کا ہی نہیں جاسوسوں کے اس گروہ کا بھی امام تھا۔ وکٹر نے کھلے دروازے میں داخل ہوکر جوتے اتار دئیے۔

٭ ٭ ٭

: رات آدھی گزر چکی تھی۔ امام گہری نیند سویا ہوا تھا۔ دروازے کی دستک نے اسے جگا دیا۔ اس نے دانستہ توقف کیا۔ وہ دستک ایک بار پھر سننے کے انتظار میں تھا۔ دستک پھر ہوئی۔ یہ جاسوسوں کی مخصوص دستک تھی۔ پھر بھی اس نے لمبا خنجر ہاتھ میں لیا اور دروازہ کھولا۔ دھیمی آواز میں کہا… ''چنگیز؟''۔

''وکٹر''۔ وکٹر نے جواب دیا… ''اندر چلیں''

''خون کی بو کہاں سے آرہی ہے؟'' امام نے اندھیرے میں وکٹرکا بازو تھام کر پوچھا۔

''یہ میرا خون ہے''۔ وکٹر نے جواب دیا۔

امام اسے گھسیٹتا ہوا اندر لے گیا۔ دیا جلایا تو اسے نظر آیا کہ وکٹر کے کپڑے خون سے لال اور تر ہورہے تھے۔ وکٹر کے ساتھ اس کا وہی تعارف تھا جو چنگیز نے غائبانہ کرارکھا تھا۔ امام نے اسے دور سے دیکھا تھا۔ وکٹر کو وہ پس منظر میں رکھتے تھے جس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ عیسائی تھا بلکہ یہ کہ اسے انہوں نے اندر کی اطلاعات فراہم کرنے کا کام سونپ رکھا تھا۔ یہ جاسوسی کا ایک طریقہ اور ان کی اپنی تنظیم تھی۔ اس لحاظ سے امام ا ور وکٹر ایک دوسرے کے لیے اجنبی نہیں تھے۔

''تم آئے ہو''۔ امام نے پوچھا… ''چنگیز کیوں نہیں آیا؟''

''وہ اب کبھی نہیں آسکے گا''۔

''کیوں؟'' امام نے گھبرا کر پوچھا… ''پکڑاگیا ہے؟''

''اسے اس کے گناہوں نے پکڑا ہے''۔ وکٹر نے جواب دیا۔ ''اور میرے خنجر نے اسے سزائے موت دے دی ہے۔ آپ میرا خون نہیں دیکھ رہے؟ کیا آپ میرا خون بند کرنے کا بندوبست کرسکتے ہیں؟ آپ گھبرائیں نہیں، خدا کا شکر ادا کریں کہ چنگیز زندہ نہیں، ورنہ ہم میں سے ہر کوئی قید خانے کی اذیتوں سے مارا جاتا''۔

امام نے بہت تیزی سے دوائیاں نکالیں۔ پانی لایا اور اس کے زخم دھونے لگا۔ وکٹر کو کپڑے بدلنے کو کہا۔

''نہیں''۔ وکٹر نے جواب دیا۔ ''میں نے سوچ لیا ہے کہ مجھے کیا کرناہے۔ میں انہی کپڑوں میں واپس جائوں گا۔ میں نے آپ کا نمک کھایا ہے۔ میرا عزیز دوست اور بڑے ہی خطرناک سفر کا ساتھی میرے ہاتھوں قتل ہوگیا ہے۔میں آپ سب کے لیے اپنے آپ کو قربان کرنے کا ارادہ کرچکا ہوں۔ میں اپنی گردن جلاد کے آگے جھکا کر آپ سب کو صاف بچا لوں گا''۔

امام اس کے زخم صاف کرکے ان پر سفوف چھڑک رہا تھا ور وکٹر اسے سارا واقعہ سنا رہا تھا۔ اس نے ہر ایک تفصیل سنا کر کہا… ''مجھے شک ہوگیا تھا کہ یہ عورت فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں نے وہ بوڑھا کمانڈر کبھی نہیں دیکھاتھا جس کی وہ اپنے آپ کو داشتہ بتاتی تھی۔ اس کا ہر رات چنگیز کے راستے میں آجانا ایک ثبوت تھا کہ وہ قریب ہی کہیں ہوتی ہے اور چنگیز پر نظر رکھتی ہے۔ میں نے چنگیز سے جب بھی کہا کہ وہ زیادہ احتیاط کرے، وہ غصے میں آگیا۔ میں آپ کو بتا چکاہوں کہ وہ شراب بھی پینے لگاتھا۔ مجھے شک ہے کہ شراب میں اسے حشیش ملا کر پلائی جاتی تھی، ورنہ چنگیز جیسا سخت آدمی اور ایمان کا پکا اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے اس فریب میں نہ آتا۔بڑی خوبصورت لڑکیاں اسے اپنی محبت میں گرفتار کرنے کی کوشش کرچکی تھیں۔ وہ ہنس کر ٹال دیا کرتا تھا۔ اس عورت نے اسے اپنے حسن اور حشیش کی آمیزش والی شراب کے طلسم میں جسمانی نہیں ذہنی طور پر گرفتار کرلیا تھا''…

''اس نے جب یہ بتایا کہ اس نے عورت کو بتا دیا ہے کہ وہ جاسوس ہے تو میرا دل کانپ اٹھا۔ مجھے جیسے عالم غیب سے اشارہ مل رہا تھا کہ چنگیز نے اتنی بڑی لغزش کی ہے جس کی سزا صرف اس کی نہیں ہم سب کی موت ہے اور اس کی یہ لغزش شام اور مصر کی آزادی کی موت کا بھی باعث بن سکتی ہے۔ میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر اس کی عقل پر عورت نے جو طلسم طاری کردیا تھا، وہ اسے ہم سے اور اپنے فرائض سے اور اپنے ایمان سے بھی بہت دور لے گیا تھا۔ میں نے اسی وقت ارادہ کرلیاتھا کہ اب یہی ایک صورت رہ گئی ہے کہ اس عورت کو قتل کردیا جائے اور اگر چنگیز کا رویہ نہ بدلے تو اسے بھی ختم کردیا جائے۔ ملک اور قوم کو خطرے سے بچانے کے لیے ایک آدمی کا قتل کوئی بڑی بات نہیں ہوتی۔ یہ تو جاسوسی کا اصول ہے کہ گروہ کے کسی آدمی پر غداری کا شک ہو یا اس کی وساطت سے راز فاش ہونے کا خطرہ ہو تو اسے ختم کردیاجائے۔ میں نے پھر بھی اس کے قتل سے گریز کیا مگر وہ مجھے قتل کرنے کے لیے پاگل ہوگیا تھا''۔

: ''یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تم نے اسے غلط فہمی میں قتل کردیاہو''… امام نے کہا… ''ہوسکتا ہے کہ لڑکی مسلمان ہی ہو اور وہ سچے دل سے ہمارے لیے کام کررہی ہو''۔

''ہوسکتا ہے''۔وکٹر نے کہا… ''لیکن میں نے ثبوت دیکھ لیا تھا۔ میں نے چنگیز کے ساتھ اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ میں نے اس عورت کو اس عمارت سے نکلتے اور واپس جاتے دیکھا تھا جہاں ہرمن کے شعبے کی لڑکیاں رہتی ہیں۔میں نے یہ بھی معلوم کرلیاتھا کہ یہ عورت کسی کمانڈر کی داشتہ نہیں۔ وہ اس عمارت میں رہتی ہے۔ آج رات میں چنگیز کے پیچھے چلا گیا اور جہاں وہ اس عورت کے ساتھ بیٹھا، وہاں سے چند قدم دورمیں ایک درخت کے پیچھے بیٹھ گیا۔ عورت نے جس انداز سے چنگیزسے راز کی باتیں پوچھیں اور جو باتیں پوچھیں وہ اس شک کو یقین میں بدلنے کے لیے کافی تھیں کہ یہ عورت صلیبیوں کی جاسوس ہے۔ اس نے تریپولی میں ہمارے چھاپہ ماروں کے متعلق پوچھا اور چنگیز کو بتایا کہ صلیبی فوج کے لیے رسد وغیرہ کا بے انداز ذخیرہ رکھاگیا ہے جس میں آتش گیر سیال کے بے شمار مٹکے ہیں۔ میں بھی جاسوس ہوں۔ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ یہاں کہیں بھی اتنا ذخیرہ نہیں رکھا گیا، اس نے جو جگہ بتائی تھی، وہاں کچھ بھی نہیں۔ آپ خود کل جاکے دیکھ لینا''…

''چنگیز نے اس کے آگے ہماری ساری جماعت کی نشاندہی کردی اور اس نے میرا نام لے کر مجھے بھی بے نقاب کردیا۔ میں اتنی اہم جگہ پر ہوں جہاں مجھے راز کی گہری باتیں بھی معلوم ہوجاتی ہیں۔ اس عورت نے میرا نام سنا تو وہ اپنی حیرت کو چھپا نہ سکی۔ وہ بہت دیر خاموش رہی۔ پھر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ ہمارا اتنا خطرک راز یہ عورت لے جارہی تھی اور یہ راز سیدھاہرمن کے پاس جارہاتھا۔ اس کے نتائج کا آپ اندازہ کرسکتے ہیں۔ میں نے اٹھ کر عورت کو پکڑ لیا اور خنجر اس کے سینے میں گھونپ دیا۔ چنگیز مجھ پر ٹوٹ ٹوٹ پڑتا تھا۔ اسے بہت سمجھایا۔ حقیقت بتائی مگر شراب نے اسے حیوان بنا رکھا تھا۔ میں نے اس کے خنجر سے زخم کھا کر بھی اسے سمجھایامگر وہ سوچنے سمجھنے کی حالت میں تھا ہی نہیں۔ میں نے محسوس کرلیا تھا کہ زندہ رہا تو میں اسے قابو میں نہیں لاسکوں گا اور ہمارا اصل مقصد بری طرح ختم ہوجائے گا۔میں نے اسے بھی ختم کردیا''۔

''تم نے اچھا کیا ہے''۔ امام نے کہا… ''میں تمہارا فیصلہ قبول کرتاہوں۔ تم اب تریپولی سے نکل جائو۔ میں انتظام کردیتا ہوں''۔

''نہیں''۔ وکٹر نے کہا… ''صبح چنگیز اور عورت کی لاشیں سب دیکھ لیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ ہرمن کو معلوم ہوچکا ہے کہ چنگیز جاسوس تھا۔ اسی نے اس عورت کو اس کے پیچھے ڈالا تھا۔ وہ یہی سمجھے گا کہ ان دونوں کو مسلمان جاسوسوں نے قتل کیا ہے، پھر یہاں کے مسلمانوں کے لیے قیامت آجائے گی۔ پہلے ہی احکام مل چکے ہیں کہ کسی پر جاسوسی کا شک ہوتو اسے قید یا قتل کردیا جائے۔ اب تو یوں سمجھو کہ یہاں کے ہر مسلمان گھرانے پرہرمن نے ایک ایک جاسوس مقرر کردیا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کو ظلم وتشدد کا نشانہ بنانے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں… میں واپس اپنی جگہ جارہا ہوں۔ میں یہ قتل اپنے ذمے لوں گا اور وجہ یہ بتائوں گا کہ میں اور چنگیز رقیب تھے''۔

''ہم تم سے اتنی قربانی نہیں لیں گے''۔ امام نے کہا… ''میں تمہارے ساتھ ایک آدمی کو بھیجوں گا جو تمہیں قاہرہ چھوڑ آئے گا''۔

''میں اپنی جان کی قربانی دینا چاہتا ہوں''۔ وکٹر نے کہا۔ ''مجھے وہ وقت یاد ہے جب میرے شہر میں صلیبی فوج کے دو افسروں نے میری بہن پر ہاتھ ڈالا تھا۔ انہوں نے اپنے سپاہیوں کو حکم دیا تھا کہ میری بہن کو اٹھا کر لے چلیں۔کوئی عیسائی میری مدد کو نہیں آیا۔ تین مسلمان جوانوں نے ان سپاہیوں کا مقابلہ کیا تھا، تینوں زخمی ہوگئے تھے لیکن انہوں نے میری بہن کوبچا لیا تھا۔ وہ تو بالائی افسر اچھا تھا، جس نے میری شکایت سن لی تھی ورنہ میری بہن بھی نہ رہتی اور تینوں مسلمانوں کو بھی قتل کرادیا جاتا۔ اسی واقعہ نے مجھے مسلمانوں کا جاسوس بنایا تھا۔ میں آپ کی قوم کو اس احسان کا صلہ دینا چاہتاہوں۔ میں اپنی جان جلاد کے حوالے کرکے تریپولی کے مسلمانوں کی جان اور عزت بچائوں گا''۔

اس نے امام کو بتایا… ''صلیبیوں نے فوجیں جمع کرنی شروع کردی ہیں اور انکا رخ حلب کی طرف ہوگا۔ وہ سب سے پہلے شام کو تہہ تیغ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ابھی یہ پتہ نہیں چلا کہ وہ کب کوچ کریں گے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ ان کی ساری فوج ایک ہی علاقے پر حملہ کرے گی یا آگے جاکر تقسیم ہوجائے گی اور ایک ہی وقت کئی مقامات پر حملے کرے گی۔ سلطان ایوبی تک یہ اطلاع بہت جلدی پہنچ جانی چاہیے تاکہ وہ مصر میں نہ بیٹھا رہے''… وکٹر کو جو کچھ معلوم ہوسکاتھا وہ اس نے امام کو بتا دیا۔

جاری ھے ،



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں