داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 104 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 104


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔104 ایک منزل کے مسافر
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
خون جو سلطان صلاح الدین ایوبی کی تلوار سے ٹپک رہا تھا، وہ صاف کیے بغیر اس نے تلوار نیام میں ڈال لی۔ یہ خون اس غدار حکیم کا تھا جو صلیبیوں کا جاسوس اور تخریب کار بنا ہوا تھا۔
فوری طور پر جنہیں غداری اور دشمن کے ساتھ سازباز کرنے کے جرم میں گرفتار کیاگیا تھا، وہ پابجولاں قید خانے کی طرف لے جائے جارہے تھے۔ سلطان ایوبی اپنے سالاروں، نائب سالاروں، فوج اور شہری انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کے اجلاس میں بے چینی سے ادھر ادھر ٹہل رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا۔ وہ بہت کچھ کہہ چکا تھا اور بہت کچھ کہتے کہتے رک گیا۔ اجلاس کے حاضرین اس کی جذباتی کیفیت کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ وہ سلطان ایوبی سے نظریں ملانے سے بھی ڈرتے تھے۔
''سلطان عالی مقام!'' ایک سالار نے کہا… ''ہم صلیبیوں کی کوئی سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
سلطان ایوبی نے بڑی تیزی سے نیام سے تلوار نکالی۔ تلوار خون آلود تھی۔ اس نے تلوار حاضرین کے آگے کرکے کہا… ''یہ خون کس کا ہے؟… یہ تم سب کا خون ہے۔ یہ میرا خون ہے۔ یہ ہمارے اس بھائی کا خون ہے جو ہمارے ساتھ مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھا کرتا تھا۔ اس کے گھر میں قرآن بھی ہے۔ اگر یہ خون غدار ہوسکتا ہے تو صلیبیوں کی ہر سازش کامیاب ہوگی… صلیبیوں کی یہ سازش کامیاب ہوچکی ہے۔ وہ اسلام کی ان افواج کو جنہیں متحد ہوکر فلسطین کو صلیبی استبداد سے آزاد کرانا تھا، آپس میں لڑا کر ہمیں اتنا کمزور کرچکے ہیں کہ ایک لمبے عرصے تک فلسطین کی طرف کوچ کرنے سے معذور ہوگئے ہیں۔ ہماری منزل بیت المقدس تھی۔ ہمیں آج قاہرہ میں نہیں یروشلم میں ہونا چاہیے تھا مگر اسلام کی جنگی طاقت تباہ ہوگئی ہے''۔
سلطان ایوبی نے تلوار اپنے دربان کی طرف پھینکی، پھر نیام بھی اتار کر اسے دی اور کہا… ''اگر یہ خون کسی کافر کا ہوتا تو میں نیام صاف نہ کراتا۔ یہ ایک غدار کا خون ہے۔ نیام میں اس کی بو بھی نہ رہے''… دربان تلوار اور نیام صاف کرنے کے لیے باہر گیا۔ سلطان ایوبی نے اجلاس کے حاضرین سے کہا… ''صلیبیوں کی سازش کامیاب ہوچکی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ میں حلب سے آگے نہ جاسکوں۔ دیکھ لو، میں آگے جانے کے بجائے قاہرہ میں آگیا ہوں۔ اپنے آپ کو دھوکے میں نہ رکھو۔ اب صلیبی آگے بڑھیں گے۔ ہم جب آپس میں لڑ رہے تھے، وہ ہمیں فیصلہ کن شکست دینے کی تیاریاں کررہے تھے''۔
''ہم نے مسلمانوں کو لڑا کر صلاح الدین ایوبی کا رخ پھیر دیا ہے''۔ یہ تریپولی (لبنان) کا صلیبی حکمران ریمانڈ کہہ رہا تھا۔ صلیبی جاسوسوں نے وہاں خبر پہنچا دی تھی کہ سلطان ایوبی حلب سے مصر چلا گیا ہے اور اس کی جگہ اس کا بھائی العادل محاذ پر آیا ہے۔ یہ خبر یروشلم تک پہنچ گئی تھی۔ یہ خبر عکرہ تک بھی پہنچ گئی تھی جہاں صلیب اعظم تھی اور جہاں بڑا پادری بھی تھا جسے صلیب اعظم کا محافظ کہتے تھے۔ وہ فوراً تریپولی جمع ہوگئے تھے۔ ان کے ہاں بھی ایسی ہی کانفرنس ہورہی تھی جیسی سلطان ایوبی نے بلا رکھی تھی۔
''ایوبی یروشلم کو فتح کرنے نکلا تھا''۔ ریمانڈ کہہ رہا تھا… ''ہم نے ایک بھی تیر چلائے بغیر اسے مصر کی طرف پسپا کردیا ہے۔ اس کے ہاتھوں ان مسلمان امراء اور حکمرانوں کو بے کار کردیا ہے جو کسی بھی وقت ہمارے خلاف ایوبی کی قوت بن سکتے تھے۔ ہم اس سے بڑی اور کیا کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ اب ہمیں وقت ضائع نہیں کرناچاہیے''۔
''یہ کامیابی اتنی بڑی نہیں ہے جتنی آپ نے کہاہے''… ایک صلیبی حکمران بالڈون نے کہا… ''ہم نے حملے کے لیے زمین ہموار کی ہے۔ اصل کام تو حملہ ہے۔ اس کی کامیابی کو ہم بہت بڑی کامیابی کہیں گے۔ فوجیں فوراً جمع کرو اور پیش قدمی کرو اور سلطان ایوبی کو سنبھلنے کا موقعہ نہ دو''۔
''اگر ہم نے اپنے آپ کو بہت جلدی نہ سنبھالا تو میں بتا نہیں سکتا کہ اس کے نتائج کیا ہوں گے''۔ سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں اور دیگر حکام سے کہا… ''آج ہی سے نئی بھرتی شروع کردو۔ سوار زیادہ ہونے چاہئیں۔ سوڈان کے ان جوانوں کو بھی بھرتی کرو جنہیں سات سال ہوئے بغاوت کے جرم میں فوج سے نکال کر قابل کاشت زمینوں پر آباد کیا گیا تھا۔ انہوں نے مصر میں اتنی خوشحالی دیکھی ہے کہ اب دھوکہ نہیںدیں گے۔ ایسے جوان جو گھوڑ سواری اور تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتے ہوں، انہیں جنگی تربیت دو۔ میں بہت جلدی مصر سے نکل جانا چاہتا ہوں۔ اگر صلیبیوں کا دماغ خراب ہوگیا ہو تو دنیائے عرب ان کی دستبرد سے بچ جائے گی اور اگر ان کا دماغ ٹھکانے ہے تو انہیں میری غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فوراً حملہ کردینا چاہیے۔ وہ اناڑی نہیں۔ میرے لیے یہ حالات انہوں نے کسی مقصد کے تحت پیدا کیے تھے جن سے مجبور ہوکر میں مصر آگیاہوں۔ : وہ ہم سے بیت المقدس کو صرف اسی صورت میں بچا سکتے ہیں کہ مقبوضہ علاقوں سے نکل کر ہمارے علاقوں میں آکر لڑیں۔ اس جنگ کے لیے مجھے بہت سی فوج کی ضرورت ہے''۔
''میں اس وقت دوسو پچاس نائٹ (زرہ پوش سردار) میدان میں لاسکتا ہوں''۔ تریپولی کی کانفرنس میں ایک مشہور صلیبی حکمران رینالٹ آف حومین نے کہا… ''اس حملے کی قیادت میری فوج کرے گی۔ میں نے اس کا پلان بھی تیار کرلیا ہے۔ اس کی بنیاد یہ ہے کہ ہم صلاح الدین ایوبی کی طرح چوروں والی جنگ نہیں لڑیں گے۔ ہم طوفان اور سیلاب کی مانند پیش قدمی کریں گے۔ ہم سب اپنی فوجوں کو اکٹھا کرکے کوچ کریں گے تو آپ خود محسوس کریں گے کہ انسانوں اور گھوڑوں کا یہ طوفان دنیائے عرب کو خس وخاشاک کی طرح اڑاتا مصر کو بھی روند جائے گا اور اس کا زور سوڈان میں جاکر تھمے گا''۔
''اگر صلیبی متحد ہوکر آئیں تو عرب کی سرزمین ہم سب سے اتنا خون مانگے گی جس میں ریگزار کے ذرے تیریں گے''۔ سلطان ایوبی قاہرہ میں کہہ رہا تھا… ''اب کے ہم سروں سے کفن باندھ کر جائیں گے۔ میرے رفیقو! میری ایک حس مجھے بتا رہی ہے کہ ہمیں پوری تیاری سے اور پوری طرح سنبھل کر میدان میں اترنا پڑے گا''۔
''ایوبی کو مصر میں الجھائے رکھنے کے لیے ہمیں تخریب کاری تیز کرنی ہوگی''۔ ریمانڈ نے کہا اور صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے استاد ہرمن سے کہا… ''ہرمن! مصر پر اپنی گرفت اور سخت کردو۔ مجھے توقع یہ ہے کہ ایوبی چین سے بیٹھنے والا آدمی نہیں۔ اس کی فوج کا جانی نقصان بہت ہوچکا ہے۔ وہ فوری طور پر نئی بھرتی کرے گا… کوشش کرو کہ اسے بھرتی نہ ملے۔ اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو مصر کی فوج کے ذخیرے تباہ کراتے رہو۔ وہاں کی فوج پر نظر رکھو اور وہاں کے جاسوسوں سے کہو کہ صلاح الدین ایوبی کی ایک ایک حرکت کی اطلاع فوراً پہنچاتے رہیں''۔
''اور ہرمن!'' ایک صلیبی کمانڈر نے کہا… ''مصر کی خبر ملے نہ ملے، زیادہ ضروری یہ ہے کہ یہاں کی خبر باہر نہ جانے پائے۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ایوبی جس طرح میدان جنگ میں ہمارے لیے مصیبت بن جاتا ہے، وہ جاسوسی کے میدان میں بھی ہم سے ہوشیار ہے۔ ہمارے درمیان اس کے جاسوس موجود ہیں۔ یہاں کی مسلمان آبادی پر گہری نظر رکھو۔ کسی پر ذرا سا شک ہو، اسے قید کردو، قتل کردو، تمہیں پورے اختیارات دئیے جاتے ہیں''۔
''میں کسی کے دل میں نہیں اتر سکتا''۔ سلطان ایوبی کہہ رہا تھا۔ ''ایمان فروشوں کے سروں پر سینگ نہیں ہوتے۔ میں علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کو اجازت دیتا ہوں کہ جس پر شک ہو کہ وہ صلیبیوں کا جاسوس ہے، اسے قتل کردو۔ اگر اس پر رحم کرنا چاہو تو اسے قید میں ڈال دو۔ میں ان حالات میں جب صلیبی متحد ہوکر آتے نظر آرہے ہیں، کسی کو بخش نہیں سکتا۔ میں اب تحقیقات اور عدل انصاف کے طور طریقے بھی بدل دینا چاہتا ہوں… ''اوہ علی بن سفیان!'' اس نے اپنی انٹیلی جنس کے سربراہ سے کہا… ''مجھے یقین ہے کہ تم نے مقبوضہ علاقوں میں اپنا جال بچھا رکھا ہے۔ صلیبیوں کے ہاں اپنے کچھ اور آدمی بھیج دو اور وہاں کے جاسوسوں سے کہو کہ کوئی خبر اور اطلاع زیادہ دیر تک اپنے پاس نہ رکھیں۔ خطرہ مول لیں اور تیر کی رفتار سے قاہرہ خبریں پہنچائیں۔ مجھے اندھا نہ کردینا علی بن سفیان! اور کوشش کرو کہ یہاں سے کوئی خبر باہر نہ جاسکے''۔
''اگر ہماری افواج کی کمان مشترکہ ہو تو ہم زیادہ بہتر اور مؤثر طریقے سے لڑ سکیں گے''… ریمانڈ نے کہا۔
''میں اتحاد پر زور دوں گا، مشترکہ کمان پر نہیں''۔ رینالٹ نے کہا… ''مشترکہ کمان کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ میدان جنگ میں ہمیں ایک دوسرے سے باخبر رہنا چاہیے اور ایک دوسرے کے راستے میں نہیں آنا چاہیے۔ ہم پیش قدمی کے لیے علاقے تقسیم کرلیں گے۔ احتیاط صرف یہ کی جائے کہ ہماری نقل وحرکت راز میں رہے''۔
٭ ٭ ٭
دونوں طرف جنگی تیاریوں کا ہنگامہ تھا۔ صلیبی اب کے سلطان ایوبی کو فیصلہ کن شکست دینے کا عزم کیے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی زخم خوردہ تھا۔ آپ تفصیل سے پڑھ چکے ہیں کہ صلیبیوں کی شہ پر تین مسلمان امراء سلطان ایوبی کے خلاف افواج کو فیصلہ کن شکست دے کر ان سے ہتھیار ڈلوائے اور انہوں نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی تھی مگر اس فتح کو سلطان ایوبی امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بدترین شکست کہتا تھا کیونکہ صلیبیوں کی سازش کامیاب ہوگئی تھی۔ اس خانہ جنگی میں اللہ کے وہ ہزار ہا سپاہی مارے گئے یا عمر بھر کے اپاہج ہوگئے جنہیں فلسطین کو صلیب سے پاک کرنا تھا۔
اس دوران صلیبیوں نے فوج میں اضافہ کرلیا تھا، فوج کو آرام بھی دے لیا تھا اور جنگی تیاریاں مکمل کرلی تھیں۔ ان کا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں تھا کہ وہ طوفان کی طرح آئیں گے اور دنیائے عرب کو خس وخاشاک کی طرح اڑا لے جائیں گے۔ ان کے مقابلے میں سلطان ایوبی کی فوج کے تجربہ کار سپاہی اور کمان دار شہید ہوچکے تھے اور وہ نئی بھرتی کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ رنگروٹوں کو لڑانا بہت بڑ
 ا۔ رنگروٹوں کو لڑانا بہت بڑا خطرہ تھا مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسے مصر میں بھی فوج کی زیادہ نفری رکھنی تھی کیونکہ سوڈان کی طرف سے خطرہ تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے اندر تخریب کاری اور غداری بھی زیادہ تھی۔
صلیبی طوفان کی طرح آنے کے پلان بنا رہے تھے اور سلطان ایوبی اپنے طریقہ جنگ سے ہٹنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے طے کررکھا تھا کہ وہ شب خون مارنے اور ''ضرب لگائو اور بھاگو'' کے اصول پر لڑے گا۔ اب کے صلیبیوں نے ایسا پلان تیار کرنے کی سوچی تھی جس میں سلطان ایوبی کا کمانڈو آپریشن کامیاب نہ ہوسکے۔ وہ اس کی فوج کو گھیرے میں لے کر آمنے سامنے کی جنگ لڑانے کی ترکیبیں سوچ رہے تھے۔ دونوں طرف یہ کوشش ہورہی تھی کہ اپنی اپنی جنگی تیاریوں، منصوبوں اور نقل وحمل کو راز میں رکھیں اور ایک دوسرے کے راز معلوم کریں۔ اس مقصد کے لیے دونوں کے ہاں ایک دوسرے کے جاسوس موجود تھے۔
صلیبی کمانڈروں وغیرہ کو یہ تو معلوم تھا کہ ان کے درمیان سلطان ایوبی کے جاسوس موجود ہیں لیکن ریمانڈ والئی تریپولی اور دیگر صلیبی حکمرانوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ان کی کانفرنس میں دو مسلمان جاسوس موجود ہیں۔ پہلے بھی ان کا ذکر آچکا ہے۔ ایک مسلمان راشد چنگیز تھا اور دوسرا فرانسیسی عیسائی وکٹر تھا۔ یہ اعلیٰ قسم کے ملازم تھے جو صلیبی بادشاہوں اور اعلیٰ کمانڈروں کی دعوتوں وغیرہ میں شراب اور کھانے وغیرہ کی سروس کی نگرانی کرتے تھے۔ راشد چنگیز نے اپنا نام عیسائیوں جیسا ظاہر کررکھا تھا۔ ترک ہونے کی وجہ سے اس کا رنگ یورپی باشندوں جیساتھا۔وہ بہت ہوشیار اور چرب زبان تھا۔ وکٹر کے متعلق تو کسی کو شبہ ہی نہیں تھا کہ وہ عیسائی ہے۔ وہ فرانس کا رہنے والا تھا لیکن اپنے آپ کو اس نے یونانی عیسائی بتایا تھا۔
صلیبیوں کی اس کانفرنس میں بھی دونوں اپنی مخصوص وردی پہنے موجود تھے کیونکہ صلیبی شراب کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے تھے۔ یہ دونوں شراب پیش کررہے تھے اور ان کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ یہ باتیں بہت ہی قیمتی تھیں جو انہیں قاہرہ پہنچانی تھیں مگر یہ ابھی مکمل نہیں تھیں۔ وہ صلیبیوں کا پورا پلان معلوم کرکے قاہرہ پہنچانے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔ علی بن سفیان کو اپنے ان دونوں جاسوسوں پر مکمل اعتماد تھا، حالانکہ وکٹر عیسائی تھا۔ صلیبیوں کو یہی خطرہ محسوس ہورہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ان کے پلان اور نقل وحرکت کا علم ہوگیا تو وہ جگہ جگہ گھات لگا کر تھوڑی تھوڑی نفری سے ان کے طوفانی لشکر کو تباہ کردے گا۔ چنانچہ وہاں سلطان کے جاسوسوں کو سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے کے بڑے ہی سخت احکام جاری کردئیے گئے۔ مصر میں بھرتی کی مہم شروع ہوگئی۔ دو تین فوجی دستے ترتیب دئیے گئے جو ان علاقوں کے دوروں پر نکل گئے۔ جن سے بھرتی مل سکتی تھی۔ فوجی جاہ وجلال اور جنگی مظاہروں اور کھیل تماشوں کا انتظام کیا گیا۔ مسجدوں کے اماموں کے لیے تیزرفتار قاصدوں کے ذریعے سلطان ایوبی کا یہ پیغام بھیجا گیا کہ وہ لوگوں کو جہاد کی اہمیت بتائیں اور انہیں یہ بتائیں کہ کفار پوری طاقت کے ساتھ عالم اسلام پر حملہ آور ہورہے ہیں اور یہ بھی کہ قبلہ اول کفار کے قبضے میں ہے۔ اس صورت میں ہر مسلمان پر جہاد فرض ہوگیا ہے۔ اماموں سے کہا گیا کہ وہ جوانوں کو مصر کی فوج میں بھرتی ہونے کی تلقین کریں۔
مذہب اور قوم کے وقار کے جذبے سے جواں سال آدمی بھرتی ہونے لگے۔ ان کے ذہنوں میں مقصد واضح تھا مگر بہت سے جوان مال غنیمت کے لالچ سے بھرتی ہوئے۔ یہ دیہاتی علاقوں کے لوگ تھے۔ ان کے کانوں تک اماموں کی آواز نہیں پہنچی تھی۔ ان تک فوجی افسر پہنچے جنہوں نے سلطان ایوبی کے اس حکم کی تعمیل کی خاطر کمک بھرتی بہت جلدی کرو، لوگوں کو جہاد کے وعظ سنانے کے بجائے یہ کہا کہ صلیبیوں کے شہر فتح کیے جائیں گے جہاں اتنی دولت ہے کہ وہ سمیٹ نہیں سکیں گے۔ چنانچہ وہ دلوں میں جہاد کا جذبہ لے کر بھرتی ہونے کے بجائے مال غنیمت کا لالچ لے کر ہنسی خوشی بھرتی ہوئے۔ ان اناڑی اور کم فہم فوجی افسروں نے سلطان ایوبی کی توقع کے خلاف بے شمار جوانوں کو بھرتی کرلیا مگر اسے یہ نہ بتایا کہ انہوں نے مقصد پورا نہیں کیا حکم کی تعمیل کی ہے۔ میدان جنگ میں جاکر یہ سپاہی سلطان ایوبی کے لیے بڑا ہی تکلیف دہ مسئلہ بن گئے۔
 ادھر تریپولی سے کچھ دور صلیبی فوج ایک میدان میں اکٹھی ہونے لگی۔ فلسطین کے دوسرے مقبوضہ شہروں میں ایلچی بھیج دئیے گئے کہ وہ صلیبی فوج کو تیار کریں۔ تریپولی میں سب سے زیادہ سرگرمی حونین کے حکمران رینالٹ کی تھی۔ اس کی فوج خاصی زیادہ تھی جس میں اڑھائی سو نائٹ تھے۔ نائٹ ایک اعزاز تھا جو غیرمعمولی طور پر ذہین، دلیر اور قیادت کے ماہر فوجی افسر کو دیا جاتا تھا۔ اسے خاص قسم کی زرہ بکتر دی جاتی، سلسلے کی ایک کہانی ''اسلام کی پاسبانی کب تک کرو گے''میں اس صلیبی بادشاہ کا نام اور واقعہ پڑھا ہوگا۔ ١١٧٤ء کے اوائل میں صلیبیوں نے سمندر سے سکندریہ پر حملہ کیا تھا لیکن سلطان ایوبی کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے حملے کی خبر قبل از وقت مل گئی ) اس نے حملے کے استقبال کا ایسا بندوبست کررکھا تھا کہ صلیبیوں کا بحری بیڑہ بری طرح تباہ ہوا اور یہ بیڑہ فوج کو ساحل پر نہیں اتار سکا تھا۔
اس حملے کی دوسری کڑی خشکی کے راستے حملہ کرنا تھا جس کی قیادت رینالٹ کررہا تھا چونکہ مسلمان جاسوس صلیبیوں کا پورا پلان لے آئے تھے، اس لیے خشکی پر نورالدین زنگی نے اپنی فوج کی گھات لگا رکھی تھی۔ عقب اور پہلوئوں سے بھی حملوں کا انتظام کررکھا تھا۔ رینالٹ اس پھندے میں آگیا۔ اس نے بہت ہاتھ پائوں مارے گھات سے نکلنے کی کوشش کی مگر ایک رات نورالدین زنگی کے چھاپہ ماروں نے رینالٹ کے ہیڈکوارٹر پر شب خون مارا اور رینالٹ کو پکڑ لیا۔ صلیبیوں کا نہ صرف حملہ ناکام رہا بلکہ انہیں کمرتوڑ شکست ہوئی۔ جانی اور مالی نقصان کے علاوہ سب سے بڑا نقصان تو یہ تھا کہ ان کا رینالٹ جیسا جنگجو بادشاہ قیدی ہوگیا تھا۔
نورالدین زنگی کے لیے یہ بڑا ہی قیمتی قیدی تھا۔ اس کی رہائی کے لیے وہ صلیبیوں سے بڑی ہی کڑی شرائط منوانا چاہتا تھا مگر زندگی نے وفا نہ کی۔ دو ماہ بعد زنگی فوت ہوگیا۔ اس کے اعلیٰ حکام اور سالاروں نے زنگی کے گیارہ سالہ بیٹے الملک الصالح کو سلطنت کی گدی پر بٹھا دیا، کیونکہ اسے وہ اپنا کٹھ پتلی بنا کر من مانی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف محاذ قائم کرلیا اور اسے شکست دینے کے لیے صلیبیوں کے ساتھ دوستی کرلی۔ اس دوستی کا انہوں نے پہلا معاوضہ یہ دیا کہ رینالٹ جیسے قیمتی قیدی کو غیرمشروط طور پر رہاکردیاا ور اس کے ساتھ دوسرے تمام قیدیوں کو بھی رہا کردیا۔ وہیں سے سلطان ایوبی کی مسلسل معرکہ آرائی اپنے پیراستاد اور عزیز دوست نورالدین زنگی کے بیٹے سے شروع ہوگئی۔ دوسرے امراء خلافت سے آزاد ہوگئے اور سب نے سلطان ایوبی کے خلاف متحدہ محاذ قائم کرلیا تھا۔ اس کا اور جو نقصان ہوا سو ہوا، ایک نقصان اب سامنے آیا کہ رینالٹ جسے ان غدار مسلمانوں نے خیرسگالی کے طور پر یا صلیبیوں کی دوستی حاصل کرنے کے لیے رہا کردیا تھا وہ ایک جنگی قوت بن کر سلطان ایوبی کے خلاف نہیں بلکہ عالم اسلام کہ تہ تیغ کرنے کے لیے فیصلہ کن حملے کے لیے آرہا تھا۔
الملک الصالح نے رینالٹ کے ساتھ جو جنگی قیدی رہا کیے تھے، وہ بھی اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ بن کر آرہے تھے۔ رینالٹ اپنی شکست اور ذلت کا انتقام بھی لینا چاہتا تھا۔ صلیبیوں کی اس کانفرنس میں اس نے اس تجویز کی مخالفت کی کہ تمام صلیبی افواج مشترکہ کمان کے تحت ہوں۔ اس مخالفت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ آزاد ہوکر اپنے عزائم کے مطابق جنگ لڑنے کا ارادہ کیے ہوئے تھا۔ صلیبیوں میں یہ کمزوری تھی کہ وہ متحدہ نہیں ہوتے تھے۔ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے لیکن ہر ایک کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ علاقے فتح کرکے ان کا بادشاہ بن جائے۔ متعدد مورخین نے لکھا ہے کہ صلیبیوں کو اس کمزوری نے دنیائے عرب میں نقصان پہنچایا اور وہ اتنی زیادہ اور اتنی برتر جنگی طاقت کے باوجود نمایاں کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ مورخین لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کی صفوں میں غدار نہ ہوتے تو وہ صلیبیوں کو دنیائے عرب سے بے دخل کرکے یورپ کے لیے خطرہ بن جاتا۔
''اگر آپ صلاح الدین ایوبی کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہم سب اپنی اپنی فوج کو مشترکہ کمان کے سپرد کردیتے ہیں''… ریمانڈ آف تریپولی نے کہا… ''ورنہ ہم بکھر کرناکام بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ ضروری نہیں کہ حملے کی قیادت رینالٹ کی فوج کرے، یہ فیصلہ مشترکہ کمان کو کرنا چاہیے''۔
: ''میں آپ سے الگ نہیں ہوں گا''… رینالٹ نے کہا… ''لیکن میں کسی مشترکہ کمان کا پابند نہیں رہوں گا۔ مجھے اپنی شکست کا انتقام لینا ہے۔ نورالدین زنگی تو مرچکا ہے، میں صلاح الدین ایوبی کو اسی طرح قید میں آپ سب کے سامنے لائوں گا جس طرح زنگی مجھے قید کرکے دمشق لے گیا تھا، ورنہ تاریخ ہمیشہ مجھ پر لعنت بھیجتی رہے گی۔ میں آپ سب سے پوچھتا ہوں کہ جس وقت زنگی نے مجھ پر شب خون مار کر میرے دستوں کو بکھیر دیا اور ان سے ہتھیار ڈلوا لیے تھے، اس وقت آپ میں سے کس نے زنگی پر جوابی حملہ کیا تھا؟ کون میری مدد کو پہنچا تھا؟… کوئی نہیں۔ اب مجھے پابند نہ کریں۔ میں نے اسی روز کے لیے فوج کو تیار کیا تھا۔ میرے انتقام کا دن آگیا ہے۔ میری فوج آپ کی کسی بھی فوج کی راہ میں حائل نہیں ہوگی۔ جسے بھی میری مدد کی ضرورت ہوگی، اسے خطرہ مول لے کر بھی مدد دوں گا لیکن میں آپ سب سے درخواست کرتا ہوں کہ مجھے پابند نہ کریں''۔
''نہیں کریں گے''… بالڈون نے کہا… ''ہماری آج کی کانفرنس ابتدائی بات چیت تک محدود رہے گی۔ اس میں نے یہ طے کرلیا ہے کہ ہماری زمین دوز کوششوں سے مسلمانوں کی خانہ جنگی نے انہیں کمزور ہے اور صلاح الدین ایوبی ادھر آنے کے بجائے مصر چلا گیا ہے۔ لہٰذا ہمیں برق رفتار اور طوفانی قسم کا حملہ کرنا ہے۔ ہم نے آج اس حملے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب دو چار دن ہم سب فرداً فرداً سوچ لیں۔ ہم میں سے جو بھی غیرحاضر ہیں، انہیں بھی بلا لیں اور ایک دن مقرر کرکے حملے کا پلان تیار کرلیں۔ ہماری فوجیں تیار ہیں۔ ان دوران ہرمن اپنے شعبہ جاسوسی کو اتنا زیادہ سرگرم کردے کہ زمین کی تہوں میں سے بھی صلاح الدین ایوبی کے جاسوسوں کو نکال کر قید کردے اور یہاں کے مسلمانوں پر کڑی نظر رکھے۔ ہر مسلمان گھرانے اور ہر مسلمان فرد کی روزمرہ حرکات کو بھی دیکھے۔ ہماری افواج کا اجتماع یہیں شروع ہوگیا جسے چھپایا نہیںجاسکتا۔ یہ انتظام ہرمن کو کرنا ہے کہ کوئی آدمی یا عورت اس جگہ سے باہر جائے تو یہ یقین کرلیا جائے کہ وہ جاسوس نہیں''۔
''ایسا ہی ہوگا''… ہرمن نے کہا… ''یہاں سے کوئی پرندہ بھی باہر نہیں جائے گا''۔
٭ ٭ ٭
پہلے سنایا جاچکا ہے کہ اس کانفرنس میں شراب پلانے والے خادموں (مردوں اور لڑکیوں) کے نگران اور انچارج دو آدمی تھے جو صلیبیوں کی کانفرنسوں اور دعوتوں وغیرہ میں بڑی دلکش وردی میں حاضر رہتے تھے۔ یہ قابل اعتماد آدمی تھے۔ انہیں گہری چھان بین کے بعد ملازم رکھا گیا تھا مگر یہ دونوں سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس تھے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس قدر ہوشیار اور ذہین تھے، ورنہ ہرمن جیسے استاد جاسوس اور سراغ رساں کی نظروں اور عقل کو دھوکہ دینا ممکن نہیں تھا۔ دونوں خوبرو جوان اور دراز قد تھے۔ وکٹر کو اپنا نام بدلنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ وہ تھا ہی عیسائی۔ راشد چنگیز جوترک تھا، اپنا نام عیسائیوں جیسا رکھے ہوئے تھا۔ یہ دونوں اس کانفرنس میں بھی موجود تھے۔ آدھی رات کے قریب کانفرنس برخاست ہوئی اور وہ دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے۔
''ہم دونوں میں سے کوئی بھی نوکری سے غیرحاضر نہیں ہوسکتا''… وکٹر نے کہا… ''یہ خبر کسی اور کے ذریعے قاہرہ بھیجنی پڑے گی۔ ایسا کون ہوسکتا ہے؟''
''امام سے بات کریں گے''… راشد چنگیز نے کہا… ''وہی بہتر جانتا ہے کہ کون سا آدمی بہتر ہے۔ قاہرہ تک تیزرفتاری سے پہنچنے کے لیے کسی خاص آدمی کی ضرورت ہوگی مگر ان کا پورا منصوبہ معلوم ہوجائے تو قاہرہ کو اطلاع دیں گے۔ ادھوری اطلاع پر سلطان ایوبی کوئی غلط چال نہ چل بیٹھے''۔
''امام کو اتنی سی اطلاع دینا تو ضروری ہے کہ صلیبی بہت بڑے حملے کا فیصلہ کرچکے ہیں''… وکٹر نے کہا… ''تاکہ سلطان اپنی فوج کو تیار کرسکے اور اپنے نقصانات جلدی جلدی پورے کرلے… اور سنو!''… اس نے چنگیز سے کہا… ''جس وقت یہ لوگ حملے کی باتیں کررہے تھے تو میں نے تمہیں دیکھاتھا۔ تم شراب کا پیالہ ریمانڈ کے آگے رکھتے رکھتے رک گئے تھے اور صاف پتہ چلتا تھا کہ تم ان کی باتیں غور سے سن رہے ہو۔ میں نے تمہارا چہرہ دیکھا تھا۔ اس پر مجھے نمایاں چمک نظر آئی تھی۔ میں جانتا ہوں کہ اتنا قیمتی راز مل جانے سے ہیجان اور خوشی کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے لیکن تمہیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہرمن بھی وہیں موجود ہوتا ہے۔ ہرمن علی بن سفیان کے پائے کا جاسوس ہے۔ میں نے تمہیں دیکھ کر فوراً ہرمن کی طرف دیکھا تھا۔ مجھے شک ہوتا ہے جیسے وہ تمہیں دیکھ رہا تھا۔ محتاط رہو میرے بھائی! ہم دشمن کے پیٹ میں زندگی بسر کررہے ہیں''۔
: ''ہرمن کے لیے ہم اجنبی نہیں''… راشد چنگیز نے کہا… ''ہمارے متعلق وہ شکوک رفع کرچکا ہے۔ اب ڈرنے کی ضرورت نہیں''۔
''ڈرنے کی نہیں محتاط ہونے کی ضرورت ہے''… وکٹر نے کہا… ''تم نے آج وہ ہدایات سن لی ہیں جو ہرمن کو ملی ہیں۔ وہ اب ہرکسی کو شک کی نگاہوں سے دیکھیں گے… اور اب تم یوں کرو، مسجد میں چلے جائو۔ سب سو گئے ہیں۔ امام کو بتا آئو کہ آج صلیبیوں نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اگر قاہرہ کو کوئی جانے والا ہو تو اس فیصلے کی اطلاع علی بن سفیان کو دے دے اور اگر ادھر سے کوئی آئے تو ہم سے ملے بغیر واپس نہ جائے''۔
شہر کی ایک مسجد کا امام سلطان ایوبی کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ یہ مسجد جاسوسی کا خفیہ اڈا بنی ہوئی تھی۔ مسلمان جاسوس مسجد میں جاکر امام کو خبریں پہنچاتے اور اس سے ہدایات لیتے تھے۔ وکٹر کبھی مسجد میں نہیں گیا تھا، وہ کہا کرتا تھا کہ اسے نماز نہیں آتی اور مسجد کے آداب سے بھی واقف نہیں۔ اس لیے اسے ڈر تھا کہ مسجد میں کوئی ایسامسلمان اسے پکڑوا دے گا جو صلیبیوں کا جاسوس ہوگا۔ یہ غلط بھی نہیں تھا۔ صلیبیوں کے مخبروں میں مسلمان بھی تھے جو مسجدوں میں جانے والے نمازیوں پر بھی نظر رکھتے اور ان کی باتیں غور سے سنتے تھے۔ وہ اکثر مسلمانوں کو گرفتار کراتے رہتے تھے۔ راشد چنگیز نے چونکہ اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کررکھا تھا، اس لیے وہ دن کے دوران مسجد میں نہیں جاتا تھا۔ صلیبی کمانڈروں وغیرہ کی شبینہ دعوتوں سے فارغ ہوکر اگر ضرورت پڑے تو آدھی رات کے بعد امام کے گھر جاتا تھا جو مسجد کے بالکل ساتھ ملا ہوا تھا۔ اس کا ایک دروازہ مسجد کے صحن میں کھلتا تھا۔
٭ ٭ ٭
راشد چنگیز نے کپڑے بدلے۔ چغہ اور عمامہ پہنا۔ مصنوعی داڑھی چہرے پر باندھی اور کمرے سے نکل کر اندھیرے میں غائب ہوگیا۔ حکم کے مطابق اسے داڑھی استرے سے صاف کرانی پڑتی تھی۔ اپنے مشن پر جانے کے لیے اس نے ایسی مصنوعی داڑھی بنا رکھی تھی جو فوراً لگائی اور اتاری جاسکتی تھی۔ ان دنوں وہاں رات کو بھی رونق رہتی تھی۔ ریمانڈ کی فوج کے علاوہ رینالٹ بھی اپنے بہت سے افسروں (نائٹوں) کے ساتھ وہاں گیا ہوا تھا۔ اس کے چند ایک دستے بھی تھے۔ یہ فوجی افسر اور دیگر صلیبی کمان دار، راتیں عیش وعشرت میں گزارتے تھے۔ پیشہ ور عورتوں کی چہل پہل لگی رہتی تھی۔ اعلیٰ حکام کی بیویاں اور داشتہ عورتیں بھی ان کے ساتھ تھیں۔ وہاں یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ کون سی عورت کسی کی بیوی ہے۔ عورتوں کی عارضی اور مستقل خریدوفروخت بھی ہوتی تھی۔
راشد چنگیز اپنے کمرے سے نکلا تو اسے چھپ کر جانے میں بہت دشواری ہوئی۔ کمروں اور خیموں کے اندر تو طوفان بدتمیزی بپا تھا ہی، باہر بھی کہیں کہیں اسے کوئی بدمست جوڑا نظر آجاتا تھا جس سے بچ کر اسے راستہ بدلنا پڑتا۔ آخر وہ خطرے کے علاقے سے نکل گیا اور شہرکی گلیوں میں داخل ہوگیا۔ پھر وہ مسجد کے دروازے تک پہنچ گیا۔ وہ جب ادھر ادھر دیکھ کر مسجد میں داخل ہونے لگاتو اس نے دبے دبے قدموں کی آہٹ سنی جو گلی میں اٹھی اور موڑ پر خاموش ہوگئی۔ راشد چنگیز نے اس پر غورکیا لیکن یہ سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دی کہ کتا ہوگا اور یہ آہٹ وہم بھی ہوسکتی تھی۔ وہ مسجد کے صحن میں گیا اور امام کے دروازے پر مخصوص دستک دی۔ دروازہ کھلا۔ راشد چنگیزا ندر چلا گیا اور امام کو ساری رپورٹ دے دی۔
''صلیبیوں کی زیادہ تر فوج یہاں جمع ہوگی''… چنگیز نے کہا… ''یہ رینالٹ کی فوج ہوگی۔ یہاں کی فوج تو پہلے ہی یہاں موجود ہے۔ قاہرہ تک اس فوج کے کوچ اور عزائم کی اطلاع تو پہنچ ہی جائے گی، اگر ہم کوشش کریں تو اس فوج کو کوچ سے پہلے کچھ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں اور اس کے کوچ کو التوا میں ڈال سکتے ہیں''۔
''تمہارا مطلب یہ ہے کہ چھاپہ ماروں سے کہا جائے کہ وہ فوج کی رسد کو نذرآتش کردیں''… امام نے کہا… ''میں یہ کام کراسکتا ہوں لیکن کرائوں گا نہیں۔ تم نے ایسے کئی واقعات سنے ہوں گے کہ جس مقبوضہ شہر میں ہمارے چھاپہ ماروں نے صلیبی فوج کو نقصان پہنچایا وہاں کے مسلمان باشندوں کے لیے زندگی دوزخ سے بدتر بنا دی گئی۔ گھر گھر تلاشی ہوئی۔ ہماری مستورات کی بے عزتی ہوئی۔ ہماری جوان بیٹیوں کو صلیبی پکڑ کر قید اور قتل کا ظالمانہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اپنے ایک قاصد کے ذریعے سلطان ایوبی تک یہ مسئلہ پہنچایا تھا۔ سلطان محترم نے میری توقع کے بالکل مطابق جواب بھیجا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ مسلمان باشندوں کی عزت، جان اور مال کی خاطر کسی شہر میں خفیہ تباہ کاری نہ کی جائے۔ دشمن کی رسد کو اس کی فوج کے ساتھ آنے دیا جائے۔ اسے میرے چھاپہ مار میدان جنگ میں نہیں آنے دیں گے''۔
 ''میں آپ کو مکمل اطلاع دو چار دنوں میں دے سکوں گا''… چنگیز نے کہا… ''اب آپ اور زیادہ محتاط ہوجائیں۔ یہاں کے سراغ رساں غیرمعمولی طور پر سرگرم ہوگئے ہیں۔ وہ اب یہاں کے جانوروں اور پرندوں کو بھی شکی نگاہوں سے دیکھیں گے''۔
یہ طے کرکے کہ ایک آدمی کو صبح قاہرہ روانہ کردیں گے، چنگیز مسجد سے نکلا۔ وہ چوری چھپے نہیں چل رہا تھا تاکہ کوئی شک نہ کرے۔ وہ گلی کا موڑ مڑا تو اسے پھر کسی کے قدموں کی دبی دبی آہٹ سنائی دی۔ اس نے گھوم کر دیکھا۔ گلی تاریک تھی۔ اسے کچھ بھی نظر نہ آیا۔ اب کے یہ وہم نہیں تھا۔ وہ آگے چل پڑا۔ اپنے ٹھکانے کے قریب جاکر اس نے مصنوعی داڑھی اتار کر کپڑوں میں چھپا لی۔ اس کے کپڑے ایسے تھے جو کوئی شک پیدا نہیں کرتے تھے کیونکہ ایسے کپڑے عیسائی بھی پہنتے تھے۔
اب وکٹر اور چنگیز کی کوشش یہ تھی کہ یہ معلوم کریں کہ صلیبی فوج کہاں کہاں حملہ کرے گی اور اس کے کوچ کا پروگرام کیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ فوج جمع کرنے کے انتظامات شروع ہوگئے تھے۔ قاصدوں کی بھاگ دوڑ بھی شروع ہوگئی تھی۔ یہ دونوں جاسوس اس سرگرمی سے بظاہر لاتعلق ہوکر اس کی ہر ایک تفصیل معلوم کرنے میں مصروف تھے۔ ریمانڈ کی حیثیت میزبان کی تھی کیونکہ یہ اس کا دارالحکومت تھا۔ اس نے ایک رات تمام صلیبی حکمرانوں، اعلیٰ کمانڈروں اور دیگر اعلیٰ حکام کی ضیافت کا اہتمام کیا۔ یہ رات وکٹر اور چنگیز کے لیے غیرمعمولی مصروفیت کی رات تھی۔ چونکہ مہمانوں میں بادشاہ بھی تھے۔ اس لیے انہیں شراب وغیرہ پیش کرنے میں زیادہ مستعد رہناتھا۔ انہیں معلوم تھاکہ مستعدی کی ضرورت اس وقت ہوتی ہے، جب مہمان ہوش میں رہتے ہیں۔ شراب میں بدمست ہوکر جب وہ بداخلاقی کے مظاہرے کرنے لگتے ہیں تو ملازموں کا کام آسان ہوجاتا ہے۔
اس ضیافت میں جتنے مرد تھے، اتنی ہی عورتیں تھیں۔ ان میں نوجوان لڑکیاں بھی تھیں، جوان عورتیں بھی اور وہ بھی بڑھاپے کو جوانی کا دھوکہ دے رہی تھیں۔ وکٹر اور چنگیز کھانا اور شراب وغیرہ لانے والے ملازموں کی نگرانی کرتے اور بھاگتے دوڑتے رہے۔ ایک جوان یورپی عورت نے چنگیز سے دو تین بار شراب مانگی۔ چنگیز نے ہر بار کسی ملازم یاملازمہ کو بلا کر کہا کہ اسے شراب دے۔ اس وقت مہمان ریمانڈ کے محل کے ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ یہ عورت بہت خوبصورت تھی۔ اس نے دیکھا کہ چنگیزہر ملازم سے کہہ کر شراب منگواتا تو اس نے مسکرا کر کہا… ''میں تمہارے ہاتھ سے تھوڑی سی پینا چاہتی ہوں، تم نوکروں کو حکم دے کر ادھر ادھر ہوجاتے ہو''۔
''میں لادیتا ہوں''… چنگیز نے نوکروں کے سے لہجے میں کہا۔
''یہاں نہیں''… عورت نے کہا… ''میں باہر باغ میں جارہی ہوں، وہاں لانا''۔
چنگیز شراب کی ایک خوش نما صراحی لے کے اس جگہ چلا گیا جہاں وہ عورت جا بیٹھی تھی۔ یہ محل کا باغ تھا، وہاں بھی مہمان بکھرے ہوئے تھے۔ ہر ایک کے ساتھ ایک عورت اور ہاتھ میں شراب کا پیالہ تھا۔ صرف یہ عورت اکیلی تھی اور چنگیز ذرا حیران بھی ہوا کہ ایسی جوان اور خوبصورت عورت اکیلی کیوں ہے۔ اس پر تو مہمانوں کو مکھیوں کی طرح بھنبھنانا چاہیے تھا۔ وہ اس کے پیالے میں شراب ڈالنے لگا تو عورت نے پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے۔ اس نے یورپ کے کسی گائوں کا نام لیا اور بتایا کہ وہ لڑکپن سے شاہ ریمانڈ کے شاہی سٹاف میں ہے۔
''تم تھوڑی سی دیر میرے پاس رک سکو گے؟''… عورت نے پوچھا اور پیالہ اس کی طرف بڑھا کر کہا… ''لو میرے پیالے میں تم پیو پھر میں پئوں گی''… اس کی آواز میں التجا اور تشنگی تھی۔
''آپ دیکھ رہی ہیں کہ میں نوکر ہوں''… چنگیز نے کہا… ''آپ شاہی خاندان کی خاتون ہیں۔ میں اس وقت نوکری کے فرائض ادا کررہا ہوں''۔
''اس وقت مجھے اپنا نوکر سمجھو''… عورت نے اس کی کلائی پکڑ لی اور پیاسی مسکراہٹ سے کہا… ''تم شہزادے ہو۔ یہ تو دل بتایا کرتا ہے کہ کون کیا ہے''۔
''آپ اکیلی کیوں ہیں؟''… چنگیز نے پوچھا۔
''کیونکہ میرے جذبات مجھے اجازت نہیں دیتے کہ جس سے مجھے نفرت ہو، اس کے ساتھ ہنسوں کھیلوں''… اس نے جواب دیا… ''جو مجھے اچھا لگتا ہے، اسے اپنے پاس بلالیا ہے۔ تم نے میرے ہاتھ سے پیالہ لیا نہیں''۔
''کسی نے دیکھ لیا تو مجھے سولی پر کھڑا کردیا جائے گا''… چنگیز نے کہا۔
''اگر تم نے میرے پیالے سے ایک گھونٹ نہ پیا تو میں تمہیں سولی پر کھڑا کردوں گی''… عورت نے کہا… ''وہ مسکرارہی تھی''۔ اس نے اور آگے ہوکر دھیمی آواز میں کہا… ''پاگل تم مجھے اتنے اچھے لگتے ہو کہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تمہیں ادھر بلایا ہے۔ مجھے ٹالنے کی نہ سوچنا''۔
''میں شراب نہیں پئوں گا''…چنگیز نے کہا۔
''نہ پئو''۔ عورت نے کہا… ''مگر میں جب بھی اور جہاں بھی تمہیں بلائوں تمہیں آنا پڑے گا''۔
: راشد چنگیز فہم وفراست کا مالک اور تجربہ کار انسان تھا، وہ اس پر ذرہ بھر حیران نہ ہوا کہ ایک اونچے طبقے کی حسین وجمیل عورت اس کی دوستی کی خواہش کا اظہار کررہی ہے۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ یہ کسی بوڑھے جرنیل کی جوان بیوی ہوگی یایہ کسی ایسے خاوند کی بیوی ہوگی جو اس وقت کسی اور کی بیوی کے ساتھ مگن ہوگا۔ ایک وجہ تو صاف تھی۔ چنگیز خوبرو آدمی تھا، جس کی قدبت میں بڑی کشش تھی۔ یہ پہلا موقعہ نہیں تھا کہ کسی عورت نے اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی ہو۔ صلیبی حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں کو دعوتوں میں شراب پیش کرنے والی لڑکیاں خاص طور پر حسین اور دلکش تھیں۔ ان میں سے دو چنگیز کے ساتھ تعلقات پیدا کرنے کی کوشش کرچکی تھیں لیکن چنگیز نے اپنے کردار کو ان سے بچائے رکھا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے جو فرض دے کر بھیجا تھا، اس کا تقاضا تھا کہ وہ اپنے کردار کے قلعے کو مسمار نہ ہونے دے۔
علی بن سفیان نے اسے ٹریننگ کے دوران ذہن نشین کرایا تھا کہ ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوجائے تو فرائض ذہن سے نکلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کے ذہن میں عورت کو ایک ایسے زہر کی مانند بٹھایا گیا تھا جو ایمان کھا جاتا ہے۔ ریمانڈ آف تریپولی کے محل میں اس کی حیثیت ایسی تھی کہ وہ جس ملازم یا ملازمہ کو چاہے، نوکری سے نکلوا سکتا تھا۔ اس کی اپنی حیثیت کا اثر تو جادو کا ساتھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ صلیبیوں کا کوئی کردار نہیں۔ ان کی عورتیں بے حیائی اور بداخلاقی کو قابل فخر سمجھتی ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر چنگیز کے لیے یہ عورت اور اس کی یہ بے تکلفی عجوبہ نہیں تھی۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں