داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 105 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 105

 
صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔105 ایک منزل کے مسافر

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

ان وجوہات کی بنا پر چنگیز کے لیے یہ عورت اور اس کی یہ بے تکلفی عجوبہ نہیں تھی۔

وہ چونکہ خصوصی قابلیت کا جاسوس تھا، اس لیے اس نے فوراً سوچ لیا کہ وہ اس عورت کو یہ بتائے بغیر کہ وہ جاسوس ہے، اسے جاسوسی کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔ اس عورت نے اسے یہ جو کہا تھا کہ جہاں بھی تمہیں بلائوں، تمہیں آنا پڑے گا، اسی میں حکم یا دھمکی نہیں بلکہ دوستانہ بے تکلفی تھی اور اس کے لہجے میں جو تاثر تھا، اسے چنگیز بھی اچھی طرح سمجھتا تھا۔ عورت کی مسکراہٹ کے جواب میں وہ بھی مسکرایا۔ اس مسکراہٹ سے اس نے شکاری کو اس کے بچھائے ہوئے جال میں پھانسنے کی کوشش کی تھی۔

''اب مجھے جانے کی اجازت ہے؟''… اس نے کہا… ''میری ڈیوٹی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ آپ مہمانوں میں چلی جائیں''… اس نے ذرا جھجک کر پوچھا… ''آپ کس کی بیوی ہیں؟''

''بیوی نہیںداشتہ''۔ عورت نے کہا اور ایک اعلیٰ کمانڈر کا نام لے کر کہنے لگی… ''کمبخت کے پاس بے شمار دولت ہے، یہاں آکر اسے ایک اور مل گئی ہے، مجھے بھی آزاد نہیں کرتا۔ مجھ پر ان جذبات کا نشہ طاری رہتا ہے جو اپنے دل کی پسند اور ناپسند کے پابند ہوتے ہیں یا شاید دل ان کا پابند ہوتا ہے۔ یہ وہ جذبات ہیں جو یہ نہیں دیکھتے کہ جو انسان دل پر قابض ہوگیا ہے۔ وہ بادشاہ ہے یا غلام۔ مجھے تمہاری حیثیت سے کوئی غرض نہیں۔ مجھ سے دور نہ بھاگنا۔ یہ ظلم ہوگا۔ تم پہلے انسان ہو جسے میرے دل نے پسند کیاہے۔ میں جسمانی آلودگی کی پیاسی نہیں۔ میری روح پیاسی ہے۔ اس کی پیاس تمہاری آنکھوں کے چشمے بجھا سکتے ہیں… اب جائو، کل رات میں تمہیں خود ڈھونڈ لوں گی''۔ جس وقت چنگیز اس عورت کے ساتھ باغ میں تھا، وکٹر مہمانوں میں گھوم پھر رہا تھا۔ اس کے کان ان چند ایک صلیبیوں کی باتوں پر لگے ہوئے تھے جنہیں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ پیش قدمی کس طرف کی جائے، حملہ کہاں کیا جائے۔ اسے کام کی کچھ باتیں معلوم ہوئیں لیکن یہ ابھی تجویزیں اور مشورے تھے۔ راشد چنگیز بھی مہمانوں میں چلا گیا اور رینالٹ کے اردگرد گھومنے لگا۔ رینالٹ اپنے ساتھیوں سے اپنا وہی عزم دہرا رہا تھا جس کا اس نے کانفرنس میں اظہار کیا تھا۔ اس کے پاس اتنی زیادہ جنگی طاقت تھی جس کے زور پر وہ بڑے اونچے دعوے کررہا تھا۔

رات گزر گئی۔ اگلے دن چنگیز کے پاس ایک آدمی آیا جو اس کے گروہ کا جاسوس تھا۔ اس نے اسے پیغام دیا کہ آدھی رات کے لگ بھگ امام کے پاس جائے۔ کوئی ضروری بات کرنی تھی… دن گزرا۔ رات آئی۔ چنگیز اور وکٹر ریمانڈ کے کھانے کے کمرے میں اپنی ڈیوٹی پر چلے گئے۔ رات بہت دیر فارغ ہوئے۔ چنگیز نے ابھی وکٹر کو نہیں بتایا تھا کہ ایک عورت اس کی دوستی کی خواہاں ہے۔ فارغ ہوکر اس نے وکٹر کو بتایا کہ وہ کپڑے بدل کر امام کے ہاں جارہا ہے۔ وکٹر نے اسے چند ایک باتیں بتائیں جو امام کو بتانے والی تھیں۔

چنگیز نے کپڑے بدلے اور مصنوعی داڑھی چہرے پر باندھ کر چہرہ عمامے میں چھپا لیا۔ وہ کمرے سے نکل کر اندھیرے میں چلا گیا۔ اس عمارت سے کچھ دور سرسبز میدان تھا جس میں درختوں کی بہتات تھی۔ پھول دار پودے بھی تھے الور اس کے اردگرد کوئی آبادی نہیں تھی۔ اسے اس قدرتی باغ میں سے گزر کر جانا تھا۔ اس میں داخل ہوا ہی تھا کہ کسی درخت کے پیچھے سے ایک سایہ نمودار ہوا اور اس کی طرف بڑھنے لگا۔چنگیز نے پہلا کام یہ کیا کہ مصنوعی داڑھی اتار کر چغے کی جیب میں ڈال لی۔ اسے خطرہ تھا کہ اس جگہ وہی آدمی آسکتا ہے جو اس جگہ ملازم ہوگا اور وہ اسے پہچانتا ہوگا۔ اس نے رفتار سست کرلی اور آہستہ آہستہ ٹہلنے لگا۔

سایہ دائیں طرف آرہا تھا اور جب قریب آیا تو بولا… ''میں نے کہا تھا نا کہ تمہیں خود ڈھونڈ لوں گی''… اور اس کے ساتھ نسوانی ہنسی سنائی دی۔ یہ وہی عورت تھی۔

''محل کی گھٹن نے دماغ خراب کردیا ہے''… چنگیز نے کہا… ''ہوا خوری کے لیے ادھر نکل آیا ہوں''۔

''میں تمہارے کمرے میں آرہی تھی''… عورت نے کہا… ''ادھر آتے دیکھا تو تمہارے پیچھے آنے کے بجائے اس طرف سے آئی تاکہ کوئی دیکھ نہ لے… بیٹھو گے یا ٹہلو گے؟ میں صراحی اور دو پیالے اپنے ساتھ لے آئی ہوں''… وہ ہنس پڑی۔

راشد چنگیز نے اس سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ رہتی کہاں ہے اور اتنی رات گئے کہاں سے آٹپکی ہے اور کیا جس کی وہ داشتہ ہے، وہ اسے ڈھونڈے گا نہیں؟ وہ اسی قدر سمجھ سکا کہ یہ عورت جذبات سے مغلوب ہے اور خطرے مول لے رہی ہے۔ چنگیز نے اس سے راز لینے کے ارادے سے کہا… ''تم اپنے کمانڈر آقا سے نجات چاہتی ہو۔ یہ تب ہی ممکن ہوسکتا ہے کہ وہ لڑائی پر چلا جائے مگر ایسا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ وہ کون سی فوج میں ہے؟''

''وہ بالڈون کی فوج کی ہائی کمان کا جرنیل ہے''… 

… عورت نے جواب دیا… ''شاید لڑائی پر چلا جائے مگر وہ مجھے اور دوسری لڑکی کو بھی ساتھ لے جائے گا''۔

''لڑائی کا کوئی امکان ہے؟''… چنگیز نے پوچھا… ''وہ یہاں کیوں آیا ہے؟''

''یہاں اسے بالڈون نے اسی مقصد کے لیے بھیجا ہے کہ لڑائی کا امکان پیدا کیا جائے''۔ عورت نے جواب دیا۔

''صلاح الدین ایوبی کی فوج کہاں ہے؟''… چنگیز نے پوچھا۔

''میں نے کبھی توجہ نہیں دی''… اس نے جواب دیا… ''تم چاہو تو پوچھ کر بتا دوں گی''۔

راشد چنگیز نے اس سے کچھ اور باتیں پوچھیں۔ اس عورت کو جو کچھ معلوم تھا اس نے بتایا اور جو معلوم نہیں تھا، اس کے متعلق کہا کہ پوچھ کر بتا دے گی۔

''کوئی لڑے کوئی مرے تمہیں اس سے کیا؟''… عورت نے جذباتی لہجے میں کہا… ''اگر اس نے مجھے میدان جانے میں جانے کو کہا تو میں نہیں جائوں گی۔ میں اس کی بیوی تو نہیں۔میں نہ اپنے موجودہ آقا کی غلام ہوں، نہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ میری دشمنی ہے۔ مجھے اتنا ذلیل کیاگیا ہے کہ میں ان سب کو جو اپنے آپ کو صلیب کے محافظ کہتے ہیں، زہر دے کر مار دیناچاہتی ہوں''… اس نے چنگیز کو بٹھا لیا۔ دونوں پیالے زمین پر رکھ کر ان میں شراب انڈیلی اور ایک پیالہ چنگیز کی طرف بڑھا کر بولی… ''ایسی تنہائی اور ایسی تاریک رات کے رومان کو لڑائی کی باتوں سے تباہ نہ کرو، پیو''۔

چنگیز کے لیے مشکل پیدا ہوگئی۔ وہ ڈیڑھ سال سے ان شرابیوں میں زندگی بسر کررہا تھا۔ اپنے ہاتھوں انہیں شراب پلاتا تھا لیکن اس نے خود کبھی نہیں پی تھی۔ اس گناہ گار ماحول میں جہاں اسے گناہوں کی بڑی ہی دلکش دعوتیں ملتی ہیں، اس نے اپنے ایمان کو داغ دار نہیں ہونے دیا تھا۔ اب اسے ایک ایسی عورت مل گئی جس کی وساطت سے وہ اپنا فرض بہتر طریقے سے ادا کرسکتا تھا لیکن یہ عورت اسے شراب پیش کررہی تھی۔ خطرہ تھا کہ اس نے اس جذباتی عورت کی پیشکش ٹھکرائی تو وہ اس کے ہاتھ سے نکل جائے گی۔ اس کے لیے فیصلہ کرنامشکل ہوگیا کہ فرض کی ادائیگی کی خاطر وہ شراب کے دو گھونٹ پئے یا اتنی قیمتی عورت کو ضائع کردے۔

''مجھے شراب پسند نہیں''۔ اس نے کہا۔

''خدا نے تمہیں مردانہ حسن اور شجاعت کا بڑا ہی دلکش مجسمہ بنایا ہے''… عورت نے کہا… ''لیکن شراب قبول نہ کرکے تم ثابت کررہے ہو کہ تم پتھر کا بے جان مجسمہ ہو''۔

کچھ دیر انکار اور اصرار کا تصادم جاری رہا۔ چنگیز نے اس حسین عورت کو اپنے جال میں پھانسنے کے لیے اس کے ہاتھ سے پیالہ لے لیا، پھر پیالہ منہ سے لگالیا۔ عورت نے اس کے پیالے میں اور شراب ڈال دی۔ چنگیز نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے پیالہ ہونٹوں سے لگا لیا اور آہستہ آہستہ پیالہ خالی کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ محسوس کرنے لگا جیسے اس کے خیالات اور نظریات کی دنیا میں بھونچال آگیا ہو۔ اس کے اردگرد دیواریں گر پڑیں اور وہ آزادی کے احساس سے لطف اندوز ہونے لگا جیسے کال کوٹھڑی سے رہا کردیا گیا ہو۔

وہ نسوانی جسم کے لمس سے آشنا نہیں تھا۔ اس نے شادی بھی نہیں کی تھی۔ جاسوسی کے لیے اسے جو منتخب کیا گیا تھا، اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ غیرشادی شدہ تھا اور پیچھے کا اسے کوئی غم نہیں تھا مگر اس صورت حال میں جب ایک دلکش عورت اسے شراب پلا کر اس کے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی تھی، اس کا شادی شدہ نہ ہونا اس کی بہت بڑی کمزوری بن گئی تھی۔ یہ عورت اسے گناہ کی دعوت نہیں دے رہی تھی۔ اس سے محبت کی بھیک مانگ رہی تھی جو روح کو مسرور اور مخمور کردیا کرتی ہے۔ چنگیز کی فطرت میں چونکہ گناہ کاعنصر نہیں تھا، اس لیے اس کے ذہن میں کوئی بے ہودہ ارادہ نہ آیا مگر اس صلیبی عورت کے ریشمی بالوں کے لمس نے اس کی پیاسی پیاسی اور جذباتی باتوں نے اور اس کے سڈول بازوئوں نے اور اس کے نرم وگداز گالوں نے اسے وہ راشد چنگیز بھی نہیں رہنے دیا تھا جو شراب کے چند گھونٹ حلق سے اترنے سے پہلے تھا۔ رات گزرتی جارہی تھی۔

 وہ جب جدا ہونے کے لیے اٹھے تو عورت نے اس سے پوچھا… ''تم نے مجھ سے لڑائی کے متعلق کچھ باتیں پوچھی تھیں۔ مجھے سب کچھ معلوم نہیں۔ اگر تم اپنے تمام سوالوں کا جواب چاہتے ہو تو میں کل رات جواب فراہم کردوں گی''۔

اچانک چنگیز کے اندروہ چنگیز بیدار ہوگیا جو سلطان ایوبی کا جاسوس تھا۔ اسے اپنے فرائض یاد آگئے اور اسے یہ بھی یاد آگیا کہ اس پر شراب اور ایک حسین عورت کا نشہ طاری ہے اور اسے بہت محتاط ہوناچاہیے۔ چنانچہ اس نے عورت 

سے کہا… ''مجھے بھی تمہاری طرح لڑائی کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں۔ میں آرام اور سکون کی زندگی کا شیدائی ہوں۔ اگر میرے سوالوں کا جواب لاسکو تو مجھے یہ پتہ چل جائے گا کہ ہماری فوج جدھر حملہ کرنے جارہی ہے ادھر مجھے بھی جانا پڑے گا اور وہ جگہ اور علاقہ کون سا ہوگا۔ شراب ساتھ جائے گی، ملازم ساتھ جائیں گے۔ اس لیے مجھے بھی ساتھ جانا پڑے گا''۔

٭ ٭ ٭

واپس آکر اس نے اسی وقت وکٹر کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ اسے رنج ا س بات کا ہورہا تھا کہ وہ امام سے ملنے جارہا تھا مگر راستے میں اس عورت نے روک لیا اور اسے کہیں سے کہیں پہنچا دیا۔ رات کا آخری پہر تھا۔ صلیبیوں کی اس عیاش دنیا میں صبح سویرے جاگنے کا کوئی بھی عادی نہیں تھا۔ چنگیز امام کے پاس جاسکتا تھا مگر منہ میں شراب کی بولیے ہوئے وہ مسجد میں جانے سے ڈر رہاتھا۔ اس کے دل پر یہ بوجھ بھی سوار ہوگیا کہ شراب نوشی بہت بڑا گناہ ہے جس کا وہ ارتکاب کرچکا ہے۔ اس کے باوجود اسے جب اس عورت کا خیال آیا تو اس میں اسے کوئی عیب نظر نہ آیا بلکہ اس پر اس کی محبت کا خمار ازسرنو سوار ہوگیا۔ عورت کے خیال کے ساتھ کوئی گناہ وابستہ نہیں تھا۔ یہ پاک محبت کا سرور تھا جس سے وہ دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا… وہ لیٹ گیا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔

اسے وکٹر نے جگایا۔ سورج اوپر اٹھ آیا تھا۔وکٹر نے پہلی بات یہ پوچھی… ''امام سے مل آئے تھے؟ کیا بات تھی؟''

''نہیں''۔ چنگیز نے وکٹر کو حیران کردیا… ''میں مسجد تک نہیں جاسکا''… اس نے وکٹر کو تمام تر واقعہ سنا دیا اور کہا… ''اگر میں شراب پئے ہوئے نہ ہوتا تو میں اس عورت سے جدا ہونے کے بعد بھی جاسکتا تھا''۔

''پھر تم کوشش کرو کہ آئندہ شراب نہ پئو''۔ وکٹر نے اسے کہا… ''اگر اس عورت کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے اس کے کہنے پر دو گھونٹ پی ہی لیے تھے تو تمہیں اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔ امام تمہارے انتظار میں پریشان ہورہا ہوگا۔ دن کے وقت جانا ٹھیک نہیں۔ آج رات ضرور جانا''۔ وکٹر نے اس سے پوچھا۔ ''تم اناڑی نہیں ہوچنگیز! خود سمجھ سکتے ہو کہ اس عورت کی نیت کیا ہے اور کیا وہ تمہارے ساتھ دلی محبت کرتی ہے؟ تمہیں دھوکہ تو نہیں دے رہی یا تمہیں جسمانی جذبے کی تسکین کا ذریعہ بنانا چاہتی ہوگی۔ یہ تو اس کے فرشتوں کو بھی معلوم نہیں ہوسکتا کہ تم جاسوس ہو۔ میں تمہیں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ عورت کے جادو نے فرعونوں جیسے بادشاہوں کو تخت سے اٹھا کر کوڑے کرکٹ میں گم کردیا ہے۔ خود اپنی قوم کو دیکھ لو۔ صلیبیوں کی بھیجی ہوئی دلکش لڑکیوں نے مصر میں بغاوت تک کرائی ہے۔ سلطان ایوبی کے قابل اعتماد سالاروں کو غدار بنا لیا ہے''۔

''میں اتنا کچا تو نہیں وکٹر بھائی!'' چنگیز نے کہا… ''یہ عورت مظلوم نظر آتی ہے۔ وہ بے شک داشتہ ہے لیکن شہزادی ہے، عصمت فروش نہیں۔ عیش وعشرت اور مادی آسائشوں کے لحاظ میں اسے شہزادی کہتا ہوں لیکن جذباتی لحاظ سے وہ مظلوم ہے۔ وہ پاک محبت کی پیاسی ہے۔ میں نے اس کے جسم کے ساتھ دلچسپی کا اظہار کیا ہے نہ کروں گا لیکن اس کی محبت کو میں ٹھکرا کر اسے مزید مظلوم نہیں بنانا چاہتا۔ تم یہ نہ سمجھو کہ میں اسی کا ہو کے رہ جائوں گا۔ اسے وہ محبت بھی دوں گا جس کی اسے ضرورت ہے اور اس سے وہ راز بھی لے لوں گا جس کی مجھے ضرورت ہے''۔

''تم دل سے اسے چاہنے لگے ہو؟''

''ہاں وکٹر!'' چنگیز نے جواب دیا… ''میں تم سے کچھ چھپائوں گا نہیں۔ وہ میرے دل میں اتر گئی ہے''۔

''دل میں اتر جانے والیاں پائوں کی زنجیریں بھی بن جایا کرتی ہیں چنگیز!'' وکٹر نے کہا… ''میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ سب سے مقدم اور مقدس فرض ہے۔ فرض اور محبت کے درمیان نشے اور ہوش کے درمیان، ایمان اور سفلی جذبات کے درمیان کوئی دیوار نہیں ہوتی جسے پھلانگنا دشوار ہو۔ بال جیسی باریک ایک لکیر ہوتی ہے جو ذرا سی لغزش سے نظر سے اوجھل ہوجاتی ہے اور انسان ادھر سے ادھر چلا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس سے راز لیتے لیتے تم اپنے آپ کو اس کے آگے بے نقاب کردو''۔

راشد چنگیز نے قہقہہ لگایا اور وکٹر کی ران پر ہاتھ مار کر بولا… ''ایسا نہیں ہوگا میرے دوست، ایسا نہیں ہوگا''۔

''اور یاد رکھو''۔ وکٹر نے کہا… ''شراب کا تعلق شیطان کے ساتھ ہے جو صفات شیطان میں ہیں، وہ شراب میں ہیں۔ اس کا عادی نہ ہوجانا۔ اس عورت کو خوش کرنے کے لیے اتنی سی پی لینا جس سے تمہاری عقل ٹھکانے رہ

 جس سے تمہاری عقل ٹھکانے رہے''۔

''امام تک یہ پیغام پہنچانا ضروری ہے کہ میں رات کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آسکا، آج رات آئوں گا''۔ چنگیز نے کہا۔

''بازار چلے جائو''۔ وکٹر نے کہا۔

ان کے دو چار ساتھی بازار میں دکان دار تھے۔ معمولی سی پیغام رسانی ان کی معرفت ہوسکتی تھی۔ اہم اور نازک راز انہیں نہیں دئیے جاتے تھے۔ وکٹر خود ہی بازار چلا گیا اور ایسے ایک آدمی سے مل کر آگیا۔

٭ ٭ ٭

اگلی رات چنگیز اپنے کام سے جلدی فارغ ہوگیا۔ اپنے کمرے میں جاکر اس نے وردی اتاری، دوسرے کپڑے پہنے اور مصنوعی داڑھی کپڑوں میں چھپالی۔ اسے ڈر تھا کہ وہ عورت اسے اچانک مل گئی تو داڑھی کا راز فاش ہوجائے گا۔ اس کا ارادہ یہ تھا کہ امام سے مل کر واپس اسی جگہ آجائے گا جہاں عورت سے ملنا تھا۔ وہ اسی راستے سے گیا۔ یہی راستہ محفوظ تھا اور چھوٹا بھی تھا۔ وہ اس جگہ داخل ہوگیا جہاں سبزہ، پودے اور درخت تھے۔ وسط میں گیا تو اسے مانوس سایہ ایک طرف سے آتا نظر آیا۔ چنگیز بھاگ نہیں سکتا تھا۔ سایہ قریب سے نمودار ہوا تھا۔ فوراً ہی اس کے سامنے آگیا اور بولا… ''آج تم جلدی آگئے ہو، میری محبت کا اثر ہے''۔

''اور تم یہاں اتنی جلدی کیوں آن کھڑی ہوئی تھی؟'' چنگیز نے پوچھا… ''فوج نے ابھی آدھی رات کا گھڑیال تو نہیں بجایا''۔

''میرادل کہہ رہا تھا تم گھڑیال کی آواز سے پہلے آجائو گے''… عورت نے کہا۔

''لیکن مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ تم اتنی جلدی آجائو گی''۔ چنگیز نے کہا… ''میں کسی کام سے جارہا تھا۔ واپس یہیں آنا تھا''۔

''اگر کام ضروری ہے تو جائو''۔ عورت نے کہا… ''میں ساری رات تمہارا انتظار یہیں کروں گی''۔

''اب تو میں یہاں سے ہل بھی نہیں سکوں گا''۔ چنگیز نے اسے بازوئوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے کہا۔ عورت کے کھلے ہوئے بالوں کی مہک اور کپڑوں پر لگے ہوئے عطر نے اسے دیوانہ بنا ڈالا لیکن اپنے آپ کو اس حد تک ہوش مند اور چوکنا رکھا کہ امام کے پاس جانا ملتوی کردیا۔ اس نے سوچا کہ یہ عورت آخر صلیبی ہے۔ اس کے دل میں اپنے آقا کے خلاف نفرت ہوسکتی ہے، اپنی قوم اور صلیب کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ چنگیز یہ خدشہ محسوس کررہا تھا کہ وہ امام کی طرف گیاتو یہ عورت کسی اور شک کی بنا پر اس کے پیچھے نہ چل پڑے۔ چنانچہ اس نے محبت کی شدت کا اظہار کرکے آگے جانا منسوخ کردیا۔

عورت نے پیالے زمین پر رکھے اور صراحی سے ان میں شراب ڈال کر ایک پیالہ چنگیز کو دینے لگی۔ چنگیز شراب نہیں پینا چاہتا تھا۔ اس نے ایک بہانہ سوچ لیا۔

''تم اگر زہر کا پیالہ دو گی تو وہ بھی پی لوں گا''۔ چنگیز جذبات سے جھومتے ہوئے بولا… ''شراب نہیں پئوں گا''۔

''عیسائی ہوتے ہوئے شراب سے کیوں نفرت کرتے ہو؟''

''شراب کا نشہ تمہارے حسن اور تمہاری محبت کے نشے پر غالب آجاتا ہے''۔ چنگیز نے کہا… ''جس طرح تمہارے دل نے زرودولت اور عیش وعشرت کو قبول نہیں کیا کیونکہ ان کی مسرت مصنوعی اور جسمانی ہے اسی طرح میرا دل شراب کو قبول نہیں کرتا کیونکہ اس کا نشہ مصنوعی ہے۔ مجھ پر اپناخمار طاری کرو''۔

عورت نے اس کا سر اپنی آغوش میں رکھ لیا اور اس پر اپنا خمار طاری کردیا۔ اس سے پہلے چنگیز نے اس کے ساتھ جو باتیں کی تھیں، ان میں بناوٹ اور جھوٹ تھا، اب اس کی عقل پر اور اس کے جذبات پر یہ عورت غالب آگئی۔ اسی لذت آگیں خمار میں اس نے خود پیالہ اٹھایا اور ایک ہی سانس میں خالی کردیا۔

''اور ڈالو''۔ اس نے کہا۔

عورت نے اب اس کا پیالہ بھر دیا، جو وہ آہستہ آہستہ پینے لگا، پھر وہ اس عورت میں گم ہوگیا۔

''ہم کب تک چوری چھپے ملتے رہیں گے؟'' عورت نے کہا… ''ذرا غور کرو میں کیسی اذیت میں مبتلا ہوں۔ میرے جسم کا مالک کوئی اور ہے اور دل کے مالک تم ہو۔ تمہاری محبت نے اس کی نفرت کو اور زیادہ کردیا ہے۔ میں اب اسے برداشت نہیں کرسکتی۔ آئو یہاں سے بھاگ چلیں''۔

''کہاں جائیں گے؟'' چنگیز نے پوچھا۔

''دنیا بہت وسیع ہے''۔ عورت نے جواب دیا۔ ''یہاں سے مجھے نکالو۔ میرے جذبات کی جوانی کو ایک بوڑھا کچل اور مسل رہا ہے''۔

''چلے چلیں گے''۔ چنگیز نے کہا… ''تھوڑے دن ٹھہر جائو… میرے سوالوں کا جواب لائی ہو؟''

''ہاں!'' عورت نے کہا… ''ہماری فوجیں جمع ہورہی ہیں''… اس نے تفصیل سے بتایا کہ کس کس کی فوج کہاں کہاں اجتماع کرے گی اور ان کا ارادہ کیا ہے لیکن ابھی آخری پلان کا اسے علم نہیں ہوسکاتھا۔ چنگیز اس سے کرید کرید کر پوچھتا رہا۔

وہ جب وہاں سے اٹھے تو ایک دوسرے کے دل میں پوری طرح سما چکے تھے۔ ''میں امام تک تو نہیں پہنچ سکا لیکن اس عورت سے کچھ نئی معلومات لے آیا ہوں''۔ چنگیز نے وکٹر کو بتایا کہ ''وہ میرے جال میں آگئی ہے اور میرے ہاتھ میں کھیلتی رہے گی''۔

''میرا خیال ہے کہ تم بھی اس کے جال میں آگئے ہو''۔ وکٹر نے کہا… ''تمہارا انداز بتا رہا ہے کہ اس کا تیر تمہارے دل میں اتر گیا ہے''۔

''میں نے تمہیں بتا دیا تھا کہ وہ میرے دل میں اتر گئی ہے''۔ چنگیز نے کہا… ''اب تو اس نے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ وہ میرے ساتھ بھاگ چلے گی لیکن میں نے اسے کہاہے کہ کچھ دن انتظار کرے۔ میں اسے یہاں سے نکال لے جائوں گا۔ میں نے ارادہ کرلیاہے کہ صلیبیوں کامنصوبہ معلوم ہوجائے تو یہ راز میں خود قاہرہ لے جائوں گا اور اس عورت کو بھی ساتھ لے جائوں گا''۔

''اسے کب بتائو گے کہ تم مسلمان ہو اور یہاں جاسوسی کے لیے آئے تھے؟''

''مصر کی سرحد میں داخل ہوکر''۔ چنگیز نے جواب دیا… ''یہاں اسے تھوڑے ہی بتا دوں گا''۔

چنگیز محبت کے نشے میں سرشار تھا۔ وہ صلیبیوں کا راز معلوم کرنے کے لیے جس قدر بے تاب تھا، اس سے زیادہ بے چین اس عورت سے ملنے کے لیے تھا۔ وہ خود محسوس کررہا تھا کہ اس کے سوچنے کے انداز میں اور اس کی روزمرہ حرکات وسکنات میں تبدیلی آگئی ہے۔ پہلی بار اس نے شراب پی لی تھی تو اگلے روز وہ پچھتاوے سے پریشان رہا تھا مگر گزشتہ رات اس نے اپنی مرضی سے شراب کا پیالہ اٹھا لیا تھا اور اب وہ پچھتاوے سے آزاد تھا۔ یہ بہت بڑی تبدیلی تھی۔

اس شام اسے اچانک بتایا گیا کہ چند ایک صلیبی حکمران اور ان کے اعلیٰ کمانڈر آرہے ہیں۔ ریمانڈ میزبان تھا۔ اس نے شراب کی محفل کا اہتمام کیا تھا۔ رات جب مہمان آئے تو یہ ہجوم نہیں تھا۔ چند ایک خصوصی مہمان تھے جو اس امر کا ثبوت تھا کہ یہ دعوت کم اور اجلاس زیادہ ہے۔ وکٹر اور چنگیز خاص طور پر سرگرم اور مستعد تھے۔ اس دعوت کے لیے انہوں نے کھانا پیش کرنے کے ملازموں کو باقاعدہ انتخاب کیا تھا۔ اس محفل میں صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن بھی موجود تھا… شراب کا دور چلنے لگا اور حملے کی باتیں ہونے لگیں۔ اب کے جو باتیں ہورہی تھیں، وہ تجاویز نہیں بلکہ فیصلہ کی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان میں پلان کا خاکہ بھی تھا اور ان باتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا تھا کہ کوچ جلدی کیا جائے گا۔

ہرمن سے اس کے محکمے کی سرگرمیوں کے متعلق پوچھا گیا۔ اس نے بتایا کہ جہاں جہاں صلیبی فوج ہے، وہاں محکمے کو سرگرم کردیا گیا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کا سراغ لگا کر انہیں پکڑا جائے۔ تریپولی میں جہاں صلیبی فوج کا سب سے بڑا اجتماع ہورہا تھا۔ جاسوسوں کو پکڑنے کے خصوصی انتظامات کردئیے گئے اور ہرمن نے بتایا کہ یہاں جاسوسوں کے ایک گروہ کا سراغ ملا ہے۔ اس گروہ کو بے کار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہرمن نے کہا… ''صرف ایک آدمی پکڑا گیا تو اس کے ذریعے پورے گروہ کا سراغ مل جائے گا۔ قاہرہ کے جاسوسوں کو ہدایات بھیج دی گئی ہیں۔ ادھر سے کل ہی ایک آدمی آیا ہے۔ اس نے بتایا ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے بھرتی اور ٹریننگ تیز کردی ہے اور وہ یروشلم کی طرف پیش قدمی کا ارادہ رکھتا ہے''۔

صلیبیوں کے اجلاس میں چنگیز اور وکٹر کو اتنی معلومات حاصل ہوگئیں کہ اگر یہی قاہرہ پہنچا دی جائیں تو سلطان ایوبی کے کافی تھیں۔ اسے یہ اطلاع بہت جلدی ملنی چاہیے تھی کہ صلیبی عنقریب پیش قدمی کررہے ہیں اور ان کا رخ حرن اور حلب کی طرف ہے۔

محفل برخاست ہوئی۔ چنگیز اور وکٹر آدھی رات کے بعد فارغ ہوئے۔ چنگیز کو امام کے پاس جانا تھا۔ اس نے ہر رات کی طرح کپڑے بدلے اور مصنوعی داڑھی کپڑوں میں چھپالی۔ آج رات چونکہ بہت دیر ہوگئی تھی، اس لیے اسے یہ خطرہ نہیں تھا کہ عورت اسے راستے میں مل جائے گی۔ وہ اطمینان سے باہر نکل گیا۔

٭ ٭ ٭

 اس کی توقع غلط ثابت ہوئی۔ وہ اس سرسبز جگہ سے گزر رہا تھا کہ عورت نے اسے روک لیا۔ چنگیز نے یہ بھی نہ سوچا، نہ اس سے پوچھا کہ وہ کہاں رہتی ہے اسے کہاں سے دیکھ لیتی ہے۔ وہ تو معلوم ہوتا تھا جیسے اسی جگہ کہیں رہتی تھی جہاں اسے چنگیز کے قدموں کی آہٹ سنائی دیتی اور وہ باہر آجاتی ہو۔ چنگیز نے اس پر غور نہ کیا۔ اسے دراصل غور کرنے کی مہلت ہی نہیں ملتی تھی۔ عورت اس کے ذہن اور دل پر غالب آجاتی تھی اور وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔ آج رات بھی وہ امام کے پاس نہیں جاسکتا تھامگر اس کا اسے افسوس نہ ہوا۔ عورت نے اسے جذبات میں الجھا لیا تھا۔ آج وہ مظلومیت کا اظہار ایسی دیوانگی سے کررہی تھی جس سے چنگیز کے پائوں اکھڑ گئے۔

''مجھے پناہ میں لے لو''۔ عورت نے جذبات سے لرزتی ہوئی آواز میں کہا… ''دیکھنے والے مجھے شہزادی اور ملکہ سمجھتے ہیں مگر میری زندگی ایسا جہنم ہے جسے تم قریب سے دیکھو تو سر سے پائوں تک کانپ اٹھو۔ میں مسلمان ماں باپ کی بیٹی ہوں۔ میری خوبصورتی نے مجھے ایسی اذیت میں ڈالا ہے جو بڑھتی جارہی ہے۔ ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ پندرہ سال کی عمر میں میرے باپ نے مجھے ایک عربی تاجر کے ہاتھ فروخت کیا تھا۔ میرا باپ غریب آدمی نہیں تھا۔ ہم چھ بہنیں تھیں۔ اس کے دل میں پیسے کا پیار تھا۔ بیٹیوں کو وہ بالکل پسند نہیں کرتا تھا۔ میری دو بڑی بہنیں باپ کے سلوک سے تنگ آکر اپنے چاہنے والوں کے ساتھ چلی گئی.

جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں