داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 97 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 97


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔97 لڑکی نے اپنی لاش دیکھی
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جنات کی دہشت الناصر کے دل ودماغ پر بدستور طاری تھی۔ عرب کا یہ خوبرو جوان سلطان صلاح الدین ایوبی کے ان چھاپہ ماروں میں سے تھا جو موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا کرتے تھے۔ صلیبیوں کا یہ کہنا تھا کہ سلطان ایوبی کے چھاپہ ماروں سے موت بھی ڈرتی ہے۔ صحرائوں کی صعوبتوں کا کو دریائوں کی تندی کو اور سنگلاخ دیواروں کو خاطر میں نہ لانے والے یہ جانباز آگ میں بھی کود جایا کرتے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ دشمن کی رسد وغیرہ کو آگ لگا کر ان میں سے بعض شعلوں کی لپیٹ میں آکر زندہ جل جایا کرتے تھے مگر جنات اور بھوت پریت ایسی مخلوق تھی جس سے یہ سرفروش ڈر جایا کرتے تھے۔ ان میں سے کسی نے کبھی جن اور بھوت نہیں دیکھے تھے، صرف کہانیاں اور روائتیں سنی تھیں جنہیں وہ سو فیصد سچ مانتے تھے اور دل پر جنات کا خوف طاری کیے رکھتے تھے۔
اگر الناصر قلعہ عصیات تک اپنی مرضی سے اور ہوش میں سفرکرتا تو وہ اتنا ڈرا ہوا نہ ہوتا، اگر اسے قیدی بنا کر لایا جاتا تو بھی وہ نڈر رہتا اور فرار کی ترکیبیں سوچتا، لیکن اسے حشیش کے نشے میں اور اس کے ذہن میں غیر حقیقی تصورات ڈال کر لایا گیا تھا۔ اب نشہ اتر چکا تھا۔ اس نشے میں وہ سبزہ زار اور باغات میں سے گزر کر آیا تھا۔ اسے یاد آنے لگا کہ زمین کے اس خطے میں کہیں کہیں سبزہ اور ہو سکتا ہے۔میلوں وسیع علاقہ ایسا جنت نما نہیں ہوسکتا۔ اب اس کے پلنگ پر وہ لڑکی آبیٹھی تھی جسے وہ جن سمجھا تھا۔ لڑکی اس کے تصوروں سے زیادہ خوبصورت تھی۔ الناصر اسے انسان تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہورہا تھا۔ لڑکی نے اسے کہا کہ وہ اس پر بھروسہ کرے تو وہ اور زیادہ ڈر گیا۔ اس نے یہ بھی سن رکھا تھا کہ جنات بڑے دلکش دھوکے دے کر مارا کرتے ہیں۔ا سے یہ قلعہ جنات یا بدروحوں کا مسکن معلوم ہونے لگا۔ اس کے ساتھی ابھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔
اس نے دل کو حوصلہ دے کر لڑکی سے پوچھا…… ''میں تم پر کیوں بھروسہ کروں؟ تم مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہو؟ ہمیں یہاں کیوں لے آئی ہو؟ یہ جگہ کیا ہے؟'' 
''اگر تم مجھ پر بھروسہ نہیں کرو گے تو تمہارا انجام بہت برا ہوگا''۔ لڑکی نے جواب دیا…… ''تم بھول جائو گے کہ تم کون تھے۔ تمہارے ہاتھ تمہارے اپنے بھائیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہوں گے اور تم اس خون کو پھول سمجھ کر خوش ہوگے۔ میں ابھی تمہیں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتی کہ میں تم پر اتنی مہربان کیوں ہوگئی ہوں۔ یہ جگہ ایک قلعہ ہے جس کا نام عصیات ہے۔ یہ فدائیوں کا قلعہ ہے۔ یہاں فدائیوں کا پیغمبر شیخ سنان رہتا ہے۔ فدائیوں کو تم جانتے ہو؟''
''ہاں جانتا ہوں''۔ الناصر نے جواب دیا…… ''بہت اچھی طرح جانتا ہوں اور اب یہ بھی جان گیا ہوں کہ تم کون ہو، تم بھی فدائی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ فدائیوں کے پاس تم جیسی خوبصورت لڑکیاں ہوتی ہیں''۔
''میرا ان لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں''۔ لڑکی نے جواب دیا…… ''میرا نام لِزا ہے''۔
''تمہارے ساتھ ایک اور لڑکی تھی''۔
''اس کا نام تھیریسیا ہے''۔ لزا نے جواب دیا…… ''وہ یہیں ہے۔ تمہیں یہاں تک حشیش کے نشے میں لایا گیا ہے''۔
وہ اس سے زیادہ نہ بول سکی کیونکہ کمرے کے دراوزے میں اچانک تھیریسیا آن کھڑی ہوئی تھی۔ تھیریسیا نے لزا کو سر کے اشارے سے باہر بلایا۔ لزا باہر نکل گئی۔
''یہاں کیا کررہی ہو؟'' تھیریسیا نے پوچھا…… ''اس شخص کے اتنی قریب بیٹھ کر تمہیں خیال نہ آیا کہ مسلمان قابل نفرت ہوتے ہیں؟ کیا تم غداری کے جرم کا ارتکاب کرنا چاہتی ہو؟''
لزا کا ذہن خالی ہوگیا۔ اس کی زبان پر کوئی جواب نہ آیا۔ وہ جذباتی لحاظ سے اپنے پیشے یعنی مسلمان امراء کی کردار کشی سے متنفر ہوگئی تھی۔ یہ نفرت اس حد تک پہنچ گئی تھی جہاں انسان اپنے ردعمل میں بے قابوہوجاتا ہے اور وہ انتقام کی راہ اختیار کرلیتا ہے یا فرار کی۔
''میں بھی جوان لڑکی ہوں''۔ تھیریسیا نے اسے کہا…… ''مجھے بھی یہ مسلمان چھاپہ مار جس کا نام الناصر ہے، اچھا لگتا ہے۔ یہ دلکش جوان ہے، اگر تم یہ کہو کہ یہ تمہارے دل میں اتر گیا ہے تو میں حیران نہیں ہوں گی۔ مجھے یہ احساس بھی ہے کہ تمہارے دل میں ان بوڑھے مسلمان ا مراء اور ان کے سالاروں کے خلاف نفرت بھر گئی ہے، جن کے ہاتھوں میں تم کھلونا بنی رہی ہو مگر اپنے فرائض کو سامنے رکھو، صلیب کی عظمت کو سامنے رکھو، یہ مسلمان تمہارے دشمن ہیں''۔
''نہیں تھیریسیا''۔ لزا نے پریشان لہجے میں کہا…… ''مجھے اس کے ساتھ وہ دلچسپی نہیں جو تم سمجھ رہی ہو''۔
''پھر اس کے پاس کیوں آبیٹھی تھیں؟''
''میں اچھی طرح بیان نہیں کرسکتی''۔ لزا نے اکتائے ہوئے لہجے میں جواب دیا…… ''معلوم نہیں، ذہن میں کیا آیا تھا کہ میں اس کے پاس آبیٹھی''۔
''اس کے ساتھ کیا باتیں ہوئی ہیں؟''
''کوئی خاص بات نہیں ہوئی''۔ لزا نے کہا۔
''تم اپنے فرض میں کوتاہی کررہی ہو''۔ تھیریسیا نے کہا…… ''یہ غداری بھی ہے، جس کی سزا موت ہے''۔
''لیکن سن لو تھیریسیا!'' لزا نے کہا…… ''میں اسے بوڑھے شیخ سنان کے پاس اکیلی نہیں جائوں گی، اگر اس نے زبردستی کی تو اسے یا اپنے آپ کو ختم کرلوں گی''۔
تھیریسیا تو پتھر بن چکی تھی۔ وہ خوبصورت پتھر تھی جس کا رنگ اور جس کی چمک ہر کسی کے دل کو بھاتی ہے اور جسے ہر کوئی اپنی ملکیت میں رکھنا چاہتا ہے لیکن پتھر کی اپنی کوئی پسند یا ناپسند نہیں ہوتی۔ لزا بھی اس مقام سے بہت دور تھی جہاں عورت اپنے جذبات اور اپنی محبت اور نفرت سے دستبردار ہوجایا کرتی ہے۔ تھیریسیا نے اسے کہا…… ''مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ تم اتنی زیادہ جذباتی ہوجائو گی ورنہ ہم یہاں نہ آتیں مگر یہی ایک قلعہ تھا جو قریب تھا۔ تریپولی تک ہمارا پہنچنا ممکن نہیں تھا۔ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ شیخ سنان سے تمہیں بچانے کی پوری کوشش کروں گی اور یہاں سے جلدی نکلنے کی بھی کوئی صورت پیدا کرلوں گی۔ تم اپنے قیدی میں اتنی دلچسپی کا مظاہرہ نہ کرو''۔
''سچ بتا دوں تھیریسیا''۔ لزا نے کہا… ''میں ان چھاپہ ماروں کو یہاں سے فرار کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہوں۔ تم نہ خود یہاں سے نکل سکو گی، یہ چھاپہ مار ہیں جن کی بہادری کی میں نے حیران کن کہانیاں سن رکھی ہیں۔ انہیں اگر ذرا سا بھی موقعہ فراہم کیا گیا تو یہ فرار ہوجائیں گے اور مجھے اور تمہیں بھی ساتھ لے جائیں گے۔ اس کے سوا اور کوئی طریقہ نہیں''۔
''میں ان کی استادی اور بہادری کو مانتی ہوں''۔ تھیریسیا نے کہا…… ''لیکن تم نے یہ نہیں سوچا کہ ہم دونوں یا تم اکیلی ان کے ساتھ نکل گئی تو یہ تمہیں اپنے ساتھ لے جائیں گے۔ ہمیں ہماری منزل پر نہیں پہنچائیں گے۔ جھوٹے سہارے تلاش کرنے کی کوشش نہ کرو…… اور سنو!''۔ تھیریسیا نے کہا…… ''نہالو اور کپڑے بدل لو۔ آج رات کے کھانے پر شیخ سنان نے ہمیں مدعو کیا ہے۔ میں تمہیں بتائوں گی کہ اس کے ساتھ تمہارا سلوک اور رویہ کیسا ہوگا۔ اس پر یہ ظاہر کرنا ہے کہ تم اسے ناپسند نہیں کرتیں اور اس سے بھاگنے کی بھی نہیں سوچو گی۔ مجھے ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ حرن کا خودمختار مسلمان حاکم گمشتگین بھی آیا ہوا ہے۔ تمہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ گمشتگین صلاح الدین ایوبی کا سب سے بڑا دشمن ہے، اسے اپنا دوست سمجھنا۔ ہم نے بڑی مشکل سے ان مسلمان حکمرانوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور انہیں صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑا رہے ہیں''۔
٭ ٭ ٭
لزا کو جب تھیریسیا اپنے ساتھ لے گئی تو الناصر گہری سوچ میں ڈوب گیا۔ اسے کسی حد تک یقین آگیا تھا کہ لڑکیاں جنات نہیں لیکن لزا کا اس پر مہربان ہوجانا اسے پریشان کرنے لگا۔ لزا نے اسے بتا دیا تھا کہ اسے اور اس کے ساتھیوں کو حشیش کے نشے میں یہاں تک لایا گیا ہے اس سے وہ سمجھ گیا کہ یہ لڑکیاں فدائیوں کے گروہ کی ہوسکتی ہیں۔ اسے یہ شک بھی ہونے لگا کہ اسے حشیش کے علاوہ اس نوجوان اور خوبصورت لڑکی کے ذریعے اپنے ہاتھ میں لینے اور اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ وہ چونکہ چھاپہ مار تھا جسے دشمن کے علاقوں میں جانا ہوتا تھا، اس لیے اسے فدائیوں اور ان کے طور طریقوں کے متعلق اور حشیش کے اثرات کے متعلق خاص طور پر بتایا گیا اور خبردار کیا گیا تھا۔
اس نے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ جاگ کر وہ بھی اسی طرح حیران ہوئے جس طرح الناصر ہوا تھا۔ وہ تینوں الناصر کے منہ کی طرف دیکھنے لگے۔
''دوستو!'' الناصر نے انہیں کہا…… ''ہم فدائیوں کے جال میں آگئے ہیں۔ اس قلعے کا نام عصیات ہے۔ یہاں فدائی اور ان کی فوج رہتی ہے۔ یہ لڑکیاں جنات نہیں ہیں۔ میں ابھی بتا نہیں سکتا کہ ہمارے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ ہمیں احتیاط کرنی پڑے گی۔ تم سب جانتے ہو کہ فدائی کیا کیا طریقے اختیار کرتے ہیں۔ اگر مجھے اس کمرے سے باہر نکلنے کا موقع ملا تو قلعے سے فرار کی کوئی ترکیب سوچ لوں گا۔ تم خاموش رہنا۔ یہ لوگ کچھ پوچھیں تو انہیں بہت تھوڑا جواب دینا۔ ان شیطانوں سے بچنا آسان نہیں ہوتا''۔
''کیا یہ ہمیں قید میں ڈال دیں گے؟'' الناصر کے ایک ساتھی نے پوچھا۔
 ''اگر قید میں ڈال دیں تو ہمیں خوش ہونا چاہیے''۔ الناصر نے جواب دیا…… ''مگر یہ لوگ حشیش اور لڑکیوں کے ذریعے ہمارے ذہن اس طرح بدل دیں گے کہ ہمیں یاد ہی نہیں رہے گا کہ ہم کون تھے اور ہمارا مذہب کیا تھا''۔
''مجھے فرار کے سوا کوئی اور ذریعہ نجات نظر نہیں آتا''…… الناصر کے ایک ساتھی نے کہا۔
''ہم مرجانا پسند کریں گے، ایمان خراب نہیں ہونے دیں گے''۔ ایک اور نے کہا۔
''ہوشیار رہنا''۔ الناصر نے کہا… ''اللہ پر چھوڑو۔ ہم اتنی جلدی ان کے قبضے میں نہیں آئیں گے''۔
شام گہری ہونے لگی تھی۔ ایک آدمی دو جلتی قندیلیں کمرے میں رکھ گیا۔ اس نے ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔انہیں بھوک نے پریشان کرکھا تھا۔ ان کے کمرے سے دور قلعے کے ایک حصے میں سنان کا محل تھا جہاں عورت اور شراب کی رونق تھی۔ سنان کے خصوصی کمرے میں کھانے چنے ہوئے تھے۔ شراب کی صراحیاں رکھی تھیں۔ رنگا رنگ کھانوں کی مہک سے درودیوار مخمور ہوئے جارہے تھے۔ کھانے پر شیخ سنان بیٹھا تھا۔ اس کے ایک طرف تھیریسیا اور دوسری طرف لزا بیٹھی تھی اور ان کے سامنے گمشتگین بیٹھا کھانا کھا رہا تھا۔
گمشتگین کے متعلق کئی بار بتایا جاچکا ہے کہ وہ حرن نام کے ایک قلعے کا گورنر (قلعہ دار) تھا۔ نورالدین زنگی کی وفات کے بعد اس نے خودمختاری کا اعلان کرکے حرن قلعے اور گردونواح کے علاقے کو اپنی ریاست بنا لیا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے مسلمان دشمنوں (الملک الصالح اور سیف الدین) کا اتحادی تھا۔ اس نے بھی اپنی فوج متحدہ فوج میں شامل کی تھی جسے سلطان ایوبی نے شکست فاش دی تھی۔ گمشتگین خود اپنی فوج کے ساتھ نہیں گیا تھا۔ تینوں افواج کا سپریم کمانڈر سیف الدین تھا۔ گمشتگین نے اپنے اتحادیوں کی طرح صلیبیوں کے ساتھ دوستانہ گانٹھ رکھا تھا۔ صلیبیوں نے انہیں فوج کی صورت میں تو ابھی کوئی مدد نہیں دی تھی۔ اپنے مشیر، جاسوس اور تخریب کار دے رکھے تھے اور انہیں اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے اعلیٰ قسم کی شراب، حسین لڑکیاں اور رقم دیتے رہتے تھے۔
گمشتگین کو خدا نے سازشی ذہن دیا تھا۔ اپنے دشمن پر وہ زمین کے نیچے سے وار کرتا تھا اور اپنے دوستوں کے خلاف بھی دل میں دشمنی رکھتا تھا۔ اسے پیار صرف اقتدار سے تھا۔ وہ اپنی ریاست کا مطلق العنان بادشاہ بن کر ریاست میں توسیع کرنے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ اسے جو کوئی دوستانہ مدد دیتا تھا، اسے بھی وہ شکی نگاہوں سے دیکھتا تھا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے قتل کی کوششوں میں گہری دلچسپی لیتا تھا۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اقتدار پسند حکمران کا تختہ صرف فوج الٹ سکتی ہے۔ سلطان ایوبی ہی ایک سالار تھا جس کے دل میں قومی جذبہ موجزن تھا۔ اس کی جنگی قابلیت کے ساتھ اس کا ایمان اس کی قوت تھا۔ گمشتگین اس کی اسی قوت سے ڈرتا تھا۔ اب جبکہ اس نے اپنی فوج سیف الدین کی کمان میں دے کر ترکمان روانہ کردی تھی۔ وہ کسی کو بتائے بغیر شیخ سنان کے پاس قلعہ عصیات میں آگیا تھا۔ وہ یہی مشن لے کے آیا تھا کہ سلطان ایوبی کے قتل کا کوئی ایسا انتظام کیا جائے جو پہلی قاتلانہ کوشش کی طرح ناکام نہ ہو۔
عصیات میں وہ الناصر اور تھیریسیا کے پہنچنے سے ایک روز پہلے آیا تھا۔ اسے ابھی معلوم نہیں تھا کہ سیف الدین کی زیرکمان اس کی فوج کا سلطان ایوبی کے ہاتھوں کیا حشر ہوا ہے۔ وہ افواج کو روانہ کرکے اپنے سازشی دورے پر نکل گیا اور عصیات جا پہنچا تھا۔
٭ ٭ ٭
''گمشتگین بھائی!'' شیخ سنان نے اسے کھانے کے دوران کہا…… ''تمہارے دوست تو ترکمان سے بھاگ گئے ہیں''۔ اس نے تھیریسیا سے کہا…… ''انہیں میدان جنگ کی تفصیل سنائو''۔
گمشتگین کو اس خبر سے اتنا صدمہ ہوا کہ وہ کچھ بھی نہ بولا۔ اس کا رنگ اڑ گیا اور وہ صدمے اور حیرت سے تھیریسیا کی طرف دیکھنے لگا۔ تھیریسیا نے اسے بتایا کہ سلطان ایوبی نے قلیل سی نفری سے کس طرح متحدہ افواج پر حملہ کیا اور بھگایا ہے۔ سیف الدین کے متعلق تھیریسیا نے بتایا کہ اس کے وہاں سے روانہ ہونے تک سیف الدین میدان جنگ سے لاپتہ تھا۔ گمشتگین خاموشی سے سنتا رہا۔
''مجھے میرے دوستوں نے ذلیل کیا ہے''۔ گمشتگین نے غصے سے کہا… ''میں سیف الدین کو تینوں فوجوں کی کمان دینے کے حق میں نہیں تھا مگر میری کسی نے نہ سنی۔ معلوم نہیں میری فوج کس حالت میں ہوگی''
''بہت بری حالت میں''۔ تھیریسیا نے کہا…… ''صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ ماروں نے آپ کی فوجوں کو اطمینان اور خیریت سے پسپا بھی نہیں ہونے دیا''۔
''سنان بھائی! تم جانتے ہو، میں یہاں کیوں آیا ہوں''۔ گمشتگین نے کہا۔
 ''صلاح الدین ایوبی کے قتل کے لیے''۔ سنان نے کہا۔
''ہاں!'' گمشتگین نے کہا…… ''آپ جو مانگیں گے پیش کروں گا۔ ایوبی کو قتل کرائو''۔
''میں نے صلیبیوں اور سیف الدین کے کہنے پر ایوبی کے قتل کے لیے چار فدائی بھیج رکھے ہیں''۔ سنان نے کہا…… ''لیکن مجھے امید نہیں کہ وہ اسے قتل کرسکیں''۔
''مجھ سے الگ اپنا انعام لو''۔ گمشتگین نے کہا…… ''نئے آدمی دو لیکن یہ آدمی مجھے دے دو۔ یہ کام میں خود کرائوں گا''۔
''یہ آخری چار فدائی ہیں جو میں نے بھیجے ہیں''۔ شیخ سنان نے کہا…… ''میرے پاس قاتلوں کی کمی نہیں لیکن میں صلاح الدین ایوبی کے قتل سے دستبردار ہوتا ہوں''۔
''کیوں؟''۔ گمشتگین نے حیران ہوکر پوچھا…… ''ایوبی نے تمہیں کوئی قلعہ دے دیا ہے؟''
''نہیں''۔ سنان نے جواب دیا…… ''اس شخص کے قتل کے لیے میں اپنے بڑے ہی قیمتی فدائی ضائع کرچکا ہوں۔ میرے فدائیوں نے اس پر سوتے میں خنجروں سے حملہ کیا مگر وہ خود قتل ہوگئے۔ ایک بار اس پر تیر چلائے گئے، وہ بھی خطا ہوگئے۔ میں تو اب یہ سمجھ بیٹھا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی پر خدا کا ہاتھ ہے۔ اس میں کوئی ایسی قوت ہے کہ اس پر نہ خنجر اثر کرتا ہے، نہ تیر۔ میرے جاسوسوں نے مجھے بتایا ہے کہ ایوبی پر جب قاتلانہ حملہ ہوتا ہے تو حملے کو ناکام کرکے وہ گھبرانے یا غصے میں آنے کے بجائے مسکراتا ہے اور فوراً بھول جاتا ہے کہ کیا ہوا تھا''۔
''مجھے اپنی اجرت بتائو سنان!''۔ گمشتگین نے جھنجھلا کر کہا…… ''میں ایوبی کو زندہ نہیں دیکھنا چاہتا۔ تم نے اناڑی قاتل بھیجے ہوں گے''۔
''وہ سب استاد تھے''۔ شیخ سنان نے کہا…… ''ان سے کبھی کوئی بچ کر نہیں گیا تھا۔ وہ موت سے ڈرنے والے نہیں تھے۔ میرے پاس ان کے بھی استاد موجود ہیں۔ یہ ایسے طریقوں سے قتل کرتے ہیں کہ ان کا کوئی سراغ نہیں ملتا لیکن گمشتگین! میں اپنے قیمتی فدائیوں کو یوں ضائع نہیں کروں گا…… تم تین فوجوں سے ایوبی کو نہیں مار سکتے، میرے تین چار آدمی اسے کس طرح قتل کرسکتے ہیں؟''
''تم ایوبی کے قتل سے جو ڈر گئے ہو، اس کی وجہ کچھ اور ہوگی''۔
''اور وجہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے ساتھ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں''۔ سنان نے کہا…… ''حسن بن صباح نے تو پیغمبر بننا چاہا تھا لیکن اس کے مرنے کے بعد ہمارا فرقہ پیشہ ور قاتل بن گیا۔ میں پیشہ ور قاتل ہوں گمشتگین! ایوبی مجھے تمہارے قتل کے لیے اجرت دے گا تو میں تمہیں بھی قتل کرادوں گا''۔
''لیکن صلاح الدین بزدلوں کی طرح کسی کو قتل نہیں کراتا''۔ لزا نے کہا…… ''یہی وجہ ہے کہ وہ بزدلوں کے ہاتھوں قتل نہیں ہوتا''۔
''اوہ!'' سنان نے لزا کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر پیار سے کہا…… ''تم نے اسی عمر میں جان لیا ہے کہ جو بزدل نہیں ہوتے، ان کا بزدل کچھ نہیں بگاڑ سکتے''۔ اس نے گمشتگین سے کہا۔ ''تم سیف الدین اور الملک الصالح اور صلیبی صرف اس لیے ایک دوسرے کے دوست بنے ہوئے ہو کہ صلاح الدین کے دشمن ہو، ورنہ تمہاری آپس میں کوئی دوستی نہیں۔ مجھے یہ بتائو کہ ایوبی کو قتل کرکے تم کیا حاصل کرسکو گے؟ وہ مرگیا تو آپس میں لڑوگے…… غور سے سنو گمشتگین! ایوبی کے قتل کے بعد تمہیں اس سلطنت سے بالشت بھر زمین بھی نہیں ملے گی جو ایوبی نے قائم کرلی ہے۔ اس کے بھائی اور اس کے سالار متحد ہیں۔ تم اگر کسی کو قتل کرانا ہی چاہتے ہوتو سیف الدین کو قتل کرادو اور موصل پر قبضہ کرلو۔ اسے تم خود قتل کرسکتے ہو۔ وہ تمہیں اپنا دوست اور اتحادی سمجھتا ہے۔ اسے زہر دلا سکتے ہو۔ اس پر حملہ کراسکتے ہو''۔
: گمشتگین گہری سوچ میں کھوگیا، پھر بولا…… ''ہاں! سیف الدین کو قتل کرادو۔ بتائو کیا مانگتے ہو''۔
''حرن کا قلعہ''۔ شیخ سنان نے کہا۔
''تمہارا دماغ ٹھکانے ہے سنان؟'' گمشتگین نے کہا…… ''زروجواہرات کی صورت میں اپنی قیمت بتائو''۔
''زرجواہرات کے عوض تمہیں چار آدمی دیتا ہوں''…… سنان نے کہا …… ''لیکن یہ میرے فدائی نہیں ہیں، یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار ہیں۔ انہیں یہ دونوں لڑکیاں حشیش کے نشے میں ساتھ لائی ہیں۔ میں انہیں کسی کے حوالے نہیں کرناچاہتا تھا۔ ایسے تجربہ کار آدمی ملتے ہی کہاں ہیں۔ اتفاق سے آگئے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ حشیش اور میری پریاں انہیں اپنے رنگ میں رنگ کر ایسا قاتل بنا لیں گی کہ اپنے ماں باپ کا بھی خون بہا آئیں گے۔ میں تمہیں مایوس نہیں کرنا چاہتا۔ ان کو لے جائو۔ تھوڑے دن انہیں اپنی جنت دکھائو۔ انہیں اپنے حرم کے شہزادے بنا دو، انہیں بتائے بغیر حشیش دو، پھر انہیں شراب کا عادی بنا دو۔ تمہارے اشاروں پر ناچیں گے''۔
''صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار اتنے کچے نہیں ہوتے، جتنا تم سمجھ رہے ہو''۔ گمشتگین نے کہا۔
''تم جانتے ہو گمشتگین، ہم فدائی کہلاتے ہیں۔ انسان کے ذہن کے ساتھ کھیلتے ہیں''۔ شیخ سنان نے کہا…… ''ہم اپنے شکار کے ذہن میں دل فریب تصور ڈال کر اس کی ی حالت کردیتے ہیں کہ وہ تصور کو حقیقت سمجھنے لگتا ہے۔ کسی انسان کے ذہن میں عورت کا حسین تصور پیدا کردو اور اس کے ساتھ اسے نشہ دئیے جائو تو وہ اس تصور کا غلام ہوجاتا ہے۔ انسان کو عورت کے تصوروں میں کھوئے رہنے کا عادی بنا دو پھر تم اس کا کردار اور اس کا ایمان بڑے ہی کم داموں خرید سکتے ہو…… ان چاروں کو لے جائو۔ یہ نہ سوچو کہ انہیں تم اپنے مقصد کے لیے استعمال نہیں کرسکو گے''۔ سنان نے مسکرا کر کہا…… ''اپنے آپ پر نظر ڈالو۔ عورت، شراب اور عیش پرستی تمہیں کہاں سے کہاں لے آئی ہے۔ مسلمان ہوکر تم مسلمانوں کے دشمن بنے ہو''۔
شیخ سنان نے اسے اپنی قیمت بتائی۔ سودا طے ہوگیا کہ گمشتگین الناصر اور اس کے ساتھیوں کو اپنے ساتھ حرن لے جائے گا۔ سنان نے اسے بتایا کہ وہ ان چاروں کو قید خانے میں نہ ڈال دے بلکہ انہیں شہزادے بنا کر رکھے۔ گمشتگین نے یہ ہدایات سنیں اور یہ کہہ کر چلا گیا کہ ایک دو دونوں میں وہ ان چھاپہ ماروں کو لے جائے گا۔
٭ ٭ ٭
گمشتگین وہاں سے نکلا تو شیخ سنان کا ایک آدمی اندر آیا۔ اس نے پوچھا کہ آج جو چار آدمی لائے گئے ہیں، ان کے متعلق کیا حکم ہے۔
''حرن کا والی گمشتگین آیا ہوا ہے''۔ سنان نے کہا…… ''وہ انہیں ساتھ لے جارہا ہے۔ ان کے کھانے اور آرام وغیرہ کا نتظام کردو۔ ہم انہیں نہیں رکھنا چاہتے۔ انہیں یہ نہ بتانا کہ انہیں کہاں بھیجا جارہا ہے''۔
یہ آدمی چلا گیا۔ اس نے الناصر اور اس کے ساتھیوں کے کھانا بھجوایا۔ الناصر نے کھانے سے انکار کردیا۔ اسے شک تھا کہ کھانے میں حشیش ڈالی گئی ہے۔ بہت ہی مشکل سے اسے یقین دلایا گیا کہ کھانے میں کچھ نہیں ملایا گیا۔ الناصر اور اس کے ساتھی بھوک سے بے بحال ہوئے جارہے تھے۔ اپنے سامنے اتنا اچھا کھانا دیکھ کر انہوں نے کھانے کا خطرہ مول لے لیا۔
 شیخ سنان نے تھیریسیا سے کہا کہ وہ چلی جائے اور لزا کو اس کے پاس چھوڑ جائے۔ تھیریسیا نے کہا کہ وہ تین چار دن مسلسل سفر میں رہی ہیں، اس لیے آرام کریں گے۔ سنان میں انسانیت کم اور درندگی زیادہ تھی۔ اس نے لزا کے ساتھ پہلے تو چھیڑ چھاڑ کی جو لزا تھیریسیا کے کہنے کے مطابق برداشت کرتی رہی اور اس سے گلو خلاصی کرانے کے لیے بہانے بھی تراشتی رہی۔ سنان نے دست درازی شروع کردی۔ لزا کا مزاج بگڑنے لگا۔ اچانک دروازہ کھلا۔ دربان نے کسی کی آمد کی اطلاع دی۔ سنان نے غصے سے کہا… …''اس وقت کوئی اندر نہیں آسکتا''…… مگر اندر آنے والے نے اس کے حکم کی پروا نہ کی۔ وہ دربان کو ایک طرف کرکے اندر آگیا۔
وہ ایک صلیبی تھا جو اسی وقت قلعے میں پہنچا تھا۔ سنان اسے جانتا تھا۔ اسے دیکھتے ہی سنان نے اس کا نام لیا اور خوشی کا اظہار کیا لیکن یہ بھی کہا…… ''تم آرام کرو، صبح ملیں گے''۔
''میں شاید صبح ہی آپ کے پاس آجاتا''۔ صلیبی نے کہا…… ''لیکن یہاں آتے ہی پتہ چلا ہے کہ یہ لڑکیاں آئی ہیں، مجھے ان سے بہت کچھ پوچھنا ہے۔ میں انہیں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں''۔
سنان نے تھیریسیا کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا…… ''اسے لے جائو''…… اور اس نے لزا کو اپنی طرف گھسیٹ کر کہا… ''اسے میں یہیں رکھوں گا''۔
''شیخ سنان!'' صلیبی نے قدرے دبدبے سے کہا…… ''میں دونوں کو لے جارہا ہوں، تم جانتے ہو میں کس کام سے آیا ہوں اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ان لڑکیوں کے کیا فرائض ہیں۔ تمہاری بغل میں بیٹھنا ان کے فرائص میں شامل نہیں''۔ اس نے لڑکیوں سے کہا…… ''دونوں میرے ساتھ آئو''۔
دونوں اچک کر اٹھیں اور صلیبی کے پاس جاکھڑی ہوئیں۔
''کیاتم میرے ساتھ دشمنی کا خطرہ مول لینا چاہتے ہو؟'' شیخ سنان نے کہا…… ''تم میرے قلعے میں ہو۔ میں تمہیں مہمان سے قیدی بھی بنا سکتا ہوں اور تم کوشش کررہے ہو کہ تمہیں مہمان سے قیدی بنا دیا جائے''۔ اس نے گرج کر کہا…… ''اس لڑکی کو میرے پاس چھوڑ کر باہر نکل جائو''۔
''سنان!'' صلیبی نے طنزیہ لہجے میں کہا…… ''کیا تم بھول گئے ہوکہ یہ قلعہ تمہیں ہم نے دیا ہے؟ کیا تمہارے ذہن سے یہ حقیقت بھی اتر گئی ہے کہ ہم تمہاری پیٹھ پر ہاتھ نہ رکھیں تو تم اور تمہارے فدائی کرائے کے قاتلوں کے سوا کچھ بھی نہیں رہیں گے''۔
شخ سنان پر صرف شراب کا نشہ طاری نہیں تھا، وہ اس قلعے کا بادشاہ تھا ور وہ کسی بھی بادشاہ کو کسی بھی وقت ایسے طریقے سے قتل کراسکتا تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہوتا کہ قاتل سنان یا اس کا کوئی فدائی ہے۔ اس نے صلیبی افسر بھی قتل کرائے تھے۔ یہ صلیبیوں کی آپس کی عداوت کا نتیجہ تھا۔ ان کا کوئی جرنیل یا کوئی اور فوجی یا غیرفوجی افسر اپنے کسی حریف افسر کو قتل کرانے کی ضرورت کبھی محسوس کرتا تو اس مقصد کے لیے وہ سنان کی خدمت حاصل کیا کرتا تھا۔ عصیات کے قلعے میں رہتے تو انسان تھے لیکن یہ بدروحوں کا قلعہ معلوم ہوتا تھا۔ اس کے تہہ خانوں میں انسان گم ہوجاتے تھے۔ فدائی پاگل لگتے تھے۔ کسی کو قتل کرنا ان کے لیے منہ کا نوالہ ڈال لینے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کے محل کا یہ حسن تھا کہ چھتوں اور دیواروں میں رنگا رنگ شیشوں کے ٹکڑے جڑے ہوئے تھے۔ فانوسوں کی روشنی سے ان سے رنگا رنگ شعاعیں نکلتی تھیں۔ یہاں انسان بھول جاتا تھا کہ اس جنت کے اردگرد بے رحم اور تپتے ہوئے ٹیلے ہیں۔
اس ماحول اور ایسی حیثیت میں شیخ سنان اپنے آپ کو دیوتا سمجھتا تھا۔ اس میں حیوانیت اور درندگی زیادہ تھی۔ لزا جیسی لڑکی سے وہ دستبردار نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے صلیبی سے کہا…… ''میں تمہیں سوچنے کی مہلت دوں گا۔ اس قلعے میں خدا کے بھیجے ہوئے فرشتے بھی گم کردئیے جاتے ہیں۔ خدا کو بھی پتہ نہیں چلتا۔ میں اس لڑکی کو قلعے سے باہر نہیں جانے دوں گا۔ تم نے مزاحمت کی تو تم بھی قلعے سے باہر نہیں جاسکو گے''۔
''میرا ایک ساتھی آگے چلا گیا ہے''۔ صلیبی نے کہا…… ''وہ وہاں بتا دے گا کہ میں یہاں ہوں، تم جانتے ہو کہ میں یہاں دو تین روز کے قیام کے لیے آیا ہوں پھر مجھے کہیں اور جانا ہے۔ ہم اس معاہدے کے تحت تمہارے ہاں قیام کرتے ہیں جس کے تحت تمہیں یہ قلعہ دیا گیا تھا۔ یہ ہماری پناہ گاہ ہے اور ہمارا عارضی پڑائو بھی۔ تم ہماری ہڈیاں غائب کردو تو بھی تم سے پوچھا جائے گا کہ ہمارا ایک آدمی اور دو لڑکیاں کہاں ہیں''۔ صلیبی نے کچھ سوچا اور کہا…… ''اگر تم صلاح الدین ایوبی کو قتل کردو تو اس جیسی ایک درجن لڑکیاں تمہارے حوالے کردیں گے مگر تم ہماری رقم اور سونا ہضم کرتے رہے، ایوبی کو قتل نہ کرسکے۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے چار فدائی ایوبی کے قتل کے لیے بھیج رکھے ہیں لیکن یہ صرف افواہ معلوم ہوتی ہے۔ ایوبی ابھی تک زندہ ہے اور فاتح ہے''۔
''یہ افواہ نہیں''۔ سنان نے نشے اور غصے سے لرزتے ہوئے کہا…… ''میں نے چار آدمی بھیج رکھے ہیں۔ چند دنوں میں تم خبر سنو گے کہ صلاح الدین ایوبی قتل ہوگیا ہے''۔
''پھر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ تمہیں ہمارے حکمرانوں سے جو انعام واکرام ملا ہے، اس کے علاوہ میں تمہیں اس (لزا) جیسی دو لڑکیاں اپنی طرف سے دوں گا''۔
''وہ دیکھا جائے گا''…… سنان نے کہا…… ''میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ اس لڑکی کو تم میری خواب گاہ سے باہر لے جاسکتے ہو، اسے قلعے سے باہر نہیں لے جاسکو گے۔ جائو، انہیں لے جائو۔ میں نے قلعے میں صلیبیوں کے لیے جو کمرے الگ کررکھے ہیں، وہاں چلے جائو۔ کھائو، پیو، عیش کرو اور مجھے سوچ کر جواب دو کہ یہ لڑکی میرے حوالے کرو گے یا نہیں''۔
صلیبی دونوں لڑکیوں کو ساتھ لیے باہر نکل گیا۔ یہ صلیبی جاسوسی اور تخریب کاری کے محکمے کا افسر تھا۔ وہ مسلمانوں کے علاقوں میں گھومتا پھرتا رہا تھا اور اب واپس اپنے علاقے میں جارہا تھا۔ عصیات کے قلعے میں صلیبیوں کے لیے عارضی قیام کا انتظام کیا گیا تھا جو صلیبی جب چاہتا، اس قلعے میں آسکتا تھا۔ تھیریسیا بھی اسی سہولت کے تحت لزا اور الناصر کے ساتھیوں کو یہاں لائی تھی اور یہ صلیبی بھی ذرا آرام کے لیے یہاں آیا تھا۔ ایک دو روز بعد اسے آگے چلے جانا تھا۔ قلعے میں آتے ہی اسے کسی نے بتایا کہ دو صلیبی لڑکیاں آئی ہیں جو اس وقت شیخ سنان کے پاس ہیں۔ وہ انہیں دیکھنے کے لیے اندر چلا گیا اور سنان کے ساتھ گرما گرمی کے بعد دونوں لڑکیوں کو وہاں سے لے آیا۔
اس کے جانے کے بعد شیخ سنان نے اپنے خاص آدمی کو بلا کر کہا… ''یہ صلیبی اور یہ دونوں لڑکیاں ہماری قیدی نہیں ہیں لیکن انہیں ان کی مرضی سے قلعے سے نکلنے نہ دیا جائے۔ انہیں اس حق سے محروم کردیا جائے کہ جب چاہیں قلعے میں آجائیں، جب چاہیں نکل جائیں۔ ان پر نظر بھی رکھنا…… اور گمشتگین جب چاہے ان چار قیدیوں کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے جنہیں آج یہ لڑکیاں باہر سے لائی ہیں''۔
صلیبی کو بتایا گیا کہ حرن کا والی گمشتگین بھی آیا ہوا ہے اور وہ صلاح ا لدین ایوبی کے قتل کا انتظام کرتا پھر رہا ہے۔ اسے الناصر اور اس کے ساتھیوں کے متعلق بتایا گیا۔ صلیبی لڑکیوں کو قلعے کے اس حصے میں لے گیا، جہاں عارضی طور پر آنے والے صلیبیوں کے لیے کمرے مخصوص کیے گئے تھے۔
٭ ٭ ٭
سلطان صلاح الدین ایوبی نے سیف الدین کے سالار مظفرالدین کا حملہ جس طرح پسپا اور اس کی فوج کو جس طرح تہس نہس کیا تھا، وہ پوری تفصیل سے سنایا جاچکا ہے۔ مظفرالدین میدان جنگ سے غائب ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی کی فوج نے جو قیدی پکڑے ان میں سیف الدین کا ایک مشیر فخرالدین بھی تھا جو موصل میں اس کا وزیر بھی رہ چکا تھا۔ سلطان ایوبی فخرالدین کو جنگی قیدیوں سے الگ کرکے اپنے خیمے میں لے گیا اور اسے اسی عزت واحترام سے رکھا جس کا وہ حق دار تھا۔ مال غنیمت تقسیم کرکے سلطان ایوبی نے پہلا فیصلہ یہ کیا کہ پیش قدمی یعنی بھاگتے دشمن کا تعاقب نہیں کیا جائے گا۔ بعض مورخین نے سلطان ایوبی کے اس فیصلے کو اس کی جنگی لغزش کہا ہے لیکن تاریخ اسلام کا یہ مجاہد بہت دور کی سوچا کرتا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ وہ دشمن کی فوج کا تعاقب کرتا تو اس کی فوج کو وہ ہمیشہ کے لیے ختم کردیتا اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ سلطان ایوبی کے مسلمان دشمن اس کے قدموں میں گر پڑتے۔
تعاقب نہ کرنے کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ مظفرالدین کے ساتھ اس نے جو معرکہ لڑا تھا، اس میں اسے فتح بہت مہنگی پڑی تھی۔ اس کی فوج کا جانی نقصان بہت ہوا تھا۔ زخمیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لیے وہ پیش قدمی کے قابل نہیں تھا۔ اگر وہ پیش قدمی کرنے کا فیصلہ کرتا تو وہ اپنے محفوظہ کو استعمال کرسکتا تھا لیکن اس نے ایسا فیصلہ نہ کیا جس کی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ مسلمان کے ہاتھوں مسلمان کا اور زیادہ خون بہے۔ وہ اپنی قوم کو مزید خون ریزی سے بچانا چاہتا تھا۔
سلطان ایوبی اس جگہ کھڑا تھا، جہاں سیف الدین کی ذاتی خیمہ گاہ تھی۔ اس میں سے جو کچھ برآمد ہوا، وہ بیان کیا جاچکا ہے۔ سیف الدین کو اپنا خیمہ بذات خود بہت قیمتی تھا۔ یہ ریشمی کپڑوں کا محل تھا۔ قناتیں اور شامیانے ریشمی تھے، پردے ریشمی تھے۔ اس کے اندر کھڑے ہوکر شیش محل کا گماں ہوتا تھا۔ سیف الدین کا ایک بھتیجا، عزالدین فرخ شاہ سلطان ایوبی کی فوج میں سالار تھا۔ یہ عجیب جنگ تھی اور عجیب دشمنی کہ بھتیجا چچا کے خلاف لڑ رہا تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی کئی ایک فوجی تھے جو اپنے خون کے رشتوں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ سلطان ایوبی نے سیف الدین کی یہ خیمہ گاہ دیکھی تو اس نے اس کے بھتیجے عزالدین کو بلایا اور مسکرا کر کہا…… ''اپنے چچا کی جائیداد کی وارث تم ہو، میں اس کا خیمہ تمہیں پیش کرتا ہوں۔ یہ سمیٹ لو''۔
سلطان ایوبی نے مسکرا کر اسے خیمہ پیش کیا تھا مگر عزالدین کے آنسو نکل آئے۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں اس واقعہ کا ذکر جذباتی انداز میں کیا ہے۔ اس کے مطابق، سلطان ایوبی نے عزالدین کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہا…… ''عزالدین! تمہارے جذبات کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں، لیکن قرآن کا حکم مانو۔ اگر میرا بیٹا شرک کا اور جہاد کے راستے میں فسق وفجور کا مرتکب ہوگا تو میری تلوار اس کا سرقلم کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ تم اپنے شکست خوردہ چچا کا خیمہ دیکھ کر آنکھوں میں آنسو لے آئے ہو، میں اپنے شکست خوردہ بیٹے کا کٹا ہوا سر دیکھ کر بھی آنسو نہیں بہائوں گا''۔
سلطان ایوبی نے اس مقام سے ذرا آگے جاکر لمبے عرصے کے لیے پڑائو ڈال دیا۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا۔ اس کا نام ''کوہِ سلطان'' مشہور ہوگیا۔ تاریخ میں بھی کوہِ سلطان آیا ہے۔ وہاں سے حلب پندرہ میل دور تھا۔ حلب کے متعلق پہلے تفصیل سے سنایا جاچکا ہے۔ الملک الصالح نے اس شہر کو اپنا دارالحکومت اور مستقر بنا لیا تھا اور اب یہ متحدہ افواج کا ہیڈکوارٹر بن گیا تھا۔ یہ بھی سنایا جاچکا ہے کہ اس شہر کا دفاع اتنا مضبوط اور یہاں کے لوگ (جو سب مسلمان تھے) اتنے دلیر اور جنگجو تھے کہ سلطان ایوبی کا محاصرہ ناکام ہوگیا تھا۔ اب سلطان ایوبی ایک بار پھر اس اہم شہر کو محاصرے میں لینا اور اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اب کے وہ اپنا اڈا مضبوط کرکے آگے بڑھنے کی سکیم بنا رہا تھا۔
راستے میں دو قلعے تھے۔ ایک کا نام منبج اور دوسرے کا بوزا تھا۔ بعض تاریخوں میں منبج کو ممبس بھی لکھا گیا ہے۔ ان دونوں قلعوں کے امراء خودمختار مسلمان تھے۔ ایسے کئی اور قلعے اور کئی جاگیریں تھیں جن پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی۔ اس طرح سلطنت اسلامیہ قلعہ، جاگیروں اور ریاستوں میں بنی ہوئی تھی۔ سلطان ایوبی بکھرے ہوئے ان ذروں کو یکجا کر کے ایک سلطنت بنانا اور اسے ایک خلافت کے تحت لانا چاہتا تھا۔ دشواری یہ تھی کہ یہ امراء اور جاگیردار اپنی الگ الگ حیثیت قائم رکھنے کے لیے خواہش مند تھے۔ وہ اپنی بقاء کے لیے صلیبیوں تک سے مدد لے لیاکرتے تھے۔
: سلطان ایوبی نے ایک پیغام بوزا کے امیر کے نام لکھا اور دوسرا منبج کے امیر کے نام۔ بوزا کو عزالدین کو روانہ کیا اور منبج کو سیف الدین کے مشیر فخرالدین کو۔ فخرالدین جنگی قیدی تھا لیکن سلطان ایوبی نے عزت واحترام سے اس کا دل جیت لیا تھا اور فخرالدین نے سلطان ایوبی کی اطاعت قبول کرلی تھی۔ سلطان ایوبی نے جب اسے اپنا خاص ایلچی بنا کر منبج جانے کو کہا اور اسے یہ اختیارات بھی دئیے کہ وہ اس کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ قلعہ حاصل کرنے کی بات چیت کرے تو فخرالدین نے اسے آنکھیں پھاڑ کر دیکھا۔
''کیا آپ مسلمان نہیں ہیں؟''… …سلطان ایوبی نے اسے کہا…… ''آپ نے مجھے یوں حیرت سے دیکھا ہے، جیسے میں کسی کافر کو اپنا ایلچی اور نمائندہ بنا کر بھیج رہا ہوں۔ کیا آپ کو مجھ پر بھروسہ نہیں یا اپنے ایمان پر اعتماد نہیں؟…… میں منبج کا قلعہ لینا چاہتا ہوں۔ آپ اس کے امیر کو میرا پیغام پہنچا دیں اور اسے قائل کریں کہ خون خرابے کے بغیر قلعہ ہمیں دے دے اور اپنی فوج ہماری فوج میں شامل کردے''۔
عزالدین اور فخرالدین روانہ ہوگئے۔
٭ ٭ ٭
بوزا کے امیر نے عزالدین کا استقبال تپاک سے کیا۔ سلطان ایوبی کا پیغام پڑھا۔ اس میں لکھا تھا…… ''میرے عزیز بھائی! ہم ایک خدا اور ایک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ایک قرآن کے پرستار ہیں مگر ہم سب اس طرح بکھر گئے ہیں جس طرح ایک جسم کے اعضاریگزار کی ریت پر بکھرے پڑے ہوں۔ کیا یہ جسم حرکت کرسکتا ہے؟ کسی کام آسکتا ہے؟ اس جسم کا فائدہ صلیبیوں کو پہنچ رہا ہے جو کٹے ہوئے اعضا کو گدھوں کی طرح کھا رہے ہیں۔ ہمیں ایک امت کی صورت متحد ہونا ہے، ورنہ ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہیں رہ سکے گا۔ میں آپ کو ایک امت کی صورت میں متحد ہونے کی دعوت دیتا ہوں۔ اپنی موجودہ حیثیت پر غور کریں۔ آپ اپنی امارات کو زندہ رکھنے کے لیے اپنے دشمن کے آگے بھی ہاتھ پھیلا دیتے ہیں۔ میں آپ تک قرآن کا فرمان پہنچا رہا ہوں۔ اسے سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ پہلی ضرورت یہ ہے کہ اپنا قلعہ سلطنت اسلامیہ کی ملکیت میں دے دیں اور میری اطاعت قبول کرلیں۔ اس صورت میں آپ کی فوج میری فوج میں مدغم ہوجائے گی۔ آپ قلعہ دار ہوں گے اور قلعے پر سلطنت اسلامیہ کا جھنڈا لہرائے گا۔ اگر آپ کو یہ صورت قبول نہ ہو تو میری فوج کے محاصرے میں لڑنے کی تیاری کرلیں اور اپنے سامنے حلب، موصل اور حرن کی متحدہ فوج کی بربادی اور پسپائی رکھیں، آپ کو فیصلہ کرنے میں سہولت ہوگی۔

جاری ھے 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں