داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 101 - اردو ناول

Breaking

جمعرات, نومبر 19, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 101

 صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔101 رات، روح اورروشنی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

قبرستان بہت ہی وسیع تھا۔ تمام قبریں ابھی تازہ تھیں۔ مٹی کی ڈھیریاں بے ترتیب تھیں۔ کوئی اونچی کوئی نیچی۔ بعض قبریں ایک دوسرے سے مل گئی تھیں۔ میدان جنگ کی قبریں ایسی ہی ہوا کرتی ہیں۔ حماة سے حلب تک ایسے تین قبرستان تیار ہوگئے تھے۔ یہ سرسبز اور شاداب خطہ اداس ہوگیا تھا۔ اس کی فضا خون کی بو سے بوجھل ہوگئی تھی۔ جہاں پرندے چہچہاتے تھے، وہاں گدھ منڈلا رہے تھے۔

ایسا ایک قبرستان حلب کے مضافاتی قلعہ اعزاز کے قریب تھا۔ قبروں کی مٹی ابھی نمناک تھی۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوجوں کا امام چند ایک فوجیوں کے ساتھ وہاں کھڑا فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ اس نے جب منہ پر ہاتھ پھیرے تو آنسو اس کی داڑھی تک پہنچ چکے تھے۔

''یہ خطہ اب بانچھ ہوجائے گا۔ یہاں اب کوئی پتا ہرا نہیں ہوگا''… اس نے کہا… ''یہاں ایک ہی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرنے والے، ایک ہی کلمہ اور ایک ہی قرآن پڑھنے والے ایک دوسرے کے قاتل ہوگئے تھے جس زمین پر بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون گرتا ہے، وہ زمین سوکھ جاتی ہے۔ یہاں تکبیر کے نعرے ٹکرائے تھے۔ یہ سب مسلمان تھے۔ ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ حق کے نام پر جانیں قربان کرنے والے شہید ہوئے اور باطل کے ساتھی اس رتبے سے محروم رہے۔ یہ سب روزِ محشر اکٹھے اٹھائے جائیں گے۔ خدائے ذوالجلال انہیں یہ تو ضرور کہیں گے کہ خون جو تم نے ایک دوسرے کا بہایا ہے، اتنا تم مل کر اسلام کے دشمن کا بہاتے تو فلسطین ہی نہیں، سپین بھی ایک بار پھر تمہارا ہوتا''۔

گھوڑوں کے قدموں کی ہنگامہ خیز آوازیں سنائی دیں۔ امام کے ساتھ کھڑے کسی فوجی نے کہا… ''سلطان آرہے ہیں''… امام نے گھوم کر دیکھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی آرہا تھا۔ اس کے ساتھ سالار اور محافظ دستے کے چھ سوار تھے۔ قبرستان کے قریب آکر سلطان ایوبی نے گھوڑا روکا، اترا اور امام کے قریب آکر فاتحہ پڑھ کر اس نے امام سے ہاتھ ملایا۔

''سلطانِ محترم!''… امام نے سلطان ایوبی سے کہا… ''یہ صحیح ہے کہ یہ بھی مسلمان تھے جو ہمارے خلاف لڑے، لیکن میں انہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ان کی قبروں پر فاتحہ پڑھی جائے۔ انہیں شہیدوں کے ساتھ دفن نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہمارے مجاہدین حق کی خاطر لڑ رہے تھے۔ انہیں آپ نے دشمن کے مقتولین کے ساتھ دفن کرادیا ہے''۔

''میں انہیں بھی شہید سمجھتا ہوں جو باطل کی خاطر ہمارے خلاف لڑے تھے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ اپنے حکمرانوں کی فریب کاری کے شہید ہیں۔ ہم نے اپنے سپاہیوں کو اللہ کا پیغام دیا تھا۔ ان کے خلاف لڑنے والے سپاہیوں کو ان کے بادشاہوں نے جذباتی نعرے اور جھوٹا پیغام دے کر ان کے دلوں میں باطل کو حق بتا کر بٹھا دیا۔ ان کے اماموں نے انعام واکرام لے کر سپاہیوں کو گمراہ کیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگا کر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہوآلہ وسلم کے احکام کی خلاف ورزی کرائی۔ میں ان کی لاشوں کو ایک ہی گڑھے میں دبا کر یاکہیں پھینک کر ان کی توہین نہیں کرنا چاہتا تھا۔ہمارے دشمن مسلمانوں کے جن سپاہیوں کو احساس ہوگیا تھا کہا نہیں گمراہ کیا گیا ہے وہ ہمارے ساتھ ہیں اور یہ جو مرگئے ہیں، ان تک روشنی نہیں پہنچی تھی کیونکہ بادشاہی کے دلدادہ حکمرانوں نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی''۔

پہلے سنایا جاچکا ہے کہ مسلمان امراء سلطان صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہوگئے تھے۔ وہ خلافت سے آزادہوکر خودمختار حکمران بننا چاہتے تھے۔ ان میں ایک نورالدین زنگی مرحوم کا بیٹا الملک الصالح تھا، دوسراموصل کا امیر سیف الدین غازی اور تیسرا گمشتگین جو حرن کا قلعہ دار تھا لیکن اس نے خودمختاری کا اعلان کردیا تھا۔ ان تینوں نے اپنی فوجوں کی متحدہ ہائی کمان بنا لی اور سلطان ایوبی کیخلاف محاذ آرا ہوگئے تھے۔ صلیبی ان کی پشت پناہی کررہے تھے۔ صلیبیوں کو ان کے ساتھ صرف یہ دلچسپی تھی کہ مسلمان آپس میں ٹکرا ٹکرا کر ختم ہوجائیں یا اتنے کمزور ہوجائیں کہ ان (صلیبیوں) کے خلاف لڑنے کے قابل نہ رہیں۔ حکمرانی کے نشے، صلیبیوں کی دی ہوئی مالی اور جنگی امداد، شراب اور یہودیوں کی حسین وجمیل لڑکیوں نے ان امراء کو ایسا اندھا کیا کہ وہ سلطان ایوبی کے راستے میں اس وقت حائل ہوگئے جب نورالدین زنگی فوت ہوچکا تھا اور سلطان ایوبی مصر سے یہ عزم لے کر آیا تھا کہ صلیبیوں کو عالم اسلام سے بے دخل کرکے قبلہ اول کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلے گا۔

: ڈیڑھ سال تک حماة سے حلب تک کے اس سرسبز خطے میں مسلمان مسلمان کا خون بہاتا رہا۔ آخر فتح حق کی ہوئی۔ سلطان ایوبی نے فتح پائی۔ اس کے دشمنوں نے اس کی اطاعت قبول کرلی لیکن سلطان ایوبی کے چہرے پر مسرت کی ہلکی سی بھی جھلک نظر نہیں آتی تھی۔ قوم کی عسکری قوت کا بیشتر حصہ تباہ ہوچکا تھا۔ اس لحاظ سے یہ صلیبیوں کی فتح اور مسلمانوں کی شکست تھی۔ صلیبی اپنے عزائم میں کامیاب ہوگئے تھے۔ سلطان ایوبی اب کئی برسوں تک بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کے قابل نہیں رہاتھا۔

جون ١١٧٦ء کے اس روز جب سلطان ایوبی قلعہ اعزاز کے قریب وسیع قبرستان میں اپنے امام کے پاس کھڑا تھا تو (اس دور کے وقائع نگاروں کے مطابق) اس کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا۔ اس نے امام سے کہا… ''ہر نماز کے بعد دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بخش دے جن کی آنکھوں پر کفر کی پٹی باندھ کر اپنے بھائیوں کے خلاف لڑایا گیا تھا''… سلطان گھوڑے پر سوار ہوا اور اس نے قبرستان پر نگاہ ڈالی… ''خدا کو اتنے زیادہ خون کا حساب کون دے گا؟ یہ گناہ میرے حساب میں نہ لکھ دیا جائے''۔

اپنے سالاروں کی طرف دیکھ کر اس نے کہا… ''ہماری قوم خودکشی کے راستے پر چل پڑی ہے۔ کفار امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت اور جذبے سے اس قدر خائف ہیں کہ اس قوت کو دلکش حربوں سے کمزور کررہے ہیں۔ ان کے پاس یہی ایک ذریعہ رہ گیا ہے۔ ہمارے بعض بھائیوں نے ان کے اس ذریعے کو قبول کرلیا ہے اور تاریخ میں خانہ جنگی کا باب کھول دیا ہے۔ اگر ہم نے اس باب کو یہیں بند نہ کیا تو میں مستقبل کو جہاں تک دیکھ سکتا ہوں، مجھے امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خانہ جنگی سے خودکشی کرتی نظر آتی ہے۔ کفار آج کے دور کی طرح مالی اور جنگی امداد دے دے کر امت کو آپس میں لڑاتے رہیں گے۔ چند ایک افراد پر جب تخت وتاج کے حصول کا جنون سوار ہوتا ہے تو وہ قوم کو آلۂ کار بنا کر قوم کو لے ڈوبتے ہیں۔ بادشاہی کے یہ بھوکے لوگ قوم کا خون اسی طرح بہاتے رہیں گے۔ یہ اتنا وسیع قبرستان دیکھو۔ قبریں گنوتو گن نہیں سکو گے۔ ہم پیچھے جو لاشیں دفن کرآئے ہیں، ان کا بھی شمار نہیں۔ میں اتنے خون کا حساب کس سے لوں؟ خدا کو میں کیا جواب دوں گا؟''

''خانہ جنگی کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے''… ایک سالار نے کہا۔ ''اب آگے کی سوچیں۔ ہمیں بیت المقدس پکار رہا ہے۔ قبلہ اول ہماری راہ دیکھ رہا ہے''

''اور مجھے مصر پکار رہا ہے''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے گھوڑاچلا دیا اور کہنے لگا… ''وہاں سے بڑی تشویش ناک خبریں آرہی ہیں، وہاں میرا قائم مقام میرا بھائی ہے۔ وہ مجھے پریشانی سے بچانے کے لیے حالات کی سنگینی مجھ سے چھپا رہا ہے۔ علی بن سفیان اور کوتوال غیاث بلبیس بھی مجھے تفصیل سے کوئی بات نہیں بتا رہے۔ صرف اتنی خبر بھیجتے ہیں کہ دشمن کی زمین دوز تخریبی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ان کا سدباب کیا جارہا ہے۔ پرسوں کے قاصد نے بتایا ہے کہ قاہرہ میں تخریب کاری زور پکڑتی جارہی ہے۔ معلوم ہوتا ہے شیخ سنان کو ہم نے عصیات سے بے دخل کردیا ہے مگر اس کا قاتل گروہ قاہرہ میں سرگرم ہے۔ دوکمان دار ایسے طریقے سے قتل ہوگئے ہیں کہ ان کے جسموں پر زخم اور چوٹ کا کوئی نشان نہیں۔ مرنے کے بعد لاشوں کی حالت سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا کہ زہر دیا گیا تھا۔ یہ حشیشین کا خاص طریقہ ہے''۔

''تو کیا آپ فوج کو یہیں رہنے دیں گے یا ساتھ لے جائیں گے؟''… ایک سالار نے کہا۔

''اس کے متعلق میں نے ابھی فیصلہ نہیں کیا''… سلطان ایوبی نے کہا… ''شاید کچھ نفری لے جائوں۔ فوج کی ضرورت یہاں زیادہ ہے۔ صلیبیوں نے مصر میں تخریب کاری اس لیے تیز کردی ہے کہ میں فلسطین کی طرف پیش قدمی کرنے کے بجائے مصر چلا جائوں۔ میں ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہونے دوں گا، البتہ میرا مصر جانا ضروری ہے''۔

٭ ٭ ٭

 سلطان ایوبی کے خدشے بے بنیاد نہیں تھے۔ صلیبیوں کی ذہنیت اور عزائم کو اس سے بڑھ کر اور کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔ اس وقت جب وہ قبرستان سے فاتحہ پڑھ کر اپنے جنگی ہیڈکوارٹر کی طرف جارہا تھا۔ شیخ سنان تریپولی پہنچ چکا تھا۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ حسن بن صباح کے بعد اس فرقے کے جس پیرومرشد نے شہرت حاصل کی، وہ شیخ سنان تھا۔ یہ شخص حشیشین (فدائیوں) کا سربراہ تھا۔ سلطان ایوبی اور صلیبیوں کی جنگوں کے دوران فدائیوں کا قاتل گروہ شیخ سنان کی زیرقیادت بہت ہی زیادہ سرگرم ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی پر متعدد بار قاتلانہ حملے کیے گئے اور ہر حملے کا انجام یہ ہوا کہ قاتل مارے گئے اور جو بچے وہ پکڑے گئے۔ صلیبیوں نے شیخ سنان کو عصیات نام کا ایک قلعہ دے رکھا جو مئی ١١٧٦ء میں سلطان ایوبی نے محاصرے میں لے کر شیخ سنان سے ہتھیار ڈلوائے اور اس سے قلعہ خالی کراکے اسے بخش دیا تھا۔ اس محاصرے کی تفصیلات سنائی جاچکی ہیں۔

شیخ سنان جو ١١٧٦ء کے ایک رو زتریپولی (لبنان) پہنچا۔ اس کے ساتھ اس کے فدائی اور فوج تھی۔ کسی کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا۔ سلطان ایوبی نے انہیں نہتہ کرکے رخصت کیا تھا۔ تریپولی اور گردونواح کا وسیع علاقہ ایک صلیبی کمانڈر کے قبضے میں تھا۔ شیخ سنان اس کے پاس پہنچا اور پناہ مانگی۔ دو روز بعد ریمانڈ نے ادھر ادھر سے دوسرے صلیبی بادشاہوں اور کمانڈروں کو تریپولی بلایا تاکہ سلطان ایوبی کے خلاف آئندہ لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ماہر ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن بھی اس کانفرنس میں موجود تھا۔

''آپ مجھے اس بنا پر نہیں کوس سکتے کہ میں صلاح الدین ایوبی سے شکست کھا کر آیا ہوں''… شیخ سنان نے صلیبیوں کی اس کانفرنس میں کہا… ''آپ جانتے ہیں کہ ہم فوج کی طرح نہیں لڑ سکتے۔ سلطان ایوبی کا مقابلہ تمہاری فوج بھی نہیں کرسکتی، میرے فدائی اس کے محاصرے میں کیسے لڑ سکتے ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ آپ ایوبی کے دشمن مسلمان امراء کو اپنی فوجیں دیں۔ وہ سب مل کر اس کے سامنے نہیں ٹھہر سکے''۔

''شیخ سنان!''… ریمانڈ نے کہا… ''یہ ہم تک رہنے دیں کہ ایوبی کے خلاف ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہم آپ کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ نے اس کے قتل کے لیے جو چار آدمی بھیجے تھے، وہ بھی ناکام ہوگئے ہیں، مارے گئے ہیں اور پکڑے گئے ہیں۔صلاح الدین ایوبی پر آپ کا ایک بھی قاتلانہ حملہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ آپ اپنے بے کار آدمی بھیجتے رہے ہیں جن کے مرجانے یا گرفتار ہوجانے سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ ہم آپ کو جو مراعات اور رقم دیتے رہے وہ ضائع ہوگئی ہے''۔

''صرف ایک صلاح الدین کے قتل نہ ہونے سے آپ کی رقم ضائع نہیں ہوئی''… شیخ سنان نے کہا… ''میں نے مصرمیں صلاح الدین ایوبی کی حکومت کو جو دو حاکم قتل کرائے ہیں، انہیں اپنی رقم کے حساب میں رکھیں۔ ) آپ کے تین طاقتور مخالف سوڈان میں تھے۔ انہیں میں نے قبروں میں اتارا اور وہاں آپ کا راستہ صاف کیا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے مخالف مسلمان امراء میں سے جو حلب میں الملک الصالح کے ساتھ تھے، دو صلاح الدین کے حامی ہوگئے تھے۔ آپ کے اشارے پر میں نے انہیں قتل کرایا ہے اور اب مصر میں حاکموں کے خفیہ قتل کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے، وہ کس نے شروع کیا ہے؟ کیا آپ اسے بھی ناکام کہیں گے؟''

''ایوبی کب قتل ہوگا؟''… فرانسیسی صلیبی گے آف نورینان نے میز پر مکا مار کر پوچھا… ''صلاح الدین ایوبی کے قتل کی بات کرو، آپ نے نورالدین زنگی کو جو زہر دیا تھا، وہ صلاح الدین ایوبی کو کب دو گے؟''

''جس روز اس قسم کے حالات پیدا ہوجائیں گے جیسے نورالدین زنگی کے وقت پیدا ہوئے تھے''… شیخ سنان نے کہا … ''زنگی زلزلے کی تباہ کاری کے متاثرین کی امداد کے لیے اکیلا بھاگتا دوڑتا رہتا تھا۔ نہ اسے ہوش تھا، نہ اس کے عملے کو کہ اس کے لیے جو کھانا پکتا ہے وہ کون پکاتا ہے اور کوئی اس کی نگرانی بھی کرتا ہے یا نہیں۔ اس موقعے سے میرے ان آدمیوں نے جو میں نے آپ کے کہنے پر اس کے قتل کے لیے بھیج رکھے تھے، فائدہ اٹھایا اور اس کے کھانے میں وہ زہر ملا دیا جو گلے کی بیماری بن گیا اور وہ تین چار دنوں بعد مرگیا۔ اس کے طبیب آج بھی کہتے ہیں کہ نورالدین زنگی خناق سے مراہے مگر صلاح الدین ایوبی کے کھانے تک پہنچنا ممکن نہیں''۔

 ''کیا آپ اس باورچی کو خرید نہیں سکتے جو اس کا کھانا پکاتا ہے؟''… ایک اعلیٰ کمانڈر نے پوچھا۔

''اس کا جواب ہمارا دوست ہرمن دے سکتا ہے''… شیخ سنان نے کہا اور ہرمن کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔

پچھلی کہانیوں میں ہرمن کا ذکر چند بار آیا ہے۔وہ جرمنی کا رہنے والا تھا۔ علی بن سفیان کی طرح جاسوسی اور سراغ رسانی کا ماہر تھا۔ تخریب کاری اور کردار کشی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ مصر میں سلطان ایوبی کے خلاف جو سازشیں اور وسیع پیمانے پر ایک بغاوت جو ہوئی تھی وہ اسی نے کرائی تھی۔ سلطان ایوبی کے ان دو چار اعلیٰ حکام کو بھی ہرمن نے اس کے خلاف کردیا تھا جو سلطان ایوبی کے معتمد تھے۔ وہ مسلمان حکام اور عوام کی نفسیات اور کمزوریوں کو خوب سمجھتا تھا اور انہیں استعمال کرنے کا فن جانتا تھا۔ اسے ایک صلیبی بادشاہ فلپ آگسٹس اپنے ساتھ لایا تھا۔ وہ سوڈان، مصر اور عرب کے ہر حصے کی زبان مقامی لب ولہجے سے بول سکتا تھا۔

''شیخ سنان ٹھیک کہتے ہیں''… ہرمن نے کہا… ''اس سوال کا جواب مجھے دینا چاہیے کہ صلاح الدین ایوبی کے باورچی کو کیوں نہیں خریدا جاسکتا۔ اگر صلاح الدین پرہوتا تو وہ اب تک زہر سے مارا جاچکا ہوتا۔ وہ اس کی پروا نہیں کرتا کہ اس کے کھانے کی کسی نے نگرانی کی ہے یا نہیں۔ اس نے اپنی جان کو خدا کے سپرد کررکھا ہے۔ اس عقیدے کا وہ پکا ہے کہ اس کی موت کا جو دن مقرر ہے، اس روز اسے اپنی جان خدا کے حضور پیش کرنی ہے اورا سے کوئی انسان روک نہیں سکتا۔ اس کے محافظ دستے کا کمانڈر، خفیہ محکمے کا ایک ذمہ دار آدمی اور اس کا ایک معتمد خاص اس کا کھانا کھا کر دیکھتے ہیں، بعض اوقات طبیب آجاتا ہے اور وہ بھی کھانا دیکھتا ہے۔ اس اتنی کڑی نگرانی کے علاوہ دوسری دشواری یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے باورچی اور دیگرتمام ملازم اس کے مرید ہیں۔ ان کے دلوں میں اس کی اندھی عقیدت ہے۔ ایوبی انہیں اپنے نوکر نہیں سمجھتا۔ ان کے ساتھ دوستوں اور بھائیوں جیسا سلوک کرتا ہے۔ پوری طرح جائزہ لیا جاچکا ہے۔ صلاح الدین ایوبی کے اس ذاتی حلقے میں سے کسی کو خریدنا، اسے حلقے میں اپنا کوئی آدمی داخل کرنا ممکن نہیں۔ اس کے پاس افراد ایسے ہیں جو اس کے گرد حصار کھینچے ہوئے ہیں۔ یہ ہیں علی بن سفیان، غیاث بلبیس، حسن بن عبداللہ اور زاہدان۔ یہ سب اتنے ماہر سراغ رساں ہیں کہ ان کی نظریں انسان کے ضمیر اور روح کو بھی دیکھ لیتی ہیں''۔

''اسلام کا خاتمہ''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''میں سوبار کہہ چکا ہوں کہ ہمیں اسلام کا خاتمہ کرنا ہے۔ یہ ایسا مذہب ہے جو انسان کی روح کو قبضے میں لے لیتا ہے جس کسی نے اسلام کو اپنی روح میں اتار لیا، اسے دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔ آپ سب نے دیکھ لیا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے گرد جن مسلمانوں کا گھیرا ہے، وہ مذہب کے اتنے پکے ہیں کہ تم زروجواہرات سے اور اتنی خوبصورت لڑکیوں سے ان کا گھیرا نہیں توڑ سکتے۔ وہ مسلمان کچے ایمان کے ہیں جنہیں تم خرید لیتے ہو۔ انہوں نے اسلام کو اپنی روح میں نہیں اترنے دیا، تم نے دیکھا ہے کہ ہمارے کتنے بڑے بڑے لشکروں کو صلاح الدین ایوبی کے کتنے تھوڑے تھوڑے سپاہیوں نے کتنا نقصان پہنچایا ہے۔ جہاں ہمارے گھوڑے تھکن اور پیاس سے رہ جاتے ہیں، وہاں صلاح الدین ایوبی کے سپاہی تھکن اور پیاس سے بے نیاز رہتے ہیں۔ اس قوت کو یہ لوگ ایمان کہتے ہیں۔ ہمیں ان کا ایمان کمزور کرنا ہے۔ ہرمن! ان کے ایک دو امراء یا اعلیٰ حکام کو ہاتھ میں لینا بے شک ضروری ہے۔ اس سے آپ نے بہت فائدہ اٹھایا ہے لیکن کوئی ایسا طریقہ اختیار کرو جس سے اس قوم کے دل میں اپنے مذہب کے خلاف بیزاری پیدا ہوجائے۔پختہ عمر کے آدمیوں کے نظریات بدلنا آسان نہیں ہوتا، ان کی نسل کو بچپن اور لڑکپن میں اپنا نشانہ بنالو۔ کچے ذہن کو تم اپنے سانچے میں ڈھال سکتے ہوں۔ ان کے حیوانی جذبے کو بھڑکائو''۔

 ''یہودی یہ کام کررہے ہیں''… ہرمن نے کہا… ''اور اس محاذ پر میں جو کچھ کررہا ہوں، اس کے نتائج آہستہ آہستہ سامنے آرہے ہیں۔ ایک دن یا چند ایک دنوں میں آپ کسی کے نظریات اورعقیدے نہیں بدل سکتے۔ اس عمل میں وقت لگتا ہے۔ ایک دور گزر جاتا ہے''۔

''یہ عمل جاری رہناچاہیے''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''میں یہ توقع نہیں رکھوں گا کہ نتائج ہماری زندگی میں سامنے آئیں۔ مجھے پوری امید ہے کہ ہم نے کردارکشی کا یہ عمل جاری رکھا تو وہ وقت آئے گا کہ مسلمان برائے نام مسلمان رہ جائیں گے۔ ان کے ہاں مذہبی فرائض محض رسمی بن جائیں گے اور ان پر ہمارا رنگ چڑھ جائے گا۔ ان کی سوچوں پر صلیب غالب آجائے گی''۔

''شیخ سنان!''۔ ریمانڈ نے شیخ سنان سے کہا۔ ''اگر آپ ہم سے عصیات کے قلعے کے بدلے ایک اور قلعے کا مطالبہ کریں گے تو ہم ابھی یہ مطالبہ پورا نہیں کرسکیں گے۔ ہمارا معاہدہ قائم رہے گا۔ قلعے کے سوا دوسری تمام مراعات آپ کو حاصل رہیں گی۔ اگر آپ ان مراعات اور مالی وظیفوں کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں تو قاہرہ میں اور خصوصاً تمام تر مصر میں صلاح الدین ایوبی کی فوج اور انتظامیہ کی اہم شخصیتوں کا قتل جاری رکھیں اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کی بھی کوششیں جاری رکھیں''۔

''صلاح الدین ایوبی کے قتل کے متعلق میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ میں اس میں اور کوئی آدمی ضائع نہیں کروں گا''… شیخ سنان نے کہا… ''اس شخص کا قتل ممکن نظر نہیں آتا۔ میں بڑے قیمتی فدائی ضائع کرچکا ہوں۔ مجھے یہ کہنے کی بھی اجازت دیں کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے مجھے نئی زندگی دی ہے۔ میں نے اس کے آگے ہتھیار ڈالے تو مجھے یہ توقع تھی کہ میں نے اس پر جتنے قاتلانہ حملے کرائے ہیں، ان کا انتقام لینے کے لیے وہ مجھے اور میرے چیدہ چیدہ فدائیوں کو قتل کردے گا لیکن اس نے میری اور میرے آدمیوں کی جان بخشی کردی۔ میں تو یہ سمجھا تھا کہ وہ ہمیں دھوکہ دے رہا ہے جونہی ہم پیٹھ پھیریں گے، وہ ہم پر تیروں کا مینہ برسا دے گا یا ہم پر گھوڑے دوڑا دے گا۔ آپ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میں اپنے تمام آدمیوں اور پوری فوج کے ساتھ آپ کے سامنے زندہ موجود ہوں۔ آپ مجھے مراعات سے محروم کردیں۔ میں صلاح الدین ایوبی کے قتل سے دستبردار ہوگیا ہوں۔ البتہ قاہرہ میں میرے آدمیوں کی کارگزاری سے آپ کو مایوسی نہیں ہوگی''۔

''قاہرہ میں ایسے حالات پیدا کردئیے گئے جو صلاح الدین ایوبی کو قاہرہ جانے پر مجبور کردیں گے''۔ ہرمن نے کہا… ''بہت جلد سوڈانی مصر کی سرحدی چوکیوں پر حملوں کا سلسلہ شروع کردیں گے۔ مصر پر کوئی بڑا حملہ نہیں کیا جائے گا، حملے کا دھوکہ دیا جائے گا تاکہ صلاح الدین ایوبی شام سے مصر چلا جائے''۔

ہرمن جاسوسی اور سراغ رسانی کا ماہر تھا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کانفرنس میں جو خاص ملازم شراب اور کھانے کی چیزیں لا اور لے جارہے تھے، ان میں وکٹر نام کا ایک فرانسیسی سلطان ایوبی کا جاسوس تھا اور انہی خاص ملازموں میں راشد چنگیز نام کا ایک ترک مسلمان بھی تھا جس نے اپنے آپ کو یونان کا عیسائی ظاہر کرکے یہ نوکری حاصل کی تھی۔ یہ بھی سلطان ایوبی کا جاسوس تھا۔ ہرمن نے ان خاص ملازموں کو جو کانفرنسوں اور کمانڈروں کی محفلوں اور دعوتوں میں حاضررہتے اور کھانا کھلاتے تھے، گہری چھان بین کے بعد اس ملازمت کے لیے منتخب کیا تھا۔ پہلے بتایا جاچکا ہے کہ سلطان ایوبی نے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا۔ اسے صلیبیوں کے دور اندر کی باتوں کا قبل از وقت علم ہوجاتا تھا۔ اب شیخ سنان کی اس کانفرنس کی تمام باتیں اس کے دو جاسوسوں نے سن لی تھیں، جنہیں چند دنوں تک سلطان ایوبی تک پہنچ جانا تھا۔ ان دنوں قاہرہ میں زمین دوز تخریب کاری بڑھ گئی تھی۔ مصر کی فوج کے نائب سالار سے ایک درجہ کم عہدے کا ایک کمان دار شہر کے باہر مردہ پایا گیا۔ وہ شام کے بعد گھر سے نکلا تھا۔ ساری رات گھر نہ آیا۔ صبح اس کی لاش دیکھی گئی۔ اس کے جسم پر کوئی زخم نہیں تھا، کوئی چوٹ نہیں تھی۔ سراغ رسانوں نے جائے واردات پر ایک تو مرنے والے کے نقوش پا دیکھے اور دو نقوش کسی اور کے تھے۔ اس کمان دار کے چال چلن کی سب تعریف کرتے تھے۔ اس کا اٹھنا بیٹھنا غلط یا مشکوک قسم کے لوگوں کے ساتھ نہیں تھا۔ اس کی ایک بیوی تھی جو اس سے ہرلحاظ سے مطمئن تھی۔ اس کی موت کا باعث معلوم کرنے کی بہت کوشش کی گئی اگر یہ قتل تھا تو قاتل کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔

: تین چار دنوں بعد اسی عہدے کا ایک اور فوجی کمان دار بالکل اسی طرح ایک صبح اپنے کمرے میں مردہ پایاگیا۔ وہ فوجی بارکوں کے ایک کمرے میں رہتا تھا۔ اس کے متعلق بھی رپورٹیں بالکل صاف تھیں۔ اس کے دوستوں کے حلقے میں اپنے ہی دستے کے کچھ آدمی تھے۔ ان میں سے کسی کے ساتھ اس کا لڑائی جھگڑا نہیں تھا۔ قتل کی بظاہر وجہ کوئی نہیں تھی۔ اسے قتل کہا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ کیونکہ جسم پر زخم یا چوٹ کا کوئی ہلکا سا بھی نشان نہیں تھا۔ یہ لاش سرکاری طبیب نے دیکھی۔ لاش کے ہونٹوں کے کونوں پر ذراذرا سی جھاگ تھی۔ اس نے یہ جھاگ لکڑی کے ایک لمبوترے ٹکڑے کے سرے پر لگالی۔ اس نے ایک کتا منگوایا اور یہ جھاگ گوشت کے ایک ٹکڑے پر لگا کر ٹکڑا کتے کو کھلا دیا۔

اس نے کتے کو اپنے گھر لے کر جاکر باندھ دیا اور اسے دیکھتا رہا۔ کتے نے کوئی غیرمعمولی حرکت نہ کی، اسے جو کھانے کو دیا گیا وہ کھاتا رہا۔ طبیب ساری رات جاگ کر کتے کو دیکھتا رہا۔ آدھی رات کے بعد کتا اٹھا اور جہاں تک رسی اجازت دیتی تھی، وہ بڑے آرام سے ٹہلتا رہا۔ وہ بہت دیر ٹہل کر رکا اور گر پڑا۔ طبیب نے دیکھا، کتا مرچکا تھا۔ طبیب نے رپورٹ دی کہ دونوں کمان داروں کو ایسا زہر دیا گیا ہے جس سے کوئی تلخی نہیں ہوتی۔ انسان نہایت اطمینان سے مرجاتا ہے۔

سراغرسانوں نے دونوں کمان داروں کے متعلق گہری تفتیش کی، یہ معلوم کرنے کی بہت کوشش کی گئی کہ زندگی کے آخری روز وہ کس کس سے ملے، کہاں گئے اور انہوں نے کس کے ساتھ کچھ کھایا پیا مگر کوئی سراغ نہ ملا۔ شادی شدہ کمان دار کی بیوی سے بھی پوچھ گچھ کی گئی لیکن اس پر شک کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ دونوں کمان داروں میں مشترکہ وصف یہ تھا کہ پکے مسلمان تھے۔ میدان جنگ میں ان کی کمانڈ اور دلیری کی تعریف سلطان ایوبی نے بھی کی تھی۔ دونوں سرحدی دستوں کے کمانڈر رہ چکے تھے اور انہوں نے کئی ایک سوڈانیوں کو سرحد پار کرتے گرفتار کیا تھا۔ سوڈانیوں نے انہیں بہت رشوت پیش کی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی تھی۔ اب دونوں کو نائب سالاری کی ترقی ملنے والی تھی۔ وہ اس قابل تھے کہ کسی بھی جگہ حملے کی قیادت آزادانہ کرسکیں۔

علی بن سفیان نے رائے دی کہ قتل کی یہ دونوں وارداتیں صلیبی تخریب کاروں کی ہیں اور قاتل فدائی ہیں۔ اس نے کہا کہ دشمن نے اب اہم شخصیتوں کے قتل کا سلسلہ شروع کردیاہے۔ تمام کمان داروں اور حکام کو خبردار کردیا گیا کہ کسی اجنبی یا مشکوک آدمی کے ہاتھ سے کوئی چیز نہ کھائیں اور ایسے آدمیوں پر نظر رکھ کر انہیں پکڑنے کی کوشش کریں جو دوستی لگانے اور کھانے پینے کی کوئی چیز پیش کرنے کی کوشش کریں۔ سراغ رساں مصروف ہوگئے۔

دوسرے کمان دار کے قتل کے سات آٹھ روز بعد ایک رات فوج کے خیموں کو آگ لگ گئی۔ ہزاروں خیمے ایک جگہ لپٹے پڑے تھے۔ ان کے انباروں کے اوپر چھپر تھے۔ وہاں پہرہ بھی تھا پھر بھی آگ لگ گئی۔ یہ آگ تخریب کاری کا نتیجہ تھی۔ وہاں اتفاقیہ آگ لگنے کا کوئی امکان نہیں تھا کیونکہ ان چھپروں کے قریب آگ جلانے کی ممانعت تھی۔ اس کی سختی سے پابندی کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ پراسرار سے کچھ اور واقعات ہوئے تھے۔ سرحدی دستوں کو اور زیادہ چوکس کردیا گیا تھا۔ سوڈان کی طرف سرحد کے اندر چوری چھپے آنے والوں کی تعداد اور رفتار بڑھ گئی تھی۔ اس کا اندازہ ان لوگوں کی گرفتاریوں سے ہوتا تھا۔

٭ ٭ ٭

: علی بن سفیان نے اپنی انٹیلی جنس کو اور زیادہ پھیلا دیا اور پہلے سے زیادہ ہوشیار کردیا تھا۔ قاہرہ سے کچھ دور دریائے نیل کے کنارے پہاڑی علاقہ تھا۔ اس کے اندر کہیں فرعونوں کے زمانے کے کھنڈر تھے۔ اس سے پہلے ایسے واقعات ہوئے تھے کہ صلیبی اور سوڈانی تخریب کاروں نے ایسے کھنڈروں کو خفیہ اڈوں کے طور پر استعمال کیا تھا۔ مصر میں ایسے کھنڈروں کی تعداد کچھ کم نہیں تھی۔ اس پہاڑی علاقے کو نظر میں رکھنے کے لیے علی بن سفیان نے اپنے جاسوسوں کو خصوصی ہدایات کے ساتھ مقرر کررکھا تھا۔ اب کے صلیبی تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل کرلی تھی کہ انہوں نے دو تین مہینوں کے عرصے میں علی بن سفیان کے چھ سات جاسوس جو قاہرہ میں مختلف جگہوں پر مختلف بہروپوں میں رہتے تھے، غائب کردئیے تھے۔

یہ وہ جاسوس تھے جو صلیبیوں کے جاسوسوں کو پکڑنے کے ماہر تھے لیکن وہ خود پکڑے گئے یا مارے گئے۔ خطرہ یہ تھا کہ وہ پکڑے گئے تو صلیبی انہیں حشیشین کے حوالے کرکے انہیں مصر کی ہی حکومت اور فوج کے خلاف استعمال کریں گے۔ اصل خطرہ تو یہ تھا کہ دشمن کے جاسوسوں نے قاہرہ کے جاسوسوں کو پہچان لیا تھا۔ جاسوسی اور سراغ رسانی کی اس جنگ میں دشمن جیت رہا تھا۔ علی بن سفیان نے اب ذرا اونچے عہدوں کے ایسے جاسوس جو اپنے فن میں خصوصی مہارت رکھتے تھے، استعمال کرنے شروع کردئیے تھے۔ ان میں ایک مہدی الحسن تھا جو یروشلم اور تریپولی تک بڑی کامیاب جاسوسی کرتا آیا تھا۔ وہ بہت دلیر اور دانشمند جاسوس تھا۔

علی بن سفیان نے یہ پہاڑی علاقہ اسے دے رکھا تھا۔ اس علاقے کے اندر صرف ایک راستہ تھا۔ پیچھے دریا اور باقی ہر طرف پہاڑیاں اور چٹانیں بھی تھیں۔اندرونی علاقے میں سبزہ اور درخت تھے، کہیں کہیں پانی کی جھیلیں بھی تھیں۔ اطلاع ملی تھی کہ اس کے اندر مشکوک سے آدمی آتے جاتے دیکھے گئے ہیں۔ فرعونوں کی کسی عمارت کے کھنڈر سامنے نظر نہیں آتے تھے۔ کسی نے کبھی دیکھے بھی نہیں تھے لیکن یہ یقین ضرور تھا کہ اس کوہسار کے اندر فرعونوں نے کچھ نہ کچھ بنایا ضرور تھا۔ جواب تک موجود ہے۔ بہرحال یہ جگہ ایسی تھی جو تخریب کاروں کا خفیہ اڈا بننے کے لیے موزوں تھی۔

مہدی الحسن وہاں ایک دو اونٹ اور چند ایک بھیڑ بکریاں لے جاکر صحرائی خانہ بدوشیا گڈرئیے کے بہروپ میں جایا کرتا تھا۔ اس کے جانور ادھر ادھر چرتے چگتے رہتے اور وہ گھومتا پھرتا رہتا تھا۔ اس نے کچھ دور اندر تک علاقہ دیکھاتھا، وہاں اسے کچھ بھی نظر نہیں آیا تھا۔ بہت آگے جاکر ایک پہاڑی ایسی تھی جس کے دامن سے بیس پچیس فٹ اوپر ایک قدرتی سرنگ کا دہانہ تھا۔ مہدی الحسن اس سرنگ کے اندر گیا تھا۔یہ اتنی اونچی اور فراخ تھی کہ اس میں سے اونٹ گزر سکتا تھا۔ یہ پہاڑی کی طرف تک چلی گئی تھی۔ مہدی الحسن دوسری طرف گیا، وہاں تنگ سی ایک وادی تھی جہاں کوئی اڈا نہیں ہوسکتا تھا۔ سرنگ بہت لمبی تھی۔ اس کے اندر دائیں بائیں دیواروں میں غاری سی بنی ہوئی تھیں۔ اتنے بڑے بڑے پتھر بھی تھے کہ ایک پتھر کے پیچھے آدمی بیٹھ کر چھپ سکتا تھا۔

اس مصری جاسوس نے علی بن سفیان کورپورٹ دی تھی کہ وہ جہاں تک جاسکا ہے، اسے کوئی مشکوک جگہ نظر نہیںآئی اور اتنے دن اسے کوئی ایک بھی آدمی اندر جاتا یا باہرآتا دکھائی نہیں دیا۔ علی بن سفیان نے اسے کہا کہ وہ سارا دن وہیں گزارا کرے اور وہ زیادہ اندر تک نہ جایا کرے کیونکہ پکڑے یا مارے جانے کا خطرہ تھا۔ علی بن سفیان نے اسے یہ بھی کہا کہ کبھی کبھی وہ اونٹ پرسوار ہوکر رات کو بھی چلا جایا کرے اگر کوئی آدمی اسے مل جائے تو اسے بتائے کہ وہ قاہرہ جارہا ہے۔ اپنے آپ کو کسان ظاہر کرے۔ اس ہدایت کے تحت مہدی الحسن رات کو بھی وہاں گیا تھا۔ا یک رات اسے کسی کے بھاگتے قدموں کی آواز سنائی دی۔ یہ کوئی جنگلی جانور بھی ہوسکتا تھا اور یہ کوئی انسان بھی ہوسکتا تھا۔ مہدی الحسن آگے نہ گیا، کچھ دیر وہاں رکا رہا پھر واپس آگیا۔

: وہ دوسرے دن سورج نکلنے سے پہلے دو تین اونٹ اور بھیڑ بکریاں لے کر وہاں چلا گیا۔ انہیں کھلا چھوڑ کر خود ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا، وہاں سبزہ تھا۔ جھاڑیاں اورگھاس تھی اور جنگلی پودے بھی۔ کچھ آگے جاکر اسے ایک آدمی دکھائی دیا جو زمین پر جھکا ہوا تھا۔ اس نے قیمتی چغہ پہن رکھا تھا اور اس کی لمبی داڑھی تھی۔ سر پر عمامہ بھی قیمتی تھا۔ مہدی الحسن آہستہ آہستہ اس کی طرف چلنے لگا۔ جھکے ہوئے آدمی نے اس کی طرف دیکھا۔ مہدی الحسن نے اپنی چال ڈھال میں جاہلانہ پن نمایاں رکھا اور آہستہ آہستہ اس آدمی کے قریب جاکھڑا ہوا۔

چغہ والے کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا جس میں ہرے پتے بھرے ہوئے تھے اور اس کے دوسرے ہاتھ میں ایک پودے کی ہری شاخ تھی۔

''آپ کیا ڈھونڈ رہے ہیں؟''… مہدی الحسن نے گنواروں کے سے لہجے میں احمقوں کی طرح ہنس کر پوچھا… ''کوئی چیز گم ہوگئی ہے؟ میں بھی تلاش کروں؟''

''میں حکیم ہوں''… اس آدمی نے کہا… ''جڑی بوٹیاں ڈھونڈ رہا ہوں، ان کی دوائیاں بنائوں گا''۔

مہدی الحسن نے اس کا چہرہ دیکھ کر پہچان لیا۔ وہ قاہرہ کا حکیم تھا اور خاصی شہرت رکھتا تھا۔ مہدی الحسن نے اس کے اس جواب کو غلط نہ سمجھا کہ وہ جڑی بوٹیاں ڈھونڈ رہا ہے۔ اس علاقے میں جڑی بوٹیاں موجود تھیں۔ حکیم نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیا کررہا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ یہاں سے تھوڑی ہی دور اپنے ایک کنبے کے ساتھ خیمے میں رہتا ہے اور یہاں جانوروں کو چرانے اور پانی پلانے لایاہے۔

''ان بوٹیوں سے آپ کس مرض کی دوائیاں بنائیں گے؟''… مہدی الحسن نے پوچھا۔

''تم کسی مرض کو نہیں سمجھ سکتے''… حکیم نے جواب دیا… ''بعض مرض ایسے ہوتے ہیں کہ مریض کو بھی معلوم نہیں ہوتا کہ اسے کیا ہے''۔

یہ حکیم مشہور تھا۔ دور دور سے اس کے پاس مریض آتے تھے۔ اتفاق سے مہدی الحسن کو یہاں مل گیا۔ یہ انسانی فطرت کی کمزوری ہے کہ انسان پر مرض کا وہم بھی طاری ہوجاتاہے اور انسان بڑی لمبی عمر کا اور ایسی جسمانی طاقت کا متمنی رہتا ہے جو کبھی کم نہ ہو۔ مہدی الحسن کو شاید معمولی سی کوئی تکلیف تھی۔ اس نے اس کا ذکر حکیم سے کیا۔ اس نے نبض پر ہاتھ رکھا، پھر اس کی آنکھوں میں جھانکا اور یوں چونکا جیسے اسے ان آنکھوں میں کوئی عجیب چیز نظر آئی ہو۔ اس نے مہدی الحسن کو سر سے پائوں تک دیکھا۔ حکیم کے چہرے پر حیرت کا تاثر تھا۔

''تم میرے دوا خانے میں آسکتے ہو؟''… حکیم نے پوچھا… ''شہر میں آجائو''۔

''میں بہت غریب آدمی ہوں''… مہدی الحسن نے کہا… ''آپ کو پیسے کہاں سے دوں گا''۔

''تم ابھی میرے ساتھ چلو''… حکیم نے کہا… ''میرا اونٹ ادھر چر رہا ہے، تمہارے پاس بھی اونٹ ہے۔ مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں۔ امیر لوگ بہت پیسے دے جاتے ہیں۔ غریبوں کا علاج مفت کرتا ہوں۔ تمہاری بیماری اس وقت تو معمولی ہے لیکن یہ اچانک بڑھ جائے گی۔ مجھے کوئی اور شک بھی ہے''۔

مہدی الحسن دراصل ڈیوٹی پر تھا۔ معمولی سے مرض کی خاطر وہ ڈیوٹی نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔ اس نے حکیم سے کہا کہ وہ شام کو اس کے دوا خانے میں آئے گا۔ اسے راستہ اور جگہ بتا دے۔ مہدی الحسن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کا دواخانہ کہاں ہے۔ وہ انجان بنا رہا اور حکیم نے اسے سمجھا دیا کہ دواخانہ کہاں ہے۔


٭ ٭ ٭

مہدی الحسن شام کے بعد اس بہروپ میں حکیم کے دواخانے میں چلا گیا۔ اس نے اونٹ ساتھ رکھا تھا تاکہ حکیم کو شک نہ ہو۔ اسے خود حکیم پر کوئی شک نہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ حکیم جڑی بوٹیاں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ اسے فی الواقع خیال پیدا ہوگیا تھا کہ جسے وہ معمولی سی تکلیف سمجھتا ہے، وہ خطرناک بیماری بن سکتی ہے۔ حکیم نے اسے اچھی طرح دیکھا اور کہا… ''میں دوائی دے دیتا ہوں، اگر اس سے افاقہ نہ ہو تو وہ کوئی اور بندوبست کرے گا کیونکہ اسے کوئی اور شک ہے''۔

''مہدی الحسن نے پوچھا اور کیاشک ہے؟''

''اللہ نہ کرے، میرے شک درست ہو''… حکیم نے کہا… ''تم خوبصورت ہو، صحرا میں گھومتے پھرتے رہتے ہو، جس جگہ تم مجھے ملے تھے، وہ جگہ ٹھیک نہیں، وہاں بدروحیں رہتی ہیں۔ ان میں بعض فرعونوں کے وقتوں کی بڑی حسین لڑکیوں کی بدروحیں ہیں۔ انہیں فرعونوں نے زبردستی اپنے پاس رکھا اور عیاشی کا ذریعہ بنایا تھا پھر انہیں مروا ڈالا تھا کیونکہ اس کی جگہ انہیں دوسری لڑکیاں مل گئی تھیں۔روح بوڑھی نہیں ہوتی، ہمیشہ جوان رہتی ہے۔ جن لڑکیوں کو قتل کیاگیا تھا، ان کی روحیں اس سرسبز خطے میں بھٹکتی رہتی ہیں۔ مجھے شک ہے کہ تمہاری شکل وصورت فرعونوں کے دور کے کسی ایسے جوان سے ملتی جلتی ہے جسے اس دور کی کوئی لڑکی چاہتی تھی مگر وہ کسی فرعون کا شکار ہوگئی۔ تم اس جگہ جاتے رہتے ہو۔ اس لڑکی کی بدروح نے تمہیں دیکھ لیا ہے اور تمہاری روح کے ساتھ دل بہلا رہی ہے''۔

''یہ مجھے نقصان تو نہیں پہنچائے گی؟''… مہدی الحسن نے حکیم کی بات سے متاثر ہوکر پوچھا… ''بدروح کی دوستی اچھی تو نہیں ہوتی۔ کیا آپ اس بدروح سے نجات دلا سکتے ہیں؟''

''میرا شک غلط ہوسکتا ہے''… حکیم نے کہا… ''پہلے دوائی دوں گا۔ افاقہ نہ ہوا تو بدروح کا کچھ کروں گا۔ میرے پاس اس کا بھی علاج ہے۔ تعویذ دوں گا، عمل کروں گا، ضرورت پڑی تو اس بدروح کے ساتھ تمہاری ملاقات کرادوں گا۔ بدروح سے نجات حاصل کرنے کا یہ بھی ایک طریقہ ہوتا ہے۔ بدروح کوئی نقصان نہیں پہنچائے گی''۔

مہدی الحسن قابل اور ذہین جاسوس تھا لیکن وہ عالم فاضل نہیں تھا۔ اپنی قوم کے ہر فرد کی طرح جنات، چڑیلوں اور بدروحوں کے وجود پر یقین رکھتا تھا۔ اس نے ان کی جو کہانیاں اور روائتیں سنی تھیں، انہیں سچ مانتا تھا۔ حکیم کا ایک ایک لفظ اس کے دل میں اتر گیا اور اس پر بدروح کا خوف طاری ہوگیا۔ وہ حکیم کے پاس جاسوسی کے لیے نہیں علاج کے لیے ہی گیا تھا۔ حکیم نے اسے تسلی دی کہ وہ کوئی فکر نہ کرے لیکن وہ فکرمند ہوگیا۔ حکیم نے اسے دوائی کی صرف ایک خوراک دی اور کہا کہ رات سونے سے پہلے کھالے۔

جاری ھے



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں