داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 100 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 100


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔100 لڑکی نے اپنی لاش دیکھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
سلطان ایوبی نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور کہا کہ شیخ سنان سے کہو کہ باہر آئے۔ ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی۔
ذرا دیر بعد قلعے کا دوازہ کھلا اور شیخ سنان دو تین سالاروں کے ساتھ باہر آیا۔ سلطان ایوبی اس کے استقبال کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ اس کی نگاہ میں سنان مجرم تھا۔ وہ جب سلطان ایوبی کے سامنے آیا تو سلطان نے اسے اور اس کے سالاروں کو اتنا بھی نہ کہا کہ بیٹھ جائو۔
''سنان!'' سلطان ایوبی نے کہا…… ''کیا چاہتے ہو؟''
''جان امان''۔ شیخ سنان نے شکست خوردہ آواز میں کہا۔
''اور قلعہ؟'' سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''مجھے آپ کا فیصلہ منظور ہوگا''۔
''اپنی فوج کے ساتھ قلعے سے فوراً نکل جائو''۔ سلطان ایوبی نے کہا…… ''تم کوئی سامان اپنے ساتھ نہیں لے جاسکو گے۔ اپنی فوج کو سمیٹو۔ کسی کمان دار اور کسی سپاہی کے پاس کوئی اسلحہ نہ ہو۔ یہاں سے خالی ہاتھ نکلو۔ تہہ خانے میں جو قیدی ہیں، انہیں وہیں رہنے دو اور یاد رکھو، سلطنت اسلامیہ کی حدود میں نہ ٹھہرنا۔ صلیبیوں کے پاس جاکر دم لینا۔ تم نے اب کے جو چار فدائی میرے قتل کے لیے بھیجے تھے وہ بھی مارے گئے ہیں۔ میں نے تمہیں بخش دیا ہے۔ سفید جھنڈا تم نے چڑھایا ہے۔ میں قرآن کے فرمان کا پابند ہوں۔ میں کہہ نہیں سکتا، خداتمہیںمعاف کریگا یا نہیں۔ اپنے آپ کو مسلمان کہنا چھوڑ دو، ورنہ میں تمہیں اور تمہارے فرقے کو بحیرۂ روم میں ڈبو کر دم لوں گا''۔
جب سورج غروب ہورہا تھا، دور افق پر انسانوں کی لمبی قطار سرجھکائے چلی جارہی تھی۔ شیخ سنان اسی قطار میں تھا۔ اس قطار میں اس کے سپاہی اور اس کے سالار بھی تھے اور اس قطار میں اس کے پیشہ ور قاتل بھی تھے۔ وہ اپنے ساتھ کچھ بھی نہیں لے جاسکے تھے۔ ان کے گھوڑے اور اونٹ قلعے میں رکھ لیے گئے۔ سورج غروب ہونے تک سلطان ایوبی کی فوج قلعے پر قبضہ مکمل کرچکی تھی۔ تہہ خانے سے قیدیوں کو نکال لیا گیا تھا۔ قلعے سے جو زروجواہرات برآمد ہوئے تھے، ان کا کوئی شمار نہ تھا۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی نے قلعہ ایک سالار کے حوالے کیا اور رات کو ہی کوہِ سلطان کو روانہ ہوگیا۔ وہ اب زیادہ انتظار نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چند ہی دنوں میں اس نے پیش قدمی کی اور اعزاز کے قلعے کا جا محاصرہ کیا۔ حلب والوں نے اس قلعے کو دفاعی لحاظ سے بہت مستحکم کررکھا تھا۔ یہ دراصل حلب کا دفاع تھا۔ اس میں جو فوج تھی، وہ تازہ دم تھی۔ میدان جنگ میں نہیں گئی تھی۔ سلطان ایوبی کو ایسی خوش فہمی نہیں تھی کہ وہ اس قلعے کو فوراً سر کرلے گا۔ یہ خطرہ بھی تھا کہ عقب سے حلب کی فوج حملہ کردے گی۔ اس خطرے کو روکنے کاانتظام کرلیاگیا تھا۔سلطان ایوبی کو یہ فائدہ حاصل تھا کہ حلب کی فوج ترکمان کی لڑائی سے نقصان اٹھا کر آئی تھی۔ اس کا لڑنے کا جذبہ مجروح ہوچکا تھا۔
قلعہ اعزاز کے دفاع میں لڑنے والوں نے بے جگری سے مقابلہ کیا۔ تمام دن اور ساری رات انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کو قلعے کے قریب نہ آنے دیا۔ دیواریں توڑنے والی پارٹیوں نے بہت کوشش کی کہ کسی جگہ سے دیوار کے قریب چلے جائیں اور دیوار توڑ سکیں لیکن تیراندازوں نے انہیں قریب نہ آنے دیا۔ اگلے دن بڑی منجنیقوں سے قلعے کے دروازے پر وزنی پتھر مارے گئے۔ آتش گیر مادہ کی ہانڈیاں بھی دروازے پر پھینک کر آتشیں تیر چلائے گئے۔ شعلوں نے دروازے کو چاٹنا شروع کردیا۔ اوپر سے اعزاز کے تیر اندازوں نے منجنیقوں کے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوئے لیکن اس قربانی کے بغیر قلعہ سر کرنا ممکن نہیں تھا۔ ایک شہید ہوتا تو دوسرا اس کی جگہ لے لیتا تھا۔
دروازہ جل رہا تھا اور اس پر لگاتار پتھر پڑ رہے تھے۔ بہت دیر بعد پتھر دروازے میں سے اندر جانے لگے۔ شعلوں نے لکڑی کو کھا لیا تھا۔ لوہے کا فریم باقی تھا جو پتھروں سے ٹیڑھا ہورہا تھا۔ رات کو شعلے بجھ گئے، دروازے کا آہنی ڈھانچہ رہ گیا۔ اس میں سے پیادے گزر سکتے تھے، گوڑھے گزارنا مشکل تھا۔ یہاں جانبازی کی ضرورت تھی۔ پیادہ دستوں کو حکم دیا گیا کہ دروازے کے ڈھانچے میں سے گزر کر اندر جائیں۔ یہ سلطان ایوبی کے ''کریک ٹروپس'' تھے۔ انہوں نے ہلہ بول دیا۔ اعزاز کے سپاہیوں نے ان دستوں کا یہ حشر کیا کہ آگے جو گئے تھے، انہیں وہیں ڈھیر کردیا۔ پیچھے والے اپنے ساتھیوں کی لاشوں کے اوپر سے اندر گئے۔
یہ معرکہ بڑاہی خون ریز تھا۔ اس سے یہ فائدہ اٹھایا گیا کہ دروازے کا آہنی ڈھانچہ توڑ لیا گیا جو پیادے زندہ تھے وہ اندر جاکر بکھر گئے اور خوب لڑے۔ پھر گھوڑ سواروں کو اندر جانے کا حکم ملا…… سلطان ایوبی نے قلعے کے اندر آتش زنی کا حکم دے دیا۔ ایک دستہ جگہ جگہ آگ لگانے لگا۔ اعزاز کی فوج ہتھیار ڈالنے پر آمادہ نظر نہیں آتی تھی۔ یہ قلعہ حلب سے نظر آتا تھا۔ رات کو حلب والوں نے دیکھا کہ 
: جہاں قلعہ ہے وہاں سے آسمان سرخ ہورہا ہے۔ شعلے بلند ہورہے تھے۔ یہ اطلاع تو حلب میں پہنچ چکی تھی کہ سلطان ایوبی نے اعزاز کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ حلب کی ہائی کمانڈ نے اس امکان پر بھی غور کیا تھا کہ سلطان ایوبی پر عقب سے حملہ کیا جائے مگر سالاروں نے بتایا کہ فوج لڑنے کے قابل نہیں۔
اس وقت سیف الدین حلب میں ہی تھا اور گمشتگین بھی وہیں چلا گیا تھا۔ ان دونوں کے درمیان اعزاز اور حلب کے دفاع کے سلسلے میں ترش کلامی ہوئی جو اس حد تک بڑھی کہ گمشتگین نے سیف الدین کو قتل کی دھمکی دے دی۔ سیف الدین نے اتحاد توڑ دیا۔ اس کی جو بچی کھچی فوجی تھی وہ حلب سے نکال لے گیا۔ یہ لوگ دراصل ایک دوسرے کے بھی دشمن تھے۔ الملک الصالح کی عمر اب تیرہ برس سے کچھ اوپر ہوگئی تھی۔ وہ سوچنے سمجھنے کے قابل ہوگیا تھا۔ اس نے گمشتگین کا رویہ دیکھا تو اس نے محسوس کرلیا کہ اس کا یہ دوست سازشی ہے۔ اس نے گمشتگین کو قید خانے میں ڈال دیا۔ تاریخ میں تحریر ہے کہ گمشتگین نے ان حالات میں کہ حلب اور اعزاز محاصرے میں تھے۔ الملک الصالح کے خلاف کوئی نئی سازش تیار کی تھی جس کا انکشاف ہوگیا اور اسے قید میں ڈال کر دو تین روز بعد قتل کردیا گیا۔
آخر اعزاز کے محافظوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ سلطان ایوبی کو اس کی بہت بڑی قیمت دینی پڑی۔ اس کے جن دستوں نے قلعے کے اندر معرکہ لڑا تھا ان کی نفری آدھی رہ گئی تھی۔ اعزاز والوں نے ثابت کردیا تھا کہ وہ بزدل نہیں۔ سلطان ایوبی نے فوراً حلب کو محاصرے میں لے لیا۔ حلب قریب ہی تھا۔ حلب کے اندر جذبے کی یہ کیفیت تھی کہ رات اعزاز کے شعلوں نے انہیں دہشت زدہ کردیا تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ان کی فوج میں اتنا دم نہیں رہا کہ شہر کا دفاع کرسکے۔ انہی شہریوں نے کچھ عرصے پہلے سلطان ایوبی کے چھکے چھڑا دئیے تھے اور اسے محاصرہ اٹھانا پڑا تھا مگر اب یہ شہر جیسے مر ہی گیاتھا۔ محاصرے کے دوسرے دن الملک الصالح کا ایک ایلچی سلطان ایوبی کے پاس آیا۔ وہ جو پیغام لایا وہ صلح کی پیش کش نہیں تھی۔ یہ ایک ایسا جذباتی پیغام تھا جس نے سلطان ایوبی کو جھنجھوڑ ڈالا۔ پیغام یہ تھا کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بچی سلطان ایوبی سے ملنا چاہتی ہے۔ اس بچی کا نام شمس النساء تھا۔ یہ الملک الصالح کی چھوٹی بہن تھی۔ عمر دس گیارہ سال تھی۔ الملک الصالح جب دمشق سے حلب گیا تو اپنی بہن کو بھی ساتھ لے گیا تھا۔ا ن کی ماں رضیع خاتون بنت معین الدین (بیوہ نورالدین زنگی) دمشق میں ہی رہی تھی۔ وہ سلطان ایوبی کی حامی تھی۔
سلطان ایوبی نے حلب کے ایلچی کو جواب دیا کہ بچی کو لے آئے۔
بچی آگئی۔ اس کے ساتھ الملک الصالح کے دو سالار تھے۔ سلطان ایوبی نے بچی کو سینے سے لگا لیا اور وہ بہت رویا۔ بچی کے ہاتھ میں الملک الصالح کا تحریری پیغام تھا جس میں اس نے شکست قبول کرلی تھی اور سلطان ایوبی کو سلطان تسلیم کرلیا تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کی اطاعت بھی قبول کرلی تھی۔ اس میں یہ بھی لکھا تھا کہ گمشتگین کو قتل کردیا گیا ہے۔ اس لیے حرن بھی سلطان ایوبی کی ملکیت تصور کیا جائے۔
''تم لوگ بچی کو کیوں ساتھ لائے ہو؟'' سلطان ایوبی نے سالاروں سے پوچھا…… ''یہ پیغام تم خود نہیں لاسکتے تھے؟''
جواب سالاروں کو دینا چاہیے تھا لیکن انہوں نے بچی کی طرف دیکھا۔ بچی نے سلطان ایوبی سے کہا…… ''ماموں جان! مجھے بھائی صالح نے بھیجا ہے۔ آپ اعزاز کا قلعہ ہمیں دے دیں اور ہمیں حلب میں رہنے دیں۔ ہم آئندہ آپ سے لڑائی نہیں کریں گے''۔
: سلطان ایوبی نے بچی کے ساتھ آئے ہوئے سالاروں کو غضب ناک نظروں سے دیکھا۔ وہ شرط منوانے کے لیے زنگی مرحوم کی بچی کو ساتھ لائے تھے۔
''میں اعزاز کا قلعہ اور حلب تمہیں دیتا ہوں شمس النسائ''۔ سلطان ایوبی نے بچی کو گلے لگا کر کہا اور حکم جاری کردیا کہ اعزاز کے قلعے سے اپنی فوج نکال لی جائے اور حلب کامحاصرہ اٹھا لیا جائے۔ اس نے حلب کے سالاروں سے کہا…… ''میں نے اعزاز اور حلب اس معصوم بچی کو دیا ہے۔ تم بزدل، بے غیرت اور ایمان فروش اس قابل بھی نہیں کہ تمہیں فوج میں رہنے دیاجائے''۔
٢٤جون ١١٧٦ء (١٤ ذی الحج ٥٧١ ہجری) معاہدے پر دستخط ہوگئے۔ سلطان ایوبی نے اعزاز اور حلب کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرلیا اور الملک الصالح کو نیم خودمختاری کی حیثیت دے دی۔ اس کے فوراً بعد سیف الدین نے بھی سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی…… اور مسلمانوں کی آپس کی لڑائیوں کا دور ختم ہوگیا مگر قوم میں غدار اور ایمان فروش بدستور سرگرم رہے۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں