داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 106 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 106

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔106 ایک منزل کے مسافر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

میری دو بڑی بہنیں باپ کے سلوک سے تنگ آکر اپنے چاہنے والوں کے ساتھ چلی گئی. تھیں۔ مجھے اس نے بیچ ڈالا''۔

ایک سال بعد اس تاجر نے مجھے تحفے کے طور پر ایک صلیبی افسر کے حوالے کردیا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ لڑائی میں مارا گیا۔ میں بھاگ گئی مگر جاتی کہاں۔ ایک عیسائی نے مجھے پناہ دی مگر اس نے میرے جسم کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ میں کوئی سستی سی طوائف نہیں تھی۔ وہ مجھے صلیبی فوج کے بہت اونچے رتبے کے افسروں کو چند دنوں کے لیے داشتہ کے طور پر دیتا تھا۔ اس آدمی نے اور ان صلیبیوں نے جن کے ہاں مجھے بھیجا جاتا تھا، مجھے زیورات سے لاد دیا اور مجھے ہر وہ آسائش دی جو محل میں کسی شہزادی کو ملتی ہے۔ اس لحاظ سے میں مطمئن اور مسرور تھی مگر مجھے روحانی مسرت نہیں ملتی تھی۔ اسی پیشے میں میرا میل جول فوجی افسروں کے ساتھ بڑھ گیا۔ میں تجربہ کار ہوچکی تھی۔ میری رسائی حکمرانوں اور سب سے بڑے عہدوں کے کمانڈروں تک ہوگئی۔ انہوں نے مجھے جاسوسی کی تربیت دے کر ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ ایک بار مجھے بغداد میں بھیجا گیا تھا، وہاں نورالدین زنگی کے ایک سالار کو اس کے خلاف کرنا تھا۔ میں نے یہ کام خوش اسلوبی سے کرلیا تھا''…

''میں اگر اپنے جاسوسی کے کارنامے تمہیں سنانے لگوں تو تم حیران رہ جائو گے اور شاید یقین بھی نہ کرو۔ ایسے قصے بڑے لمبے ہیں۔ اسی دوران اس کمانڈر نے مجھے داشتہ رکھ لیا۔ یہ بوڑھا آدمی ہے۔ مجھے بہت عیش کراتا ہے۔ مجھے بڑے فخر سے اپنے ساتھ لیے پھرتا ہے۔ وہ شاید لوگوں کو یہ دھوکہ دینا چاہتا ہے کہ وہ بوڑھا نہیں اور وہ مجھ جیسی جوان عورت کو خوش وخرم رکھ سکتا ہے۔ یہ میری ہر فرمائش پوری کرتا ہے۔ میں اس کے ساتھ عکرہ میں تھی، وہاں اتفاق سے ایک مسلمان جاسوس سے ملاقات ہوگئی، وہ دمشق سے آیا تھا''۔

''اس کا نام کیا تھا؟''۔ چنگیز نے پوچھا۔

''نام بتا دوں گی تو تمہارے کس کام آئے گا''۔ عورت نے کہا… ''تم اسے جانتے تو نہیں، میری بات سنو۔ تمہاری محبت نے میری زبان کی زنجیریں توڑ دیں اور میرے دل کے دروازے کھول دئیے ہیں۔ میں تمہارے آگے ایسا راز فاش کررہی ہوں جو مجھے قید خانے میں بھجوا سکتا ہے جہاں انسانی درندے مجھے اذیت ناک طریقوں سے ہلاک کریں گے لیکن میں تمہارے ہاتھ سے مرنا پسند کروں گی… میں کہہ رہی تھی کہ دمشق کا جاسوس پکڑا گیا اور اسے تہہ خانے میں ڈال دیا گیا۔ میں بہت بڑے افسر کی چہیتی داشتہ تھی۔ میں اس جاسوس کا تماشہ دیکھنے تہہ خانے میں چلی گئی، اسے ایسی ظالمانہ اذیتیں دی جارہی تھی کہ مجھ پر غشی طاری ہونے لگی۔ اس سے پوچھ رہے تھے کہ اس کے دوسرے ساتھی کہاں اور اس نے اب تک کون سا راز معلوم کیا ہے''…

''اس کی پیٹھ سے خون بہہ رہا تھا اور اس کا چہرہ نیلا ہوگیا تھا پھر بھی وہ کہہ رہا تھا۔ ''میری رگوں میں مسلمان باپ کا خون دوڑ رہا ہے۔ اپنے کسی ساتھی کے ساتھ غداری نہیں کروں گا''… میری رگ رگ بیدار ہوگئی۔ میری رگوں میں بھی مسلمان باپ کا خون دوڑ رہا تھا۔ میرے اندر ایک انقلاب زلزلے کی طرح آیا اور میں نے پکا ارادہ کرلیا کہ اس مسلمان کو اس تہہ خانے سے نکالوں گی۔ میں نے اپنے آقا کا عہدہ، حسن کا فریب اور تین چار ٹکڑے سونا استعمال کیا اور ایک صبح میرے آقا نے مجھے یہ خبر سنائی کہ تہہ خانے سے مسلمان جاسوس فرار ہوگیا ہے۔ اس بوڑھے کو معلوم نہیں تھا کہ وہ تہہ خانے سے فرار نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے وہاں سے نکلوا کر اوپر کے حصے میں منتقل کرادیا تھا جس وقت میرا آقا مجھے اس کے فرار کی خبر سنا رہا تھا، اس وقت مفرور جاسوس اسی شہر میں موجود تھا۔ میں نے اپنے ایک مسلمان ملازم سے اس کے چھپنے کا بندوبست کرالیا تھا''…

''وہ بھی تمہاری طرح خوبصورت جوان تھا۔ تہہ خانے میں اسے لاش بنا دیا گیا تھا۔ میں نے اسے طاقت کی دوائیں اور غذائیں دیں۔ میں رات کو چوری چھپے اس کے پاس جایا کرتی تھی۔ اس نے میری ذات میں ایمان بیدار کردیا۔ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ میں مسلمان کی بیٹی ہوں۔ یہ آپ بیتی اسے بھی سنائی تھی جو تمہیں سنا چکی ہوں۔ اس نے مجھے کہا کہ میرے ساتھ چلی چلو۔ میں نے اسے کہا کہ مجھے جاسوسی کے ڈھنگ سکھا دو، میں اپنے مذہب اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے عکرہ کے تین آدمیوں کے نام پتے بتائے، پھر ان کے ساتھ ملاقات کا انتظام بھی کردیا۔ یہ جاسوس تندرست ہوگیا تو میں نے اسے شہر سے نکلوادیا۔ اس کے جانے کے بعد میں چوری چھپے اس کے ساتھیوں سے ملتی رہی۔ وہ مجھے جاسوسی کے سبق دیتے رہے، پھر میں عملی طور پر ان کے لیے کام کرنے لگی''…

''ایک تو میں اتنے اونچے رتبے کے فوجی افسر کی داشتہ تھی، دوسرے میری

 ، دوسرے میری خوبصورتی اور جوانی کی بدولت دوسرے افسر میری دوستی کے خواہش مند تھے۔ میں عصمت کا موتی تو گنوا ہی چکی تھی، بے حیائی اور شوخی میری عادت بن گئی تھی۔ گناہ گاروں کے ساتھ زندگی بسر کرکے میں فریب کار بھی ہوگئی تھی۔ میں نے ان لوگوں کو خوب انگلیوں پر نچایا۔ انہیں بڑے حسین جھانسے دئیے اور بڑے قیمتی راز مسلمانوں کو دیتی رہی۔ یہ جاسوس مجھے سلطان صلاح الدین ایوبی کے متعلق باتیں سنایا کرتے تھے۔ میں اسے فرشتہ سمجھتی ہوں۔ میرے دل میں یہی ایک خواہش ہے کہ اپنی قوم کے لیے کچھ کرتی رہوں اور ایک بار سلطان ایوبی کی زیارت کروں۔ میں اسی کو حج سمجھوں گی''۔

''اب میں اس کمانڈر کے ساتھ یہاں آگئی ہوں۔ صلیبی بڑی ہی زیادہ طاقت سے مسلمانوں پر فوج کشی کررہے ہیں۔ مجھے ان کے تمام راز معلوم ہوچکے ہیں۔ اب مجھے کسی ایسے آدمی کی ضروری ہے جو ایوبی کا جاسوس ہو''۔

''تم نے اتنی دلیری سے یہ راز کیوں فاش کردیا ہے؟'' چنگیز نے اس سے پوچھا۔ ''تم اگر واقعی جاسوس ہو تو بالکل اناڑی ہو۔ تم نے میری محبت پر اعتماد کیا ہے، اگر میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میں تمہاری نسبت صلیب سے زیادہ محبت کرتا ہوں اور میری وفاداری صلیب کے ساتھ ہیں تو کیا کروگی؟ عقل مند جاسوس اپنے فرض پر اپنے بچوں کی محبت کو بھی قربان کردیا کرتے ہیں''۔

''میں تمہیں حقیقت بتادوں تو تم مان جائو گے کہ میں اناڑی نہیں ہوں''۔ عورت نے کہا… ''میں نے یقین کرلیا تھا کہ تم عیسائی نہیں ہو، تم مسلمان اور مصر کے جاسوس ہو''۔

راشد چنگیز چونکا جیسے اس عورت نے اسے ڈس لیا ہو۔ شراب کا نشہ اور رومان انگیز جذبات کا خمار یوں اتر گیا جیسے کمان سے تیر نکل گیا ہو۔ اس نے کچھ کہنے کی کوشش کی تو اس نے محسوس کیا جیسے اس کی زبان اکڑ گئی ہو۔

اسے عورت کی دبی دبی ہنسی سنائی دی۔ عورت نے کہا… ''کہو، میں اناڑی ہوں؟''

چنگیز کے لیے جواب دینا محال ہوگیا۔ اگر یہ عورت واقعی مسلمان تھی تو کیاچنگیز کو اس پر اپنا آپ ظاہر کردینا چاہیے تھا؟ طریقہ یہ تھا کہ ایک گروہ کے جاسوس اپنے ہی ملک کے جاسوسوں کے دوسرے گروہ سے بھی بیگانہ رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ چنگیز کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ عورت کس پائے کی جاسوس ہے۔ یہ بھی تو ممکن تھا کہ وہ دوغلا کھیل کھیل رہی ہو۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ سلطان ایوبی نے سختی سے حکم دے رکھا ہے کہ کسی عورت کو کہیں جاسوسی کے لیے نہ بھیجا جائے۔ اگر یہ عورت جاسوسی کررہی تھی تو اپنے طور پر کررہی ہوگی۔ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کرسکتی تھی کہ جاسوسوں کو معلومات پہنچا دیتی تھی۔ ایسی عورت پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے تھا۔

''خاموش کیوں ہوگئے ہو؟''۔ عورت نے پوچھا… ''کہہ دو میں نے غلط کہا ہے''۔

''تم نے بالکل غلط کہا ہے''… راشد نے جواب دیا… ''اور تم نے مجھے مشکل میں ڈال دیا ہے''۔

''کیسی مشکل؟''

''یہ کہ میں تمہیں گرفتار کرادوں یا محبت کی خاطر خاموش رہوں''۔ چنگیز نے کہا… ''میں عیسائی ہوں اور پکا صلیبی ہوں''۔

وہ زمین پر بیٹھے تھے۔ عورت نے اپنے زانوں کے نیچے سے کچھ نکالا اور یہ چنگیزکی گود میں رکھ کر کہا… ''یہ رہی تمہاری مصنوعی داڑھی۔ کل جب تم میرے پاس تھے تب یہ تمہارے چغے کی جیب سے نکال لی تھی اور پھر جیب میں ہی ڈال دی تھی، آج بھی نکال لی ہے''۔

چنگیز اس کے حسن اور اس کی محبت اور شراب کے نشے میں ایسا گم ہوجاتا تھا کہ اسے ہوش نہیں رہتی تھی۔

''میں نے ایک رات یہ داڑھی تمہارے چہرے پر دیکھی تھی''۔ عورت نے کہا… ''تم اس داڑھی میں کمرے سے نکلے تھے۔ میں نے تمہیں راستے میں روک لیا اور جب تم نے مجھے بازوئوں میں لیا تھا، میں نے تمہارے چغے کی دونوں جیبوں میں ہاتھ ڈالا، میرے ایک ہاتھ نے داڑھی محسوس کرلی''۔

''مصنوعی داڑھی سے تم نے کیسے یقین کرلیا کہ میں جاسوس ہوں؟''

''تم جس انداز سے مجھ سے فوجوں کی آمدورفت کی باتیں پوچھتے رہے ہو، یہ انداز جاسوسوں کا ہے''۔ عورت نے کہا… ''تم نے مجھے جن سوالوں کے جواب لانے کو کہا تھا وہ کوئی اور نہیں پوچھ سکتا۔ کسی عام آدمی کے ذہن میں ایسے سوال آتے ہی نہیں اور شراب سے انکار صرف مسلمان کرسکتا ہے''۔ وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ بازو چنگیز کے گلے میں ڈال کر اور گال اس کے گال سے لگا کر بولی… ''تم مجھ سے ڈر رہے ہو، کیا تمہارا دل مان نہیں رہا کہ میں مسلمان ہوں؟ میں تمہیں اپنا دل کس طرح دکھائوں۔ ہم دونوں ایک منزل کے مسافر ہیں۔ میں نے تمہیں سلطان ایوبی کا جاسوس سمجھ کر دل میں نہیں بٹھایا تھا، تم مجھے معلوم نہیں کیوں اچھے لگے تھے۔ مجھے یوں لگا تھا جیسے ہم آسمانوں میں بھی اکٹھے تھے۔ زمین پر بھی اکٹھے ہوگئے ہیں اور ہم اکٹھے اٹھائے جائیں گے… کہو تو میں تمہارے جاسوس ہونے کے کئی اور ثبوت پیش کردوں۔ میں تمہاری حفاظت کروں گی اور میں نے یہ ارادہ بھی کیا ہے کہ ہم دونوں بہت قیمتی راز اپنے ساتھ لے کر یہاں سے اکٹھے نکلیں گے، اگر یہ راز قاہرہ بروقت نہ پہنچا تو حرن، حلب، حماة، دمشق اور بغداد تو صلیبیوں کے سیلاب میں ڈوب ہی جائیں گے۔ مصر کو بچانا بھی ممکن نہیں رہے گا۔ سلطان ایوبی بالکل بے خبر ہے۔ وقت ضائع نہ کرو۔ میں یہاں سے اکیلی نہیں نکل سکتی۔ تمہارا ساتھ ضروری ہے۔ میں تمہیں ساتھ لے کر سیر کے بہانے شہر سے نکل سکتی ہوں۔ تم میرے محافظ ہوگے اور کوئی بھی ہم پر شک نہیں کرے گا''۔

راشد چنگیز پر خاموشی طاری ہوگئی تھی۔ عورت نے اس کے پیالے میں شراب انڈیلی اور پیالہ اس کے ہاتھ میں دیتے ہوئے مخمور انداز اور جذباتی لہجے میں کہا… ''تم گھبراگئے ہو، پی لو۔ یہ شراب کا آخری پیالہ ہے۔ اس کے بعد ہم اس سے توبہ کرلیں گے''۔ اس نے چنگیز پر اپنے ریشمی بالوں کا سایہ کرلیا اور پیالہ اس کے ہونٹوں سے لگا دیا۔ بالوں کے ملائم لمس اور مہک نے نسوانی جسم کے مس اور حرارت نے اور شراب نے چنگیز کی زبان سے کہلوالیا… ''تم واقعی جاسوس ہو، ورنہ ڈیڑھ سال جاسوسوں کے سب سے بڑے استاد ہرمن کے سائے میں رہ کر بھی وہ مجھے نہیں پہچان سکا۔ میں تمہاری ذہانت کا مرید ہوگیا ہوں۔ تم ٹھیک کہتی ہو کہ ہم ایک ہی منزل کے مسافر ہیں۔ تم میرے ساتھ قاہرہ چلو گی''۔

''بہت دیر ہوگئی ہے''۔ عورت نے کہا… ''کل یہیں ملنا، میں تمہیں وہ باتیں بتائوں گی جو تم کسی بھی طرح معلوم نہیں کرسکتے''۔

٭ ٭ ٭

رات کا آخر پہر تھا جب راشتد چنگیز اپنے کمرے میں پہنچا۔ اس نے وکٹر کو کبھی جگایا نہیں تھا۔ صبح اسے رات کی روئیداد سنایا کرتا تھا لیکن اس رات اس پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ وہ بہت ہی خوش تھا جو عورت اسے دل دے بیٹھی تھی، وہ مسلمان تھی اور تجربہ کار جاسوس بھی۔ یہ خوشی کیا کم تھی کہ وہ بہت ہی خوبصورت عورت کے ساتھ تریپولی سے نکل رہا تھا۔ اس نے اسی وقت وکٹر کے کمرے میں جاکر اسے جگایا اور بتایا کہ یہ عورت تو اپنی جاسوس ہے۔ اس نے وکٹر کو اس عورت کی ساری کہانی سنا دی۔

''تم نے اسے بتا دیا ہے کہ تم جاسوس ہو؟'' وکٹر نے پوچھا۔

''ہاں!'' چنگیز نے جواب دیا… ''مجھے بتا ہی دینا چاہیے تھا''۔

''میرے متعلق بھی بتا دیا ہے؟''

''نہیں!'' چنگیز نے جواب دیا… ''تمہارے متعلق کوئی بات نہیں ہوئی''۔ وکٹر کو خاموش دیکھ کر اس نے کہا… ''تم سمجھ رہے ہو کہ میں نے غلطی کی ہے۔ میں اناڑی تو نہیں وکٹر!''۔

''تم نے یہ بھی اچھا کیا ہے کہ میرا ذکر نہیں کیا''۔ وکٹر نے کہا… ''اور تم یہ دعویٰ بھی نہ کرو کہ تم اناڑی نہیں ہو''۔

''کیا میں نے غلطی کی ہے؟'' چنگیز نے پوچھا۔

''ہوسکتا ہے تم نے بہت اچھا کیا ہو''۔ وکٹر نے کہا… ''اگر یہ غلطی ہے تو یہ کوئی معمولی سی غلطی نہیں۔ تم شاید یہ بھول گئے تھے کہ صرف ایک جاسوس اپنی فوج کی فتح کا باعث بن سکتا ہے اور شکست کا بھی۔ تم جانتے ہو کہ سلطان ایوبی صلیبیوں کی ان تیاریوں سے بے خبر ہے۔ اگر ہم پکڑے گئے اور یہ راز ہمارے ساتھ قید خانے میں چلا گیا یا جلاد کی نذر ہوگیا تو سلطان ایوبی، جو آج تک ہر میدان کا فاتح کہلاتا آیا ہے، تاریخ میں شکست خوردہ کے خطاب سے بھی یاد کیا جائے گا''۔

''نہیں!'' چنگیز نے وثوق اور خوداعتمادی سے کہا… ''وہ مجھے دھوکہ نہیں دے گی۔ وہ مسلمان ہے۔ میں رات کو اسے ملنے جائوں گا۔ وہ پورا راز اپنے ساتھ لارہی ہے۔ اب ہمیں اپنے امام کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ میں یہ راز خود قاہرہ لے جائوں گا۔ میرے دل کی شہزادی میرے ساتھ ہوگی… ہاں۔ مجھے خیال آتا ہے کہ میری غیرحاضری سے یہاں کسی کو یہ شک نہ ہو کہ میں کوئی فوجی راز لے کر بھاگا ہوں۔ یہ عورت بھی میرے ساتھ لاپتہ ہوگی۔ تم یہ مشہور کردینا کہ تم نے مجھے اور اسے چوری چھپے ملتے دیکھا ہے اور میں اس عورت کو بھگا کر یروشلم کی سمت نکل گیاہوں''۔

وکٹر گہری سوچ میں کھوگیا اور راشد چنگیز نشے میں جھومتا رہا۔

جس وقت چنگیز وکٹر کے کمرے میں داخل ہوا تھا۔ اس وقت تھوڑی ہی دور افسروں کے رہائشی کمروں میں سے ایک میں یہ عورت داخل ہوئی جو چنگیز پر مرمٹی تھی۔ کمرے میں رہنے والا سویا ہوا تھا۔ اس عورت نے بے تکلفی سے اس کا ایک ٹخنہ پکڑا اور زور سے جھٹکا دیا۔ وہ آدمی ہڑبڑا کر اٹھا۔ عورت نے ہنس کر کہا… ''اٹھو، اٹھو۔ شکار مار لیا ہے''۔ اس آدمی نے قندیل جلائی اور اس عورت کو اپنے بازوئوں میں لے کر بستر پر گرا لیا۔ کچھ دیر بے حیائی کے ننگے مظاہرے ہوئے پھر اس صراحی میں جس میں یہ عورت چنگیز کے لیے شراب لے گئی تھی جو شراب بچی تھی۔ وہ اس آدمی نے پیالوں میں انڈیلی۔ دونوں نے پیالے خالی کیے۔

''اب کہو کیا خبر لائی ہو''

''وہ جاسوس ہے''۔ عورت نے کہا… ''اور مسلمان ہے''۔

''ہرمن کا شک صحیح ثابت ہوا ہے''۔

''بالکل صحیح''۔ عورت نے کہا… ''شراب کا اور میرا جادو کام کرگیا ہے، ورنہ ہرمن جیسا ماہر سراغ رساں بھی اسے نہ پکڑ سکتا۔ اگر اس کی مصنوعی داڑھی میرے ہاتھ نہ آجاتی تو شاید میں بھی ناکام رہتی۔ مجھے شک تو وہیں سے ہوگیا تھا جب اس نے پہلے روز شراب پینے سے انکار کردیا تھا۔ میں جان گئی کہ یہ مسلمان ہے۔ میں نے اسے کہاکہ میں پاک محبت کے لیے ترس رہی ہوں تو اس نے مجھے پاک محبت دی، ورنہ ہمارے لوگ عورت کو دیکھتے ہیں تو سب سے پہلے اس کے کپڑے اتارتے ہیں''۔

''محبت پاک ہو یا ناپاک، عورت کاجسم پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کردیتا ہے''۔ اس آدمی نے کہا… ''یہ کمزوری ہر انسان میں موجود ہے۔ میں نے تمہیں بتایا تھا کہ تمہارا حسن اس آدمی کو بے نقاب کردے گا۔ عورت مجسم طور پر پاس ہو یا عورت کاصرف تصور ہو، انسان اپنے آپ میں نہیں رہتا''۔

یہ آدمی صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا افسر تھا اور ہرمن کا نائب۔ ہرمن کو کسی طرح شک ہوگیا تھا کہ راشد چنگیز جاسوس ہے۔ ایک تو وہ تجربہ کار تھا، دوسرے اسے حکم ملا تھا کہ جس پر ذرا سا بھی شک ہو کہ جاسوس ہے، اسے پکڑ لو۔ چنانچہ اس نے بڑے سخت انتظامات کردئیے تھے۔ راشد چنگیز کو شاید انہوں نے رات کو مسجد میں جاتے دیکھ لیا تھا۔ ہرمن نے اپنے نائب سے کہا کہ چنگیز کو کسی عورت کے جال میں لاکر دیکھو کہ یہ آدمی صاف ہے یا مشتبہ۔ اس محکمے کے پاس اس مقصد کے لیے ایک سے ایک کایاں عورت موجود تھی۔ اس عورت کو منتخب کیا گیا اور اسے چنگیز کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ یہ عورت اپنے فن کی ماہر تھی۔ اس نے یہ ڈرامہ کھیلا جو سنایا گیا ہے۔ چنگیز نے کبھی بھی نہ سوچا کہ ہر رات وہ کمرے سے نکل کر امام کے پاس جارہا ہوتا ہے تو یہ عورت راستے میں مل جاتی ہے، یہ آتی کہاں سے ہے اور اسے کس طرح پتہ چل جاتا ہے کہ چنگیز جارہا ہے۔ وہ سائے کی طرح اس کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔

''میں نے اسے اپنی دردناک کہانی جو تم نے بتائی تھی، سنائی تو وہ جذباتی ہوگیا''۔ عورت نے ہرمن کے نائب کو سنایا… ''وہ فوراً قائل ہوگیا کہ میں مسلمان ہوں اور میں واقعی صلاح الدین ایوبی کے لیے جاسوسی کررہی ہوں''۔

''مسلمان جذباتی قوم ہے''۔ہرمن کے نائب نے کہا… ''بلکہ یہ عجیب وغریب قوم ہے۔ مسلمان مذہب کے نام پر ایسی ایسی قربانیاں دے گزرتے ہیں جو کوئی اورقوم نہیں دے سکتی۔ میدان جنگ میں ایک مسلمان دس سے لیکر پندرہ صلیبی سپاہیوں کا مقابلہ کرسکتا ہے اور کرتاہے۔ اسے وہ ایمان کی قوت کہتے ہیں۔ میں اعتراف کرتاہوں کہ میں مسلمانوں کی اس روحانی قوت کا قائل ہوگیا ہوں۔ آٹھ آٹھ یا دس دس چھاپہ ماروں کا ہمارے عقب میں چلے جانا، شب خون مارنا، ہماری رسد کو نذر آتش کرکے غائب ہوجانا، گھیرے سے نکل جانا، نہ نکل سکیں تو اپنی لگائی ہوئی آگ میں زندہ جل جانا، کوئی معمولی بہادری نہیں۔ اسے مافوق الفطرت کہا جاسکتا ہے۔ میں تو اسے معجزہ کہا کرتاہوں''

 ''مسلمانوں کی اس قوت کو کمزور کرنے کے لیے ہمارے ان دانشوروں نے جو انسانی فطرت کی کمزور رگوں کو سمجھتے ہیں، ایسے طریقے وضع کیے ہیں جن سے مسلمانوں کے مذہبی جنون کو ان کی کمزوری بنا دیا گیا ہے۔ یہودیوں نے اس سلسلے میں بہت کام کیا ہے۔ ہم نے یہ کامیابی چند ایک یہودیوں اورعیسائیوں کو مسلمانوں کے عالموں اور اماموں کے بہروپ میں بھیج کر حاصل کی ہے۔ مسلمان علاقوں کی کئی مسجدوں کے امام اصل میں یہودی اور عیسائی ہیں۔ انہوں نے قرآن اور حدیث کی ایسی تفسیریں مقبول عام کردی ہیں جن میں مسلمان غلط عقائد کے پیروکار ہوتے جارہے ہیں۔انہیں اب مذہب کے نام پر اپنے بھائیوں کے خلاف لڑایا جاسکتا ہے اور ہم نے لڑا کر دکھا بھی دیا ہے''…

''ہم نے مسلمانوں میں جنسی جنون بھی پیدا کردیا ہے۔ اب جس مسلمان کے ہاں دولت اور اقتدار آتا ہے، وہ سب سے پہلے حرم بناتا اورا سے حسین اور جوان لڑکیوں سے بھرتا ہے۔ یہ زن پرستی نیچے تک چلی گئی ہے۔ ہم نے کئی طریقوں سے مسلمانوں کے بیٹوں میں تصور پرستی اور ذہنی عیاشی کا رحجان پیدا کردیا ہے۔ اس کے علاوہ مسلمان جذباتی ہیں۔تم نے دیکھ لیا ہے کہ اس مسلمان جاسوس کے جذبات کو تم نے چھیڑا تو وہ تمہارے جال میں پھنس گیا۔ جذباتیت بہت بڑی کمزوری ہے۔ ہرمن کہا کرتا ہے کہ مستقبل قریب میں یہ قوم تصوروں کی غلام ہوجائے گی اور حقیقت سے دور ہٹ جائے گی پھر ہمیں جنگ وجدل کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مسلمان ذہنی طور پر ہمارے غلام ہوجائیں گے۔ وہ اپنی روایات کو ترک کرکے ہمارے تہذیب وتمدن کو اپنانے میں فخر محسوس کریں گے''۔

''مجھے نیند آرہی ہے''۔ عورت نے اکتا کر کہا… ''ابھی تمہارا کام ختم نہیں ہوا، اگر اسے گرفتار کرنا ہوتا تو اس کے ساتھ یہ ناٹک کھیلنے کی کیا ضرورت تھی۔ تمہیں اتنی زحمت نہ دی جاتی۔ ہم تو کسی کو بھی محض شک میں گرفتار کرسکتے ہیں مگر اسے ابھی گرفتار نہیں کریں گے۔ اس سے اس کے ان تمام ساتھیوں کا سراغ لینا ہے جو تریپولی میں جاسوسی کررہے ہیں۔ ان میں تباہ کار چھاپہ مار بھی ہوں گے۔ ہوسکتا ہے اس سے دوسرے شہروں کے جاسوسوں کی بھی نشاندہی کرائی جاسکے۔ تم اسے پھر مل رہی ہو۔ اسے کہنا کہ تم نے تمام تر راز معلوم کرلیا ہے، اب چند ایک دوسرے جاسوسوں کی بھی ضرورت ہے۔ اسے یہ بھی کہنا کہ ایک جگہ صلیبیوں نے بے انداز آتش گیر مادہ اور قیمتی سامان جمع کررکھاہے جو حملے میں ساتھ جائے گا۔ اسے تباہ کرنا ہے، اس لیے یہاں کے زمین دوز چھاپہ ماروں سے میری ملاقات کرائو''۔

''میں سمجھ گئی ہوں''۔ عورت نے کہا… ''لیکن یہ بھی امکان ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں سے پردہ نہ اٹھائے''۔


جاری ھے ،



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں