داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 98 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 98

 


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔98 لڑکی نے اپنی لاش دیکھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
آپ کو فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی۔ میری پیش کش قبول کرلیں اور مجھ سے بہتر سلوک کی توقع رکھیں۔ میری آپ کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں۔ میں جو کچھ کررہا ہوں، احکام خداوندی کے تحت کررہا ہوں''۔
بوزا کے امیر نے یہ پیغام پڑھا تو عزالدین کی طرف دیکھا۔ عزالدین نے کہا…… ''آپ کا قلعہ مضبوط نہیں اور آپ کی فوج بہت تھوڑی ہے۔ اس فوج کو ہمارے ہاتھوں نہ مروائیں''۔
بوزا کے امیر نے پیشکش قبول کرلی اور سلطان ایوبی کے نام تحریری پیغام دیا کہ وہ آئے اور قلعہ لے لے۔
منبج کے امیر نے بھی اطاعت قبول کرلی۔ فخرالدین نے اس سے پیغام لکھوا لیا اور واپس چلا گیا۔
سلطان ایوبی خود ونوں قلعوں میں گیا۔ وہاں جو فوجیں تھیں، انہیں قلعے سے نکال کر اپنی فوج میں شامل کرلیا اور اپنے دستے قلعوں میں بھیج دئیے۔ دونوں قلعوں میں اس نے رسد وغیرہ رکھ دی لیکن فوج کو قلعہ بند نہ کیا۔ حلب کے قریب اعزاز نام کا ایک مضبوط قلعہ تھا۔ اس قلعے کے دفاعی انتظامات حلب والوں نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے۔ اس کے قلعہ دار یا امیر نے اپنی وفاداری حلب یعنی الملک الصالح کو دے رکھی تھی۔ سلطان ایوبی حلب کا محاصرہ کرنے پہلے اس قلعے کو بھی لڑے بغیر لینا چاہتا تھا۔ اس نے اپنے ایک سالار الحمیری کو تحریری پیغام کے ساتھ اعزاز کو روانہ کیا۔
اعزاز کے امیر نے سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا۔ اس پیغام کے بھی الفاظ وہی تھے جو بوزا اور منبج کے امراء کو لکھے گئے تھے۔ اعزاز کے امیر نے پیغام الحمیری کی طرف پھینک کر کہا…… ''تمہارا سلطان خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ساری دنیا کا بادشاہ بنے کے خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے کہنا کہ تم نے حلب کا محاصرہ کرکے دیکھ لیا تھا۔ اب اعزاز کا محاصرہ کرکے دیکھو''۔
''کیا آپ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا خون بہانا پسند کریں گے؟''…… الحمیری نے کہا…… ''کیا آپ پسند کریں گے کہ ہم آپس میں لڑیں اور صلیبی ہمارا تماشاہ دیکھیں؟''
''اپنے سلطان سے کہو کہ جاکر صلیبیوں سے لڑے''…… اعزاز کے امیر نے کہا۔
''کیا آپ صلیبیوں سے نہیں لڑیں گے؟''…… الحمیری نے پوچھا…… ''کیا پ انہیں اپنا دشمن نہیں سمجھتے؟''
''اس وقت ہم سلطان صلاح الدین ایوبی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں جس نے ہمیں للکارا ہے''…… امیر نے کہا…… ''وہ ہم سے یہ قلعہ بزور شمشیر لینا چاہتا ہے''۔
الحمیری اسے قائل نہ کرسکا۔ اس نے الحمیری کی ذرہ بھر عزت نہ کی اور اسے چلے جانے کو کہا۔
عصیات کے قلعے میں صلیبی گمشتگین کے پاس بیٹھا تھا۔ تھیریسیا اور لزا بھی اس کے ساتھ تھیں۔ گمشتگین اور صلیبی کی پہلے سے جان پہچان تھی…… صلیبی نے کہا…… ''سنا ہے آپ صلاح الدین ایوبی کو قتل کراتے کراتے سیف الدین کے قتل کا ارادہ کربیٹھے ہیں''۔
''کیا آپ نے سنا نہیں کہ سیف الدین نے کیسی بزدلی اور جنگی نااہلی کا مظاہرہ کیا ہے؟''…… گمشتگین نے کہا…… ''یہ لڑکیاں بتاتی ہیں کہ اس نے ہماری تینوں فوجوں کا ایسا برا حال کرالیا ہے کہ اب ہم بڑے لمبے عرصے کے لیے لڑنے کے قابل نہیں رہے۔ میں بکھری ہوئی فوجوں کو اکٹھا کرکے ایوبی کو حلب سے دور روکنا چاہتا ہوں اگر سیف الدین زندہ رہا تو وہ خفت مٹانے کے لیے ایک بار پھر کمان لینے کی ضد کرے گا اور ہمیں ایک اور شکست ہوگی۔ کیوں نہ اسے ٹھکانے لگا دیا جائے''۔
''سیف الدین اتنی اہم شخصیت نہیں، جتنا آپ سمجھ رہے ہیں''…… صلیبی نے کہا…… ''جو ہم جانتے ہیں، وہ آپ نہیں جانتے۔ ہم آپ کے ہر ایک دوست اور ہر ایک دشمن کو آپ سے زیادہ جانتے ہیں، اسی لیے ہم نے آپ کو اپنے مشیر اور اپنے جاسوس دے رکھے ہیں۔ میں جو ایوبی کے علاقوں میں بھیس بدل بدل کر اور اپنے آپ کو خطروں میں ڈال کر مارا مارا پھر رہا ہوں، وہ صرف آپ کی بقا اور آپ کی ریاست کی توسیع کے لیے ہے۔ میں جو حالات دیکھ آیا ہوں، ان کا تقاضا صرف یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کیا جائے۔ نورالدین زنگی مرگیا تو آپ سب آزاد ہوگئے۔ آپ قلعہ دار سے خودمختار حکمران بن گئے۔ ایوبی مرگیا تو آپ اس سے دگنے علاقے کے حکمران بن جائیں گے جو آپ کے پاس ہے۔ جنگ وجدل کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جائے گا۔ میں تریپولی جارہا ہوں۔ آپ کی فوج نے گھوڑوں اور اونٹوں کا جو نقصان اٹھایا ہے، وہ میں بہت جلدی پورا کردوں گا۔ ہتھیار بھی بھجوائوں گا۔ ہمت نہ ہاریں۔ ایوبی مرگیا تو ہم آپ کو اتنی مدد دیں گے کہ آپ سیف الدین، الملک الصالح اور دوسرے تمام خودمختار امراء پر چھا جائیں گے اور آپ کو وہی حیثیت حاصل ہوجائے گی جو آج صلاح الدین ایوبی کو حاصل ہے''۔
اقتدار کی ہوس اور عیش پرستی نے گمشتگین کی عقل پر پردہ ڈال رکھا تھا۔ اس کی عقل میں اتنی سی بات نہیں آرہی تھی کہ یہ صلیبی اپنی قوم کا نمائندہ ہے 
: اور وہ جو کچھ کہہ رہا ہے اور کررہا ہے، وہ اپنے قومی مقاصد کی خاطر کہہ اور کررہا ہے۔ یہ بہت بڑاجاسوس اور تخریب کار تھا جو یہ دیکھتا پھر رہا تھا کہ سلطان ایوبی کے طوفان کو کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ ہر میدان میں شکست کھا کر صلیبیوں نے یہی طریقہ بہتر جانا تھا کہ سلطان ایوبی کو قتل کرادیا جائے اور مسلمان حکمرانوں کو ایک دوسرے کا بھی دوست نہ رہنے دیا جائے، تاکہ سلطان ایوبی کے مرنے کے بعد یہ آپس میں لڑتے لڑتے ختم ہوجائیں اور صلیبیوں کو جنگ وجدل کے بعد دنیائے عرب کی حکمرانی مل جائے۔ اسی مقصد کی تکمیل کے لیے انہوں نے مسلمان امراء کے دماغوں میں زرپرستی اور بادشاہی کا کیڑا ڈال دیا تھا۔
''صلاح الدین ایوبی کے قتل سے تو شیخ سنان بھی دست بردار ہوگیا ہے''…… گمشتگین نے کہا…… ''وہ کہتا ہے کہ اس نے چار اور فدائی بھیج رکھے ہیں لیکن وہ پرامید نظر نہیں آتا''۔
''اتنے زیادہ قاتلانہ حملے ناکام ہونے کے بعد سنان کو ایوبی کے قتل سے دستبردار ہی ہوجانا چاہیے''…… صلیبی نے کہا…… ''ان حملوں کی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ فدائی حشیش کے نشے میں جاتے ہیں۔ ایوبی کو صرف وہ آدمی قتل کرسکتا ہے جو ہوش میں ہو اور دل کی گہرائیوں سے محسوس کرے کہ اسے صلاح الدین ایوبی کو اپنے ذاتی یا قومی جذبے سے قتل کرنا ہے۔ آپ شاید انسانی فطرت کو نہیں سمجھتے۔ ایوبی پر جو قاتلانہ حملہ کرنے جاتا ہے، اس پر نشے کا اثر ہوتا ہے۔ جوں ہی آگے سے مزاحمت ہوتی ہے نشہ اتر جاتا ہے اور حملہ آور اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے بجائے آپ کسی کو جذبات سے اندھا کرکے اور اس کے دل میں ایوبی کی نفرت پیدا کرکے اس کے قتل کے لیے بھیجیں تو وہ اسے قتل کرکے ہی رہے گا''۔
''شیخ سنان نے مجھے صلاح الدین ایوبی کے چار چھاپہ مار دئیے ہیں''…… گمشتگین نے کہا…… ''اور کہا ہے کہ انہیں تیار کرکے ان سے سیف الدین کو قتل کرائوں۔ یہ چھاپہ مار سیف الدین کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ اس لیے یہ اسے قتل کرنے میں خوشی محسوس کریں گے۔ میں انہیں موقع فراہم کروں گا۔ سیف الدین کو موت کے جال میں لانا میرا کام ہے''۔
''کیوں نہ انہی کو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے تیار کیا جائے؟''…… صلیبی نے کہا…… ''لیکن انہیں حشیش یا کوئی اور نشہ نہ دیا جائے، ان پر جذباتیت کا نشہ طاری کیا جاسکتا ہے''۔
صلیبی نے تھیریسیا اور لزا کی طرف دیکھا اور مسکرایا۔لزا نے کہا…… ''میں چھاپہ ماروں کے کمانڈر کو تیار کرسکتی ہوں جس کا نام الناصر ہے۔ باقی تین کو آپ سنبھالیں''۔
''تم الناصر کو سنبھالو''…… صلیبی نے کہا…… ''دوسروں کو ابھی ان کے حال پر چھوڑ دو جہاں تک میں انسانی فطرت کو سمجھتا ہوں، الناصر خود ہی اپنے ساتھیوں کو سنبھال لے گا''…… اس نے پوچھا…… ''وہ ہیں کہاں؟ انہیں اس جگہ لے آئو۔ الناصر کو الگ کمرہ دو اور اس کے ساتھیوں کو الگ کمرے میں رکھو…… اور تم سب محتاط رہنا۔ سنان نے اس لڑکی پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ یہ لڑکی اسے اتنی پسند آئی ہے کہ اس سے جدا نہیں ہونا چاہتا۔ اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ یہ لڑکی (لزا) اس کے حوالے کردوں ورنہ میں اس کا مہمان نہیں قیدی ہوں گا۔ اس نے مجھے سوچنے کی مہلت دی ہے''۔
: ''اس کے متعلق آپ پریشان نہ ہوں''…… گمشتگین نے کہا…… ''میں ان چار چھاپہ ماروں کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں۔ آپ بھی اور یہ لڑکیاں بھی میرے ساتھ چلیں گی''۔
٭ ٭ ٭
الناصر اور اس کے تینوں ساتھیوں کو ان کمروں میں سے ایک میں لے گئے جو صلیبی فوج کے افسروں کے لیے مخصوص تھا۔ الناصر کو الگ کمرہ دیا گیا جو اس نے یہ کہہ کر قبول کرنے سے انکار کردیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سے جدا نہیں ہوگا۔ اسے تھیریسیا اور لزا اپنے جال میں پھانسنے کے لیے الگ رکھنا چاہتی تھیں۔
''تم ان کے کمانڈر ہو''…… صلیبی نے اسے کہا…… ''تمہیں اپنے ماتحتوں سے الگ رہنا چاہیے''۔
''ہمارے ہاں اونچ نیچ کا رواج نہیں''…… الناصر نے کہا…… ''ہمارا سلطان اپنی فوج کے ساتھ رہتا ہے۔ میں معمولی سا کمان دار ہوں، اپنے ساتھیوں سے الگ رہ کر تکبر کا گناہ نہیں کروں گا''۔
''ہم تمہاری تعظیم کرنا چاہتے ہیں''…… صلیبی نے کہا…… ''اپنے ہاں جاکر جو جی میں آئے کرنا۔ یہاں تمہیں تمہارے ماتحتوں کے ساتھ رکھ کر ہم تمہاری توہین نہیں کرنا چاہتے''۔
''ہمارے چھاپہ مار کمان دار اپنے سپاہیوں کے ساتھ زندہ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ مرتے ہیں''…… الناصر نے کہا…… ''ہم موت کی منزل کے ہم سفر ہیں۔ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوا کرتے اگر ہم آپ کے مہمان ہوتے تو شاید میں آپ کی بات مان جاتا۔ ہم آپ کے قیدی ہیں۔ ہماری قسمت ایک ہے جو اذیت اور صعوبت ایک کو ملے گی، اس سے ہم سب حصہ وصول کریں گے۔ ایک ساتھی کو زندہ رکھنے کے لیے ہم تین ساتھی اپنی جانیں قربان کردیں گے''۔
''کیا تم ہماری قید سے فرار ہونے کی کوشش کروگے؟''…… گمشتگین نے مسکرا کر پوچھا۔
''ہم آزاد ہونے کی کوشش ضرور کریں گے۔ یہ ہمارے فرائض میں شامل ہے''…… الناصر نے کہا…… ''مرکر آزاد ہوجائیں یا تم سب کو مار کر۔ ہمیں قید میں رکھنا ہے تو ہمیں زنجیریں ڈال دو، دھوکے نہ دو۔ ہم میدان کے مرد ہیں۔ ہم سیف الدین اور گمشتگین جیسے ایمان فروش نہیں ہیں''۔
''میں گمشتگین ہوں''…… گمشتگین نے کہا…… ''حرن کا خودمختار حکمران۔ تم نے مجھے ایمان فروش کہا ہے''۔
''میں آپ کو ایک بار پھر ایمان فروش کہتا ہوں''۔ الناصر نے کہا…… ''میں آپ کو غدار بھی کہتا ہوں''۔
''لیکن اب میں ایمان فروش ہوں نہ غدار''…… گمشتگین نے الناصر کو دھوکہ دینے کے لیے جھوٹ بولا…… ''دیکھ لو، جنگ ترکمان میں لڑی جارہی ہے اور میں یہاں ہوں۔ اگر میں تمہارا دشمن ہوتا تو تمہیں اس طرح آزاد نہ رہنے دیتا جس طرح اب ہو۔ سیف الدین اور الصالح سے الگ ہوچکا ہوں۔ تمہیں عزت اور تعظیم سے اس قلعے سے لے جارہا ہوں اور عزت سے رخصت کروں گا۔ تم ہوتو معمولی سے کمان دار لیکن تمہارے سینے میں صلاح الدین ایوبی کی عظمت اور جذبہ ہے''۔
''لیکن میں اپنے ساتھیوں سے الگ نہیں رہوں گا''…… الناصر نے کہا…… ''مجھ سے یہ گناہ نہ کرائیں''۔
''نہ سہی''…… صلیبی نے کہا…… ''اپنے ساتھیوں کے ساتھ رہو''۔
اس وقت اس کے ساتھی ایک کشادہ اور خوش نما کمرے میں تھے جہاں نرم وگداز بستر بچھے ہوئے تھے۔ وہاں ایک خادم بھی تھا جس سے ان تینوں نے پوچھا تھا کہ یہ قلعے کا کون سا حصہ ہے اور یہاں کیا ہوتا ہے۔ خادم نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے کمرے ہیں۔ یہاں صرف وہ مہمان رکھے جاتے ہیں جو اونچے رتبے کے باعزت لوگ ہوتے ہیں۔ یہ تینوں چھاپہ مار دیکھ رہے تھے کہ ان کے ساتھ قیدیوں والا سلوک نہیں ہورہا۔ وہ بہت تھکے ہوئے تھے۔ ایسے نرم بستروں پر انہیں فوراً نیند آگئی اور وہ گہری نیند سوگئے۔
٭ ٭ ٭
 صلیبی اور گمشتگین نے الناصر کو بہت دیر اپنے ساتھ رکھا، اس کے ساتھ عزت سے پیش آتے ہوئے ایسی باتیں کرتے رہے جن سے الناصر کے جذبے کی تیزی اور تندی کچھ کم ہوگئی۔ یہ ان دونوں کی کامیابی کا پہلاقدم تھا۔ لزا اس کمرے سے نکل گئی تھی۔ الناصر اس وقت اس کمرے سے نکلا جب اس کے ساتھی گہری نیند سوگئے تھے۔ وہ برآمدے میں جارہا تھا۔ ایک نسوانی آواز نے اسے سرگوشی میں پکارا۔ وہاں اندھیرا تھا۔ وہ رک گیا۔ ایک تاریک سایہ آگے آیا۔ یہ لزا تھی جس نے الناصر کا بازو پکڑ کر کہا…… ''اب تمہیں یقین آگیا ہے کہ میں جن نہیں انسان ہوں؟''
''مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ کیا ہورہا ہے''…… الناصر نے جھنجھلاہٹ سے کہا…… ''میں قیدی ہوں اور میری یوں عزت کی جارہی ہے، جیسے میں شہزادہ ہوں''۔
''تمہاری حیرت بجا ہے''…… لزا نے کہا…… ''ذرا سمجھنے کی کوشش کرو، گمشتگین نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اس نے صلاح الدین ایوبی کی دشمنی ترک کردی ہے۔ اب وہ ایوبی کے کسی فوجی کو جنگی قیدی نہیں سمجھتا۔ تم اور تمہارے ساتھی خوش قسمت ہیں کہ تم یہاں آئے ہو اور گمشتگین یہاں تھا۔ دوسری وجہ میری ذات ہے۔ تم میری حیثیت اور رتبے کو نہیں جانتے۔ میں تمہاری نظر میں بدکار لڑکی ہوں جو حکمرانوں اور اعلیٰ حکام کی تفریح کا ذریعہ بنتی ہوں۔ یہ سب غلط ہے اور تمہارا وہم ہے''۔
قلعے کا یہ حصہ خوش نما تھا۔ کھلا میدان تھا جس کے وسط میں چٹانیں تھیں۔ ان کے اردگرد سبزہ تھا۔ سبزے میں پھول دار پودے اور درخت تھے۔ قلعہ بہت وسیع وعریض تھا۔ لزا الناصر کو باتوں میں الجھا کر کمروں سے دور چٹان کے دامن میں لے گئی، جہاں پھولوں کی مہک تھی۔ وہ جب ادھر جارہے تھے، اس وقت صلیبی اور تھیریسیا ایک دیوار کے ساتھ کھڑے چھپ کر دیکھ رہے تھے۔
''لزاا سے قابو میں لے لے گی''…… صلیبی نے کہا۔
''لڑکی جذباتی ہے''… تھیریسیا نے کہا…… ''اپنے فرائض سے گھبرا کر اسی کے پاس جا بیٹھی تھی۔ اتنی کچی بھی نہیں''۔
''اس عمر میں اسے باہر کی ڈیوٹی پر نہیں بھیجنا چاہیے تھا''…… صلیبی نے کہا…… ''ہم ساتھ ہیں کوئی گڑبڑ نہیں کرے گی''۔
لزا الناصر سے کہہ رہی تھی…… ''تم نے مجھ سے پوچھا تھا کہ میں تم پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہوں۔ تم نے مجھے اپنا دشمن سمجھ کر یہ بات پوچھی تھی۔ میں تمہیں یقین نہیں دلا سکتی کہ دشمنی تمہارے اور میرے بادشاہوں کے درمیان ہے۔ میری اور تمہاری کیا دشمنی ہوسکتی ہے؟''
''اور دوستی بھی کیا ہوسکتی ہے؟''…… الناصر نے پوچھا۔
لزا نے گہری آہ بھری بازو الناصر کے کندھوں پر رکھ کر کہا…… ''تم پتھر ہو۔ میں نے سنا تھا کہ مسلمانوں کے دل ریشم کی طرح نرم ہوتے ہیں۔ مذہب کو ذرا دیر کے لیے الگ رکھ دو۔ اپنے آپ کو مسلمان اور مجھے عیسائی نہ سمجھو۔ ہم دونوں انسان ہیں۔ ہمارے سینوں میں دل ہیں۔ کیا تمہارے دل میں کوئی خواہش، کوئی پسند اور کسی چیز سے پیار نہیں ہے؟ ہے اور ضرور ہے۔ تم مرد ہو۔ تم اپنے دل پر قابو پاسکتے ہو۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں۔ میرا دل بے قابوہوگیا ہے۔ تم میرے دل میں اتر گئے ہو۔ ہم تمہیں نشے کی حالت میں قلعے میں لائیں تو شیخ سنان نے حکم دے دیا کہ ان چاروں کو تہہ خانے میں بند کردو۔ اگر تمہیں وہاں لے جاتے تو وہاں سے لاش بن کر نکلتے۔ میں تم جیسے خوبصورت جوان کا یہ انجام برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ میں نے شیخ سنان سے کہا کہ یہ تمہارے نہیں ہمارے قیدی ہیں اور یہ تحویل میں رہیں گے۔ اس بوڑھے کے ساتھ مجھے اور تھیریسیا کو بہت دیر جھک جھک کرنی پڑی۔ اس نے ایک شرط بتائی، کہنے لگا…… ''تم انہیں تہہ خانے سے بچانا چاہتی ہو تو میری خواب گاہ میں آجائو''…… میرے دل میں اس بوڑھے کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی۔ میں نے پس وپیش کی تو اس نے کہا…… ''یہ چاروں تہہ خانے میں جائیں گے یا تم میری خواب گاہ میں آئوگی''…… مجھے بڑی شدت سے محسوس ہوا کہ میں تمہیں آج سے نہیں، بچپن سے چاہتی ہوں اور میں تمہاری خاطر اپنا جسم، اپنی جان اور اپنی آبرو قربان کردینے کی ہمت رکھتی ہوں''۔
''کیا تم نے اپنی آبرو قربان کردی ہے؟''…… الناصر نے تڑپ کر پوچھا۔
نہیں''…… لزا نے کہا…… ''میں نے اسے وعدے پر ٹالا ہے۔ اس نے مجھے یہ کہہ کر مہلت دے دی ہے کہ ہم قلعے میں آزاد رہیں گے لیکن ہم اس کے قیدی ہوں گے''۔
''میں تمہاری آبرو کی حفاظت کروں گا''…… الناصر نے کہا۔
''کیا تم نے میری محبت کو قبول کرلیاہے؟''…… لزا نے بھولے بھالے لہجے میں پوچھا۔
الناصر نے کوئی جواب نہ دیا۔ یہ تو اسے ٹریننگ میں بتایا گیا تھا کہ صلیبی لڑکیاں حسن وجوانی اور حسین فریب کا جال کس طرح بچھایا کرتی ہیں لیکن یہ زبانی ہدایات تھیں جن کی حیثیت وعظ سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں تھی۔ اسے ایسے جال سے بچنے کی عملی ٹریننگ نہیں دی گئی تھی، نہ دی جاسکتی تھی۔ اب ایک صلیبی لڑکی نے جال بچھایا تو انسانی فطرت کی کمزوریاں الناصر کی ذات سے ابھر آئیں اور اس کی عقل ودانش پر غالب آنے لگیں۔ وہ ریگزاروں اور بیابانوں میں موت کے ساتھ کھیلنے والا انسان تھا۔ اس کے احساسات ریت میں دبے رہتے تھے۔ اس نے لزا جیسی دلکش لڑکی کبھی نہیں دیکھی تھی۔ جہاں تک دیکھنے کا تعلق تھا، لزا کے حسن اور طلسماتی اثر والے جسم نے اس پر کچھ اثر نہیں کیا تھا مگر اب لزا کے کھلے بکھرے ہوئے ریشم جیسے ملائم بال اس کے ایک گال سے کبھی اس کے بازو سے مس کرجاتے تھے۔ اس کے وجود میں لہر سی دوڑ جاتی اور وہ ہر بار اپنے جسم کے اندر لرزہ سا محسوس کرتا تھا۔
کئی بار ایسے ہوا تھا کہ دشمن کے تیر اس کے جسم کو چھوتے ہوئے گزر گئے تھے۔برچھیوں کی انیوں نے اس کی کھال چیر دی تھی۔ وہ کبھی ڈرا نہیں تھا۔ جسم کو چھو کر گزرتے تیروں اور برچھیوں نے اس کے جسم پر ایک ثانیے کے لیے بھی لرزہ طاری نہیں کیا تھا۔ موت کئی بار اس کے ساتھ لگ کر گزر گئی تھی۔ اس کے احساسات میں ذرا سی بھی ہلچل پیدا نہیں ہوئی تھی۔ وہ اپنے ہاتھوں لگائی ہوئی آگ کے شعلوں میں سے بھی گزرا تھا مگر کمزور سی ایک لڑکی کے بالوں کے لمس سے اس کے وجود میں بھونچال آگیا۔ اس نے اس لمس سے بچنے کی ویسی کوشش نہ کی جیسی وہ تیروں اور برچھیوںسے بچنے کے لیے کیا کرتا تھا اور جب لزا اس کے اور زیادہ قریب ہوگئی تو الناصر نے محسوس کیا کہ لڑکی ابھی اس سے دور ہے۔
لزاکو ٹریننگ دی گئی تھی کہ اپنے شکار کو کس طرح ہیپناٹائز کیا جاسکتا ہے۔ اس نے کرلیا۔ الناصر کو ایسی پیاس محسوس ہونے لگی جو صحرا کی پیاس سے بہت مختلف تھی۔ پانی اس پیاس کو نہیں بجھا سکتا تھا۔ جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی، الناصر کی اصلیت ختم ہوتی جارہی تھی۔ پہلے تو الناصر کا جسم کانپا تھا پھر اس کا ایمان لرز گیا۔ جذبے کی بنیادیں ہل گئیں اور جذبات کے جھکڑ اور زیادہ تند ہوگئے۔
''ہاں!''…… الناصر نے مخمور آواز میں کہا…… ''میں نے تمہاری محبت کو قبول کرلیا ہے لیکن اس کا انجام کیا ہوگا؟ کیا تم مجھے یہ کہو گی کہ میں تمہارے ساتھ چلوں؟ اپنا مذہب چھوڑ دوں اور تم میرے ساتھ شادی کرلوگی؟''
''میں نے ایسی کوئی بات نہیں سوچی''…… لزا نے کہا…… ''اگر تم نے میرا ساتھ دینے کا ارادہ کرلیا ہے اور تم ہمیشہ کے لیے مجھے اپنی رفیقہ بنانا چاہتے ہو تو میں اپنا مذہب چھوڑ دوں گی۔ تم مجھ سے قربانی مانگو لیکن مجھے وہ محبت دو جو ناپاک نہ ہو۔ عارضی محبت تو میں جہاں سے چاہوں حاصل کرسکتی ہوں۔ تمہیں میری روح نے چاہا ہے''۔
الناصر پر طلسم طاری ہوچکاتھا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر گئی تھی۔ الناصروہاں سے اٹھنا نہیں چاہتا تھا۔ لزا نے اسے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں چلا جائے۔ پکڑے جانے کی صورت میں انجام اچھا نہیں ہوگا۔
٭ ٭ ٭
الناصر کمرے میں داخل ہوا تو اس کے ساتھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ وہ لیٹ گیا لیکن اسے نیند نہ آئی۔ لزا اپنے کمرے میںداخل ہوئی تو تھیریسیا کی آنکھ کھل گئی۔
''اتنی دیر؟''…… تھیریسیا نے کہا۔
''تو کیا پتھر ایک پھونک سے موم ہوجایا کرتے ہیں؟''…… لزا نے کہا۔
: ایک دو نئے طریقے بتائے اور دونوں سوگئیں۔ الناصر ابھی تک جاگ رہا تھا۔ تنہائی میں اس نے لزا کی باتوں اور اظہارِ محبت پر غور کیا تو اس کا ذہن تقسیم ہوگیا۔ اسے اپنی ٹریننگ یاد آئی جس میں اسے صلیبی لڑکیوں کے جادو بھرے جھانسوں کے متعلق بتایا گیا تھا۔ لزا اسے حسین فریب نظر آنے لگا لیکن اس کے ذہن میں یہ خیال بھی غالب آجاتا تھا کہ یہ فریب نہیں۔ جہاں تک جسم اور چہرے مہرے کا تعلق تھا، الناصر میں بہت کشش اور جاذبیت تھی۔ اپنے ان اوصاف سے وہ خود بھی آگاہ تھا۔ انسانی فطرت کی کمزوریاں بھی الناصر کو وہم اور وسوسوں اور خوش فہمیوں میں مبتلا کررہی تھی۔ وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچا اور اس کی آنکھ لگ گئی۔
اسے ایک آدمی نے جگایا اور کہا کہ اسے تھیریسیا نے اپنے کمرے میں بلایا ہے۔ وہ چلا گیا۔ اس کمرے میں تھیریسیا اکیلی تھی۔
''بیٹھو الناصر!''…… تھیریسیا نے کہا…… ''میں تمہارے ساتھ بہت ضروری بات کرنا چاہتی ہوں''…… الناصر اس کے سامنے بیٹھ گیاتو تھیریسیا نے کہا …… ''میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گی کہ رات لزا تمہیں باہر لے گئی یا تم اسے لے گئے تھے۔ میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ لڑکی بہت بھولی اور معصوم ہے۔ میں جانتی ہوں کہ وہ تمہیں پسند کرتی ہے لیکن میں اسے اور تمہیں اجازت نہیں دے سکتی کہ اس طرح رات رات بھر باہر بیٹھے رہو۔ لزا کو گمراہ کرنے کی کوشش نہ کرو''۔
''میں نے ایسی کوشش نہیں کی''…… الناصر نے کہا…… ''ہم دونوں باتیں کرتے کرتے ذرا دور نکل گئے تھے''۔
''میں لزا کو یہ نہیں کہہ سکتی کہ وہ تمہاری محبت میں ایسی پاگل نہ بنے کہ اسے کسی کا ہوش ہی نہ رہے''…… تھیریسیا نے کہا… ''میں تم سے امید رکھوں گی کہ اس کی کم عمری اور جذباتیت سے فائدہ نہ اٹھائو''۔
''لزا تمہاری طرح شہزادی ہے''…… الناصر نے کہا…… ''اور میں تمہارا قیدی ہوں، میں ایک حقیر انسان ہوں۔ لزا کا مذہب کچھ اور ہے اور میراکچھ اور۔ شہزادی اور قیدی میں اتنی محبت نہیں ہوسکتی''۔
''تم عورت کی فطرت سے شاید واقف نہیں''…… تھیریسیا نے کہا…… ''شہزادی اپنے قیدی کو دل دے بیٹھے تو اسے شہزادہ سمجھ کر اپنے آپ کو اس کا قیدی بنا لیا کرتی ہے۔ محبت مذہب کی زنجیریں توڑ دیا کرتی ہے۔ میں اس کے ساتھ بات کرچکی ہوں۔ وہ کہتی ہے کہ میرا جینا اور میرا مرنا الناصر کے لیے ہے۔ وہ کہے گا کہ اپنا مذہب چھوڑ دو تو میں گلے سے صلیب اتار کر پھینک دوں گی۔ تم نہیں جانتے الناصر، لزا نے صرف تمہاری خاطر شیخ سنان کو ناراض کردیا ہے۔ وہ تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو قید میں ڈال دینا چاہتا ہے لیکن لزا نے اس کے ساتھ دشمنی مول لے کر تمہیں اپنے ساتھ رکھا ہے۔ سنان نے لزا کو جو شرط بتائی ہے وہ صرف اس لڑکی کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے جسے کسی کی محبت نے اندھا کررکھا ہو۔ اگر ہم اس قلعے سے جلدی نہ نکل سکے تو لزا یہ شرط مان لے گی''۔
''میں ایسا نہیں ہونے دوں گا''…… الناصر نے کہا…… ''میں لزا کی آبرو کی خاطر کٹ مروں گا''۔
''کیا تمہارے دل میں لزا کی اتنی ہی محبت ہے جتنی اس کے دل میں ہے؟''
''اگر وہ لڑکی ہوکر میری محبت کا اعتراف کرتی ہے اور اس کے اظہار سے نہیں ڈرتی تو میں انکار کیوں کرو؟ میں مرد ہوں۔ میرے دل میں لزا کی محبت ہے''۔
''میں تم سے صرف یہ التجا کرتی ہوں کہ اسے دھوکہ نہ دینا''…… تھیریسیا نے کہا…… ''تم ہمارے قیدی نہیں ہو، گمشتگین تمہیں اپنامہمان سمجھ رہا ہے''۔
الناصر کا ذہن جو لزا کے متعلق دو حصوں میں بٹ گیا تھا، صاف ہوگیا۔ اس پرلزا کی محبت کا نشہ طاری ہوگیا اور وہ اسے دیکھنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ اس نے تھیریسیا سے پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ تھیریسیا نے اسے بتایا کہ وہ رات بھر جاگتی رہی ہے، دوسرے کمرے میں سوئی ہوئی ہے۔ تھیریسیا کا تیر نشانے پرلگا۔ اس نے لزا کے طلسم کو الناصر کی عقل پر پوری طرح طاری کردیا…… یہی اس کا مقصد تھا۔ یہ لڑکیاں انتہا درجے کی چالاک تھیں۔ یہی ان کی تربیت تھی۔ وہ انسانی کمزوریوں کے ساتھ کھیلنا خوب جانتی تھیں۔ الناصر وہاں سے اٹھا تو وہ ہوا میں اڑ رہا تھا۔ اپنے کمرے میں گیا تو ساتھیوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کہاں گیا تھا۔ اس نے جھوٹ بولا اور انہیں تسلی دی کہ سب ٹھیک ہوجائے گا۔ وہ اپنے فرض سے پرے ہٹنے لگا تھا۔
٭ ٭ ٭
صلیبی گمشتگین کے پاس بیٹھا ہواتھا۔ گمشتگین اسے کہہ رہا تھا کہ وہ الناصر اور اس کے ساتھیوں کو ایک دو دنوں میں حرن لے جانا چاہتاہے۔ اتنے میں تھیریسیا آگئی۔ اس نے ان دونوں سے کہا…… ''ان چھاپہ ماروں کا کمانڈر ہمارے جال میں آگیاہے''…… اس نے بتایا کہ کس طرح الناصر کے دل رپ لزا کا قبضہ مکمل اور پختہ کردیا ہے۔ اس نے کہا…… ''اس آدمی کو صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ آدمی کتنے وقت میں اپنی اصلیت کو بھول کر اپنے سلطان کے قتل کے لیے تیار ہوتا ہے''۔
''میں ان چاروں کو ایک دو دنوں میں حرن لے جانا چاہتاہوں''…… گمشتگین نے کہا…… ''کیا تم دونوں یا اکیلی لزا میرے ساتھ چلے گی اور میرے ساتھ رہے گی؟ قتل کے لیے الناصر کو لزا ہی تیار کرے گی''۔
''میں لڑکیوں کو اپنے ساتھ لے جارہا ہوں''…… صلیبی نے کہا…… ''میں زیادہ دن رک نہیں سکتا۔ مجھے اپنے حکمرانوں کو جلدی یہ اطلاع دینی ہے کہ حلب، موصل اور حرن کی فوجیں بالکل بے کار ہیں اور ان فوجیوں کے سالار سوائے بھاگنے کے اور کچھ نہیں جانتے ہیں۔ میں انہیں صورت حال سے آگاہ کرکے صلاح الدین ایوبی کو شکست دینے کا کوئی اور طریقہ اختیار کرنے کا مشورہ دوں گا۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری طرف سے آپ لوگوں کوجو مدد ملتی ہے، وہ بند کردی جائے''۔
''ایسا نہ کہو''…… گمشتگین نے منت سماجت کے لہجے میں کہا…… ''مجھے ایک موقعہ دو۔ میں ایوبی کو قتل کرا دوں گا پھر دیکھنا میں کس طرح فاتح بن کر دمشق میں داخل ہوتا ہوں۔ یہ دونوں لڑکیاں یا صرف لزا مجھے دے دو۔ اس نے چھاپہ ماروں کے کمان دار پر قبضہ کرلیا ہے۔ وہ اسے تیار کرلے گی۔ الناصر صلاح الدین ایوبی کے پاس بلا روک ٹوک جاسکتا ہے کیونکہ یہ اس کا چھاپہ مار ہے۔ وہ ایوبی کو آسانی سے قتل کرسکتاہے اور یہ بھی تو سوچو، لزا کو آپ لے گئے تو الناصر میرے کسی کام کا نہیں رہے گا''۔
کچھ مباحثے کے بعد صلیبی نے کہا…… ''حرن جانے کے بجائے ہم یہیں رکے رہتے ہیں۔ یہ دونوں لڑکیاں الناصر کو تیار کرلیں گی اور ہوسکتا ہے کہ اس کے تینوں ساتھیوں کو بھی تیار کیا جاسکے۔ ان کے دلوں میں صلاح الدین ایوبی کی نفرت پیدا کرنی ہے''۔
''الناصر کے متعلق میری رائے یہ ہے کہ بہت کچا آدمی ہے''…… تھیریسیا نے کہا…… ''لزا اس کی عقل پر قابض ہوچکی ہے۔ وہ تین ملاقاتوں کے بعد وہ لزا کے اشاروں پر ناچنے لگے گا''۔
''آج ان چاروں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائو''۔
کھانے کا وقت ہوا تو الناصر اور اس کے ساتھیوں کو بھی کھانے کے کمرے میں بلا لیا گیا۔ ان کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی پیدا کرلی گئی۔ کھانا ابھی رکھا نہیں گیا تھا کہ شیخ سنان کے ایک خادم نے آکر صلیبی سے کہا کہ اسے سنان نے بلایا ہے۔ صلیبی چلا گیا۔
''اس لڑکی کے متعلق تم نے کیا سوچا ہے؟''…… شیخ سنان نے پوچھا۔
 ''میں جب جائوں گا تو اسے اپنے ساتھ لے جائوں گا''…… صلیبی نے جواب دیا۔
''تمہارے جانے تک لڑکی میرے پاس رہے گی''…… سنان نے کہا۔
''میں آج ہی چلا جائوں گا''۔
''جائو''…… شیخ سنان نے کہا…… ''اور لڑکی کو یہیں چھوڑ جائو، تم اسے قلعے سے باہر نہیں لے جاسکو گے''۔
''سنان!''…… صلیبی نے کہا…… ''اس قلعے کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی۔ مجھے للکارنے کی جرأت نہ کرو''۔
''معلوم ہوتا ہے تمہارا دماغ ابھی ٹھکانے نہیں آیا''…… شیخ سنان نے کہا…… ''آج رات لڑکی کو تم خود میرے پاس لے آنا، خود جائو یا رہو، اگرتم رات لڑکی کو نہ لائے تو تم تہہ خانے میں اور لڑکی میرے پاس ہوگی۔ جائو، ٹھنڈے دل سے سوچ لو''۔
٭ ٭ ٭
صلیبی کھانے کے کمرے میں داخل ہوا۔ سب بے تابی سے اس کا انتظار کررہے تھے۔ وہ پھنکار رہا تھا۔ کہنے لگا…… ''سنو دوستو! شیخ سنان نے مجھے للکار کر کہا ہے کہ آج رات لزا اس کے پاس ہوگی۔ اس نے مجھے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ لزا کو میں خود اس کے پاس لے جائوں اور اگر میں نہ لے گیا تو وہ مجھے تہہ خانے میں ڈال دے گا اور لزا کو لے جائے گا''۔
''آپ اگر تہہ خانے میں چلے گئے تو کیا ہم مرجائیں گے؟''…… الناصر نے کہا…… ''وہ لزا کو نہیں لے جاسکے گا''۔
''لیکن یہ لڑکی تمہاری کیا لگتی ہے الناصر؟''…… اس کے ایک ساتھی نے پوچھا۔
''تم اپنے آپ کو ہمارا قیدی نہ سمجھو''…… گمشتگین نے کہا…… ''یہ مصیبت ہم سب کے لیے آرہی ہے''۔
''تم ہمارے نہیں، شیخ سنان کے قیدی ہو''…… صلیبی نے کہا…… ''تم ہمارا ساتھ دو۔ ہم باہر جاکر تمہیں آزاد کردیں گے۔ اب یہاں سے نکلنے کی سوچو''۔
''مجھے شیخ سنان نے اجازت دے رکھی ہے کہ ان چاروں کو اپنے ساتھ لے جائوں''…… گمشتگین نے کہا…… ''میں انہیں آج لے جارہا ہوں۔ جلدی جلدی کھانا کھالو۔ مجھے شام سے پہلے روانہ ہونا ہے''۔
گمشتگین کا دماغ بہت تیز تھا۔ اس نے کھانے کے دوران سب کو بتا دیا کہ اس نے کیا سوچا ہے۔ کھانا کھا کر اس نے اپنے خادموں اور باڈی گارڈوں کو بلایا اور کہا کہ وہ فوراً قلعے سے روانہ ہورہا ہے۔ سامان فوراً باندھ لیا جائے۔ اسی وقت اس کا قافلہ تیارہونے لگا۔ اس کے اپنے گھوڑے کے علاوہ چار گھوڑے باڈی گارڈوں کے تھے۔ چار اونٹ تھے جن پر کھانے پینے کے سامان کے علاوہ خیمے لادے گئے۔ سفرلمبا تھا۔ اس لیے خیمے ساتھ رکھے گئے تھے۔ انہیں ان کے بانسوں پر لپیٹا گیا تھا۔
گمشتگین شیخ سنان کے پاس گیا اور اسے بتایا کہ وہ جارہا ہے اور چاروں چھاپہ ماروں کو بھی ساتھ لے جارہا ہے۔ ان کے متعلق سودا طے ہوچکا تھا۔ گمشتگین نے زروجواہرات کی صورت میں قیمت ادا کردی تھی۔
''مجھے امید ہے کہ میں نے صلیبیوں کے کہنے پر جو چار آدمی بھیج رکھے ہیں، وہ صلاح الدین ایوبی کا کام تمام کرکے ہی آئیں''…… شیخ سنان نے کہا…… ''تم سیف الدین کو ان چھاپہ ماروں سے قتل کرائو۔ تم لوگ لڑ نہیں سکتے۔ اپنے دشمنوں کو چوری چھپے قتل کرائو…… تمہارا صلیبی دوست اور اس کی پریاں کہاں ہیں؟''
''اپنے کمرے میں ہیں''…… گمشتگین نے کہا۔
''اس نے چھوٹی لڑکی کے متعلق کوئی بات تو نہیں کی؟''
''اسے کہہ رہا تھا کہ آج رات شیخ سنان کے پاس چلی جانا''…… گمشتگین نے جواب دیا…… ''وہ آپ سے بہت ڈرا ہوا معلوم ہوتاتھا''۔
''یہاں بڑے بڑے جابر آدمی ڈر جاتے ہیں''…… شیخ سنان نے کہا…… ''کمبخت لڑکی کو مجھ سے یوں چھپا رہا تھا جیسے وہ اس کی اپنی بیٹی ہے''۔
گمشتگین اس سے رخصت ہوا، اس کا قافلہ تیار کھڑا تھا۔ وہ گھوڑے پر سوار ہوا۔ دو گمشتگین کے آگے ہوگئے اور دو اس کے پیچھے۔ ان کے ہاتھوں میں برچھیاں تھیں۔ گھوڑوں کے پیچھے الناصر اور اس کے ساتھی اور اس کے پیچھے سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے۔ قلعے کا دروازہ کھلا۔ قافلہ باہر نکل گیا اور دروازہ بند ہوگیا۔
٭ ٭ ٭
: قافلہ قلعے سے دور ہی دور ہوتاگیا اور سورج افق کے عقب میں چھپنے لگا۔ سورج نے غروب ہوکر قافلے اور قلعے کو چھپا لیا۔ قلعے میں قندیلیں اور فانوس جل اٹھے۔ شام پوری طرح تاریک ہوگئی تو شیخ سنان نے اپنے دربان سے پوچھا…… ''وہ صلیبی لڑکی کو لے کر نہیں آیا؟''…… اسے نفی میں جواب ملا۔ اس نے تین چار بار پوچھا تو بھی اسے نفی میں جواب ملا۔ اس نے اپنے خصوصی خادم کو بلا کر کہا…… ''اس صلیبی سے جاکر کہو کہ چھوٹی لڑکی کو لے کر جلدی آئے''۔
خادم ان کمروں میں گیا جہاں صلیبی ٹھہرا کرتے تھے، وہاں کوئی نہیں تھا۔ لڑکیاں بھی نہیں تھیں۔ تمام کمرے خالی تھے۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ قلعے کے باغ میں گھوم پھر کر دیکھا۔ چٹان کے اردگرد گھوم کر دیکھا۔ وہاں سے بھی مایوس لوٹا اور شیخ سنان سے کہا کہ صلیبی اور لڑکیاں نہیں ملیں۔ سنان نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اپنی فوج کے کمانڈر کو بلا کر حکم دیا کہ قلعے کے کونوں کھدروں کی تلاشی لو اور صلیبی کو برآمد کرو۔ فوج میں کھلبلی مچ گئی جسے دیکھو بھاگ دوڑ رہا تھا۔ قلعے میں ہر طرف قندیلیں اور مشعلیں متحرک نظرا تی تھیں۔ صلیبی کہیں سے بھی نہ ملا۔ شیخ سنان نے ان آدھ درجن پہرہ داروں کو بلایا جو دروازے پر ڈیوٹی پر تھے۔ ان سے پوچھا کہ گمشتگین کے قافلے کے علاوہ کس کے لیے دروازہ کھولا گیاتھا۔ انہوں نے بتایا کہ حکم کے بغیر کسی کے لیے دروازہ نہیں کھولا جاتا اور گمشتگین کے علاوہ کسی اور کے لیے کھولا ہی نہیں گیا۔ انہوں نے گمشتگین کے قافلے کی تفصیل بھی بتائی۔ اس قافلے کے ساتھ صلیبی اور لڑکیاں نہیں تھیں۔
شیخ سنان اپنے کمرے میں پھنکار رہا تھا۔ رات کا پہلا پہر گزر گیا تھا۔ گمشتگین کا قافلہ چلا جارہا تھا۔ اس نے اپنا گھوڑا روک کر شتر بانوں سے کہا…… ''اونٹوں کو بٹھائو اور انہیں باہر نکالو، مر ہی نہ جائیں''۔
اونٹوں کو بٹھا کر ان پر لدے ہوئے خیمے اتارے گئے، خیمے کھولے گئے تو ان میں سے صلیبی، تھیریسیا اور لزا نکلیں۔ وہ پسینے میں نہائے ہوئے تھے۔ گمشتگین انہیں خیموں میں لپیٹ کر قلعہ عصیات سے نکال لایا تھا۔ وہ قلعے سے بہت دور نکل گئے تھے۔ فدائیوں سے ایسی توقع نہیں رکھی جاسکتی تھی کہ وہ تعاقب میں آئیں گے۔ یہ فرقہ جنگجو نہیں تھا۔ کسی کے ساتھ آمنے سامنے کی لڑائی کا خطرہ مول نہیں لیاکرتا تھا۔ پھر بھی گمشتگین نے قافلے کو قیام نہ کرنے دیا۔ لڑکیوں کو اونٹوں پر سوار کردیا گیا۔ صلیبی چھاپہ ماروں کے ساتھ پیدل چل پڑا۔ اس کا گھوڑا اور لڑکیوں کے گھوڑے قلعے میں رہ گئے تھے۔ صلیبی اس خطے کی زبان روانی سے بولتا تھا۔ اس نے الناصر کے ساتھ باتیں شروع کردیں۔ ان باتوں میں دوستی اور پیار کا رنگ غالب تھا۔ الناصر کے دل سے خطرے نکل گئے۔ وہ تو لزاکے قریب ہوناچاہتا تھا۔
لزا کے قریب ہونے کا موقعہ آدھی رات کے بعد ملا جب ایک جگہ قافلے کو قیام کے لیے روکا گیا۔ گمشتگین کے لیے خیمہ کھڑا کردیا گیا۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں