صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔46۔ وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ف پہلےہی بغاوت کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے''۔ مجھے اس پر تو
وشی ہے کہ مسلسل معرکوں کی تھکی ہوئی اس فوج میں یہ جذبہ پیدا ہوگیا ہے''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر ہمارا دشمن یہی چاہتا ہے کہ ہماری فوج دو حصوں میں بٹ کر آپس میں ٹکرا جائے''۔ وہ گہری سوچ میں پڑ گیا، پھر کہنے لگا… ''جب ہم قاہرہ سے خاصا دور ہوں گے تو میں ذمہ دار اور ذہین قاصد بھیج کر مصر والی فوج کو کسی دوسرے راستے سے کرک کی سمت کوچ کا حکم دے دوں گا۔ شاید میں خود آگے چلا جائوں اور اس فوج کو کوچ کرادوں تاکہ یہ فوج جو ہمارے ساتھ ہے جب وہاں پہنچے تو وہاں اسے اس فوج کا کوئی سپاہی نظر نہ آئے۔ تم نے اچھا کیا ہے علی! میری توجہ ادھر نہیں گئی تھی''۔
٭ ٭ ٭
وہ پراسرار غیب دان جس کے متعلق سرحد کے دیہاتی علاقوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے، اپنے مصاحبوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا تھا۔ جنہوں نے اسے دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ وہ بوڑھا نہیں، اس کی داڑھی بھورے رنگ کی اور چہرے کی رنگت گوری بتائی جاتی تھی۔ اس نے سر کے بال بڑھا رکھے تھے۔ لوگ بتاتے تھے کہ اس کی شربتی آنکھوں میں پورے چاند جیسی چمک ہے اور اس کے دانت ستاروں کی طرح سفید اور شفاف ہیں۔ اس کا قد اونچا اور جسم گٹھا ہوا بتایا جاتا تھا اور وہ بولتا تھا تو سننے والے مسحور ہوجاتے تھے۔ اس کے ساتھ بہت سے مصاحب اور بہت سے اونٹ تھے۔ سامان والے اونٹ الگ تھے جن میں سے بعض پر بڑے بڑے مٹکے لدے ہوتے تھے۔ اس کا قافلہ آبادی سے دور رکتا اور وہ وہیں لوگوں سے ملتا تھا۔ کسی آبادی میں نہیں جاتا تھا۔ وہ ایک جگہ سے کوچ کرتا تو اس کے آگے آگے کچھ لوگ اونٹ اور گھوڑے بھگا دیتے اور راستے میں آنے والے لوگوں اور بستیوں میں خبر کردیتے تھے کہ وہ آرہا ہے، یہ لوگ ہر کسی کو اس کی کرامات اور روحانی قوتوں کے کرشمے سناتے تھے۔ لوگ کئی کئی دن اس کے راستے میں بیٹھے رہتے تھے۔
جس رات علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا کہ محاذ سے قاہرہ کو جانے والی فوج مصر میں مقیم فوج کے خلاف مشتعل ہوگئی، اس رات وہ غیب دان قاہرہ سے بہت دور ایک نخلستان میں خیمہ زن ہوا۔ اس کا ایک اصول یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں کسی سے نہیں ملتا تھا۔ دن کے دوران کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اندھیر راتیں اسے پسند تھیں۔ اس کی محفل ایسی قندیلوں سے روشن ہوتی تھی جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف تھا۔ ان روشنیوں کا بھی ایک تاثر تھا جو حاضرین محفل کے لیے طلسماتی تھا۔ وہ جہاں خیمہ زن ہوا تھا اس کے کچھ دور ایک بستی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سوڈانی حبشی رہتے تھے۔ اس بستی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں کا امام ایک خاموش طبیعت انسان تھا۔ ایک جواں سال آدمی کوئی ڈیڑھ دو مہینوں سے اس کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے آیا کرتا تھا۔ یہ آدمی جو اپنا نام محمود بن احمد بتاتا تھا کسی دوسری بستی سے مسجد میں جایا کرتاتھا۔ اس کی دلچسپی امام مسجد اور اس کے علم کے ساتھ تھی مگر اس کی ایک دلچسپی اور بھی تھی۔ یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے اسے اپنا نام سعدیہ بتایا تھا۔ سعدیہ کو محمود اتنا اچھا لگا کہ وہ اسے کئی بار اپنی بکریوں کا دودھ پلا چکی تھی۔
ان کی پہلی ملاقات بستی سے دور ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں سعدیہ اپنی چار بکریاں اور دو اونٹ چرانے اور انہیں پانی پلانے کے لیے لے گئی تھی۔ محمود وہاں پانی پینے کے لیے رکا تھا۔ سعدیہ نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جارہا ہے؟ محمود نے کہا تھا کہ نہ کہیں سے آرہا ہوں، نہ کہیں جارہا ہوں۔ سعدیہ سادگی سے ہنس پڑی تھی۔ جواب ہی کچھ ایسا تھا۔ سعدیہ نے محمود سے قدرتی سا سوال پوچھا… ''مسلم یا سوڈانی؟''… محمود نے جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے تو سعدیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی۔ محمود نے اسے اپنا صحیح ٹھکانہ نہیں بتایا تھا۔ اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں کیں جو سعدیہ کو اچھی لگی تھیں۔ سعدیہ اس سے سوڈان کی جنگ کے متعلق پوچھنے لگی۔ اس کے انداز سے پتا چلتا تھا کہ اسے اسلامی فوج کے ساتھ دلچسپی ہے۔ اس نے جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق پوچھا تو محمود نے اس کی ایسی تعریفیں کیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی انسان نہیں، خدا کا اتارا ہوا فرشتہ ہے۔ سعدیہ نے پوچھا… ''کیا صلاح الدین ایوبی اس سے زیادہ مقدس اور برگزیدہ ہے جو آسمان سے اترا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کردیتا ہے؟''
''صلاح الدین ایوبی مرے ہوئوں کو زندہ نہیں کرسکتا''۔ محمود نے جواب دیا۔
''ہم نے سنا ہے کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں، انہیں صلاح الدین ایوبی مار ڈالتا ہے''۔ سعدیہ نے شکی لہجے میں کہا… ''لوگ یہ بھی بتاتے ہیں
کہ وہ مسلمان ہے اور ہماری طرح کلمہ اور نماز پڑھتا ہے؟''
''تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتا ہے؟''
''ہمارے گائوں میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایو بی بہت برا آدمی ہے''۔ سعدیہ نے کہا۔
''تمہاری مسجد کا امام کیا بتاتا ہے؟'' محمود نے بتایا۔
''وہ بہت اچھی باتیں بتاتا ہے''۔ سعدیہ نے کہا… ''وہ سب کو کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اسلام کی روشنی سارے مصر اور سوڈان میں پھیلانے آیا ہے اور اسلام ہی خدا کا سچا دین ہے''۔
محمود اس کے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا تھا۔ سعدیہ سے اسے پتا چلا کہ اس کے گائوں میں ایسے آدمی آتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں مگر باتیں ایسی کرتے ہیں کہ کئی لوگوں کے دلوںمیں اسلام کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ محمود نے سعدیہ کے شکوک رفع کردیئے اور اپنی ذات، میٹھی زبان اور شخصیت کا اس پر ایسا اثر پیدا کیا کہ سعدیہ نے بیتابی سے کہا کہ وہ اکثر یہیں بکریاں چرانے آیا کرتی ہے اور محمود جب کبھی ادھر سے گزرے تو اسے ضرور ملے۔ محمود اسے جذبات اور حقائق کے درمیان بھٹکتا چھوڑ کر اس کے گائوں کی طرف چلا گیا۔ سعدیہ یہ سوچتی رہ گئی کہ وہ کون ہے؟ کہاں سے آیا ہے؟ اور کہاں جارہا ہے؟ اس کا لباس اسی علاقے کا تھا مگر اس کی شکل وصورت اور اس کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ اس علاقے کا رہنے والا نہیں… سعدیہ کے شکوک صحیح تھے۔ محمود بن احمد دیہاتی علاقے کا رہنے والا نہیں تھا۔ سکندریہ شہر کا باشندہ تھا اور علی بن سفیان کی داخلی جاسوسی (انٹیلی جنس) کا ایک ذہین کارکن تھا۔ وہ کئی مہینوں سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سرحدی دیہات میں گھوم پھر رہا تھا۔ اس نے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ چند اور جاسوس بھی تھے جو اس علاقے میں پھیلے ہوئے تھے۔ وہ کبھی کبھی اکٹھے ہوتے اور ان کے جو مشاہدات ہوتے تھے، وہ اپنے کسی ایک ساتھی کے سپرد کرکے اسے قاہرہ بھیج دیتے تھے۔ اس طرح علی بن سفیان کے شعبے کو پتا چلتا رہتا تھا کہ سرحدی علاقے میں کیا ہورہا ہے۔
محمود بن احمد کو سعدیہ مل گئی تو اس نے اس لڑکی کے ساتھ بھی ایسی باتیں کیں جن سے اسے گائوں اور گردوپیش کے علاقے کے لوگوں کے خیالات کا علم ہوسکتا تھا۔ اس نے سعدیہ کے گائوں کی مسجد کے امام کے متعلق خاص طور پر پوچھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ دو گائوں میں اس نے ایسے امام مسجد دیکھے تھے جو اسے مشکوک سے لگتے تھے۔ وہاں کے لوگوں سے اسے پتا چلا تھا کہ یہ دونوں امام نئے نئے آئے ہیں۔ اس سے پہلے ان مسجدوں میں امام تھے ہی نہیں۔ دونوں جہاد کے خلاف وعظ سناتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر غلط تفسیریں بیان کرتے تھے اور یہ دونوں پراسرار غیب دان کو برحق بتاتے اور لوگوں میں اس کی زیارت کا اشتیاق پیدا کرتے تھے۔ محمود اور اس کے دو ساتھیوں نے ان دونوں اماموں کے متعلق رپورٹ قاہرہ کو بھیج دی تھی اور اب وہ سعدیہ کے گائوں جارہا تھا۔ اسے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس گائوں کا امام سلطان ایوبی کا مرید اور اسلام کا علمبردار ہے۔ اس نے اسی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
وہ مسجد میں گیا اور امام سے ملا۔ اپنا جھوٹا تعارف کراکے اس نے کہا کہ وہ مذہبی علم کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے۔ امام نے اسے تعلیم دینے کا وعدہ کیا اور اسے مسجد میں رہنے کی پیشکش کی۔ محمود مسجد میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا۔ اس نے امام سے کہا کہ وہ دوتین روز بعد اپنے گھر جایا کرے گا۔ اس نے امام کو بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ امام نے اس سے نام پوچھا تو اس نے کچھ اور نام بتادیا۔ یہ پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے اور کسی سرحدی گائوں کا نام بتا دیا۔ امام مسکرایا اور آہستہ سے بولا… ''محمود بن احمد! مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے فرائض سے بے خبر نہیں۔ سکندریہ کے مسلمان فرض کے پکے ہوتے ہیں''۔
محمود ایسا چونکا جیسے بدک اٹھا ہو۔ وہ سمجھا کہ یہ امام صلیبیوں کا جاسوس ہے لیکن امام نے اسے زیادہ دیر تک شک میں نہ رہنے دیا اور کہا… ''میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کم از کم تمہارے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کردینا چاہیے۔ میں تمہارے ہی محکمے کا آدمی ہوں۔ میں تمہارے تمام ساتھیوں کو جو اس علاقے میں ہیں، جانتا ہوں۔ مجھے تم میں سے کوئی بھی نہیںجانتا۔ میں محترم علی بن سفیان کے اس عملے کا آدمی ہوں جو دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جاسوسوں پر بھی نظر رکھتا ہے۔ میں امام بن کر جاسوسی کا کام کررہا ہوں''۔
''پھر میں آپ کو دانشمند آدمی نہیں کہوں گا؟''۔ محمود بن احمد نے کہا… ''آپ نے جس طرح میرے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے، اس طرح آپ دشمن کے کسی جاسوس کے سامنے بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں''۔
''مجھے یقین تھا کہ تم میرے آدمی ہو''۔ امام نے کہا… ''ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تمہیں اپنا اصلی روپ بتانا ضروری سمجھا۔ میرے ساتھ دو محافظ ہیں جو یہاں کے باشندوں کے بہروپ میں گائوں میں موجود رہتے ہیں۔ مجھے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اچھا ہوا کہ تم آگئے ہو۔ اس گائوں میں دشمن کے تخریب کار آرہے ہیں۔ تم نے اس آدمی کے متعلق سنا ہوگا جس کے متعلق مشہور ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیرے کی خبر دیتا ہے اور مرے ہوئوں کو زندہ کرتا ہے۔ یہ گائوں بھی اس کی ان دیکھی کرامات کی زد میں آگیاہے۔ میں نے گائوں والوں کو شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور لاشوں میں کوئی انسان جان نہیں ڈال سکتا مگر اس کی شہرت کا جادو اتنا سخت ہے کہ لوگ میرے خلاف ہونے لگے ہیں۔ میں سنبھل گیا کیونکہ میں اس مسجد سے نکلنا نہیں چاہتا۔ مجھے ایک اڈے اور ٹھکانے کی ضرورت ہے۔ یہاں کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو اسلام کا سیدھا راستہ بھی دکھانا ہے۔ پندرہ بیس روز گزرے، رات کو دو آدمی میرے پاس آئے۔ میں اکیلا تھا۔ ان دونوں کے چہروں پر نقاب تھے۔ انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں یہاں سے چلا جائوں۔ میں نے انہیں کہا کہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو درس بند کردو اور اس کی باتیں کرو جو آسمان سے آیا ہے اور خدا کا سچا مذہب لایا ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ کرسکتا تھا۔ ہتھیار ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں لیکن میں لڑ کر قتل کرکے یا قتل ہوکر اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے عقل سے کام لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ آج سے وہ مجھے اپنا آدمی سمجھیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر عمل کرے گا تو اسے ایک انعام یہ ملے گا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسے اشرفیاں دی جائیں گی''۔
''پھر آپ نے اپنے وعظ اور خطے کا رنگ بدل دیا ہے؟'' محمود نے پوچھا۔
''کسی حد تک''۔ امام نے جواب دیا… ''میں اب دونوں قسم کی باتیں کرتا ہوں۔ مجھے اشرفیوں کی نہیں۔ اپنی جان کی ضرورت ہے۔ میں اپنا فرض ادا کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا۔ میں گائوں سے باہر جاکر تمہیں یا تمہارے کسی ساتھی کو ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی۔ خدا نے خود ہی تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے۔ میرے محافظ اس رات میرے پاس نہیں تھے۔ اب تم ہی میرے ساتھ رہو۔ تم میرے شاگرد کی حیثیت سے میرے ساتھ رہوگے۔ تم سیدھی سادی گنواروں کی سی باتیں کیا کرنا۔ گائوں میں چار پانچ آدمی ایسے ہیں جو ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر ہمیں قریب کوئی سرحدی دستہ مل جائے تو ہمارا مقصد پورا ہوسکتا ہے مگر ہمارے سرحدی دستوں کے کسی کمان دار پر بھروسہ کرنا بڑا خطرناک ہے۔ دشمن نے اشرفیوں اور عورتوں سے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ وہ تنخواہ ہمارے خزانے سے لیتے اور کام دشمن کا کرتے ہیں''۔
محمود بن احمد اس کے پاس رک گیا۔ اسی روز امام نے اسے اپنے دونوں محافظوں سے ملا دیا۔
شام کو جب سعدیہ مسجد میں امام کے لیے کھانا لے کر آئی تو محمود کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور مسکرائی۔ محمود نے پوچھا… ''میرے لیے کھانا نہیں لائو گی؟'' سعدیہ کھانا امام کے حجرے میں رکھ کر دوڑی گئی اور روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں بکریوں کا دودھ بھی لے آئی۔ وہ چلی گئی تو امام نے محمود سے کہا… ''یہ علاقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہے۔ ذہین بھی ہے اور کم عمر بھی۔ اس کا سودا ہورہا ہے''۔
''سودا یا شادی؟''
''سودا''… امام نے کہا… ''تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی شادی دراصل سودا ہوتا ہے مگر سعدیہ کا سیدھا سودا ہورہا ہے۔ ہمیں اس کے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن خریدار مشکوک لوگ ہیں۔ وہ یہاں کے رہنے والے نہیں۔ یہ وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو مجھے دھمکی دے گئے ہیں۔ تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگ کر ہمارے خلاف استعمال کریں گے۔ اس لیے اسے بچانا ضروری ہے اور اس لیے بھی اسے بچانا ضروری ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے۔ ہمیں سلطنت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بچیوں کی عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ سودا نہیں ہوسکے گا۔ سعدیہ کے باپ کو میں نے اپنا مرید بنا رکھا ہے لیکن وہ غریب اور تنہا آدمی ہے اور رسم ورواج سے بھاگ بھی نہیں سکتا۔ بہرحال سلطنت اور سعدیہ کی عصمت کے محافظ ہمارے سوا اور کوئی نہیں''۔
اس کے بعد محمود امام کا شاگرد بن گیا۔ دن گزرنے لگے اور اس کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں۔ لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا۔ ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ اس کے لیے وہ اجنبی تھے۔ انہوں نے اس طرح
: کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں۔ لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا۔ ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں۔ سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی۔ اس کے لیے وہ اجنبی تھے۔ انہوں نے اس طرح آکر دیکھا تھا جس طرح گائے، بھینس کو خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے۔ سعدیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی۔ اسے عرب کا کوئی دولت مند تاجر یا کوئی امیر یا وزیز اپنے حرم میں رکھ کر قید کرلے گا۔ جہاں وہ اپنا گھر بسائے بغیر بوڑھی ہوکر مر جائے گی یا اسے ناچنا سکھا کر تفریح کی چیز بنا لیا جائے۔ اس نے اپنے گائوں کے فوجیوں سے ایسی لڑکیوں کے بہت قصے سنے تھے۔ وہ اتنے پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی ذہین تھی اور اپنا برا بھلا سوچ سکتی تھی۔ اس نے محمود کو دیکھا تو اسے دل میں بٹھا لیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ محمود اسے چاہنے لگا ہے تو اس نے دل میں یہ ارادہ پختہ کرلیا کہ وہ فروخت نہیں ہوگی۔ وہ جانتی تھی کہ خریداروں سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک روز اس نے محمود سے پوچھا… ''تم مجھے خرید نہیں سکتے؟''
''خرید سکتا ہوں''… محمود نے کہا… ''لیکن میں جو قیمت دوں گا وہ تمہارے باپ کو منظور نہیں ہوگی''۔
''کتنی قیمت دوگے؟''
''میرے پاس دینے کے لیے اپنے دل کے سوا کچھ بھی نہیں''… محمود بن احمد نے جواب دیا… ''معلوم نہیں تم دل کی قیمت جانتی ہو یا نہیں''۔
''اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو میرے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے''… سعدیہ نے کہا… ''تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرے باپ کو یہ قیمت منظور نہیں ہوگی لیکن میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میرا باپ مجھے بیچنا بھی نہیں چاہتا، اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ غریب ہے اور اکیلا ہے۔ میراکوئی بھائی نہیں، میرے خریداروں نے میرے باپ کو دھمکی دی ہے کہ اس نے ان کی قیمت قبول نہ کی تو وہ مجھے اغوا کرلیں گے''۔
''تمہارا باپ اتنی زیادہ قیمت کیوں قبول نہیں کرتا؟''… محمود نے پوچھا… ''لڑکیوں کو بیچنے کا تو یہاں رواج ہے''۔
''باپ کہتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں لگتے''… سعدیہ نے کہا… ''میں نے بھی باپ سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی غیرمسلم کے پاس نہیں جائوں گی''… اس نے بیتاب ہوکر کہا… ''تم اگر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتو میں ابھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی''۔
''میں تیار ہوں''… محمود نے کہا۔
''توچلو''… سعدیہ نے کہا… ''آج ہی رات چلو''۔
''نہیں''… محمود کے منہ سے نکل گیا… ''میں اپنا فرض پورے کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاسکتا''۔
''کیسا فرض؟''… سعدیہ نے پوچھا۔
محمود بن احمد چونکا۔ وہ سعدیہ کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کا فرض کیا ہے۔ اس نے منہ سے نکلی ہوئی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ اس کے پیچھے پڑ گئی۔ محمود کو اچانک یاد آگیا۔ اس نے کہا … ''میں امام سے مذہبی تعلیم لینے آیا ہوں۔ اس کی تکمیل کے بغیر میں کہیں نہیں جائوں گا''
''اس وقت تک مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچا دیا جائے گا''… سعدیہ نے کہا۔
محمود فرض کو ایک لڑکی پر قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوسکا۔ اس کے دل میں یہ شک بھی پیدا ہوا کہ یہ لڑکی دشمن کی جاسوس بھی ہوسکتی ہے جسے اسے بے کار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ لہٰذا اس نے سعدیہ کے متعلق چھان بین کرنا ضروری سمجھا۔
٭ ٭ ٭
صلاح الدین ایوبی کی فوج قاہرہ سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ فوج مشتعل ہے اور مصر کی فوج پر ٹوٹ پڑے گی۔ سلطان ایوبی نے وہاں پڑائو کا حکم دے دیا اور سپاہیوں میں گھومنے پھرنے لگا۔ وہ خود سپاہیوں کے جذبات کا جائزہ لینا چاہتا تھا۔ وہ ایک سوار کے پاس رکا تو کئی سوار اور پیادہ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس نے ان کے ساتھ غیرضروری سی باتیں کیں تو ایک سوار بول پڑا۔ اس نے پوچھا… ''گستاخی معاف سالاراعظم! یہاں پڑائو کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم شام تک قاہرہ پہنچ سکتے تھے''۔
''تم لوگ لڑتے لڑتے آئے ہو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں تمہیں اس کھلے صحرا میں آرام دینا چاہتا ہوں''۔
''ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑنے جارہے ہیں''… سوار نے کہا۔
''لڑنے جارہے ہیں؟''… سلطان ایوبی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا… ''میں تو تمہیں قاہرہ لے جارہا ہوں، جہاں تم اپنے دوستوں سے ملوگے''۔
''وہ ہمارے دشمن ہیں''… سوار نے کہا… ''اگر یہ سچ ہے کہ ہمارے دوست بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے دشمن ہیں''۔
''صلیبیوں سے بدترین دشمن''… ایک اور سپاہی نے کہا۔
''کیا یہ سچ نہیں سالاراعظم کہ قاہرہ میں غداری اور بغاوت ہورہی ہے؟''… کسی اور نے پوچھا۔
''کچھ گڑبڑ سنی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں مجرموں کو سزا دوں گا''۔
: ''آپ پوری فوج کو کیا سزا دیں گے؟''… ایک سوار نے کہا… ''سزا ہم دیں گے، ہمیں کمان داروں نے قاہرہ کے سارے حالات بتا دیئے ہیں۔ ہمارے ساتھی شوبک اور کرک میں شہید ہوئے ہیں۔ دونوں شہروں کے اندر ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوئی ہے اور کرک میں ابھی تک ہورہی ہے۔ ہمارے ساتھی قلعے کی دیواروں سے دشمن کی پھینکی ہوئی آگ میں زندہ جل گئے ہیں۔ قبلہ اول پر کافروں کا قبضہ ہے اور ہماری فوج قاہرہ میں بیٹھی عیش کررہی ہے۔ آپ کے خلاف بغاوت کی تیاری کررہی ہے، جنہیں شہیدوں کا پاس نہیں، اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کا خیال نہیں، انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں۔ ہم جانتے ہیں وہ اسلام کے دشمن کے دوست بن گئے ہیں۔ ہم جب تک غداروں کی گردنیں اپنے ہاتھوں نہیں کاٹیں گے ہمیں شہیدوں کی روحیں معاف نہیں کریں گے۔ ذرا ان زخمیوں کودیکھئے، جنہیں ہم اپنے ساتھ لارہے ہیں کسی کی ٹانگ نہیں، کسی کا بازو نہیں۔ کیا یہ اس لیے ساری عمر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہمارے ساتھی اور ہمارے دوست دشمن کے ہاتھ میں کھیلیں؟''۔
''ہم انہیں اپنے ہاتھوں سزا دیں گے''… اور پھر ایسا شور سپا ہوگیا کہ ساری فوج وہاں جمع ہوگئی۔ صلاح الدین ایوبی کے لیے اس جوش وخروش پر قابو پانا مشکل ہوگیا۔ وہ سپاہیوں کے جوش اور جذبے کو سرد کرکے ان کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے انہیں صبرو تحمل کی تلقین کی۔ کوئی حکم نہ دیا۔ اپنے خیمے میں گیا۔ مشیروں اور نائبین کو بلا کر کہا کہ یہ فوج اگلے حکم تک یہیں پڑائو کرے گی۔ اس نے کہا… ''میں نے دیکھ لیا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی، فوج کا آپس میں ٹکرا جانا دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے۔ میں آج رات قاہرہ جارہا ہوں۔ کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ سپاہیوں کے جوش کو سرد کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے''۔
اس نے ضروری احکام اور ہدایات دے کر کہا۔ ''ہماری قاہرہ والی فوج جو بغاوت پر آمادہ ہے، میری نظر میں بے گناہ ہے اور ہماری قوم کے وہ نوجوان جو جوئے اور ذہنی عیاشی کے عادی ہوتے جارہے ہیں، وہ بھی بے گناہ ہیں۔ فوج کو ہمارے اعلیٰ حکام نے غلط باتیں بتا کر بھڑکایا ہے۔ انہی حکام کے ایماء پر دشمن نے ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ذہنی عیاشی کے سامان پھیلائے ہیں۔ اس اخلاقی تباہ کاری کو فروغ صرف اس لیے حاصل ہوا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے وہ حکام جنہیں اس تخریب کاری کو روکناتھا، وہ اسے پھیلانے میں شریک ہیں۔ دشمن انہیں اجرت دے رہا ہے، جب کسی قوم کے سربراہ اور امراء دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے۔ ہماری فوج سوڈان کے ظالم صحرا میں بکھری ہوئی لڑرہی ہے، کٹ رہی ہے، سپاہی بھوکے اور پیاسے مرررہے ہیں اور ہمارے حاکم ان کی کمک، رسد اور ہتھیار روکے بیٹھے ہیں۔ کیا یہ دشمن کی سازشیں نہیں جسے ہمارے اپنے بھائی کامیاب کررہے ہیں؟ اس سے دشمن ایک فائدہ اٹھا رہا ہے کہ تقی الدین اور اس کے وہ عسکری جو جذبہ جہاد سے لڑ رہے ہیں، وہ مررہے ہیں اور نوبت ہتھیار ڈالنے تک آگئی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہماری قوم کو بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری فوج شکست کھا گئی ہے کیونکہ یہ اسی قابل تھی۔ ہمارے بعض بھائی مصر کی امارت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ وہ سب سے پہلے فوج کو قوم کی نظروں میں رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ من مانی کرسکیں۔ مجھے امارت کے ساتھ چپکے رہنے کی کوئی خواہش نہیں اگر میرے مخالفین میں سے کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ میرے عزم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا تو میں اس کی فوج میں سپاہی بن کر رہوں گا مگر ایسا کون ہے؟ یہ لوگ اپنی باقی زندگی بادشاہ بن کر گزارناچاہتے ہیں، خواہ دشمن کے ساتھ سازباز کرکے بادشاہی ملے اور میں اپنی زندگی میں قوم کو اس مقام پر لانا چاہتا ہوں، جہاں وہ اپنے دین کے دشمنوں کے سرپر پائوں رکھ کر بادشاہی کرے۔ ہمارے ان لالچی اور غدار حاکموں کی نظر اپنے حال پر اپنے آج پر ہے۔ میری نظر قوم کے مستقبل پر ہے''۔
اس نے بولتے بولتے توقف کیا اور کہا… ''میرا گھوڑا فوراً تیار کرو''… اس نے ان افراد کے نام لیے جنہیں اس کے ساتھ جانا تھا۔ اس نے کہا … ''نہایت خاموشی سے ان سب کو بلائو اور انہیں قاہرہ چلنے کے لیے کہو۔ میرا خیمہ یہیں لگا رہنے دو تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں یہاں نہیں ہوں''… اس نے گہرا سانس لیا اور کہا… ''میں آپ کو سختی سے ذہن نشین کراتا ہوں کہ جو فوج بغاوت کے لیے تیار ہے، میں اس کے خلاف
: کوئی کارروائی نہیں کروں گا۔ تم میں سے کوئی بھی اس فوج کے خلاف کدورت نہ رکھے۔ اسی طرح اپنے نوجوانوں کو بھی قابل نفرت نہ سمجھنا۔ میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا جو فوج اور قوم کو گمراہ اور ذلیل کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ یہی فوج جب اپنے دشمن کے سامنے آئے گی اور دشمن اس کا تیروں سے استقبال کرے گا تو فوج کو یاد آئے گا کہ وہ اللہ کی فوج ہے۔ دماغ سے بغاوت کے کیڑے نکل جائیں گے۔ آپ جب اپنے بچوں کو اپنے دین کا دشمن دکھائیں گے تو ان کا ذہن ازخود جوئے سے ہٹ کر جہاد کی طرف آجائے گا۔ میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کی بقاء اور وقار فوج کے بغیر ممکن نہیں۔ میں صلیبیوں اور یہودیوں کے عزائم اور ان کے طرز جنگ اور ان کی زمین دوز کارروائیوں کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسلام کی فوج کو کمزور کرکے اسلام کا خاتمہ کریں گے جس رو زاور جس دور میں کسی بھی مسلمان ملک کی فوج کمزور ہوگئی، وہ ملک اپنی آزادی اور اپنا وقار کھو بیٹھے گا۔ کسی بھی دور میں کوئی مسلمان مملکت مضبوط اور باوقار فوج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی۔ ہمارا آج کا غلط اقدام اسلام کے مستقبل کو تاریک کردے گا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ آنے والی نسلیں ہماری لغزشوں، ناکامیوں اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں''۔
''امیرمصر!''… ایک مشیر نے کہا… ''اگر ہمارے بھائی غداری کے فن میں ہی مہارت حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسلیں غلام ہوں گی۔ انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور قومی وقار کیا ہے۔ کیا ہمارے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟''
''قوم کا ذہن بیدار کرو''… سلطان ایوبی نے کہا… ''قوم کو رعایا نہ کہو، قوم کا ہر فرد اپنی جگہ بادشاہ ہوتا ہے۔ کسی بھی فرد کو قومی وقار سے محروم نہ کرو۔ ہمارے امراء اور حاکموں میں چونکہ بادشاہ اور خلیفہ بننے کا جنون سوار ہے۔ اس لیے وہ قوم کو رعایا بنا کر اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ یاد رکھو، قوم جسموں کا مجموعہ نہیں، جسے تم مویشیوں کی طرح ہانگتے پھرو۔ قوم میں دماغ بھی ہے، روح بھی ہے اور قومی وقار بھی ہے۔ قوم کی ان خوبیوں کو ابھارو تاکہ قوم خود سوچے کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے۔ اچھا کون اور برا کون ہے۔ اگر قوم محسوس کرے کہ صلاح الدین ایوبی سے بہتر امیر موجود ہے جو سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ اسے سمندروں سے پار بھی وسعت دے سکتا ہے تو قوم کا کوئی بھی فرد مجھے راستے میں روک لے اور جرأت سے کہے کہ صلاح الدین ایوبی! تم یہ مسند خالی کردو، ہم نے تم سے بہتر آدمی ڈھونڈ لیا ہے۔ قوم میں یہ سوچ بھی اور جرأت بھی اور مجھ میں فرعونیت نہ ہو کہ اپنے خلاف بات کرنے والے کی گردن مار دوں۔ مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ ملت اسلامیہ ایسے ہی فرعونوں کی نذر ہوجائے گی۔ قوم کو رعایا اور مویشی بنادیا جائے گا پھر مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے یا برائے نام مسلمان ہوں گے۔ مذہب تو شاید ان کا یہی رہے گا مگر تہذیب وتمدن صلیبیوں کا ہوگا''۔
اتنے میں ایک محافظ نے اندر آکر بتایا کہ گھوڑا تیار ہے اور جن تین چار نائب سالاروں کو بلایا گیا تھا، وہ بھی آگئے ہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھ چار محافظ لیے۔ باقی محافظ دستے سے کہا کہ وہ اس کے خالی خیمے پر پہرہ دیتے رہیں اور کسی کو پتا نہ چلنے دیں کہ وہ یہاں نہیں ہے۔ اس نے اپنے ساتھ جانے والے عملے سے کہا کہ وہ خاموشی سے فلاں جگہ پہنچ جائیں، وہ ان سے آملے گا۔ اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور باہر نکل گیا
٭ ٭ ٭
صحرا تاریک تھا۔ چودہ گھوڑے سرپٹ دوڑے جارہے تھے۔ صلاح الدین ایوبی تاریکی چھٹنے سے پہلے قاہرہ پہنچ جانا چاہتا تھا۔ علی بن سفیان کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس کی فوج پڑائو میں گہری نیند سوگئی تھی۔ جاگنے والے سنتریوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کا سالار اعلیٰ نکل گیا ہے۔ قاہرہ والوں کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سلطان ایوبی مصر میں داخل ہوچکا ہے… رات کا پچھلا پہر تھا، جب سلطان ایوبی کا قافلہ قاہرہ میں داخل ہوا۔ اسے کسی سنتری نے نہ روکا، وہاں کوئی سنتری تھا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''یہ ہے بغاوت کی ابتدائ۔ شہر میں کوئی سنتری نہیں۔ فوج سوئی ہوئی ہے، بے پروا، بے نیاز، حالانکہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور دشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے''۔
اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہی ایک لمحہ آرام کیے بغیر اس نے مصر کے قائم مقام سالار اعلیٰ کو بلا لیا۔ الادریس کو بھی بلا لیا جس کے دونوں جوان بیٹوں کو غداروں نے دھوکے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا۔ قائم مقام سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ سلطان ایوبی نے الادریس سے افسوس کا اظہار کیا۔ الادریس نے کہا… ''میرے بیٹے میدان جنگ میں جانیں دیتے تو مجھے خوشی ہوتی۔ وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں''… اس نے کہا… ''یہ وقت میرے بیٹوں کے ماتم
کرنے کا نہیں، آپ نے مجھے کسی اور مقصد کے لیے بلایا تھا۔ حکم فرمائیں''۔
قائم مقام سالار اعلیٰ محب اسلام تھا۔ ان دونوں سے سلطان ایوبی نے قاہرہ کے اندرونی حالات کے متعلق تفصیلی رپورٹ لی اور پوچھا کہ ان کی نظر میں کون کون سے حاکم مشتبہ ہیں۔ وہ فوجی حکام کے متعلق خاص طور پر پوچھ رہا تھا۔ اسے چند ایک نام بتائے گئے۔ اس نے احکام دینے شروع کردیئے جن میں اہم یہ تھے کہ مشتبہ حکام کو قاہرہ میں مرکزی کمان میں رہنے دیا جائے اور تمام فوج کو سورج نکلنے سے پہلے کوچ کی تیاری میں جمع کرلیا جائے اور بھی بہت سی ہدایات دے کر سلطان ایوبی نے ایک پلان تیار کرنا شروع کردیا۔ کچھ ہدایات علی بن سفیان کو دے کر اسے فارغ کردیا۔ کچھ دیر بعد فوج کے کیمپ میں ہڑبونگ مچ گئی۔ فوج کو قبل از وقت جگا لیا گیا تھا۔ فوج اور انتظامیہ کے مشتبہ حکام کو صلاح الدین ایوبی کے ہیڈکوارٹر میں بلا لیا گیا تھا۔ وہ حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے۔ انہیں اتنا ہی پتا چلا تھا کہ سلطان ایوبی آگیا ہے۔ انہوں نے اس کا گھوڑا بھی دیکھ لیا تھا لیکن انہیں سلطان ایوبی نظر نہیں آرہا تھا اور سلطان ایوبی انہیں ابھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ اس نے انہیں کوچ تک فوج سے الگ رکھنے کا بندوبست کردیا تھا۔ یہی اس کا مقصد تھا۔
ابھی صبح کی روشنی صاف نہیں ہوئی تھی۔ فوج ترتیب سے کھڑی کردی گئی۔ پیادوں اور سواروں کی صفوں کے پیچھے رسد اور دیگر سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے۔ سلطان ایوبی نے فوج کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی تھی کہ جب بھی فوج کوچ کا حکم ملے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر اندر مع رسد اور دیگر سامان کے قافلے کے ساتھ تیار ہوجائے۔ اسی ٹریننگ اور مشق کا کرشمہ تھا کہ فوج طلوع صبح کے ساتھ ہی کوچ کے لیے تیار ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا۔ اس کے ساتھ مصر کا قائم مقام سالار اعلیٰ بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے فوج کو ایک نظر دیکھا اور ایک صف کے سامنے سے گزرنے لگا۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے منہ سے باربار یہ الفاظ نکلتے تھے… ''آفرین، صد آفرین۔ اسلام کے پاسبانو تم پر اللہ کی رحمت ہو''… صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا اپنا ایک اثر تھا جسے ہر ایک سپاہی محسوس کررہا تھا۔ اس کے ساتھ اس کی مسکراہٹ اور دادو تحسین کے کلمے سپاہیوں پر اس اثر کو اور زیادہ گہرا کررہے تھے۔ امیر اور سالار اعلیٰ کا سپاہیوں کے اتنا قریب جانا ہی کافی تھا۔
تمام فوج کا معائنہ کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مکمل طور پر بلند آواز سے فوج سے خطاب کیا۔ اس وقت کی تحریروں میں اس کے جو الفاظ محفوظ ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھے… ''اللہ کے نام پر کٹ مرنے والے مجاہدو! اسلام کی ناموس تمہاری تلواروں کو پکار رہی ہے۔ تم نے شوبک کا مضبوط قلعہ جو کفر کا سب سے زیادہ مضبوط مورچہ تھا، ریت کا ٹیلہ سمجھ کر توڑ ڈالا تھا۔ تم نے صلیبیوں کو صحرائوں میں بکھیر کر مارا اور جنت الفردوس میں جگہ بنا لی ہے۔ تمہارے ساتھ، تمہارے عزیز دوست تمہارے سامنے شہید ہوئے۔ تم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا۔ ان چھاپہ مار شہیدوں کو یاد کرو جو دشمن کی صفوں کے پیچھے جاکر شہید ہوئے۔ تم ان کا جنازہ نہ پڑھ سکے۔ ان کی لاشیں بھی نہ دیکھ سکے۔ تم تصور کرسکتے ہو کہ دشمن نے ان کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا۔ شہیدوں کے یتیم بچوں کو یاد کرو۔ ان کی بیویوں کو یاد کرو جن کے سہاگ خدا کے نام پر قربان ہوگئے ہیں۔ آج شہیدوں کی روحیں تمہیں للکار رہی ہیں۔ تمہاری غیرت کو اور تمہاری مردانگی کو پکار رہی ہیں۔ دشمن نے کرک کے قلعے کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ تمہارے کئی ساتھی دیواروں سے پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے ہیں، تم اگر وہ منظر دیکھتے تو سرکی ٹکروں سے قلعے کی دیواریں توڑ دیتے۔ وہ آگ میں جلتے رہے اور دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہے۔ موت نے انہیں مہلت نہ دی…''
''عظمت اسلام کے پاسبانو! کرک کے اندر تمہاری بیٹیوں اور تمہاری بہنوں کی عصمت دری ہورہی ہے۔ بوڑھوں سے مویشیوں کی طرح مشقت لی جا رہی ہے۔ جوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔ مائوں کو بچوں سے الگ کردیا گیا ہے مگر میں کہ جس نے پتھروں کے قلعے توڑے ہیں، مٹی کا قلعہ سر نہیں کرسکا۔ میری طاقت تم ہو، میری ناکامی تمہاری ناکامی ہے''… اس کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔ اس نے بازو اوپر کرکے کہا… ''میرا سینہ تیروں سے چھلنی کردو، میں ناکام لوٹا ہوں مگر میری جان لینے سے پہلے میرے کان میں یہ خوشخبری ضرور ڈالنا کہ تم نے کرک لے لیا ہے اور اپنی عصمت بریدہ بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا ہے''۔
اس وقت کا ایک وقائع نگار الاسدی لکھتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑے اپنے سواروں کی جذباتی کیفیت کو سمجھتے تھے۔ سوار خاموش تھے لیکن کئی گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے، تڑاخ تڑاخ کی آوازیں سنائی دیں۔ سوار باگوں کو زور زور سے جھٹک کر اپنی بیتابی اورجذبہ انتقام کی شدت کا اظہار کررہے تھے۔ ۔ ان کی زبانیں خاموش تھیں۔ ان کے چہرے لال سرخ ہوکر ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ تیروں کی طرح ان کے دلوں میں اترتے جارہے تھے۔ بغاوت کی چنگاریاں بجھ چکی تھیں۔ سلطان ایوبی کامقصد پورا ہورہا تھا۔
''سلطنت اسلامیہ کی عصمت کے محافظو! تم کفار کے لیے دہشت بن گئے ہو، تمہاری تلواروں کو کند کرنے کے لیے آج صلیبی اپنی بیٹیوں کی عصمت اور حشیش استعمال کررہے ہیں۔ تم نہیں سمجھتے کہ صلیبی اپنی ایک بیٹی کی عصمت لٹا کر ایک ہزار مجاہدین کو بے کار کردیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں اپنی ایک بیٹی کے بدلے ہماری ایک ہزار بیٹیوں کو بے آبرو کرتے ہیں۔ تمہارے درمیان ایک فاحشہ عورت بھیج کر ہماری سینکڑوں بیٹیوں کو فاحشہ بنا لیتے ہیں۔ جائو اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچائو۔ تم کرک جارہے ہو جس کی دیواروں کے گھیرے میں قرآن کے ورق بکھرے ہوئے ہیں اور جہاں کی مسجدیں صلیبیوں کے لیے بیت الخلا بن گئی ہیں۔ وہ صلیبی جو تمہارے نام سے ڈرتے ہیں، آج تم پر قہقہے لگا رہے ہیں۔ شوبک تم نے لیا تھا اور کرک بھی تم ہی لوگے''۔
سلطان ایوبی نے فوج پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ گمراہ ہوگئی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے۔ اس نے کسی کے خلاف شک وشبے کا اشارہ بھی نہیں کیا۔
جاری ھے ،
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں