صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔49۔ جب خزانہ مل گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلیبیوں کی یہ کانفرنس اپنی نوعیت کی پہلی ہنگامہ خیز کانفرنس تھی۔ وہ ہر شکست کے بعد ہر فتح کے بعد، ہر پسپائی اور کامیاب پیش قدمی کے بعد مل بیٹھتے تھے۔ تبادلۂ خیالات کرتے اور شراب پیتے تھے۔ عورت اور شراب کے بغیر وہ سمجھتے تھے کہ جنگ جیتی ہی نہیں جاسکتی۔ اپنی بیٹیوں کو مسلمانوں کے علاقوں میں جاسوسی، تخریب کاری اور مسلمان حکام کی کردار کشی کے لیے بھیج دیتے تھے اور خود اپنے قبضے میں لیے ہوئے علاقوں سے مسلمان لڑکیاں اغوا کرکے انہیں تفریح کا ذریعہ بناتے تھے۔ جاسوسوں نے جب انہیں یہ بتایا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کہتا ہے کہ صلیبی عصمتوں کے بیوپاری اور مسلمان عصمتوں کے محافظ ہیں تو صلیبی حکمران اور کمانڈر بہت ہنستے تھے، ان میں سے کسی نے سلطان ایوبی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ یہ شخص اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتا کہ جس طرح صلیب کے بیٹے سپاہی بن کر جسم استعمال کرتے ہیں، اسی طرح صلیب کی بیٹیاں بھی مسلمانوں کو بے کار کرنے کے لیے اپنا جسم استعمال کرتی ہیں۔ کسی اور نے کہا تھا کہ صلاح الدین ایوبی کو ابھی تک احساس نہیں ہوا کہ اس کی قوم کے بے شمار چھوٹے چھوٹے حکمرانوں، قلعہ داروں اور سالاروں کو ہماری ایک ایک لڑکی اور سونے کے سکوں کی ایک ایک تھیلی ایسی شکست دے چکی ہے جس پر وہ لوگ فخر کررہے ہیں اور اس شکست سے لطف اٹھا رہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی ہم سے اسلام کی عصمت کس طرح بچائے گا؟
یہ صلیبیوں کی پہلی کانفرنس کی باتیں ہیں مگر ١١٧٣ء کے آخر میں بیت المقدس میں صلیبی سربراہ اکٹھے ہوئے تو ان پر کچھ اور ہی موڈ طاری تھا۔ انہوں نے سلطان ایوبی کا مذاق نہ اڑایا۔ کسی کے ہونٹوں پر بھولے سے بھی مسکراہٹ نہ آئی اور کسی کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ وہ جب مل بیٹھتے ہیں تو شراب کا دور بھی چلا کرتا ہے۔ کرک سے وہ بڑے ہی شرمناک طریقے سے پسپا ہوئے تھے۔ ان میں ریجنالڈ بھی تھا جو کرک کا قلعہ دار بلکہ مالک تھا۔ وہ جنگجو تھا، فن حرب وضرب کا ماہر تھا۔ سلطان ایوبی کی فوج کے ساتھ اس نے اپنے زرہ پوش لشکر سے متعدد بار لڑائیاں لڑی تھیں۔ اس محفل میں ریمانڈ بھی تھا جس نے کرک کے محاصرے کے دوران صلاح الدین ایوبی کی فوج کو محاصرے میں لے لیا تھا۔ ان دونوں نے ایسا پلان بنایا تھا جس کے متعلق وہ بجا طور پر خوش فہمیوں میں مبتلا تھے مگر سلطان ایوبی نے کرک کا محاصرہ قائم رکھا، ریمانڈ کا محاصرہ ایسے انداز میں توڑا کہ ریمانڈ کا لشکر محاصرے میں آگیا۔ اس کی رسد تباہ ہوگئی اور اس کی فوج اپنے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کو مار مار کر کھاتی رہی۔ آخر اس کی آدھی سے زیادہ فوج کٹ گئی، کچھ گرفتار ہوئی اور باقی پسپا ہوگئی۔
ریجنالڈ خوش نصیب تھا کہ نورالدین زنگی کے سرفروشوں نے قلعہ سرکرلیا تو اندر کی بھگدڑ میں ریجنالڈ بچ کر نکل گیا، ورنہ وہ اس کانفرنس میں شمولیت کے لیے زندہ نہ ہوتا۔ اس محفل میں صلیبیوں کے ان جنگجو سرداروں کی تعداد بھی خاصی تھی۔ جنہیں ''نائٹ'' کہا جاتا تھا۔ یہ ایک خطاب تھا جو بادشاہ کی طرف سے عطا کیا جاتا اور اس کے ساتھ سر سے پائوں تک زرہ بکتری دی جاتی تھی۔ اس کانفرنس میں عکرہ کا پادری بھی تھا اور ان میں مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن فلپ آگسٹس بھی تھا۔ نائٹوں اور دیگر کمانڈروں کے ساتھ ساتھ اس کانفرنس میں صلیبیوں کی متحدہ انٹیلی جنس کا سربراہ ہرمن اور اس کے دو تین معاون بھی تھے۔ ابتداء میں اس ہجوم پر خاموشی چھائی رہی جیسے وہ ایک دوسرے کے سامنے بات کرتے گھبراتے ہوں۔ آخر فلپ آگسٹس نے زبان کھولی جس سے محفل میں زندگی کے آثار نظر آنے لگے۔ اس نے ''محافظ صلیب اعظم'' کو کانفرنس کی صدارت پیش کرکے اسی سے درخواست کی کہ وہ خطاب کرے۔
''ان لوگوں سے مخاطب ہوتے ہوئے مجھے شرم محسوس ہورہی ہے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں، عہد توڑے اور بیت المقدس میں ز ندہ اور تندرست آبیٹھے''۔ عکرہ کے پادری نے کہا… ''میں یسوع مسیح کے آگے شرمسار ہوں اور میں صلیب کو دیکھتا ہوں تو میری نظریں جھک جاتی ہیں۔ کیا تم سب نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلفیہ عہد نہیں کیا تھا کہ اس کے دشمنوں کا خاتمہ کرو گے، خواہ اس میں تمہیں جانیں بھی قربان کرنی پڑیں؟ کیا تم نے حلف نہیں اٹھایا تھا کہ اسلام کا نام ونشان مٹانے کے لیے جان اور مال کی اور اپنے جسموں کے اعضا کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرو گے؟ تم میں کتنے ہیں جن کے جسموں پر ہلکی سے خراشیں بھی آئی ہوں؟ کوئی ایک بھی نہیں۔ تم شوبک مسلمانوں کو دے کر بھاگے۔ اب تم کرک دے کر بھاگ آئے ہو۔ میں اس حقیقت سے بھی بے خبر نہیں کہ جو میدان میں اترتے ہیں، وہ شکست بھی کھاسکتے ہیں۔ دو فتوحات کے بعد ایک شکست کوئی معنی نہیں رکھتی مگر یکے بعد دیگرے شکستیں اور دو پسپائیاں مجھے یقین دلا رہی ہیں کہ صلیب یورپ میں قید ہوگئی ہے اور وہ وقت بھی آنے والا ہے جب یورپ کے کلیسائوں میں مسلمانوں کی اذانیں گونجیں گی''۔
''ایسا کبھی نہیں ہوگا''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''صلیب اعظم کے محافظ! ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ شکست کے کچھ اسباب تھے جن پر ہم غور کرچکے ہیں اور اب آپ کی موجودگی میںمزید غور کریں گے؟''
''اور شاید تم اس پر غور نہ کرو کہ اب مسلمانوں کی منزل بیت المقدس ہوگی''… فلپ آگسٹس نے کہا… ''ہم نے مسلمانوں میں اتنے غدار پیدا کرلیے ہیں جو صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کو بیت المقدس کے راستے پر ڈال کر انہیں راستے میں ہی پیاسا مار ڈالیں گے''۔
''پھر یہ کون سے مسلمان ہیں جنہوں نے تم سے دو اتنے مضبوط قلعے لے لیے ہیں؟''… صلیب اعظم کے محافظ نے کہا… ''اس حقیقت کو مت بھولو کہ مسلمان انتہا پسند قوم ہے۔ مسلمان غداری پر آتا ہے تو اپنے بھائیوں کی گردن پر چھری چلا دیتا ہے مگر اس میں جب قومی جذبہ بیدار ہوجاتا ہے تو اپنی گردن کاٹ کر گناہوں کا کفارہ ادا کردیا کرتا ہے۔ مسلمان اگر غدار بھی ہوجائے تو اس پر اعتماد نہ کرو، دور نہ جائو، گزرے ہوئے صرف دس سالوں کے واقعات پر نظر ڈالو۔ اسلام کے غداروں نے تمہیں کتنے علاقے دلوائے ہیں؟ کیا تم میں ہمت ہے کہ مصر میں قدم رکھو؟ آج مسلمان فلسطین میں بیٹھے ہیں، کل تمہارے سینے پر بیٹھے ہوں گے۔ یاد رکھو میرے دوستو! اگر صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی نے تم سے بیت المقدس لے لیا تو وہ تم سے یورپ بھی لے لے گا لیکن سوال فلسطین اور یورپ کا نہیں، سوال زمین کے ٹکڑوں کا نہیں، اصل مسئلہ صلیب اور اسلام کا ہے۔ یہ دو مذہبوں اور نظریوں کی جنگ ہے۔ دو میں سے ایک کو ختم ہونا ہے۔ کیا تم صلیب کا خاتمہ پسند کرو گے؟''
''نہیں مقدس باپ، ایسا کبھی نہیں ہوگا''… محفل میں جوش وخروش پیدا ہوگیا… ''اتنی زیادہ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں''۔
''پھر تم ان وجوہات پر غور کرو جو تمہاری پسپائی کا باعث بنی ہیں''… محافظ صلیب اعظم نے کہا… ''میں تمہیں جنگ کے متعلق کوئی سبق نہیں دے سکتا۔ میں نظریات کے محاظ کا سپاہی ہوں۔ میں کلیسا کا محافظ ہوں۔ مجھے کلیسا کی کنواریوں کی قسم دس کٹر مسلمان میرے سامنے لے آئو، انہیں صلیب کا پجاری بنالوں گا۔ ذرا اس پر غور کرو کہ تمہارے اتنے بڑے لشکر جو زرہ پوش بھی ہیں، مسلمانوں کی مختصر سی فوج کا مقابلہ کیوں نہیں کرسکتے؟ تمہارے پانچ سو سواروں کو ایک سو پیادہ مسلمان شکست دے دیتے ہیں؟ صرف اس لیے کہ مسلمان مذہب کے جنون سے لڑتے ہیں۔ وہ تمہارے مقابلے میں آتے ہیں تو قسم کھا لیتے ہیں کہ فتح یا موت۔ میں نے سنا ہے کہ ان کے چھاپہ مار تمہارے عقب میں چلے جاتے ہیں اور تمہاری کمر توڑ کر تمہارے تیروں سے چھلنی ہوجاتے ہیں یا نکل جاتے ہیں۔ ذرا سوچو کہ دس دس بارہ بارہ آدمی تمہارے ہزاروں کے لشکر میں کس طرح گھس آتے ہیں؟ یہ محض مذہبی جنون ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ خدا بھی ان کے ساتھ ہے اور خدا کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ ہے۔ ایسی دلیرانہ کارروائیوں میں وہ اپنے کمانڈروں سے نہیں قرآن سے حکم لیتے ہیں۔ میں نے قرآن کا مطالعہ بہت غور سے کیا ہے۔ ہمارے خلاف جنگ کو قرآن جہاد کہتا ہے اور ہر مسلمان پر جہاد فرض کردیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ جہاد کو نماز یعنی عبادت پر فوقیت حاصل ہے… تم بھی جب تک اپنے آپ میں یہی جنون پیدا نہیں کرو گے، اسلام کا تم کچھ نہیں بگاڑ سکتے''۔
٭ ٭ ٭
کچھ ایسے ہی جذباتی اور حقیقی الفاظ تھے جن سے عکرہ کے پادری نے اپنے شکست خوردہ حکمرانوں اور کمانڈروں کو بھڑکانے اور ان میں نئی روح پھونکنے کی کوشش کی اور وہ یہ کہہ کر چلا گیا کہ اب آپس میں بحث ومباحثہ کرو کہ تمہاری شکست کے اسباب کیا تھے اور اس کی ذمہ داری کس کس پر عائد ہوتی ہے اور اس شکست کو فتح میں کس طرح بدلنا ہے۔ بیت المقدس کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنالو۔ صلاح الدین ایوبی فرشتہ نہیں۔ تمہاری طرح ایک انسان ہے۔ اس کی طاقت صرف اس میں ہے کہ اس کا ایمان پکا ہے۔
پادری کے جانے کے بعد کانفرنس میں جو گرما گرمی پیدا ہوئی، وہ اس لحاظ سے تاریخی نوعیت کی تھی کہ اس میں کچھ فیصلے کیے گئے۔ ان میں ایک فیصلہ یہ تھا کہ جوابی حملہ نہ کیا جائے بلکہ ایوبی اور زنگی کے لیے انگیخت پیدا کی جائے کہ وہ پیش قدمی کریں اور حملے جاری رکھیں۔ انہیں مستقر سے دور لایا جائے اور بکھیر کر لڑایا جائے۔ اس طرح ان کی رسد کے راستے لمبے اور غیر محفوظ ہوجائیں گے۔ اس کے ساتھ یہ فیصلہ ہوا کہ یونانیوں، بازنطینیوں اور فرینکوں کو فوری طور پر تیار کیا جائے کہ سمندر کی طرف سے مصر پر بحری حملہ کریں اور ساحل پر فوج اتار کر مصر کے شمال مشرق کے اتنے سے علاقے پر قبضہ کرلیں جسے مضبوط مستقر (اڈا) بنا لیا جائے۔ اسے فلسطین کے دفاع اور مصر پر جارحیت کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اہم فیصلہ یہ ہوا کہ اسلامی علاقوں میں اخلاق کی تخریب کاری تیز کردی جائے اور نظریاتی حملے اور شدید کردئیے جائیں۔
جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا جاچکا ہے کہ مصر میں صلیبیوں کی اہم مہم تباہ کردی گئی تھی جو سرحدی علاقے میں توہمات پیدا کرنے کے لیے عروج پر پہنچ گئی تھی۔ صلیبی جاسوسوں نے وہاں سے آکر اطلاع دے دی تھی کہ وہ مہم ناکام ہوچکی ہے اور جن مسلمانوں کو زیراثر لے لیا گیا تھا، انہوں نے ہی مہم کے افراد کو ہلاک کردیا ہے… اس کانفرنس میں یہ انکشاف پیش کیا گیا کہ مقبوضہ علاقوں میں مسلمانوں کی زندگی اجیرن کردی گئی ہے۔ وہ مجبور ہوکر قافلوں کی صورت میں ترک وطن کرتے ہیں تو راستے میں ان کے قافلے لوٹ لیے جاتے ہیں۔ مال اور مویشی چھین لیے جاتے ہیں اور لڑکیوں کو اغوا کرلیا جاتا ہے۔ کانفرنس میں اس اقدام کو ضروری سمجھا گیا۔ مسلمانوں کو ختم کرنے کا یہ بھی ایک اچھا طریقہ تھا۔ یہ نسل کشی کی مہم تھی جو صلیبیوں نے بہت عرصے سے جاری کررکھی تھی۔ پہلے بھی بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلمان کی کمسن اور خوبصورت بچیوں کو اغوا کرکے صلیبی انہیں بے حیائی اور چرب زبانی کی تربیت دے کر انہیں پالیتے پوستے اور جب وہ جوان ہوجاتیں، انہیں مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔
کانفرنس میں یہ بھی طے ہوا کہ مسلمانوں میں عیسائیت کی تبلیغ کی جائے۔ اس کے لیے بے شمار دولت کی ضرورت تھی جو خرچ تو کی جارہی تھی لیکن کچھ دشواریاں پیدا ہوگئی تھی۔ ایک یہ تھی کہ رقم اونٹوں کے ذریعے بھیجی جاتی تھی۔ کئی بار ایسے ہوا کہ مصر کے کسی سرحدی دستے نے پکڑ لیا یا اونٹ لوٹ لیے گئے۔ ضرورت یہ محسوس کی گئی تھی کہ کوئی ایسا ذریعہ مل جائے جس سے رقم اور انعامات کی دیگر قیمتی اشیاء اسی ملک سے دستیاب ہوجائیں، جہاں استعمال کرنی ہوں۔ خاصے عرصے سے اس مسئلے پر سوچ وبچار ہورہا تھا۔ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا کمانڈو، ہرمن، علی بن سفیان کی طرح غیرمعمولی ذہانت کا مالک تھا۔ اس نے کبھی کا سوچ رکھا تھا کہ مصر کی زمین اپنے اندر اس قدر خزانے چھپائے ہوئے ہے جس سے ساری دنیا کو خریدا جاسکتا ہے مگر ان خزانوں تک پہنچنا آسمان سے ستارے توڑ لانے کے برابر تھا۔ یہ خزانے فرعونوں کے مدفنوں میں محفوظ تھے۔ تاریخ فرعونوں کی اس رسم سے کبھی بھی بے خبر نہیں رہی کہ جب کوئی فرعون مرتا تھا تو اس کے ساتھ شاہانہ ضروریات کا تمام سامان اس کے ساتھ دفن کردیا جاتا تھا۔
مرے ہوئے فرعون کو قبر چند گز چوڑی نہیں ہوا کرتی تھی بلکہ زمین کے نیچے ایک محل تعمیر ہوجاتا تھا۔ فرعون اپنی زندگی میں اپنا مدفن تیار کرالیا کرتے تھے اور جگہ ایسی منتخب کرتے تھے جس تک اس کی موت کے بعد کوئی رسائی حاصل نہ کرسکے۔ مرنے کے بعد مدفن کو اس طرح بند کردیا جاتا تھا کہ معماروں کے سوا کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ اسے کھولا کس طرح جاسکتا ہے۔ مرنے والے کے لواحقین معماروں کو قتل کردیا کرتے تھے۔ فرعونوں کا ایک عقیدہ تو یہ تھا کہ وہ خدا ہیں اور دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد انہیں یہی جاہ وجلال حاصل ہوگا۔ چنانچہ پہاڑوں کو کاٹ کاٹ کر اور پھر پہاڑ کے نیچے زمین کی کھدائی کرکے محل جیسے ہال اور دیگر کمرے بنوا کر اس محل میں زیادہ سے زیادہ ہیرے جواہرات رکھوا دئیے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ بگھیا مع گھوڑوں اور بگھی بانوں کے اور کشتیاں مع ملاحوں کے اندر رکھ دی جاتی تھیں۔ خدمت کے لیے کنیزیں اور غلام اور بیویاں بھی ساتھ ہوتی تھیں۔ اس طرح صورتحال یہ بن جاتی تھی کہ ایک انسان کی لاش کے ساتھ جہاں بے انداز مال ودولت دفن ہوجاتا تھا وہاں بہت سے انسان زندہ اندر بھیج کر باہر سے مدفن کا منہ بند کردیا جاتا تھا۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ دم گھٹنے سے کس طرح مرتے ہوں گے۔ فرعونوں کی لاشوں کو مصالحے وغیرہ لگا کر حنوط کیا جاتا تھا۔ ہزاروں سال گزر جانے کے بعد آج بھی ان کی لاشیں محفوظ ہیں، جن میں کچھ لندن کے عجائب خانے میں پڑی ہیں۔
فرعونوں کا دور ختم ہوا تو مصر کی حکومت جس کے بھی ہاتھ آئی اس نے فرعونوں کے مدفن تلاش کرنے کی کوشش کی۔ یہ مہم ناممکن کی حد تک مشکل ثابت ہوئی۔ مدفنوں کو تلاش کرنا ہی ایک مسئلہ تھا۔ اس کے بعد آج تک یہ مہم جاری ہے۔ مصر نے تاریخ میں بہت سی بادشاہیاں دیکھیں۔ ہر بادشاہ نے مدفن تلاش کیے جسے جو ہاتھ لگا لے اڑا۔ سب سے زیادہ حصہ انگریزوں کے ہاتھ آیا کیونکہ انگریزوں نے وہاں موجودہ دور میں اپنا اثر قائم کیا تھا جب سائنس ترقی کرچکی تھی۔ سائنس نے اور کھدائی کے مشینی طریقوں نے انگریزوں کی بہت مدد کی۔ ۔ پھر بھی کہتے ہیں کہ مصر کی زمین فرعونوں کے خزانوں سے ابھی تک مالامال ہے اور مصر کی تاریخ میں اگر غور سے جھانکیں تو اس میں ایسے پراسرار اور خوفناک واقعات ملتے ہیں کہ وہ رونگٹے کھڑے کردیتے ہیں۔ کچھ ذاتی طور پر کسی فرعون کی تلاش میں نکلے۔ ان میں سے بعض مدفن میں داخل ہوبھی گئے مگر معلوم نہ ہوسکا کہ کہاں غائب ہوگئے۔ ان میں سے جو بچ کر نکلے وہ دوسرے کے لیے سراپا عبرت بن گئے۔ اسی لیے یہ عقیدہ آج بھی قائم ہے کہ فرعون خدا تو نہیں تھے لیکن ان کے پاس مرکر بھی کوئی ایسی طاقت موجود ہے جو ان کے مدفنوں میں جانے والوں کو عبرتناک سزا دیتی ہے۔ لوگوں نے اس عقیدے کو اس لیے تسلیم کیا ہے کہ جس بادشاہ نے بھی کسی فرعون کے مدفن میں ہاتھ ڈالا، اس کی بادشاہی کوزوال آیا۔ بعض نے فرعونوں کو نحوست کا حامل کہا ہے۔
صلاح الدین ایوبی کے دور سے پہلے ہی صلیبیوں کو معلوم تھا کہ مصر خزانوں کی سرزمین ہے۔ یہ وجہ بھی تھی کہ وہ مصر پر قابض ہونا چاہتے تھے۔ سلطان ایوبی کو شکست دینا آسان نظر نہ آیا تو انہوں نے یہ سوچنا شروع کردیا کہ ان مدفنوں کی تلاش مصریوں سے کرائی جائے اور خزانے نکلوا کر استعمال کیے جائیں۔ انہیں کسی طرح یہ پتا چل گیا تھا کہ مصری حکومت کے پرانے کاغذات میں ایسی تحریریں اور نقشے موجود ہیں جن میں بعض مدفنوں کے متعلق معلومات درج ہیں۔ ان کاغذات تک پہنچنا آسان نہیں تھا۔ صلیبیوں نے مصر میں بڑے ذہین جاسوس بھیجے تھے، جو صرف یہ معلوم کرسکتے تھے کہ یہ کاغذات کہاں ہیں اور کس طرح اڑائے جاسکتے ہیں مگر اس شعبے کے سربراہ کو اپنی گرفت میں لینا ممکن نہ تھا۔ ان دنوں جب سلطان ایوبی شوبک اور کرک کی جنگوں میں الجھا ہوا تھا اور اس کی غیرحاضری میں مصر سازشوں کی زرخیز زمین اور بغاوت کا آتش فشاں بن چکا تھا، صلیبیوں کے ماہر سراغ رساں ہرمن نے کامیابی حاصل کرلی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کے ایک اعلیٰ کمانڈر احمر درویش کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ احمر سوڈانی تھا، اس کے خلاف کوئی ایسی شکایت نہیں تھی کہ وہ غدار ہے۔ سلطان ایوبی کو اس پر اعتماد تھا۔ اس نے سلطان ایوبی کی زیرکمان لڑائیاں لڑی تھیں اور کمانڈروں کی صف میں نام پیدا کیا تھا۔
بعد کے انکشافات سے معلوم ہوا کہ یہ کمال میر یا ایستھینا نام کی ایک صلیبی لڑکی کا تھا کہ اس نے احمر کے دماغ میں سوڈان کی محبت، سلطان ایوبی کی مخالفت اور سوڈان میں مصر کے سرحدی علاقے میں سے کچھ حصے کی خودمختار ریاست کا لالچ پیدا کیا تھا۔ وہ تھا تو مسلمان لیکن صلیبیوں نے اس کے دماغ میں ڈ ال دیا تھا کہ وہ پہلے سوڈانی بعد میں مسلمان ہے۔ اب جبکہ نورالدین زنگی نے کرک کا قلعہ توڑ لیا تھا اور سلطان ایوبی مصر میں غداروں کا قلع قمع کررہا تھا۔ احمر درویش نے صلیبی جاسوسوں کے ساتھ کئی ایک ملاقاتیں کرلی تھیں۔ اس نے کسی کو شک تک نہیں ہونے دیا تھا ک وہ دشمن کے ساتھ سازباز کررہا ہے۔ اس نے مرکزی دفاتر میں اتنا اثرورسوخ پیدا کررکھا تھا کہ وہ پرانی دستاویزات تک پہنچ گیا۔ وہاں سے اس نے جو کاغذات چوری کرائے، ان میں بظاہر اوٹ پٹانگ سی لکیروں کا ایک نقشہ تھا۔ دراصل یہ کاغذات نہیں کپڑے اورکاغذ کے درمیان کی کوئی چیز تھی۔ ایسے ہی چند ایک اور کپڑے یا کاغذ تھے جن پر فرعونوں کے وقتوں کی عجیب وغریب تحریریں تھیں، جنہیں پڑھنا اور سمجھنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ یہ کسی کو دکھائی بھی نہیں جاسکتی تھی۔ بہر حال کسی طرح ان تحریروں کے معنی واضح کرلیے گئے۔ انکشاف یہ ہوا کہ قاہرہ سے تقریباً اٹھارہ کوس دور ایک پہاڑی علاقہ ہے جو خوفناک ہے، بے کار ہے اور جس کے اندر شاید درندے بھی نہیں جاتے ہوں گے۔ اس کے اندر کہیں ایک فرعون کا مدفن ہے۔
یہ نہیں کہا جاسکتا تھا کہ یہ تحریر کہاں تک صحیح اور بامعنی ہے۔ اس میں لکیروں میں ہاتھ سے بنی ہوئی چند ایک تصویریں بھی تھیں۔ کہانی کا کچھ حصہ ان تصویروں میں چھپا ہوا تھا۔ احمر نے قسمت آزمائی کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس فرعون کا نام ریمینس دوم تھا۔ اس کے مدفن کی تلاش اور کھدائی کے لیے صلیبیوں نے قاہرہ میں چند ایک ہوشیار، دانشمند اور جفاکش جاسوس بھیج دئیے تھے۔ ان کا سربراہ مارکونی اطالوی تھا جسے سیاحت اور کوہ پیمائی کا تجربہ تھا۔ احمر نے ان آدمیوں کو کامیابی سے بہروپ چڑھا دئیے تھے کہ قاہرہ میں انہیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔ دو کو تو اس نے اپنے گھر میں ملازم رکھ لیا تھا۔ اس کے عوض احمر درویش سے یہ سودا ہوا تھا کہ وہ مدفن سے زروجواہرات نکالے، انہیں اپنے پاس رکھے۔ سلطان ایوبی کے خلاف تخریب
کاری میں استعمال کرے، فدائیوں کو منہ مانگی اجرت دے۔ سلطان ایوبی کوقتل کرائے اور جب مصر صلیبیوں یا سوڈانیوں کے قبضے میں آجائے گا تو اسے ایک خودمختار ریاست بنا دی جائے گی، جس میں کچھ حصہ سوڈان کا کچھ مصر کا شامل ہوگا۔ اسے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اس تلاش کے دوران اگر سلطان ایوبی صلیبیوں پر یا سوڈانیوں پر حملہ کرے تو احمر اپنے زیرکمان دستوں کو سلطان ایوبی کی جنگی چالوں کے الٹ استعمال کرے۔
احمر درویش کا دماغ اتنے بڑے لالچ کے جادو کی گرفت میں آچکا تھا اور اس نے مارکونی کو ان دو صلییوں کے ساتھ جو اس کے نوکروں کے بہروپ میں اس کے گھر میں تھے، نقشہ دے کر مدفن کی تلاش کی مہم پر روانہ کردیا تھا۔ ایک جاسوس کی وساطت سے اس نے ہرمن کو اطلاع بھیج دی تھی کہ تلاش شروع ہوچکی ہے۔ ہرمن نے اس کانفرنس میں صلیبی حکمرانوں وغیرہ کو بتا دیا کہ اگر یہ مدفن بے نقاب ہوگیا تو اس سے برآمد ہونے والی دولت سے مصر کی جڑیں مصریوں کے ہی ہاتھوں کھوکھلی کی جاسکیں گی۔
٭ ٭ ٭
١١٧٤ء کی پہلی سہ ماہی کے آخری دن تھے، قاہرہ سے اٹھارہ کوس دور ایک جگہ تین اونٹ کھڑے تھے۔ ہر اونٹ پر ایک آدمی سوار تھا۔ ان کے چہرے ڈھکے ہوئے تھے، ایک سوار نے چغے کے اندر سے ایک گول کیا ہوا چوڑا کاغذ نکالا۔ اسے کھول کر غور سے دیکھا اور اپنے ساتھیوں سے کہا… ''جگہ یہی ہے'' … اس کے اشارے پر تینوں اونٹ آگے چل پڑے۔ وہ ٹیلے آمنے سامنے دیواروں کی طرح کھڑے تھے۔ ان کے درمیان ایک اونٹ گزرنے کا راستہ تھا۔ تینوں ایک قطار میں اندر چلے گئے۔ اندر کی پہاڑیوں کی شکل وصورت ایسی تھی جیسے کوئی بہت ہی وسیع عمارت ہو جس کی چھتیں غائب ہوں۔ ریت کے لامحدود سمندر میں یہ پہاڑی علاقہ تین چار میلوں میں پھیلا ہوا تھا۔ باہر ٹیلے اور چٹانیں تھیں۔ ان کے پیچھے سخت مٹی کی پہاڑیاں اور ان کے پیچھے ٹوٹی پھوٹی دیواروں کی طرح پہاڑیاں تھیں جن میں بعض بہت چوڑے اور گول ستونوں کی طرح ایک ہزار فن بلندی تک گئی ہوئی تھیں۔ سورج غروب ہونے کے بعد جب شام ابھی گہری نہیں ہوتی تھی، یہ علاقہ بہت سے بھوتوں کی طرح نظر آیا کرتا تھا۔ اس کے اندر جانے کی کسی نے کبھی جرأت نہیں کی تھی۔ کوئی جرأت کرتا بھی تو کیوں کرتا۔ اندر جانے کی کسی کو کبھی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ صحرا کے مسافروں کی ضرورت صرف پانی ہوا کرتی تھی۔ ایسے خشک پہاڑوں اور چٹانوں کے اندر جو دن کے وقت دور سے شعلوں کی طرح نظر آتے تھے، پانی کا ذرا سا دھوکہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔
یہ جگہ کسی راستے میں بھی نہیں پڑتی تھی، میلوں دور سے نظر آنے لگتی تھی۔ لوگ اس کے متعلق کچھ ڈرائونی سی کہانیاں سنایا کرتے تھے جن میں ایک یہ تھی کہ یہ شیطان بدروحوں کا مسکن ہے۔ خدا نے جب آسمان سے شیطان کو دھتکارا تھا تو شیطان یہیں اترا تھا۔ اس علاقے کی چونکہ فوجی اہمیت بھی نہیں تھی، اس لیے فوجوں نے بھی کبھی اس کے اندر جانے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ ایسے علاقے کے اندر ریت، موت اور صحرائی درندوں کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا تھا۔ اس کے ہولناک خطے کی تاریخ میں غالباً یہ پہلے تین انسان تھے جو اس کے اندر چلے گئے تھے۔ انہیں وہیں جانا تھا کیونکہ ہزاروں سال پرانا نقشہ اسی جگہ کی نشاندہی کررہا تھا۔ صرف ایک لکیر شک پیدا کرتی تھی۔ یہ ایک ندی کی لکیر تھی مگر وہاں کوئی ندی نہیں تھی۔ اس جگہ اب ایک بڑا ہی لمبا نشیب نظر آتا تھا جس کی چوڑائی بارہ چودہ گز تھی۔ اس کے اندر کی ریت کی شکل وصورت بتاتی تھی کہ صدیوں پہلے یہاں سے پانی گزرتا رہا ہے۔ اسی نشیب نے جو قریب ہی کہیں ختم ہونے کے بجائے دریائے نیل کی طرف چلا گیا تھا، شتر سواروں کو یقین دلایا تھا کہ وہ جس جگہ کی تلاش میں ہیں، وہ یہی ہے۔
ان سواروں میں ایک مارکونی اطالوی تھا اور دو اس کے ساتھی تھے، تینوں صلیبی تھے۔ انہیں سلطان ایوبی کے ایک کمانڈر احمر درویش نے فرعون ریمینس دوم کے مدفن کی تلاش کے لیے بھیجا تھا۔ نقشے کے مطابق وہ صحیح جگہ پر آگئے تھے۔ اب اندر جاکر یہ دیکھنا تھا کہ یہ جگہ کس حد تک صحیح ہے۔ مارکونی نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ اپنے آپ کو خدا سمجھنے والے فرعون اپنی آخری آرام گاہ ایسے جہنم میں بنانے کی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ احمر اور ہرمن نے ہمیں ایک بے کار آزمائش میں ڈ ال دیا ہے۔ اس کے ساتھیوں نے اسے اپنا کمانڈر سمجھتے ہوئے کوئی مشورہ نہ دیا۔ وہ حکم کے پابند تھے۔ مارکونی سخت جان صلیبی تھا۔ ہمت ہارنے کا قائل نہ تھا۔ وہ آگے آگے چلتا رہا۔ وہ جوں جوں اندر جارہے تھے، چٹانوں کی شکلیں بدلتی جارہی تھیں۔ ان کا رنگ گہرا بادامی بھی تھا، کہیں بھی اور کہیں کہیں ان کا رنگ مٹیالال بھی تھا۔ ان میں ریتلی سلوں کی چٹانیں تھیں اور مٹی کے سیدھے کھڑے ٹیلے بھی۔ ڈھلانوں سے ریت بہتی نظر آتی تھی۔
: بہت آگے جاکر یہ وادی بند ہوگئی۔ مارکونی نے دائیں طرف دیکھا، ایک ٹیلا درمیان سے اس طرف پھٹا ہوا تھا جیسے زلزلے نے دیوار میں شگاف کردیا ہو۔ شگاف میں سے جھانکا، یہ ایک گلی تھی جو دور تک چلی گئی تھی۔ اونٹ کا گزرنا مشکل نظر آتا تھا۔ مارکونی نے اپنا اونٹ شگاف کی گلی میں داخل کردیا۔ اس کے گھٹنے دونوں طرف ٹیلوں کی دیواروں سے لگتے تھے۔ اس نے ٹانگیں سمیٹ کر اونٹ کی کوہان پر رکھ دیں۔ پچھلے سواروں نے بھی ایسا ہی کیا۔ اونٹوں کے پہلو دائیں بائیں لگتے تھے تو مٹی نیچے گرتی تھی۔ ٹیلا دو حصوں میں کٹ کر دور تک چلا گیا تھا۔ اونٹوں کے ہچکولوں سے یوں لگتا تھا جیسے ٹیلے کے دونوں حصے مل رہے ہوں اور دونوں مل کر اونٹوں کو سواروں سمیت پیس ڈالیں گے۔ آگے جاکر اوپر دیکھا تو دور اوپر ٹیلے کے دونوں حصوں کی چوٹیاں آپس میں مل گئی تھیں۔ آگے اندھیرا سا تھا لیکن دور آگے روشنی سی نظر آتی تھی جس سے امید بندھ گئی کہ وہ گلی وہاں ختم ہوجائے گی اور آگے جگہ فراخ ہے۔
گلی وہاں ختم ہوجائے گی اور آگے جگہ فراخ ہے۔
گلی نے اب سرنگ کی صورت اختیار کرلی تھی جس میں اونٹوں کے پائوں کی آوازیں ڈرائونی سے گونج پیدا کرتی تھیں۔ مارکونی بڑھتا گیا۔ وہاں یہی ایک راستہ تھا اس لیے غلطی کا امکان کم تھا۔ سامنے روشنی کا جو دھبہ تھا، وہ پھیل رہا تھا، سرنگ ختم ہورہی تھی… اور جب وہ سرنگ کے دہانے پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ اونٹ سواروں سمیت نہیں گزر سکیں گے۔ سوار اونٹوں کی گردنوں پر آکر نیچے اتر کیونکہ پہلوئوں سے نہیں اترا جاسکتا تھا۔ اونٹوں کو بڑی مشکل سے باہر نکالا گیا۔ آگے دیکھا تو چاروں طرف کسی پرانے قلعے کی بڑی ہی بلند دیواریں نظر آئیں مگر یہ قلعہ قدرتی تھا۔ پہاڑیوں کی شکل ایسی تھی کہ تین چار سو گز تک ڈھلان تھی اور وہاں سے پہاڑیاں سیدھی اوپر کو اٹھ گئی تھیں، بعض اونچی تھیں، بعض کم بلند۔ معلوم ہوتا تھا جیسے ہر جگہ ہر طرف سے بند ہو۔ گھوم پھر کر دیکھا تو ایک پہاڑی کے ساتھ اتنی جگہ تھی جس پر پیدل چلا جاسکتا تھا۔
مارکونی نے اونٹوں کو بٹھا دیا اور پیدل چل پڑے۔ پہاڑی گولائی میں ہوگئی تھی۔ پائوں جما کر رکھنا پڑتا تھا کیونکہ ریت اور مٹی تھی جس سے پائوں ڈھلان کی طرف ہوکر گرا سکتا تھا۔ یہ دراصل کوئی باقاعدہ راستہ نہیں تھا۔ چلنے کی صرف جگہ تھی۔ زمین اور ٹیلے بتا رہے تھے کہ صدیوں سے یہاں کسی انسان نے قدم نہیں رکھا۔ یہ چلنے کی جگہ یا راہ آگے گئی تو مارکونی اور اس کے ساتھیوں کے دل اچھل کر حلق تک آگئے۔ ڈھلان سخت ہوگئی تھی اور نیچے جا کر کسی بڑی ہی اونچی دیوار کی منڈیر بن گئی تھی۔ دائیں طرف پہاڑی تھی جس کے پہلو میں وہ قدم جما جما کر چل رہے تھے مگر بائیں طرف زمین دور نیچے چلی گئی تھی۔ یہ ایک وسیع اور بہت ہی گہری کھائی تھی۔ وہاں سے گرنے کا نتیجہ صرف موت تھا۔ کھائی کے دوسرے کناروں پر اسی طرح کے پہاڑ تھے جس کے ساتھ ساتھ وہ چل رہے تھے۔
ایسے خطرناک مقام پر آکر مارکونی کے ایک ساتھی نے اس سے پوچھا… ''کیا تمہیں یقین ہے کریمینس فرعون کا جنازہ اس جگہ سے گزارا گیا ہوگا؟''
''احمر درویش نے یہی راستہ بتایا ہے''… مارکونی نے کہا… ''جہاں تک میں نقشے کو سمجھ سکا ہوں، ہمارے گزرنے کا یہی راستہ ہے۔ ریمینس کا تابوت کسی اور طرف سے گزارا گیا تھا۔ ہمیں وہ راستہ معلوم کرنا ہے۔ وہ کوئی خفیہ راستہ تھا جو صدیوں کی آندھیوں اور زمین کی تبدیلیوں نے بند کردیا ہوگا۔ اگر وہ راستہ مل گیا تو ہم مدفن تک پہنچ جائیں گے''۔
''اگر زندہ رہے تو!''۔
''میں اس کے متعلق یقین تو نہیں دلا سکتا''… مارکونی نے کہا… ''یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ مدفن مل گیا تو تم دونوں کو مالا مال کردوں گا''۔
راستہ چوڑا ہوگیا اور کھائی ختم ہوگئی۔ اب وہ دو ایسی پہاڑیوں کے درمیان جارہے تھے جن کے دامن ملے ہوئے تھے مگر کچھ ہی دور آگے پہاڑیاں مل گئی تھیں۔ وہ وہاں تک پہنچے تو انہیں بائیں طرف اوپر چڑھنا پڑا۔ کوئی ایک سو گز اور گوپر جاکر انہیں ایک گلی سی نظر آئی جو نیچے کو جارہی تھی۔ وہاں سے اردگرد دیکھا تو دور دور تک پہاڑیوں کے ستون اوپر کو گئے ہوئے تھے۔ منظر ہیبت ناک تھا۔ وہ نیچے اترتے گئے۔ یہ گلی کئی ایک موڑ مڑ کر انہیں ایک فراخ جگہ لے گئی جو گولائی میں تھی۔ یہاں کی گرمی ناقابل برداشت تھی۔ چوٹیوں کے قریب پہاڑیوں میں چمک سی تھی۔ وہاں کی مٹی میں کسی دھات کی آمیزش تھی۔ اس کی تپش سے گرمی زیادہ تھی۔ ہر طرف پہاڑیاں تھیں، سوائے چند گز جگہ کے۔ وہاں گئے تو خوف سے تینوں پیچھے ہٹ گئے۔ وہ بہت گہرا نشیب تھا۔ وسعت بھی زیادہ تھی۔ اس کی تہہ پر ریت چمک رہی تھی اور سورج کی تپش اتنی زیادہ تھی کہ ریت سے دھواں سا اٹھتا اور لرزتا نظر آتا تھا۔ اس سے اس کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا تھا۔
: اس اتنے گہرے نشیب کے آمنے سامنے کے کناروں کو ایک قدرتی دیوار ملاتی تھی۔ یہ نیچے سے اوپر تک تھی۔ یہ دراصل مٹی اور ریت کا دیوار نما ٹیلا تھا جو نیچے سے بھی اتنا ہی چوڑا تھا جتنا اوپر سے۔ اس کی چوڑائی ایک گز سے کم تھی۔ کہیں سے گولائی میں تھی جس پر چلنا خطرناک تھا۔ اگر مارکونی کو پار جانا ہی تھا تو یہی ایک راستہ تھا جو پل صراط کی مانند تھا۔ اس کی لمبائی پچاس گز سے زیادہ ہی تھی۔ مارکونی کے ایک ساتھی نے اسے کہا… ''میرا خیال ہے اس دیوار پر چلنے کے بجائے تم خودکشی کا کوئی بہتر طریقہ اختیار کروگے''۔
''خزانے راستے میں پڑے نہیں ملا کرتے''… مارکونی نے کہا… ''ہمیں اس راستے سے پار جانا ہے''۔
''اور پھسل کر نیچے جہنم کی آگ میں گرنا ہے''… دوسرے ساتھی نے کہا۔
''کیا ہم نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف نہیں اٹھایا کہ صلیب کی عظمت اور اسلام کی بیخ کے لیے جانیں قربان کردیں گے؟''… مارکونی نے کہا… ''کیا میدان جنگ میں ہمارے ساتھی صلیب پر جانیں قربان نہیں کررہے؟ میں بزدلوں کی طرح یہیں سے واپس ہوکر احمر درویش کو یقین دلا سکتا ہوں کہ اتنی صدیاں گزر جانے کے بعد اب تمام راستے بند ہوچکے ہیں، جہاں ندی تھی، وہاں چٹانیں ہیں اور جہاں نقشہ چٹانیں دکھاتا ہے وہاں کچھ بھی نہیں ہے مگر میں بزدل نہیں بنوں گا،جھوٹ نہیں بولوں گا۔ میرے دل پر خوف طاری ہوچکا ہے۔ میں اس کے خلاف لڑ رہا ہوں، میرے خوف میں اضافہ نہ کرو دوستو! اگر تم میرا ساتھ نہیں دو گے تو صلیب سے دھوکہ کرو گے اور اس کی سزا بڑی اذیت ناک ہوگی۔ میں تمہارے آگے آگے چلتا ہوں، جہاں پھسلنے کا خطرہ محسوس کرو وہاں اس طرح بیٹھ جانا جس طرح گھوڑے پر بیٹھتے ہیں۔ پھر آگے سرکتے رہنا''۔
٭ ٭ ٭
یہ مطالبہ کہ وہ ایک رقاصہ کو اپنے ساتھ رکھے گا، کوئی عجیب یا غیرمعمولی مطالبہ نہ تھا۔ البتہ قدومی کو اپنے ساتھ لے جانا کچھ عجیب سا تھا۔ قدومی ایک جواں سال رقاصہ تھی جو صرف امراء اور دولت مند افراد کے ہاں جاتی تھی۔ وہ سوڈان کی رہنے والی تھی اور مسلمان تھی۔ وہ خوبصورت تو تھی ہی مگر اس کے نازو ادا میں جو جادو تھا، اس نے بڑے بڑے لوگوں کے دماغ خراب کررکھے تھے۔ سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا کہ قدومی مارکونی کے ساتھ صحرا میں چلی جائے گی۔ مارکونی اس کے بغیر جانے پر راضی نہیں ہورہا تھا۔ احمر درویش کو آخر یہ وعدہ کرنا پڑا کہ وہ قدومی کو اس کے ساتھ بھیج دے گا۔
اسی روز پچاس آدمیوں کی تلاش شروع ہوگئی۔ قاہرہ میں صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کی کمی نہیں تھی۔ مارکونی زیادہ تر آدمی انہی میں سے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ اس کے اعتماد کے آدمی تھے۔ احمر بھی اسی گروہ کے آدمیوں کا انتخاب کرنا چاہتا تھا۔ سلطان ایوبی کے اس جرنیل نے اپنا ایک تخریب کار گروہ تیار کررکھا تھا۔ یہ سب مسلمان تھے۔ ان کے اغراض ومقاصد صلیبیوں والے تھے۔ احمر درویش نے اپنا ایمان نیلام کرکے ان چند ایک مسلمانوں کو بھی ایمان فروش بنا دیا تھا۔ یہ سب صلاح الدین ایوبی کے دشمن بن گئے تھے اور ان کا اٹھنا بیٹھنا حسن بن صباح کے فدائیوں کے ساتھ شروع ہوگیا تھا۔
قدومی کے پاس مارکونی خود احمر درویش کا پیغام لے کر گیا۔ احمر معمولی حیثیت کا آدمی نہیں تھا، وہ فوجی حاکم تھا اور مصر پر عملاً فوج کی حکومت تھی۔ ویسے بھی قدومی احمر کے زیراثر تھی۔ اس نے بادل نخواستہ ہاں کردی لیکن مارکونی نے اسے یہ بتا کر کہ وہ فرعون کے مدفن میں سے ہیرے جواہرات نکالنے جارہا ہے، قدومی پر ایسا نشہ طاری کردیا کہ وہ فوراً روانہ ہونے کو تیار ہوگئی۔ مارکونی منجھا ہوا چالاک اور ہوشیار آدمی تھا۔ اس نے قدومی کو ملکہ قلوپطرہ بنا دیا۔ قدومی ایک رقاصہ تھی جس کے کوئی جذبات نہیں تھے۔ اسے اپنے جسم، اپنے حسن، اپنے فن اور زروجواہرات سے پیار تھا۔ وہ ان عورتوں میں سے تھی جو اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتی ہیں کہ ان کے حسن وجوانی کو کبھی زوال نہیں آئے گا۔ مارکونی نے اسے یہ نہیں بتایا تھا کہ فرعون کے مدفن سے برآمد ہونے والا خزانہ کہاں اور کیوں صرف کیا جائے گا۔
پچاس آدمیوں کی تلاش میں پندرہ بیس دن لگ گئے۔ ان میں زیادہ تعداد صلیبی تخریب کاروں کی تھی۔ باقی مسلمان تھے۔ وہ بھی صلیبیوں کے ہی تخریب کار تھے۔ سب اونٹوں پر سوار ہوکر قاہرہ سے نکل گئے تھے لیکن وہ اکٹھے روانہ نہ ہوئے۔ تین تین چار چار کی ٹولیوں میں مسافروں اور تاجروں کے روپ میں نکلے۔ قدومی کو ایک پردہ دار بیوی کے بہروپ میں لے جایا گیا۔ مارکونی اس کا خاوند بنا، ان دونوں کے ساتھ دو آدمی تھے۔ ایک صلیبی تھا اور دوسرا مسلمان جس کا نام اسماعیل تھا۔ یہ احمر کے خاص آدمیوں میں سے تھا۔ اپنی ضرورت پر اور کرائے پر بھی ہر جرم کر گزرتا تھا۔ کرائے کے قاتلوں میں سے بھی تھا۔ معاشرے میں اس کی کوئی حیثیت اور عزت نہیں تھی لیکن حیثیت والے
: لوگ اسے سلام کرتے تھے۔ مارکونی بھی اسے اچھی طرح جانتا تھا اور اس مہم میں اسے قابل اعتماد سمجھتا تھا۔ یہ سب الگ الگ راستوں سے روانہ ہوئے تھے۔ انہیں اٹھارہ کوس دور وہ جگہ بتا دی گئی تھی جہاں انہیں اکٹھا ہونا تھا۔ ان کے پاس تیروکمان اور تلواریں تھیں۔
رسے اور کھدائی کا سامان تھا۔
سب سے پہلے مارکونی، اسماعیل، قدومی اور ان کا ایک صلیبی ساتھی وہاں پہنچے تھے۔ مارکونی انہیں اس پہاڑی علاقے کے اندر لے گیا تھا۔ سورج غروب ہوچکا تھا اور انہوں نے خیمے لگا لیے تھے۔ اسی رات ان کے ساتھیوں کو پہنچ جانا تھا۔ اسماعیل قدومی کو جانتا تھا۔ قدومی اس سے واقف نہیں
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں