داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 99 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 99

 

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔99 لڑکی نے اپنی لاش دیکھی

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

گمشتگین کے لیے خیمہ کھڑا کردیا گیا۔ باقی سب کے لیے الگ الگ خیمے نصب کیے گئے۔ چھاپہ مار اور باڈی گارڈز وغیرہ کھلے آسمان تلے لیٹ گئے۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔ فوراً ہی سوگئے۔ الناصر کو نیند نہیں آرہی تھی۔ وہ سوچ رہا کہ لزا کو خیمے سے جگا لائے یا وہ خود آجائے گی۔ وہ بھول گیاتھا کہ وہ چھاپہ مار ہے اور اس کی فوج کہیں لڑ رہی ہے۔ اسے یہ خیال بھی نہ آیا کہ اسے اپنی فوج میں جانا ہے اور فرار کا یہ موقعہ نہایت اچھا ہے، جب سب بے ہوشی کی نیند سوگئے ہیں، گھوڑے بھی ہیں، ہتھیار بھی ہیں اور خوردونوش کا سامان بھی ہے۔ اس کے ساتھی اسی پر بھروسہ کیے سو گئے تھے۔ وہ اپنے کمانڈر کی ہدایات کے پابند تھے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کاکمانڈر اپنی عقل، اپنا ایمان اور اپنا جذبہ ایک نوجوان لڑکی کے سپرد کرچکا ہے۔ عورت اپنی تمام تر تباہ کاری کے ساتھ اس کے اعصاب پر سوار ہوچکی تھی۔

اسے ایک سایہ چلتا نظر آیا جو کسی مرد کا نہیں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ اٹھ کر بیٹھا، پائوں پر سرکا اور سوئے ہوئے ساتھیوں سے دور ہٹ گیا۔ سایہ ادھر ہی آرہا تھا۔ ذرا دیر بعد دو سائے ایک دوسرے میں جذب ہوگئے۔ لزا الناصر کو سوئے ہوئے قافلے سے کچھ دور ایک ٹیلے کی اوٹ میں لے گئی۔ اس رات وہ پہلے سے زیادہ جذباتی معلوم ہوتی تھی۔ الناصر کی جذباتی کیفیت میں دیوانگی آگئی تھی۔ لزا جذباتیت کا اظہار زبان سے کم اور حرکات سے زیادہ کررہی تھی۔ اس نے اچانک پرے ہٹ کر کہا…… ''الناصر! ایک بات بتائو، تمہاری زندگی میں کبھی کوئی عورت داخل ہوئی ہے؟''

''ماں اور بہن کے سوا، میں نے کسی عورت کو کبھی ہاتھ نہیں لگایا''…… الناصر نے جواب دیا…… ''تم نے میری زندگی دیکھ لی ہے۔ میں نوجوانی میں نورالدین زنگی کی فوج میں شامل ہوگیا تھا، جہاں تک یادیں پیچھے جاتی ہیں، میں اپنے آپ کو میدان جنگ میں، ریگستان میں، اپنے ساتھیوں سے دور دشمن کے علاقوں میں خون بہاتا اور بھیڑیوں کی طرح شکار کی تلاش میں پھرتا دیکھتا ہوں۔ میں جہاں بھی ہوتا ہوں، اپنے فرض سے کوتاہی نہیں کرتا۔ میرا فرض میرا ایمان ہے''…… وہ چونک اٹھا۔ ذرا سی دیر کچھ سوچ کر اس نے پوچھا…… ''لزا، تم نے شاید میرے ایمان کی بنیاد ہلا دی ہے۔ مجھے بتائو تم لوگ مجھے اور میرے ساتھیوں کو کہاں لے جارہے ہو''۔

''مجھے یہ بتائو کہ تمہارے دل میں میری محبت ہے یا مجھے دیکھ کر تم حیوان بن جاتے ہو؟''…… لزا نے ایسے لہجے میں پوچھا جس میں پیار اور مذاق کی ہلکی سی بھی جھلک نہیں تھی۔ اس کا انداز گزشتہ رات کی نسبت بدلا ہوا تھا۔

''تم نے مجھے کہا تھا کہ محبت کو ناپاک نہ کرنا''…… الناصر نے کہا…… ''میں تم پر ثابت کروں گا کہ میں حیوان نہیں۔ تم مجھے یہ بتائو کہ تمہاری قوم میں ایک سے ایک بڑھ کر خوبرو، جنگجو، تنومند اور اونچے رتبے والا مرد موجود ہے۔ تم کسی بادشاہ کے سامنے چلی جائو تو وہ تخت سے اتر کر تمہارا استقبال کرے گا پھر تم نے مجھ میں کیا دیکھا ہے؟''

لزا نے کوئی جواب نہ دیا۔ الناصر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا…… ''مجھے جواب دو لزا''…… لزا نے سرگھٹنوں پر رکھ دیا۔ الناصر کو اس کی سسکیاں سنائی دیں۔ وہ پریشان ہوگیا۔ اس نے بار بار اس سے پوچھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ وہ روتی رہی۔ الناصر نے اسے اپنے بازوئوں میں لے لیا تو لزا نے سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔ الناصر سمجھ نہ سکا کہ جس طرح اس کی اپنی ذات سے انسانی فطرت کی بنیادی کمزوری ابھر کر اس کی عقل پر غالب آگئی تھی، اسی طرح لزا بھی ایک کمزوری کی گرفت میں آگئی تھی۔ یہ وہ کمزوری تھی جو ملکہ کو اپنے غلام کے آگے جھکا دیتی ہے اور جو دولت کے انبار کو پتھروں کا ڈھیر سمجھ کر اپنے دل کی تسکین کے لیے کسی کٹیا میں جابیٹھتی ہے۔ لزا محبت کی پیاسی تھی۔ وہ محبت جو روح کو مطمئن کردے۔ اسے جسمانی محبت ملی تھی اور ان مردوں سے ملی تھی جن سے اسے نفرت تھی۔ اس نے عصیات کے قلعے کی طرف جاتے ہوئے اور قلعے میں پہنچ کر بھی تھیریسیا کے آگے اپنے جذبات کا اظہار کردیا تھا۔ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر الناصر کے پاس جابیٹھی تھی اور اسے کہا تھا…… ''مجھ پر بھروسہ کرنا''…… اس وقت اس کے دل میں کوئی فریب کاری نہیں تھی۔ یہ اس کے دل کی آواز تھی۔ وہ اپنی روح کی رہنمائی میں الناصر کے پاس چلی گئی تھی۔ اگر اسے تھیریسیا وہاں سے اٹھا نہ لے جاتی تو لزا نہ جانے الناصر سے اور کیا کچھ کہتی۔

پھر اسے الناصر کو پھانسنے کو کہا گیا۔ اس نے یہ کمال بھی کردکھایا مگر اس کا دل ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ یہ اس کا فرض تھا جو اس نے ادا کیا تھا۔ وہ اپنے دل اور فرض کے درمیان بھٹک گئی تھی۔ الناصر کو معلوم نہیں تھا کہ تھوڑی دیر پہلے جب قافلہ رکا تو خیمے نصب کیے جارہے تھے : تو گمشتگین نے لزا کے کان میں کہا تھا…… ''سب سو جائیں تو میرے خیمے میں آجانا، تمہاری قوم کی بھیجی ہوئی بہترین شراب پیش کروں گا۔ تمہیں بڑی استادی سے شیخ سنان سے بچا کر لایا ہوں''۔

لزا نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ اس سے ہٹی تو صلیبی نے اسے کہا…… ''خدا نے تمہیں اس بوڑھے درندے سے بچا لیا ہے۔ تھیریسیا سوجائے تو میرے خیمے میں آجانا۔ جشن منائیں گے''۔

لزا کو اپنی خوبصورتی اور اپنے جسم سے نفرت ہونے لگی۔ وہ اپنے خیمے میں چلی گئی تھی۔ تھیریسیا سو گئی۔ لزا کی آنکھ نہ لگی۔ وہ اٹھی اور دبے پائوں الناصر کی طرف چل پڑی۔ الناصر اسی کے خیال اور انتظار میں جاگ رہا تھا۔

وہ الناصر کو کوئی جواب دینے ہی لگی تھی کہ الناصر نے چونک کر کہا…… ''سنو، تمہیں کوئی آہٹ سنائی دے رہی ہے؟ ……گھوڑے آرہے ہیں''۔

''دھمک بڑی صاف ہے''…… لزا نے کہا…… ''سب کو جگا دیں۔ شیخ سنان نے ہمارے تعاقب میں سپاہی بھیجے ہوں گے''۔

الناصر دوڑ کر ٹیلے پر چڑھ گیا۔ اسے بہت سے مشعلیں نظر آئیں جو گھوڑوں کی چال کے ساتھ اوپر نیچے، اوپر نیچے ہورہی تھیں۔ گھوڑوں کے قدموں کی آوازیں بلند ہوتی جارہی تھیں۔ الناصر دوڑتا نیچے آیا، لزا کو اپنے ساتھ لیااور سوئے ہوئے قافلے کی طرف دوڑا۔ سب کو جگا دیا۔ اس نے اپنے چھاپہ ماروں کو ساتھ لیا اور ٹیلے کے قریب لے گیا۔ لزا کو اپنے ساتھ رکھا۔ سب کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں۔ گمشتگین کے باڈی گارڈ اور شتربان بھی برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہوکر مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔ وہ پندرہ سولہ سوار تھے۔ چھ سات کے ہاتھوں میں مشعلیں تھیں۔ انہوں نے آتے ہی قافلے کو گھیرے میں لے لیا۔ ایک نے للکار کر کہا…… ''دونوں لڑکیاں ہمارے حوالے کردو۔ شیخ سنان نے کہا ہے کہ دونوں لڑکیاں دے دو گے تو خیریت سے جاسکو گے''۔

الناصر تجربہ کار چھاپہ مار تھا۔ اس نے اپنے چھاپہ مار پہلے ہی گھیرے سے دور کرکے چھپالیے تھے۔ اس نے اشارہ کیا اور وہ تین چھاپہ ماروں کے ساتھ ان سواروں پر ٹوٹ پڑا جو اس کے سامنے تھے۔ چھاپہ ماروں نے پیچھے سے برچھیاں ان کے جسموں میں داخل کردیں…… سوار گرے تو الناصر نے اپنے ساتھیوں سے بلند آواز سے کہا…… ''ان کے گھوڑوں پر سوار ہوجائو''…… ایک گھوڑا اس نے پکڑ لیا۔ اس پر سوار ہوا تو اپنے پیچھے لزا کو بٹھا لیا۔ اسے کہا کہ بازو مضبوطی سے اس کی کمر کے گرد لپیٹ لے۔

سنان کے فدائیوں نے ہلہ بول دیا۔ انہوں نے مشعلیں پھینک دی تھیں۔ یہ جلتی رہیں۔ الناصر اور اس کے چھاپہ ماروں نے بہت مقابلہ کیا۔ ایک گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی آواز آئی جو دور ہٹتی گئی۔ وہ گمشتگین تھا جو جان بچا کر بھاگ گیا تھا۔ فدائیوں نے الناصر کے گھوڑے پر لڑکی دیکھ لی تھی۔ اسے وہ زندہ پکڑنے کی کوشش کررہے تھے۔ تین تین چار چار گھوڑے اسے گھیرے میں لیتے اور سوار برچھیوں سے اس کے گھوڑے کو زخمی کرنے کے لیے برچھیوں کے وار کرتے تھے۔ الناصر تجربہ کار لڑاکا سوار تھا۔ اس نے اپنے گھوڑے کو بچائے رکھا اور دو فدائی گرا لیے۔ اسے دوڑتا گھوڑا یکلخت روکنا اور تیزی سے موڑنا پڑتا تھا۔لزا کے پائو رکابوں میں نہیں تھا۔ ایک بار الناصر کو گھوڑا تیزرفتار پر ہی موڑنا پڑا۔ لزا سنبھل نہ سکی اور گر پڑی۔

فدائی گھوڑوں سے کود آئے۔ لزا الناصر کی طرف دوڑی لیکن دو فدائیوں نے اسے پکڑ لیا۔ الناصر نے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور برچھی تانی۔ فدائیوں نے لزا کو آگے کردیا۔ الناصر کو اپنے ساتھیوں کے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔ اسے بھاگتے دوڑتے گھوڑوں کی اور برچھیاں اور تلواریں ٹکرانے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ تین چار فدائیوں میں اکیلا تھا۔ اس کا ہر وار خالی جارہا تھا کیونکہ وہ ان کے قریب آتا تھا تو فدائی لزا کو آگے کردیتے تھے۔ آخر وہ بھی گھوڑے سے کود گیا۔ بے جگری سے لڑا۔ زخمی ہوا اور اس نے دو فدائیوں کو گرالیا۔ اس نے ایک بار چلا کر کہا…… ''خاموش رہو لزا۔ یہ تمہیں نہیں لے جاسکیں گے''۔

الناصر نے یہ کرکے بھی دکھا دیا کہ فدائی لزا کو نہ لے جاسکے۔ اس نے فدائیوں کو بری طرح زخمی کرکے پھینک دیا۔ اس معرکے میں وہ قیام گاہ سے دور ہٹ گئے تھے۔ الناصر نے ایک گھوڑا پکڑا۔ لزا کو اس پر سوار کیا۔ خود اس کے پیچھے سوار ہوا اور گھوڑے کو ایڑی لگا دی لیکن بھاگا نہیں۔ معرکہ خاموش ہوگیا تھا۔ اس نے جاکر دیکھا۔ وہاں صرف لاشیں تھیں اور دو تین فدائی زخموں سے تڑپ رہے تھے۔ اس کے تینوں ساتھی مارے گئے تھے۔ صلیبی بھی مرا پڑا تھا۔ تھیریسیا لاپتہ تھی۔ الناصر نے زیادہ انتظار نہ کیا۔ آسمان کی طرف دیکھا۔ قطبی ستارے کا اندازہ کیا اور گھوڑے کو اس رخ پر ڈال دیا۔ بہت دور جاکر اس نے گھوڑاروک لیا۔

''اب بتائو تم کہاں جانا چاہتی ہو''…… اس نے لزا سے پوچھا……''میں تمہیں صرف اس لیے اپنے ساتھ نہیں لے جائوں گا کہ تم تنہا رہ گئی ہو اور مجبور ہو۔ کہو تو تمہیں تمہارے علاقے میں لے چلتا ہوں۔ قید ہوگیا تو پروا نہیں کروں گا۔ تم امانت ہو''۔

''

'اپنے ساتھ لے چلو''…… لزا نے کہا…… ''الناصر! مجھے اپنی پناہ میں لے لو''۔

گھوڑا رات بھر چلتا رہا۔ صبح طلوع ہوئی تو الناصر نے علاقہ پہچان لیا۔ یہیں کہیں اس نے ایک بار اپنے جیش کے ساتھ شب خون مارا تھا۔ الناصر کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے۔ دونوں نے گھوڑے سے اتر کر پانی پیا۔ گھوڑے کو پانی پلایا۔ الناصر نے زخم دیکھے، کوئی زخم گہرا نہیں تھا۔ خون رک گیا تھا۔ اس نے اس ڈر سے زخم نہ دھوئے کہ خون جاری ہوجائے گا۔ لزا ٹہلتی ٹہلتی ایک طرف نکل گئی۔ الناصر اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے چٹان کے دوسری طرف گیا۔ لزا بیٹھی ہوئی تھی۔ الناصر کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ وہاں ہڈیاں بکھری ہوئی تھیں جو انسانوں کی معلوم ہوتی تھیں۔ کھونپڑیاں تھیں، پسلیوں کے پنجر تھے، ہاتھوں، ٹانگوں اور بازوئوں کی ہڈیاں بھی تھیں۔ ان کے درمیان تلواریں اور برچھیاں پڑی تھیں۔

لزا ایک کھونپڑی کو سامنے رکھے بیٹھی تھی۔ کسی عورت کی کھونپڑی معلوم ہوتی تھی۔ چہرے پر کہیں کہیں کھال تھی۔ سر کے لمبے لمبے بال کچھ سر کے ساتھ تھے۔ باقی ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔ سینے کا پنجرہ کھال کے بغیر تھا۔ پسلیوں میں ایک خنجر اترا ہوا تھا۔ گلے کی ہڈی پر سونے کا ہار پڑا تھا۔ اس پنجرے کے اردگرد چیتھڑے پڑے تھے جو ریشمی کپڑے کے تھے…… الناصر آہستہ آہستہ چلتا لزا کے پیچھے جاکھڑا ہوا۔ لزا کھونپڑی میں کھوگئی تھی۔ اچانک اس نے اپنے دونوں ہاتھ کانوں پر رکھے اور بڑی ہی زور سے چیخ ماری۔ وہ تیزی سے اٹھ کر گھومی۔ الناصر نے اسے بازوئوں میں لے کر سینے سے لگا لیا۔ لزا نے اپنا چہرہ الناصر کے سینے میں چھپا لیا۔ اس کا جسم تھرتھر کانپ رہا تھا۔ الناصر اسے چشمے تک لے گیا۔

٭ ٭ ٭

جب وہ اپنے آپ میں آئی تو الناصر نے اس سے پوچھا کہ اس نے چیخ کیوں ماری تھی؟

''مجھے اپنا انجام نظر آگیا تھا''۔ لزا نے اداس لہجے میں کہا…… ''تم نے وہ خشک لاش دیکھی ہوگی۔ کسی عورت کی ہے۔ یہ کوئی مجھ جیسی ہوگی۔اس نے میری طرح حسن کے جادو چلائے ہوںگے۔ ہر کسی کے لیے سہانا فریب بنی رہی ہوگی اور کہتی ہوگی کہ اس کے حسن کو زوال نہیں اور وہ سدا جوان اور ہمیشہ زندہرہے گی۔ تم نے اس کی پسلیوں کے پنجرے میں خنجر پھنسا ہوا دیکھا ہے؟ گلے میں ہار دیکھا ہے؟ یہ ہار اور یہ خنجر جو کہانی سناتے ہیں، وہ میری کہانی ہے اور دوسری جو کھونپڑیاں بکھری پڑی ہیں اور ان کے ساتھ جو تلواریں اور برچھیاں پڑی ہیں وہ سو بار سنی ہوئی کہانی سناتی ہیں۔ میں نے یہ کبھی توجہ سے نہیں سنی تھی۔ آج اس عورت کی کھونپڑی دیکھی تو مجھے یوں نظر آیا جیسے یہ میری اپنی کھونپڑی ہو۔ اس خشک کھونپڑی پر گوشت چڑھ گیا تو میرا چہرہ بن گیا۔ میں نے ایک گدھ کو دیکھا جو میرے چہرے سے آنکھیں نکال رہا تھا۔ ایک بھیڑیئے کو دیکھا جو میرے گلابی گالوں کو نوچ رہا تھا۔ ان مردار خوروں نے میرا چہرہ کھا لیا اور پیچھے کھونپڑی رہ گئی۔ مجھے ایسے نظر آیا جیسے کھونپڑی کے جبڑے اور خوفناک دانت ہل رہے ہوں۔ مجھے آواز سنائی دی''…… ''یہ ہے تمہارا انجام''…… اور میرے دل کو کسی خوفناک چیز نے دانتوں میں جکڑ لیا''۔

''کچھ دنوں بعد وہاں جاکر دیکھنا، جہاں ہم پر فدائیوں نے حملہ کیا تھا''…… الناصر نے کہا…… ''وہاں بھی تمہیں یہی منظر نظر آئے گا۔ لاشوں کے پنجر، کھونپڑیاں، تلواریں اور برچھیاں اور شاید ان سے کچھ دور تھیریسیا کی کھونپڑی بھی پڑی مل جائے۔ اس کے سینے میں بھی خنجر اترا ہوا ہوگا۔وہ سب عورت کے لیے مرے ہیں۔ یہ سب بھی عورت کے لیے مرے ہیں''۔

''اگر میں نے اپنی روش نہ چھوڑی تو ایک روز صحرا میں گدھ اور بھیڑئیے میرے اس جسم کا گوشت نوچ رہے ہوں گے جس پر مجھے ناز ہے اور جسے حاصل کرنے کے لیے کوئی جان پیش کرتا ہے، کوئی دولت''…… لزا نے کہا…… ''مگر انسان عبرت حاصل نہیںکرتا۔ ان کی تباہی اور بربادی نہیں دیکھتا جو اس سے پہلے اس زمین پر اپنے اوپر حسن، دولت اور جسمانی طاقت کا نشہ طاری کرکے تکبر اور غرور سے چلتے پھرتے تھے…… میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے۔ اپنی اصلیت جان لی ہے۔ تم بھی سن لو الناصر! خدا نے تمہیں مردوں کی طاقت اور مردانہ حسن دیا ہے۔ تمہیں جو عورت دیکھے گی، وہ تمہارے قریب آنے کی خواہش کرے گی، دیکھ لو۔ تم بھی جاکر اپنا انجام دیکھ لو''۔

: وہ ایسے انداز سے بول رہی تھی جیسے اس پر آسیب کا اثر ہو۔ اس کی شوخیاں اور فریب کاریاں ختم ہوچکی تھیں۔ وہ کسی تارک الدنیا فقیر کے لہجے میں بول رہی تھی۔

''میں تمہیں اپنی اصلیت بتا دوں؟'' اس نے الناصر سے پوچھا…… ''میں تمہیں دکھا دوں کہ میری پسلیوں کے پنجرے میں کیا ہے؟''۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا اور چپ ہوگئی۔ اس کا ہاتھ سونے کے اس ہار پر جالگاتھا جس میں جواہرات بھی تھے۔ اس نے ہار کو مٹھی میں لیا۔ زور سے جھٹکا دیا۔ ہار ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آگیا۔ اس نے ہار چشمے میں پھینک دیا۔ انگلیوں سے انگوٹھیاں اتاریں جن میں ہیرے جڑے ہوئے تھے۔ یہ بھی چشمے میں پھینک دئیے۔ کہنے لگی…… ''میں ایک فریب ہوں الناصر! میں نے تمہیں بھی فریب دیا تھا…… میرے دل میں تمہاری محبت بھی پیدا ہوگئی تھی مگر اس پر میرے فرض کی بدروح کا بھی اثر تھا۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ فدائیوں نے ہم پر حملہ کردیا اور یہ اور زیادہ اچھا ہوا کہ میں نے اپنی زندگی میں اپنی کھونپڑی دیکھ لی، ورنہ میں بتا نہیں سکتی کہ جہاں ہم تمہیں لے جارہے تھے، وہاں تم پر کیا روپ چڑھا دیا جاتا، میری محبت کا کیا حشر ہوتا۔ تم ایک بہت بڑے فریب کا شکار ہونے جارہے تھے۔ میں اب جھوٹ نہیں بولوں گی۔ تمہیں اس مقصد کے لیے لے جایا جارہا تھا کہ میں اپنی خوبصورتی اور محبت کے جھانسے سے تمہاری عقل پر قبضہ کرلو اور تمہارے ہاتھوں صلاح الدین ایوبی کو قتل کرایا جائے۔ گمشتگین قلعہ عصیات میں اس لیے گیا تھا کہ شیخ سنان اسے صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے کرائے کے قاتل دے دے۔ سنان نے بتایا کہ اس نے چار فدائی بھیج رکھے ہیں۔ اگر یہ بھی ناکام ہوگئے تو وہ آئندہ ا س کام کے لیے کوئی فدائی نہیں بھیجے گا کیونکہ وہ بہت سے کارآمد فدائی ضائع کرچکا ہے۔ آخر یہ سودا طے ہوا کہ گمشتگین تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو اپنے ساتھ لے جائے اور سیف الدین کے قتل کے لیے تیار کرے۔ اتنے میں ہمارا افسر آگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ایوبی کا قتل ضروری ہے''۔

''یہ کبھی ممکن نہیں ہوسکتا کہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے سائے کو بھی میلی نگاہ سے دیکھوں''…… الناصر نے کہا…… ''دنیا کی کوئی طاقت مجھے اتنا بے عقل نہیں بنا سکتی''۔

لزا ہنس پڑی، کہنے لگی…… ''میں نے دل سے اپنے فرائض کو قبول نہیں کیا، ورنہ ہم فولاد کو بھی پانی بنا دیا کرتی ہیں''۔ اس نے الناصر کو تفصیل سے بتایا کہ اس کے فرائض اور جذبات میں کتنا تضاد ہے۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ سیف الدین کے پاس رہی ہے۔ اس نے پوچھا…… ''کیا تم مجھ جیسی ناپاک لڑکی کو قبول کرلو گے؟۔ میں سچے دل سے اسلام قبول کرلوں گی''۔

''اگر تم نے سچے دل سے توبہ کرلی ہے تو میرے لیے یہ گناہ ہوگا کہ میں تمہیں قبول نہ کروں''۔ الناصر نے کہا…… ''لیکن سلطان صلاح الدین ایوبی کی اجازت کے بغیر میں کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔ دل سے بوجھ اتار دو۔ اگرتم پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہو تو ایسی زندگی تمہیں صرف ہمارے مذہب میں ملے گی''۔ اس نے پوچھا…… ''کیا تمہیں معلوم ہے کہ جو فدائی ہمارے سلطان کے قتل کے لیے گئے ہیں وہ کس بھیس میں گئے ہیں اور قاتلانہ حملہ کس طرح کریں گے؟''

''کچھ علم نہیں''۔ لزا نے جواب دیا…… ''میرے سامنے اس سے زیادہ کوئی بات نہیں ہوئی کہ چار فدائی بھیجے گئے ہیں''۔

''ہمیں اڑ کر ترکمان پہنچنا ہوگا''۔ الناصر نے کہا…… ''مجھے سلطان اور اس کے محافظوں کو خبردار کرنا ہے''۔

اس نے لزا کو اپنے آگے گھوڑے پر بٹھا لیا اور ایڑی لگا دی۔ اتنی حسین لڑکی اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ اس کے ریشم جیسے بال اس کے گالوں میں لہرا رہے تھے مگر اس کے ذہن میں سلطان ایوبی سما گیا تھا۔ فرض نے اس کے جذبات کو سلا دیا تھا۔ مقصد نے اسے مرد میدان اور انسان کامل بنا دیا تھا…… اور لزا کی تو جیسے روح ہی بدل گئی تھی۔ وہ اس قوی اور تنو مند جوان کے قبضے میں اور اس کے رحم وکرم پر تھی لیکن اسے جیسے احساس ہی نہیں تھا کہ وہ مرد ہے اوریہ ایک نوجوان لڑکی۔ اگر کوئی واعظ برسوں وعظ سناتا رہتا تو لزا پر کچھ اثر نہ ہوتا۔ الناصر نے خاموش زبان سے یہ حقیقت اس کے دل میں اتار دی کہ وہ پاکیزہ زندگی بسر کرنا چاہتی ہے تو ایسی زندگی اسے اسلام میں ملے گی۔

٭ ٭ ٭

سلطان صلاح الدین ایوبی کو قلعہ اعزاز کے قلعہ دار کا جواب آگ بگولہ کیے ہوئے تھا۔ اسے یہ قلعہ سرکرنا تھا اور فوراً بعد حلب کو محاصرے میں لے کر یہ شہر لینا تھا۔ اسے بوزا اور منبج کے دو قلعے لڑے بغیر مل گئے تھے۔ ان میں جو دستے تھے انہیں اس نے اپنی فوج میں شامل کرکے ان کی جگہ اپنے دستے بھیج دئیے تھے اور وہ اعزاز اور حلب کی طرف پیش قدمی کی سکیم بنا رہا تھا۔ اس نے حسب معمول دیکھ بھال کے لیے اپنے فوجی اس علاقے میں بھیج رکھے تھے جہاں اسے آگے بڑھنا اورمحاصرہ کرنا تھا۔ جاسوسوں نے اسے حلب اور اعزاز کے دفاعی انتظامات بتا دئیے تھے۔ سلطان ایوبی خود بھی آگے چلا جاتا تھا اور اپنی آنکھوں زمین کے خدوخال اور دیگر جنگی کوائف کا جائزہ لیتا تھا۔ ایسے دوروں کے دوران وہ اپنا جھنڈا ساتھ نہیں رکھتا تھاا ور اپنے محافظوں (باڈی گارڈز) کو بھی ساتھ نہیں لے جاتا تھا، تاکہ دشمن کو پتہ نہ چل سکے کہ یہ صلاح الدین ایوبی ہے۔ وہ گھوڑا بھی کسی دوسرے کا استعمال کرتا تھا۔ اس کے گھوڑے کو جس کے سفید رنگ پر کہیں کہیں گہرے لال دھبے تھے، دشمن کے سالار پہچانتے تھے۔

اسے کہا گیا تھا کہ وہ محافظوں کے بغیر اتنی دور نہ نکل جایا کرے لیکن اس نے اپنی حفاظت کی کبھی پروا نہیں کی تھی۔ اب تو اس پر جنون سا طاری تھا۔ وہ اپنے مسلمان دشمنو ںکو ناکوں چنے چبوا چکا تھا۔ان کے تابوت میں آخری کیل گاڑنی رہ گئی تھی۔ وہ علاقہ ایسا تھا کہ چٹانیں اور ٹیلے بھی تھے اور کہیں کہیں درختوں کے جھنڈ بھی۔ کچھ حصے میں گہرے کھڈ بھی تھے۔ ایسے علاقے میں سلطان ایوبی کامحافظوں کے بغیر گھومنا پھرنا خطرناک تھا۔

''سلطانِ محترم!'' اس کی انٹیلی جنس کے سربراہ حسن بن عبداللہ نے ایک روز اسے جھنجھلا کر کہا۔ ''خدانخواستہ آپ پر قاتلانہ حملہ کامیاب ہوگیا تو سلطنت اسلامیہ آپ جیسا کوئی دوسرا پاسبان پیدا نہیں کرسکے گی۔ ہم قوم کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ آنے والی نسلیں ہماری قبروں پر لعنت بھیجیں گے کہ ہم آپ کی حفاظت نہ کرسکے تھے''۔

''اگر خدا کو یہی منظور ہے کہ مجھے کسی فدائی یا صلیبی کے ہاتھوں قتل ہونا ہے تو میں ایسی موت کو کیسے روک سکتا ہوں''…… سلطان ایوبی نے کہا…… ''بادشاہ جب اپنی جان کی حفاظت میں مگن ہوجاتے ہیں تو وہ ملک اور قوم کی آبرو کی حفاظت کے قابل نہیں رہتے۔ اگر مجھے قتل ہونا ہے تو مجھے اپنا فرض جلدی جلدی ادا کرلینے دو۔ مجھے محافظوں کا قیدی نہ بتائو۔ مجھ پر بادشاہی کا نشہ طاری نہ کرو۔ تم جانتے ہو، مجھ پر کتنے قاتلانہ حملے ہوچکے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ہر بار بچا لیا ہے۔ اب بھی بچا لے گا''۔

اس کا ذاتی عملہ اس کی سلامتی کے لیے پریشان رہتا تھا۔ پچھلی کہانیوں میں وہ تمام قاتلانہ حملے بیان کیے گئے ہیں جو اس پر ہوئے تھے۔ ہر حملے کے وقت وہ اکیلا تھا لیکن اس کا محافظ دستہ قریب ہی تھا جو ہر بار وہاں پہنچ گیا۔ اب سلطان ایوبی نے یہ طریقہ اختیار کرلیا تھا کہ وہ اپنے ذاتی عملے اور محافظوں کو کسی جگہ کھڑا کرکے خود ٹیلوں اور چٹانوں میں غائب ہوجاتا تھا۔ حسن بن عبداللہ نے یہ انتظام کررکھا تھا کہ محافظ دستے کے چند ایک آدمی دور دور رہ کر سلطان ایوبی پر نظر رکھتے تھے۔ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ بہت دنوں سے چار آدمی ویرانوں میں گھوم پھر رہے ہیں اور وہ سلطان ایوبی پر نظر رکھتے ہیں۔

: یہی وہ چار فدائی تھے جن کے متعلق قلعہ عصیات میں شیخ سنان نے گمشتگین کو بتایا تھا کہ سلطان ایوبی کے قتل کے لیے بھیجے گئے ہیں۔ ان چاروں نے دیکھ لیا تھا کہ سلطان ایوبی، محافظوں کے بغیر گھومتا پھرتا رہتاہے۔ چنانچہ انہوں نے یہ منصوبہ ترک کردیا تھا کہ جنگ زدہ علاقے کے پناہ گزینوں کے روپ میں سلطان ایوبی کے پاس جائیں گے اور اسے قتل کردیں گے۔ سلطان ایوبی انہیں بڑا اچھا موقعہ دے رہا تھا۔  ان چار فدائیوں کی سکیم اچھی تھی۔ ان کی کمزوری یہ تھی کہ وہ اپنے ساتھ تیروکمان نہیں لائے تھے کیونکہ پکڑے جانے کا خطرہ تھا۔ اگرا ن کے پاس ایک بھی کمان ہوتی تو وہ کسی بھی جگہ چھپ کر سلطان ایوبی کو نشانہ بنا سکتے تھے، وہاں چھپنے کی جگہیں بہت تھیں۔ آسانی سے فرار ہوا جاسکتا تھا۔ ان کے پاس لمبے خنجرتھے۔

ادھر سے الناصر لزا کو گھوڑے پر بٹھائے تیزی سے آرہا تھا۔ لزا نے اسے بتا دیا تھا کہ چار فدائی سلطان ایوبی کے قتل کے لیے گئے ہوئے ہیں۔ الناصر بہت جلدی سلطان ایوبی تک پہنچنا اور اسے خبردار کرنا چاہتا تھا مگر سفر لمبا تھا اور گھوڑے پر دو سواروں کا بوجھ تھا۔گھوڑااتنی لمبی مسافت دوڑتے ہوئے طے نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے راستے میں گھوڑے کو آرام دیا۔ پانی پلایااور پھر چل پڑا۔ ادھر سلطان ایوبی اپنی حفاظت سے بالکل ہی بے نیاز ہوگیا تھا اور چارفدائی چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ اس علاقے میں کوئی فوج نہیں تھی۔ کوئی آبادی بھی نہیں تھی۔ فدائی جنگ کے درندوں کی طرح شکار کی تلاش میں رہتے اور رات وہیں گزار لیتے تھے۔

سورج غروب ہوگیا۔ الناصر اور لزاکا گھوڑا چلتا رہا۔ اس کی چال بتا رہی تھی کہ اس کی رفتار کم ہوگی، بڑھے گی نہیں۔ الناصر نے بوجھ کم کرنے کے لیے گھوڑے سے چھلانگ لگا دی اور لگام پکڑ کر پیدل چلنے لگا۔ رات گزرتی جارہی تھی۔ لزا نے الناصر سے تین چار بار کہا کہ وہ اور زیادہ سواری نہیں کرسکتی۔ اس کی ہڈیاں بھی دکھنے لگی تھیں۔ وہ کچھ دیر آرام کرنا چاہتی تھی لیکن الناصر جو خود تھکن، پیاس اور بھوک سے بے حال ہوا جارہا تھا، نہ رکا۔ اس نے لزا سے کہا…… ''تمہاری اور میری جان سے سلطان صلاح الدین ایوبی بہت زیادہ قیمتی ہے، اگر میں رک گیا اور سلطان ایوبی قتل ہوگیا تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے سلطان کا قاتل ہوں''۔

صبح طلوع ہوئی۔ الناصر اب قدم گھسیٹ رہا تھا۔ لزاگھوڑے پر سر رکھے سوئی ہوئی تھی۔ گھوڑا معمولی سی چال چل رہا تھا۔ ایک جگہ پانی اور گھاس دیکھ کر گھوڑا رک گیا۔ لزا نے نیند سے چونک کر کہا…… ''خدا کے لیے اسے مت گھسیٹو۔ اسے ذرا کھا پی لینے دو''…… گھوڑے نے پانی پی لیا تو الناصر اس کی لگام پکڑ کر چل پڑا۔ گھوڑا دوڑنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ الناصر بھی تھک ہار کر سوار ہوگیا۔ لزا کا رنگ پیلا پڑ چکا تھا۔ اس کے منہ سے بات بھی نہیں نکلتی تھی۔ الناصر کو یہ تو معلوم ہی نہیں تھا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوگا۔ وہ ترکمان کو جارہا تھا۔ سلطان ایوبی آگے چلا گیا تھا جسے بعد میں کوہ سلطان کا نام دیا گیا تھا مگر وہ اب وہاں بھی نہیں تھا۔ اس مقام سے بھی آگے چلا گیا تھا۔ الناصر کو ترکمان اور کوہِ سلطان کی چٹانیں نظر آنے لگی تھیں اور وہ سوچ رہا تھا کہ کس طرف سے جائے۔ سورج بہت اوپر آگیاتھا۔

اس وقت سلطان ایوبی ایک چٹانی ویرانے میں اپنے عملے کے ساتھ وہاں کا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے عملے کو ایک جگہ رکنے کو کہا اور اکیلا ہی ایک طرف نکل گیا۔ اس کے ذہن میں شاید اپنی فوج کی پیش قدمی کی کوئی سکیم تھی۔ گھوڑے سے اتر کر وہ ایک چٹان پر چڑھ گیا۔ چاروں فدائی اس چٹان سے تھوڑی ہی دور ایک جگہ چھپ کر اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ کچھ دیر اوپر کھڑا ادھر ادھر دیکھتارہا۔

''نیچے آنے دو''۔ ایک فدائی نے اپنے ساتھیوں سے کہا۔

''اس کے محافظ قریب ہی کہیں چھپے ہوئے ہوں گے''۔ دوسرے نے کہا۔

: ''آج بچ کر نہ جائے''۔ ایک اور بولا۔

''صرف ایک آدمی آگے جائے گا''۔ چوتھے نے کہا…… ''وار پیچھے سے کرنا۔ ضرورت پڑی تو باقی آگے جائیں گے''۔

سلطان ایوبی چٹان سے اترا اور گھوڑے پر سوار ہوکر کسی اور طرف چلاگیا۔ فدائی اس کے پیچھے پیچھے گئے۔ حملے کے لیے یہ جگہ موزوں نہیں تھی۔ الناصر ابھی بہت دور تھا۔ سلطان ایوبی ایک بار پھر گھوڑے سے اترا۔ ایک اور چٹان پر چڑھا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں سے اترا اور گھوڑے کی لگام پکڑ کر پیدل چل پڑا۔ فدائی اس سے ذرا ہی دور چھپے ہوئے تھے۔ سلطان ایوبی ایک جگہ سے گھوم گیا۔ آگے میدان تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہونے ہی لگا تھا کہ اسے دوڑتے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ ایک فدائی ایک فٹ لمبا خنجر ہاتھ میں لیے، اس سے دو تین قدم دور رہ گیا تھا۔ سلطان ایوبی نے دیکھ لیا۔

سلطان ایوبی نے اپنا خنجر نکالا۔ فدائی نے وار کردیا۔ سلطان ایوبی نے اس کی خنجر والی کلائی کے آگے اپنی کلائی رکھ کر وارروکنے کی کوشش کی مگر فدائی تنومند تھا۔ وار بڑی ہی طاقت سے کیاگیا تھا۔ سلطان ایوبی نے وار کیا جو فدائی بچا گیا۔ چٹان کی اوٹ سے ایک اور فدائی نکلا۔ اس نے بھی وار کیا جو سلطان ایوبی نے بچا تو لیا لیکن اس کے کولہے کی کھال کو چیر گیا۔ سلطان ایوبی گھوڑے کی اوٹ میں ہوگیا۔ ایک فدائی ادھر آیا تو سلطان ایوبی نے بائیں ہاتھ کاگھونسہ اس کے منہ پر مارا۔ وہ پیچھے کو گرنے لگا تو سلطان ا یوبی نے خنجر اس کے دل کے مقام پر اتار کر زور سے ایک طرف کو جھٹکا دیا۔ یہ فدائی ختم ہوگیا۔

دوسرے نے اس کے پیچھے سے وار کیا لیکن سلطان ایوبی بروقت سنبھل گیا۔ فدائی کے خنجر کی نوک سلطان ایوبی کے ایک بازو میں لگی۔ یہ زخم بھی گہرا نہیں تھا۔ باقی دو فدائی بھی سامنے آگئے۔ سرپٹ دوڑتے گھوڑوں کے ٹاپو سنائی دئیے جو آن واحد میں سلطان ایوبی کے قریب آگئے۔ فدائی بھاگے۔ ایک کو تو سواروں نے گھوڑوں تلے کچل ڈالا، دوسرے کو مار ڈالا۔ سلطان ایوبی کی پکار پر آخری فدائی کو زندہ پکڑ لیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس حملے سے بھی بچا لیا۔ اس پر جس وقت حملہ ہوا اس کا عملہ اس سے ساتھ آٹھ سو گز دور ایک بلندی پر کھڑا تھا۔ اتفاق سے ان میں سے کسی نے دیکھ لیا، ورنہ یہ حملہ ناکام ہونے والا نہیں تھا۔

یہ قاتلانہ حملہ مئی ١١٧٦ء (ذی القعد ٥٧١ھ ہجری) کا ہے۔ اس کے متعلق مورخین میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی ڈائری میں اتنا ہی لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے لیے جارہا تھا کہ چار فدائیوں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اسے بچا لیا۔ میجر جنرل (ریٹائرڈ) محمد اکبر خان (رنگروٹ) نے متعدد حوالوں سے لکھا ہے کہ سلطان ایوبی قلعہ اعزاز کے محاصرے کے دوران دن کے وقت اپنے ایک سالار جاوالا سدی کے خیمے میں سویا ہوا تھا۔ جب ایک فدائی نے خیمے میں جاکر اس پر خنجر سے وار کیا۔ اتفاق سے سلطان ایوبی کے سر پر وہ مخصوص پگڑی تھی جو وہ میدان جنگ میں پہنا کرتا تھا۔ اسے تربوش کہتے تھے۔ حملہ آور کا خنجر تربوش میں لگا اور سلطان ایوبی جاگ اٹھا۔ فوراً ہی چارپانچ فدائی اندر آگئے اور ان کے ساتھ ہی سلطان ایوبی کے باڈی گارڈ بھی اندر آگئے جنہوں نے فدائیوں کو ہلاک کرڈالا۔ جنرل موصوف نے لکھا ہے کہ یہ فدائی کچھ عرصے سے دھوکے میں سلطان ایوبی کے محافظ دستے میں شامل ہوگئے تھے۔

یورپی مورخوں نے لکھا ہے کہ حملہ آور سلطان ایوبی کے اپنے باڈی گارڈ تھے۔ ان مورخین نے سلطان ایوبی کے خلاف یہ شہادت مہیا کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ اپنی فوج میں بالکل مقبول نہیں تھا یہاں تک کہ اس کے باڈی گارڈ تک 

اس کے وفادار نہیں تھے۔ اس وقت کے وقائع نگاروں کی غیر مطبوعہ تحریروں سے یہی کہانی سامنے آتی ہے جو سنائی گئی ہے۔ فدائی نہ اس کے محافظ دستے میں تھے نہ کسی دھوکے سے حملہ آورہوئے تھے۔ا نہیں سلطان ایوبی اکیلا مل گیا تھا۔

جو فدائی پکڑا گیا تھا، اس نے بیان دیا کہ وہ چاروں قلعہ عصیات سے آئے ہیں۔ اسے حسن بن عبداللہ کے حوالہ کردیا گیا جس نے اس سے قلعہ عصیات کے متعلق تمام تر معلومات لے لیں۔یہ بھی پوچھ لیا کہ اندر کتنی فوج ہے اور اس کے لڑنے کی اہلیت کیسی ہے۔ یہ معلومات سلطان ایوبی کو دی گئیں۔

''کل رات کے آخری پہر ہم عصیات کی طرف کوچ کریں گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں کو بلایا اور کہا…… ''فدائیوں کا یہ اڈا اکھاڑنا ضروری ہوگیا ہے۔ اس پر فوراً قبضہ کرنا ہے۔ فوج کا تیسرا حصہ کافی ہوگا''۔ اس نے بتایا کہ کتنی نفری جائے گی اور اس کی ترتیب کیا ہوگی۔

اس شام سلطان ایوبی کو اطلاع دی گئی کہ الناصر نام کا ایک چھاپہ مار واپس آیا ہے۔ حسن بن عبداللہ الناصر سے ساری رپورٹ لے چکا تھا۔ اسے سلطان ایوبی کے سامنے پیش کرناضروری تھا۔ الناصر کو بڑی ہی بری حالت میں پیش کیا گیا۔ مسلسل سفر، بھوک اور پیاس نے اسے ادھ مؤا کردیا تھا۔ا س کے ساتھ لزا تھی۔ا س کارنگ اڑا ہوا اور جسمانی حالت دگرگوں تھی۔ الناصر نے سلطان ایوبی کو پوری تفصیل سے سنایا کہ اس پر کیا گزری ہے۔ اس نے کوئی بات پوشیدہ نہ رکھی۔ لزا کے متعلق بھی سب کچھ بتایا۔سلطان ایوبی نے لزا سے پوچھا کہ وہ اپنے متعلق فیصلے میں آزادہے۔ لزا شاید اپنے آپ کو قیدی سمجھ رہی تھی اور اسے بہت برے سلوک کی توقع تھی لیکن یہاں معاملہ الٹ تھا۔ اس نے الناصر کے ساتھ رہنے کی خواہش ظاہر کی۔ اسے بتایا گیا کہ اسے دمشق بھیج دیا جائے گا جہاں وہ نورالدین زنگی کی بیوہ کی تحویل میں رہے گی اور الناصر اسے کچھ عرصے کے بعد ملے گا۔ دراصل اس قسم کی لڑکیوں کو ان کی جذباتی باتوں سے متاثر ہوکر قابل اعتماد نہیں سمجھا جاتا تھا۔ دمشق میں انہیں عزت اور آرام سے رکھا جاتا تھا اور ان کی خفیہ نگرانی کی جاتی تھی۔

الناصر کو زخموں کے علاج اور آرام کے لیے پچھلے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔

٭ ٭ ٭

شیخ سنان کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ گمشتگین اسے دھوکہ دے گیا تھا۔ اس نے گمشتگین کے قافلے کے تعاقب میں جو آدمی بھیجے تھے، ان میں سے صرف دو واپس آئے تھے۔ وہ تھیریسیا کو اٹھا لائے تھے۔ لزا کو الناصر بچا لے گیا تھا۔ شیخ سنان تھیریسیا سے انتقام لے رہا تھا۔ اسے اس نے قید میں ڈال رکھا تھا۔ تھی تو وہ بھی بہت ہی خوبصورت لڑکی لیکن شیخ سنان کی نظر لزا پر تھی۔

دن کا پچھلا پہر تھا۔ عصیات کے قلعے کی دیواروں پر کھڑے سنتریوں نے دور گرد کے بادل اٹھتے دیکھے، گرد آگے ہی آگے آرہی تھی۔ سنتری دیکھتے رہے۔ حتیٰ کہ گرد میںسینکڑوں گھوڑے نظر آنے لگے، پھر پیادہ فوج نظر آئی۔ سنتریوں نے نقارے بجا دئیے۔ کمانڈروں نے اوپر جاکر دیکھا۔ شیخ سنان کو اطلاع دی۔ وہ بھی سامنے والی دیوار پر چڑھ گیا۔ اس وقت فوج قلعے کے قریب آکر محاصرے کی ترتیب میں ہورہی تھی۔ شیخ سنان نے مقابلے کا حکم دے دیا۔ قلعے کی دیواروں پر تیرانداز پہنچ گئے لیکن انہوں نے کوئی تیر نہ چلایا کیونکہ وہ باہر کی فوج کارویہ دیکھنا چاہتے تھے۔سلطان ایوبی کو قلعے کے اندر کی معلومات مل چکی تھیں۔ الناصر اس کے ساتھ تھا۔ دو منجینقیں نصب کردی گئی۔ الناصر نے انہیں بتایا کہ شیخ سنان کا محل کہاں ہے اور کتنی دور ہے۔اس کی رہنمائی میں منجنیقوں نے پہلے بڑے پتھر پھینکے جو ٹھکانے پر پڑے۔ سنان کے محل کی دیواروں میں شگاف پڑ گئے۔

: قلعے سے تیروں کا مینہ برس پڑا۔ سلطان ایوبی کے حکم سے منجنیقوں سے آتش گیر مادے کی سربمہر ہانڈیاں اندر پھینکی گئیں۔ یہ سنان کے محل کے قریب گر کر ٹوٹیں۔ سیال مادہ دور دور تک پھیل گیا۔ اسے آگ لگانے کے لیے فیتے والے آتشیں تیر چلائے گئے لیکن آتش گیر سیال پر نہ گرے۔ تیر ٹھکانے پر پھینکنا آسان نہیں تھا۔ انہیں قلعے کی دیوار کے اوپر سے اندر جانا تھا۔ اتفاق سے قریب کہیں آگ جل رہی تھی۔ ایک ہانڈی اس کے اتنا قریب پھٹی کہ آگ نے اس کے مادہ کو شعلہ بنا دیا۔ دوسرے ہی لمحے سنان کا محل شعلوں کی لپیٹ میں آگیا، وہاں بے شمار آتش گیر مادہ گر اور بہہ بہہ کر پھیل گیا تھا۔

شیخ سنان پر شعلوں نے دہشت طاری کردی۔ اس کی فوج صلیبیوں اور مسلمانوں کی لڑاکا فوج نہیں تھی۔ یہ نشے اور کابلی کی ماری ہوئی فوج تھی۔ سنان نے حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اس نے قلعے پر سفید جھنڈا چڑھا دیا۔ سلطان ایوبی نے جنگ بندی کا حکم دے دیا اور کہا کہ شیخ سنان سے کہو کہ باہر آئے۔ ہر طرف خاموشی طاری ہوگئی۔


جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں