داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 95 - اردو ناول

Breaking

اتوار, اگست 16, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 95


صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔95 جانباز، جنات اور جذبات
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
وہ اپنے پہلوئوں کی حفاظت کرنے کے قابل ہی نہیں تھے۔ ان کی عافیت اسی میں تھی کہ وہ آگے کو نکل جائیں۔ آگے ڈیڑھ ہزار قبریں تھیں۔ حملہ آور کے پیچھے سلطان ایوبی کے سوار آرہے تھے۔ صورت تعاقب کی بن گئی تھی۔ حملہ آوروں کے گھوڑے کھلی قبروں سے گزرنے لگے۔
مظفرالدین گھبرا جانے والا سالار نہیں تھا۔ اس نے کم سے کم تعداد سے حملہ کرایا تھا۔ اس سے اس نے میدان جنگ کا ذائقہ چکھ لیا اور صورت حال معلوم کرلی۔ اس نے فوراً سواروں کی دوسری موج چھوڑ دی۔ سلطان ایوبی کے سواروں نے گھوڑے روک لیے تھے کیونکہ وہ قبروں سے دور رہنا چاہتے تھے۔ وہ اگلے حکم کی تعمیل کرنے ہی لگے تھے کہ مظفرالدین کے سواروں کا دوسرا دستہ ان کے سر پر آگیا۔ انہیں سنبھلنے کی مہلت نہ ملی۔ یہ عقبی حملہ تھا۔ اس میں سلطان ایوبی کے سواروں کا بہت جانی نقصان ہوا۔ کئی سوار آگئے کو بھاگے اور ان کے گھوڑے قبروں میں گرے۔ اس کے ساتھ ہی مظفرالدین نے دائیں طرف سے بھی حملہ کردیا۔
سلطان ایوبی کے لیے صورت حال پریشان کن ہوگئی۔ اس نے قاصد کو اس حکم کے ساتھ دوڑایا کہ محفوظہ عقب سے حملہ کرے۔ سلطان ایوبی نے دائیں بازو کے دستوں کو جس طرح تقسیم کیا تھا، وہ بے کار ہوگئی۔ مظفرالدین اسی کے اصولوں پر لڑ رہا تھا۔ مظفرالدین کی کمزوری یہ تھی کہ اس کے پاس کمک نہیں تھی۔ سلطان ایوبی نے قاصوں کے ذریعے اپنے دستوں کے کمانڈروں سے رابطہ رکھ کر انہیں دائیں بائیں بکھیرنا شروع کردیا اور جب عقب سے اس کے محفوظہ نے حملہ کیا تو مظفرالدین کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس کا اپنا مرکز خطرے میں پڑا گیا لیکن اس نے نکل بھاگنے کی نہ سوچی۔
مورخوں کے مطابق دن کے پچھلے پہر تک دونوں فوجوں نے معرکہ لڑا وہ بڑا ہی خون ریز اور بڑا ہی سخت تھا۔ کمان سلطان ایوبی کے ہاتھ میں تھی، ورنہ صورت حال کچھ اور ہوتی۔ جہاں تک لڑنے کے جذبے کا اور جنگی قابلیت کا تعلق تھا، مظفرالدین نے سلطان ایوبی کی زبان سے دادوتحسین کے کلمے کہلوالیے تھے۔ اسے شکست اس لیے ہوئی کہ اس کے پاس یہی کچھ تھا جو اس نے آخری بازی پر لگا دیا تھا۔ وہ بازی ہار گیا۔ معرکے کے آخری مرحلے میں سلطان ایوبی نے ریزرو سوار دستے سے ہلہ بولا۔ مظفرالدین کی پوزیشن بہت کمزور ہوچکی تھی۔ اس نے پسپائی میں خیریت سمجھی۔ سلطان ایوبی نے بہت سے قیدی پکڑے جن میں مظفرالدین کا ایک مشیر فخرالدین بھی تھا۔ یہ کوئی معمولی سا انسان نہیں تھا، سیف الدین کا وزیر تھا۔ ترکمان کے معرکے میں جب سیف الدین بھاگا تو فخرالدین مظفرالدین کے پاس چلا گیا تھا اور اس کی حوصلہ افزائی کی تھی کہ وہ سلطان ایوبی پر حملہ کرے۔
یہ معرکہ شوال ٥٧١ (اپریل ١١٧٢٢ئ) میں لڑا گیا تھا۔ بے شک مظفرالدین کو شکست ہوئی تھی اور سلطان ایوبی کے مسلمان دشمنوں کی کمر ٹوٹ گئی تھی مگر سلطان ایوبی کا اتنا زیادہ نقصان ہوا تھا کہ اگلے دو ماہ تک وہ ترکمان سے ہلنے کے قابل نہ رہا۔ اس کا دایاں بازو ختم ہوگیا تھا جیسے اس کا اپنا بازو مفلوج ہوگیا ہو۔ اس کے پاس نئی بھرتی آرہی تھی لیکن وہ رنگروٹوں کے ساتھ پیش قدمی نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے اسی روز دمشق اور مصر قاصد دوڑا دئیے کہ کمک بھیجو۔ اگر اس کا اتنا زیادہ نقصان نہ ہوتا تو وہ آگے جاکر حلب، موصل اور حرن وغیرہ پر یلغار کرتا اور اپنے ان مسلمان دشمنوں کو جو فلسطین کے راستے میں حائل ہوگئے تھے، راہ راست پر لے آتا یا ختم کردیتا۔
''یہ میری فتح نہیں''…… سلطان ایوبی نے اس معرکے کے بعد اپنے سالاروں سے کہا…… ''یہ صلیبیوں کی فتح ہے۔ وہ ہمیں کمزور کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انہوں نے میری پیش قدمی کی رفتار سست کرکے فلسطین پر اپنے قبضے کے عرصے کو کچھ اور طویل کرلیا ہے۔ ہمارے یہ مسلمان بھائی کب سمجھیں گے کہ کفار ان کے دوست نہیں ہوسکتے اور ان کی دوستی میں بھی دشمنی ہوتی ہے۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ تاریخ لکھنے والے ہماری آنے والی نسلوں کو کن الفاظ میں سنائیں گے کہ ہم آپس میں لڑے تھے''۔
اسے ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کے بھائی جو اس سے شکست کھا کر بھاگ گئے ہیں، اس کے قتل کا ایک اور منصوبہ بنا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اس کا تیسرا دشمن گمشتگین، حشیشین کے سردار شیخ سنان کے ہاں گیا ہوا تھا۔ اس وقت شیخ سنان عصیات نام کے ایک قلعے میں مقیم تھا۔ اسے یہ قلعہ صلیبیوں نے دیا تھا جس میں اس نے اپنی فوج رکھی ہوئی تھی۔ اس قلعے میں اس کے پیشہ ور قاتلوں کا گروہ بھی تھا۔ عصیات اور ترکمان کے درمیان اس جہنم نما علاقے میں جہاں سلطان ایوبی کے چار چھاپہ مار بھولے بھٹکے پہنچ گئے تھے۔ سورج افق کے قریب چلا گیا تھا۔ چھاپہ ماروں کے کمانڈر الناصر کی آنکھ کھلی۔ وہ اٹھ بیٹھا۔ دونوں لڑکیاں جاگ رہی تھیں۔ الناصر
 الناصر کے دل پر گھبراہٹ ہوگئی۔ ان لڑکیوں میں سے ایک نے اس کے ساتھ ایسی باتیں کی تھیں جن سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اس کے ساتھیوں کے ساتھ برا سلوک نہیں کریں گی، پھر بھی الناصر ڈر گیا۔
''انہیں جگائو''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''ہمیں دور جانا ہے''۔
''ہمیں راستے پر ڈال کر جائو گی؟''…… الناصر نے پوچھا۔
''تم سب ہمارے ساتھ چلو گے''…… لڑکی نے جواب دیا…… ''ہمارے بغیر تم منزل تک نہیں پہنچ سکو گے''۔
الناصر نے اپنے ساتھیوں کو جگایا۔ بڑی لڑکی نے چھوٹی لڑکی سے کچھ کہا۔ وہ اٹھی اور دوسرے گھوڑے کے ساتھ بندھے ہوئے تھیلے سے کچھ نکالا۔ پانی کا مشکیزہ کھولا۔ مشکیزے کا منہ کھول کر اس نے تھیلے میں سے جو چیز نکالی تھی، وہ مشکیزے میں ڈال دی۔ اسے ہلایا اور مشکیزہ الناصر کو دے کر کہا…… ''پانی پی لو۔ منزل تک شاید پانی نہ ملے''۔
الناصر اور اس کے ساتھیوں نے پانی پی لیا۔ بڑی لڑکی نے چاروں کو کچھ کھانے کو دیا۔ کچھ دیر گزر گئی تو لڑکی نے تھیلے اور مشکیزے گھوڑے کی زینوں کے ساتھ باندھ دئیے۔ سورج نیچے جارہا تھا۔
''تم نے اس جگہ کو جہنم کہا تھا''…… الناصر نے بلند آواز سے کہا…… ''یہاں تو سبزہ زار ہے، تم نے جلدی یہاں کس طرح پہنچا دیا ہے؟''
اس کے تینوں ساتھی حیرت سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
''کیا تم تینوں کو بھی سبزہ زار نظر آرہا ہے؟''…… لڑکی لڑکی نے پوچھا۔
''ہم سبزہ زار میں بیٹھے ہیں''…… ایک نے کہا۔
''کیا تم ہماری جان تو نہیں لے لو گی؟''…… دوسرے نے کہا…… ''تم جنا ت میں سے ہو''۔
''نہیں''…… لڑکی نے مسکرا کر کہا…… ''ہم تمہیں اس سے زیادہ حسین خطے میں لے جارہے ہیں''۔
بڑی لڑکی نے الناصر اور اس کے ایک ساتھی کو پہلو بہ پہلو بٹھا کر دونوں کے گرد اپنے بازو لپیٹ دئیے اور بولی…… ''میری آنکھوں میں دیکھو''۔
دوسری لڑکی نے الناصر کے دوسرے دو ساتھیوں کو اسی طرح آمنے سامنے بٹھا کر اپنے بازو ان کے گرد ڈالے اور انہیں اپنی آنکھوں میں دیکھنے کو کہا…… چاروں چھاپہ ماروں کے کانوں میں بڑی لڑکی کے مترنم آواز داخل ہورہی تھی…… ''یہ تمہاری بہشت ہے۔ ان پھولوں کے رنگ دیکھو، ان کی مہک سونگھو، ان میں جو پرندے اڑ رہے ہیں، وہ دیکھو، کتنے خوبصورت ہیں۔ یہ تمہارا انعام ہے۔ تمہارے پائوں تلے مخمل جیسی گھاس ہے۔ چشمے دیکھو۔ ان کا شفاف پانی میٹھا ہے''۔
لڑکی کی آواز جادو کی طرح ان چاروں کی عقل پر اور آنکھوں اور تمام حصوں پر غالب آتی جارہی تھی۔ الناصر نے بعد میں حسن بن عبداللہ کو بیان دیا تھا، اس میں اس نے بتایا کہ لڑکیوں کی آنکھوں میں دیکھ کر انہیں پانی کے شفاف چشمے نظر آنے لگے۔ ان کے ریشم جیسے بال جو ان کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے، کسی بڑے ہی دلکش پودے کی پھول دار بیلیں بن گئیں اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک باغ میں پایا جس کے حسن کو اور جس کے پھولوں کے رنگوں کو بیان نہیں کرسکتا، وہاں ریت اور مٹی کے لمبے لمبے ٹیلے نہیں تھے، ریگزار نہیں تھا۔ ہرے بھرے درخت اور پودے تھے اور نیچے مخمل جیسی گھاس کا فرش تھا۔ رن برنگے پرندے پھدک اور چہچہا رہے تھے…… اور وہ اس بہشت میں چلے جارہے تھے۔
٭ ٭ ٭
وہ چاروں مخمل جیسی جس گھاس پر چلے جارہے تھے، وہ درحقیقت ریت تھی، کہیں کہیں زمین سخت بھی تھی اور وہ چاروں ایک گیت گنگناتے جارہے تھے۔ دونوں لڑکیاں ان سے چند قدم پیچھے گھوڑوں پر جارہی تھیں۔ ) ان کا رخ ترکمان کی طرف نہیں تھا جہاں سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج تھی اور جوان چاروں چھاپہ ماروں کی منزل تھی بلکہ ان کا رخ عصیات کے قلعے کی طرف تھا جہاں حشیشین کا سردار شیخ سنان رہتا تھا۔ الناصر اور اس کے ساتھیوں کو کچھ علم نہیں تھا کہ وہ کدھر جارہے ہیں۔ ان کا یہ احساس مردہ ہوچکا تھا کہ وہ جا نہیں رہے، انہیں لے جایا جارہا ہے۔ ان کے پیچھے پیچھے جاتی لڑکیاں آپس میں باتیں کررہی تھیں۔ یہ باتیں چھاپہ ماروں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی تھیں۔ سورج غروب ہوچکا تھا۔
''تم نے پانی میں انہیں حشیش کی جو مقدار پلائی ہے، اس کا اثر کل شام تک رہے گا''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''اور میں نے انہیں جو کھلایا ہے وہ تم نے دیکھا ہے۔ ان سے تم بے فکر ہوجائو۔ مجھے امید ہے کہ سورج نکلنے سے پہلے ہم عصیات پہنچ جائیں گے''۔
''میں تو انہیں دیکھ کر ڈر گئی تھی''…… چھوٹی لڑکی نے کہا…… ''یہ تمہارا کمال ہے کہ تم نے ان پر قابو پالیا اور ان پر یہ ظاہر کیا کہ ہم جنات ہیں۔ یہ مسلمان جنات کے وجود کو مانتے ہیں''۔
''یہ عقل کا کھیل تھا''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''میں نے ان کی ذہنی حالت پر قبضہ کیا تھا۔ ان کے چہرے اور ان کی چال ڈھال دیکھ کر میں سمجھ گئی تھی کہ صلاح الدین ایوبی کے فوجی ہیں اور راستے سے بھٹک گئے ہیں۔ میں یہ بھی سمجھ گئی تھی کہ ہمیں دیکھ کر یہ چاروں ڈر گئے ہیں، اگر ہم ڈر جاتیں اور عورتوں کی طرح بزدلی کا مظاہرہ کرتیں تو یہ چاروں ہمارے ساتھ وہ سلوک کرتے جو تم ساری عمر نہ بھول سکتی۔ اس ویرانے میں کسی کوہم جیسی لڑکیاں مل جائیں تو وہ انہیں بہنیں اور بیٹیاں نہیں سمجھا کرتا۔ میں نے ان کی جسمانی حالت دیکھی، پھر میں نے مسلمانوں کی یہ کمزوری سامنے رکھی کہ جنات کے معاملے میں یہ قوم توہم پرست ہے۔ میں نے اپنے آپ کو جن بنا لیا۔ اس جہنم میں ہم جیسی لڑکیوں کی موجودگی کو ان کی عقل تسلیم نہیں کرسکتی تھی۔ ہمیں وہ تصور سمجھ سکتے تھے یا جنات۔ میں نے ان سے جن انداز سے بات کی، اس سے انہیں یقین ہوگیا کہ ہم جنات ہیں۔ میں اس قوم کی جذباتی کمزوریوں سے واقف ہوں۔ تمہیں ابھی بہت کچھ سیکھنا ہے۔ ذرا جلدی سیکھ لو۔ ہم نے سیف الدین جیسے چالاک آدمی کو اپنے اشاروں پر نچا دیا ہے۔ یہ تو سپاہی ہیں''۔
''معلوم نہیں، میں کیوں اس فن میں کامیاب نہیں ہورہی''…… چھوٹی لڑکی نے کہا…… ''میرا دل ساتھ نہیں دیتا۔ کوشش کرتی ہوں کہ تم جیسے کمالات دکھا سکوں لیکن دل سے آواز آتی ہے کہ یہ فریب ہے''۔
''پھر تم ان مردوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنی رہو گی''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''تم پہلی بار باہر نکلی ہو۔ میں نے دیکھا ہے کہ تم کامیاب نہیں ہوئی۔ تم صرف داشتہ بنی رہی۔ اس طرح تم صلیب کی کوئی خدمت نہیں کرسکتی۔ تم اپنے جسم کو وقت سے بہت پہلے بوڑھا کرلوگی اور یہ مرد تمہیں اٹھا کر باہر پھینک دیں گے۔ ہمارا مقصد یہ نہیں کہ مسلمان امراء اور حکمرانوں کے لیے تفریح کا سامان بنیں۔ ہمیں ایک جادو بن کر ان کی عقل پر غالب آنا ہے۔ ان چاروں فوجیوں میں تم نے توہم پرستی کی جو کمزوری دیکھی ہے، وہ ہمارے صلیبی استادوں اور یہودیوں نے پیدا کی ہے۔ تم نے دیکھ ہے کہ میں نے انہیں کتنی جلدی اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ میں نے ان چاروں سے ایک بات کہی تھی۔ یہ مجھے میرے استاد نے بتائی تھی۔ وہ یہ تھی کہ انسان ایک لذت کی پیداوار ہے اور وہ ہمیشہ اس لذت کا خواہاں رہتا ہے۔ اس خواہش کو دبانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ ہمارا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں لذت پرستی ابھاری جائے کیونکہ یہی انسان کی وہ کمزوری ہے جو اسے تباہی تک پہنچاتی ہے۔ تمہیں وہ رات یاد نہیں جب سیف الدین نے ہماری موجودگی میں اپنے ایک سالار سے کہا تھا کہ وہ اس پر غور کرنا چاہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی سے صلح کرلی جائے۔ میں نے اسی رات اس کے دماغ سے یہ خیال نکال دیا تھا''۔
''عصیات پہنچ لیں تو یہ استادی مجھ میں بھی پیدا کرو''…… چھوٹی لڑکی نے کہا…… ''مجھے اس کام سے نفرت سی ہوتی جارہی ہے۔ میں ان مسلمان حاکموں کا کھولنا بنی رہی ہوں۔ تم دامن بچا لیتی رہی۔ میں نہیں بچا سکی۔ کبھی کبھی کہیں بھاگ جانے کا ارادہ دل میں تڑپتا ہے مگر کوئی راستہ نظر نہیں آتا اور کوئی پناہ نہیں ملتی''۔
''سب کچھ سیکھ جائو گی''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''تمہیں میرے ساتھ تربیت کے لیے ہی بھیجا گیا تھا۔ میں نے تمہاری کمزوریاں دیکھ لی ہیں۔ یہ دور ہوجائیں گی''۔
الناصر اپنے ساتھیوں کے ساتھ چلا جارہا تھا۔ لڑکیوں نے گھوڑے ان سے آگے کرلیے تاکہ یہ چاروں راستے سے ہٹ نہ جائیں۔ وہ ایک آواز میں گیت گاتے جارہے تھے۔ ریت، مٹی اور پتھر ان کے لیے گھاس بنے ہوئے تھے۔
 ''انہیں کسی دوسری طرف روانہ کردینا تھا''…… چھوٹی لڑکی نے کہا…… ''انہیں عصیات لے جا کر کیا کروگی؟''
''اپنے پیراستاد شیخ سنان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی تحفہ نہیں ہوسکتا''…… بڑی لڑکی نے کہا…… ''یہ صلاح الدین ایوبی کے چھاپہ مار ہیں اور جاسوس بھی۔ مجھے خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کا ایک جاسوس پکڑ کر اس کے ذہن کو اپنے قبضے میں لے لے تو سمجھو کہ تم نے اس کی فوج کے ایک ہزار سپاہی بے کار کردئیے ہیں۔ ایوبی نے اپنے چھایہ ماروں اور جاسوسوں کو جو تربیت دے رکھی ہے۔ اس سے وہ اوسط درجہ انسانوں سے بہت اوپر چلے گئے ہیں۔ جسمانی لحاظ سے ان میں غیرمعمولی پھرتی اور قوت برداشت ہوتی ہے اور ذہنی لحاظ سے یہ اپنے فرض کے دیوانے ہوتے ہیں۔ ان چاروں نے جو شب خون مارے اور اس تھکن کے بعد صحرامیں جو مصیبت، بھوک اور پیاس برداشت کی ہے، وہ کوئی اور انسان برداشت نہیں کرسکتا۔ ہماری فوج میں یہ جذبہ نہیں ہے۔ ان چاروں کو میں شیخ سنان کے حوالے کروں گی۔ اس کے آدمی جو اس فن کے ماہر ہیں، ان چاروں کے اسی جذبے اور جسمانی خوبیوں کو اپنی طرف منتقل کرلیں گے۔ تمہیں شاید معلوم نہ ہو کہ صلاح الدین ایوبی کو قتل کرنے کی کئی کوششیں ہوچکی ہیں مگر کامیاب ایک بھی نہیں ہوئی۔ ان چاروں کو حشیش اور استادی کے ذریعے ایوبی کے قتل کے لیے تیار کیا جاسکتا ہے۔ یہ اس کے اپنے چھاپہ مار ہیں، اس تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں''۔
''کیا صلاح الدین ایوبی پر اس طرح قابو نہیں پایا جاسکتا جس طرح سیف الدین، گمشتگین وغیرہ کو اپنے قبضے میں لیا گیا ہے؟''…… چھوٹی لڑکی نے پوچھا۔
''نہیں''۔ بڑی لڑکی نے جواب دیا…… ''جو انسان لذت سے دست بردار ہوکر ایک مقدس مقصد کو دل میں بٹھائے، اسے ہم جیسی حسین لڑکیاں اور سونے کے انبار راستے سے نہیں ہٹا سکتے۔ ایوبی ایک بیوی کا قائل ہے۔ نورالدین زنگی میں بھی یہی خرابی تھی کہ سلطان ہوکر بھی اس نے گھر میں ایک ہی بیوی رکھی اور مرتے دم تک اس کا وفادار رہا۔ یہی خرابی صلاح الدین ایوبی میں ہے۔ کوشش کی جاچکی ہے۔ اس پتھر کو موم نہیں کیا جاسکا۔ فلسطین پر قبضہ برقرار رکھنے کا یہی طریقہ رہ گیا ہے کہ ایوبی قتل کرادیا جائے''۔
''مجھے ایسے آدمی اچھے لگتے ہیں جو ایک عورت کے وفادار رہتے ہیں''۔ چھوٹی لڑکی نے کہا۔ ''میں صلیب کی پرستار ہوں اور صلیب کا مقصد سمجھنے کے باوجود کبھی کبھی سوچا کرتی ہوں کہ میں کسی ایک آدمی کے دل میں اتر جائوں اور وہ میرے جسم اور میری روح کا حصہ بن جائے''۔
''جذبات سے نکلو''۔ بڑی لڑکی نے اسے ڈانت کر کہا…… ''اپنے اس عظیم مقصد کو سامنے رکھو جو تمہیں صلیب نے دیا ہے۔ اپنے حلف کو یاد کرو جو تم نے صلیب ہاتھ میں لے کر اٹھایا تھا۔ میں جانتی ہوں تم جوان ہو اور جذبات پر قابو پانا آسان نہیں ہوتا لیکن صلیب ہم سے یہ قربانی مانگ رہی ہے''۔
پراسرار قافلہ چلتا رہا۔ الناصر اور اس کے ساتھی لڑکیوں کے گھوڑوں کے پیچھے پیچھے گاتے، گنگناتے اور قہقہے لگاتے جارہے تھے۔ جوں جوں رات گزرتی جارہی تھی، ان کی منزل قریب آتی جارہی تھی۔
٭ ٭ ٭
یہ لڑکیاں کون تھیں؟
یہ اسی قبیل کی لڑکیاں تھیں جن کے متعدد قصے آپ پڑھ چکے ہیں۔ صلیبی اور یہودی غیرمعمولی پر حسین اور دلکش بچیوں کو استادوں کے حوالے کرکے انہیں خصوصی تربیت دیتے تھے۔ انہیں ذہنی تخریب کاری، کردار کشی اور اپنے دشمن کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے ڈھنگ سکھاتے تھے۔ انہیں سراپا لذت بنا دیا جاتا تھا۔ لڑکپن میں انہیں یہ ٹریننگ دی جاتی تھی کہ اپنے دشمن کی سوچوں پر کس طرح قبضہ کیا جاتا ہے۔ ان لڑکیوں میں شوخی اور بے حیائی پیدا کی جاتی تھی۔ انہیں جذبات سے عاری کردیا جاتا تھا۔ یہودی چونکہ مسلمانوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے تھے، اس لیے وہ اپنی بچیاں صلیبیوں کے حوالے کردیا کرتے تھے۔ صلیبی اپنی لڑکیوں کو بھی استعمال کرتے تھے اور ان علاقوں میں جن پر ان کا قبضہ تھا، مسلمانوں کے قافلوں پر حملے کرتے اور کوئی خوبصورت بچی مل جائے تو اسے اٹھا لے جاتے تھے، اسے اپنے مقاصد کے لیے تیار کرلیتے تھے۔
 یہ دو لڑکیاں کچھ عرصہ پہلے تحفے کے طور پر صلیبیوں نے والئی موصل سیف الدین کو بھیجی تھیں۔ آپ نے دیکھ لیا ہے کہ سیف الدین سلطان صلاح الدین ایوبی کا دشمن تھا۔ ان دونوں لڑکیوں کو اس مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا کہ ایک تو جاسوسی کرتی رہیں اور دوسرا یہ کہ سیف الدین کو کبھی یہ نہ سوچنے دیں کہ وہ سلطان ایوبی کے ساتھ صلح کرلے۔ تیسرا مقصد یہ تھا کہ سلطان ایوبی کے خلاف جو مسلمان امراء متحد ہوگئے تھے، انہیں اندر سے ایک دوسرے کے خلاف رکھا جائے۔ یہ کام صرف ان دو لڑکیوں کے ہی ذمے نہیں تھا، وہاں صلیبیوں کی پوری مشینری در پردہ کام کررہی تھی۔ انہوں نے ایک مسلمانوں کا ایمان خرید لیا تھا۔ یہ مسلمان ان کے لیے کام کررہے تھے۔
سیف الدین اتحادی فوج کا سالار اعلیٰ بن کر ترکمان کے مقام پر سلطان ایوبی پر حملہ کرنے گیا تو بادشاہوں کے دستور کے مطابق اپنے حرم کی چیدہ چیدہ لڑکیاں اور ناچنے والیاں بھی میدان جنگ میں ساتھ لے گیا۔ یہ دو صلیبی لڑکیاں بھی اس کے ساتھ گئیں۔ انہیں وہ مسلمان اور معصوم سمجھتا تھا مگر بڑی لڑکی اس کے اعصاب پر آسیب کی طرح غالب آگئی تھی۔ حرم کی باقی لڑکیوں کو اس نے اپنا غلام بنا لیا تھا۔
سیف الدین نے جنگل میں جامنگل بنایا۔ وہاں آندھی آئی جس کی آپ تفصیل پڑھ چکے ہیں۔ اس آندھی میں فوزی نام کی ایک لڑکی اپنے بھائی کی لاش گھوڑے پر ڈالے، سلطان ایوبی تک پہنچی اور اسے بتایا کہ تین اتحادی افواج اس پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ چکی ہیں۔ سلطان ایوبی نے تیزی سے حرکت کی اور سیف الدین کے لشکر پر حملہ کردیا۔ آپ پڑھ چکے ہیں کہ سیف الدین کا لشکر بے خبری میں مارا گیا، وہاں معرکہ جو لڑا گیا وہ یک طرفہ تھا۔ میدان جنگ صلاح الدین ایوبی کے ہاتھ تھا۔ سیف الدین اتحادی افواج کی کمان نہ سنبھال سکا۔ صاف نظر آنے لگا کہ وہ بھاگ جائے گا۔ یہ دو صلیبی لڑکیاں اس کے ساتھ تھیں۔ وہ اکیلی نہیں تھیں۔ صلیبیوں کے چند ایک مسلمان ایجنٹ سیف الدین کی فوج میں اچھے عہدوں پر تھے۔ لڑکیوں کا ان کے ساتھ رابطہ تھا۔ لڑکیاں انہیں اطلاعیں اور خبریں دیتی تھیں اور وہ انہیں صلیبیوں تک پہنچا دیتے تھے۔
انہوں نے دیکھا کہ جنگ کی صورتحال ایسی ہوگئی ہے کہ اتحادیوں کے سامنے پسپائی کے سوا کوئی راستہ نہیں تو ان دونوں لڑکیوں کو وہاں سے نکالنے کا ارادہ کیا۔ صلیبیوں کی یہ لڑکیاں بہت قیمتی تھیں۔ سیف الدین میدان جنگ میں بھاگا، دوڑا پھر رہا تھا۔ حرم کی لڑکیاں اس کی رہائش گاہ میں ایک خیمے میں اکٹھی ہوگئی تھیں۔ یہ دو صلیبی لڑکیاں الگ کھڑی تھیں۔ ان کے آدمی آگئے، انہیں دو گھوڑے دئیے۔ گھوڑوں کی زینوں کے ساتھ پانی کے چار چھوٹے مشکیزے اور دو تین تھیلوں میں کھانے کا سامان باندھ دیا۔ خنجر بھی دئیے لیکن ان کا نہایت کارگر ہتھیار حشیش تھی اور اسی قسم کا ایک اور نشہ جس کا کوئی ذائقہ نہیں تھا، کسی کو دھوکے میں پلایا جاتا تو اسے پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ پانی یا شربت میں اسے کچھ اور پلا دیا گیا ہے۔ یہ دونوں نشہ آور اشیاء انہیں اس لیے ساتھ باندھ دی گئی تھیں کہ انہیں کسی مرد کے ساتھ کے بغیر سفر کرنا تھا۔ راستے میں اگر وہ کسی کے ہتھے چڑھ جائیں تو اسے دھوکے میں یہ نشہ پلا کر بیکار کرنا تھا۔
رات کے وقت جب میدان جنگ میں کشت وخون ہورہا تھا۔ یہ دونوں لڑکیوں کو گھوڑوں پر بٹھا کر دو آدمی ساتھ گئے۔ ترکمان سے بہت دور تک یہ آدمی ساتھ رہے پھر لڑکیوں کو راستہ سمجھا کر واپس آگئے۔ لڑکیوں کی منزل عصیات کا قلعہ تھا۔ بڑی لڑکی ذہین، تجربہ کار اور دلیر تھی، وہ چھوٹی لڑکی کو ساتھ لے کر روانہ ہوگئی۔ صبح تک وہ سرسبز علاقے سے دور نکل گئی تھیں اور اس علاقے میں داخل ہوگئیں جو اس خطے کا جہنم تھا۔ لڑکیوں کو معلوم تھا کہ اس مقام پر آکر خشک پاٹ کے اندر اندر جانا ہے۔ علاقہ ڈرائونا تھا اور تنور کی طرح گرم تھا۔ سورج سر پر آیا تو انہیں چٹان نظر آئی جو نیچے سے اندر کو گئی ہوئی تھی۔ وہ اس کے نیچے رک گئیں۔ کھانا کھا کر انہوں نے کچھ دیر آرام کیا۔ اتنے میں انہیں الناصر اور اس کے تین ساتھی آتے دکھائی دئیے۔

جاری ھے ، 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں