صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
قسط نمبر۔47۔ وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا
اس نے کسی کے خلاف شک وشبے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے فوج کے جذبے اور غیرت کو ایسا للکارا کہ فوج جو حیران تھی کہ اسے اتنی سویرے کیوں جگایا گیا ہے۔ اب اس پر حیران تھی کہ اسے کرک کی طرف کوچ کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا۔ تمام تر فوج مشتعل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی نے اعلیٰ اور ادنیٰ کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کوچ کے متعلق ہدایات دیں۔ کوچ کے لیے کوئی اور راستہ بتایا۔ راستہ اس راستے سے بہت دور تھا جس پر محاذ کی فوج آرہی تھی۔ کوچ کرنے والی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی نے اپنے وہ کمانڈر بھیج دیئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ انہیں نے خفیہ طور پر ہدایات دے دی تھیں۔ فوج کو جب کوچ کا حکم ملا تو سپاہیوں کے نعرے قاہرہ کے درودیوار کو ہلانے لگے۔ سلطان ایوبی کا چہرہ جذبات کی شدت سے دمک رہا تھا۔
جب فوج اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اس نے ایک قاصد کو پیغام دے کر اس پڑائو کی طرف روانہ کردیا جہاں محاذ سے آنے والی فوج رکی ہوئی تھی۔ قاصد کو بہت تیز جانے کو کہا گیا۔ پیغام یہ تھا کہ پیغام ملتے ہی فوج کو قاہرہ کے لیے کوچ کرادیا جائے۔ فاصلہ آٹھ دس میل تھا۔ قاصد جلدی پہنچ گیا۔ اسی وقت کوچ کا حکم مل گیا۔
غروب آفتاب کے بعد فوج کے ہر اول دستے قاہرہ میں داخل ہوگئے۔ ان کے پیچھے باقی فوج بھی آگئی۔ اسے رہائش کے لیے وہی جگہ دی گئی جہاں گزشتہ رات تک کوچ کرجانے والی فوج قیام پذیر تھی۔ سپاہیوں کو کمانڈروں نے بتانا شروع کردیا کہ پہلی فوج کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے۔ آنے والی فوج بھڑکی ہوئی تھی۔ علی بن سفیان نے انہیں ٹھنڈا کرنے کا انتظام کررکھا تھا۔ سلطان ایوبی نے دانشمندی سے فوجی بغاوت کا خطرہ بھی ختم کردیا اور خانہ جنگی کا امکان بھی نہ رہنے دیا۔ اس نے اعلیٰ کمانڈروں کو بلا لیا اور اس فوجی حاکم کو بھی بلایا جو سرحدی دستوں کا ذمہ دار تھا۔ اس نے یہ معلوم کرکے کہ سرحد پر کتنے دستے ہیں اور کہاں کہاں ہیں، اتنی ہی نفری کے دستے تیار کرکے علی الصبح مطلوبہ جگہوں کو بھیجنے کا حکم دیا۔ اسے بتایا جا چکا تھا کہ سرحدی دستے ملک سے غلہ اور فوجی ضروریات کا دیگر سامان باہر بھیجنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان دستوں کے کمانڈروں کو خصوصی احکامات دئیے اور سرحد سے واپس آنے والے پرانے دستوں کے متعلق اس نے حکم دیا کہ انہیں قاہرہ میں لانے کے بجائے باہر سے ہی محاذ پر بھیج دیا جائے۔
٭ ٭ ٭
سعدیہ دونوں وقت مسجد میں امام کو کھانا دینے جاتی تھی۔ محمود بن احمد شاگرد کی حیثیت سے مذہب کی تعلیم حاصل کررہاتھا۔ وہ اس چراگاہ میں بھی چلاجایا کرتا تھا جہاں سعدیہ بکریاں چرایا کرتی تھی۔ وہاں ٹیلے بھی تھے۔ جگہ سرسبز تھی، کیونکہ وہاں پانی تھا۔ جگہ گائوں سے ذرا دور تھی۔ سعدیہ اب محمود کو اپنا محافظ سمجھنے لگی تھی اور اسے یقین ہوگیا تھا کہ محمود اسے کافروں کے قبضے میں جانے سے بچا لے گا مگر محمود اس کی یہ بات نہیں مانتا تھا کہ اسے فوراً گائوں سے لے جائے۔ سعدیہ نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گائوں چھوڑ آئے اور یہاں آکر تعلیم مکمل کرلے۔ محمود اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کا گائوںمصر کے دوسرے سرے پر ہے جہاں وہ اتنی جلدی نہیں جاسکتا۔ اس نے اپنے جاسوسی کے فن کے مطابق یہ یقین کرلیا تھا کہ سعدیہ دشمن کی آلۂ کار نہیں۔ اگر محمود کے راستے میں فرض حائل نہ ہوتا تو وہ کبھی کا سعدیہ کو وہاں سے لے جاچکا ہوتا۔ فرض کے علاوہ امام مسجد اس کے محکمے کا افسر تھا جس کی موجودگی میں وہ اپنے فرض میں کوتاہی نہیں کرسکتا تھا۔ امام نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ رہے۔ اس کا کہنا حکم کی حیثیت رکھتا تھا۔
ایک روز اچانک گائوں میں رونق آگئی۔ کچھ اجنبی صورتیں نظر آنے لگیں۔ ہر کسی کی زبان پر ایک ہی کلمہ تھا… ''وہ آرہا ہے، وہ آسمان سے آیا ہے… مرے ہوئوں کو زندہ کرنے والا آرہا ہے''… گائوں کا ہر فرد بہت ہی خوش تھا۔ وہ کہتے تھے کہ ان کی مرادیں پوری کرنے والا آرہا ہے۔ سعدیہ دوڑتی آئی اور محمود بن احمد سے کہا… ''تم نے بھی سنا ہے کہ وہ آرہا ہے؟ تم جانتے ہو میں اس سے کیا مانگوں گی؟ میں اسے کہوں گی کہ محمود مجھے فوراً یہاں سے لے جائے، پھر تم مجھے لے جائو گے''۔
محمود کچھ بھی جواب نہ دے سکا۔ اس نے ابھی تک اس پراسرار آدمی کو نہیں دیکھا تھا جسے لوگ پیغمبر تک کہتے تھے… محمود کی ڈیوٹی کے علاقے میں وہ پہلی بار آرہا تھا۔ اس کی کرامات اور معجزوں کی کہانیاں اس علاقے میں کب کی پہنچ رہی تھیں۔ محمود باہر نکل گیا تو اجنبی لوگوں میں اسے اپنے دو ساتھی جاسوس نظر آئے۔ ان کا علاقہ کوئی اور تھا۔ محمود نے ان سے پوچھا کہ وہ اس کے علاقے میں کیوں آگئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس غیب دان کو دیکھنے آئے ہیں مگر وہ جاسوسوں کی حیثیت سے نہیں آئے تھے بلکہ اس سے پوری طرح متاثر تھے۔ انہوں نے اس کی کرامات کسی جگہ دیکھی تھیں جو انہوں نے محمود کو ایسے انداز سے سنائی کہ وہ مرعوب ہوگیا۔ یہ دونوں اس غیب دان کو برحق سمجھنے لگے تھے۔ محمود نے سوچا کہ علی بن سفیان کی تربیت یافتہ جاسوس جس سے متاثر ہوجائیں وہ برحق ہوسکتا ہے۔
محمود اس سرسبز جگہ کی طرف چلا گیا جہاں سعدیہ بکریاں اور اونٹنی چرانے کے بہانے اسے ملا کرتی تھی مگر وہاں کچھ اور ہی گہما گہمی تھی۔ اسے دور ہی دو آدمیوں نے روک دیا اورکہا کہ خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر آرہا ہے۔ یہ جگہ اس کے لیے صاف کی جارہی ہے۔ وہ یہیں قیام کرے گا۔ اس نے دور سے دیکھا کہ ایک ٹیلے میں غار سا بنایا جارہا تھا اور جگہ ہموار کی جارہی تھی۔ اب وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی۔ گائوں کے لوگ کام دھندا چھوڑ کر وہاں جمع ہورہے تھے۔ اجنبی آدمی جو اس جگہ صفائی وغیرہ کا کام کرتے تھے، باری باری آکر لوگوں کو اس کے معجزے سناتے تھے۔ لوگ مسرور اور مسحور ہوئے جارہے تھے۔ رات کو بھی لوگ وہاں کھڑے رہے۔ ان کی عقیدت مندی کا یہ عالم تھا کہ مسجد میں کوئی بھی نہ گیا۔ دوسرے دن کی ابھی صبح طلوع ہوئی تھی کہ لوگ پھر وہیں پہنچ گئے۔ انہیں دور ہی روک لیا گیا۔ رات کے دوران اجنبی چہروں میں اضافہ ہوگیا تھا۔ یہ لوگ وہاں گڑھے بھی کھود رہے تھے۔ ان کے ساتھ چند اونٹ تھے جن پر بہت سارا سامان لدا ہوا تھا۔ یہ سامان کھولا جانے لگا تو انہیں بہت سے خیمے نظر آئے جو کھول کر نصب کیے جارہے تھے۔
شام گہری ہونے لگی۔ راتیں تاریک ہوا کرتی تھیں۔ چاند رات کے پچھلے پہر ابھرتا تھا۔ اس غیب دان کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ صرف تاریک راتوں میں لوگوں کو اپنا آپ دکھاتا ہے۔ شام کے بعد بھی گائوں کے لوگ وہاں موجود رہے۔ ایک طرف گائوں کی عورتیں بھی کھڑی تھیں، جن میں سعدیہ بھی تھی جو جگہ آنے والے کے لیے صاف کی جارہی تھیں۔ وہاں مشعل جل رہی تھیں۔ دو آدمی ان چند لڑکیوں کے پیچھے سے آئے، جن میں سعدیہ تھی۔ لڑکیاں انہیں دیکھ نہ سکیں۔سامنے سے تین چار آدمی آئے۔ یہ اجنبی لوگوں میں سے تھے۔ لڑکیوں کے قریب آکر انہوں نے لڑکیوں سے کہا… ''تم یہاں سے جاتی کیوں نہیں؟''… اور وہ لڑکیوں کو ڈرانے کے لیے ان کی طرف دوڑے، لڑکیاں بھاگ اٹھیں اور بکھر گئیں۔ کسی نے پیچھے سے سعدیہ کے اوپر کمبل پھینکا۔ دو مضبوط بازوئوں نے اسے کمر سے دبوچ لیا۔ ایک ہاتھ سے کسی نے اس کا منہ بند کردیا۔ اسے کندھے پر اٹھا کر کوئی دوڑ پڑا۔ ایک تو تاریکی تھی اور دوسرے لڑکیاں بھاگ گئی تھیں۔ اس لیے کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ سعدیہ کو کوئی اٹھا لے گیا ہے۔
دوسری صبح جیسے طوفان آگیا ہو۔ گائوں کے لوگ چراگاہ کی طرف دوڑ پڑے۔ ایک ہجوم چلا آرہا تھا۔ اس کے آگے آگے سولہ سترہ اونٹ تھے۔ ہر اونٹ پر نہایت خوبصورت پالکی تھی۔ ہر پالکی کے پردے گرے ہوئے تھے۔ ''وہ'' ان میں سے کسی پالکی میں تھا۔ آگے آگے ڈف اور شہنائیاں بج رہی تھیں۔ بعض لوگ وجد آفریں گونج میں کچھ گنگناتے آرہے تھے اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی بڑی بڑی گھنٹیوں کا ترنم اسی موسیقی کا حصہ معلوم ہوتا تھا۔ ہجوم میں کوئی شورشرابہ نہیں تھا۔ ہر کسی پر تقدس کا رعب طاری تھا۔ یہ مریدوں اور عقیدت مندی کا جلوس تھا جو معلوم نہیں کہاں کہاں سے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے۔ ایسی فضا پیدا ہوگئی تھی جیسے پالکیوں والے اونٹ آسمان سے اتر رہے ہوں۔ یہ قافلہ سرسبز جگہ چلا گیا۔ وہاں ٹیلے زیادہ تھے۔ ایک جگہ بہت سے خیمے نصب کردئیے گئے تھے۔ ان میں ایک خیمہ خاصا بڑا تھا۔ تمام لوگوں کو دور ہٹا دیا گیا پھر کوئی نہ دیکھ سکا کہ پالکیوں میں سے کون کون نکلا اور کہاں غائب ہوگیا۔ عقیدت مندوں کا ہجوم دور ہٹ کر بیٹھ گیا۔ سعدیہ کے گائوں کے لوگ ان سے اس مقدس انسان کی باتیں سننے لگے۔ انسانی فطرت کی یہ خاصیت ہے کہ انسان جس قدر گنوار اور پسماندہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی سنسنی پسند ہوتا ہے۔ وہ باتوں میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی کیفیت وہاں پیدا ہوگئی تھی۔
امام بھی اس ہجوم کو دیکھ رہا تھا اور محمود بھی۔ وہ ابھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے تھے۔ انہیں قاہرہ سے یہ ہدایت ملی تھی کہ سرحدی علاقے میں کوئی نیا عقیدہ پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے متعلق تفصیلات معلوم کرکے بتائو کہ یہ کیا ہے اور اس کی پشت پناہی میں کون لوگ ہیں۔ قاہرہ کو ابھی کوئی تفصیلی اطلاع نہیں ملی تھی۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ جن علاقوں میں پراسرار آدمی جاچکا تھا وہاں کے جاسوس بھی اس کے معجزوں سے مرعوب ہوگئے تھے۔ وہ اس کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے سے ڈرتے تھے۔ سرحدی دستوں نے بھی ایسا ہی اثر قبول کرلیا تھا۔ اب اس امام کی باری تھی۔ اسے دیکھنا تھا کہ یہ سب کوئی ڈھونگ ہے، شعبدہ بازی ہے یا کیا ہے۔ اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ لوگ اس کی صرف باتیں سن سن کر اتنے متاثر اور مرعوب ہوگئے تھے کہ انہوں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا تھا۔ وہ اس کی جھلک دیکھنے کو اس جگہ کے گرد بیٹھے تھے جہاں وہ اونٹ سے اتر کر کسی خیمے میں غائب ہوگیا تھا۔
امام اور محمود وہاں کھڑے تھے۔ سعدیہ کا باپ ان کے پاس آن رکا۔ اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ سعدیہ رات سے غائب ہے۔ لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ انہیں چند آدمیوں نے سامنے سے آکر ڈرایا اور وہاں سے بھگا دیا تھا۔ ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے وہاں سے پیچھے دو آدمی دیکھے تھے۔ اس سے آگے کسی کو کچھ علم نہ تھا۔ باپ سعدیہ کی تلاش میں چل پڑا۔ محمود بھی اس کے ساتھ ہولیا۔ وہاں اسے سعدیہ کہاں مل سکتی تھی مگر وہ باپ تھا۔ بے چینی سے ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا۔ محمود اس کے ساتھ رہا۔ انہیں ایک اجنبی نے روک لیا اور پوچھا… ''کیا تم لوگ کسی کو ڈھونڈ رہے ہو؟''… سعدیہ کے باپ نے اسے بتایا کہ گزشتہ رات اس کی لڑکی لاپتہ ہوگئی ہے۔
''مجھے ابھی ابھی کسی نے بتایا ہے کہ تم اس لڑکی کے باپ ہو''… اجنبی نے سعدیہ کا حلیہ بتا کر کہا… ''اگر تم اس لڑکی کو ڈھونڈ رہے ہو تو وہ تمہیں یہاں نہیں ملے گی۔ اب تک وہ مصر کی سرحد سے باہر اور بہت دور جاچکی ہوگی۔ گزشتہ شام میں نے ایک گھوڑا دیکھا تھا۔ ایک نوجوان اور بڑی خوبصورت لڑکی دوسری لڑکیوں سے ہٹ کر گھوڑے کے پاس گئی۔ سوار گھوڑے کے قریب کھڑا تھا۔ لڑکی نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کیں، سوار گھوڑے پر سوار ہوکر چند قدم پرے چلا گیا۔ لڑکی ادھر ادھر دیکھتی اس کے پیچھے گئی۔ آگے جاکر وہ خود ہی سوار کے آگے گھوڑے پر بیٹھ گئی۔ سوار گھوڑا دوڑا لے گیا۔ میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی کون ہوسکتی ہے جو ایک سوار کے ساتھ اپنی مرضی سے چلی گئی ہے۔ آج کسی نے بتایا کہ وہ تمہاری بیٹی تھی۔ اسے اب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرو''۔
وہ آدمی چلا گیا۔ سعدیہ کے باپ کے آنسو نکل آئے۔ محمود کا ردعمل کچھ اور تھا۔ وہ جاسوس تھا۔ اس نے یہ سوچا کہ یہ آدمی سفید جھوٹ بول گیا ہے۔ اس کی اطلاع اور تمام تر بیان جھوٹ تھا۔ کوئی اسے کیسے بتا سکتا تھا کہ اس شخص کی بیٹی ایک سوار کے ساتھ بھاگ گئی ہے، جب اسے دیکھنے والا یہ اکیلا شخص تھا۔ جاسوس کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی جاتی تھی کہ کسی کی بات پر فوراً اعتبار نہ کرو اور ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھو۔ محمود نے اس اجنبی کا پیچھا کیا۔ وہ ہجوم میں سے ہوتا ہوا ٹیلوں کے پیچھے چلا گیا اور خیموں میں کہیں غائب ہوگیا۔ محمود کو یقین ہوگیا کہ سعدیہ انہی خیموں میں ہے اور اس کے اغوا میں اس آدمی کا ہاتھ ہے۔ یہ سعدیہ کے خریداروں میں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے سودا نہ ہونے پرسعدیہ کے باپ کو لڑکی کے اغوا کی دھمکی دی تھی۔ سعدیہ کے باپ نے اسے نہیں پہچانا تھا۔ یہ اجنبی سعدیہ کے باپ کو یہ جھوٹا بیان دے کر گمراہ کرنے آیا تھا تاکہ باپ اپنی بیٹی کو یہاں تلاش نہ کرے۔
محمود بن احمد کے دل میں سعدیہ کی اتنی شدید محبت تھی کہ اس نے سعدیہ کو وہاں سے نکالنے کا تہیہ کرلیا۔ اس نے امام کو جا کر یہ ساری بات سنائی۔ امام سراغ رسانی کے شعبے کا ذہین حاکم تھا۔ اس نے بھی یہی رائے دی کہ اس غریب باپ کو دھوکا دیا جارہا ہے کہ اس کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ محمود نے امام کے ان دونوں جاسوسوں سے جو گائوں میں موجود رہتے تھے، ذکر کیا اور کہا کہ وہ سعدیہ کو وہاں سے نکالے گا اور اسے ان کی مدد کی ضرورت ہے مگر یہ کام آسان نہیں تھا۔ ٹیلوں کے اندر اب کوئی نہیں جا سکتا تھا۔
٭ ٭ ٭
نورالدین زنگی نے کرک کے محاصرے میں اپنی فوج لگا دی تھی اور قلعہ توڑنے کے طریقے سوچ رہا تھا۔ اس نے پہلے روز ہی اپنے کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ جو قلعہ صلاح الدین ایوبی سر نہیں کرسکا وہ تم بھی آسانی سے سر نہیں کرسکو گے۔ صلاح الدین ایوبی تو ناممکن کو ممکن کردکھانے والا آدمی ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے تفصیل سے بتا دیا تھا کہ یہاں کون کون سے طریقے آزما چکا ہے۔ یہ بھی بتایا تھا کہ قلعے کے اندر کیا کیا ہے۔ رسد اور جانور کہاں ہیں اور آبادی کس طرف ہے۔ اسے یہ معلومات جاسوس نے دی تھیں۔ وہ اندر آگ پھینکنا چاہتا تھا مگر اس کی منجنیقیں چھوٹی تھیں۔ اس کے علاوہ صلیبیوں کے پاس بڑی کمانیں تھیں جن کے تیر بہت دور تک چلے جاتے تھے۔ یہ تیر منجنیقوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھے۔ اسی لیے قلعے کے دروازے پر بھی آگ نہیں پھینکی جاسکتی تھی۔ مجاہدین کہیں سے قلعے کی دیوار تھوڑنے کی کوشش کرتے تھے تو اوپر سے صلیبی جلتی ہوئی لکڑیوں اور دہکتے کوئلوں کے ڈرم انڈیل دیتے تھے۔
نورالدین زنگی نے اپنے نائبین کا اجلاس بلا کر انہیں کہا… ''صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا تھا کہ وہ بڑی منجیقیں بنوا کر اندر آگ پھینک سکتا ہے لیکن اندر مسلمانوں کی آبادی بھی ہے اگر ایک بھی مسلمان جل گیا تو یہ ساری عمر کا پچھتاوا ہوگا۔ میں اب ایوبی کی سوچ کے خلاف فیصلہ کررہا ہوں۔ ۔ میں نے اتنی بڑی منجنیقیں بنانے کا انتظام کرلیا ہے جن کی پھینکی ہوئی آگ اور وزنی پتھر دور تک جاسکیں گے۔ آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ آپ کی پھینکی ہوئی آگ سے اندر چند ایک مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچے گا۔ میرے دوستو! اگر تم اندر کے مسلمانوں کی حالت جانتے ہوتو کہو گے کہ وہ مر ہی جائیں تو اچھا ہے۔ وہاں کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں۔ مسلمان بچیاں صلیبیوں کے پاس ہیں اور مرد کھلے قید خانے میں بڑے بیگار کررہے ہیں۔ وہ تو دعائیں مانگ رہے ہوں گے کہ خدا انہیں موت دے دے۔ آپ کا محاصرہ جس قدر لمبا ہوتا جائے گا اندر کے مسلمانوں کی اذیت بھی اسی قدر زیادہ اور اذیتوں کی مدت لمبی ہوتی جائے گی اور پھر یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک مسلمان جل مرے گا۔ اگر چند ایک مر گئے تو ہمیں یہ قربانی دینی ہی پڑے گی۔ آپ بھی تو مرنے کے لیے آئے ہیں۔ اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو ہم میں سے کئی ایک کو جانیں قربانی کرنی ہوں گی۔ میں آپ کو یہ اطلاع اس لیے دے رہا ہوں کہ آپ میں سے مجھ پر کوئی یہ الزام عائد نہ کرے کہ میں نے ایک قلعہ سر کرنے کے لیے بے گناہ مسلمانوں کو جلا دیا ہے''۔
''ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا''… ایک سالار نے کہا… ''ہم یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے نہیں آئے۔ فلسطین مسلمانوں کا ہے۔ ہم یہاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی بحال کرنے آئے ہیں۔ قبلہ اول ہمارا ہے، صلیبیوں اور یہودیوں کا نہیں''۔
''ہم یہودیوں کے اس دعوے کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے''۔ ایک اور نے کہا… ''ہم سب جل مرنے کے لیے تیار ہیں، ہم اپنے بچوں کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں''۔
نورالدین زنگی کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آگئی جس میں مسرت نہیں تھی اس نے کہا… ''تم جانتے ہی ہوگے کہ فلسطین کو اپنا وطن بنانے کے لیے یہودی کس میدان میں لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی دولت اور اپنی بیٹیوں کی عصمت صلیبیو ں کے حوالے کردی ہے اور انہیں ہمارے خلاف لڑا رہے ہیں۔ اپنی دولت اور اپنی لڑکیوں کے ہی ذریعے ہماری صفوں میں غدار پیدا کررہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا نشانہ صلاح الدین ایوبی اور مصر ہے۔ مصر کے بڑے بڑے شہروں میں فاحشہ عورتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ یہ سب یہودی عورتیں ہیں، افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مسلمان امراء اور دولت مند تاجر یہودیوں کے جال میں پھنس گئے ہیں۔ ان میں نفاق اور تفرقہ بھی پیدا ہوگیا ہے۔ اب کفار انہیں آپس میں لڑائیں گے۔ اگر ہم ہوش میں نہ آئے تو یہودی ایک نہ ایک دن فلسطین کو اپنا وطن بنا کر قبلہ اول کو اپنی عبادت گاہ بنا لیں گے اور مسلمان مملکتیں آپس میں لڑتی رہیں گی۔ انہیں محسوس تک نہ ہوگا کہ ان کی آپس کی چپقلش کے پیچھے یہودیوں اور صلیبیوں کا ہاتھ ہے۔ یہ ہوگا دولت، عورت اور شراب کا کرشمہ جو شروع ہوچکا ہے۔ اگر ہمیں آنے والی نسلوں کو باوقار زندگی دینی ہے تو ہمیں آج کی نسل کے کچھ بچے قربان کرنے پڑیں گے۔ میں نیا چاند نکلنے تک کرک لے لینا چاہتا ہوں۔ خواہ مجھے اس کے کھنڈر ملیں اور اندر مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں۔ ہم انتظار نہیں کرسکتے۔ ہمیں صلیبیوں اور یہودیوں کو بحیرۂ روم میں ڈبونا ہے۔ یہ کام ہمیں اپنی زندگی میں کرنا ہے، مجھے نظر آرہا ہے کہ ہمارے بعد اسلام کا پرچم غداروں اور صلیب نوازوں کے ہاتھوں میں آجائے گا''۔
نورالدین زنگی نے کاریگروں کی بھی ایک فوج ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ اس نے متعلقہ کاریگروں کو بتا دیا تھا کہ کھجوروں کے بہت لمبے لمبے درخت کاٹ کر منجنیقیں تیار کریں۔ اس نے کاریگروں کے مشوروں سے کچھ اور قسم کے بھی درخت کٹوالیے تھے اور حکم دیا کہ ان کے تنے اور ٹہنیاں خشک ہونے سے پہلے کام میں لائے جائیں تاکہ ان میں لوہے والی سختی پیدا نہ ہوجائے۔ کاریگر دن رات مصروف رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی زنگی نے وزنی پتھروں کے ڈھیر لگوا دئیے تھے۔ اس کے پاس صلاح الدین ایوبی کا چھوڑا ہوا آتش گیر مادے کا ذخیرہ بھی تھا۔ بہت سا سیال مادہ زنگی اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اس نے آگ کے گولے تیار کرلیے تھے۔ اسی دوران مصر سے سلطان ایوبی کی بھیجی ہوئی فوج بھی پہنچ گئی۔ نورالدین زنگی کو اس فوج کے متعلق بتایا گیا تھا کہ بغاوت کے لیے تیار رہے لیکن زنگی نے جب اس کا معائنہ کیا تو اسے بغاوت کا شائبہ تک نظر نہ آیا۔ زنگی سلطان ایوبی کی طرح دانشمند اور دوراندیش انسان تھا۔ اس نے اس فوج کو چند ایک پرجوش الفاظ سے اس سے زیادہ بھڑکا دیا جتنا سلطان ایوبی نے بھڑکا کر بھیجا تھا۔
ایک روز سورج غروب ہوچکا تھا۔ صلبی حکمران اور اعلیٰ فوجی کمانڈر قلعے کے اندر ایک کانفرنس بیٹھے تھے۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں محاصرے کے متعلق کوئی پریشانی نہیں۔ انہیں یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ سلطان ایوبی مصر جا چکا ہے اور نورالدین زنگی آگیا ہے۔ کانفرنس والے دن کی صبح انہیں یہ اطلاع ملی کہ مصر سے تازہ دم فوج آگئی ہے۔ اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے یہ سب اکٹھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ابھی بات شروع کی ہی تھی کہ دھماکے کی طرح آواز سنائی دی اور ملبہ گرنے کا شور بھی اٹھا۔ صلیبی کمانڈر اور حکمران دوڑتے باہر نکلے۔ ساتھ والے کمرے کی منڈیر پھٹ گئی تھی۔ اور وہاں ایک وزنی پتھر پڑا تھا۔ دیوار میں شگاف نہیں ہواتھا۔ زناٹہ سا سنائی دیا جو قریب آکر دھماکہ بن کر خاموش ہوگیا۔ اسی جگہ کے قریب ایک اور پتھر گرا۔ صلیبی وہاں سے بھاگے وہ سمجھ گئے کہ مسلمان منجنیقوں سے پتھر پھینک رہے ہیں۔ وہ قلعے کی دیوار پر گئے مگر شام اندھیری ہوچکی تھی۔ کچھ نظر نہیں آتا تھا۔
یہ نورالدین زنگی کی تیار کرائی ہوئی ایک منجنیق تھی جسے تجرباتی طور پر استعمال کیا جارہا تھا۔ یہ ضرورت کے عین مطابق دور مار تھی مگر اسے چلانا بہت مشکل تھا۔ ایک لمبے ٹہن کے وسط میں مضبوط رسے باندھے گئے تھے جنہیں گھوڑوں کے زور سے کھینچ کر خم دیا جاتا اور خم کی جگہ پتھر رکھا جاتا تھا۔ انتہائی خم میں لے جا کر رسہ تلواروں سے کاٹ دیا جاتا تھا۔ اس طریقے سے نقصان یہ ہوتا تھا کہ رسہ کٹ جاتا اور اسے گانٹھ دے کر دوبارہ استعمال کے لیے تیار کیا جاتا تھا۔ دوسری تکلیف یہ ہوتی تھی کہ جب آٹھ گھوڑوں کو کھچا تنا ہوا رسہ کٹتا تو گھوڑے دور آگے کو اس طرح چلے جاتے تھے جیسے کسی بے پناہ قوت نے دھکا دیا ہو۔ دو تین بار یوں ہوا کہ دو گھوڑے آگے جاکر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور پچھلے گھوڑے ان کے اوپر گرے۔ دو سوار ایسے زخمی ہوئے کہ محاذ کے قابل نہ رہے۔ زنگی نے پھر بھی آدھی رات کے بعد تک یہ عمل جاری رکھا جس سے یہ نقصان ہوا کہ صلیبیوں کے ہیڈکوارٹر کی دو چھتیں گر پڑیں اور چند ایک کمروں کی دیواروں میں لمبے چوڑے شگاف پڑ گئے۔ یہ نقصان کچھ زیادہ تو نہیں تھا لیکن صلیبیوں کی حوصلہ شکنی کی صورت پیدا ہوگئی تھی۔ چند ایک دیواروں کے شگافوں نے ہیڈکوارٹر کے محافظوں اور دیگر عملے کو وہاں سے بھگا دیا تھا اور صبح تک اس دور کی پہلی ''بمباری'' کی دہشت ناک خبر سارے شہر میں پھیل گئی تھی۔
مگر آدھی رات کے بعد نورالدین زنگی کی پہلی دور مار منجنیق بے کار ہوگئی تھی۔ پتھر پھینکنے والا حصہ جسے خم دیا جاتا تھا زیادہ استعمال سے یا زیادہ زور دینے سے ٹوٹ گیا۔ آخری پتھر قلعے کے اندر جانے کے بجائے دیوار کے باہر لگا۔ زنگی نے اگلا پتھر پھینکنے سے روک دیا۔ تاہم یہ تجربہ ناکام نہیں تھا۔ کاریگروں میں دو خاص طور پر دانشمند تھے۔ انہوں نے بنیادی اصول دیکھ لیا تھا۔ اس اصول پر انہیں کامیاب دور مار منجنیق تیار کرنی تھی۔ انہوں نے اس پر غور کرنا شروع کردیا کہ رسے کاٹے بغیر پتھر نکلے اور اگر رسے کاٹنے ہی پڑیں تو گھوڑے اس سے پہلے تنے ہوئے رسوں سے آزاد کردئیے جایا کریں۔ نورالدین زنگی نے انہیں کہا کہ وہ جو کچھ بھی کریں، وقت ضائع کیے بغیر کریں۔ دن رات سوچیں اور کام کریں۔ انہوں نے کام شروع کردیا۔ اس کے ساتھ ہی زنگی نے تیروکمان بنانے والے کاریگروں سے کہا کہ وہ دور مار کمانیں تیار کریں۔ اس نے اپنے کمانڈروں سے کہا کہ اپنے دستوں میں سے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی الگ کرلیں جو بڑی کمانوں سے تیر پھینک سکیں۔
٭ ٭ ٭
سعدیہ کے گائوں کے باہر جہاں وہ بکریاں چراتی اور محمود بن احمد سے ملا کرتی تھی، ایک ایسی دنیا آباد ہوگئی جس کی رونق وہاں کے لوگوں کے لیے روئے زمین کی نہیں، آسمان سے اتری ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ بہت دیر گزری سورج غروب ہوچکا تھا۔ رات تاریک تھی، لوگوں کو ٹیلوں کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن ا نہیں ایک طرف بٹھا دیا گیا تھا۔ کسی کو کسی ٹیلے کے اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لوگوں کو جہاں بٹھایا گیا وہاں سے کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں تھی۔ انہیں کوئی حکم نہیں دیا جارہا تھا بلکہ ''اس'' سے ڈرایا جارہا تھا۔ کہتے تھے کہ وہ کسی کی ذرا سی بھی حرمت سے ناراض ہوگیا تو سب پر مصیبت نازل ہوگی۔ لوگ دم بخود بیٹھے دیکھ رہے تھے۔ ان سے کچھ دور بڑی خوبصورت دریاں اور ان پر دو قالین بچھے ہوئے تھے۔ پیچھے لمبے لمبے پردے لٹکے ہوئے تھے جن پر ستارے سے چمکتے تھے۔ یہ چمک ان مشعلوں اور قندیلوں سے پیدا ہوتی تھی جو ایک خاص ترکیب سے رکھی جل رہی تھیں۔ پردوں کے پیچھے عمودی ٹیلا تھا جس کے دامن میں اجنبی لوگ غار کھود رہے تھے۔ اس ٹیلے کے پیچھے کچھ جگہ ہموار تھی، وہاں رنگارنگ خیمے نصب تھے۔
تماشائیوں پر ایسا رعب طاری تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں بھی بات نہیں کرتے تھے۔ یہ رات اس سے اگلی تھی جس رات سعدیہ اغوا ہوئی تھی۔ سامنے لٹکے ہوئے پردے آہستہ آہستہ ہلنے لگے تھے۔ ستارے آسمان کے ستاروں کو طرح ٹمٹمانے لگے اور ایسے سازوں کا ترنم سنائی دینے لگا جن کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ یہ ایک گونج سی تھی جس میں طلسماتی سا تاثر تھا۔ صحرا کی خاموش رات میں یہ تاثر روحوں تک اترتا محسوس ہوتا تھا۔ یہ احساس بھی ہوتا تھا جیسے اس ترنم کی لہریں لوگوں کے اوپر سے گزر رہی ہوں، جنہیں وہ دیکھ سکیں گے، چھو بھی سکیں گے، یہی وجہ تھی کہ لوگ باربار اوپر ادھر ادھر دیکھتے تھے لیکن انہیں نظر کچھ بھی نہیں آتا تھا۔ سازوں کے ترنم میں ایک اور گونج شامل ہوگئی۔ صاف پتا چلتا تھا کہ بہت سے آدمی مل کر ایک ہی نغمہ گنگنا رہے ہیں۔ اس میں لڑکیوں کی آواز بھی تھی۔ اس کے ساتھ جب ٹیلے کے سامنے اتنے لمبے لمبے پردے ہلتے تھے تو یہ لگتا تھا جیسے رات فضا اور ماحول پر وجد طاری ہوگیا ہو۔
لوگ پوری طرح مسحور ہوگئے تو کہیں سے گونج دار آواز اٹھی… ''وہ آگیا ہے، جسے خدا نے آسمان سے اتارا ہے۔ اپنے دل اور دماغ خیالوں سے خالی کردو۔ وہ تمہارے دلوں اور دماغوں میں خدا کی سچی باتیں اتار دے گا''۔
پردوں میں جنبش ہوئی۔ پردوں میں سے ایک انسان نمودار ہوا۔ وہ تھا تو انسان ہی لیکن اس مترنم اورمرعوب ماحول میں ان روشنیوں میں وہ کسی بلندوبالا جہان کی مخلوق لگتا تھا۔ اس کے سر کے بال بھورے ریشمی اور لمبے تھے جو اس کے شانوں پر پڑتے تھے۔ بالوں میں چمک تھی۔ چہرہ بھرا بھرا اور سرخ وسپید، داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی۔ یہ بھی بھورے رنگ کی تھی۔ جسم گٹھا ہوا اور اس پر سبز چغہ تھا۔ چغے پر پردوں کی طرح ستارے تھے جو روشنیوں میں چمکتے تھے۔ ایسی ہی چمک اس کی آنکھوں میں تھی۔ اس کے سراپا میں ایسا تاثر تھا جس نے لوگوں کو مبہوت کردیا۔ اس کے ساتھ سازوں کا گونج دار ترنم اور بہت سی آوازوں کے گنگنانے کی کونج مگر جس نے لوگوں کو دم بخود کیا تھا وہ ان کی کہانیوں کا اثر تھا جو وہ کبھی سے سن رہے تھے۔ ان معجزاتی کہانیوں کی سنسنی خیزی نے ان کی سوچوں پر غلبہ پا رکھا تھا۔ اس رات اسے اپنے سامنے دیکھ کر انہوں نے پہلے تو سرجھکائے پھر ہاتھ اس طرح پیٹ پر باندھ لیے جس طرح نماز میں باندھے جاتے ہیں۔
اس نے پردوں کے سامنے کھڑے ہوکر بازو اوپر کو پھیلائے اور کہا… ''تم پر اس خدا کی رحمت نازل ہو جس نے تمہیں دنیا میں اتارا جس نے تمہیں آنکھیں دیں تاکہ تم دیکھ سکو جس نے تمہیں کان دئیے تاکہ تم سن سکو۔ جس نے تمہیں دماغ دیا کہ تم سوچ سکو جس نے تمہیں زبان دی تاکہ تم بول سکو، تم ہی جیسے انسانوں نے جن کی آنکھیں تمہاری طرح ہیں، زبانیں تمہاری طرح ہیں، تمہیں غلام بنا کر خدا کی نعمتوں سے اور دنیا کی آسائشوں سے محروم کردیا ہے۔ اس تمہارا یہ حال ہے کہ تمہاری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں مگر تمہیں کچھ نظر نہیں آتا۔ تمہارے کان سن سکتے ہیں مگر یہ سچ بات نہیں سنتے۔ تمہارا دماغ سوچ سکتا ہے مگر اس میں وہم اور جھوٹے قصے بھرے ہوئے ہیں۔ تمہاری زبانیں بول سکتی ہیں مگر ان کے خلاف ایک کلمہ نہیں کہہ سکتیں جنہوں نے تمہیں غلام بنا لیا ہے۔ انہوں نے تمہیں تمہارے گھوڑے اور اونٹوں کو اور تمہارے جوان بیٹوں کو خرید لیا ہے۔ وہ تمہارے بیٹوں کو اس طرح لڑاتے ہیں جس طرح کتوں کو لڑایا جاتا ہے۔ وہ تمہارے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیروں اور برچھیوں سے چھلنی کروا کر مرواتے ہیں۔ تمہارے بیٹوں کو مروا کر ریگستانوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں انہیں مردے کھانے والے پرندے اور درندے کھا جاتے ہیں… میں وہ آنکھ ہوں جو آنے والے وقت کو دیکھ سکتی ہے اور دیکھ سکتی ہے کہ انسانوں کے دلوں میں کیا ہے۔ میں وہ کان ہوں جو خدا کی آواز سن سکتا ہے، میں وہ دماغ ہوں جو بنی نوع انسان کی بھلائی کی سوچتا ہے اور میں وہ زبان ہوں جو خدا کا پیغام سناتی ہے۔ میں خدا کی زبان ہوں''۔
''تم آزمالو''… اس نے کہا… ''میرے سینے میں تیر مارو''
اس کی آواز میں اور انداز میں جادو کا اثر تھا۔ اس نے پھر کہا… ''یہاں کوئی تیر انداز ہے تو میرے سینے پر تیر چلائے''… ہجوم پر سناٹا طاری ہوچکا تھا۔ اس نے غصیلی اور بلند آواز سے کہا… ''میں حکم دیتا ہوں کہ یہاں جس کسی کے پاس تیروکمان ہے وہ سامنے آجائے''۔
چار تیرانداز جو سعدیہ کے گائوں کے رہنے والے نہیں تھے، آہستہ آہستہ آگے آئے۔ وہ ڈرے سہمے ہوئے تھے… اس نے کہا… ''تیس قدم گن کر چاروں میرے سامنے کھڑے ہوجائو''… انہوں نے تیس قدم گنے اور اس کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے۔
''کمانوں میں تیر ڈالو''۔
چاروں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکال کر کمانوں میں ڈال لیا۔
''میرے دل کا نشانہ لے لو''۔
انہوں نے کمانیں سیدھی کرکے نشانہ لے لیا۔
''یہ سوچے بغیر کہ میں مرجائوں گا، پوری طاقت سے کمانیں کھینچو اور تیر چلا دو''۔
انہوں نے کمانیں جھکالیں، انہوں نے یہی سوچا تھا کہ وہ مرجائے گا۔
''میرے دل کا نشانہ لے کر تیر چلائو''… اس نے گرج کرکہا… ''ورنہ جہاں کھڑے ہو وہیں شعلے بن کر بھسم ہوجائو گے''۔
تیر اندازوں نے اپنی موت کے ڈر سے فوراً کمانیں اوپر کرلیں اور اس کے دل کا نشانہ لیا۔ دیکھنے والا ہجوم اس طرح خاموش تھا جیسے وہاں کوئی بھی زندہ نہیں تھا۔ سازوں کا ترنم اس سکوت پر کچھ زیادہ ہی سحر آگیں اور پرسوز ہوگیا تھا۔ اس کے ساتھ ایسے انسانوں کی مترنم گونج پھر ابھری جو نظر نہیں آتے تھے… اس سحر آگیں موسیقی میں چار کمانوں کی ''پنگ، پنگ'' کی آوازیں بڑی صاف سنائی دیں۔ چار تیر اس مقدس انسان کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے۔ وہ کھڑا رہا۔ اس کے بازو اوپر اور کچھ دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔
''چار خنجروں والے آگے آجائیں''… اس نے کہا… ''تیر انداز چلے جائیں''
تیر انداز حیران وپریشان چلے گئے اور چار آدمی ایک طرف سے سامنے آئے۔ اس حکم پر کہ خنجر ہاتھ میں لے لو اور مجھ سے پندرہ قدم گن کر میرے سامنے کھڑے ہوجائو۔ وہ اس سے پندرہ قدم دور جاکر کھڑے ہوئے اس نے پوچھا… ''تم نشانے پر خنجر پھینکنا جانتے ہو؟''… چاروں نے جواب دیا کہ وہ جانتے ہیں۔ اس نے کہا… ''چاروں اکٹھے میرے سینے میں خنجر مارو''۔
چاروں نے پوری طاقت سے خنجر اس پر پھینکے۔ چاروں خنجر اس کے سینے میں لگے اور وہیں رہے۔ خنجروں کی نوکیں اس کے سینے میں اتری ہوئی تھیں اور وہ کھڑا مسکرا رہا تھا۔ ہجوم سے آوازیں سنائی دینے لگیں…''آفریں… اس کے قبضے میں موت کے فرشتے ہیں''۔
''کیا اسے جواب مل گیا ہے جس نے پوچھا کہ میں لافانی ہوں؟''… اس نے پوچھا۔
ایک آدمی جو صحرائی لباس میں تھا، دوڑتا ہوا گیا اور اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا۔ ''اس'' نے جھک کر اسے اٹھایا اور کہا… ''جا تجھ پر خدا کی رحمت ہو''۔
''تو پھر تو مردے میں بھی جان ڈال سکتا ہے'' … ایک بوڑھے دیہاتی نے آگے آکر کہا… ''خدا نے مجھے ایک ہی بیٹا دیا تھا وہ جوانی میں مر گیا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ تو مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے۔ میں اپنے بیٹے کی لاش اٹھا کر بہت دور سے آیا ہوں۔ میرے بڑھاپے پر رحم کر اسے زندہ کردے''… بوڑھا دھاڑیں مار کر رونے لگا۔
چار آدمی کفن میں لپٹی ہوئی ایک لاش آگے لائے۔ لاش درخت کی ٹیڑھی ٹہنیوں کے بنے ہوئے سٹریچر پر پڑی تھی۔ انہوں نے لاش اس کے آگے رکھ دی۔ اس نے کہا… ''ایک مشعل لو، لاش کو اٹھائو اور تمام لوگوں کو دکھائو۔ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ پہلے ہی زندہ تھا''۔
لاش سب کے سامنے سے گزاری گئی۔ اس کے منہ سے کفن ہٹا دیا گیا تھا۔ ایک آدمی ہاتھ میں مشعل لیے ساتھ ساتھ تھا۔ سب نے دیکھا کہ اس کا چہرہ لاش کی طرح سفید تھا۔ آنکھیں آدھی کھلی ہوئیں اور منہ بھی آدھا کھلا ہوا تھا۔ سب نے لاش دیکھ لی تو اسے اس مقدس انسان کے سامنے رکھ دیا گیا۔ موسیقی کی لے بدل گئی اور پہلے سے زیادہ پرسوز ہوگئی۔ ''اس''نے بازو آسمان کی طرف کیے اور بلند آواز سے پکارا… ''زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے، میں تیرے بیٹے کا بیٹا ہوں تو نے اپنے بیٹے کو سولی سے اتارا اور مجھے صلیب کا تقدس عطا کیا تھا اگر تیرا بیٹا اور اس کی صلیب سچی ہے تو مجھے قوت دے کہ میں اس بدنصیب بوڑھے کے بیٹے کو زندگی دے سکوں''… اس نے جھک کر لاش کے کفن پر ہاتھ پھیرا، منہ سے کچھ بڑبڑایا، پھر لاش کے اوپر ہوا میں اس طرح دونوں ہاتھ پھیرے کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ کفن پھڑپھڑانے لگا۔ مقدس انسان ہوا میں اس پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ کفن اور زور سے پھڑپھڑایا۔ بعض لوگ اس قدر ڈر گئے کہ ایک دوسرے کے قریب ہوگئے۔ عورتوں میں سے کسی عورت کی چیخ بھی سنائی دی۔ یہ منظر اس لیے بھی بھیانک بن گیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنے والے کے سینے میں چار تیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے۔
کفن میں کچھ اور ہی حرکت ہوئی۔ لاش بیٹھ گئی۔ اس نے ہاتھ کفن سے باہر نکالے۔ ہاتھوں سے کفن میں سے چہرہ ننگا کیا اور آنکھیں مل کر کہا… ''کیا میں عالم پاک میں پہنچ گیا ہوں؟''
''نہیں!'' اسے زندہ کرنے والے نے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا… ''تم اسی دنیا میں ہو جہاں تم پیدا ہوئے تھے جائو اپنے باپ کے سینے سے لگ جائو''۔
باپ نے دوڑ کر اپنے بیٹے کو بازوئوں میں لے لیا۔ بیتابی سے اس کا منہ چوم چوم کر اس نے زندہ کرنے والے کے آگے سجدہ کیا۔ لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے اٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے۔ ان کے سامنے کفن میں لپٹی ہوئی لاش اپنے پائوں پر چل رہی تھی۔ مردہ زندہ ہوگیا تھا۔ باپ نے اسے سارے ہجوم کے سامنے سے گزارا تاکہ سب دیکھ لیں کہ وہ زندہ ہوگیا ہے۔
''لیکن میں اور کسی مردہ کو زندہ نہیں کروں گا''۔ اس نے کہا…
… ''زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے، تم لوگوں کو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ میں خدا کا ایلچی بن کر آیا ہوں ابھی ابھی خدا سے اجازت لی ہے کہ تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے طاقت دے دے کہ میں مرے ہوئے انسان میں جان ڈال سکوں۔ خدا نے مجھے طاقت دے دی''۔
''کیا تم جنگ میں مرے ہوئے سپاہی کو زندہ کرسکتے ہو؟''… مجمع میں سے کسی نے پوچھا۔
''نہیں''۔ اس نے جواب دیا… ''جنگ میں مرنے والوں سے خدا اتنا زیادہ ناراض ہوتا ہے کہ انہیں دوسری زندگی نہیں دیتا۔ اگلے جہان وہ انہیں دوزخ کی آگ میں پھینک دیتا ہے۔ ہر مرد کسی کو قتل کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ جس طرح اسے ایک باپ نے پیدا کیا ہے اسی طرح وہ بھی کسی کا باپ بنے۔ اسی لیے تمہیں کہا گیا ہے کہ چارچار بیویاں رکھو۔ مرد اور عورت کا یہی کام ہے کہ بچے پیدا کریں اور جب بچے بڑے ہوجائیں تو ان سے بچے پیدا کریں۔ یہی عبادت ہے''۔
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں