داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 103 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 103

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔103 رات، روح اورروشنی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

دھوکہ نہیں دے رہی''۔ لڑکی نے مہدی الحسن کی مردانگی کو بھڑکانے کے جتن کیے۔ زروجواہرات کے لالچ بھی دئیے مگر اسے راستہ نہ بتایا۔ مہدی الحسن نے پٹی سے اس کا منہ بند کردیا اور خود ہی ایک محفوظ راستہ سوچ لیا۔ یہ راستہ پہاڑیوں کے اوپر تھا۔ اس نے لڑکی کو وہیں بیٹھے رہنے دیا اور اوپر چڑھنے لگا۔ نیچے کسی کی آواز سن کر وہ وہیں دبک گیا۔ کوئی مرد اس لڑکی کو پکار رہا تھا۔ مہدی الحسن آہستہ آہستہ نیچے آگیا اور لڑکی کے قریب ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گیا۔ اس آدمی نے لڑکی کو شاید دیکھ لیا تھا۔

''تم بولتی کیوں نہیں؟''… اس آدمی نے پوچھا اور اوپر آنے لگا۔ لڑکی کا منہ بند تھا۔ وہ آدمی اس کے قریب آبیٹھا اور بولا… ''کیا ہوا ہے تمہیں؟ ادھر نہیں گئی؟''۔

مہدی الحسن اس کے عقب میں تھا۔ فاصلہ دوچار قدم تھا۔ اس نے اٹھ کر اس آدمی کی پیٹھ میں خنجر کا بھرپور وار کیا۔ فوراً بعد دوسراوار کیا۔ جوان آدمی کے دونوں وار دور تک اتر گئے۔ اس آدمی کی آواز بھی نہ نکلی۔ مہدی الحسن نے اسے گھسیٹ کر اس پتھر کے نیچے پھینک دیا جس کے پیچھے وہ چھپا تھا۔ اس نے لڑکی کو کندھے پر ڈالا اور پہاڑی پر چڑھ گیا۔ یہ کوئی اونچی پہاڑی نہیں تھی۔ اوپر سے چوڑی تھی۔ وہ اس پر چلنے لگا۔ اس کے لیے آسان طریقہ تھا کہ رات بھر کہیں چھپا رہتا اور دن کی روشنی میں نکل جاتا لیکن اس کی کوشش یہ تھی کہ بہت جلد قاہرہ پہنچ جائے، تاکہ حکیم کی گرفتاری اور اس علاقے کو محاصرے میں لینے کاانتظام صبح سے پہلے ہوجائے۔

اس نے ادھر ادھر دیکھا جہاں مشعل کی روشنی تھی۔ اب چونکہ وہ خود بلندی پر تھا، اس لیے اسے بالمقابل بلندی پر مشعل صاف نظر آرہی تھی۔ ایک آدمی دونوں ہاتھوں میں آئینے کی طرح چمکتی چادر (دھات کی یا ابرق کی) اٹھائے ادھر ادھر عکس مار رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور آدمی تھا۔ مہدی الحسن کے لیے اوپر اوٹ تھی۔ وہ اس کی مدد سے روشنی سے بچتا آگے ہی آگے بڑھتا گیا حتیٰ کہ مشعل اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی۔

٭ ٭ ٭

اسی پہاڑی خطے میں دور اندر جہاں تک کوئی مسافر اور کوئی گڈریا نہیں پہنچ سکتا تھا، ایک پہاڑی کے دامن میں غار کا تنگ سا دہانہ تھا۔ اس کے پیچھے غار اتنا وسیع تھا جو غار نہیں بلکہ بہت ہی کشادہ کمرہ تھا۔ اس میں بہت سے آدمی بیٹھے تھے۔ دو لڑکیاں بھی تھیں۔

''اب تک اسے واپس آجانا چاہیے تھا''… ایک آدمی نے کہا۔

''آجائے گی'' ایک اور نے کہا… ''یہاں کون سا خطرہ ہے۔ آج وہ اسے لے کے ہی آئے گی''۔

''آدمی کام کا ہے''… ایک نے کہا… ''کمبخت بہت تجربہ کار ہے۔ ہم اسے تیار کرلیں گے''۔

اتنے میں ایک آدمی دوڑتا اندر آیا اور بولا… ''گوپل مرا پڑا ہے اور لڑکی کا کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ کہاں ہے۔ گوپل کو خنجروں سے ہلاک کیا گیا ہے''۔

''وہ (مہدی الحسن) کہاں ہے؟''… کسی نے پوچھا۔

''کہیں نظر نہیں آرہا''… اسے جواب ملا… ''اس کا اونٹ یہیں ہے، وہ خود کہیں نظر نہیں آرہا''۔

سب باہر کو دو مشعلیں اٹھا کر دوڑ پڑے اور سرنگ کے دہانے تک گئے۔ وہاں ان کے ساتھی کی لاش پڑی تھی۔ سرنگ میں جاکر دیکھا۔ لڑکی کا کفن پڑا تھا۔ اس کے لیڈر نے سب سے کہا کہ دو آدمی باہر چلے جائو، اگر باہر سے کوئی خطرہ آئے تو اطلاع دو اگر وہ نظر آئے تو اسے پکڑ لو۔ مقابلہ کرے تو مارڈالو اور باقی آدمی پھیل جائو۔ وہ یہیں کہیں ہوگا۔ اگر وہ صبح تک نہ ملے تو یہاں سے نکلو۔

اس وقت مہدی الحسن لڑکی کو کندھے پر اٹھائے ایک مشکل میں پھنسا ہوا تھا۔ وہ سرنگ والی پہاڑی سے دور نکل گیا تھا۔ آگے پہاڑی دیوار کی طرح ہوگئی تھی۔ نہ دائیں ڈھلان تھی نہ بائیں اور یہ بلند تھی۔ یہ بالکل دیوار تھی جس پر بیک وقت دونوں پائوں نہیں رکھے جاسکتے تھے۔ وہ اس پر اس طرح بیٹھ گیا جس طرح گھوڑے پر بیٹھتے ہیں، وہ آگے کو سرکنے لگا۔ لڑکی کو کندھے پر سنبھالنا اور توازن قائم رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ لڑکی نے اس کے توازن کو بگاڑنے کے لیے تڑپنا شروع کردیا۔ مہدی الحسن کو معلوم تھا کہ یہاں سے گرا تو ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی۔ اس سے اس نے اندازہ لگایا کہ یہاں جو بھید ہے وہ اتنا قیمتی اور نازک ہے کہ یہ لڑکی اسے چھپائے رکھنے کی خاطر مہدی الحسن کو اپنے ساتھ گرا کر خود بھی مرنے کی کوشش کررہی ہے۔

: یہ دیوار ختم ہونے میں نہیں آرہی تھی اور لڑکی اس سے سنبھل نہیں رہی تھی۔ ادھر لڑکی کے گروہ کے آدمی تلاش اور تعاقب میں پھیل گئے تھے۔ ان کے لیے یہ زندگی اور موت کا سوال تھا۔ تخریب کاری کے اڈے کا پکڑے جانا ان کی شکست تھی اور ان میں سے جنہیں پکڑے جانا تھا، ان کے لیے بڑی ہی اذیت ناک موت تھی۔ مہدی الحسن نے لڑکی کے گرد بازو اس قدر زور سے لپیٹ لیا کہ اس کی پسلیاں ٹوٹنے لگیں۔ وہ تو اپنی روح کی بھی طاقت استعمال کررہا تھا۔ آخر یہی طاقت اسے دیوار سے گزار لے گئی۔ آگے وہ چوٹی آئی وہ خاصی چوڑی تھی۔ مہدی الحسن نے لڑکی کو زمین پر پٹخ دیا اور غضب ناک آواز میں بولا… ''کیاتم میرا راستہ روک لو گی؟''… اس نے لڑکی کو اپنے غصے کا ذائقہ چکھانے کے لیے دوچار قدم پیٹھ کے بل گھسیٹا اور کہا۔ ''میرے لیے کوئی مشکل پیدا کی تو میں تمہیں اسی طرح گھسیٹ کر ساتھ لے جائوں گا۔ مرتی ہو تو مرجائو''۔

اسے دور نیچے ایک مشعل دکھائی دی۔ وہ بہت تھک گیا تھا اور وہ محسوس کرنے لگاتھا کہ خطرے سے نکل آیا ہے مگر اس جگہ سے نکلنا ابھی ٹیڑھا مسئلہ بنا ہوا تھا۔ اسے بہت جلدی قاہرہ پہنچنا تھا۔ اس نے لڑکی کے پائوں کھول دئیے۔ ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے رہنے دئیے۔ اسے آگے کرلیا اور خنجر کی نوک اس کی پیٹھ کے ساتھ لگا کر کہا… ''چلو، میرے کہے بغیر دائیں بائیں نہ گھومنا''۔ تعاقب میں جو آدمی نکلے تھے، وہ سرنگ میں اور اس کے اردگرد وادیوں میں گھوم پھر رہے تھے۔ دو آدمی اس جگہ جاکھڑے ہوئے جہاں سے مہدی الحسن اندر آتا جاتا تھا۔ مہدی الحسن ڈھلانیں اترتا اور چڑھائیاں چڑھتا ایک ایسی چٹان پر جاپہنچا جہاں آگے کچھ بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کا بھیدی تھا۔ اسے اتنا تجربہ تھا کہ اندھیرے میں بھی اجنبی زمین کے خدوخال بھانپ لیا کرتا تھا۔ اسے یہ سمجھنے میں کچھ دیر لگی کہ نیچے دریا ہے اور یہ دریائے نیل ہے۔ اس نے لڑکی کے ہاتھ بھی کھول دئیے اور منہ سے بھی پٹی اتار دی۔ چٹان کی ڈھلان کھڑی تھی۔ لڑکی سے کہاکہ بیٹھو اور نیچے کو سرکو۔

دونوں سرک کر نیچے گئے، پانی کی آواز صاف سنائی دینے لگی۔ چٹان کی ڈھلان ختم ہوچکی تھی۔ وہ ابھی دریا کی سطح سے بلند تھے۔ اس نے لڑکی سے کہا کہ دریا میں کودو۔ لڑکی بولی… ''میں تیرنا نہیں جانتی''۔

مہدی الحسن نے خنجر نیام میں ڈالا اور لڑکی کو اپنے بازوئوں میں لے لیا جیسے بغل گیر ہوا جاتا ہے۔ اس نے لڑکی کو مضبوط گرفت میں لیے ہوئے دریا میں چھلانگ لگا دی۔ دریا کا رخ قاہرہ کی طرف تھا۔ لڑکی کو اس نے دانستہ چھوڑ دیا۔ اس نے دیکھا کہ لڑکی تیر رہی ہے۔

''مجھے معلوم تھا کہ تم تیر سکتی ہو''… مہدی الحسن نے کہا… ''تمہیں ہر ڈھنک سکھا کر ہمارے ملک میں بھیجا جاتا ہے۔ زیادہ زور نہ لگائو، دریا ادھر ہی جارہاہے، جدھر ہم جارہے ہیں''۔

ان کے ایک طرف چٹانیں اور پہاڑیاں کھڑی تھیں۔ انہیں تلاش کرنے والے اس کوہسار کے دوسری طرف بھاگ دوڑ رہے تھے۔ لڑکی نے تیرتے تیرتے ایک بار پھر کوشش کی کہ مہدی الحسن کو اپنے جواں جسم کا اسیر بنا لے لیکن اس نے کوئی اثر نہ لیا۔بہت دور آگے جاکر جب مہدی الحسن نے دیکھا کہ وہ خطرے کے علاقے سے دور آگیا ہے، منہ میں دو انگلیاں ڈال کر خاص انداز سے سیٹیاں بجائیں۔ وہ تیرتا بھی گیا اور وقفے وقفے سے سیٹیاں بھی بجاتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد اسے دور سے ایسی ہی سیٹی سنائی دی، پھر سیٹیوں کا تبادلہ ہوا، ایک کشتی ان کے قریب آگئی۔

مہدی الحسن کو معلوم تھا کہ جس طرح سرحد پر گشتی سنتری گھومتے پھرتے رہتے ہیں، اسی طرح دیا میں بھی گشتی پہرہ ہوتا ہے۔ خطرے کے وقت ایک دوسرے کو بلانے کے لیے وہ منہ سے اسی طرح سیٹی بجایا کرتے تھے۔ یہ کشتی گشتی سنتریوں کی تھی۔ مہدی الحسن نے اپنا تعارف کرایا۔ سنتریوں نے اسے اور لڑکی کو کشتی میں بٹھا لیا۔

٭ ٭ ٭

: علی بن سفیان گہری نیند سویا ہوا تھا۔ اسے ملازم نے جگایا اور بتایا کہ مہدی الحسن نام کا ایک آدمی ایک لڑکی کو ساتھ لے کے آیا ہے۔ مہدی الحسن کا نام ہی کافی تھا۔ علی بن سفیان اچک کر اٹھا اور باہر کو دوڑا۔ مہدی الحسن اور لڑکی کے کپڑوں سے پانی ٹپک رہا تھا۔ دونوں کو کمرے میں بٹھایا۔ قندیل جل رہی تھی۔ مہدی الحسن نے پہلی بار لڑکی کا چہرہ دیکھا اور سوچا کہ لڑکی نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے روشنی میں دیکھو گے تو سب کچھ بھول جائو گے۔

مہدی الحسن نے حکیم کا نام لے کر کہا… ''اس کے گھر پر فوراً چھاپہ ماریں''۔

''مہدی!''… علی بن سفیان نے حیرت زدہ ہوکر پوچھا… ''کس کی بات کررہے ہو؟''

''کیا ایمان فروشی کوئی نئی خبر ہے؟''… مہدی الحسن نے کہا اور لڑکی سے پوچھا… ''حکیم تمہارا ساتھی ہے نا؟ یہاں جھوٹ بولو گی تو انجام بڑا ہی بھیانک ہوگا''۔

لڑکی نے سرجھکا لیا۔ علی بن سفیان نے اس کے بھیگے ہوئے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا… ''یہاں تمہارے ساتھ وہ سلوک نہیں ہوگا جو تم سوچ رہی ہو۔ تمہارے حسن اور جوانی کے لیے ہم پتھر ہیں اور جب ہم بے بس عورت کی عزت کرنے پر آتے ہیں تو ہم ریشم کی طرح ملائم اور نرم ہیں… حکیم تمہارا ساتھی ہے؟''

لڑکی نے اثبات میں سرہلایا۔

مہدی الحسن نے نہایت مختصر طور پر سنایا کہ وہ کیا دیکھ کر آیا ہے اور حکیم نے اسے بدروح کا کس طرح جھانسہ دیا تھا۔

علی بن سفیان نے ملازم اور اپنے محافظوں کو بلایا اور انہیں مختلف کمان داروں کی طرف پیغامات دے کر دوڑا دیا۔ کوتوال غیاث بلبیس کو بھی بلوا لیا۔ اس نے اس قسم کے ہنگامی حالات کے لیے زیادہ نفری کا ایک دستہ تیار کررکھا تھا جو چند منٹوں میں کارروائی کے لیے تیار ہوجاتا تھا۔ مہدی الحسن کی رپورٹ پر یہ دستہ فوراً تیار ہوگیا۔ علی بن سفیان نے غیاث بلبیس کے سپرد یہ کام کیا کہ حکیم کے گھر چھاپہ مارے اور اسے گرفتار کرکے اس کے مکان اور دوائی خانے کو سربمہر کردے۔ اس نے خود سواروں کو ساتھ لیا۔ ایک گھوڑے پر مہدی الحسن کو دوسرے پر لڑکی کو بٹھایا اور واردات والے علاقے کو روانہ ہوگیا۔

وہ جگہ بہت دور نہیں تھی۔ لڑکی کے گروہ کے آدمی اس وقت تک تلاش سے مایوس ہوچکے تھے۔ انہوں نے تھک ہار کر فیصلہ کیا کہ وہاں سے نکل بھاگیں۔ انہیں خدشہ یہ تھا کہ لڑکی اگر قاہرہ پہنچ گئی تو وہ نشاندہی کردے گی۔ گروہ میں اختلاف پیدا ہوگیا۔ کچھ آدمی کہتے تھے کہ مہدی الحسن کا اونٹ یہیں ہے۔ وہ اگر نکل گیا ہے تو اتنی جلدی قاہرہ نہیں پہنچ سکے گا۔ اسی کشمکش میں انہوں نے وہاں سے بھاگنے میں وقت ضائع کردیا۔ آخر وہ اپنا سامان سمیٹ کر غارنما کمرے سے نکلے مگر انہیں گھوڑوں کے قدموں کے دماکے سنائی دینے لگے۔ باہر نکلنے کا راستہ بند ہوچکا تھا۔

علی بن سفیان کے سواروں نے مشعلیں جلا لیں اور وادیوں میں پھیل گئے۔ لڑکی کو ساتھ رکھا گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس کا گروہ کہاں رہتا ہے۔ وہاں گئے تو غار کے اندر سے چار پانچ آدمی پکڑے گئے۔ اندر مختلف قسم کے سامان کے انبار تھے جن میں آتش گیر مادہ، تیروکمان اور خنجر تھے اور ایک مضبوط بکس میں سونے اور چاندی کے وہ سکے تھے جو مصر میں رائج تھے۔ ان آدمیوں میں صرف ایک صلیبی تھا، باقی قاہرہ کے مسلمان تھے۔ ان کی نشاندہی پر گروہ کے دوسرے افراد کی تلاش شروع ہوئی۔ ساری رات اور اگلا پورا دن تلاش جاری رہی جس کے نتیجے میں باقی افراد بھی پکڑے گئے جن میں وہ ایسی ہی لڑکیاں تھیں جیسی مہدی الحسن نے پکڑی تھی۔

٭ ٭ ٭

 ادھر قاہرہ میں حکیم کے گھر کو گھیرے میں لے کر اس کے دروازے پر دستک دی گئی تو دروازہ ایک ملازم نے کھولا۔ غیاث بلبیس اپنے چند ایک آدمیوں کے ساتھ اندر چلا گیا۔ اس کے آدمی کمروں میں گھس گئے۔ ان کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں۔ حکیم کے سونے کا کمرہ اندر سے بند تھا۔ دروازہ ایک نیم برہنہ لڑکی نے کھولا۔ حکیم پلنگ پر نیم برہنہ پڑاتھا۔ پلنگ کے قریب صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ حکیم نشے کی حالت میں بے ہوش پڑا تھا۔ اس کے مریض اور معتقد تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ حکیم اس حالت تک بھی پہنچ سکتا ہے۔ لڑکی اس کی بیوی نہیں تھی اور وہ مسلمان بھی نہیں تھی۔ یہ صلیبیوں کا بھیجا ہواتحفہ تھا اور اس کے گھر سے جو دلت برآمد ہوئی، وہ یقینا حکمت کی آمدنی نہیں تھی۔

حکیم اس وقت ہوش میں آیا جب وہ قید خانے کے تہہ خانے میں بندھا ہوا تھا۔ غیاث بلبیس کو اطلاع دی گئی کہ حکیم بیدار ہوگیا ہے۔ وہ حکیم کے پاس گیا اور اسے کہا کہ وہ اب کچھ بھی چھپانے کی کوشش نہ کرے۔ ذرا سی پس وپیش کے بعد اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا۔ اس نے دو نائب سالاروں کے نام لے کر بتایا کہ وہ مصر میں سلطان ایوبی کا تخت الٹنا چاہتے تھے۔ یہ گروہ صلیبیوں نے تیار کیا تھا۔ حکیم کو یہ لڑکی تحفے کے طور پر اور بے انداز رقم دے کر اس گروہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کی شرط بھی مان لی گئی تھی کہ نئی حکومت میں اسے وزارت کے درجے کا عہدہ دیا جائے گا۔ حکیم چونکہ بڑے بڑے افسروں میں بھی مقبول تھا اور وہ قابل حکیم بھی تھا، اس لیے اس کی ہر بات برحق مانی جاتی تھی۔ اس مقبولیت اور اثرورسوخ سے یہ فائدہ اٹھاتارہتا کہ سلطان ایوبی کے خلاف نفرت پھیلاتا رہا۔

قاہرہ میں جو تخریب کاری کے واقعات ہوئے تھے، ان میں حکیم ذمہ داری سے ملوث تھا۔ اس نے اپنی حیثیت اور مقبولیت سے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ علی بن سفیان کے بعض جاسوسوں کو پہچان لیا تھا۔ ان میں مہدی الحسن بھی تھا جو اس پہاڑی علاقے میں جانے لگا جس میں تخریب کاروں کا اڈا تھا۔ پہلے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسے قتل کردیا جائے۔ حکیم نے اسے دیکھ لیا۔ اتفاق سے حکیم نے مہدی الحسن کے متعلق بھی معلوم کررکھاتھا کہ قابل اور جرأت مندجاسوس ہے۔ حکیم نے فیصلہ کیا کہ اتنے تجربہ کار آدمی کو قتل کرنے کے بجائے ایسے طریقے سے اپنے جال میں پھانسا جائے کہ وہ اس گروہ کے لیے کام کرے۔ گروہ کے پاس ایسے طریقے موجود تھے۔ وہ چند ایک مصری جاسوسوں کو اپنے ہاتھ میں لے کر استعمال کررہے تھے۔علی بن سفیان کا شعبہ انہیں اپنے دیانت دار جاسوس سمجھتا تھا۔

حکیم نے مہدی الحسن کو پھانسنے کا یہ طریقہ اختیار کیا جو سنایا جاچکا ہے۔ اسے پورا یقین تھا کہ مہدی الحسن اتنی حسین ''بدروح'' کے جھانسے میں آجائے گا۔ آگے حشیشین اور صلیبی ماہرین کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے لیں گے۔ یہ کوئی مشکل کام نہیں تھا اور جو طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ وہ کوئی عجوبہ نہیں تھا۔ یہ ایک عام طریقہ تھا۔ یہ طریقہ اور یہ شعبدہ بازی صرف ان پر کامیاب نہیں ہوتی تھی جن کا ایمان مضبوط ہوتا تھا۔ مہدی الحسن انہی ایمان والوں میں سے نکلا۔

جو دو کمان دار پراسرار طورپر مرگئے تھے، ان کے متعلق حکیم نے بتایا کہ انہیں قتل کیا گیا تھا۔ دونوں کو حکیم نے وہ زہر دیا تھا جس سے ذرہ بھر تلخی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ انسان اپنے اندرکوئی تکلیف یا تبدیلی محسوس نہیں کرتا تھا اور بارہ گھنٹوں بعد اچانک مرجاتا تھا۔ ان دونوں کو قتل کرنیکی ضرورت یہ پیش آئی تھی کہ سلطان ایوبی اور اس کی حکومت کے وفادار تھے۔ دین دار مسلمان تھے۔ انہیں خریدنے کی کوشش کی گئی تھی مگر وہ ایمان بیچنے کے بجائے ایمان خریدنے والوں کے لیے خطرہ بن گئے تھے۔ حکیم پہلے ان میں سے ایک کو اس طرح ملا جیسے اتفاقیہ آمنا سامنا ہوگیا ہو۔ باتوں باتوں میں حکیم نے اسے کسی بیماری کے وہم میں مبتلا کیا اور دوائی خانے میں بلا کر اسے دوائی کے بہانے زہر دے دیا، جو حشیشین کی ایجاد تھا۔ چند دنوں بعد دوسرے کمان دار کے ساتھ بھی حکیم نے ایسی ہی ''اتفاقیہ'' ملاقات کی اور اسے بھی کسی خفیہ بیماری کے وہم میں ڈال کر زہر دے دیا۔

: حکیم نے یہ انکشافات از خود ہی نہیں کردئیے تھے۔ اس کی زبان تہہ خانے کی اذیتوں نے کھلوائی تھی۔ اس نے بتایا کہ فوج میں ایک طرف تو بے اطمینانی پھیلائی جارہی ہے اور دوسری طرف اس میں نشے اور جنسی لذت پرستی کی عادت پیدا کی جارہی ہے۔ فوجی افسروں کو حکومت کے خلاف کیا جارہا ہے اور جو مضبوط جذبے والے ہیں، انہیں پراسرار طریقے سے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا گیاہے۔ سوڈان کی فوج عنقریب مصر کی سرحدوں پر مصر کی سرحدی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کرنے والی ہے۔ اس سلسلے کی نگرانی اور قیادت صلیبی کریں گے۔ سرحدی دیہات کے لوگوں کو سوڈانی اپنے زیراثر لیں گے۔

علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے مصر کے قائم مقام امیر العادل کو ان گرفتاریوں، تفتیش اور انکشافات سے باخبر رکھا لیکن اور کسی کو اس راز میں شریک نہیںکیا گیا۔ حکیم اور اس کے دوسرے ساتھیوں نے جن نائب سالاروں اور دیگر عہدوں کے افرادکے نام بتائے تھے۔ انہیں گرفتار کرنا ضروری تھا لیکن العادل (سلطان ایوبی کا بھائی) گھبرا گیا۔ اس نے اس راز کو راز ہی رکھنے کا حکم دیا اور کہا کہ یہ صورت اتنی نازک ہے کہ اسے سلطان ایوبی خود ہی آکر سنبھالے تو بہتر ہے۔ معاملہ بڑا ہی نازک تھا۔ اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ سلطان ایوبی کے پاس خود جائے اور اسے مصر آنے کو کہے یااس سے ہدایات لے لے۔

العادل کی روانگی خفیہ رکھی گئی۔ تمام مشتبہ نائب سالاروں وغیرہ کے ساتھ ایک ایک جاسوس سائے کی طرح لگا دیا گیا۔

٭ ٭ ٭

''میں کوئی نئی خبر نہیں سن رہا''۔ شام میں حلب کے قریب اپنے ہیڈکوارٹر میں العادل سے ساری بات سن کر سلطان ایوبی نے کہا… ''میں کہہ نہیں سکتا کہ قوم میں ایمان فروشی کا جو مرض پیدا ہوگیاہے، اس کا یہ علاج ہوگا۔ میری نظریں بیت المقدس پر نہیں یورپ پر لگی ہوئی ہیں مگر میرے ایمان فروش بھائی مجھے مصر سے نہیں نکلنے دے رہے… تم یہ محاذ سنبھالو، میں دمشق جاتا ہوں، وہاں سے مصر چلا جائوں گا''۔

سلطان ایوبی نے العادل کو محاذ کی تمام تر صورت حال بتائی، ہدایات دیں اور کہا کہ اپنے جاسوس اتنی دور تک گئے ہوئے ہیں کہ صلیبیوں نے اگر حملہ کیا تو تمہیں کم از کم دو تین روز پہلے اطلاع مل جائے گی۔ چھاپہ مار جیش ہر وقت تیاری کی حالت میں رہتے ہیں۔ میں نے انہیں حملے کے ممکنہ راستوں کے اردگرد چھپا رکھا ہے۔ تازہ اطلاعات یہ ہیںکہ صلیبی حملہ نہیں کریں گے۔ اگر میری غیرحاضری سے وہ فائدہ اٹھانے کی سوچ لیں تو گھبرانا نہیں۔ قلعہ بند ہوکر نہ لڑنا۔ دشمن کو آگے آنے دینا۔ پہلا وار دشمن کو کرنے دینا۔ بے شک پیچھے ہٹ جانا، زمین موزوں ہے۔ بلندیوں پر قبضہ رکھنا۔

''اور خاص طور پر یاد رکھو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''الملک الصالح، سیف الدین اور جن امراء نے ہماری اطاعت قبول کی ہے، صلیبیوں کے حملے کی صورت میں ان پر اعتبار نہ کرنا۔ ان کے ذہنوں سے بادشاہی کی خواہش نکلی نہیں۔ معاہدے کے مطابق وہ کوئی فوج نہیں رکھ سکتے۔ میں نے ان کے اندر تک جاسوس بھیج دئیے ہیں اور میں نے زندگی میں پہلی بار اپنے اصول کے خلاف یہ انتظام کردیا کہ ہمارے یہ مسلمان بھائی ذراسی بھی مخالفانہ حرکت کریں تو انہیں قتل کردیا جائے''۔

قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں ربیع الامول ٥٧٢ ہجری (ستمبر ١١٧٦ئ) کا مہینہ لکھا ہے جب سلطان ایوبی العادل کو محاذ پر چھوڑ کر دمشق گیا۔ اس کا ایک اور بھائی شمس الدولہ طوران شاہ یمن سے واپس آچکا تھا۔ یمن میں شمس الدولہ کو بھیجا تھا جو کامیاب لوٹا تھا۔ سلطان ایوبی نے اسے دمشق کا گورنر مقرر کیا اور اکتوبر ١١٧٦ء میں مصر کو روانہ ہوگیا۔

قاہرہ پہنچتے ہی اس نے تمام مشتبہ افراد کو کسی کے عہدے کا لحاظ کیے بغیر گرفتار کرنے کا حکم دیا۔ ان کی گرفتاری کے اگلے روز اس نے وہ تمام سونا اور خزانہ پریڈ کے میدان میں رکھوایا جو غار سے برآمد ہوا تھا۔ اس وقت تک جتنی صلیبی لڑکیاں پکڑی جا چکی تھی اور اب جو پکڑی گئیں تھیں، انہیں خزانے کے انبار کے قریب کھڑا کیا گیا۔ ان میں حکیم بھی تھا، نائب سالار بھی تھے اور کمان دار بھی۔ سب زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے۔ مصر میں جتنی فوج تھی، اسے ان کے قریب سے گزار کر میدان میں کھڑا کیا گیا۔

سلطان ایوبی گھوڑے پر سوار آیا اور فوج کے سامنے رکا۔

''مجھے بتایا گیا ہے کہ تمہیں حکومت کے خلاف اکسایا جارہا ہے''۔ سلطان ایوبی نے بلند اور گرج دار آواز میں کہا… ''اگر تم میں سے کوئی مجھے یقین دلا دے کہ اسلام کی عظمت اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت کی خاطر تمہیں میرے خلاف اور میری حکومت کے خلاف بھڑکا رہا ہے اور وہ قبلہ اول کو کفار سے آزاد کرانے کا عزم رکھتا ہے اور وہ سپین پر حملہ کرکے اس ملک کو ایک بار پھر سلطنت اسلامیہ کا عزم کیے ہوئے ہے تو وہ سامنے آئے، میری تلوار لے لے اور میرے گھوڑے پر سوار ہوجائے۔ میں اس کے حق میں سلطانی سے دستبردار ہوتا ہوں''۔

 ہر طرف سناٹا طاری ہوگیا۔

سلطان ایوبی پیچھے کو مڑا اور ملزموں سے کہا… ''میری جگہ لینے والا تم میں ہے۔ وہ کون ہے؟ آگے آئے۔ رب کعبہ کی قسم! میں سچے دل سے اپنی حکومت اس کے حوالے کردوں گا اور خود اس کے حکم کا پابند رہوں گا''۔

خاموشی۔ گہرا سکوت۔

''اللہ کے شیرو!'' سلطان ایوبی فوج سے مخاطب ہوا۔ ''تمہیں بغاوت پر نہ اسلام کی عظمت کے لیے اکسایا جارہا، نہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام مقدس کی خاطر۔ تمہیں جو خزانہ دکھایا گیا ہے اور جو لڑکیاں تمہارے سامنے کھڑی ہیں، یہ وہ انعام ہیں جو ان لوگوں کو دیا گیا ہے۔ یہ ان کے ایمان کی قیمت ہے۔ میں ان سب سے کہتاہوں کہ آگے آئیں اور کہیں کہ میں نے جو کہا ہے، یہ جھوٹ ہے''۔

کوئی آگے نہ آیا۔ سلطان ایوبی گھوڑے سے اترا اور ملزموں سے حکیم کو بازو سے پکڑا۔ اسے اپنے گھوڑے کے قریب لے جاکر کہا… ''میرے گھوڑے پر سوار ہوجائو اور کہو کہ ایوبی جھوٹ بول رہاہے''۔

حکیم گھوڑے پر سوار ہوگیامگر اس نے سر جھکا لیا۔

''کہو سلطان جھوٹ بول رہا ہے''۔ سلطان ایوبی نے غضب ناک آواز میں کہا۔

حکیم نے سراٹھایا اور بلند آواز سے کہا… ''سلطان ایوبی نے جو کہا ہے سچ کہا ہے''۔ اور وہ گھوڑے سے کود آیا۔

وقائع نگار لکھتے ہیں کہ سلطان ایوبی کو پہلی بار غصے میں دیکھا گیا۔ حکیم گھوڑے سے اتر کر سرجھکائے کھڑا تھا۔ سلطان ایوبی نے تلوار نکالی اور ایک ہی وار میں حکیم کا سرتن سے جدا کردیا۔ وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور بڑی ہی بلند آواز سے چلایا… ''اللہ کے سپاہیو! عظمت اسلام کے پاسبانو! اگر میں نے بے انصافی کی ہے تو یہ لو، میری تلوار سے میری گردن اڑا دو''… اس نے اپنی تلوار برچھی کی طرح فوج کی طرف پھینکی۔ تلوار کی نوک زمین میں گڑ گئی اور تلوار جھولنے لگی۔

اسی روز سلطان ایوبی نے سوڈان کو اپنا ایلچی اس تحریری پیغام کے ساتھ روانہ کردیا کہ اگر سوڈان کی فوج نے مصر کی سرحد پر ذرا سی بھی بدامنی پیدا کی تو اسے مصر پر حملہ تصور کیا جائے گا اور اس کے جواب میں ہم سوڈان پر حملہ کرنے میں حق بجانب اور آزاد ہوں گے اور ہم سوڈان پر اسلامی پرچم لہرا کر دم لیں گے۔


جاری ھے 


، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں