داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 119 - اردو ناول

Breaking

جمعہ, دسمبر 25, 2020

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 119

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔

قسط نمبر۔119 سانپ اور صلیبی لڑکی

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

'' وہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا ''۔ ماں نے شمس النساء کو بتایا کہ صلیبیوں کے عزائم کیا ہیں اور یہ بھی کہ اُن کی دوستی میں بھی دشمنی ہے۔ رضیع خاتون بولتی جا رہی تھی اور شمس النساء کی آنکھیں کھلتی جا رہی تھیں۔ ماں کا ایک ایک لفظ بیٹی کے دل میں اترتا جا رہا تھا ۔ اس میں مامتا کا سحر بھی شامل تھا جس سے بیٹی مسحور ہوتی جا رہی تھی۔

''مسلمان کا کوئی دوست نہیں ''۔رضیع خاتون نے کہا ۔ ''دنیا کی ہر وہ قوم جو رسولِ ۖ خدا کا کلمہ نہیں پڑھتی مسلمانوں کی دشمن ہے اور ان کی دشمنی کی سب سے زیادہ خطرناک صورت ان کی دوستی ہے۔ صلیبیوں نے حلب موصل اور حرن کے امراء سے دوستی کرکے ہماری قوم کو دو دھڑوں میںکاٹ دیا ۔ تمہارا بھائی اُن کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا۔ خدا اور اس کے رسولۖ کا حکم یہ ہے کہ اُمت کا دھڑوں میں تقسم ہونا گناہ ہے کیونکہ یہ تقسیم دھڑوں کو آپس میں لڑاتی ہے۔ قرآن کا حکم بالکل واضح ہے کہ کفار کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہو ئی دیوار بنے رہو، مگر کفار نے عیاشی کا سامان مہیا کرکے اس دیواری میں شگاف ڈال دئیے تھے۔ شیطان کی باتوں میں جادو کا اثرہوتا ہے، عورت، شراب، زروجواہرات اور بادشاہی کے خواب انسان کو گہری نیند سلائے رکھتے ہیں۔ شیطان کا یہ کام صلیبیوں نے کیا ''۔

'' میں نے یہ سب اپنی آنکھوں اس محل میں دیکھا ہے''۔ شمس النساء نے کہا …… '' میں اُس وقت چھوٹی تھی ، کچھ سمجھ نہیں سکی ۔ مجھے جب بھائی الصالح نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس اعزاز کا قلعہ مانگنے کے لیے بھیجا تھا تو میں ہنستی کھیلتی یہاں کے سالاروں کے ساتھ سلطان کے پاس گئی تھی۔ مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خانہ جنگی تھی جو صلیبیوں کی کارستانی تھی ۔ مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا ماں! مجھے بتائو ، مجھے بتائو''۔

''ہاں بیٹی ! غور سے سنو ''۔رضیع خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ '' اس محل میں ابھی تک شیطان کی حکمرانی ہے۔ عزالدین نے میرے ساتھ شادی کرکے مجھے اپنی بیوی نہیں اپنا قیدی بنایا ہے۔ میں نے یہ شادی صرف اس لیے قبول کی تھی کہ خانہ جنگی کے امکانات کو ختم کرکے قوم میں اتحاد پیدا ہو اور صلیبیوں کے خلاف محاذ آرائی کی جاسکے مگر میں نے زندگی میں پہلی بار دھوکہ کھایا ہے اور یہ بھی معمولی سا دھوکہ نہیں ۔ میں اسی صورتِ حال میں اپنے عزم کی تکمیل کروں گی۔ اس کے لیے مجھے تمہارے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہوگی ''۔ 

''مجھے بتائیں ''۔شمس النساء نے کہا …… '' آپ پہلی بار دھوکے میں آئی ہیں اور میں پہلی بار اصل صورتِ حال سے آگاہ ہوئی ہوں۔ یہ بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا ہے ''۔ 

'' جاسوسی ''۔ رضیع خاتون نے کہا اور اسے تفصیل سے ہدایات دینے لگی ۔

شمس النساء جب اس کمرے سے نکلی اُس کی ذات اور اُس کے خیالات میں انقلاب آچکا تھا ۔ وہ اس کمرے میں داخل ہوئی تھی تو ایسے بے پروا اور کھلنڈری سی لڑکی تھی ۔ جب کمرے سے نکلی تو اللہ کی راہ میں قربان ہونے والی مجاہدہ تھی ۔ 

٭ ٭ ٭

''آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میری ماں جھگڑالو اور وہمی ہے؟''شمس النساء نے عزالدین سے کہا …… ''آپ جانتے ہیں کہ اُن کی زندگی کیسی گزری ہے ۔ وہ آپ کو بھی میرے باپ نورالدین زنگی مرحوم جیسا نامور جنگجو اور مجاہد اسلام بنانا چاہتی ہیں''۔

''وہ میرے کاموں میں دخل دینا چاہتی ہے''۔عزالدین نے کہا …… ''اُسے یہ وہم ہے کہ میں صلیبیوں کا دوست ہوں''۔

''میں نے انہیں روک دیا ہے''۔شمس النساء نے کہا …… '' اور اُن کا یہ وہم بھی دُور کر دیا ہے کہ آپ صلیبیوں کے دوست ہیں ۔ انہیں غلط نہ سمجھیں ۔ ان پر غیر ضروری پابندیاں عائد نہ کریں ''۔

''میں نے کوئی پابندی عائد نہیں کی ''۔عزالدین نے کہا …… ''بگھی ہر وقت موجود ہے ۔ اپنی ماں کو جب چاہو سیر کرانے لے جایا کرو''۔

 ان کے درمیان اسی موضوع پر باتیں ہوتی رہیں۔ عزالدین نے شمس النساء کی باتوں کو سع مان لیا ۔ یہ باتیں عزالدین کے دفتر میں ہو رہیں تھیں۔ شمس النساء وہاں سے نکلی تو باہر عامر بن عثمان کھڑا تھا۔ اُس کی عمر ابھی تیس برس نہیں ہوئی تھی ۔ وجیہہ اور بڑا ہی پر کشش جوان تھا۔ تیر اندازی اور تیغ زنی میں اس کا مقابلہ کوئی کم ہی کر سکتا تھا۔ دماغ کا بھی تیز تھا ۔ وہ الملک الصالح کے خصوصی محافظ کا کماندار تھا۔ اسی عمر میں اسے جسمانی اور ذہنی چُستی کی بدولت اتنا بڑا عہدہ اور اتنی نازک ذمہ داری دے دی گئی تھی ۔ اس کی رہائش محل کے اندر ہی تھی ۔ تھوڑے ہی عرصے سے وہ شمس النساء میں دلچسپی لینے لگا تھا ۔ شمس النساء کو پہلے ہی وہ اچھا لگتا تھا۔ اس لڑکی میں کھلنڈرا پن سا تھا ۔ اُسے باپ کی عظمت اور عزم سے کسی نے کبھی آگاہ نہیں کیا تھا ۔ اُسے محل میں بے ضرر فرد سمجھا جاتاتھا ۔ اس کا بھائی مر گیا تو عزالدین نے بھی اُسے بھولی بھالی اور کھلنڈری لڑکی سمجھ کر آزادی دئیے رکھی۔ اسی لیے وہ عامر بن عثمان سے ملتی ملاتی رہی ۔ 

اب وہ جوان ہو گئی تھی ۔ عمر سولہ برس تھی ۔ اُس دور میں لڑکیاں قد کاٹھ کے لحاظ سے عمر سے زیادہ جوان لگتیں اور بعض اسی عمر میں ایک دو بچوں کی مائیں بن جایا کرتی تھیں۔ شمس النساء تو حکمران خاندان کی شہزادی تھی ۔ اپنے قدرتی حُسن سے کچھ زیادہ ہی حسین لگتی تھی۔ عامر بن عثمان میں اُس کی جو دلچسپی تھی اس کا رنگ بدل چکا تھا ۔ کبھی وہ اُسے چھیڑ کر بھاگ جایا کرتی تھی مگر اب اُسے دیکھ کر شرماجاتی اور اُسے چوری چُھپے ملا کرتی تھی ۔ یہ پاک محبت تھی جس کی شدت نے انہیں روح کی گہرائیوں تک ایک دوسرے کا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کر رکھے تھے۔ مشکل یہ تھی کہ عامر بن عثمان شمس النساء کے خاندان کا ادنیٰ ملازم تھا ۔ وہ اس لڑکی کے رشتے کی توقع رکھ ہی نہیں سکتا تھا ۔ پھر بھی اُس نے گھر والوں کا طے کیا ہوا رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا۔

شمس النساء عزالدین کے دفتر سے نکلی تو عامر بن عثمان باہر کھڑا تھا۔ شمس النساء اسے دیکھ کر مسکرائی اور اشارہ کرکے چلی گئی ۔ عامر اس اشارے کو اچھی طرح سمجھتا تھا ۔ اس نے سر ہلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ ضرور آئوں گا ۔

٭ ٭ ٭

جگہ پودوں اور درختوں میں ڈھکی چھپی تھی ۔ اوپر رات کی تاریکی نے پردہ ڈال رکھا تھا ۔ عامر بن عثمان اور شمس النساء محل کی رونق اور ہماہمی سے بے نیاز اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔ اُن کے پُر شباب جذبات پر والہانہ محبت کا نشہ طاری تھا ۔

'' میں آج اپنی ماں سے ملی ہوں ''۔ شمس النساء نے بتایا …… '' اور اب انہیں کے ساتھ رہا کروں گی ''۔

''تمہاری ماں بھی شاہی خاندان کی خاتون ہیں ''۔ عامر نے کہا …… ''وہ تمہیں کسی شہزادے کے ساتھ ہی بیاہنا پسند کریں گی''۔

''نہیں !'' شمس النساء نے کہا …… ''وہ شاہی خاندان کی ضرور ہیں لیکن اُس خیمے میں رہنا پسند کرتی ہیں جو محاذ کے بالکل قریب ہو۔ وہ مجھے بھی سپاہی بنانا چاہتی ہیں ''۔

'' کیا یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ تم ان سے میرے متعلق بات کرو گی اور وہ مان جائیں ''۔ عامر نے پوچھا۔ 

'' اگر میں نے اُن کی وہ اُمیدیں پوری کردیں جو انہوں نے میرے ساتھ وابستہ کردی ہیں تو میں اُن سے اپنی ہر خواہش منواسکتی ہوں ''۔ شمس النساء نے جواب دیا …… '' تمہیں بھی اُن کی امید پوری کرنی ہوگی ''۔

''انہوں نے میرا نام لیا تھا ''۔

''نہیں ''۔ شمن النساء نے جواب دیا …… '' انہوں نے مجھے اپنا مقصد بتایا ہے جس کی تکمیل کے لیے انہیں میرے تعاون کی ضرورت ہے اور مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے۔ اس سے پہلے کہ میں تمہیں یہ مقصد اور اپنے فرائض بتائوں میں تم سے حلف لینا چاہتی ہوں تم مدد کرو یا نہ کرو، اس مقصد کو اور میری سرگرمیوں کو راز میں رکھو گے ''۔

''اور اگر میں حلف نہ دوں تو؟'' عامر نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔

: شمس النساء پرے ہٹ گئی۔ عامر پر سنجیدگی طاری ہوگئی ۔ شمس النساء نے کہا …… '' میں نے پہلے بھی وعدہ کیا ہے اور آج جیسی قسم کہوگے کھا کر اپنا وعدہ دہرائوں گی کہ میری شادی ہوگی تو تمہارے ساتھ ہوگی لیکن اس سے پہلے ہمیں وہ کام کرنا ہوگا جو ماں نے مجھے بتایا ہے''۔

عامر بن عثمان کو حیرت اس پر ہوئی کہ شمس النساء کو اُس نے ایسی سنجیدگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ چونکا اور بولا …… ''کیا تمہارے دل میں میری اتنی سی محبت رہ گئی ہے کہ تم مجھ سے حلف لینا ضروری سمجھتی ہو؟''۔

'' کچھ کام ایسا ہی ہے کہ حلف ضروری ہے ''۔ شمس النساء نے جواب دیا …… '' میں تو اپنی ماں کا حکم مانتے ہوئے جان بھی دے دوں گی ۔ تم شاید نہ دے سکو گے ''۔

''میں تمہاری محبت کا خاطر جان دے دوں گا ''۔

''نہیں''۔ شمن السناء نے کہا …… '' محبت کی خاطر نہیں ، اسلام کی عظمت کی خاطر ۔ اس اسلام کی خاطر نہیں جو اس محل کے اندر ہم دیکھ رہے ہیں ۔ میں اُس اسلام کی بات کر رہی ہوں جس کی خاطر میرے محترم والد نے کفار سے لڑتے عمر گزاری ہے اور جس کی خاطر صلاح الدین ایوبی لڑ رہا ہے''۔

'' میں قرآن کے نام پر حلف دیتا ہوں کہ مجھے جو فرض سونپا جائے گا جان کی بازی لگا کر پورا کروں گا ''۔ عامر بن عثمان نے شمس النساء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا ۔ ''اگر میں نے اس حلف کی خلاف ورزی کی تو مجھے جان سے مار دیا جائے اور میری لاش کتوں اور گیڈروں کے آگے پھینک دی جائے …… اب بتائو مجھے کیا کرنا ہے؟''

''جاسوسی''۔ شمس النساء نے کہا …… '' سلطان صلاح الدین ایوبی مصر میں ہے ۔ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے میرے بھائی الملک الصالح کے ساتھ جو دوستی اور آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا ۔ وہ اس کی وفات کے بعد بھی قائم ہے، مگر تم زیادہ اچھی طرح جاتنے ہو کہ معاہدے کے باوجود حلب کی امارت صلیبیوں کے اثرات سے پاک نہیں رہی ۔ عزالدین کو سلطان صلاح الدین ایوبی اپنا دوست سمجھتا ہے لیکن میری ماں کسی اور خطرے کا اظہار کر رہی ہے''۔

''آقا اور تمہاری والدہ کی شادی کے بعد کوئی خطرہ نہیں رہنا چاہیے''۔ عامر نے کہا ۔

'' اصل خطرہ شادی سے ہی شروع ہوا ہے''۔ شمس النساء نے کہا …… '' میری شادی دراصل قید ہے جس میں میری ماں کو ڈال دیا گیا ہے۔ عزالدین نے یہ شادی اس مقصد کے لیے کی ہے کہ دمشق والوں کو کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ رہے…… ہمیں اس محل کے ڈھکے چھپے ہوئے بھید معلوم کرکے قاہرہ تک پہنانے ہیں۔ یہ بھی معلوم کرنا ہے کو صلیبیوں کی نیت اور ارادے کیا ہیں۔ کیا وہ ایک بار پھر ہماری افواج کو خانہ جنگی میں مروانا چاہتے ہیں یا وہ کوئی اور جنگی اقدام کریں گے ۔ تم ایسی جگہ پرہو جہاں تمہیں بہت کچھ نظر آسکتا ہے ۔ تم عزالدین کے خصوصی محافظ دستے کے کماندار ہو''۔

'' میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں''۔ عامر بن عثمان نے کہا …… '' تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں ایسی جگہ پر ہوں جہاں مجھے بہت کچھ نظر آتا ہے ۔ شمسی ! میں جو دیکھتا رہا ہوں اور جو دیکھ رہا ہوں اس پر کھبی غور نہیں کیا تھا ۔ میں مرد مجاہد سے ملازم بن گیا تھا ۔ جب سپاہی مجاہد سے ملازم بن جاتا ہے تو یہی کچھ معلوم ہوتاہے جو اس محل میں ہورہا ہے ۔ سپاہی کو اپنی ملازمت سے غرض ہوتی ہے۔ وہ دشمن کا خون بہانے کی بجائے خوشامدی بن جاتا ہے تا کہ اوپر والے اُس پر خوش رہیں۔ انعام و کرام ملتا رہے اور ترقی ملے۔ خون اور خوشامد میں اتنا ہ ہی فرق ہے جتنا فتح اور شکست میں ۔ مجھے کسی نے کبھی نہیں بتایا کہ سپاہی کہ فرق صرف باہر کے حملے روکنا نہیں بلکہ اندر کے خطروں کے خلاف لڑنا بھی ہے ۔ سپاہی کا فرض یہ بھی ہے کہ اگر ملک اورقوم کو اپنے ہی حکمران کی طرف خطرہ ہو تو اس کا سینہ تیروں سے چھلنی کرکے اسے قلعے سے باہر پھینک دے…… تم نے مجھے فرض یاد دلادیا ہے ۔ مجھے یہ بتائو کہ کسی کو قتل کرنا ہے یا صرف اندر کے راز ہی معلوم کرنے ہیں ''۔

''دونوں کام کرنے ہیں ''۔شمس النساء نے جواب دیا …… '' راز معلوم کرنے کے یے کسی غدار کو قتل کرنا پڑے گزیر نہ کیا جائے''۔

: ''سنو شمسی ''۔عامر بن عثمان نے کہا …… '' اب میں ملازم کی حیثیت سے نہیں مجاہد کی حیثیت سے بات کروں گا۔ راز کی بات یہ ہے کہ حلب کے حاکموں اور بعض سالاروں پر بھروسہ نہیں کیا سکتا ۔ اگر عزالدین مخلص بھی ہو، سچے دل سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا دوست بھی ہو پھر بھی وہ حلب کی فوج کو مصر کی فوج کا اتحادی نہیں بنا سکے گا ۔ اس کے حاکموں ، مشیروں اوروزیروں کے ایمان کو صلیبیوں نے خرید رکھا ہے …… انہوں نے تمہارے بھائی کی وفات کے فوراً بعد عزالدین کو اس طرح پریشان کرنا شروع کر دیا ہے کسی نہ کسی مد میں خرچ کرنے کے لیے اس سے رقم مانگتے رہتے ہیں ۔ سرکاری خزانہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے۔ رقم اور سونا خورد برد ہورہا ہے۔ میرا خیا ل ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ خزانہ خالی کرکے عزالدین کو مجبور کردیا جائے کہ وہ صلیبیوں سے امداد لینے پر مجبور ہوجائے ۔ اس سے اپنے حاکم وغیرہ جتنی رقم مانگتے ہیں وہ دے دیتا ہے ''۔

''اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزالدین کمزور حکمران ہے''۔ شمن النساء نے کہا ۔

'' اس کی کمزوری یہہے کہ وہ حکمرانی کی گدی کو چھوڑنا نہیں چاہتا ''۔ عامر بن عثمان نے جواب دیا …… '' میںنے اس کی جو باتیں سنی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمرانی قائم رکھنے کے لیے صلیبیوں کے ساتھ سازباز کرلے گا …… میں اب اس اور اس کے مشیروں کی باتیں غور سے سناکروں گا اور تمہیں بتاتا رہوں گا ''۔

'' یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ یہاں صلیبیوں کے جاسوس موجود اور سرگرم ہیں ''۔ شمس النساء نے کہا …… '' اور یہاں ہمارے جاسوس بھی کام کر رہے ہیں ۔ کسی روز اُن سے تمہاری ملاقات کرائوں گی ۔ شمس النساء نے مسکرا کر پوچھا '' تمہاری سوڈانی پری کس حال میں ہے؟ اب بھی ملتی ہے؟''

''ملتی ہے''۔عامر بن عثمان نے جوا ب دیا ……''گھسیٹتی ہے ۔ پرسوں ملی تو رو بھی پڑی تھی ۔ کہتی ہے، ایک بار میرے کمرے میں آجائو۔ شمسی ! میں اس لڑکی سے ڈرتا ہوں ۔ تم جانتی ہو کہ اس کے حُسن میں جادو ہے۔ اس کے طلسم میں آیا ہوا انسان نکل نہیں سکتا ۔ میں اس سے اس لیے نہیں ڈرتا کہ وہ بہت حسین ہے، مجھ پر مرتی ہے اور میں اُس کے جال میں پھنس جائوں گا ۔ ڈر یہ ہے کہ وہ والئی حلب عزالدین کے حرم کا ہیرا ہے۔ اسکا نام انوشی ہے لیکن محل کے اندرونی حلقوں کے افراد اسے سوڈانی پری کہتے ہیں۔ اگر عزالدین یا اُس کے کسی امیر وزیر کو پتہ چل گیا کہ یہ لڑکی مجھے چاہتی ہے تو لڑکی سے کوئی باز پرس نہیں ہوگیا ۔ سزا مجھے ملے گی ۔ مجھے تہہ خانے میں باندھ کر ایسی اذیتیں دی جائیں گی کہ تم سنو تو مرجائو۔ مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ میں نے اُسے مایوس کیے رکھا تو وہ مجھ پر دست درازی یا بد نیتی کا الزام عائد کرکے مجھے قید میں ڈالوادے گی ''۔

'' اسے ابھی تک یہ تومعلوم نہیں ہوا کہ تم مجھے چاہتے ہو اور ہماری ملاقاتیں ہوتی ہیں؟ شمس النساء نے پوچھا۔

''جس روز اُسے پتہ چل گیا وہ دونوں کی زادگی کا آخری دن ہوگا ''۔ عامر بن عثمان نے جواب دیا ۔ '' تمہیں شاید بخش دیا جائے، مجھے کوئی نہیں بخشے گا ''

انوشی دراصل صلیبیوں کا بھیجاہوا تحفہ تھا ۔ حلب میں یہ لڑکی آئی تو الملک الصالح بیمار پڑ گیا اور مر گیا۔ عزالدین نے آکر حلب کی حکومت سنبھالی تو حکام نے انوشی اس کی خدمت میں پیش ی ۔ اس کے ساتھ عزالدین نے رضیع خاتون کے ساتھ شادی کر لی۔ یہ اُس دورکے حکمرانوں کا دستور تھا کہ بیویاں الگ رکھتے تھے اور حرم میں بغیر شادی کے لڑکیاں الگ رکھتے تھے ۔ صلیبیوں اور یہودیوں نے مسلمان امراء و زراء کی اس تباہ کس عادت کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لیے انہیں اپنی لڑکیاں تحفے کے طور پر پیش کرنی شروع کردیں تھیں۔ پھر ان لڑکیوں میں انہوں نے جاسوسی کے فن کی تربیت یافتہ لڑکیاں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ انہیں رقابت اور فتنہ فساد پیدا کرنے کی بی تربیت دی گئی تھی ۔

انوشی ایسی ہی تربیت یافتہ لڑکی تھی ۔ وہ عزالدین کے محل کی ضیافتوں میں شراب پلاتی تھی ، پیتی بھی تھی ۔ اُس نے حلب کے دو ایسے حاکموں کو اپنے حسن اور فریب کے جال میں پھانس لیا تھا جو حلب کی قسمت بنا بھی سکتے اور بگھاڑ بھی سکتے تھے۔ وہ عزالدین کے تو اعصاب پر غالب آگئی تھی ۔ وہ سراپا بدی تھی اور مجسم دعوتِ گناہ ۔ عامر بن عثمان عزالدین کے قریب رہتا تھا کیونکہ وہ خصوصی محافظ دستے کا کماندار تھا۔ اُس نے عزالدین کی حفاظت کے لیے محافظ دستے کے علاوہ درپردہ انتظامات بھی کررکھے تھے۔ اس کی نظریں عقاب کی طرح تیز اور دُور بین تھیں …… انوشی نے اُسے دیکھا تو یہ خوبروجوان اُسے بہت اچھا لگا ۔ اُس نے عامر پر ڈورے ڈالنے شروع کردئیے لیکن عامر اُس کے ہاتھ نہ آیا۔ عامر کو معلوم تھا کہ حرم کے اس ہیرے کے ساتھ صرف بات کرتے بھی پکڑا گیا تو انجام ہولناک ہوگا۔ انوشی دوسرے تیسرے روز عامر بن عثمان سے ملتی اور والہانہ محبت کا اظہار کرتی تھی ۔ عامر اُسے ٹال دیا کرتا تھا۔

: '' میں اس محل کا ملام ہوں''۔ عامرنے ایک روز اسے کہا تھا ''۔ اگر تمہارے دل میں میری سچی محبت ہے تو مجھ پر رحم کرواور مجھ سے دُور رہو''۔

'' تمہاری طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ''۔ انوشی نے اُسے کہا …… '' ایک بار میرے میں کمرے میں آجائو''۔

اسی دوران عامر اور شمس النساء کی چوری چھپے ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔ 

٭ ٭ ٭

''قاضی بہائوالدین شداد جو اُس دور کا عینی شاہدہے، اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے ''…… ''عزالدین نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ موصل اور شام کی امارتوں کو اپنے ماتحت متحد نہیں رکھ سکے گا ۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی سے بہت ڈرتا تھا۔ اس کے ماتحت جو امیر اور وزیر تھے وہ عزالدین سے اتنی زیادہ رقموں کا مطالبہ کرنے لگے جو وہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ خزانے میںاتنی سکت نہیں تھی اور وسائل بھی محدود تھے ''۔

اپنی یادداشتوں میں آگے چل کر قاضی بہائوالدین شداد نے لکھا ہے کہ عزالدین کو یہ خطرہ تھا کہ سلطان ایوبی کو حلب کے ساتھ دل چسپی ہے اس لیے وہ حلب پر ضرور قبضہ کرے گا ۔ عزالدین سلطان ایوبی کے خلاف آمنے سامنے کی جنگ لڑنے سے گزیز کرتا تھا ۔ اُس نے اپنے ایک بڑے ہی قابل اور دلیر سالار مظفرالدین ککبوری سے مشورہ کیا جو سات تہوں میں چھپا ہوا ایک راز تھا۔ موصل کا والی عزالدین کا بھائی عمادالدین تھا جو کھلم کھلا سلطان ایوبی کے خلاف تھا۔ حلب اور موصل میں یہ انقلاب آیا کہ عزالدین نے موصل کی حکمرانی سنبھالی اور عمادالدین حب آکر والئی حلب بن گیا۔ امارتوں یا سلطنتوں کا یہ تبادلہ دونوں کے باشندوں کے لیے ایک معمہ تھا۔

متعدد مؤرخین نے اس تبادلے پر اظہار خیال کیا ہے۔ ہر ایک نے مختلف رائے دی ہے۔ اُس وقت کے وقائع نگاروں کی تحریروں سے کچھ بھید بے نقاب ہوتے ہیں۔ عزالدین جب موصل کے قلعے میں گیا تو رضیع خاتون اور اس کی بیٹی شمس النساء اس کے ساتھ تھیں۔ اس کا ذاتی محافظ دستہ بھی ساتھ تھا ۔ جس کا کماندار عامر بن عثمان تھا ۔ یہ بہت ہی بڑا قافلہ تھا ۔ کئی اونٹوں پر پالکیاں تھیں جان کے پردے گرے ہوئے تھے ۔ رضیع خاتون اور شمس النساء کا اونٹ سب سے آگے تھا ۔ رضیع خاتون کی خادمہ بھی ساتھ تھی ۔ رات کو راستے میں ایک جگہ قیام بھی کرنا تھا ۔ 


عزالدین کو موصل پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے اس نے قافلے کا سربراہ مقرر کیا اور خود قیام کیے بغیر اپنے چند ایک محافظوں اور دو تین مشیروں کے ساتھ سفر جاری رکھا۔ عامر بن عثمان کو قافلے کے ساتھ رہنے دیا گیا ۔ سورج غریب ہوتے ہی خیمے نصب کر دئیے گئے۔ رضیع خاتون کا خیمہ اُن خیموں سے بہت دور نصب کیا گیا جن میں رات حرم کی لڑکیوں کو رہنا تھا ۔ عزالدین نے خاص طور پر حکم دیاتھا کہ رضیع خاتون اور شمس النساء کو حرم کے خیموں سے دُور رکھا جائے۔ قیام کی جگہ سر سبز اور چٹانی تھی۔ چٹانوں پر بھی سبزہ تھا ۔ ہری بھری جھاڑیوں کی بہتات تھی ۔

رات کو عامر بن عثمان مشعلوں کی روشنی میں حفاظتی انتظامات دیکھتا پھر رہا تھا ۔ اُن دنوں وہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کہیں بھی لڑائی نہیں ہو رہی تھی ۔ سلطان ایوبی مصر میں تھا اور صلیبی کہیں دُور بیٹھے سلطان ایوبی کی اگلی چال کے انتظار میںتیاریاں کر رہے تھے ۔ پھر بھی عامر کا یہ فرض تھا کہ خیمہ گاہ اور جانوروں کے اردگرد گشت کا انتظام کرتا۔ وہ حرم کے خیموں سے ذرا دُور گھوم کر گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ اکیلا تھا ۔ خیموں سے کچھ اور دُور گیا تو اُسے اپنے سامنے ایک سایہ کھڑا نظر آیا۔ اُ س نے قریب جاکر گھوڑا روک لیا۔

'' میں نے تمہیں اندھیرے میں اتنی دُور سے پہچان لیا ہے، تم قریب آکر بھی مجھے نہیںپہچانتے ''۔

یہ انوشی کی آوازتھی ۔عامر بن عثمان نے آواز پہچان کر کہا ۔'' مجھے ابھی بہت کام کرنا ہے۔ اتنی وسیع خیمہ گاہ اور اتنے سارے جانوروں کی حفاظت کا انتظام میرے ذمے ہے۔ مجھے مت روکو''۔

انوشی اس کے گھورڑے کے آگے آکر لگام پکڑ چکی تھی ، بولی۔ '' گھوڑے سے اُتر آئو عامر! جن کا تمہیں ڈر تھا وہ موصل چلے گئے ہیں ۔ اُتر آئو''۔

عامر گھوڑے سے اُترا۔ انوشی نے اسے بازو سے پکڑا اور ذرا پرے چٹان کی اوٹ میں بٹھا لیا ۔ عامر نے سدھائے ہوئے جانور کی طرح کوئی مزاحمت نہیں کی ۔

''عامر!'' انوشی نے جذباتی لہجے میں کہا …… '' تم مجھے بدکار اور شیطان لڑکی سمجھ کر مجھ سے بھاگتے پھررہے ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم میری اصلیت سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم اپنے آپ کو زاہد اور پارسا سمجھتے ہو اور تمہیں جوانی اور اتنے دلکش جسم پر بھی ناز ہے۔ تم نے ابھی اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ کسی بھی روز تمہارا جسم خون میں ڈوبی ہوئی لاش بن جائے گا۔ یہ جنگ و جدل کا دور ہے۔ ایک وہ ہیں جو میدانِ جنگ میں کٹتے اور مرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو قلعے اور محل

: جو قلعے اور محل کے اندر ہی خفیہ طریقے سے قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ تمہارا انجام ایساہی ہو سکتا ہے۔ اپنے مردانہ حسن اور جسم کی دلکشی کو دائمی نہ سمجھو ''۔

''کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دے رہی ہو؟''

''نہیں !'' انوشی نے جواب دیا ۔'' میںتمہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ تمہیںاگر یہ خیال ہے کہ میں تمہاری خوبصورتی اور تمہارے جسم پرمرتی ہوں تو یہ خیال دل سے نکال دو ۔ میں جسمانی تعیش کا مجسم ذریعہ ہوں، مگر میں جسمانی لذت سے بیزار ہوں۔ انسان کتنی ہی پتھر کیوں نہ بن جائے ، دل کو بھی پتھر ہی کیوں نہ سمجھ لے ، دل پتھر نہیں بن سکتا ۔ روح مرجھا جاتی ہے مرتی نہیں۔ دل او روح کو وہ محبت زندہ رکھتی جس کا تعلق جسم کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ مجھے اور زیادہ غور سے دیکھو۔ میرا حسن اور اس کا طلسم دیکھو۔ میں گناہ کرتی ہوں اور دوسروں کو گناہوں کی ترغیب دیتی ہوں۔ مجھے لوگ شہزادی نہیں پری کہتے ہیں۔ تمہارے بادشاہ اور امراء میرے قدموں میں ایمان اور اپنا سر رکھ دیتے ہیں مگر ایک ایسی تشنگی سے در چار رہی جسے میں کبھی بھی نہ سمجھ سکی ۔ تمہیں دیکھا تو تم مجھے اچھے لگے ۔ میں پہلی بار جب تمہارے قریب آئی تھی تو میری نیت صاف نہیں تھی ۔ تم نے جب مجھے ٹال دیا اور اس کے بعد بڑے اچھے لفظوں میں دھتکار دیا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ تشنگی کیا ہے جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھی ۔ میں تمہیں دل کی گہرائیوںسے چاہنے لگی۔ یہ تمہاری صورت کا اثرنہیںتھا ، اور یہ اثر ایسا تھا جس نے میرے دل میں ان سب کے خلاف نفرت پیدا کی ، جو مجھے عیاشی کا کھلونا سمجھتے ہیں اور جو اپنا ایمان اور اپنا قومی وقار میرے ہاتھ سے لیے ہوئے شراب کے پیالے میں ڈبو دیتے ہیں ''۔

وہ جذبات سے مخمود آواز سے بول رہی تھی اور عامر بن عثمان اس ذہنی کیفیت میں سُن رہا تھا کہ دل میں یہ ڈر تھا کہ کسی نے دیکھ لیا تو وہ مارا جائے گا۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ شمس النساء اُس کی تلاش میں ادھر آنکلی تو اُس کی محبت کا خون ہو جائے گا ۔ وہ صرف سُن رہا تھا ۔ اتنی حسین لڑکی کی ایسی جذباتی اس کے دل پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں۔

'' کیا تم ڈرتے ہو یا تمہارا دل مردہ ہوگیا ہے؟'' نوشی نے اس کے گال ہاتھوں میں تھام کر کہا …… '' اگر میرا دل مُردہ نہیں ہوا تو میں مان ہی نہیں سکتی کہ تمہارا دل مرگیا ہے ''۔اس نے کان عامر بن عثمان کے ساتھ لگا دیا۔ اُس کے معطر اور ریشم جیسے بکھرے بکھرے بال عامر کے جواں سال گال چُھونے لگے ۔ وہ آخر جوان تھا۔ اس کی ذات میں ہلچل سی بپا ہوئی۔ اُسے انوشی کی ہنسی کا ترنم سنائی دیا۔ ہنس کر بولی …… '' دل زندہ ہے ،دھڑک رہا ہے……میں تم سے کیا مانگتی ہوں؟ کچھ بھی نہیں ، تم مجھ سے مانگو ، ہیرے، جواہرات ، سونے کے سکے ، کہو کیا چاہیے ''۔ 

''مجھے کچھ بھی نہیں چائیے، سوڈانی پری''۔

'' مجھے انوشی کہو''۔ لڑکی نے کہا …… '' سوڈانی پری کہنے والے محبت سے عاری ہیں۔ گناہگار ہیں ۔ تم ان سب سے بلند ہو، پاک ہو۔ مجھ سے خزانے لے لو۔ ان کے عوض مجھے محبت دے دو '' …… اُس نے اپنا گال عامر کے گال کے ساتھ لگا دیا ۔ عامر تڑپ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی حالت اب اُس پرندے کی سی تھی جسے پنجرے میں بند کر لیا گیا ہو۔ وہ تڑپنے اور پھڑکنے لگا۔

'' معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں کسی اور کی محبت ہے''۔ انوشی نے کہا …… '' میرے طلسم میں کبھی کوئی یوں تڑپا نہیں۔ مجھے کہہ دو کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ''۔ اُس نے دانت پیس کر کہا ۔ '' تمہیں اتنا بھی احساس نہیں کہ ایک گناہگار لڑکی تم سے پاک محبت کی بھیک مانگتی ہے اور ہو سکتا ہے وہ گناہوں سے توبہ کرکے تمہارے قدموں میں سجدہ ریز ہوجائے۔ بدبخت انسان! یہ بھی سوچ لو کہ تم اس لڑکی کو دھتکار رہے ہو جس نے حکومتوں کے تخت اُلٹ دئیے ہیںاور جو بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون بہا دیتی ہے۔ تم میرے سامنے ایک کیڑے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتے ''۔

''پھر مجھے مسل ڈالو''۔ عامر نے کہا…… '' میں تمہارے قابل نہیں '' …… وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔

'' میں تم سے کچھ نہیں مانگتی عامر !'' انوشی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا ۔'' صرف یہ کرو کہ میرے پاس بیٹھے رہا کرو۔ میں پناہ میں لے لیا کرو ''۔

عامر اس سے ہٹ کر اپنے گھوڑے کے پاس گیا ۔ انوشی وہیں کھڑی رہی ۔ عامر گھوڑے پر سوار ہُوا اور کچھ کہے بغیر چلا گیا ۔ 

٭ ٭ ٭

عامر بن عثمان کا گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔ عامر کا سر جھکا ہوا تھا ۔ اس کی ناک میں انوشی کے بالوں کی خوشبو تروتازہ تھی ۔ وہ گالوں پر انوشی کے بالوں کے لمس کا گداز محسوس کر رہا تھا ۔ وہ اس حسین جال سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ اگر انوشی ایک بار پھر ایسی ہی تاریکی اور تنہائی میں اُسے ملی تو اُس کی قسمیں ٹوٹ جائیں گی ، پھر وہ کہیں نہیں رہے گا ۔ اُس نے اپنے خیالوں کا رُخ شمس النساء کی طرف پھیر دیا ۔ تب اُسے یاد آیا کہ شام خیمے نصب کرتے وہ ذرا سی دیر شمس النساء کے پاس رُسکا تھا اور انہوں نے ملنے کا وقت اور جگہ طے کی تھی ۔ اُسے یاد آگیا کہ وہ اُسی جگہ کی طرف جارہا تھا ، راستے میں انوشی نے روک لیا …… اُس نے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ اسے اندھیرے میں انوشی نظر نہ آئی۔ وہ ایک ٹیکری سے مُڑکر اُس جگہ پہنچا جہاں شمس النساء کو آنا تھا ۔ عامر نے جس طرح انوشی کا سایہ دیکھا تھا اسی طرح اُسے شمس النساء کا سایہ نظر آیا جو گھوڑے کی طرف بڑھا۔ وہ گھوڑے سے اُترا۔

''کہاں رہے؟''شمس النساء نے اس سے پوچھا …… ''بہت دیر سے انتظار کر رہی ہوں''۔

'' میرے کام سے تم آگا ہ ہو''۔ عامر نے جھوٹ بولا …… '' اِدھر ہی آرہا تھا کہ ایک جگہ کام سے رُکنا پڑا اور اتنی دیر ہوگئی ''۔

'' اپنے آدمیوں کا بھی خیال رکھنا ''۔ شمس النساء نے کہا …… '' وہ سب بہت ہوشیار ہیں ۔ کسی کو اُن پر شک نہیں ہوگا ''۔

شمس النساء اُن '' اپنے آدمیوں'' کا ذکر کر رہی تھی جو حلب کے اندر سلطان ایوبی اور رضیع خاتون کے لیے جاسوسی اور مخبری کرتے تھے۔ ان میں جو محل کے اندر ملازم تھے وہ اسی حیثیت کے ساتھ جا رہے تھے اور جو شہر میں کوئی کام کاج کرتے تھے انہیں عارضی مزدوروں کے بہروپ میں راستے میں خیمے لگانے اور اکھاڑنے اور دیگر کاموں کے لیے ساتھ لیے لیا گیا تھا ۔ ان کے متعلق یہ طے کیا گیا تھا کہ موصل شہر میں مختلف کاموں پر لگا دیا جائے گا۔ رضیع خاتون کی خادمہ نے یہ تمام آدمی شمس النساء اور عامر بن عثمان کو دکھائے تھے۔

'' آئو کچھ دیر بیٹھ جائیں ''۔ شمس النساء نے اپنا بازو عامر کی کمرکے گرد لپیٹ کر کہا ۔

عامر نے اپنا بازو شمس النساء کی کمر کے گرد لپیٹا۔ شمس النساء اس کے ساتھ لگ گئی۔ ایک قدم اُٹھایا اور رُک گئی۔ اُس نے ناک عامر کے سینے سے لگا کر سونگھا اور اس سے الگ ہٹ کر بوبی۔ '' تم کہاں تھے؟ کس کے پاس تھے ''۔ 

''میں جانوروں کو دیکھ کر آرہا ہوں''۔ عامر نے جواب دیا ۔ 

'' جانور عطر کب سے لگانے لگے ہیں ؟'' شمس النساء نے دبے دبے غصے سے کہا …… '' تم نے کبھی عطر نہیں لگایا ''۔ عامر چپ رہا …… ' ' تمہیں وہ خوبصورت ڈائن مل گئی ہو گی۔ تم اس کے جال میں آگئے ہو''۔ 

'' ابھی نہیں آیا شمسی! '' عامر نے کہا …… '' وہ مجھے راستے میں مل گئی تھی ۔ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا تھا تمہیں کسی وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ میں اتنا کچا آدمی نہیں ہوں۔ تم نے میرے سینے سے جو خوشبو سونگھی ہے یہ اُسی کی ہے لیکن تم میرے سینے کے اندر دیکھنے اور سونگھنے کی کوشش کرو''۔ عامر کے لہجے میں گھبراہٹ کا ہلکا ہلکا لرزہ تھا ۔ کہنے لگا …… '' میں بہت پریشان ہوں شمسی ! میں کوئی امیر یا حاکم یا سالار نہیں ، ادنیٰ ملازم ہوں ، انوشی مجھے آسانی سے انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے ''۔

''معلوم ہوتا ہے آج اُس نے تمہیں کچھ زیادہ ہی پریشان کیا ہے''۔ شمس النساء نے کہا ۔

''بہت زیادہ''۔ عامر بن عثمان نے جواب دیا ۔ '' آج اس کی نے اپنا دل کھول کر میرے آگے رکھ دیا ۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ گناہگار اور بدکار ہے۔ اس نے مجھ پر واضع کردیا ہے کہ وہ یہاں بدکاری پھیلانے اور بھائی کوئی بھائی سے لڑانے آئی ہے۔ اس نے مجھ سے پاک محبت کی التجا یک ہے اور کہا ہے کہ میں اس کے عوض جتنی دولت مانگودوں گی۔ میں نے بڑی مشکل سے اس کے بازئووں سے رہائی حاصل کی ہے ۔ خدا کے لیے مجھے بتائو شمسی ، میں کیا کروں۔ وہ دنیا کی ساری دولت میرے قدموں میں رکھ دے تو بھی میں تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتا ''۔

''پھر اُسے دھوکہ دو''۔شمس النساء نے کہا ۔ '' اُسے وی محبت دو جو وہ مانگتی ہے۔ اس کے عوض اس سے وہ راز لو جو ہم مانگتے ہیں ۔ اس نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اُسے کس مقصد کے لیے یہاں بھیجا گیا ہے۔ تم تجربہ کار اوردانشمند ہو۔ یہ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اُسے صاف کہہ دو کہ تمہیں اندر کے رازوں کی ضرورت ہے یا اسے بتائے بغیر اُس سے ر

 یا اسے بتائے بغیر اُس سے راز اگلواتے رہو''۔

'' میں یہ سوچ چکا ہوں ''۔ عامر نے کہا …… '' مگر ڈرتا ہوں کہ تم ایک نہ ایک دن میرے خلاف غلط فہمی میں مبتلا ہوجائو گی ''۔

'' میں تمہیں اور اپنی محبت کو خدا کے سپرد کرتی ہوں'' ۔ شمس النساء نے کہا …… '' ماں ہر روز مجھے جو باتیں بتاتی ہے وہ میری روح میں اُتر گئی ہیں۔ میری محبت مر نہیں سکتی ، میں اسے اس عظیم مقصد پر قربان کر سکتی ہوں جو مجھے ماں نے دیا ہے۔ اپنے اللہ اور اپنے حلف کو یاد رکھو گے تو کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی ''۔ اس نے پوچھا ۔ '' کیا اُسے معلوم ہو گیا ہے کہ تم مجھے ملتے ہو؟''

'' اُ س نے ذکر نہیں کیا ''۔ عامر نے جواب دیا …… '' اُسے یقینا معلوم نہیں ''۔ 

''کام کی بات سن لو ''۔شمس النساء نے کہا …… '' حلب کی روانگی سے کچھ دیر پہلے قاہرہ سے ایک آدمی یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ عزالدین کی نیت کیا ہے اور صلیبیوں کے منصوبے کیا ہیں۔ اُسے کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا جا سکا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بہت جلدی قاہرہ سے فوج کے ساتھ روانہ ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس آدمی نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی اس وجہ سے جلدی کوچ کرنا چاہتے ہیں کہ صلیبی فوج نے موصل ، حلب اور دمشق کی طرف پیش قدمی کردی تو قاہرہ سے فوج بروقت یہاں پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔ خطرہ یہ ہے کہ سلطان اپنی فوج لے آئیںاور صلیبیوں کی چال کچھ اور ہو تو سلطان کی فوج نقصان اُٹھا سکتی ہے ۔ ہمیں بہت جلد اپنے مسلمان امراء اور صلیبیوں کے عزائم معلوم کرنے ہیں ''۔ 

'' میں نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس آسمان سے تارے بھی توڑ لاتے ہیں ''۔ عامر بن عثمان نے کہا …… '' کیا صلیبی علاقوں میں اس کا کوئی آدمی نہیں ؟''

'' ماں نے بتایا ہے کہ اسحاق ترک ایک بڑا ہی قابل اور ہوشیار آدمی ہے ''۔ شمس النساء نے جواب دیا ۔ '' وہ بیروت گیا ہوا ہے ۔ صحیح خبر وہی لائے گا لیکن اس کی طرف سے کوئی اطلاع قاہرہ نہیں پہنچی …… دیکھو عامر ! فوجوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے تو یہ راز بے نقاب ہو جاتے ہیں مگر یہاں کوئی ایسی ہلچل نظر نہیں آتی۔ جو راز ہے، وہ عزالدین اور عمادالدین کے سینے میں ہے۔ یہ اندرونی حلقوں سے مل سکتا ہے اور تمہیں یہ رازانوشی دے سکتی ہے ''۔

''مگر جو قیمت وہ مانگتی ہے وہ میں نہیں دے سکوں گا ''۔ عامر نے کہا ۔

''تمہیں یہ قیمت دینی پڑے گی''۔ شمس النساء نے کہا ۔ ' ' میں یہ قیمت دینے کو تیار ہوں۔ میں اپنے بھائی کے گناہوں کا کفارہ اداکرنا چاہتی ہوں ۔ مذہب اور اُمّتِ رسول ۖ کی عظمت کے لیے ہماری آپس کی محبت اور دلوں کی خواہشیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہمیں ان شہیدوں کا قرض ادا کرنا ہے جو اسلام کے نام پر اپنی دلہنوں کو نوجوانی میں بیوہ کر گئے ہیں …… عامر! کچھ نہ سوچو۔ قربان ہو جائو''۔

٭ ٭ ٭

اُس وقت اسحاق ترک بیروت میں تھا۔ بیروت صلیبی حکمران بالڈون کے فرنگی لشکر کی بہت بڑی چھائونی بنا ہواتھا۔ اس سلسلے کے پچھلی اقساط میں سنایا جا چکا تھا کہ بالڈون کو ایک شکست سلطان ایوبی کے بھائی العادل نے دی تھی اور تھوڑے ہی عرصے بعد اُس نے سلطان ایوبی کی فوج کو گھات میں لینے کی کوشش کی تو خود سلطان ایوبی کی گھات میں آگیا تھا۔ وہ گرفتار ہوتے ہوئے بچا اور دونوں بار اُس کی فوج تتر بتر ہو کر پسپا ہوئی۔ وہ تو جیسے راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا ۔ ان دونوں پسپائیوں کا انتقام لینے کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ اُس نے الملک الصالح کو اپنا اتحادی بنا لیا تھا مگر اس کا یہ اتحادی مر گیا ۔ اب وہ عزالدین اور عمادالدین کو سلطان ایوبی کے خلاف اپنے محاذ میں شامل کر رہا

 تھا ۔ اُس نے قاہرہ میں جاسوس بھیج رکھے تھے جو سلطان ایوبی کے ارادوں کا پتہ چلا رہے تھے ۔

جاری ھے ، 



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں