داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 45 - اردو ناول

Breaking

پیر, مئی 20, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 45

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی ۔
قسط نمبر۔45۔ وہ جو مردوں کو زندہ کرتا تھا
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
مصر کے یہادتی اس کی راہ دیکھ رہے تھے۔ ہر کسی کی زبان پر یہی الفاظ تھے… ''وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے۔ دل کی بات بتاتا ہے اور آنے والے وقت کے اندھیروں کو روشن کرکے دکھاتا ہے۔ مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے''۔
وہ کون تھا؟… جنہوں نے اسے دیکھا تھا، وہ اس کی کرامات سے اس قدر مسحور ہوگئے تھے کہ یہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے تھے کہ وہ کون ہے۔ وہ تسلیم کرلیتے تھے کہ وہ آسمان سے آیا ہے، خدا کا دین لایا ہے اور جو لوگ اس کی راہ دیکھ رہے تھے وہ اس سوال سے بے نیاز تھے کہ وہ کون ہے۔ قافلے گزرتے تھے تو اسی کی کرامات سناتے تھے۔ کوئی اکیلا دھکیلا مسافر کسی گائوں میں جاتا تھا تو اسی کے معجزوں کا ذکر کرتا تھا۔ بعض لوگ اسے نبی اور پیغمبر بھی کہتے تھے اور کچھ ایسے بھی تھے جو اسے بارش کا دیوتا مانتے تھے اور اس کی خوشنودی کے لیے انسانی جان کی قربانی دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ ان میں سے کوئی بھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کرتا تھا کہ اس کا مذہب کیا ہے اور وہ کیسا عقیدہ ساتھ لایا ہے۔ لوگ ابھی پسماندگی کے دور میں تھے۔ علم سے بے بہرہ تھے اور قدرت کے ستم کا شکار رہتے تھے۔ انہیں جہاں امید بندھتی تھی کہ ان کے مصائب کا حل موجود ہے، وہاں جا سجدے کرتے تھے۔ ان کی اکثریت مسلمان تھی۔ اسلام کی روشنی وہاں تک پوری آب وتاب سے پہنچی تھی۔ مسلمانوں نے مسجدیں بھی بنا رکھی تھی۔ رب کعبہ کے حضور پانچوں وقت سجدے بھی کرتے تھے مگر اسلام کے سچے عقیدے کو پختہ کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ ان کے امام بے علم تھے جو اپنی امامت کو برقرار رکھنے کے لیے لوگوں کو عجیب وغریب باتیں بتاتے رہتے تھے۔ قرآن کو انہوں نے (نعوذباللہ) کالے علم کی ایک کتاب بنا ڈالا تھا اور ایسا تاثر پیدا کررکھا تھا کہ قرآن کو صرف امام سمجھ سکتا ہے۔ چنانچہ یہ مسلمان قرآن کو ہاتھ لگانے سے بھی ڈرتے تھے۔
ان اماموں نے لوگوں کے دلوں میں ''غیب'' کا ایک لفظ بٹھا دیا تھا اور انہیں باور کرادیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے وہ غیب میں ہے اور غیب میں جھانکنے کی قدرت صرف امام کو حاصل ہے۔ اماموں نے انسان کو ایک کم زور چیز بنا دیا تھا۔ اس مقام سے وسوسے اور توہمات پیدا ہوئے۔ صحرائی آندھیوں کی چیخوں میں انہیں اس مخلوق کی آوازیں سنائی دینے لگیں جو امام کہتے تھے کہ انسانوں کو نظر نہیں آسکتی۔ بیماریاں جنات اور شرشرار بن گئیں۔ امام معالج اور عامل بن گئے جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے قبضے میں جنات ہیں۔ انسان ''غیب کی سزا'' سے اتنے خوف زدہ رہنے لگے کہ ان کے دلوں میں اسلام کا عقیدہ کمزور پڑ گیا اور وہ ہر اس آواز پر لبیک کہنے لگے جو انہیں غیب کی مخلوق اور غیب سے سزا سے بچانے کا یقین دلاتی تھی… یہی وجہ تھی کہ لوگ بیتابی سے اس کی راہ دیکھ رہے تھے جو آسمان سے آیا ہے اور مرے ہوئوں کو اٹھا دیتا ہے۔
وہ مصر کے اس دیہاتی علاقے میں وارد ہوا تھا جو جنوب مغرب کی سرحد کے ساتھ تھا۔ اس زمانے میں سرحد کا کوئی واضح وجود نہیں تھا۔ صلاح الدین ایوبی نے کاغذوں پر ایک لکیر کھینچ رکھی تھی لیکن وہ بھی کہا کرتا تھا کہ دین اسلام کی اور سلطنت اسلامیہ کی کوئی سرحد نہیں۔ دراصل سرحد عقیدوں کے درمیان تھی جہاں تک اسلام کی گرفت تھی، وہ اسلامی سلطنت تھی اور جہاں سے غیراسلامی نظریات شروع ہوتے تھے، وہ علاقہ غیر کہلاتا تھا۔ مصر کے جس آخری گائوں میں مسلمانوں کی غالب اکثریت تھی، وہ امارت مصر کا آخری اور سرحدی گائوں سمجھا جاتا تھا۔ اسی باعث صلیبی ملت اسلامی کے نظریات پر حملے کِرتے اور اسلامی عقیدوں کو کمزور کرکے وہاں اپنے عقائد ِکا غلبہ پیدا کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا تھا کہ اس وقت سرحدوں کی حیثیت جغرافیائی کم اور نظریاتی زیادہ تھی۔ اس دور کے واقعات سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ غیرمسلموں نے غلبۂ اسلام کے ساتھ ہی مسلمانوں پر نظریاتی حملے شروع کردیئے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان جنگ کو جہاد کہتے ہیں اور قرآن نے مسلمانوں پر جہاد فرض کردیا ہے۔ یہاں تک کہ حالات کے تقاضے کے پیش نظر جہاد کو نماز پر فوقیت حاصل ہے اور یہ بھی کہ کسی غیرمسلم سلطنت میں مسلمان باشندوں پر ظلم وستم ہورہا ہو تو دوسری سلطنتوں کے مسلمانوں پر یہ اقدام فرض ہو جاتا ہے کہ مظلوم رعایا کو غیرمسلموں کے ظلم وستم سے بچائیں، خواہ اس مقصد کے لیے جنگی کارروائی کرنی پڑے۔
انہی قرآنی احکام نے مسلمانوں میں عسکری جذبہ پیدا کیا 
: جس کا اثر یہ تھا کہ مسلمان جس ملک پر فوج کشی کرتے یا جس میدان میں بھی لڑتے تھے ان کے ذہن میں جنگ کا مقصد واضح ہوتا تھا۔ گو ان پر مال غنیمت حلال قرار دیا گیا تھا لیکن ان کے ہاں لوٹ مار جنگ کے مقاصد میں شامل نہیں ہوتی تھی، نہ ہی وہ مال غنیمت کے لالچ سے لڑتے تھے۔ اس کے برعکس صلیبیوں کی جنگ ملک گیری کی ہوس کی آئینہ دار ہوتی اور وہ لوٹ مار پر زیادہ توجہ دیتے تھے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹنے کا کام بھی صلیبی فوج کے حوالے کردیا گیا تھا۔ صلیبیوں کو اس کا یہ نقصان اٹھانا پڑتا تھا کہ ہر میدان میں ان کی جنگی طاقت مسلمانوں کی نسبت پانچ سے دس گنا ہوتی تھی مگر وہ مٹھی بھر مسلمانوں سے شکست کھا جاتے تھے۔ شکست نہ کھائیں تو فتح بھی حاصل نہ کرسکتے تھے۔ وہ جان گئے تھے کہ قرآن کے احکام نے مسلمانوں میں جنگی جنون پیدا کررکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے نام پر لڑتے اور جانیں قربان کرتے ہ یں۔ صلیبیوں کے جرنیلوں میں کچھ ایسے بھی تھے جو مسلمانوں پر مذہبی جنون کی گرفت کمزور کرنے کی ترکیبیں سوچتے اور ان پر عمل کرتے تھے، وہ جان گئے تھے کہ ایک مسلمان جو دس غیر مسلموں کا مقابلہ کرتا ہے، وہ کوئی فرشتہ اور جن بھوت نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنے اندر اللہ کی طاقت اور اپنے عقیدے کی قوت محسوس کرتا ہے جو اسے کسی لالچ سے اور اپنی جان سے بھی بے نیاز کردیتی ہے۔ چنانچہ صلاح الدین ایوبی سے بہت پہلے ہی یہودی اور صلیبی عالموں اور مفکروں نے مسلمانوں کی عسکری روح کو مردہ کرنے کے لیے ان کی کردار کشی شروع کردی تھی اور ان کے مذہبی عقائد میں پرکشش ملاوٹ کرکے ان کے ایمان کو کمزور کرنا شروع کردیا تھا۔
صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی کی بدنصیبی یہ تھی کہ وہ جب صلیبیوں کے خلاف اٹھے تو اس وقت تک صلیبیوں کی نظریاتی یلغار بہت حد تک کامیاب ہوچکی تھی۔ اسلام کے دشمنوں نے اس یلغار کو دو طرفہ استعمال کیا تھا۔ اوپر کے طبقے کو جس میں حکمران، امراء اور وزراء وغیرہ تھے۔ دولت، عورت اور شراب کا دلدادہ بنا دیا تھا اور نیچے یعنی پسماندہ لوگوں میں توہم پرستی اور مذہب کے خلاف وسوسے پیدا کردیئے تھے جس طرح زنگی اور ایوبی نے فن حرب وضرب میں نئے تجربے کیے اور نئی چالیں وضع کیں، اسی طرح صلیبیوں نے درپردہ کردار کشی کے میدان میں نئے طریقے دریافت کیے۔ تین چار یورپی مورخین نے یہاں تک لکھا ہے کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ بعض صلیبی حکمرانوں نے میدان جنگ کو اہمیت دینی ہی چھوڑ دی تھی۔ وہ اس نظریئے کے قائل ہوگئے تھے کہ جنگ اس طریقے سے لڑو کہ مسلمانوں کی جنگی طاقت زائل ہوتی رہے۔ زور دار حملہ ان کے مذہبی عقائد پر کرو اور ان کے دلوں میں ایسے وہم پیدا کردو جو مسلمان قوم اور فوج کے درمیان بداعتمادی اور حقارت پیدا کردیں۔ اس مکتبہ فکر کے صلیبی مفکروں میں فلپ آگسٹس سرفہرست تھا۔ یہ صلیبی حکمران اسلام دشمنی کو اپنے مذہب کا بنیادی اصول سمجھتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی اور نورالدین زنگی سے نہیں، یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے جو ہماری زندگی میں نہیں تو کسی نہ کسی وقت میں ضرور کامیاب ہوگی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں کی اٹھتی ہوئی نسل کے ذہن میں قومیت کے بجائے جنسیت بھر دو اور انہیں ذہنی عیاشی میں ڈبو دو۔
آگسٹس اپنے مشن کی کامیابی کے لیے میدان جنگ میں مسلمانوں کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح کرلینے سے بھی گریز نہیں کرتا تھا۔ ہم جس دور یعنی ١١٦٩ء کے لگ بھگ کی کہانی سنا رہے ہیں، اس وقت وہ نورالدین زنگی کے ہاتھوں شکست کھا کر مفتوحہ علاقے واپس کرچکا تھا۔ اس نے زنگی کو تاوان بھی دیا تھا اور جنگ نہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کرکے جزیہ دے رہا تھا مگر جنگی قیدیوں کے تبادلے میں اس نے چند ایک معذور مسلمان سپاہی واپس کیے۔ تندرست قیدیوں کو اس نے قتل کردیا تھا اور اب وہ کرک کے قلعے میں اسلام کی بیخ کنی کے منصوبے بنا رہا تھا۔ اس کے ذہن میں اسلام دشمنی خبط کی صورت اختیار کرگئی تھی۔ اس کی بعض چالیں ایسی خفیہ ہوتی تھیں کہ اس کے اپنے صلیبی حکمران اور جرنیل بھی اسے شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے تھے۔ )اس پر اپنے ساتھیوں نے یہ الزام عائد کیا کہ وہ اندر سے مسلمانوں کا دوست ہے اور ان کے ساتھ سودا بازی کررہا ہے۔ ایک یورپی مورخ آندرے آزون کے مطابق اس الزام کے جواب میں ایک بار آگسٹس نے کہا تھا… ''ایک مسلمان حکمران کو پھانسنے کے لیے میں اپنی کنواری بیٹیوں کو بھی اس کے حوالے کرنے سے گریز نہیں کروں گا۔ تم مسلمانوں کے ساتھ صلح نامے اور دوستی کے معاہدے کرنے سے گھبراتے ہو، کیونکہ اس میں تم اپنی توہین کا پہلو دیکھتے ہو، تم یہ نہیں سوچتے کہ مسلمان کو میدان جنگ 
: نسبت صلح کے میدان میں مارنا آسان ہے۔ ضرورت پڑے تو اس کے آگے ہتھیار ڈال کر صلح نامہ کرو، معاہدہ کرو اور گھر آکر معاہدے اور صلح نامے کے الٹ ردعمل کرو۔ کیا میں ایسا نہیں کررہا؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میرے خون کے رشتے کی دو لڑکیاں، دمشق کے ایک شیخ کے حرم میں ہیں؟ کیا اس شیخ سے تم لڑے بغیر بہت سارا علاقہ لے نہیں چکے؟ کیا اس نے دوستی کا حق ادا نہیں کیا؟ وہ مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اس کا جانی دشمن ہوں۔ میں ہر ایک غیرمسلم سے کہوں گا کہ مسلمانوں کے ساتھ معاہدے کرو اور انہیں دھوکہ دے کر مارو''۔
٭ ٭ ٭
یہ تھی وہ صلیبی ذہنیت جو ایک کامیاب سازش کے تحت سلطنت اسلامیہ کی جڑوں کو دیمک کی طرح کھا رہی تھی۔ اسی سازش کا یہ نتیجہ تھا کہ مصر میں بغاوت کی چنگاری شعلہ بننے لگی تھی جسے سرد کرنے کے لیے سلطان صلاح الدین ایوبی کو کرک کا محاصرہ اس حالت میں اٹھانا پڑا، جب وہ صلیبیوں کی ایک سوار فوج کو قلعے سے باہر شکست دے چکا تھا۔ اسے محاصرہ نورالدین زنگی کے حوالے کرکے اپنی فوج سمیت قاہرہ جانا پڑا۔ وہ دل برداشتہ تو نہیں تھا لیکن دل پر ایسا بوجھ تھا جو اس کے چہرے پر صاف نظرآرہا تھا۔ اس کی فوج کے سپاہی اس خیال سے مطمئن تھے کہ انہیں آرام کے لیے قاہرہ لے جایا جارہا ہے لیکن دستوں کے وہ کمان دار جو سلطان ایوبی کے عزم اور لڑنے کے لیے طریق کار کو سمجھتے تھے، حیران تھے کہ اس نے نورالدین کو فوج سمیت کیوں بلایا اور محاصرہ کیوں اٹھایا ہے۔ وہ تو فتح یا شکست تک لڑنے کا قائل تھا۔ اس کے ہیڈکوارٹر کے دو تین سالاروں کے سوا کسی کو علم نہیں تھا کہ مصر کے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں اور سوڈان میں تقی الدین کا حملہ ناکام ہوگیا ہے اور اسے خیریت سے پیچھے ہٹانا ہے۔ سلطان ایوبی کے ساتھ علی بن سفیان بھی تھا۔ وہی مصر کے اندرونی حالات کی رپورٹ لے کر آیا تھا۔
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کرک سے کوچ کے حکم کے ساتھ یہ حکم بھی دیا تھا کہ راستے میں بہت کم پڑائو کیے جائیں گے اور کوچ بہت تیز ہوگا۔ اس حکم سے سب کو شک ہوا تھا کہ کچھ گڑبڑ ہے۔ سفر کی پہلی شام آئی۔ فوج رات بھر کے لیے رک گئی۔ سلطان ایوبی کا خیمہ نصب ہوگیا تو اس نے اپنے اعلیٰ کمانڈروں اور اپنی مرکزی کمان کے عہدیداروں کو بلایا۔ اس نے کہا… ''آپ میں زیادہ تعداد ان کی ہے جنہیں معلوم نہیں کہ میں نے محاصرہ کیوں اٹھایا ہے اور میں کو قاہرہ کیوں لے جارہا ہوں۔ بے شک محاصرہ ٹوٹا نہیں، آپ میں کوئی بھی پسپا نہیں ہوا لیکن میں اسے اگر شکست نہیں تو پسپائی ضرور کہوں گا۔ میرے رفیقو! ہم پسپا ہورہے ہیں اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ آپ کو پسپا کرنے والے آپ کے اپنے بھائی ہیں، اپنے رفیق ہیں، وہ صلیبیوں کے رفیق بن چکے ہیں اور انہوں نے بغاوت کا منصوبہ بنا لیا ہے۔ اگر علی بن سفیان اس کے نائب اور غیاث بلبیس چوکس نہ ہوتے تو آج آپ مصر نہ جاسکتے۔ وہاں صلیبیوں اور سوڈانیوں کی حکمرانی ہوتی۔ ارسلان جیسا حاکم صلیبیوں کا آلۂ کار نکلا، وہ الادریس کے دو جوان بیٹے مروا کر خودکشی کرچکا ہے۔ اگر ارسلان غدار تھا تو آپ اور کس پر بھروسہ کریں گے؟''
حاضرین پر سناٹا طاری ہوگیا۔ بے چینی اور اضطراب ان کی آنکھوں میں چمک رہا تھا۔ سلطان ایوبی نے خاموش ہوکر سب کو دیکھا۔ اس دور کا ایک وقائع نگار قاضی بہائوالدین شداد کسی غیرمطبوعہ تحریر کے حوالے سے لکھتا ہے کہ دو قندیلوں کی کانپتی ہوئی روشنی میں سب کے چہرے اس طرح نظر آرہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوں۔ وہ آنکھ بھی نہیں جھپکتے تھے۔ سلطان ایوبی کے الفاظ سے زیادہ اس کا لب ولہجہ اور انداز ان پر اثر انداز ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی کی آواز میں روز والا جوش نہیں بلکہ لرزہ سا تھا جو سب کو ڈرا رہا تھا۔ اس نے کہا… ''میں یہ کہہ کر کہ آپ میں بھی غدار ہیں، معافی نہیں مانگوں گا۔ میں آپ کو یہ بھی نہیں کہوں گا کہ قرآن پر حلف اٹھائو کہ آپ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کے وفادار ہیں۔ ایمان بیچنے والے قرآن ہاتھ میں لے کر بھی وفاداری کا یقین دلایا کرتے ہیں۔ میں آپ کو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہر وہ انسان جو مسلمان نہیں وہ آپ کا دشمن ہے۔ دشمن جب آپ کے ساتھ محبت اور دوستی کا اظہار کرتا ہے تو اس میں اس کی دشمنی چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ آپ کو آپ کے بھائیوں کے خلاف اور آپ کے مذہب کے خلاف استعمال کرتا ہے اور جہاں اسے مسلمانوں پر حکومت کرنے کا موقع ملتا ہے، وہ مسلمان مستورات کی عصمت دری اور اسلام کی بیخ کنی کرتا ہے۔ یہی اس کا مقصد ہے، ہم جو جنگ لڑ رہے ہیں یہ ہماری ذاتی جنگ نہیں۔ یہ ذاتی حکمرانی قائم کرنے کے لیے کسی ملک پر قبضے کی کوشش نہیں۔ یہ دو عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ کفر اور اسلام کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اس وقت تک لڑی جاتی رہے گی جب تک کفر یا اسلام ختم نہیں ہوجاتا''۔
 ''گستاخی معاف سالاراعظم!'' ایک سالار نے کہا… ''اگر ہمیں ثابت کرنا ہے کہ ہم غدار نہیں ہیں تو ہمیں مصر کے حالات سے آگاہ کریں۔ ہم عمل سے ثابت کریں گے کہ ہم کیا ہیں۔ ارسلان فوج کا نہیں انتظامیہ کا حاکم تھا۔ آپ کو غدار انتظامی شعبوں میں ملیں گے، فوج میں نہیں۔ کرک قلعے کا محاصرہ آپ نے اٹھایا ہے، ہم نے نہیں۔ محترم زنگی کو آپ نے بلایا ہے، ہم نے نہیں۔ ہمارا امتحان میدان جنگ میں ہوسکتا ہے، پرامن کوچ میں نہیں… مصر میں کیا ہورہا ہے''۔
صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کی طرف دیکھا اور کہا… ''علی! انہیں بتائو وہاں کیا ہورہا ہے''۔
علی بن سفیان نے کہا… ''غداروں نے دشمن کے ساتھ مل کر سوڈان کے محاذ کے لیے رسد روک لی ہے۔ منڈیوں سے غلہ غائب کردیا ہے۔ دیہاتی علاقوں میں اجنبی لوگ آکر غلہ اور خوردونوش کی دیگر اشیاء خرید کر لے جاتے ہیں، گوشت ناپید کردیا گیا ہے۔ رسد اگر بھیجی جاتی ہے تو دانستہ تاخیر کی جاتی ہے۔ یوں بھی ہوا کہ رسد بھیج کر دشمن کو اطلاع دے دی گئی۔ دشمن نے رسد کے قافلے کو راستے میں روک لیا۔ شہر میں بدکاری عام ہوگئی ہے۔ جوئے بازی کے ایسے دلچسپ طریقے رائج ہوگئے ہیں جن کے ہمارے لڑکے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ دیہاتی علاقوں سے فوج کو بھرتی نہیں ملتی اور جانور بھی نہیں ملتے۔ فوج میں بے اطمینانی پیدا ہوگئی ہے، ہمارے قومی کردار کو تباہ کرنے کے سامان پیدا کردیئے گئے ہیں۔ انتظامیہ کے حکام چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے حکمران بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انہیں یہ لالچ صلیبیوں نے دے رکھی ہے۔ ان حاکموں کو باہر سے بے دریغ دولت مل رہی ہے چونکہ سلطنت اور امارت کا انتظام انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہے، اس لیے انہوں نے ایسی فضا پیدا کردی ہے جو دشمن کے لیے سازگار ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک صورت یہ پیدا ہوگئی ہے کہ دیہائی علاقوں میں عجیب وغریب عقیدے پھیل رہے ہیں۔ لوگ غیراسلامی اصولوں کے قائل اور پابند ہوتے جارہے ہ یں۔ اس میں خطرہ یہ ہے کہ ہمیں فوج انہی علاقوں سے ملتی ہے اور ہماری موجودہ فوج انہی علاقوں سے آئی ہے۔ بے بنیاد اور غیراسلامی عقیدے فوج میں بھی آگئے ہیں''۔
''کیا آپ نے اس کا تدارک نہیں کیا؟'' حاضرین میں سے کسی نے پوچھا۔
''جی ہاں!'' علی بن سفیان نے کہا… ''میرا تمام ترشعبہ مجرموں کے سراغ لگانے اور انہیں پکڑنے میں مصروف ہے۔ میں نے اپنے جاسوس اور مخبر دیہاتی علاقوں میں بھی پھیلا رکھے ہیں مگر دشمن کی تخریب کاری اتنی زیادہ بڑھ گئی ہے کہ اس کے آدمیوں کو پکڑنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے مسلمان بھائی دشمن کے جاسوسوں اور تخریب کاروں کو پناہ اور تحفظ دیتے ہیں۔ کیا آپ یہ سن کر حیران نہیں ہوں گے کہ دیہاتی علاقوں کی بعض مسجدوں کے امام بھی دشمن کی تخریب کاری میں شامل ہوگئے ہیں''۔
''یہ تو ہونہیں سکتا کہ میں انتظامیہ فوج کے سپرد کردوں''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''فوج جس مقصد کے لیے تیار کی گئی ہے، یہ اسی کی تکمیل کا فرض ادا کرتی رہے تو سلطنت کے لیے بھی بہتر ہوتا ہے اور فوج کے لیے بھی۔ جس طرح ایک کوتوال سالار کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتا۔ البتہ ہر سالار کو یہ ضرور معلوم ہونا چاہیے کہ کوتوال کیا کررہے ہیں۔ ہر سالار کو باخبر رہنا چاہیے کہ انتظامیہ کیا کررہی ہے۔ کیا واقعی فرائض میں کوتاہی تو نہیں ہورہی؟… میرے رفیقو! ہمیں خدا نے تاریخ کی سب سے زیادہ کڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے۔ مصر کے حالات آپ نے سن لیے ہیں۔ سوڈان کا حملہ ناکام ہوگیا ہے۔ تقی الدین اپنی غلطیوں کی بدولت سوڈان کے صحرا میں پھنس کے رہ گیا ہے۔ اس کی فوج چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں بکھر گئی ہے۔ اس کی پسپائی بھی ممکن نظر نہیں آتی۔ میں کہہ نہیں سکتا کہ محترم زنگی کرک فتح کرلیں گے یا نہیں لیکن اسے بھی میں اپنی ناکامی کہتا ہوں۔ آپ انتہائی مشکل حالات میں بھی میدان جنگ میں دشمن کو شکست دے سکتے ہیں مگر دشمن نے جس محاذ پر حملہ کیا ہے، اس پر دشمن کو شکست دینا آپ کے لیے بظاہر آسان نظر نہیں آتا۔ آپ تیغ زن ہیں۔ صحرائوں کا سینہ چیر سکتے ہیں مگر مجھے خطرہ نظر آرہا ہے کہ صلیبیوں کے اس محاذ پر آپ ہتھیار ڈال دیں گے''۔
حاضرین میں چند ایک جوشیلی اور پرعزم آوازیں سنائی دیں۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''اس وقت جو فوج مصر میں ہے وہ جب شوبک اور کرک کے محاذ سے مصر گئی تھی تو اس کے کمان داروں اور عہدیداروں کا جذبہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا آج آپ کا ہے مگر قاہرہ پہنچ کر جب انہوں نے د شمنوں کے سبز باغ دیکھے تو بغاوت کے لیے تیار ہوگئے۔ اب اس فوج کی کیفیت یہ ہے کہ آپ اس پر بھروسہ نہیں کرسکتے''۔
''ہم ایسے ایک ایک کمان دار اور عہدیدار کو قتل کرکے دم لیں گے''۔ ایک سالار نے کہا۔
''ہم سب سے پہلے اپنی صفوں کو غداروں سے پاک کریں گے''۔ ایک اور نے کہا۔
''اگر میرا بیٹا 
  بیٹا صلیبیوں کا دوست نکلا تو میں اپنی تلوار سے اس کا سرکاٹ کر آپ کے قدموں میں رکھ دوں گا''۔ ایک بوڑھے نائب سالار نے کہا۔
''میں اس قسم کی جوشیلی اورجذباتی باتوں کا قائل نہیں''… سلطان ایوبی نے کہا۔
حاضرین کا جوش غضب ناک ہوگیا۔ یہ وہ لوگ تھے جو سلطان ایوبی کے سامنے بات کرنے سے ڈرا کرتے تھے مگر اب یہ سن کر کہ ان کی فوج کی وہ نفری جو مصر میں ہے، دشمن کی تخریب کاری کا شکار ہوکر اپنی سلطنت کے خلاف بغاوت پر اتر آئی ہے تو وہ لوگ آگ بگولہ ہوگئے۔ ایک نے سلطان ایوبی کو یہاں تک کہہ دیا… ''آپ ہمیں ہمیشہ تحمل سے سوچنے اور بردباری سے عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں مگر بعض حالات ایسے ہوتے ہیں جنہیں تحمل اور بردباری اور زیادہ بگاڑ دیتی ہے۔ ہمیں اجازت دیں کہ قاہرہ تک ہم ایک بھی پڑائو نہ کریں۔ ہم آرام اور خوراک کے بغیر متواتر سفر کریں گے۔ ہم اس فوج کو نہتہ کرکے قید کرلیں گے''۔
صلاح الدین ایوبی کے لیے ان حکام پر قابو پانا محال ہوگیا۔ اس نے کچھ اور باتیں کہہ سن کر مجلس برخواست کردی۔ علی الصبح فوج نے کوچ کیا۔ یہ کوچ ترتیب سے ہورہا تھا۔ سلطان ایوبی اپنے عملے کے ساتھ الگ تھلگ جارہا تھا۔ اس نے دیکھا کہ علی بن سفیان اس کے ساتھ نہیں تھا۔ شام تک فوج کو دو مرتبہ کچھ دیر کے لیے روکا گیا۔ شام گہری ہونے کے بعد بھی فوج چلتی رہی۔ رات کا پہلا پہر ختم ہورہا تھا، جب سلطان ایوبی نے رات کے قیام کے لیے فوج کو روکا۔ سلطان کھانے سے فارغ ہوا تو علی بن سفیان آگیا۔
''سارا دن کہاں رہے علی؟''… سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''گزشتہ رات میرے دل میں ایک شک پیدا ہوگیا تھا''… علی بن سفیان نے جواب دیا… ''اس کی تصدیق یا تردید کے لیے سارا دن فوج میں گھومتا پھرتا رہا''۔
''کیسا شک؟''
''آپ نے رات دیکھا نہیں تھا کہ تمام سالار، کمان دار اور عہدیدار کس طرح اس فوج کے خلاف بھڑک اٹھے تھے جو مصر میں ہے؟''… علی بن سفیان نے کہا… ''مجھے شک ہونے لگا تھا کہ یہ اپنے اپنے دوستوں کو بھی اسی طرح بھڑکائیں گے۔ میرا شک صحیح ثابت ہوا۔ انہوں نے تمام تر فوج کو مصر کی فوج کے متعلق ایسی باتیں بتائی ہیں کہ تمام فوج انتقامی جذبے سے مشتعل ہوگئی ہے۔ میں نے سپاہیوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ ہم محاذوں پر زخمی اور شہید ہوتے ہیں اور ہمارے ہی ساتھی قاہرہ میں عیش کرتے اور اسلامی پرچم کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم جاتے ہی انہیں ختم کریں گے۔ پھر سوڈان میں پھنسی ہوئی فوج کی مدد کو پہنچیں گے۔ قابل صد احترام امیر! اگر ہم نے کوئی پیش بندی نہ کی تو قاہرہ میں پہنچتے ہی خانہ جنگی شروع ہوجائے گی۔ ہماری یہ فوج انتقامی جذبے کے زیراثر غصے میں ہے اور ہماری مصر والی فوج پہلے ہی بغاوت کے بہانے ڈھونڈ رہی ہے''۔
جاری ھے ، (

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں