داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 102 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 102

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔102 رات، روح اورروشنی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

رات سونے سے پہلے کھالے۔ اس نے سونے سے پہلے یہ دوائی کھالی۔ اسے فوراً نیند آگئی۔ اس سے پہلے اس کی اتنی جلدی آنکھ کبھی نہیں لگی تھی۔ صبح آنکھ کھلی تو اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت غیرمعمولی طورپرہشاش بشاش ہے۔وہ سب سے پہلے علی بن سفیان کے پاس گیا۔ اسے یہ نہ بتایا کہ اس نے اس پہاڑی علاقے میں حکیم کو جڑی بوٹیاں تلاش کرتے دیکھا تھا۔ یہ بتانے والی بات نہیں تھی کیونکہ حکیم کوئی مشکوک انسان نہیں تھا۔ اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ تعویذ بھی دیتا اور جنات وغیرہ کو بھی قبضے میں رکھتا ہے۔ علی بن سفیان نے مہدی الحسن سے کہا کہ وہ اسی جگہ جائے، اسے وہاں کوئی نہ کوئی مشکوک انسان ضرور نظر آئے گا۔ علی بن سفیان دراصل تخریب کاروں کے ایک اڈے کی تلاش میں تھا۔

مہدی الحسن اس طرف جاتے حکیم کے پاس چلا گیا۔ وہ گڈریوں کے لباس میں تھا۔ اس نے حکیم سے کہا کہ وہ صبح سویرے اتنی دور سے یہ بتانے آیا ہے کہ رات اسے بہت گہری نیند آئی ہے اور اب وہ اتنا ہشاش بشاش ہے، جتنا وہ پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔

''اگر شام تک تم اسی حالت میں رہے تو بدروح نہیں ہوسکتی''… حکیم نے کہا… ''شام کو پھر آجانا''۔

مہدی اونٹ پر سوار ہوا اور اپنی ڈیوٹی پر روانہ ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

اس سرسبز جگہ وہ بہت دنوں سے جارہا تھا اور سارا سارا دن وہاں رہتا تھا۔ رات کو بھی وہاں گیا تھا مگر اب حکیم سے ملاقات کے بعد اسے اس جگہ سے ڈر محسوس ہونے لگا۔ حکیم نے اسے بتایا تھا کہ بدروح نقصان نہیں پہنچائے گی کیونکہ وہ محبت کی خاطر اس کی روح کے پاس آتی ہے پھر بھی ان دیکھی پراسرار مخلوق کا ڈر قدرتی تھا۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے اس کے گرد بدروحیں منڈلا رہی ہوں۔ وہ دلیر آدمی تھا۔ ڈرکو دل سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا اور اس بدروح کو تصور میں لانے لگا جس کا ذکر حکیم نے کیا تھا۔ اس تصور نے اسے تسکین دی اور وہ ادھر ادھر گھومنے لگا۔

اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت جو اتنی زیادہ ہشاش بشاش تھی، بجھ رہی ہے اور دل پر گھبراہٹ طاری ہورہی ہے۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی بہت کوشش کی لیکن گھبراہٹ بڑھتی گئی اور اس نے حکیم کو اپنی جو تکلیف بتائی تھی وہ پہلے کی نسبت زیادہ ہوگئی۔ اس نے اسی وقت حکیم کے پاس جانا چاہا لیکن ڈیوٹی نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ برداشت کرتارہا۔ بہت دیر بعد اس کی طبیعت گھبراہٹ سے آزاد ہونے لگی اور آہستہ آہستہ اس حالت میں آگئی جس میں کل دوائی کھانے سے پہلے تھی۔ اسے یقین ہوگیا کہ یہ بدروح کا اثر ہے۔

دن گزر گیا۔ اس نے اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کو اکٹھا کیا اور انہیں وہاں لے گیا جہاں روزانہ لے جاتا تھا۔ اونٹ پر سوار ہوکر وہ شہر میں حکیم کے پاس چلا گیا۔ اسے اپنی طبیعت کی یہ تبدیلی بتائی۔ حکیم نے بدروح کے شک کا اظہار کیا لیکن ایک روز اور دوائی کھانے کو کہا۔ اس نے دوائی دے دی جو مہدی الحسن نے رات سونے سے پہلے کھالی۔ گزشتہ رات کی طرح اسے نیند آئی اور صبح طبیعت شگفتہ تھی۔ وہ روزمرہ کی طرح علی بن سفیان کے پاس گیا اور وہاں سے اپنی ڈیوٹی کی جگہ پر چلاگیا۔

اس کی جسمانی حالت اچھی رہی، ذہنی حالت یہ تھی کہ بدروح کا خیال غالب تھا۔آدھا دن گزرا تو اس کی شگفتگی کم ہونے لگی جو آہستہ آہستہ ختم ہوگئی اور اس کی جگہ گھبراہٹ اور اداسی آگئی۔ اس نے دھیان ادھر ادھر کرنے کی کوشش کی اور ٹہلنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ طبیعت ٹھکانے آگئی۔ اس کے کانوں میں ایسی آواز پڑی جیسے دور کہیں کوئی عورت رو رہی ہو۔ رونے کی آواز بلند ہوئی پھر مدھم ہوتے ہوتے خاموش ہوگئی۔ مہدی الحسن جہاں تھا، وہیں رہا۔یہ کوئی بدروح رو رہی تھی اور یہ وہی بدروح ہوسکتی تھی جس کا ذکر حکیم نے کیا تھا۔ مہدی الحسن کے دل پر خوف طاری ہوا جس پر اس نے قابو پالیا۔ اس نے یہ ارادہ کیا کہ بدروح سے بات کرے لیکن حکیم نے اسے بتایا نہیں تھا کہ بدروح کے ساتھ بات کرنی چاہیے یا نہیں، اگر وہ کسی اور جگہ اور مختلف ماحول میں کسی عورت کے رونے کی آواز سنتا تو دوڑ کر مدد کو پہنچتالیکن یہاں کسی جیتی جاگتی عورت کا کوئی کام نہیں تھا۔ یہ فرعونوں کے دور کی کسی لڑکی کی بدروح تھی۔

شام کو وہ کل کی طرح حکیم کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ اس کی حالت کیا ہوئی اور اس نے کیسی آوازیں سنی ہیں۔ حکیم گہری سوچوں میں کھو گیا اور بولا… ''میرا شک یقین میں بدل گیا ہے۔ یہ بدروح ہے، گھبرائو نہیں۔ میں ابھی ایک تعویذ دو ںگا پھر بدروح سے پوچھوں گا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ اس کے مطابق کچھ اور کروں گا لیکن تمہیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ یہ بدروح تمہارے ساتھ محبت کرتی ہے، اس لیے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی۔ تم اس جگہ جاتے رہنا۔ اگر تم نے اس بدروح سے بھاگنے کی کوشش کی تو نقصان کا خطرہ ہے''۔


 حکیم نے اسے ایک تعویذ دے دیا جو اس نے اپنے بازو کے ساتھ باندھ لیا۔

''میں رات کو اپنا عمل کروں گا''۔ حکیم نے کہا… ''کل صبح میرے پاس آنا، تمہیں بتائوں گا کہ بدروح کیا ہے۔ تم نے رونے کی جو آوازیں سنی ہیں وہ اسی بدروح کی ہیں۔ یہ بدروح شیطان نہیں، پھر بھی کوشش کروں گا کہ تمہیں اس سے نجات مل جائے''۔

مہدی الحسن دل پر تذبذب اور ہیجان لے کر چلا گیا۔

٭ ٭ ٭

اگلے روز مہدی الحسن کو علی بن سفیان کی طرف سے کچھ اورہدایات ملیں۔ وہ بھاگم بھاگ حکیم کے پاس گیا۔ حکیم جیسے اسی کے انتظار میں بیٹھا تھا۔ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا اور اسے اندر لے گیا۔

''وہ تمہارے ساتھ صرف ایک ملاقات کرنا چاہتی ہے''۔ حکیم نے کہا… ''وہ تمہارے سامنے آئے گی۔ اپنا آپ دکھائے گی۔ تم اسے دیکھ سکو گے۔ ہوسکتا ہے پہلے روز وہ تمہارے سامنے آئے اور غائب ہوجائے۔ وہ دوسری دنیا کی مخلوق ہے۔ شاید اس دنیا کے انسانوں کے قریب آنے سے گریز کرے۔ اگر اس نے ایسا ہی کیاتو تمہیں اگلے روز پھر جانا پڑے گا''۔

''کہاں؟''

''وہیں، جہاں تم ہر روز جاتے ہو''۔ حکیم نے کہا… ''جہاں تم نے مجھے دیکھا تھا، تم وہاں رات کو جائو گے''۔

''آپ بھی ساتھ ہوںگے؟''

''نہیں''۔ حکیم نے کہا… ''اس جہان میں گئی ہوئی روح صرف اسے نظر آتی ہے جسے وہ چاہتی ہے اور اگر کوئی گناہ گار بدروح کسی انسان پر نظر رکھ لے تو اسے فوراً مار ڈالتی ہے۔ یہ بدروح جو تمہیں ملنا چاہتی ہے، کسی کو پریشان کرنے والی نہیں۔ اس کے رونے کو سمجھو۔ وہ مظلوم ہے۔ محبت کی پیاسی ہے، میں نے رات جب اسے حاضر کیا تو وہ زاروقطار روئی اور اس نے میری منت کی کہ اس شخص کو تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس بھیج دو، پھر ہمیشہ کے لیے چلی جائوں گی''۔

اگر یہ باتیں کوئی اور کررہا ہوتا تو مہدی الحسن پر اتنا زیادہ اثر نہ ہوتا جتنا اس نے قبول کیا۔ یہ باتیں اس حکیم کی زبان سے نکل رہی تھیں۔ جس سے مہدی الحسن کے بڑے حاکم بھی متاثر تھے… وہ حکیم بھی تھا اور عالم بھی۔ اس کے بولنے کا اندازہ ایسا تھا جو سننے والے کی روح میں اتر جاتا تھا۔ اس نے مہدی الحسن کو یقین دلایا کہ رات کو اس بدروح کی ملاقات سے اس پر کوئی خوف طاری نہیں ہوگا اور اسے نقصان کے بجائے شاید کچھ فائدہ بھی ملے۔

''ایک احتیاط بھی ضروری ہے''۔ حکیم نے اسے کہا… ''کسی کے ساتھ اس بدروح کے متعلق یا اس کی ملاقات کے متعلق کوئی بات نہ کرنا اگر تم نے یہ راز فاش کردیا تو نقصان کا خطرہ ہے۔ تم اپنی دنیا کے انسانوں کو دھوکہ دے سکتے ہو، عالم غیب میں گئی ہوئی روح کا راز فاش کرو گے تو میں بتا نہیں سکتا کہ تمہارے جسم کے کون سے دو اعضاء ہمیشہ کے لیے بیکار ہوجائیں گے۔ دونوں ٹانگیں سوکھ جائیں گی یا دونوں بازو یا دونوں آنکھیں بینائی سے محروم ہوجائیں گی۔ اب میں تمہیں جو بات بتانے لگا ہوں، یہ بھی ایک راز ہے۔ یہ راز تمہیں اس لیے دے رہا ہوں کہ تم عبرت حاصل کرسکو۔ یہاں کی فوج کے دو اعلیٰ رتبے کے کمان دار رات کے وقت مارے گئے ہیں۔ کسی کو معلوم نہیں کہ وہ کس طرح مرے ہیں۔ مجھے دو تین بدروحوں نے بتایا ہے کہ انہیں بدروحوں نے مارا ہے۔ انہوں نے بدروحوں کے راز فاش کردئیے تھے''۔

''وہ کس طرح؟'' مہدی الحسن گنوار گڈریا اور صحرائی خانہ بدوش بنا ہوا تھا لیکن وہ دراصل جاسوس تھا۔ وہ ان دو کمان داروں کی موت کا سراغ لینا چاہتا تھا۔ اس نے حکیم سے تفصیل پوچھی۔

''میں ایسی راز کی بات کسی کو بتا نہیں سکتا''۔ حکیم نے کہا… ''جتنی اجازت تھی، اتنی بتا دی ہے۔ تم بالکل خاموش رہنا۔ اپنے اس راز کے ساتھ واسطہ رکھو جو میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ یہ بھی نہ سوچنا کہ میں تمہاری ذات میں کسی لالچ اور کسی اجرت کے بغیر اتنی دلچسپی کیوں لے رہا ہوں۔ میں ان روحوں اور بدروحوں کی خواہشات کا پابند ہوں۔ اگر میں انہیں ناراض کردوں تو میرا علم بیکار ہوجائے اور بدروحیں میرا بھی وہی حشر کردیں جو وہ اپنے دشمنوں کا کرتی ہیں۔ اس روح نے جو تمہیں دیکھ کر روتی ہے، مجھے کہاہے کہ میں اس کے ساتھ تمہاری تھوڑی سی دیر کی ملاقات کرادوں تو میرا فرض ہے کہ اس کی خواہش پوری کروں''۔

''اگر میں اس سے نہ ملوں تو کیا ہوگا؟''

''وہ بدروح بن کر تمہاری روح پر اپنا سایہ کرے گی''۔ حکیم نے جواب دیا۔ ''تم نے مجھے اپنی جو تکلیف بتائی تھی، وہ کوئی جسمانی تکلیف نہیں۔ یہ روحانی عارضہ ہے۔ اس نے تم پر ابھی اپنا پورا اثر نہیں ڈالا تھا۔ تم کوئی نیک انسان ہو۔ تمہاری نیکی تمہارے کام آئی ہے۔ تم نے میرے ساتھ اس تکلیف کا ذکر کردیا۔ خدائے ذوالجلال جس پر رحمت فرمانا چاہتے ہیں، اس کے لیے وہ کسی انسان کو سبب بنا دیتے ہیں۔ یہ کرشمہ اللہ کی ذات کا ہے کہ تم نے مجھے وہاں دیکھ لیا اور ہم دونوں ملے۔ اس رحمت سے ڈرو نہیں۔ اگر تم اس بدروح کی ملاقات کی خواہش کردوگے تو وہ اس دنیا میں تمہیں بہت فائدہ دے گی۔ ایک فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ وہ نہایت خوبصورت لڑکی کے روپ میں گوشت پوست کا زندہ جسم بن کر تمہیں جب چاہو گے ملا کرے گی۔ تم اسے بیوی بنا کر گھر رکھ سکتے ہو اور اگر وہ زیادہ مہربان ہوگئی تو مجھے یقین ہے کہ وہ تمہیں کسی فرعون کے مدفون خزانے کا بھید بتا دے اور ایسا ذریعہ پیدا کردے کہ تم یہ خزانہ نکال کر اس بدروح کو ساتھ لے کر مصر سے کہیں دور چلے جائو اور کسی خطے کے بادشاہ بن جائو''۔

''ملاقات کب ہوگی؟''

''آج رات چلے جائو''۔ حکیم نے کہا۔

حکیم نے اسے ایک اور تعویذ دیا اور اسے بہت سی ہدایات دیں۔ خطروں سے بھی آگاہ کیا اور فائدے بھی بتائے اور زور دے کر کہا کہ ڈرنا نہیں۔ وہاں پہنچنے کا وقت بھی بتایا جو رات تاریک ہوجانے کے بعد دیربعد کا تھا۔ مہدی الحسن عجیب وغریب سے تاثرات لے کر وہاں سے اٹھا اور اپنی روزمرہ کی ڈیوٹی پر چلا گیا۔ دن وہاں گزارا اور سورج غروب ہونے سے بہت پہلے واپس چلا گیا۔ 

رات تاریک ہوئی تو وہ پھر وہاں موجود تھا مگر اب ڈیوٹی پر نہیں، بدروح کی ملاقات کے لیے گیا تھا۔ ایسی تاریک تنہائی اور ایسے سنسان ماحول میں اسے خوف زدہ ہونا چاہیے تھا لیکن حکیم کی باتیں اسے حوصلہ دے رہی تھیں۔ اس نے بازو کے ساتھ دو تعویذ باندھ رکھے تھے اور وہ اپنے طور پر کوئی ورد بھی کررہا تھا۔ وہ اس جگہ پہنچ گیا جو اسے حکیم نے بتائی تھی۔ یہ پہاڑیوں کے اندر تھی۔ درخت بھوتوں کی طرح نظر آرہے تھے۔ ماحول اس قدر خاموش تھا کہ مہدی الحسنکو اپنے دل کی دھڑکن بھی سنائی دے رہی تھی۔

اسے رونے کی وہی آواز سنائی دی جو اس نے دن کو سنی تھی۔ وہ اس آواز کی طرف چل پڑا۔ کچھ دیر خاموشی طاری رہی۔ وہ ذرا سا چل کر رک گیا۔ اب کے رونے کی آواز اس کے عقب سے آنے لگی۔ یہ بھی دور تھی۔ وہ اس طرف چل پڑا۔ اس جگہ سے وہ واقف تھا، اس لیے آسانی سے چلا جارہا تھا۔ یہ آواز بھی خاموش ہوگئی۔

مہدی الحسن نے بلند آواز سے کہا… ''مجھے اپنا آپ دکھائو گی یا اسی طرح ڈراتی رہوگی؟''

اسے اپنے یہی الفاظ صاف سنائی دئیے۔ اگر اسے یہ علم نہ ہوتا کہ یہ اس کی اپنی صدائے بازگشت ہے تو وہ ڈر کے مارے بھاگ جاتا۔ یہ صحرائی پہاڑیاں تھیں جو دیواروں کی طرح کھڑی تھیں۔ ان میں زیادہ ترعمودی اور کچھ ڈھلانی تھیں۔ مہدی الحسن کو اپنی آواز تین چار بار سنائی دی۔ اس کی آواز ماحول اور فضا میں گھومتی اور تیرتی محسوس ہوتی تھی۔

اس آواز کی گونج تاریک فضا میں تحلیل ہوگئی تو اسے ایک نسوانی آواز سنائی دی… ''مجھ سے ڈرو نہیں، آگے آئو''… یہ آواز دور سے آئی تھی۔ یہ اسے کئی بار سنائی دی اور آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔

آواز پھر آئی… ''اب بے وفائی نہ کرنا، میں دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں''۔

مہدی الحسن کو یہ الفاظ کئی بار سنائی دئیے، پھر مہدی الحسن کی آواز ابھری اور باربار سنائی دینے کے بعد خاموش ہوگئی۔ اس طرح دونوں طرف سے آوازیں ابھرتی، بھٹکتی اورگونجتی رہیں۔ بدروح کی آواز میں التجا تھی جس سے مہدی الحسن کا خوف دورہوگیا۔ وہ ان پہاڑیوں میں اندرتک چلا گیا۔ اسے سامنے رونی کی چمک دکھائی دی جو آسمانی بجلی کی طرح چمکی اور بجھ گئی۔ اس چمک میں اس نے دیکھ لیا کہ وہ کہاں ہے۔ اسے اس دمک میں اس سرنگ کا دہانہ نظر آیا تھا جس میں گزر کر وہ ایک بار دوسری طرف گیا تھا۔ وہ وہیں رک گیا۔

کچھ دیر بعد روشنی پھر چمکی اور اس میں اسے سرنگ کے دہانے میں کوئی انسان کھڑا نظر آیا۔ روشنی جانے کہاں سے آرہی تھی۔ یہ اتنی لمبی چوڑی تھی کہ دہانے میں کھڑا انسان صاف نظر آتا تھا۔ وہ اس سے کم وبیش پچاس قدم دور تھا۔ اس نے غور سے دیکھا۔ چہرہ بڑی ہی خوبصورت لڑکی کا تھا۔ صرف چہرہ نظر آتا تھا۔ باقی سارا جسم سفید کفن میں لپٹا ہوا تھا۔ مہدی الحسن ڈرنے لگا۔ اسے نسوانی آواز سنائی دی… ''مجھ سے ڈرو نہیں۔ دوہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں''۔

: وہ آگے بڑھا۔ چند قدم چلا ہوگا کہ کفن سے ایک بازو باہر آیا جو مہدی الحسن کی طرف بڑھا۔ ہاتھ کی ہتھیلی اس طرح آگے ہوئی جیسے اشارہ کیا ہو کہ آگے نہ آنا۔ مہدی الحسن وہیں رک گیا۔ روشنی بجھ گئی۔ وہ اس انتظار میں کھڑا رہا کہ روشنی ایک بار پھر چمکے گی اور اسے کفن میں لپٹی ہوئی یہ لڑکی نظر آئے گی مگر اسے آوازسنائی دی۔ ''تم پر اعتبار کون کرے، چلے جائو، چلے جائو''۔

''مجھ پر اعتبار کرو''۔ مہدی الحسن نے کہا اور آگے کو دوڑا۔ وہ پکارتا جارہا تھا۔ ''میں تمہاری خاطر آیا ہوں۔ میرے قریب آئو''۔

وہ سرنگ کے دہانے میں جارکا۔ اسے سرنگ کے اندر سے آواز سنائی دی… ''کل آنا، چلے جائو، تم فانی دنیا کے انسان ہو، تمہارے وعدے بھی فانی ہیں''۔

مہدی الحسن سرنگ کے اندر چلاگیا اور آگے ہی آگے چلتا گیا۔ اسے سرنگ کا دوسرادہانہ دکھائی دیا۔ سرنگ کے اندر کی نسبت باہر تاریکی کم تھی۔ اس لیے سرنگ کا دہانہ نظر آرہا تھا۔ سرمئی سی اس روشنی میں ایک لمبوترا سایہ دکھائی دیا جو فوراً غائب ہوگیا۔ یہ کفن میں لپٹی ہوئی لڑکی جیساتھا۔ مہدی الحسن دوڑ پڑا۔ ٹھوکر کھا کر گرا اور اٹھ کر پھر دوڑا۔ اگلے دہانے میں جاکر اس نے آوازیں دیں مگر اسے اپنی ہی پکار کی صدائے بازگشت کے سوا کوئی جواب نہ ملا۔ رونے کی آواز بھی نہ ابھری۔ بدروح نے بھی اسے نہ پکارا۔ وہ مایوس ہوکر واپس چل پڑا۔ ابھی وہ سرنگ کے وسط ہی میں تھا کہ اسے سرنگ کے سامنے والے دہانے میں روشنی دکھائی دی مگر اس روشنی میں کفن میں لپٹی ہوئی لاش نہیں تھی۔

روشنی بجھ گئی۔ مہدی الحسن سرنگ سے نکل گیا۔ اسے سامنے اور ذرا بائیں کو بلندی پر روشنی کا دھوکہ ہوا مگر وہ کسی اور طرح کی روشنی تھی جیسے کسی نے کھڈ میں چٹان کے پیچھے آگ جلا رکھی ہو۔ مہدی الحسن نے کچھ سوچا اور ادھر کو چل پڑا جدھر سے آیا تھا۔ وہ اس پہاڑی علاقے سے نکل گیا۔ اس کا اونٹ باہر بندھا تھا۔ وہ اونٹ پر سوار ہوا اور قاہرہ کی سمت روانہ ہوگیا۔ اس کی ذہنی کیفیت ایسی تھی جس میں ڈر اور خوف نہیں بلکہ اضطراب اورہیجان تھا۔ وہ ان دو روشنیوں کے متعلق سوچ رہا تھا۔ ایک وہ جس میں اسے کفن میں لپٹی ہوئی لاش نظر آئی تھی اور دوسری وہ جو اسے بلندی پر دکھائی دی تھی۔ بلندی والی روشنی آگ کی تھی۔

وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچ گیا۔ رات بہت گزر گئی تھی پھر بھی اسے نیند نہ آئی۔ بار بار کفن میں لپٹی ہوئی لڑکی کا چہرہ اس کے سامنے آتا تھا اور یہ ارادہ اسے تڑپا دیتا کہ وہ رات وہیں گزارے اور اس لڑکی کو قریب سے دیکھ کر لوٹے۔

٭ ٭ ٭

عادت کے مطابق وہ صبح وقت پر اٹھا۔ مشین کی طرح روزمرہ کے کام کیے۔ علی بن سفیان کے پاس جاکر نئی ہدایات لیں جن میں ایک یہ تھی کہ اس علاقے میں اس کی ڈیوٹی ختم کردی گئی تھی۔ اسے شہر کے باہر کسی اور جگہ جانے کو کہا گیا۔

''مجھے ابھی وہیں جانے دیں جہاں اتنے دنوں سے جارہا ہوں''۔ مہدی الحسن نے کہا… ''مجھے توقع ہے کہ ان پہاڑیوں میں مجھے کچھ مل جائے گا۔ میں دو تین روز بعد آپ کو بتا سکوں گا کہ یہ علاقہ صاف ہے یا نہیں''۔

علی بن سفیان اس کے مشوروں کو نظر انداز نہیں کرتا تھا۔ وہ کوئی عام قسم کا جاسوس نہیں تھا۔ اس شعبے کا عہدے دار تھا اور تجربے کے لحاظ سے وہ قابل اعتماد تھا۔ کچھ دیر کی بحث اور غوروخوض کے بعد علی بن سفیان نے اپنے اسی علاقے میں جانے کی اجازت دے دی۔ مہدی الحسن بدروح سے ملے بغیر اس علاقے کو چھوڑنا نہیں چاہتا تھا۔ یہ شاید پہلا موقع تھا کہ اس نے فرض پر اپنی ذاتی خواہش کو ترجیح دی تھی۔ علی بن سفیان کو ذرا سا بھی شک ہوتا کہ وہ کسی اور چکر میں اپنی ڈیوٹی بدلنے سے گریز کررہا ہے تو اسے کبھی نہ جانے دیتا۔ ایک تجربہ کار جاسوس اور سراغ رساں اپنے آپ کو ایسے خطرے میں ڈال رہا تھا جس میں اس کی جان ضائع ہوسکتی تھی۔

مہدی الحسن حکیم کے پاس گیا اور اسے رات کی واردات سنائی۔ حکیم نے آنکھیں بند کرلیں اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑاتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے آنکھیں کھولیں اور مہدی الحسن کی آنکھوں میں جھانکا۔

''آج رات پھر جائو''۔ حکیم نے اسے کہا… ''اس پاک جہان کی مخلوق اس ناپاک دنیا کے کسی انسان کے قریب آنے سے ڈرتی ہے۔ تم کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا۔ شاید آج بھی ذرا سی دیر نظر آکر وہ غائب ہوجائے، تم بے صبر نہ ہوجانا۔ وہ تمہیں ملنے کو بے تاب ہے، ضرور ملے گی۔ اگر اس ملاقات میں تمہارا فائدہ نہ ہوتا تو میں تمہیں وہاں نہ بھیجتا۔ تمہاری جان کو بھی کوئی خطرہ نہیں''۔

مہدی الحسن چلا گیا۔ اس علاقے میں گھوما پھرا۔ سرنگ کے اندر گیا۔ دوسری طرف گیا۔ سرنگ کے دہانے سے نیچے اترگیا۔ اسے زمین پر کپڑے کی ایک پٹی پڑی نظر آئی۔ اس نے اٹھالی۔ یہ نصف انچ چوڑی اور کوئی نصف گز لمبی ہوگی۔ اسے وہ دیکھتا رہا اور اپنے پاس رکھ لی۔ وہ پھر سرنگ میں داخل ہوا اور باہر آگیا۔ اس نے اس بلندی کی طرف دیکھا جہاں رات اسے آگ کا دھوکہ ہوا تھا۔ ادھر ڈھلان تھی۔ وہ سرنگ سے نکل کر ڈھلان پر چڑھنے لگا۔ اسے ایک مردانہ آواز سنائی دی… ''اوپر نہ جانا، جس کے لیے تم آئے ہو وہ تمہیں رات کو ملے گی''… یہ آواز گونج بن کر بار بار سنائی دینے لگی۔

''ہماری دنیا میں آکر کھوج نہ لگائو''۔ وہی آواز پھر سنائی دی۔

مہدی الحسن رک گیا۔ اسے ایسے محسوس ہونے لگا جیسے یہ آواز اس کے اردگرد گھوم رہی ہے۔ وہ اوپر نہ گیا۔ حیرت زدہ ہوکر ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ اس نے سوچا کہ وہ کوئی حرکت نہ کربیٹھے جس سے یہاں کی کوئی بدروح اسے نقصان

پہنچا دے۔ وہ اس جگہ سے باہر چلا گیا اور ایک جگہ بیٹھ کر سوچنے لگا کہ اس جگہ کی حقیقت کیا ہے۔ دن اسی سوچ میں گزر گیا اور وہ رات کو یہیں واپس آنے کے لیے چلا گیا۔

سورج غروب ہونے کے بعد جب وہ اس پہاڑی خطے میں جانے لگا تو وہی بھیس بدلا جس میں وہ وہاں جایا کرتا تھا۔ دن کے وقت جب وہ ڈیوٹی پر جاتا تھا تو اپنا لمبا خنجر ساتھ لے جاتا تھا۔ حکیم نے اسے بڑی سختی سے کہا تھا کہ وہ رات کو جب بدروح سے ملنے جائے تو اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جائے۔ گزشتہ رات وہ خنجر اپنے ساتھ نہیں لے گیا تھا۔ اب شام کو وہ بدروح کی ملاقات کے لیے جارہا تھا۔ اس نے گڈریوں کا بھیس بدل لیا۔ خنجر دیوار کے ساتھ لٹک رہا تھا۔ اس نے خنجر کو دیکھا اور گہری سوچ میں کھو گیا۔ ہدایت کے مطابق اسے خنجر ساتھ نہیں لے جانا تھا لیکن اس نے گہری سوچ سے بیدار ہوکر خنجر دیوار سے اتار لیا۔ اپنے کپڑوں کے اندر کمر کے ساتھ باندھ لیا اور باہر نکل گیا۔

اس جگہ پہنچ کر اس نے اونٹ کو بٹھا دیا اور اس جگہ چلا گیا جہاں سے سرنگ کا دہانہ نظر آتا تھا۔ اسے اپنے عقب میں کسی کے قدموں کی آواز سنائی دی جو فوراً خاموش ہوگئی۔ اس کے فوراً بعد اوپر سے پتھر لڑھکنے کی آواز آئی جو ایسی بلند تو نہیں تھی لیکن ایسے سکون اور ایسی وادیوں میں جو عمودی پہاڑیوں میں گھری ہوئی تھیں، یہ آواز لڑھکتے پتھر ساکن ہوجانے کے بعد بھی سنائی دیتی رہی، پھر گونج بن کر فضا میں تیرنے لگی، جیسے کوئی سسکیاں اور ہچکیاں لے رہا ہو۔ ذرا اور وقت گزرا تو مہدی الحسن کو رونے کی آوازیں سنائی دیں۔

''میرے سامنے آئو''۔ مہدی الحسن نے بلند آواز سے کہا… ''میری دنیا ناپاک ہے، میں ناپاک نہیں ہوں''۔

''تم مجھے پھر چھوڑ کر چلے جائو گے''۔ یہ نسوانی آواز کہیں قریب سے آئی۔

مہدی الحسن کی آواز اور یہ نسوانی آواز یوں بار بار سنائی دینے لگی جیسے ایک دوسرے کے تعاقب میں دوڑ رہی ہوں۔ روشنی چمکی اور بجھ گئی جس سے مہدی الحسن کو سرنگ کا دہانہ نظر آیا۔ وہ دبے پائوں تیز قدم آگے چلا گیا اور سرنگ کے دہانے سے ذرا نیچے ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ گیا۔ اس نے ادھر اوپر دیکھا جہاںگزشتہ رات اسے آگ کا دھوکہ ہوا تھا۔ وہ دھوکہ آج بھی موجود تھا۔ سرنگ کا دہانہ ذرا بلند تھا۔ وہ پیٹ کے بل سرکتا اوپر چلا گیا اور وہ چند لمحوں بعد دہانے کے اندر تھا۔ وہاں سے اس نے چھپ کر ادھر اوپر دیکھا جدھر اسے آگ کا دھوکہ نظر آیا تھا۔ اب چوکہ وہ خود بھی بلندی پر تھا۔ اس لیے اسے وہاں آگ کی ایسی روشنی دکھائی دی جس کا شعلہ کہیں چھپا ہوا تھا۔

اسے سرنگ کے اندر سے کسی عورت کی آواز سنائی دی

 ''دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں۔ آگے آئو''۔

مہدی الحسن سرنگ کی دیوار کے ساتھ ساتھ اور اندر کو چل پڑا۔ اسے خیال آیا کہ حکیم نے اسے کہا تھا کہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جانا، ورنہ اس لڑکی کی روح سامنے نہیں آئے گی۔ اس کے پاس ڈیڑھ فٹ لمبا خنجر تھا اور بدروح بول رہی تھی۔ وہ اور آگے چلا گیا اور سرنگ کے وسط میں پہنچ گیا۔ سرنگ فراخ تھی۔ اسے کوئی آتا محسوس ہوا۔ وہ دیوار کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔ اس کے قریب سے کوئی گزرنے لگا۔ اتنے گھپ اندھیرے میں بھی اس نے اندازہ لگا لیا کہ یہ وہی لڑکی ہے اور یہ کفن میں لپٹی ہوئی ہے۔ لڑکی رک گئی اور اس نے رونے کی آواز نکالی۔ مہدی الحسن نے یہ آوازپہلے کئی بار سنی تھی۔ اس کا دل بہت زور زور سے دھڑکنے لگا۔

کفن میں لپٹی ہوئی لاش آگے کو سرکی۔ عین اس وقت دہانے پر روشنی چمکی اور بجھ گئی۔ مہدی الحسن اٹھا اور بجلی کی تیزی سے پیچھے سے لاش کو دبوچ لیا۔ لاش کی آواز سنائی دی… ''اوہ بدبخت، تمہیں کس وقت مذاق سوجھا ہے۔ چھوڑو مجھے، شکار انتظار میں کھڑا ہے''۔

مہدی الحسن نے جس شک میں جان کی بازی لگا کر اسے پکڑا تھا، وہ شک صحیح ثابت ہوا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ بدروح ہوئی تو اس کے ہاتھ نہیں آئے گی اور اس کی جان نکال لے گی اور اگر یہ کوئی دھوکہ ہوا تو اسے بڑا موٹا شکار مل جائے گا۔

کفن میں لپٹی ہوئی اس عورت کی آواز سنتے ہی مہدی الحسن سرگوشی میں بولا… ''اونچی آواز نکالی تو خنجر ایک پہلو میں گھونپ کر دوسرے پہلو سے نکال دوں گا''۔

''میں تمہارادل اور کلیجہ منہ کے راستے نکال کر کھا جائوں گی''۔ عورت نے کہا… ''میں روح ہوں''۔

مہدی الحسن نے اسے ایک بازو سے دبوچے رکھا اور دوسرے ہاتھ سے خنجر نکال کر اس کی نوک عورت کے پہلو میں رکھ دی۔ سرنگ کے سامنے والے دہانے پر ایک بار پھر روشنی چمکی۔ مہدی الحسن کا ادھر جانا پڑ خطر تھا۔

''میں اسی لیے تمہیں اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھی کہ تم فریبی اور فانی دنیا کے انسان ہو''۔ عورت نے رندھی ہوئی اور اثرانگیز آواز میں کہا… ''دو ہزار سال سے تمہاری راہ دیکھ رہی ہوں''۔

''تمہارا انتظار ختم ہوگیا ہے''۔ مہدی الحسن نے کہا… ''اب تم روحوں کی پاک دنیا میں واپس نہیں جائو گی۔ تم اب میری ناپاک دنیا کی عورت ہو''۔

''میں عورت نہیں''۔ اس نے کہا… ''میں جوان لڑکی ہوں۔ میں حسین لڑکی ہوں، میں اونچا نہیں بولوں گی۔ میری بات غور سے سن لو۔ میں جانتی ہوں تم کون ہو اور یہاں کیوں آئے ہو۔ تم مجھے اتنے اچھے لگتے ہو کہ میں نے تمہیں حاصل کرنے کا فیصلہ کرلیا اور یہ طریقہ اختیار کیا ہے''۔

''تو چلو میرے ساتھ''۔ مہدی الحسن نے کہا۔

''نہیں''۔ لڑکی نے کہا… ''تم میرے ساتھ چلو۔ میں تمہارے ساتھ گئی تو ہم دونوں بھوکے مریں گے۔ تم میرے ساتھ آئے تو فرعونوں کا خزانہ ہمارا ہوگا۔ پھر تمہیں ویرانوں میں بھٹکتے پھرنے اور تھوڑی سی تنخواہ کے عوض جاسوسی کرتے پھرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی''۔

''تم یہاں کیا کررہی ہو؟''

''خزانہ نکال رہے ہیں''۔ لڑکی نے کہا… ''میں بہت سے آدمیوں کے ساتھ ہوں''۔

''وہ سب کہاں ہیں؟''

''میرے ساتھ چلو، سب تمہارا استقبال کریں گے''۔ لڑکی نے کہا… ''مجھے روشنی میں دیکھو گے تو خزانوں کو اور اپنی دنیا کو بھول جائو گے''۔

مہدی الحسن جو خوشبو اس لڑکی کے جسم سے سونگھ رہا تھا، وہ اس پر خمار طاری کررہی تھی۔ اس نے اس لڑکی کو جب اپنے بازوئوں میں دبوچا تھا تو اس نے محسوس کرلیا تھا کہ یہ جسم ایمان خریدنے کا اثر رکھتا ہے۔ لڑکی کی آواز میں ترنم تھا۔ اس پر نشہ طاری ہوچکا تھا۔ اس لمحے سرنگ کے دہانے کی طرف وہ نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ ادھر کے متعلق اسے یقین تھا کہ ادھر آدمی ہوں گے اور روشنی کا انتظام تو ادھر تھا ہی۔

 ''اٹھو''۔ اس نے لڑکی کو اٹھایا اور کہا… ''کفن اتار دو''۔

لڑکی نے کفن اتار دیا۔ مہدی الحسن نے کفن سے لمبی اور چوڑی پٹیاں پھاڑیں۔ ایک سے لڑکی کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ دئیے۔ دوسری پٹی سے اس کی ٹانگیں ٹخنوں کے قریب سے باندھیں۔ تیسری پٹی اس کے منہ پر باندھ کر اسے کندھے پر ڈال لیا۔ خنجر ہاتھ میں رکھا اور وہ سرنگ کے پچھلے دہانے کی طرف چل پڑا۔ اسے وہاں سے بہت جلدی نکلنا تھا.. گزشتہ رات جب مہدی الحسن یہاں آیا تھا تو وہ بدروح سے ہی ملنے آیا تھا۔ سرنگ کے دہانے پر وہ روشنی کی چمک میں اسے نظر آئی اورئی غائب ہوگئی تھی۔ مہدی نے دہانے پر جاکر ایک تو دہانے کے سامنے بلندی پر روشنی سی دیکھی تھی اور پھر وہ سرنگ کے اندر گیا تو اس نے دوسرے دہانے میں سے ایک سایہ سا باہر جاتے دیکھا تھا۔ دن کے وقت وہ پھر سرنگ میں سے گزر کر دوسری طرف گیا تو اسے کپڑے کی ایک باریک سی پٹی زمین پر پڑی نظر آئی تھی۔ اسے پٹی دیکھتے ہی یاد آگیا کہ میت پر کفن ایسی ہی پٹیوں سے باندھا جاتا ہے۔ وہ چونکہ علی بن سفیان کا تربیت یافتہ جاسوس تھا، اس لیے وہ ذرا ذر اسی چیزوں اور لطیف سے اشاروں کو بہت اہمیت دے رہا تھا۔ وہ جب آج رات بدروح کی ملاقات کے لیے چلا تھا تو اس نے حکیم کے منع کرنے کے باوجود خنجر ساتھ لے لیا تھا۔ یہ آزمائش کا ایک طریقہ تھا۔ خنجر کے باوجود بدروح آگئی۔

اس نے دلیری یہ کی کہ آج دہانے پر روشنی نظر آتے ہی وہ دہانے میں چلا گیا اور وہاں سے اس نے بلندی پر دیکھا۔ وہاں آگ کا چھپا ہوا شعلہ تھا۔ دہانے پر چمک وہیں سے آتی تھی۔ مہدی الحسن کو دو واقعات یاد آگئے۔ صلیبیوں کے ایجنٹوں نے مصر کے ایسے ہی پہاڑی علاقوں میں مصر کے دیہاتیوں کو توہمات میں الجھانے اور انہیں اثر میں لینے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پہاڑی پر بڑے شعلے والی مشعل جلا کر چھپا رکھی تھی۔ اس کے سامنے لکڑی کا ایسا تختہ رکھتے تھے جس پر براق چپکا ہوا تھا۔ دوسرے واقعہ میں چمکیلی دھات کی چادر استعمال کی گئی تھی۔ ابرق یا دھات کی چمک سامنے والی پہاڑی پر پڑتی تھی۔ مشعل اور چادر کے درمیان ایک اور تختہ رکھتے تو چمک بجھ جاتی تھی۔ یہ مشعل اور چمکیلی چادر ایسی جگہ رکھی جاتی جہاں سے یہ لوگوں کو نظر نہیں آتی تھیں۔

ان دونوں وارداتوں میں صلیبی ایجنٹ پکڑے گئے اور ان کا یہ طریقہ بے نقاب ہوگیاتھا، ورنہ سیدھے سادے لوگ اسے غیب کی چمک سمجھتے تھے۔ ان دونوں وارداتوں پر چھاپہ مارنے والوں میںمہدی الحسن بھی تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ سرنگ کے بالکل بالمقابل پہاڑی پر جو آگ کا دھوکہ سا ہوتا ہے، وہ مشعل چھپی ہوئی ہے اور سرنگ کے دہانے پر اسی کی چمک پھینکی جاتی ہے۔

اسے ٹریننگ کے دوران بتایا گیا تھا کہ جو انسان مرجاتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے تعلق توڑ جاتا ہے۔ خدا اس کی روح کو یوں بھٹکنے کے لیے نہیں چھوڑ دیتا کہ وہ انسانوں کے پیچھے دوڑتی پھرے۔ جو مرجاتے ہیں وہ نہ جسمانی طور پر واپس آتے ہیں، نہ روح یا بدروح کی شکل میں۔ مہدی الحسن کو ٹریننگ میں یہ اٹل حقیقت ذہن نشین کرائی گئی تھی کہ انسان کو خدا نے اتنی زیادہ جسمانی اور روحانی قوت عطا کی ہے جو پہاڑوں کو ریزہ ریزہ کرسکتی ہے۔ ایمان جتنا مضبوط ہوگا، یہ قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ جنات اور بھوت اور چڑیلیں انسان کے اپنے ذہن کی تخلیق ہیں۔ صلیبی ہمارا ایمان کمزور کرنے کے لیے ہم پر واہمے اور توہمات طاری کررہے ہیں۔

یہ سبق قوم کے ہر فرد کو ملنا چاہیے تھا لیکن یہ ممکن نہ تھا۔ سلطان ایوبی نے لڑاکا جاسوسوں (کمانڈوز) کے جو دستے تیار کیے تھے، انہیں بڑی کاوش سے ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ ایمان کی قوت کیاہوتی ہے۔ انہیں توہمات سے دور رکھا گیا تھا۔ انہیں عملی سبق بھی دئیے گئے تھے۔

''صلیبیوں نے تمہارے سامنے حضرت عیسیٰ کو زمین پر اتارا تھا''۔ مہدی الحسن کو علی بن سفیان کا ایک سبق یاد آگیا تھا۔ ''تمہارے سامنے خدا کو بھی انہوں نے زمین پر اتارا تھا۔ وہ بدروحوں کو بھی لائے۔ تم نے یہ فریب کاری اپنی آنکھوں دیکھی تھی اور یہ بھی دیکھا تھا کہ یہ فریب کاری کیسی کاریگری سے کی جارہی تھی۔ تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہ شعبدہ بازی تھی۔ یہ اسلامی نظریات کو مجروح اور مسخ کرنے کی کوششیں تھیں جو تم نے ناکام کیں۔ خدا پہلے ہی زمین پر موجود ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ کوئی پیغمبر واپس نہیں آئے گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔ خدائے ذوالجلال نے ہمیں اپنا نور دکھا دیا ہے۔ صلیبی اس کوشش میں مصروف ہیں کہ مسلمان کے سینے میں اللہ، رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کا یہ نور بجھ جائے''۔

سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور خصوصاً اپنے جانباز دستوں کے دلوں میں یہ اصول پیوست کررکھا تھا… ''اللہ کے نام پر تم جو بھی خطرہ مول لو گے، وہ تمہارے لیے خطرہ نہیں رہے گا کیونکہ تمہیں خدا کی خوشنودی اور مدد حاصل ہوگی۔ اگر آج تم توہم پرستی کاشکار ہوگئے تو تمہاری اگلی نسل کا ایمان اتنا کمزور ہوگا کہ وہ کفر کے آگے ہتھیار ڈال دے گی''۔

ایسے ہی کچھ اور سبق تھے جو مہدی الحسن کو یاد آگئے تھے۔ اسے اپنی اہمیت کا بھی احساس ہوگیا تھا۔ جیسا کہ بتایا جاچکا ہے کہ وہ معمولی عہدے یا درجے کا جاسوس نہیں تھا، اس کی قابلیت اور تجربہ بھی غیرمعمولی تھا۔ دشمن کے تخریب کار اسے قتل کرسکتے تھے۔ اسی علاقے میں اسے دور سے تیرمارسکتے تھے لیکن اس کے پائے کے جاسوسوں کو دشمن زندہ پکڑنے یا اپنے جال میں پھانس کر اس پر اپنا طلسم طاری کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ صلیبیوں اور حشیشین کے پاس ایسے طریقے تھے جن سے وہ کسی بھی انسان کے ذہن پر قبضہ کرکے اسے اپنے حق میں استعمال کرسکتے تھے۔ مہدی الحسن ان کے کام کا انسان تھا۔ یہ ضروری نہیں تھا کہ انہوں نے صرف اس کو پکڑنے کے لیے اس پہاڑی علاقے میں یہ ڈھونگ رچایا تھا۔ اس علاقے میں کسی جگہ انہوں نے اپنا اڈاا بنا رکھا تھا۔ مہدی الحسن کو انہوں نے گڈریے کے روپ میں بھی پہچان لیا تھا۔ چنانچہ اسے پھانسنے کا یہ طریقہ اختیار کیا گیا۔

٭ ٭ ٭

مہدی الحسن لڑکی کے ہاتھ پائوں باندھ کر اسے کندھے پر اٹھائے سرنگ کے دوسرے دہانے کی طرف جارہا تھا۔ اسے سارے سبق یاد آگئے تھے اور اس کے گرد سلطان ایوبی کی آواز گونج رہی تھی… ''جس طرح ایک غدار پوری قوم کو ذلت ورسوائی میں ڈال سکتا ہے، اسی طرح ایک حریت پسند جانباز پوری قوم کو بڑے سے بڑے خطرے سے بچا سکتا ہے''۔

''مہدی الحسن کے دل میں یہ احساس ایک بڑاہی مضبوط جذبہ بن کر بیدار ہوگیا کہ اس کی قوم جو گہری نیند سورہی ہے وہ اسی کے بھروسے پر سورہی ہے۔ وہ جاسوسوں کی زمین دوز جنگ کا جانباز تھا۔ اسے معلوم تھا کہ قوم بہت بڑے لشکر کا اور گھوڑ سواروں کے طوفان کا اور تیروں کی بوچھاڑوں کا مقابلہ کرسکتی ہے لیکن دشمنوں کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کا مقابلہ صرف ایک یا دو جاسوس ہی کرسکتے ہیں۔ مہدی الحسن مصر اور اپنی قوم کا وحد پاسبان اور سلامتی کا ضامن بن گیا مگر ایک سوال اسے پریشان کررہا تھا … ''کیا حکیم بھی دشمن کے تخریب کاروں کے گروہ کا فرد ہے؟''

اس کا ذہن تسلم کرنے پرآمادہ نہیں تھا کہ اتنا عالم، معزز اور صاحب حیثیت طبیب جس کی عزت حکام بالا بھی کرتے تھے، دشمن کا ساتھی ہوسکتا ہے۔ اس یاد آیا کہ اسے جو سبق دئیے گئے تھے اور اس کے اپنے جو تجربے اور مشاہدے تھے، ان سے اس پر یہ حقیقت واضح ہوئی تھی کہ ایمان فروشی کا عہدے اور رتبے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس نے دیکھا یہ تھا کہ ایمان کا سوداعموماً اونچے رتبے کے لوگ کرتے ہیں اور زیادہ بڑا بننے کے لالچ میں آکر بعض انسان ایمان گروی رکھ دیتے ہیں۔

اس کے سامنے اب مسئلہ یہ تھا کہ لڑکی کو ساتھ لے کر وہ کس طرف سے باہر نکلے اور اپنے اونٹ تک پہنچے۔ لڑکی سے وہ اس لیے رہنمائی نہیں لینا چاہتا تھا کہ وہ اسے غلط راستے پر ڈال کر کسی اور جال میں پھانس سکتی تھی۔ وہ جس راستے سے آیا تھا، اس راستے کو وہ اب مسدود سمجھتا تھا۔ روشنی پھینکنے والوں نے دہانے پر دو تین بار روشنی پھینکی تھی مگر لڑکی کو مہدی الحسن نے سرنگ میں دبوچ رکھا تھا۔ لڑکی کی وہ آواز بھی بند ہوگئی تھی جو مہدی الحسن کو بدروح کا تاثر دیتی تھی۔ ان حالات میں اسے یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ ادھر اس گروہ کے آدمی نیچے اتر آئے ہوںگے۔ سرنگ کی دوسری طرف اسے معلوم نہیں تھا کہ کسی طرف سے باہر جانے کا راستہ ہے یا نہیں۔

وہ لڑکی کو اٹھائے سرنگ سے باہر نکل گیا۔ ایک طرف دہانے سے کچھ دور جا کر اس نے لڑکی کو زمین پربٹھا دیا اور اس کے منہ سے پٹی کھول کر کہا… ''کیاتم بتائو گی کہ میں کس طرف سے جائوں، جدھر تمہارا کوئی آدمی نہ ہو؟''

''اگر تم اکیلے جائو تو بتا سکتی ہوں''۔

''تم میرے ساتھ چلو گی''۔ مہدی الحسن نے کہا… ''مجھے پھانسے کی کوشش کروگی تو میں اپنے آپ کو زندہ نہیں رہنے دوں گا، نہ تمہیں زندہ چھوڑوں گا''۔

''میں تمہیں وہ راز بتا دوں جو تم جاننا چاہتے ہو تو اکیلے چلے جائو گے؟''

''میں وہ راز جان چکا ہوں''۔ مہدی الحسن نے کہا… ''مجھے راستہ بتائو''۔

''مجھے صرف ایک بار روشنی میں دیکھ لو''۔ لڑکی نے کہا… ''پھر مجھے اپنا سمجھنا، ایک بار میرے ساتھ چلے چلو، میں تمہیں دھوکہ نہیں دے رہی''۔

جاری ھے


 ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں