داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 96 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 96


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔96 جانباز، جنات اور جذبات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
اتنے میں انہیں الناصر اور اس کے تین ساتھی آتے دکھائی دئیے۔ انہیں دیکھ کر بڑی لڑکی سمجھ گئی کہ یہ آدمی کس جسمانی اور ذہنی کیفیت میں ہیں۔ اپنی تربیت کے مطابق اس نے کامیاب اداکاری کی جس سے الناصر ان دونوں کو واہمہ یا جن سمجھ بیٹھا۔ لڑکی کی اداکاری کامیاب تھی۔ اس نے انہیں تو پانی اور کھانا دیا پھر انہیں حشیش اور دوسرا نشہ پلا دیا۔ اس نے اور اس کے ساتھ کی لڑکی نے انہیں نشہ پلا کر پھولوں، سبزہ زار، پرندوں اور مخمل جیسی گھاس کی جو باتیں کی تھیں، وہ ان چاروں کے ذہن میں بہشت کا تصور پیدا کرنے کی کوشش تھیں۔ یہ حسن بن صباح کا طریقہ تھا کہ لوگوں کو حشیش پلا کر ان کے ذہنوں میں بڑے حسین تصورات پیدا کیا کرتا اور انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا تھا۔ اب ایک سو سال بعد شیخ سنان اس کا جانشین تھا۔ یہ گروہ اب حشیشین یا فدائی کہلاتا تھا۔ بڑی لڑکی کو اس کام کی تربیت حاصل تھی۔ اسے یوں کہہ لیں کہ حشیش اور باتوں کی مدد سے اپنے شکار یا معمول کو ہیپناٹائز کرلیا جاتا تھا۔ جتنی دیر حشیش کا نشہ رہتا وہ آدمی اسی تصور کو حقیقت سمجھتا رہتا تھا جو اس کے ذہن میں پیدا کیا جاتا تھا۔
الناصر اور اس کے ساتھیوں کو اس لڑکی نے اپنے قبضے میں لے کر ایک مقصد تو یہ حاصل کرنا چاہا تھا کہ یہ چاروں ان پر دست درازی نہ کریں یا انہیں اپنے ساتھ نہ لے جائیں۔ دوسرا مقصد اس وقت اس کے سامنے آیا تھا جب اسے پتہ چلا کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ان چھاپہ مار جاسوسوں میں سے ہیں جن کی اس نے بہت شہرت سنی اور جن سے اسے ڈرایا بھی گیا تھا۔ اس کے تخریب کار ذہن نے سوچ لیا کہ ان آدمیوں کو شیخ سنان کے حوالے کیا جائے، یہ اس کے کام آسکتے تھے۔ ان دنوں سلطان ایوبی کو قتل کرنے کا ایک منصوبہ تیار ہورہا تھا۔ اسی مقصد کے لیے حرن کا خومختار حکمران گمشتگین قلعہ عصیات میں شیخ سنان کے پاس گیا ہوا تھا۔ ترکمان میں مظفرالدین کے حملے کو ناکام کرکے سلطان ایوبی نے اپنے سالاروں سے کہا کہ اب جنگ ختم ہوئی ہے۔ اس نے مال غنیمت سمیٹنے کا حکم دے دیا۔ مال غنیمت بے انداز تھا۔ غازی سیف الدین کے رہائشی کیمپ سے بے انداز سونا اور نقدی ملی تھی۔ دشمن کی لاشوں سے بھی نقدی اور انگوٹھیوں وغیرہ کی شکل میں سونا ملا۔ دیگر سازو سامان اور اسلحہ کا کوئی شمار نہ تھا۔ سلطان ایوبی نے فوج کے کام کا سامان فوج میں تقسیم کیا۔ دوسرا حصہ دمشق اور ان علاقوں کے غریبوں میں تقسیم کرنے کا حکم دیا جو مصر اور شام کی سلطنت (وحدت) میں آچکے تھے۔ تیسرا حصہ مدرسہ نظام الملک کو دے دیا۔ ایک یورپی مورخ لین پول کے مطابق ایوبی نے اسی مدرسے میں تعلیم حاصل کی تھی۔ یہ مورخ لکھتا ہے کہ تاریخ میں واضح شہادت ملتی ہے کہ سلطان ایوبی نے مال غنیمت میں سے اپنے لیے کچھ بھی نہ رکھا۔
دوسرا مسئلہ جنگی قیدیوں کا تھا۔ یہ سب مسلمان تھے۔ سلطان ایوبی نے انہیں اکٹھا کرکے کہا کہ تم مسلمان ہو اور مسلمانوں کے خلاف لڑنے آئے تھے۔ تمہاری شکست کی وجہ یہی ہے۔ تمہارے حکمران تمہارے مذہب کے بدترین دشمن کے ساتھ دوستی کرکے اس کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ تمہاری دنیا بھی خراب ہوئی اور عاقبت بھی۔ اپنے گناہ بخشوانے کا یہی ایک طریقہ ہے کہ اسلام کے سپاہی بن جائو اور اپنے قبلہ اول کو آزاد کرائو…… سلطان ایوبی کی یہ تقریر جوشیلی اور جذباتی تھی۔ جنگی قیدیوں میں بہت سے نعرے لگانے لگے۔ انہوں نے اپنے آپ کو سلطان ایوبی کی فوج کے لیے پیش کردیا۔ اس طرح سلطان ایوبی کی فوج میں تربیت یافتہ سپاہیوں اور عہدے داروں کا اضافہ ہوگیا۔ اس کے باوجود سلطان ایوبی نے پیش قدمی ملتوی کردی۔ فوج کی تنظیم نو کی ضرورت تھی۔ اس نے دمشق اور قاہرہ سے کمک بھی منگوا بھیجی تھی۔ زخمیوں کے علاج کا اس نے وہیں انتظام کردیا تھا۔ دراصل مظفرالدین کے تصادم نے اس کی حالت کچھ زیادہ ہی خراب کردی تھی۔
٭ ٭ ٭
 عصیات کا قلعہ آج کے لبنان کی سرحد کے اندر تھا۔ ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید کی تحریر کے مطابق قلعہ عصیات حسن بن صباح کے فرشتے حشیشین کا مرکز اور مستقر تھا۔ اس قلعے میں شیخ سنان کی حکمرانی تھی جو حسن بن صباح کا جانشین تھا۔ اس قلعے میں اس نے کچھ فوج بھی رکھی ہوئی تھی۔ عصیات ذراء بڑا قلعہ تھا۔ اس سے دور دور تین چار چھوٹے قلعے بھی تھے جو شیخ سنان کے حشیشین کے پاس تھے۔ انہیں یہ قلعے صلیبیوں نے دے رکھے تھے۔ صلیبیوں کی کوشش یہ تھی کہ حشیشین کو مسلمان قائدین کے قتل کے لیے اور مسلمان قوم کی کردار کشی کے لیے استعمال کی جائے لیکن حشیشین جو اسلام کا ایک فرقہ بن کر ابھرنا چاہتے تھے، کرائے کے قاتل بن کے رہ گئے تھے۔ انہوں نے صلیبی لیڈروں کو بھی قتل کیا تھا۔ انہیں نقدی دے کر کوئی بھی استعمال کرسکتا تھا۔ سلطان ایوبی کے دور میں صلیبیوں نے انہیں اتنی مراعات دیں کہ انہیں قلعے تک دے دئیے۔ وہ ان کے ہاتھوں نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کو قتل کرانے کی کوشش کرتے رہے۔
نورالدین زنگی کی موت کے متعلق میجر جنرل محمد اکبر خان رنگروٹ نے بعض مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حشیشین کی کارستانی تھی۔ اسے دھوکے میں کچھ کھلا دیا گیا تھا جس سے وہ چند دنوں بعد فوت ہوگیا۔ اب صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کے منصوبے بن رہے تھے۔ حشیشین صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔
اس صبح سورج ابھی نہیں نکلا تھا، جب الناصر اور اس کے تین ساتھی دو صلیبیوں لڑکیوں کے ساتھ عصیات کے قلعے کے دروازے پر جارکے۔ بڑی لڑکی نے کوئی خفیہ الفاظ بولے۔ تھوڑی دیر بعد قلعے کا دروازہ کھل گیا اور یہ قافلہ اندر چلا گیا۔ الناصر اور اس کے ساتھیوں کو کسی کے حوالے کرکے لڑکیاں شیخ سنان کے پاس چلی گئیں۔ وہ ہر پہلو سے بادشاہ تھا۔ اس کا انداز اور شان وشوکت بادشاہوں جیسی تھی۔ اسے یہ احساس ہی نہیں تھا کہ وہ بوڑھا ہوچکا ہے۔ اسے جب بڑی لڑکی بتا رہی تھی کہ وہ کہاں سے آئی ہے اور ان کے دوست سیف الدین پر کیا بیتی ہے، شیخ سنان کی نظریں چھوٹی لڑکی پر جمی ہوئی تھیں۔
''یہاں آئو''۔ شیخ سنان نے بڑی لڑکی سے توجہ ہٹا کر چھوٹی کو اپنے پاس بلایا اور کہا…… ''تم ضرورت سے زیادہ خوبصورت ہو۔ میرے پاس بیٹھو''…… لڑکی کو بازو سے پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا اور انگلیاں اس کے بالوں میں پھیرنے لگا۔ بولا …… ''تم بہت تھکی ہوئی، آج میرے پاس آرام کرنا''۔
اس لڑکی نے شیخ سنان کو پہلی بار دیکھا تھا۔ لڑکی نے اسے گھور کر دیکھا جیسے بوڑھے کی یہ حرکت اسے پسند نہ آئی ہو۔ وہ سرک کر اس سے دور ہٹ گئی۔ شیخ سنان نے اسے پھر بازو سے پکڑا اور اس طرح جھٹکا دے کر اپنے قریب کرلیا جیسے لڑکی نے پرے سرک کر اس کی توہین کردی ہو۔ اس نے بڑی لڑکی سے کہا…… ''اسے ہمارے متعلق کسی نے نہیں بتایا کہ ہم کون ہیں اور ہماری توہین کتنا بڑا جرم ہے؟''
''میں آپ کی لونڈی نہیں''۔ چھوٹی لڑکی بھڑک کر بولی…… ''میرے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ جو مجھے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لگالے، میں اپنا آپ اسی کے حوالے کردوں''۔ وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بولی…… ''میں صلیب کی غلام ہوں، حشیشین کی خریدی ہوئی لونڈی نہیں''۔
بڑی لڑکی نے اسے ڈانٹ دیا اور خاموش رہنے کو کہا، مگر وہ خاموش نہ ہوئی۔ وہ کہنے لگی…… ''مجھے مسلمانوں کے حرم میں اس شخص نے نہیں دیکھا۔ میں نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ میں نے تمہارے ساتھ سیف الدین اور اس کے مشیروں کی عقل پر پردہ ڈالے رکھا ہے لیکن میرے فرائض میں یہ شامل نہیں کہ اس بوڑھے کے کمرے میں رہوں''۔
''اگر تم اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو ہم تمہاری یہ گستاخی کبھی معاف نہ کرتے''۔ شیخ سنان نے کہا اور بڑی لڑکی کو ہدایات دینے کے انداز سے کہنے لگا …… ''اسے لے جائو اور اسے عصیات کے قلعے کے آداب سکھائو''۔
: بڑی لڑکی اسے باہر چھوڑ آئی۔ اس نے شیخ سنان سے کہا…… ''آپ کی ناراضگی بجا ہے لیکن ہم اپنے اوپر والوں کی اجازت کے بغیر ہر کسی کا حکم نہیں مان سکتیں۔ میں چونکہ آپ کو جانتی ہوں، اس قلعے میں پہلے بھی آچکی ہوں، اب آپ کے کام کے چار آدمی پھانس لائی ہوں۔ آپ کو اس طرف توجہ دینی چاہیے''…… اس نے شیخ سنان کو الناصر اور اس کے ساتھیوں کے متعلق پوری تفصیل سنائی۔
''میں ان آدمیوں سے پورا کام لوں گا''…… شیخ سنان نے کہا…… ''لیکن میں اس لڑکی کو اپنے کمرے میں ضرور رکھوں گا''۔
''یہ کام مجھ پر چھوڑیں''۔ لڑکی نے کہا…… ''وہ کہیں بھاگ تو نہیں چلی۔ کیوں نہ میں اسے آمادہ کولوں کہ وہ ہنسی خوشی آپ کے پاس آئے۔ آجائے گی''۔
٭ ٭ ٭
الناصر اور اس کے ساتھیوں کو شیخ سنان کے دو آدمی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ وہ بے شک نشے میں تھے لیکن ساری رات پیدل چلتے رہے تھے۔ انہیں ایک کمرے میں لے گئے۔ وہ پلنگوں پر گرے اور سوگئے۔ ادھر لڑکیاں بھی رات بھر کی جاگی ہوئی تھی، وہ بھی اس کے کمرے میں جاکر سوگئیں جو انہیں دیا گیا تھا…… دوپہر کے بعد الناصر کی آنکھ کھلی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے۔ اس نے گردوپیش کو پہچاننے کی کوشش کی۔ یہ ایک کمرہ تھا۔ اس میں پلنگ تھے اور پلنگوں پر اس کے تین ساتھی گہری نیند سوئے ہوئے تھے۔ اسے سبزہ زار، پھولوں والے پودے، رنگ برنگے پرندے اور مخمل کی طرح کی گھاس یاد آئی۔ لڑکیاں یاد آئیں۔ صحرا اور صحرا کا بے رحم سفر یاد آیا۔ اسے وہ خواب سمجھنے لگا۔ صحرا کا سفر اسے حقیقت کی طرح یاد تھا۔ لڑکیوں سے ملاقات اور اس کے بعد کے واقعات اسے خواب یا واہمے لگے مگر وہ اب کہاں ہیں؟ یہ سوال اسے مضطرب کرنے لگا۔
اس نے اپنے ساتھیوں کو نہ جگایا۔ اٹھا اور دروازے میں جاکھڑا ہوا۔ یہ کوئی قلعہ تھا۔ اسے سپاہی آتے جاتے نظر آرہے تھے۔ وہ کس فوج کے تھے؟ یہ کون سا قلعہ تھا؟ اس نے کسی سے پوچھنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ قلعہ دشمن کا ہوسکتا تھا تو کیا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ قید ہوگیا ہے؟ لیکن یہ کمرہ قید خانے کا نہیں تھا۔ وہ جاسوس اور چھاپہ مار تھا۔ اس نے کسی سے پوچھے بغیر یہ معمہ اپنی عقل سے حل کرنے کا ارادہ کیا۔ اسے کوئی خطرہ محسوس ہونے لگا تھا۔ دروازے سے ہٹ کر وہ پلنگ پر جا بیٹھا۔ باہر اسے قدموں کی آہٹ سنائی دی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور خراٹے لینے لگا۔ دو آدمی کمرے میں داخل ہوئے۔
''ابھی سوئے ہوئے ہیں''۔ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا۔
''سویا رہنے دو''۔ دوسرے نے کہا…… ''معلوم ہوتا ہے، انہیں کچھ زیادہ پلا دی گئی ہے…… ان کے متعلق کیا بتایا گیا ہے؟''
''دو صلیبی لڑکیاں انہیں پھانس کر لائی ہیں''۔ پہلے نے جواب دیا…… ''یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار جاسوس ہیں۔ بہت دلیر اور عقل مند بتائے جاتے ہیں۔ انہیں تیار کرنا ہے''۔
وہ دونوں چلے گئے۔ الناصر کے جسم کا رواں رواں بیدار ہوگیا۔ اسے یقین ہونے لگا کہ وہ بہت بڑے دھوکے کا شکار ہوگیا ہے۔ اسے اب یہ معلوم کرنا تھا کہ یہ کون سا قلعہ ہے۔ کس علاقے میں ہے اور اسے اور اس کے ساتھیوں کو کس مقصد کے لیے تیار کیا جائے گا۔ وہ اس تلخ حقیقت کو جان گیا تھا کہ کسی قلعے سے فرار ہونا مشکل ہی نہیں، ناممکن بھی ہوتا ہے۔
لڑکیوں کے کمرے میں یہ کیفیت تھی کہ چھوٹی لڑکی تھوڑی سی دیر سو کر جاگ اٹھی تھی اور کھڑکی کھول کر اس میں بیٹھی تھی۔ اس نے سفر کے دوران بڑی لڑکی کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا۔ وہ نوجوان تھی۔ ابھی پختہ کار نہیں ہوئی تھی۔ اپنے جیسی دوسری لڑکیوں کی طرح وہ ابھی اپنے جذبات کو دبا نہیں سکی تھی۔ اسے پہلی بار باہر بھیجا گیا تھا۔ اس کے ساتھ یہ بڑی لڑکی تھی جو تجربہ کار تھی۔ اس نے بھی دیکھا تھا کہ چھوٹی لڑکی اس زندگی میں کامیاب نہیں ہورہی۔ اسے مردوں کو انگلیوں پر نچانے کا فن نہیں آیا تھا۔ اس نے دراصل اس فن کو قبول ہی نہیں کیا تھا۔ بوڑھے بوڑھے سالاروں نے اور سیف الدین نے اسے کھلونا بنائے رکھا تھا۔ اب وہ میدان جنگ سے بھاگ کر آئی اور اتنی کٹھن اور صبر آزما مسافت طے کی، رات بھر سفر کیا مگر آتے ہی شیخ سنان جیسے بوڑھے نے اسے کہہ دیا کہ میرے کمرے میں رہو۔
: بے شک اسے بچپن سے اس غلیط طرز زندگی کی تربیت دی گئی تھی لیکن جوانی میں آکر اس کے اپنے جذبات کا سرچشمہ پھوٹا تو اتنے لمبے عرصے کی تربیت کے اثرات دھل گئے۔ جن انسانوں کو اسے پھانسنے اور صلیب کے جال میں الجھائے رکھنے کے لیے تیار کیا گیا تھا، ان انسانوں سے اسے نفرت ہوگئی اور اپنے پیشے کو وہ حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگی۔ وہ کھڑکی کے سامنے بیٹھی بڑے ہی تلخ خیالوں میں الجھی ہوئی تھی۔ اس کے آنسو نکل آئے۔ اسے نہ کوئی پناہ دکھائی دے رہی تھی، نہ کوئی راہ فرار۔
بڑی لڑکی جاگ اٹھی۔ اپنی ساتھی کو کھڑکی میں بیٹھا دیکھ کر اس کے پاس جابیٹھی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر بولی…… ''ابتداء میں جذبات کی یہی حالت ہوتی ہے۔ ہم جو کچھ کررہی ہیں، یہ اپنی عیاشی کے لیے نہیں، صلیب کی حکمرانی کے قیام کے لیے کررہی ہیں۔ اپنے سامنے یہ مقصد رکھو کہ اسلام کا نام ونشان مٹانا ہے۔ ہمارے سپاہی اپنے محاذ پر لڑتے ہیں، ہمیں اپنے محاذ پر لڑنا ہے۔ اپنے ذہن کو وسعت دو۔ اپنے جسم سے دستبردار ہوجائو۔ تمہاری روح پاک ہے''۔
''مسلمان اپنی لڑکیوں کو اس طرح استعمال کیوں نہیں کرتے جس طرح ہمیں کیا جارہا ہے؟'' چھوٹی لڑکی نے پوچھا…… ''ہمارے بادشاہ اور ان کی فوجیں مسلمانوں کی طرح کیوں نہیں لڑتیں؟ چوروں کی طرح مسلمانوں کو قتل کیوں کرایا جاتا ہے؟ صلاح الدین ایوبی کے ان چار چھاپہ ماروں کی طرح صلیب کی فوج کیوں ایسے چھاپہ مار تیار نہیں کرتی؟ صرف اس لیے کہ ہماری قوم میں بزدلی ہے۔ چوری چھپے وار کرنے والے بزدل ہوا کرتے ہیں''۔
بڑی لڑکی سٹپٹا اٹھی اور بولی…… ''ایسی باتیں کسی اور کے سامنے نہ کربیٹھنا، ورنہ قتل ہوجائو گی۔ اس وقت ہم شیخ سنان کے پاس ہیں۔ اس سے ہمیں بہت بڑا کام لینا ہے۔ اسے ناراض نہ کرو''۔
''مجھے اس شخص سے نفرت ہوگئی ہے''۔ چھوٹی لڑکی نے کہا…… ''یہ کسی ملک کا بادشاہ نہیں۔ کرائے کے قاتلوں کا سرغنہ ہے۔ میں اسے اس قابل نہیں سمجھتی کہ میرے جسم کو ہاتھ بھی لگائے''۔
بڑی لڑکی نے اسے بہت دیر کی بحث کے بعد اس پر آمادہ کرلیا کہ وہ شیخ سنان کے ساتھ اچھی طرح باتیں کرے۔ اس نے چھوٹی کو یقین دلایا کہ وہ شیخ کو اس کا لالچ اور وعدہ دئیے رکھے گی۔ اس نے چھوٹی لڑکی سے کہا…… ''تم نے میرے کمالات دیکھے نہیں؟ میں ان بادشاہوں کو مٹھی میں لے کر انہیں گمراہ کرنا جانتی ہوں۔ شیخ سنان کو تو میں کچھ بھی نہیںسمجھتی''۔
''کیا تم ایسی صورت پیدا کرسکتی ہو کہ ہم یہاں سے جلدی نکل جائیں؟''۔ چھوٹی لڑکی نے پوچھا۔
''کوشش کروں گی''۔ بڑی لڑکی نے جواب دیا۔ ''پہلے تو اپنے متعلق یہ اطلاع بھجوانی ہے کہ ہم یہاں ہیں''۔
اتنے میں دو آدمی کمرے میں آئے۔ انہوں نے لڑکیوں سے ان چار آدمیوں کے متعلق پوچھا۔ بڑی لڑکی نے انہیں بتایا کہ وہ کون ہیں اور انہیں کس طرح اور کیوں لایا گیا ہے۔
''وہ کس حال میں ہیں؟'' بڑی لڑکی نے پوچھا۔
''ابھی سوئے ہوئے ہیں''۔ ایک آدمی نے جواب دیا۔
''انہیںقید میں ڈال دو گے؟''۔ چھوٹی لڑکی نے پوچھا۔
''قید میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں''۔ اس آدمی نے جواب دیا۔ ''یاں سے بھاگ کر کہاں جائیں گے''۔
''کیا ہم انہیں دیکھ سکتی ہیں؟'' چھوٹی لڑکی نے پوچھا۔
''کیوں نہیں''۔ اسے جواب ملا…… ''وہ تمہارا شکار ہے۔ انہیں دیکھو، بلکہ ضرورت بھی یہی ہے کہ تم ان کے پاس جائو اور انہیں اپنے جال میں لیے رکھو''۔
کچھ دیر بعد چھوٹی لڑکی بڑی کے روکنے کے باوجوداس کمرے میں چلی گئی جہاں الناصر اور اس کے ساتھی سوئے ہوئے تھے۔ الناصر دراصل جاگ رہا تھا۔ چھوٹی لڑکی کو دیکھ کر وہ اٹھ بیٹھا اور پوچھا…… ''مجھے جو کچھ کرنا ہوگا، وہ کرکے دکھائوں گا''۔
لڑکی اس کے قریب آگئی۔ دھیمی آوازمیں بولی…… ''میں جن نہیں انسان ہوں، مجھ پر بھروسہ کرو''۔
الناصر نے اسے قہر بھری نظروں سے دیکھا۔ لڑکی اس کے ساتھ پلنگ پر بیٹھ گئی۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں