داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 48 - اردو ناول

Breaking

اتوار, جولائی 07, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 48



صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ

داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔48۔ وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جس وقت وہ معجزے دکھا رہا تھا اس وقت دو آدمی ٹیلے کے پیچھے اس جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگ خیمے نصب تھے۔ کسی خیمے میں سے لڑکیوں کی باتیں اور ہنسی سنائی دے رہی تھی۔ یہ دو آدمی امام اور محمود بن احمد تھے۔ محمود کو یقین تھا کہ سعدیہ یہیں کہیں ہے۔ محمود میں اتنی مذہبی سوجھ بوجھ نہیں تھی۔ وہ خدا کے اس ایلچی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں تھا۔ امام نے کہا تھا کہ کوئی انسان مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرسکتا۔ اس نے توجہ ہی نہیں دی تھی کہ پراسرار آدمی لوگوں کو کیا کچھ کرکے دکھا رہا ہے۔ اس نے اس سے یہ فائدہ اٹھایا تھا کہ لوگ اس کی کرامات دیکھنے میں مگن ہیں اس لیے پیچھے جا کر یہ دیکھا جائے کہ اس میں راز کیا ہے۔ اس کی توجہ صرف سعدیہ پر تھی۔ محمود صرف سعدیہ کو ڈھونڈ رہا تھا۔ خیموں کی جگہ اندھیرا تھا۔ صرف تین خیموں میں روشنی تھی۔ تینوں کے پردے دونوں طرف سے بند تھے۔ وہاں پہرے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا۔ دوتین مرد کہیں باتیں کررہے تھے۔ یہ خطرہ صاف نظر آرہا تھا کہ وہ دونوں کسی کو نظر آگئے تو وہ زندہ نہیں رہیں گے۔ ٹیلے کی دوسری طرف سے ''اس'' کی آواز سنائی دے رہی تھی اور سازوں کا ترنم بھی سنائی دے رہا تھا لیکن یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ سازندے کہاں ہیں۔
امام اور محمود نے روشنی والے ایک خیمے کے قریب جاکر لڑکیوں کی باتیں سننے کی کوشش کی۔ ان کی باتوں نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا۔ ایک نسوانی آواز کہہ رہی تھی… ''یہاں بھی تماشہ کامیاب رہا ہے''… ایک اور لڑکی نے کہا… ''بڑی ہی جاہل قوم ہے''۔
''مسلمان کو تباہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے شعبدے دکھا کر تو ہم پرست بنا دو''… یہ ایک اور عورت کی آواز تھی۔
''معلوم نہیں وہ کس حال میں ہے؟''
''نئی چڑیا!''… ایک لڑکی نے کہا… ''تم سب کو ماننا پڑے گا کہ وہ ہم سب سے زیادہ خوبصورت ہے''۔
''وہ آج دن کو بھی روتی رہی تھی''۔ کسی لڑکی نے کہا۔
''آج رات اس کا رونا بند ہوجائے گا''… ایک لڑکی نے کہا… ''اسے خدا کے بیٹے کے لیے تیار کیا جارہا ہے''۔
لڑکیوں کا قہقہہ سنائی دیا۔ ایک نے کہا… ''خدا بھی کیا یاد کرے گا کہ ہم نے اسے کیسا بیٹا دیا ہے۔ کمال انسان ہے''۔
اس کے بعد لڑکیوں نے آپس میں فحش باتیں شروع کردیں۔ امام اور محمود سمجھ گئے کہ نئی چڑیا سعدیہ ہی ہوسکتی ہے۔ انہیں بہرحال یقین ہوگیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے اور یہ دھونگ پسماندہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے رچایا جارہا ہے۔ امام نے محمود کے کان میں کہا…''ان لڑکیوں کی عریاں باتیں اور شراب کی بو بتا رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا ہورہا ہے… ہم ویسے ہی نہیں بھٹک رہے''۔
وہ دونوں بڑے خیمے کے قریب چلے گئے۔ یہ خیمہ ایک ٹیلے کے ساتھ تھا اور یہ ٹیلا تقریباً عمودی تھا۔ ٹیلے اور خیمے کے پچھلے دروازے کے درمیان ایک آدھ گز فاصلہ تھا۔ انہوں نے اس جگہ جا کر دیکھا۔ خیمے کے پردے درمیان سے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے۔ ایک آنکھ سے اندر جھانکنے کی جگہ تھی۔ انہوں نے جھانکا تو ان کے شکوک رفع ہوگئے۔ اندر ایک لمبی مسند تھی جس پر خوش نما مسند پوش بچھا ہوا تھا۔ فرش پر قالین بچھا تھا اور دو قندیلیں جل رہی تھیں۔ ایک طرف شراب کی صراحی اور پیالے رکھے تھے۔ اندر کی سجاوٹ اور شانوشوکت سے پتا چلتا تھا کہ اس مشتبہ قافلے کے سردار کا خیمہ ہے۔ سعدیہ کے پاس ایک عورت اور ایک مرد تھا۔ سعدیہ کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا۔
''آج سارا دن تم روتی رہی ہو''… عورت اسے کہہ رہی تھی… ''تھوڑی دیر بعد تم ہنسو گی اور اپنے آپ کو پہچان بھی نہیں سکو گی۔ تم خوش نصیب ہو کہ اس نے جو خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہے، تمہیں پسند کیا ہے۔ وہ صرف تمہارے لیے یہاں آیا ہے۔ اس نے تمہیں بیس روز کی مسافت جتنی دور سے غیب کی آنکھ سے دیکھا تھا۔ تمہارے گائوں میں اسے خدا لایا ہے اگر یہ نہ آتا تو تم کسی صحرائی گڈرئیے کے ساتھ بیاہ دی جاتیں یا تمہیں بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا''۔
سعدیہ پر ان باتوں کا جادو سوار ہوتا جارہا تھا۔ وہ خاموشی سے سن رہی تھی۔ محمود جوش میں آچلا تھا۔ امام نے اسے روک لیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سعدیہ کو کس کے لیے تیار کیا جارہا ہے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ٹیلے کی دوسری طرف سے کسی نے اعلان کیا… ''وہ جو خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور جس کے ہاتھ میں ہم سب کی زندگی اور موت ہے اور جس کی آنکھ غیب کے بھید دیکھ سکتی ہے، تاریک رات میں آسمان پر جارہا ہے جس کے ستارے خدا کی آنکھ کی طرح روشن ہیں۔ تم میں سے کوئی آدمی اس طرف نہ دیکھے جہاں خیمے لگے ہوئے ہیں۔ ٹیلوں کے اوپر کوئی نہ جائے جس کسی نے اس طرف جانے یا دیکھنے کی کوشش کی : وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہوجائے گا۔ کل رات وہ تم سب کی مرادیں سنے گا''۔
امام اور محمود وہیں کھڑے رہے۔ خیمے کے اندر جو مرد عورت تھے، انہوں نے سعدیہ کو ایک بار پھر نصیحت کی کہ وہ آرہا ہے اس کے سامنے کوئی بدتمیزی نہ کرنا… وہ آگیا۔ وہ سامنے کی طرف سے خیمے میں داخل ہوا۔ امام اور محمود یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ''اس'' کے سینے میں چارتیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے۔ سعدیہ نے تیر اور خنجر دیکھے تو اس نے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے۔ اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی۔ مقدس انسان مسکرایا اور بولا… ''ڈر مت لڑکی! یہ معجزہ مجھے خدا نے دیا ہے کہ میں تیروں اور خنجروں سے مر نہیں سکتا''… وہ سعدیہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا۔
''میں نے یہ شعبدہ ایک بار قاہرہ میں دیکھا تھا''۔ امام نے محمود کے کان میں کہا… ''تم بھی ڈر نہ جانا میں جانتا ہوں تیر اور خنجر کہاں پھنسے ہوئے ہیں''۔
''وہ'' اٹھا اور خیمے کا پردہ رسیوں سے باندھ دیا۔ ادھر محمود اور امام نے اپنی طرف سے خیمے کا پردہ کھول دیا۔ انہوں نے نتائج کی پروا نہ کی۔ دبے پائوں اندر گئے جونہی وہ شخص مڑا وہ امام اور محمود کے شکنجے میں آچکا تھا۔ محمود نے دبی آواز میں سعدیہ سے کہا… ''جس پر تم بیٹھی ہو اس کا کپڑا اس کے اوپر ڈال دو''۔ سعدیہ تو جیسے سن ہوگئی تھی۔ اس نے مسند پوش اتار کر اس آدمی پر ڈال دیا۔ اس کا جسم طاقتور نظر آتا تھا مگر امام اور محمود نے اسے بری طرح جکڑ لیا تھا پھر اس کے اوپر کپڑا ڈال کر باندھ دیا۔ قندیلیں بجھا دی گئیں۔ امام کے کہنے پر پہلے سعدیہ باہر نکلی۔ اپنے قیدی کو محمود نے اپنے کندھوں پر پھینک لیا۔ امام ہاتھ میں خنجر لیے آگے آگے چلا۔ وہ سب جس طرف سے خیمے میں داخل ہوئے تھے اسی طرف سے باہر نکل گئے۔ پکڑے جانے کا خطرہ ہر قدم پر تھا لیکن انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو انہیں فوراً خطرے سے باہر لے گیا۔ اندھیرے نے اس کی بہت مدد کی۔
٭ ٭ ٭
انہیں دور کا چکر کاٹ کر گائوں میں داخل ہونا پڑا۔ وہ مسجد میں چلے گئے۔ حجرے میں لے جا کر شعبدہ باز کو کھولا گیا۔ ابھی تک تیر اور خنجر اس کے سینے میں اترے ہوئے تھے۔ اسے اٹھانے کی وجہ سے وہ ٹیڑے ہوگئے تھے۔ سعدیہ کو بھی انہوں نے حجرے میں ہی رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ لڑکی کی گمشدگی کا پتا چل گیا تو وہ لوگ اس کے باپ پر حملہ کرے گے۔ دراصل حملہ کرنے والے اب یہ دیکھنے کی حالت میں بھی نہیں تھے کہ ان کے ''خدا'' کا بیٹا کہاں ہے۔ وہ کامیاب جشن منا کر شراب اور بدکاری میں بدمست ہوگئے تھے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا آقا مع نئی چڑیا کے اغوا بھی ہوسکتا ہے۔
امام اور محمود نے اسے چغہ اتارنے کو کہا۔ اس نے پہلے تیر اور خنجر کھینچ کر نکالے۔ چغہ اتارا پھر اس سے اندر والے کپڑے بھی اتروا لیے گئے۔ ان کپڑوں میں کارک کی طرح نرم لکڑی چھپی ہوئی تھی جس پر چمڑہ لگا ہوا تھا۔ یہ لکڑی کچھ دوہری ہوجاتی تھی اور اتنی لمبی چوڑی تھی جس سے اس کا سینہ ڈھک جاتا تھا۔ تیر اور خنجر اس میں اترے ہوئے تھے۔ اس نے امام اور محمود سے کہا… ''اپنی قیمت بتائو۔ سونے کی صورت میں گھوڑوں اور اونٹوں کی صورت میں، ابھی ادا کروں گا۔ مھے ابھی آزاد کردو''۔
''تم اب آزاد نہیں ہوسکو گے''۔ امام نے کہا… ''ہم بھی لوگوں کی طرح تمہارے انتظار میں بیٹھے تھے''۔ امام نے محمود سے کہا… ''تمہیں معلوم ہوگا کہ قریبی چوکی کہاں ہے، وہاں کے پورے دستے کو ساتھ لے آئو''… اس نے چوکی کا فاصلہ اور سمت بتائی اور وہ خفیہ الفاظ بھی بتائے جن سے امام سراغ رساں اور جاسوس کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ اپنے دو جاسوسوں کے نام اور ٹھکانہ بتا کر محمود سے کہا… ''انہیں میرے پاس بھیجتے جانا''۔
محمود نے امام کے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہوکر نکل گیا۔ اسے امام کے دونوں جاسوس مل گئے۔ انہیں مسجد میں جانے کو کہہ کر وہ چوکی کی سمت روانہ ہوگیا۔ گائوں سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی۔ کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی مگر وہ شش وپنج میں مبتلا تھا۔ وہ اس چوکی کے کمانڈر کو جانتا تھا۔ وہ لاپروا آدمی تھا۔ صلیبیوں اور سوڈانیوں نے اسے رشوت دے دے کر اپنے ساتھ ملا رکھا تھا۔ محمود نے قاہرہ کو اس کی رپورٹ بھیج دی تھی مگر ابھی تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ محمود کویہی نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے دستے کو اس کے ساتھ نہیں بھیجے گا یا وقت ضائع کرے گا تا کہ دشمن نکل جائے۔ محمود سوچ رہا تھا کہ اگر چوکی سے اسے دستہ نہ ملا تو وہ کیا کرے گا۔ صبح سے پہلے دستے کو گائوں میں پہنچنا ضروری تھا۔ دستہ نہ ملنے کی صورت میں امام اور ان کے جاسوسوں کی جانیں خطرے میں آسکتی تھیں کیونکہ اس شعبدہ باز کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے۔ اس کے مریدوں کا ہجوم بھی اسی کا حامی تھا۔
امام کے پاس خنجر تھا۔ اس کے جاسوس بھی اس کے پاس آگئے تھے۔ وہ بھی خنجروں سے مسلح تھے۔ انہوں نے شعبدہ باز کو گرفتار کیے رکھا۔  وہ رہائی کی اتنی زیادہ قیمت پیش کررہا تھا جو امام اور اس کے جاسوس خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے۔ امام نے اسے کہا… ''میں مسجد میں بیٹھا ہوں، یہ اسی خدا کا گھر ہے جس نے تمہیں سچا دین دے کر زمین پر اتارا ہے۔ کیا یہ ہے تمہارا سچا دین؟… دیکھو دوست! میں قاہرہ کی حکومت کا اہلکار ہوں، میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا اور میں ایمان بھی نہیں بیچ سکتا''۔
محمود بن احمد چوکی کے خیموں میں داخل ہوا تو کمانڈر کے خیمے میں اس نے روشنی دیکھی۔ گھوڑے کے قدموں کی آواز سن کر کمانڈر باہر آگیاہ محمود نے اپنا تعارف کرایا اور کمانڈر کے ساتھ خیمے میں چلا گیا۔ محمود کے لیے یہ کمانڈر اجنبی تھا۔ اسے کمانڈر نے بتایا کہ گزشتہ شام پرانے دستے کو یہاں سے بھیج دیا گیا ہے یہ دستہ نیا آیا ہے۔ یہ تبدیلی صلاح الدین ایوبی کے ساتھ محاذ سے آئی تھی۔ محمود نے کمانڈر کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے بہت بڑا شکار پکڑا ہے اور اس کے تمام گروہ کو پکڑنے کے لیے چوکی کے پورے دستے کی فوری طور پر ضرورت ہے، تاکہ ان لوگوں کو رات ہی رات میں گھیرے میں لے لیا جائے۔
کمانڈر نے فوراً پورے دستے کو جس کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی، گھوڑوں پر سوار ہونے کا حکم دیا۔ ان کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں اور ان میں تیرانداز بھی تھے۔ آٹھ دس سپاہیوں کو چوکی پر چھوڑ دیا گیا۔ یہ دستہ کرک کے محاصرے سے آیا تھا۔ جذبہ قائم تھا۔ کمانڈر نے سرپٹ گھوڑے دوڑا دئیے۔ مجرم خبر ہونے کی حالت میں نہیں تھے۔ شراب اور نیند نے انہیں بے ہوش کررکھا تھا۔ کمانڈر نے محمود کی رہنمائی میں گھیرا مکمل کرلیا اور کارروائی صبح تک ملتوی رہی۔ محمود نے امام کو اطلاع دے دی کہ دستہ آگیا ہے۔ سعدیہ ابھی امام کے حجرے میں ہی تھی۔ امام نے ایک جاسوس بھیج کر سعدیہ کے باپ کو بھی بلا لیا۔
٭ ٭ ٭
جو معتقد، مرید اور زائرین بڑی دور دور سے ''اس'' کی زیارت کو آئے تھے، وہ رات کے معجزے دیکھ کر کھلے آسمان تلے سو گئے تھے۔ ان کے مقدس انسان نے انہیں کہا تھا کہ اگلی رات وہ ان کی مرادیں سنے گا۔ یہ ہجوم صبح اس وقت جاگ اٹھا جب اجالا ابھی دھندلا تھا۔ اس دھندلکے میں انہیں بہت سے گھوڑے نظر آئے۔ ان پر سوار جو تھے وہ فوجی تھے۔ لوگ کچھ سمجھ نہ سکے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ جو مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، وہ مسجد کے حجرے میں ہاتھ پائوں بندھے بیٹھا ہے۔ وہ اب مسلمانوں کے سچے خدا کی گرفت میں آچکا تھا۔ دستے کا کمانڈر دمشق کار رہنے والا رشد بن مسلم جس کا عہدہ معمولی تھا لیکن سرحد پر آکر اس نے اپنے دستے سے کہا تھا… ''ساری سلطنت صرف تمہارے بھروسے پر سوتی ہے۔ صلاح الدین ایوبی ہر وقت تمہارے ساتھ ہے۔ اگر وہ تمہیں نظر نہیں آتا تو اسے میری آنکھوں میں دیکھ لو۔ ہم سب سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں مگر کسی نے یہاں پرانے دستے کے آدمیوں کی طرح ایمان فروخت کیا تو میں اس کے پائوں باندھ کر ریگستان میں زندہ پھینک دوں گا۔ میں اس سزا کا حکم قاہرہ سے نہیں لوں گا۔ میں خدا سے حکم لیا کرتا ہوں''۔
رشد بن مسلم نے صبح کے وقت دیکھا کہ خیموں کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی۔ اندر والے اتنی جلدی اٹھنے والے نہیں تھے۔ رشد نے لوگوں سے کہا کہ وہ دور پیچھے ہٹ جائیں اور وہیں موجود رہیں۔ انہیں مقدس انسان قریب سے دکھایا جائے گا۔ لوگوں کو دور ہٹا کر رشد نے تین چار سوار مختلف ٹیلوں کے اوپر کھڑے کردیئے تاکہ مجرموں میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے۔ باقی سواروں کو اس نے گھوڑوں سے اتار کر چاروں طرف سے پیدل اندر جانے کو کہا اور حکم دیا کہ کوئی مزاحمت کرے تو اسے فوراً ہلاک کردو۔ کوئی بھاگے تو اسے تیر مار دو… وہاں بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ رشدنے ننگی تلوار کی نوک چبھو کر تینوں کو جگایا۔ جاگنے کے بجائے انہوں نے جگانے والے کو گالیاں دیں اور کروٹ بدل کر سوئے رہے۔ تلوار کی نوک اب کے ان کی کھال میں اتر گئی۔ تینوں ہڑبڑا کر اٹھے۔ انہیں باہر نکال لیا گیا۔ دوسرے خیموں میں بھی جو لڑکیاں اور مرد ملے وہ اسی حالت میں تھے۔ خیموں میں بے شمار سامان تھا۔ ایک خیمے میں بہت سے ساز پڑے تھے۔
سب کو باہر لے جا کر ان پر پہرہ کھڑا کردیا گیا۔ ان کے اونٹوں اور تمام تر سامان پر قبضہ کرلیا گیا۔ امام رشد بن مسلم کے ساتھ تھا۔ وہ اس آدمی کو اپنے حجرے میں سے لے آیا جو اپنے آپ کو خدا کے بیٹے کا بیٹا کہتا تھا۔ اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے تھے۔ اسے اسی جگہ کھڑا کیا گیا جہاں رات اس نے معجزے دکھائے تھے۔ پیچھے پردے لگے ہوئے تھے۔ اس کے گروہ کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا۔ ان سب کے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے۔ وہ ایک خیمے سے برآمد ہوئے تھے۔ امام نے لوگوں کو آگے آنے کو کہا۔ ہجوم آگے آیا تو امام نے کہا… ''اسے کہو کہ یہ خدا کا ایلچی ہے یا اس کا بیٹا ہے تو اپنے ہاتھ رسیوں سے آزاد کرلے۔ : ہاتھ رسیوں سے آزاد کرلے۔ یہ مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ میں اس کے گروہ کے ایک آدمی کو ہلاک کروں گا۔ تم اسے کہو کے اسے میرے ہاتھ سے چھڑالے یا وہ مرجائے تو اسے زندہ کردے''… امام نے اس کے گروہ کے ایک آدمی کو اٹھایا اور رشد کی تلوار لے کر اس کی طرف بڑھا تو وہ آدمی چلا اٹھا… ''مجھے بخش دو، یہ آدمی مجھے زندہ نہیں کرسکے گا۔ یہ بہت بڑا پاپی ہے۔ خدا کے لیے مجھے قتل نہ کرنا''۔
لوگوں نے یہ تماشا دیکھا مگر ان کے وہم ابھی دور نہیں ہوئے تھے۔ امام اس آدمی کا چغہ اور کپڑے بھی ساتھ لے آیا تھا۔ نرم لکڑی بھی ساتھ تھی۔ امام نے یہ کپڑے پہن لیے۔ کسی کو دکھائے بغیر لکڑی اندر رکھ لی۔ اوپر چغہ پہن لیا۔ اس نے رشد سے کہا کہ اپنے چار تیرانداز میرے سامنے لائو۔ تیر انداز آئے تو اس نے انہیں کہا… ''تیس قدم دور کھڑے ہوکر میرے دل کا نشانہ لو اور تیر چلائو''… تیر اندازوں نے رشد بن مسلم کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ رات کو محمود نے رشد کو تیروں اور خنجروں کے سینے میں اترنے کی حقیقت بتا دی تھی۔ رشد نے اپنے تیراندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیر چلا دیں۔ انہوں نے نشانہ لے کر تیر چلا دئیے۔ چاروں تیر امام کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے۔ امام نے کہا… ''اب آگے آکر میرے سینے پر چار خنجر پوری طاقت سے پھینکو''… خنجر پھینکے گئے جو امام کے سینے میں جاکر اٹک گئے۔
امام نے تیر اندازوں سے کہا۔ ''ایک ایک تیر اور کمانوں میں ڈالو''… اس نے مقدس انسان کو ذرا آگے لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں کہا… ''یہ شخص اپنے آپ کو لافانی کہتا ہے۔ میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ یہ اصل میں کیا ہے''… اس نے تیر اندازوں سے کہا… ''اس کے دل کا نشانہ لے کر تیر چلائو''۔
جونہی کمانیں اوپر اٹھیں، وہ آدمی دوڑ کر امام کے پیچھے ہوگیا۔ وہ موت کے ڈر سے تھرتھر کانپ رہا تھا اور بھکاریوں کی طرح جان کی بخشش مانگ رہا تھا۔ امام نے اسے کہا… ''آگے آئو اور لوگوں کو بتائو کہ تم صلیبیوں کے بھیجے ہوئے تخریب کار ہو اور تم شعبدہ باز ہو''… امام نے تلوار کی نوک اسے کے پہلو سے لگا دی۔
''لوگو!''… اس آدمی نے آگے جاکر بلند آواز سے کہا… ''میں لافانی نہیں ہوں، میں تمہاری طرح انسان ہوں۔ مجھے صلیبیوں نے بھیجا ہے کہ تمہارا ایمان خراب کردوں۔ اس کی مجھے اجرت ملتی ہے''۔
''اور شمعون کی بیٹی سعدیہ کو اسی نے اغوا کرایا تھا''۔ امام نے کہا۔ ''ہم نے لڑکی رہا کرالی ہے''۔
امام نے چغہ اتارا، اندر کے کپڑے اتارے۔ لکڑی الگ کی اور رشد کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ تمام مجمعے میں گھما لائو۔ امام نے لوگوں سے کہا کہ تیر اور خنجر اس لکڑی میں لگتے ہیں… تمام لوگوں نے یہ بھید دیکھ لیا تو انہیں آگے بلا کر کہا گیا کہ ہر جگہ گھومو اور ہر ایک چیز دیکھو۔ لوگ ڈرتے ہوئے ہر جگہ پھیل گئے۔ پردوں کے پیچھے ایک غار بنایا گیا تھا۔ وہاں رات کو سازندے بیٹھ کر ساز بجاتے تھے… لوگ خیموں میں گئے تو وہاں شراب کی بدبو پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ ہر جگہ گھوم پھر چکے تھے تو انہیں ایک جگہ بٹھا کر بتایا گیا کہ یہ سب ڈھونگ کیا تھا۔ امام نے معلوم کرلیا تھا کہ جسے اس نے رات کو زندہ کیا تھا، وہ کون ہے، وہ اسی کے گروہ کا ایک آدمی تھا جو رسیوں میں بندھا ہوا قیدیوں میں بیٹھا تھا۔ اسے لوگوں کے سامنے کھڑا کیا گیا۔ ایک اور آدمی لوگوں کو دکھایا گیا جو رات کو بوڑھے کا بہروپ دھار کر اس آدمی کا باپ بنا تھا۔ چار تیر انداز بھی سامنے آگئے جنہوں نے رات تیر چلائے تھے۔ و ہ بھی اس گروہ کے آدمی تھے۔ غرض تمام تر ڈھونگ لوگوں کو دکھایا گیا۔
''اسلام کے بیٹو! غور سے سنو''۔ امام نے لوگوں سے کہا… ''یہ سب صلیب کے پجاری ہیں اور تمہارا ایمان خراب کرنے آئے ہیں۔ تم جانتے ہو کہ کوئی انسان کسی انسان کو زندہ نہیں کرسکتا۔ خود خدا کسی مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرتا کیونکہ خدائے ذوالجلال اپنے بنائے ہوئے قانون کا پابند ہے۔ اس کی ذات واحدہ لاشریک ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں۔ یہ صلیبی اسلام کی آواز کو دبانے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ یہ باطل کے پجاری تمہارے ایمان اور جذبے سے اور تمہاری تلوار سے ڈرتے ہیں۔ تمہارا مقابلہ میدان میں نہیں کرسکتے اس لیے دلکش طریقے اختیار کرکے تمہارے دلوں میں وہم اور وسوسے ڈال رہے ہیں تاکہ تم اسلام کے تحفظ کے لیے صلیب کے خلاف تلوار نہ اٹھائو۔ اسی مصر میں فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی خدائی کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا۔ اپنی عظمت کو پہچانوں میرے دوستو! اپنے دشمن کو بھی اچھی طرح پہچان لو''۔
لوگ جو سب کے سب مسلمان تھے، مشتعل ہوگئے۔ وہ چونکہ پسماندہ اور علم سے بے بہرہ تھے، اس لیے انتہا پسند تھے۔ انہوں نے گناہ گار انسان کی شعبدہ بازی دیکھ کر اسے ''خدا کا بیٹا'' تسلیم کرلیا اور جب اس کے خلاف باتیں سنیں تو  ایسے مشتعل ہوگئے کہ غیض وغضب سے نعرے لگاتے اس آدمی پر اور اس کے گروہ پر ٹوٹ پڑے۔ امام ان مجرموں کو زندہ قاہرہ لے جانا چاہتا تھا لیکن اتنے بڑے ہجوم سے انہیں زندہ نکالنا ناممکن ہوگیا۔ رشد نے تشدد سے ہجوم پر قابو پانے کا مشورہ دیا جو امام نے تسلیم نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ تمہاری تلواروں سے یہ سیدھے سادے مسلمان کٹ جائیں گے۔ انہیں اپنے ہاتھوں ان لوگوں کو ہلاک کرنے دو تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ جس نے خدا کا ایلچی اور بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے، وہ ایک گناہ گار انسان ہے جسے کوئی بھی انسان قتل کرسکتا ہے۔
امام، رشد بن مسلم اور محمود ایک طرف گئے، رشد نے ایک ٹیلے پر جاکر اپنے سپاہیوں کو للکارا اور کہا…''تم جہاں ہو وہیں رہو، ان لوگوں کو مت روکو''۔
تھوڑی ہی دیر بعد امام، محمود، رشد بن مسلم اور اس کے دستے کے سپاہی رہ گئے۔ تمام ہجوم غائب ہوچکا تھا۔ رات جہاں شعبدے دکھائے گئے تھے، وہاں شعبدہ باز اور اس کے گروہ کی لاشیں پڑی تھیں۔ لڑکیوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔ کوئی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی۔ سب قیمہ ہوچکی تھیں۔ لوگ خیمے، پردے اور تمام تر سامان لوٹ کر لے گئے تھے۔ مجرم گروہ کے اونٹ بھی کھول کر لے گئے اور رشد کے دستے کے نو گھوڑے بھی لاپتہ ہوگئے۔ ان کے سوار پیادہ تھے اور گھوڑوں سے دور تھے۔ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اپنی فوج کے گھوڑے ہیں۔ یوں لگتا تھا جیسے آندھی آئی ہے اور سب کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی ہے۔
''ہمیں اب قاہرہ چلنا پڑے گا''۔ امام نے رشد اور محمود سے کہا… ''یہ واقعہ حکومت کے سامنے رکھنا ہوگا''۔
٭ ٭ ٭
ان چند ہی دنوں میں صلاح الدین ایوبی نے جو احکام نافذ کیے اور جو اقدام کیے، وہ انقلابی تھے۔ اتنے انقلابی کہ اس کے قریبی دوست اور مرید بھی چونک اٹھے۔ اس نے سب سے پہلے ان افسروں کے گھروں پر چھاپے مروائے اور تلاشی لی جو علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کی مشتبہ فہرست میں تھے۔ ان میں دو تین مرکزی کمان کے اعلیٰ حاکم تھے۔ ان کے گھروں پر زروجواہرات، دولت اور بڑی خوبصورت غیرملکی لڑکیاں برآمد ہوئیں۔ بعض کے گھروں میں ایسے ملازم تھے جو سوڈان کے تجربہ کار جاسوس تھے اور بھی کئی ایک ثبوت مل گئے۔ ان سب کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے عہدے اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر غیرمعین مدت کے لیے قید خانے میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے۔ اس اقدام سے اس کی مرکزی کمان اور مجلس مشاورت کی چند ایک اہم آسامیاں خالی ہوگئیں۔ اس نے ذرہ بھر پروا نہ کی۔
سلطان ایوبی نے دوسرا حملہ اس گروہ پر کیا جو اپنے آپ کو مذہب کا اجارہ دار بنائے ہوئے تھا۔ سلطان ایوبی کو مشیروں نے خلوص نیت سے مشورہ دیا کہ مذہب ایک نازک معاملہ ہے۔ لوگ مسجدوں کے اماموں کے مرید ہیں، رائے عامہ خلاف ہوجائے گی۔ سلطان ایوبی نے پوچھا… ''ان میں کتنے ہیں جو مذہب کی روح کو سمجھتے ہیں؟ لوگ ان کے مرید صرف اس لیے بن گئے ہیں کہ ان کی ساری کوششیں اسی پر مرکوز ہیں کہ لوگ ان کے مرید بن جائیں۔ میں جانتا ہوں کہ یہ امام اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے لوگوں کو اصل مذہب سے بے بہرہ رکھتے ہیں۔ قوم کی بہترین درس گاہ مسجد ہے۔ مسجد کی چاردیواری میں بٹھا کر کسی کے کان میں ڈالی ہوئی کوئی بات روح تک اتر جاتی ہے۔ یہ مسجد کے تقدس کا اثر ہے مگر یہاں مسجد کا استعمال غلط ہورہا ہے۔ مسجدوں میں امام پیر اور مرشد بنتے جارہے ہیں۔ اگر میں نے مسجدوں میں باعمل عالم نہ رکھے تو کچھ عرصے بعد لوگ اماموں، پیروں اور مرشدوں کی پرستش کرنے لگیں گے۔ یہ بے علم اور بے عمل عالم اپنے آپ کو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا لیں گے اور اسلام کے زوال کا باعث بنیں گے''۔
سلطان ایوبی نے اپنے ایک مفکر اور باعمل عالم زین الدین علی نجاالواعظ کو مشورے کے لیے بلایا۔ اس عالم نے اپنا جاسوسی کا ایک ذاتی نظام قائم کرکھا تھا ور ایک بار اس نے صلیبیوں کی ایک بڑی ہی خطرناک سازش بے نقاب کرکے بہت سے آدمی گرفتار کرائے تھے۔ وہ مذہب کو اور مذہب میں جو تخریب کاری ہورہی ہے، اسے بہت اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے یہ کہہ کر سلطان ایوبی کا حوصلہ بڑھا دیا کہ اگر آج آپ مذہب کو تخریب کاری سے آزاد نہیں کریں گے تو کل آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ قوم آپ کی رہنمائی اور حکم کو قبول کرنے سے پہلے نام نہاد مذہبی پیشوائوں سے اجازت لیا کرے گی۔ اس وقت تک صلیبی مسلمانوں کے مذہبی نظریات میں توہم پرستی اور رسم ورواج کی ملاوٹ کرچکے ہیں… سلطان ایوبی نے فوری طور پر تحریری حکم نافذ کردیا کہ زین الدین علی بن نجاالواعظ کی زیرنگرانی ملک کی تمام مسجدوں کے اماموں کی علمی اور معاشرتی جانچ پڑتال ہوگی اور نئے امام مقرر کیے جائیں گے۔ نئے اماموں کے تقرر کے لیے سلطان ایوبی نے جو شرائط لکھیں، ان میں امام کا عالم ہونے کے علاوہ فوجی یا سابق فوجی یا عسکری تربیت یافتہ ہونا ضروری قرار دے دیا۔ 
: ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی فلسفۂ جہاد اور عسکری جذبے کو مذہب اور مسجد سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اس نے ملک میں ایسے تمام کھیل تماشے اور تفریح کے ذرائع اور طریقے جرم قرار دے دئیے جن میں جوئے بازی اور تخریبی سکون کا پہلو نکلتا تھا۔ اس کے حکم سے علی بن سفیان کے محکمے نے تفریح گاہوں اور ان کے زیرزمین حصوں پر چھاپے مارے، جہاں سے اٹلی کے مصوروں کی بنائی ہوئی ننگی تصویریں برآمد ہوئیں۔ بہت سے لوگ گرفتار کیے گئے، جنہیں ملک دشمنی اور دشمن کا آلۂ کار بننے کے الزام میں تمام عمر کے لیے تہہ خانوں میں ڈال دیا گیا۔ اس کے بجائے سلطان ایوبی نے تیغ زنی، تیر اندازی ، گھوڑ سواری، بغیر ہتھیار لڑائی، کشتی جسے پنجہ آزمائی کہتے تھے اور ایسے ہی چند ایک کھیلوں کے مقابلوں کا سرکاری انتظام کردیا۔ پہلے مقابلے میں خود گیا اور اول آنے والوں کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے تک انعام میں دئیے۔ اس نے درس گاہوں اور مسجدوں میں تعلیمی مقابلوں کا اہتمام کیا۔
سرحدی دستوں پر اس نے زیادہ توجہ دی تھی۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ شہروں اور دارالحکومت سے دور رہنے والے لوگ نظریاتی تخریب کاری کا شکار جلدی ہوتے ہیں اور وہی سب سے پہلے دشمن کے حملے یا سرحدی جھڑپوں کی زد میں آتے ہیں۔ ان لوگوں کے نظریاتی اور جسمانی تحفظ کے لیے اس نے خصوصی انتظام کیے۔ اس نے سرحدوں پر جو دستے بھیجے تھے، ان کے کمانڈروں کو اس نے خود ہدایات دیں اور بڑے ہی سخت احکام دئیے تھے۔ یہ تمام کمانڈر جذبے اور ذہانت کے لحاظ سے ساری فوج میں منتخب کیے گئے تھے۔ رشد بن مسلم انہی میں سے تھا، جسے محمود کا اشارہ ملا کہ ایک تخریب کار پکڑا ہے تو وہ پورے کا پورا دستہ لے کر اٹھ دوڑا تھا۔ اگر پرانا کمانڈر ہوتا تو اس وقت صلیبیوں یا سوڈانیوں کی دی ہوئی شراب میں بدمست ہوتا اور تخریب کار اپنے سرغنہ کی رہائی کے لیے گائوں میں تباہی پھیلا کر غائب ہوچکے ہوتے۔
اب رشد بن مسلم، محمود بن احمد اور امام جس کا نام یوسف بن آذر تھا۔ اس کے کمرے میں بیٹھے، اس شعبدہ باز کی کہانی سنا رہے تھے، جسے لوگ قتل کرچکے تھے۔ علی بن سفیان بھی موجود تھا۔ اس نے تینوں سے ساری واردات سن لی تھی اور سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا۔ سلطان ایوبی خاموش تھا کہ اتنی خطرناک نظریاتی یلغار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے مگر علی بن سفیان نے کہا… ''صرف یلغار ختم ہوئی ہے، اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے لمبا عرصہ درکارہے۔ مجھے جو تفصیل معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سرحدی دیہات سے ہمیں فوجی بھرتی نہیں مل رہی۔ سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ سوڈانیوں کے دوست بن گئے ہیں۔ وہ امارت مصر کے خلاف ہوگئے ہیں۔ جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے۔ وہ لوگ غلہ اور مویشی ہمیں نہیں دیتے۔ سوڈانیوں کو بخوشی دیتے ہیں۔ مسجدیں ویران ہوگئی ہیں، لوگ توہم پرست ہوکر شعبدہ بازوں پیروں وغیرہ کی پرستش کرنے لگے ہیں۔ ہمیں ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنے صحیح راستے پر لانے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کرنی پڑے گی۔ اگر اس صلیبی شعبدہ باز اور اس کے گروہ کو لوگ قتل نہ کردیتے تو ہم اسے سارے علاقے میں گھماتے پھراتے ''۔
سلطان ایوبی نے اپنے انقلابی احکامات میں سرحدی علاقوں کو خاص طور پر شامل کررکھا تھا۔ اب اس نے اس طرف اور زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے سب سے زیادہ شدید سردردی یہ تھی کہ تقی الدین اور اس کی فوج کو سوڈان سے نکالنا تھا۔ قاہرہ پہنچتے ہی وہ منصوبہ بندی میں مصروف ہوگیا تھا۔ راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا۔ وہ خود سوڈان کے محاذ پر نہیں جاسکتا تھا کیونکہ مصر کے اندرونی حالات اس کی توجہ کے محتاج تھے۔ اس نے قاہرہ میں آکر تقی الدین کو یہ اطلاع دینے کے لیے کہ وہ قاہرہ آگیا ہے، ایک قاصد بھیج دیا تھا۔ قاصد واپس آچکا تھا۔ اس نے بتایا تھا کہ تقی الدین کا جانی نقصان خاصا ہوچکا ہے اور کچھ نفری دشمن کے جھانسے میں آکر یا جنگ کی صورتحال سے گھبرا کر ادھر ادھر بھاگ گئی ہے۔ قاصد نے بتایا کہ تقی الدین اپنی باقی مادہ فوج کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر دشمن اس کے سر پر موجود رہتا ہے۔ تقی الدین کو جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ : جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ اسے اتنی سی مدد کی ضرورت ہے کہ دشمن پر حملے کرنے کے لیے چند دستے مل جائیں تاکہ وہ اپنی فوج کو واپس لاسکے۔
سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تین چار چھاپہ مار دستے اور چند ایک وہ دستے جنہیں جوابی حملہ کرنے اور گھوم پھر کر لڑنے کی خصوصی مشق کرائی گئی تھی، سوڈان بھیج دیئے تھے۔ وہ ہر حملہ دشمن کے عقب میں جاکر کرتے اور دشمن کا نقصان کرکے اور اسے بکھیر کر ادھر ادھر ہوجاتے تھے۔ چھاپہ ماروں نے دشمن کو زیادہ پریشان کیا۔ ان کا مقصد یہی تھا کہ دشمن کو تقی الدین کے تعاقب سے ہٹایا جائے۔ وہ خلاف توقع بہت جلدی کامیاب ہوگئے۔ ان کی اہلیت اور شجاعت کے علاوہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کی فوج تھکی ہوئی تھی اور صحرا بڑا ہی دشوار اور گرم تھا۔ گھوڑے اور اونٹ جواب دے رہے تھے۔
سوڈان کا حملہ بری طرح ناکام ہوا۔ کامیابی صرف یہ ہوئی کہ تقی الدین کو، اس کی مرکزی کمان کے سالاروں وغیرہ اور دستوں کو اور بچی کھچی فوج کو ایسی تباہی سے بچا لیا گیا جو ان کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔ تقی الدین جب مصر کی سرحد میں داخل ہوا تو اسے پتا چلا کہ وہ سوڈان میں آدھی فوج ضائع کرآیا ہے۔
٭ ٭ ٭
ادھر کرک جل رہا تھا، نورالدین زنگی کے کاریگروں نے ضرورت کے مطابق دور مار منجنیقیں بنا لی تھیں، جن سے قلعے کے اندر پتھر کم اور آگ زیادہ پھینکی جارہی تھی۔ صلاح الدین ایوبی اندر کے چند ایک ہدف بتا آیا تھا۔ ان میں رسد کا ذخیرہ بھی تھا۔ آگ کے پہلے گولے قلعے کی اس طرف پھینکے گئے جس طرف سے رسد کا ذخیرہ ذرا قریب تھا۔ خوش قسمتی سے گولے ٹھکانے پر گئے۔ اندر سے شعلے جو اٹھے انہوں نے زنگی کی فوج کا حوصلہ بڑھا دیا۔ مسلمانوں نے دور مار تیروکمان بھی تیار کرلیے تھے۔ انہیں استعمال کرنے کے لیے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی استعمال کیے جارہے تھے لیکن آٹھ دس تیر پھینک کر سپاہی بے ہوحال ہوجاتا تھا۔ زنگی نے ایک اور دلیرانہ کارروائی کی۔ اس نے نہایت دلیر سپاہی چن لیے اور انہیں حکم دیا کہ قلعے کے دروازے پر ٹوٹ پڑیں۔ انہیں دروازہ توڑنے کے موزوں اوزار دئیے گئے۔
جانبازوں کا یہ دستہ دروازے کی طرف دوڑا تو اوپر سے صلیبیوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا۔ کئی جانباز شہید اور زخمی ہوگئے۔ زنگی نے دور مار تیر اندازوں کو وہاں اکٹھا کیا اور عام تیر اندازوں کا بھی ایک ہجوم بلا لیا۔ ان سب کو مختلف زاویوں پر مورچہ بند کرکے دروازے کے اوپر والی دیوار کے حصے پر مسلسل تیر پھینکنے کا حکم دیا۔ حکم کی تعمیل شروع ہوئی تو اتنے تیر برسنے لگے جن کے پیچھے دیوار کا بالائی حصہ نظر نہیں آتا تھا۔ جانبازوں کی ایک اور جماعت دروازے کی طرف دوڑی۔ زنگی نے تیروں کی بارش اور تیز کرادی۔ ذرا دیر بعد دیوار پر لکڑیوں سے بندھے ہوئے ڈرم نظر آئے۔ یہ جلتی لکڑیوں اور کوئلوں سے بھرے ہوئے تھے، جونہی انہیں باہر کو انڈیلنے والوں کے سر نظر آئے وہ سر تیروں کا نشانہ بن گئے۔ ایک دو ڈرم باہر کو گرے باقی دیوار پر ہی الٹے ہوگئے۔ وہاں سے شعلے اٹھے جن سے پتا چلتا تھا کہ آگ پھینکنے والے اپنی آگ میں جل رہے ہیں۔
زنگی کے کسی کمانڈر نے زنگی کے حملے کا یہ طریقہ دیکھ لیا۔ وہ گھوڑا سرپٹ دوڑا کر قلعے کے پچھلے دروازے کی طرف چلا گیا اور وہاں کے کمانڈر کو بتایا کہ سامنے والے دروازے پر کیا ہورہا ہے۔ ان دونوں کمانڈروں نے وہی طریقہ پچھلے دروازے پر آزمانا شروع کردیا۔ پہلے ہلے میں مجاہدین کا جانی نقصان زیادہ ہوا لیکن جوں جوں مجاہدین گرتے تھے، ان کے ساتھی قہر بن کر دروازے کی طرف دوڑتے تھے۔ تیر اندازوں نے صلیبیوں کو اوپر سے آگ نہ پھینکنے دی۔ زنگی نے حکم دیا کہ منجنیقیں قلعے کے اندر آگ پھینکیں۔ زنگی کی فوج نے دونوں دروازوں پر دلیرانہ حملے دیکھے تو فوج کسی کے حکم کے بغیر دو حصوں میں بٹ گئی۔ ایک حصہ قلعے کے سامنے چلا گیا اور دوسرا عقبی دروازے کی طرف۔ دونوں طرف دیوار پر تیروں کی ایسی بارش برسائی گئی کہ اوپر کی مزاحمت ختم ہوگئی۔ دونوں دروازے توڑ لیے گئے۔ زنگی کی فوج اندر چلی گئی۔ شہر میں خون ریز جنگ ہوئی، وہاں کے باشندوں میں بھگدڑ مچ گئی۔
اس بھگدڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی حکمران اور کمانڈر قلعے سے نکل گئے۔ شام تک صلیبی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے۔ زنگی نے قیدی مسلمانوں کو کھلے اور بند قید خانوں سے نکالا پھر صلیبی حکمرانوں کو سارے شہر میں تلاش کیا مگر کوئی ایک بھی نہ ملا۔
یہ ١١٧٣ء کی آخری سہ ماہی تھی، جب کرک کا مضبوط قلعہ سر کرلیا گیا اور مسلمانوں کو بیت المقدس نظر آنے لگا۔
جاری ھے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں