صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔50۔ جب خزانہ مل گیا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
قدومی اس سے واقف نہیں تھی۔ رونے کی آوازیں بدستور آرہی تھیں اور ان کے تیسرے ساتھی کی چیخوں کی گونج اس طرح بھٹک رہی تھی جیسے اوپر جاکر ان کے اوپر منڈلا رہی ہو… دیوار کچھ چوڑی ہوگئی۔ مارکونی نے گھوم کر اپنے ساتھی کا ہاتھ پکڑا اور اسے اوپر کرلیا۔ آگے وہ ذرا اطمینان سے چل سکتے تھے لیکن ہوا کے جھونکے اتنے تیز تھے کہ ان کے لیے توازن قائم رکھنا ذرا مشکل تھا۔ وہ آہستہ آہستہ بڑھتے گئے اور دیوار ختم ہوگئی۔ آگے زمین اور پہاڑیاں کچھ سخت تھیں۔ دو چٹانوں کے درمیان تنگ سا راستہ تھا۔ وہ اس میں داخل ہوگئے۔ مارکونی کے ساتھی نے اس سے پوچھا… ''جیفرے مرچکا ہوگا؟ اسے بچایا یا دیکھا نہیں جاسکتا؟''
مارکونی نے اس کی طرف دیکھا۔ آہ بھری اور نفی میں سرہلایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے کچھ کہے بغیر اپنے ساتھی کے کندھے پر تھپکی دی اور آگے چل پڑا۔ یہ بھی ایک گلی سی تھی جو فراخ ہوتی جارہی تھی۔ مارکونی نے اپنے ساتھی سے کہا… ''ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم جہاں جاتے ہیں وہاں ایک ہی راستہ ملتا ہے۔ ایک سے زیادہ راستے ہوں تو بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے''۔
یہ گلی ختم ہوگئی۔ آگے جگہ کشادہ ہوتے ہوتے بہت ہی کھل گئی اور زمین اوپر کو اٹھتی گئی۔ ہوا ابھی تک تیز تھی۔ مارکونی کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس ہیبت ناک علاقے میں کتنی دور اور اندر پہنچ گیا ہے۔ اسے صرف یہ احساس رہ گیا تھا کہ دنیا سے اس کا رشتہ منقطع ہوچکا ہے۔ وہ صلیب کے نام پر دیوانہ ہوا جارہا تھا۔ فرعون کا مدفن تلاش کرنے کا مقصد اس کے سامنے یہی تھا کہ اس سے نکلے ہوئے خزانوں سے مسلمانوں کو خرید کر انہیں سلطنت اسلامیہ کے ہی خلاف استعمال کیا جائے گا اور دنیا میں صلیب کی حکمرانی ہوگی۔ وہ اپنے ڈرے ہوئے ساتھی کے ساتھ آگے بڑھتا گیا۔ ہوا اسی طرف سے آرہی تھی، پہاڑوں کی چوٹیاں دائیں بائیں کوہٹ گئی تھیں اور سامنے آسمان نظر آرہا تھا۔ مارکونی چڑھائی چڑھ رہا تھا، وہ رک گیا اور ہوا کو سونگھ کر بولا… ''تم بھی سونگھو، ہوا میں جو بو ہے وہ صحرا کی نہیں''۔
''تمہارا دماغ جواب دے رہا ہے''۔ اس کے ساتھی نے کہا… ''صحرا میں صحرا کی بو نہیں ہے تو اور کس کی ہے؟ تم اطالوی ہو شاید؟ شاید تمہیں اپنے گھر کی بو آرہی ہے''۔
مارکونی کے چہرے پر کچھ اور تاثر تھا، وہ ہوا کو سونگھ رہا تھا۔ اس نے اپنے ساتھی سے کہا… ''تم شاید ٹھیک کہتے ہو، میرے دماغ پر صحرا کی صعوبت کا اثر ہوگیا ہے۔ یہاں پانی نہیں ہوسکتا۔ میں شاید خیالوں میں کھجوروں، سبزے اور پانی کی بو سونگھ رہا ہوں۔ میں اس بو سے اچھی طرح واقف ہوں۔ یہ میرا تجربہ ہے مگر میرے سونگھنے کی حس مجھے دھوکہ دے رہی ہے۔ اس جہنم میں پانی کی بوند بھی نہیں ہوسکتی''۔
''مارکونی!'' اس کے ساتھی نے اس کا بازو پکڑ کر اسے روک لیا اور کہا… ''میں بھی ایک بو سونگھ رہا ہوں، موت کی بو۔ مجھے موت اپنی طرف بڑھتی ہوئی محسوس ہورہی ہے۔ آئو دوست! جدھر سے آئے ہیں، ادھر ہی لوٹ چلیں اگر تم سمجھتے ہو کہ میں بزدل ہوں تو مجھے میدان جنگ میں بھیج دو۔ ایک سو مسلمانوں کو کاٹنے سے پہلے نہیں مروں گا''۔مارکونی زیادہ باتیں کرنے والا آدمی نہیں تھا۔ اس نے اپنے ساتھی کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور مسکرا کر کہا… ''ہم ایک سو نہیں، ایک ہزار مسلمانوں کو کاٹیں گے اور مریں گے نہیں۔ میرے ساتھ آئو''۔
وہ ساتھی کو لے کر چڑھائی چڑھنے لگا۔ چڑھائی زیادہ اونچی نہیں تھی، زمین آہستہ آہستہ اوپر اٹھ رہی تھی۔ سورج آگے نکل گیا تھا۔ سائے لمبے ہوتے جارہے تھے، ان دونوں کو تھکن نے چور کردیا تھا… وہ آگے کو جھکے ہوئے بڑھتے گئے اور اوپر اٹھی ہوئی انتہائی بلندی تک پہنچ گئے۔ ریت نے اس کی آنکھیں بھر دی تھیں۔ مارکونی نے آنکھیں مل کر دیکھا۔ آگے ڈھلان تھی اور چھوٹی چھوٹی ٹیکریاں۔ وہ ایک نیکری پر چڑھ گیا۔ اس نے اپنے ساتھی کو آواز دی اور بیٹھ گیا۔ اس نے کہا… ''تم اگر ریگستان سے اچھی طرح واقف ہو تو تمہیں معلوم ہوگا کہ سراب نظر آیا کرتے ہیں۔ سامنے دیکھو اور بتائو کہ یہ سراب تو نہیں؟''
اس کے ساتھی نے دیکھا، آنکھیں بند کیں، کھولیں اور غور سے دیکھا۔ اس نے کہا… ''یہ سراب نہیں ہوسکتا''۔ وہ واقعی سراب نہیں تھا۔ انہیں کھجوروں کے کئی ایک درختوں کی چوٹیاں نظر آرہی تھیں۔ پتے ہرے تھے۔ درخت نشیبی جگہ میں معلوم ہوتے تھے اورکچھ دور بھی تھے۔ مارکونی ٹیکری سے آگے چلا گیا۔ وہ اب دوڑ رہا تھا، اس کا ساتھی اس کے پیچھے پیچھے جارہا تھا، وہاں عجیب وغریب شکلوں کی ٹیکریاں تھیں۔ بعض ایسی جیسے کوئی انسان گھنٹوں میں سردے کر بیٹھا ہو۔ کچھ بڑی تھیں، کچھ چھوٹی۔ مارکونی ان میں سے راستہ تلاش کرتا دوڑتا جارہا تھا۔ سورج پہاڑیوں کی چوٹیوں کے قریب چلا گیا۔ ۔ مارکونی کا سانس پھولنے لگا۔ اس کا ساتھی قدم گھسیٹتا جارہا تھا۔ مارکونی اچانک رک گیا اور آہستہ آہستہ یوں پیچھے ہٹنے لگا جیسے اس نے کوئی ڈرائونی چیز دیکھ لی ہو۔ اس کا ساتھی اس سے جاملا اور حیرت سے اسے دیکھنے لگا۔
٭ ٭ ٭
ان دونوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا۔ انہیں ایک نشیب نظر آرہا تھا۔ یہ کم وبیش ایک میل وسیع اور عریض تھا۔ اس کے اردگرد مٹی اور ریت کی اونچی اونچی قدرتی دیواریں تھیں۔ گہرائی کا یہ علاقہ سرسبزتھا۔ کچھ اونچا نیچا بھی تھا، وہاں کھجوروں کے بہت سے درخت تھے۔ صاف ظاہر تھا کہ وہاں پانی کی بہتات تھی۔ ایسے جہنم میں ایسا سرسبز گوشہ فریب نگاہ نہیں تھا۔ وہ اسی خطے کی بو تھی جو مارکونی نے سونگھی تھی۔ مارکونی کو اس جگہ سے کچھ آگے ایسی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں جو ریت اور مٹی کی نہیں بلکہ پتھروں اور پتھریلی سلوں کی تھیں۔ ان کا رنگ سیاہی مائل تھا۔ اس جہنمی خطے کے باہر سے یہ پہاڑیاں نظر نہیں آتی تھیں اور اس سرسبز جگہ کا تو کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
مارکونی نے تیزی سے بیٹھ کر اپنے ساتھی کو بھی بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا۔ انہیں ایک اور عجیب وغریب چیز نظر آگئی تھی۔ یہ دو انسان تھے جو نشیب میں اسی طرف آرہے تھے۔ وہ سر سے پائوں تک ننگے تھے، ان کے رنگ گہرے بادامی اور ان کے چہرے اچھے خاصے تھے۔ کہیں سے ایک عورت نکلی۔ وہ کسی اور طرف جارہی تھی، وہ بھی سر سے پائوں تک ننگی تھی۔ اس کے بال بکھرے ہوئے اور کمر تک لمبے تھے۔ شکل وصورت سے یہ لوگ حبشی اور جنگی نہیں لگتے تھے۔
''یہ بدروحیں ہیں''۔ مارکونی کے ساتھی نے کہا… ''یہ انسان نہیں ہوسکتے۔ مارکونی! سورج غروب ہونے والا ہے، اٹھو، پیچھے کو بھاگ چلیں۔ رات کو یہ ہمیں زندہ نہیں چھوڑیں گے''۔
مارکونی انہیں بدروحیں سمجھتے ہوئے بھی کہہ رہا تھا کہ یہ انسان ہوسکتے ہیں۔ وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ وہ ہوا میں اڑ نہیں رہے تھے، زمین پر چل رہے تھے۔ دور انہیں تین بچے ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔ ان سب کی حرکتیں ایسی تھیں جن سے یقین ہوتا تھا کہ یہ انسان ہیں۔ مارکونی پیٹ کے بل سرکتا آگے چلا گیا۔ اس کا ساتھی بھی اس کے پہلو میں جالیٹا۔ وہ جہاں لیٹ کر دیکھ رہے تھے، وہاں کی دیوار عمودی نہیں کچھ ڈھلانی تھی اور ریت زیادہ تھی۔ مارکونی کے ساتھی نے غالباً اور آگے ہونے کی کوشش کی یا جانے کیا ہوا، وہ نیچے کو سرک گیا اور لڑھکتا ہوا نیچے جاپڑا۔ وہاں سے اوپر آنا ممکن نہیں تھا۔ مارکونی پیچھے کو سرک کر ایک ایسی ٹیکری کی اوٹ میں ہوگیا جہاں سے وہ نیچے دیکھ سکتا تھا۔ یہ ڈھلان جہاں سے صلیبی گرا تھا، تیس چالیس گز اونچی ہوگی۔ مارکونی نے اپنے ساتھی کو اٹھتے دیکھا، وہ ڈھلان پر چڑھنے کی کوشش کرنے لگا۔ مارکونی اس کی کوئی مدد نہیں کرسکتا تھا۔
وہ دو ننگے آدمی جو اسی طرف آرہے تھے، دوڑ پڑے۔ مارکونی نے انہیں اوپر سے دیکھ لیا۔ اس کے ساتھی نے نہ دیکھا، مارکونی اسے آواز نہیں دے سکتا تھا کیونکہ وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہاں کوئی اور انسان بھی ہے۔ ان دو آدمیوں نے مارکونی کے ساتھی کو پیچھے سے دبوچ لیا۔ اس کے پاس خنجر تھا اور ایک چھوٹی تلوار بھی مگر ہتھیار نکالنے کا موقع نہ ملا۔ ان آدمیوں نے اسے نیچے گرالیا۔ وہ عورت جو کہیں جارہی تھی، دوڑتی آئی۔ ادھر سے بچے بھی آگئے۔ انہوں نے اپنی زبان میں کسی کو پکارا۔ معلوم نہیں کہاں سے دس بارہ آدمی سب ننگے تھے، دوڑتے آئے۔ ایک نے مارکونی کے ساتھی کی کمر سے تلوار نکال لی۔ اسے گرالیا گیا اور مارکونی نے دیکھا کہ تلوار سے اس کے ساتھی کی شہ رگ کاٹ دی۔ سب آدمی ناچنے لگے۔ وہ کچھ گا بھی رہے تھے اور ہنس بھی رہے تھے۔ اتنے میں ایک ضعیف العمر انسان آگیا۔ اس کے ہاتھ میں اپنے قد جتنا لمبا عصا تھا۔ اسے دیکھ کر سب ایک طرف ہٹ گئے۔
یہ بوڑھا بھی ننگا تھا۔ اس کے عصا کے اوپر والے سرے پر دو سانپوں کے پھن بنے ہوئے تھے۔ یہ فرعونوں کا امتیازی نشان ہوا کرتا تھا۔ بوڑھے نے مارکونی کے ساتھی کے جسم کو ہاتھ لگایا۔ وہ اب تڑپ نہیں رہا تھا، مرچکا تھا۔ بوڑھے نے ایک ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ کہا۔ تمام ننگے انسان جن میں چند ایک عورتیں بھی تھیں اور بچے بھی، سجدے میں گر پڑے۔ بوڑھا ابھی تک کچھ بول رہا تھا۔ اس نے ہاتھ پھر اوپر کیا اور سب سجدے سے سراٹھا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ بوڑھے کو ڈھلان کی طرف اشارے کرکے بتایا جارہا تھا کہ یہ آدمی ادھر سے نیچے آیا ہے۔ بوڑھے کے اشارے پر وہ لوگ مارکونی کے ساتھی کی لاش کو اٹھا لے مارکونی کو یہ خطرہ نظر آنے لگا کہ یہ پراسرار انسان اوپر آکر ہر طرف دیکھیں گے کہ نیچے گرنے والے کے ساتھی بھی اوپر ہوں گے وہ کچھ دیر وہیں سے نیچے دیکھتا رہا۔
پھر سورج غروب ہوگیا۔ مارکونی نے موت کو قبول کرلیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ اس جگہ اور ان لوگوں کے بھید کو پانے کی کوشش کرے گا۔ اس نے ایک ہاتھ میں خنجر اور دوسرے ہاتھ میں چھوٹی تلوار لے لی اور ادھر ادھر دیکھتا ایک اور سمت چل پڑا۔ شام اندھیری ہوتی جارہی تھی۔ وہ اوپر ہی اوپر سے اس طرف جارہا تھا جس طرف وہ اس کے ساتھی کو لے گئے تھے۔ وہاں کوئی آہٹ اور کوئی آواز نہیں تھی۔ ڈرائونا ساسکوت تھا۔ وہ دائیں بائیں اور پیچھے دیکھتا آگے ہی آگے چلتا گیا۔ وہ نشیب کی گولائی کے ساتھ ساتھ جارہا تھا۔ اسے دھیمی دھیمی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ جب یہ آوازیں بلند ہوگئیں تو یہ ناچنے اور گانے کا ترنم اور ہنگامہ تھا۔ وہ ان آوازوں کی سمت گیا تو اسے ایک اور منظر نظر آیا۔ بائیں طرف ایک اور وسیع نشیبی جگہ تھی۔ کئی مشعلیں جل رہی تھیں، وہاں بھی سبزہ تھا، جہاں کم وبیش پچیس مرد، عورتیں اور بچے آہستہ آہستہ ناچ اور گا رہے تھے۔ ان کے درمیان بہت سی آگ جل رہی تھی۔ اس کے ذرا اوپر ایک انسانی لاش سر اور پائوں سے باندھ کر زمین کے متوازی لٹکائی ہوئی تھی۔ اسے گھمایا جارہا تھا۔ یہ مارکونی کا ساتھی تھا جسے بھونا جارہا تھا۔ مارکونی یہ ہولناک منظر دیکھتا رہا… اور اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ بوڑھے نے اس کے ساتھی کے جسم سے گوشت کاٹ کر سب میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔
مارکونی کے دل پر ایسا گہرا اثر ہوا کہ وہاں سے ادھر کو واپس چل پڑا، جدھر سے آیا تھا۔ اسے راستہ یاد تھا۔ وہ چوکنا ہوکر چلا جارہا تھا۔ وہ اس دیوار پر پہنچا جو تصوروں سے زیادہ گہرے نشیب میں کھڑی تھی۔ یہیں اس کا ایک ساتھی گرا تھا۔ وہ جب دیوار کے درمیان اس جگہ پہنچا جہاں سے اس کا ساتھی گرا تھا، اسے دور نیچے غرانے اور بھونکنے کی دبی دبی آوازیں سنائی دیں۔ وہ سمجھ گیا کہ صحرائی لومڑیاں اس کے ساتھی کو کھا رہی ہیں۔ اس کے دوسرے ساتھی کو تو انسان کھا گئے تھے۔ اب ہوا تیز نہیں تھی۔ وہ تاریکی میں سنبھل سنبھل کر چلتا اور سرکتا دیوار سے گزر گیا… رات کے پچھلے پہر وہ اس جگہ پہنچا، جہاں تین اونٹ بیٹھے تھے۔ اس نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ اونٹوں کے ساتھ بندھا ہوا پانی پی لیتا۔ وہ ایک اونٹ پر بیٹھا۔ دو اونٹوں کو ساتھ لیا اور چل پڑا۔
٭ ٭ ٭
وہ اگلے دن کی شام تھی جب مارکونی ایک معزز مصری سودا گر کے روپ میں احمر درویش کے گھر میں داخل ہوا۔ احمر نے اسے دیکھتے ہی پوچھا… ''تم اکیلے ہو، وہ دونوں کہاں ہیں؟''
مارکونی جواب دینے کے بجائے بیٹھ گیا۔ اس کے تو ہوش ہی ٹھکانے معلوم نہیں ہوتے تھے۔ اس نے احمر کو اپنے سامنے بٹھا لیا اور اسے ایک ایک لمحے لمحے اور ایک ایک قدم کی روئیداد سنائی۔ احمر کو مارکونی کے دو ساتھیوں کے مرنے کا ذرہ بھر افسوس نہ ہوا۔ اس نے جب سنا کہ ایک ساتھی کو ننگے آدم خوروں نے کھا لیا ہے تو اس نے خوشی سے اچھل کر پوچھا… ''کیا تم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ ان میں سے کسی کے بھی جسم پر کپڑا نہیں تھا؟… بوڑھے کے عصا پر دو سانپوں کے پھن تم نے دیکھے تھے؟… تم نے اچھی طرح دیکھا تھا کہ ان لوگوں نے ہمارے آدمی کا گوشت کھالیا تھا؟''
''میں خواب کی باتیں نہیں سنا رہا''۔ مارکونی نے جھنجھلا کر کہا… ''مجھ پر جو بیتی ہے، میں وہ سنا رہا ہوں۔ میں نے یہ اپنی آنکھوں دیکھا ہے جو سنا رہا ہوں''۔
''فرعون بھی یہی سنا رہے ہیں جو تم نے سنایا ہے''۔ احمر درویش نے اٹھ کر مارکونی کے کندھوں پر ہاتھ رکھا اور اسے مسرت کی شدت سے جھنجھوڑتے ہوئے کہا… ''تم نے بھید پالیا ہے۔ مارکونی! یہی ہیں وہ لوگ جن کی مجھے تلاش تھی۔ یہ قبیلہ سولہ صدیوں سے وہاں آباد ہے۔ یہ لوگ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ زمانہ انہیں انسان کا گوشت کھانے پر مجبور کردے گا۔ تم یہ تحریریں نہیں پڑھ سکتے۔ میں نے پڑھ لی ہیں۔ لکھا ہے کہ خزانوں کی حفاظت سانپ کیا کرتے ہیں لیکن میرے مدفن کی حفاظت انسان کریں گے جو صدیوں بعد سانپ اور درندے بن جائیں گے۔ میرے مدفن کی حدود میں کوئی انسان داخل ہوگا اسے میرے محافظ کھاجایا کریں گے۔ وقت اور زمانہ انہیں ننگا کردے گا لیکن میں نے جہاں اپنا دوسری دنیا کا گھر بنایا ہے وہ جگہ اس کی ستر پوشی کرے گی۔ باہر کا کوئی مردان کی عورت پر نظر نہیں ڈال سکے گا جو نظر ڈالے گا وہ وہاں سے زندہ نہیں جاسکے گا''۔
''میں زندہ واپس آگیا ہوں''۔ مارکونی نے کہا۔
''اس لیے کہ تم نیچے نہیں گئے''۔ احمر نے کہا… ''تم نے جن سیاہ رنگ کے پتھریلے پہاڑوں کا ذکر کیا ہے، وہ پہاڑ اپنے دامن میں کہیں ریمینس کی حنوط کی ہوئی لاش اور خزانے چھپائے ہوئے ہیں… اور یہ ننگے لوگ؟… ان کے آبائو اجداد اور ریمنس کے وقت سے وہاں پہرہ دے رہے ہیں۔ اور پندرہ سولہ صدیاں گزر گئیں۔ میں بتا نہیں سکتا کہ وہ زندہ کس طرح رہتے ہیں۔ شاید درندوں کی طرح صحرا کے مسافروں کے شکار میں رہتے اور انہیں بھون کر کھالیتے ہیں، وہاں پانی کی افراط ہے۔ کھجوروں کی کمی نہیں۔ ان کا زندہ رہنا حیران کن نہیں، وہ آج بھی فرعونوں کو خدا سمجھتے ہیں اگر ان کے عقیدے ٹوٹ چکے ہوتے تو وہ وہاں نہ ہوتے… تم نے ان کے پاس کوئی ہتھیار دیکھے تھے؟''
''نہیں!''۔
''ان کی تعداد کا کچھ اندازہ''۔
''رات کو جب اکٹھے تھے تو پچیس تھے''۔
''وہ اس سے زیادہ ہو بھی نہیں سکتے''۔ احمر درویش نے کہا۔
''ہاں!'' مارکونی نے کہا… ''میں نے ان کے پاس دو اونٹ بھی دیکھے تھے۔ اونٹ زیادہ بھی ہوسکتے ہیں مگر میں نے صرف دو دیکھے تھے''۔
''پھر وہ باہر آتے ہوں گے''۔ احمر درویش نے کہا… ''وہ باہر ضرور آتے ہوں گے۔ مسافروں کو پکڑنے کے لیے انہیں باہر آنا ہی پڑتا ہوں… سنو مارکونی! غور سے سنو۔ وہاں کوئی ایسا سیدھا راستہ ضرور ہے جس سے وہ باہر آتے اور اندر جاتے ہوں گے۔ یہ پہاڑوں کا کوئی خفیہ راستہ ہوگا۔ میں نے تمہیں جو راستہ بتایا تھا۔ وہ آنے جانے کا ایسا راستہ نہیں جس سے بار بار آیا جایا جاسکے۔ وہاں کوئی اور راستہ ہے جو ان ننگے آدم خوروں سے معلوم کیا جاسکتا ہے۔ میں اس کی ترکیب سوچ چکا ہوں۔ ترکیب یہ ہے کہ وہاں باقاعدہ حملہ کیا جائے۔ ہوسکتا ہے ہمیں اس دیوار نما ٹیلے سے جس سے تمہارے ایک ساتھی گر کر مرا ہے اور آدمی گرا کر مارنے پڑیں لیکن یہ قربانی ضروری ہے۔ بتائو پچیس تیس نہتے آدمیوں کو جن میں بچے اور عورتیں بھی ہیں مارنے کے لیے اور ان میں دو تین کو زندہ پکڑنے کے لیے تمہیں کتنے آدمی درکار ہیں؟ کم سے کم بتائو۔ تم ان آدمیوں کے رہنما اور سربراہ ہوگے''۔
''میں ترکیب سمجھ گیا ہوں''۔ مارکونی نے کہا… ''ایک ترکیب میرے دماغ میں بھی آئی ہے۔ ہم انہیں قتل کرسکتے ہیں۔ دو تین کو زندہ پکڑ سکتے ہیں لیکن میں آپ کو یہ یقین نہیں دلا سکتا کہ وہ اس جگہ کے تمام بھید ہمیں بتا دیں گے۔ اپنے قبیلے کو مرتا دیکھ کر وہ بھی مرنے کے لیے تیار ہوجائیں گے لیکن بتائیں گے کچھ نہیں۔ میں ایسی ترکیب کروں گا کہ ان میں سے ایک دو آدمی باہر کو بھاگ اٹھیں اور ان کا تعاقب کیا جائے۔ راستہ معلوم ہوجائے گا''۔
''تم دانشمند ہو مارکونی!'' … احمر درویش نے کہا… ''بتائو کتنے آدمی ہوں؟''
''پچاس!'' مارکونی نے جواب دیا اور کہا… ''زیادہ تر آدمی میرے منتخب کیے ہوئے ہوں گے۔ میں انہیں تلاش کرلوں گا مگر مہم کے آغاز سے پہلے میں اپنی شرطیں پیش کرنا چاہتا ہوں''۔
''تمہیں منہ مانگا انعام ملے گا''۔ احمر نے کہا۔
''مجھے خزانے سے حصہ ملنا چاہیے''۔ مارکونی نے کہا… ''اتنی خطرناک مہم میرے فرائض میں شامل نہیں۔ میں جاسوس اور تخریب کار ہوں۔ مجھے خزانے کی تلاش کے لیے نہیں بھیجا گیا۔ یہ آپ کی ذاتی مہم ہے۔ میں انعام نہیں منہ مانگا حصہ لوں گا۔ اگر آپ کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تو آپ کو ایک ریاست کی حکمرانی مل جائے گی۔ میں جاسوس کا جاسوس رہوں گا''۔
''یہ مہم اور یہ منصوبہ ذاتی نہیں''۔ احمر درویش نے کہا… ''یہ مصر، صلیب اور سوڈان کی حکمرانی کا منصوبہ ہے''۔
مارکونی اپنے مطالبہ پر قائم رہا۔ احمر مجبور ہوگیا۔ اسے احساس تھا کہ مارکونی کے سوا ریمینس کے مدفن تک کوئی اور نہیں پہنچ سکتا۔ اس کے مطالبے ماننے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ مارکونی نے کہا… ''معلوم نہیں مجھے کتنے دن صحرا میں رہنا پڑے۔ میں ایسی سخت اور خشک خوراک پسند نہیں کروں گا۔ مجھے دو تین اونٹ فالتو دئیے جائیں جو میں اور میرے ساتھی بھون کر کھا سکیں اور مجھے قدومی دی جائے''۔
''قدومی؟'' احمر درویش نے حیرت سے کہا… ''اتنی نازک اور ایسی اعلیٰ درجے کی رقاصہ کو تمہارے ساتھ ایسی خطرناک مہم میں روانہ کردوں؟ وہ جانے پر بھی راضی نہیں ہوگی''۔
''اسے زیادہ معاوضہ پیش کریں، وہ راضی ہوجائے گی''۔ مارکونی نے کہا… ''میں اس کے لیے ایسا انتظام کروں گا کہ وہ محسوس ہی نہیں کرسکے گی کہ وہ صحرا میں ہے اور کسی خطرناک مہم میں شریک ہے۔ میں اس کی قدروقیمت سے واقف ہوں''۔
یہ اس دور کا واقعہ ہے جب دولت مند تاجر اپنی چہیتی بیویوں کو سفر میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ اپنی بیویوں میں سے کوئی پسند نہ ہوتو کسی من پسند طوائف یا رقاصہ کو منہ مانگا معاوضہ دے کرہمسفر بنا لیتے تھے۔ فوجوں کے کمانڈر بھی جنگ کے دوران اپنی بیویوں یا کرائے کی خوبصورت عورتوں کو ساتھ رکھا کرتے تھے۔ اس دور میں خوبصورت اور جوان عورت کوسونے سے زیادہ قیمتی سمجھا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ صلیبیوں اور یہودیوں نے سلطنت اسلامی کی جڑیں کھوکھلی کرنے کے لیے عورت کا استعمال کیا تھا
٭ ٭ ٭
اچانک گرم ہوا کہ جھونکے تیز ہونے لگے، ریت اڑنے لگی اور اس کے ساتھ عورتوں کے رونے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ دو یا تین عورتیں اونچی آواز میں رو رہی تھیں۔ مارکونی کے ساتھی گھبرا گئے۔
مارکونی نے کان کھڑے کیے۔ ایک ساتھی نے کہا… ''اس دوزخ میں کوئی عورت زندہ نہیں ہوسکتی۔ یہ بدروحیں ہیں''۔
''یہ کچھ بھی نہیں ہے''… مارکونی نے کہا… ''بدروحیں بھی نہیں، زندہ عورتیں بھی نہیں۔ یہ ہوا کی پیدا کی ہوئی آوازیں ہیں۔ اس علاقے میں بعض ٹیلوں میں لمبے لمبے سوراخ ہیں جو دونوں طرف کھلتے ہیں اور بعض چٹانوں کی شکل ایسی ہے کہ ان سے تیز ہوا کے جھونکے گزرتے ہیں تو اس قسم کی آوازیں پیدا ہوتی ہیں جو تم سن رہے ہو۔ نیچے اتنی گہری اور اتنی وسیع کھائی ہے اس پر یہ ننگے پہاڑ کھڑے ہیں۔ یہ آوازوں میں گونج پیدا کرتے ہیں۔ یہ گونج ہر طرف بھٹکتی رہتی ہے، ڈرو نہیں''۔
مگر اس کے ساتھیوں پر ایسا خوف طاری ہوگیا تھا جس پر وہ قابو نہیں پاسکتے تھے۔ یہ آوازیں ہوا کی نہیں تھیں۔ قریب ہی کہیں عورتیں یا بدروحیں رو رہی تھیں۔ انہوں نے مارکونی کا پیش کیا ہوا فلسفہ تسلیم نہ کیا۔ آوازیں ہی ایسی تھیں۔ ہوا تیز ہوتی جارہی تھی۔ ٹیلوں سے اور زمین سے ریت کے ہلکے ہلکے بادل اڑنے لگے تھے جن سے اب زیادہ دور تک نظر نہیں آسکتا تھا۔ مارکونی نے اس قدرتی دیوار پر پہلا قدم رکھا جو اس بھیانک نشیب میں کھڑی تھی۔ وہاں جگہ اتنی کچی تھی کہ ریت اور مٹی میں پائوں دھنس گیا۔ اس نے دوسرا پائوں آگے رکھا اور نیچے دیکھا۔ گہرائی دیکھ کر وہ سر سے پائوں تک کانپ گیا۔ اب اس گہرائی کی تہہ بالکل ہی نظر نہیں آتی تھی کیونکہ ریت اڑ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کی تہہ ہے ہی نہیں۔ مارکونی چند قدم آگے چلا گیا۔ وہاں اس کے دائیں یا بائیں کوئی ٹیلا نہیں تھا۔ وہ تو جیسے ہوا میں کھڑا تھا۔ ہوا کے تیز جھونکوں نے اس کے جسم کو دھکیل دھکیل کر اس کا توازن بگاڑ دیا۔ رونے کی آوازیں اور بلند ہوگئیں۔
اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا… ''آرام آرام سے پائوں جماتے آئو۔ نیچے بالکل نہ دیکھنا۔ یہ تصور کرتے آنا کہ تم زمین پر چل رہے ہو''۔
اس کے دونوں ساتھیوں پر پہلے ہی خوف طاری تھا۔ دیوار پر تین چار قدم آگے گئے تو ہوا کی تندی نے ان کے پائوں اکھاڑ دئیے۔ ان کے جسم ڈولنے لگے۔ مارکونی ان کی حوصلہ افزائی کررہا تھا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہا تھا۔ وہ وسط میں پہنچ گئے اور وہاں مارکنی نے دیکھا کہ دیوار ٹوٹی ہوئی ہے اور ذرا نیچے چلی گئی ہے۔ وہاں چوڑائی اتنی کم تھی کہ کھڑے ہوکر چلا نہیں جاسکتا تھا۔ مارکونی بیٹھ گیا اور گھوڑے کی سواری کی پوزیشن میں ٹانگیں ادھر ادھر کرکے آگے کو سرکنے لگا۔ دیوار کی چوڑائی کم اور گول ہوتی جارہی تھی۔ مارکونی نیچے کو سرک گیا۔ اس کے پیچھے اس کا ایک ساتھی بھی آگے چلا گیا۔ اچانک تیسرے ساتھی کی بے حد گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی… ''مارکونی مجھے پکڑنا''… مگر اس تک کوئی نہ پہنچ سکا۔ وہ ایک طرف لڑھک گیا تھا۔ کوئی سہارا نہ ہونے کی وجہ سے وہ گر پڑا۔ اس کی چیخیں سنائی دیتی رہیں جو دور ہی دور ہوتی گئیں۔ پھر دھمک کی آواز آئی، چیخیں بند ہوگئیں۔ انجام ظاہر تھا۔ مارکونی نے نیچے دیکھا۔ کچھ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ گر کر مرنے والے کی چیخوں کی گونج ابھی تک اس دہشت ناک ویرانے میں بھٹک رہی تھی۔
''مجھے اپنے ساتھ رکھو مارکونی!''… دوسرے ساتھی نے کہا۔ اس کی آواز کانپ رہی تھی… ''میں ایسی موت نہیں مرنا چاہتا''۔
مارکونی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آگے بڑھنے لگا۔ دیوار اوپر اٹھ رہی تھی۔ مارکونی بیٹھے بیٹھے آگے بڑھتا گیا۔
٭ ٭ ٭
ایک وہ محاذ تھا جس پر نورالدین زنگی لڑ رہا تھا۔ اس نے کرک کا قلعہ فتح کرکے وہاں کے اور مضافات کے علاقوں میں انتظامات مکمل کرلیے تھے۔ اس کے گشتی دستے دور دور تک گشت کرتے تھے تاکہ صلیبی کسی طرف سے جوابی حملے کے لیے آئیں تو قبل از وقت اطلاع مل جائے۔ ان دستوں کا تصادم صلیبی دستوں سے ہوتا رہتا تھا۔ زنگی تمام انتظامات سلطان ایوبی کی فوج کے حوالے کرکے بغداد واپس جانے کی تیاریاں کرنا چاہتا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کے انتظار میں تھا مگر سلطان ایوبی دوسرے محافظ پر لڑ رہا تھا جو صلیبیوں اور ان کے پیدا کردہ غداروں نے مصر میں کھول رکھا تھا۔ یہ محاذ زیادہ خطرناک تھا۔ سلطان ایوبی اس زمین دوز محاذ پر لڑنے کی اہلیت رکھتا تھا۔ وہ خوب مقابلہ کررہا تھا مگر اسے ابھی پتا نہیں چلا تھا کہ ایک محاذ اور بھی کھل گیا ہے۔ یہ تھا ''فرعونوں کے مدفنوں کی تلاش''۔
شام کے کھانے کے بعد سلطان ایوبی اس کمرے میں گیا، جہاں وہ اپنے سالاروں اور دیگر حکام کو اکٹھا کرکے احکامات اور ہدایات دیا کرتا تھا۔ وہاں فوج کے اعلیٰ کمانڈروں کے علاوہ علی بن سفیان اور غیاث بلبیس بھی تھے۔ سلطان ایوبی کو اسی روز نورالدین زنگی کا ایک طویل تحریری پیغام ملا۔ اس نے اس پیغام کے ضروری حصے کمانڈروں کو سنائے۔ زنگی نے لکھا تھا… ''عزیز صلاح الدین اللہ تعالیٰ تمہیں زندہ سلامت رکھے۔ اسلام کو تمہاری بہت ضرورت ہے۔ کرک اور گردوپیش کے علاقے دشمن سے صاف ہوچکے ہیں۔ گشتی دستے جاتے ہیں تو صلیبیوں کا کوئی دستہ کبھی
ہمارے کسی دستے سے الجھ پڑتا ہے۔ صلیبی مجھ پر یہ رعب ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ ابھی یہیں ہیں۔ تمہارے تیار کیے ہوئے چھاپہ مار دستے تعریف کے قابل ہیں۔ یہ بہت دور تک چلے جاتے ہیں تم نے ان پر جو محنت کی ہے وہ اس کا صلہ دے رہے ہیں۔ تمہارے جاسوس ان سے بھی دلیر اور عقل مند ہیں۔ ان کی نظروں سے میں اتنی دور بیٹھا ہوا دشمن کی ہر ایک حرکت دیکھ رہا ہوں۔''
'تازہ اطلاع یہ ہے کہ صلیبی شاید جوابی حملہ نہ کریں۔ وہ ہمیں انگیخت کررہے ہیں کہ ہم آگے جاکر ان پر حملہ کریں۔ تم جانتے ہو کہ بیت المقدس جو ہماری منزل ہے اور قبلۂ اول جو ہمارا مقصود ہے کتنی دور ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم ان فاصلوں سے اور ان مسافتوں سے گھبرانے والے انسان نہیںہو لیکن فاصلے زیادہ نہیں، دشواریاں اور رکاوٹیں زیادہ ہیں۔ بیت المقدس تک ہمیں بہت سے قلعے سرکرنے ہوں گے۔ ان میں چند ایک قلعے تو بہت مضبوط ہیں۔ صلیبیوں نے قبلۂ اول کا دفاع دور دور کی قلعہ بندیوں کی صورت میں بہت مضبوط کررکھا ہے۔ جاسوسوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ صلیبی اس کوشش میں ہیں کو یونانیوں، بازنطینیوں اور اطالویوں کا بحری بیڑہ متحدہ ہوجائے اور مصر پر حملہ آور ہوکر شمالی علاقے میں فوجیں اتار دے۔ تمہیں اس صورتحال کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ پیش بندی کرلو۔ تمہارے پاس دور مار آتشیں، گولے پھینکنے والی منجنیقیں زیادہ ہونی چاہئیں۔ میں یہ مشورہ دوں گا کہ شمالی علاقے کی زمین اجازت دے تو دشمن کے بحری بیڑے کو ساحل تک آنے دو۔ وہاں مزاحمت نہ کرو، دشمن کو اس خوش فہمی میں مبتلا کردو کہ اس نے تمہیں بے خبری میں آن دبوچا ہے۔ فوجیں اتر آئیں تو جہازوں پر آگ برسائو اور صلیبی فوج کو اپنی پسند کے میدان میں گھسیٹ لائو''…
میں تمہاری مجبوریوں سے بے خبر نہیں ہوں۔ تمہارے قاصد نے تمام حالات بتائے ہیں۔ رب کعبہ کی قسم، صلیبیوں کی ساری بادشاہیاں طوفان کی طرح آجائیں تو بھی امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ امت لہو دینا جانتی ہے۔ یہ سرفروشوں کی امت ہے مگر ایمان فروشوں نے ہمی زنجیریں ڈال رکھی ہیں۔ تم قاہرہ میں قید ہوگئے ہو میں بغداد سے نہیں نکل سکتا۔ عورت، شراب اور زرودولت نے ہماری صفوں میں شگاف کرڈالے ہیں۔ اگر ہمارے گھر میں سکون اور اعتماد ہوتا تو ہم دونوں صلیب کا مقابلہ کرتے مگر کفار نے ایسا طلسم پیدا کیا ہے کہ مسلمان بھی کافر ہوگئے ہیں۔ یہ کافر مسلمان اتنے مردہ ہوچکے ہیں کہ یہ احساس بھی نہیں رکھتے کہ ان کا دشمن ان کی بیٹیوں کی عصمت سے کھیل رہا ہے۔ کرک کے مسلمان بہت بری حالت میں تھے۔ صلیبیوں نے ان پر جو مظالم ڈھائے، وہ سنو تو لہو کے آنسو روئو۔ میں اپنی قوم کے غداروں کو کیسے سمجھائوں کہ دشمن کی دوستی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے…
''تم نے افسوس کا اظہار کیا ہے کہ تمہارے اپنے بھائی اور اچھے اچھے حاکم اور کمان دار تمہارے ہاتھوں قتل ہو رہے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی! افسوس اس پر نہیں کہ وہ تمہارے ہاتھوں قتل ہوئے، افسوسناک امر یہ ہے کہ وہ غدار ہوئے اور یہ بھی افسوسناک ہے کہ صلیبی خوش ہورہے ہوں گے کہ وہ مسلمانوں کو مسلمان کے ہاتھوں قتل کرا رہے ہیں۔ تم غداروں کو بخش نہیں سکتے۔ غدار کی سزا قتل ہے… میں تمہار انتظار کررہا ہوں۔ تم جب آئو تو تمہارے ساتھ فوج زیادہ ہونی چاہیے۔ صلیبی تمہیں قلعہ بندیوں میں لڑا کر تمہاری طاقت زائل کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بیت المقدس کے راستے میں ہی تم بے دست پا ہوجائو۔ تم جب آئو تو مصر کے اندرونی حالات کو پوری طرح قابو میں کرکے آنا۔ سوڈانیوں کی طرف سے چوکنا رہنا۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارے سامنے کچھ مالی مسائل بھی ہیں۔ میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کروں گا۔ بہتر ہے کہ اپنے مسائل خود ہی حل کرنے کی کوشش بھی کرو کہ قاہرہ سے جدی نکل آئو لیکن اندر اور باہر کے حالات دیکھ کر وہاں سے نکلنا۔ اللہ تمہارا حامی ہے''۔
صلاح الدین ایوبی نے مجلس کے حاضرین کو یہ پیغام پڑھ کر سنایا اور انہیں یہ امید افزا خبریں سنائیں کہ فوج میں شامل ہونے کے لیے دیہاتی علاقے سے لوگ آنے لگے ہیں۔ توہم پرستی کی جو مہم دشمن نے شروع کی تھی وہ ختم کردی گئی ہے لیکن کہیں کہیں اس کے اثرات باقی ہیں۔ ایک فتور مسجدوں سے بھی اٹھا تھا۔ اسے بھی دبا لیا گیا ہے۔ تین چار اماموں نے انہیں توہمات کو جو صلیبیوں نے ہمارے مذہب میں شامل کرنے کی کوشش کی تھی، لوگوں کے ذہنوں میں ڈالنا شروع کر دیا تھا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خدا کا ایلچی بنا لیا تھا۔ ہمارے سامنے ایسے لوگ آئے ہیں جو کسی مصیبت کے وقت براہ راست خدا سے دعا مانگنے کے بجائے اماموں کو نذرانے دیتے رہے کہ وہ ان کے لیے دعا کریں۔ یہ وہم پھیلا دیا گیا تھا کہ عام آدمی خدا سے کچھ نہیں مانگ سکتا، نہ خدا اس کی سنتا ہے۔ سلطان ایوبی نے کہا…… ''میں نے ان اماموں کو مسجدوں سے نکال دیا ہے اور مسجدیں ایسے اماموں کے حوالے کردی ہیں جن کے نظریات اور عقیدے قرآن کے عین مطابق ہیں۔ وہ اب لوگوں کو یہ سبق دے رہے ہیں کہ مسلمان کا خدا عالم اور بے علم کے لیے، امیر اور غریب کے لیے، حاکم اور رعایا کے لیے ایک جیسا ہے۔ وہ ہر کسی کی دعا سنتا ہے۔ اچھے عمل کی جزا اور برے عمل کی سزا دیتا ہے۔ میں اپنی قوم میں یہی قوت اور یہی جذبہ پیدا کرنے کی کوشش کررہا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو اور خدا کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میرے دوستو! تم نے دیکھ لیا ہے کہ تمہارا دشمن صرف میدان جنگ میں نہیں لڑ رہا۔ وہ تمہارے دلوں میں نئے عقیدے ڈال رہا ہے۔ یہودی اس مہم میں پیش پیش ہے۔ یہودی اب کبھی تمہارے آمنے سامنے آکر نہیں لڑے گا۔ وہ تمہارے ایمان کو کمزور کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس عمل میں اتنی جلدی کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن وہ ناکام بھی نہیں ہوگا۔ وہ وقت آئے گا جب خدا کی دھتکاری ہوئی یہ قوم مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر ایسی چال چلے گی کہ اپنے مقصد کو پالے گئی۔ اس کا خنجر سلطنت اسلامیہ کے سینے میں اتر جائے گا۔ اگر اپنی تاریخ کو اس ذلت سے بچانا چاہتے ہو تو آج ہی پیش بندی کرلو۔ اپنی قوم کے قریب جائو۔ اپنے آپ کو حاکم اور قوم کو محکوم سمجھنا چھوڑ دو۔ ان میں اتنا وقار پیدا کرو کہ یہ قومی وقار پر جانیں قربان کردیں''۔سلطان ایوبی نے بتایا کہ صلیبیوں کے پاس عورت اور دولت ہے اور ہمارے ہاں ان دونوں کا لالچ موجود ہے۔ ہمارے سامنے ایک مہم یہ بھی ہے کہ قوم کے دل سے عورت اور دولت کا لالچ نکال دیں۔ اس کے لیے ایمان کی مضبوطی کی ضرورت ہے۔ ''امیر محترم!'' ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا… ''ہمیں دولت کی ضرورت بھی ہے، اخراجات پورے کرنے مشکل ہورہے ہیں۔ ہمیں بعض کاموں میں مشکل پیش آتی ہے''۔ ''میں یہ مشکل آسان کردوں گا''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''تمہیں یہ حقیقت ہمیشہ کے لیے قبول کرنی پڑے گی کہ مسلمانوں کے پاس دولت کی اور فوج کی کمی رہی ہے اور رہے گی۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علی و آلہ وسلم نے پہلی جنگ تین سو تیرہ مجاہدین کی طاقت سے لڑی تھی۔ اس کے بعد مسلمان جہاں بھی لڑے، اسی تناسب سے لڑے۔ مسلمانوں کے پاس دولت کی کمی کبھی نہیں رہی۔ دولت چند ایک افراد کے گھروں میں چلی گئی۔ اب بھی ہماری قوم کا یہی حال ہے۔ چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے جو مالک مسلمان ہیں، ان کے پاس دولت کے ڈھیر پڑے ہیں''۔ ''دولت کے ڈھیر یہاں بھی پڑے ہیں، سالاراعظم''۔ غیاث بلبیس نے کہا… ''اگر آپ اجازت دیں تو ہم ایک نئی مہم شروع کرسکتے ہیں… آپ کو معلوم ہے کہ مصر خزانوں کی سرزمین ہے۔ یہاں جو فرعون بھی مرا وہ اپنا تمام تر خزانہ اپنے ساتھ زمین کے نیچے لے گیا۔ وہ خزانے کس کے تھے؟ یہ اس غریب مخلوق کی دولت تھی جسے بھوکا رکھ کر اس سے سجدے کرائے گئے۔ اس دور کے انسان نے فرعون کو خدا صرف اس لیے کہا تھا کہ وہ انسان بھوکا تھا۔ اس کی قسمت فرعونوں کے ہاتھ میں تھی۔ اس کی زندگی اور موت بھی فرعونوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔ انسانوں سے زمین کھدوا کر اور پہاڑ کٹوا کر فرعونوں نے اپنے زمین دوز مقبرے بنائے، تو وہ ایسے جیسے ان کے محل تھے۔ ان میں انہوں نے وہ دولت ڈھیر کرلی جو لوگوں کی تھی۔ اگر آپ اجازت دیں تو ہم فرعونوں کے زمین دوز مقبروں اور مدفنوں کی تلاش شروع کردیں اور خزانے ملک اور قوم کی خاطر استعمال کریں''۔غیاث بلبیس کی تائید میں کئی آوازیں اٹھیں…'' یہی صحیح ہے امیر محترم! ہم نے اس سے پہلے کبھی غور ہی نہیں کیا تھا''… ہم اس مہم میں فوج کو استعمال کرسکتے ہیں… ''شہری آبادی سے ایک لشکر جمع کیا جاسکتا ہے''… ہاں ہاں، غیر فوجیوں کو استعمال کیا جائے اور انہیں اجرت دی جائے''۔مجلس میں ہنگامہ سا بپا ہوگیا۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا تھا اگر کوئی خاموش تھا تو وہ صلاح الدین ایوبی تھا۔ مجلس میں بہت دیر بعد یہ احساس پیدا ہوا کہ ان کا امیر اور سالار اعظم خاموش ہے۔ مجلس پر بھی خاموشی طاری ہوگئی۔ سلطان ایوبی نے سب پر نگاہ ڈالی اور کہا…''میں اس مہم کی اجازت نہیں دے سکتا جس کی تجویز غیاث بلبیس نے پیش کی ہے''… مجلس پر سناٹا طاری ہوگیا۔ کسی کی توقع نہیں تھی کہ سلطان ایوبی اس تجویز کو ٹھکرا دے گا۔ اس نے کہا… ''میں نہیں چاہتا کہ مرنے کے بعد تاریخ مجھے قبر چور اور مقبروں کا ڈاکو کہے۔ تاریخ نے مجھے ذلیل کیا تو اس میں تمہاری بھی ذلت ہوگی۔ آنے والی نسلیں کہیں گی کہ صلاح الدین ایوبی کے مشیر اور وزیر بھی قبر چور تھے۔ صلیبی اس الزام کو خوب اچھالیں گے اور تمہاری قربانیوں اور جذبۂ اسلام کو ڈکیتی اور راہزنی کا نام دے کر تمہیں تمہاری ہی نسلوں میں رسوا کردیں گے اور تم ہی نہیں، ہماری تاریخ ذلیل اور رسوا ہوجائے گی''۔ ''گستاخی معاف امیر محترم!''… علی بن سفیان نے کہا… ''تھوڑے سے عرصے کے لیے مصر صلیبیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ انہوں نے سب سے پہلے یہاں کے خزانوں کی تلاش شروع کی تھی۔ ۔ قاہرہ کے مضافات میں ہم نے جن کھنڈروں سے صلیبی تخریب کاروں اور فدائیوں کا ایک گروہ پکڑا تھا، وہ کسی فرعون کا مدفن تھا۔ وہاں سے وہ سب کچھ لے گئے تھے۔ صلیبیوں کی حکومت زیادہ دیر قائم نہ رہی، ورنہ وہ یہاں کے تمام خزانے نکال کر لے جاتے۔ محترم غیاث بلبیس نے ٹھیک کہا ہے کہ یہ خزانے اگر کسی کی ملکیت ہیں تو وہ فرعون نہیں تھے۔
جاری ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں