داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 44 - اردو ناول

Breaking

پیر, مئی 20, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 44

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.44۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
''تم خنجر اپنے پاس رکھا کرو''۔دوسری شام کی ملاقات میں اس نے چھوٹے بھائی کو اسی طرح مشتعل کیا اور اسے کہا کہ وہ خنجر اپنے پاس رکھا کرے۔ چنانچہ دونوں بھائی اس حقیقت سے بے خبر کہ وہ ایک ہی لڑکی کے جال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ خنجر اپنے پاس رکھنے لگے۔ لڑکی دونوں سے الگ الگ ملتی رہی۔ صرف پانچ دنوں میں لڑکی نے دونوں بھائیوں کو پہلے حیوان، پھر درندہ بنا دیا۔ اس شام اس نے بڑے بھائی کو شہر سے ذرا باہر ایک اندھیری جگہ ملنے کو کہا۔ چھوٹے بھائی کو بھی اس نے وہی وقت اور وہی جگہ بتائی اور دونوں سے یہ بھی کہا کہ وہ نوجوان جو مجھے پریشان کیا کرتا ہے۔ آج کہہ گیا ہے کہ شام کو جہاں بھی جائو گی مجھے وہاں پائو گی۔ میں تمہارے چاہنے والے کو تمہارے سامنے قتل کروں گا۔ لڑکی نے کہا… ''میں نے اسے کہا ہے کہ اگر تم اتنے دلیر ہو تو شام کو اس جگہ آجانا۔ اگر تم نے اسے قتل کردیا تو میں تمہاری ہوجائوں گی''۔ دونوں بھائی خون ریز معرکہ لڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔

شام کو بڑا بھائی خنجر لیے اس جگہ پہنچ گیا جو اس لڑکی نے بتائی تھی۔ اس نے ایسی استادی کا مظاہرہ کیا کہ جگہ اندھیری کا انتخاب کیا اور یہ بھی خیال رکھا کہ دونوں بھائی اس کے پہنچنے سے پہلے ہی اکٹھے ہوکر ایک دوسرے کو پہچان نہ لیں۔ وہ وہاں پہنچی تو بڑے بھائی کو وہاں موجود پایا۔ اسے بتایا کہ وہ نوجوان میرے پیچھے آرہا ہے۔ بڑے بھائی نے خنجر نکال لیا اور فوراً ہی بعد چھوٹا بھائی آگیا۔ لڑکی نے بڑے بھائی سے کہا کہ وہ آگیا ہے لیکن میں نہیں چاہتی کہ خون خرابہ ہو میں اسے کہتی ہوں کہ وہ چلا جائے۔ یہ کہہ کر وہ چھوٹے بھائی کے پاس گئی اور اسے کہا کہ وہ پہلے سے موجود ہے اور اس کے ہاتھ میں خنجر ہے۔ چھوٹے بھائی کی عقل پر جوانی کا تازہ خون سوار تھا۔ اس نے خنجر نکالا اور اندھیرے میں اپنے بھائی کی طرف دوڑا۔ بڑے بھائی نے حملہ آور کو اتنی تیزی سے آتے دیکھا تو وہ بھی تیزی سے آگے بڑھا۔ بھائیوں نے ایک دوسرے پر رقابت کے جوش میں بڑے گہرے وار کیے۔ وہ گر کر اٹھے اور ایک دوسرے کو لہولہان کرتے رہے۔ لڑکی انہیں بھڑکاتی رہی۔

علی بن سفیان کے شعبے کے آدمی رات کو گشت پر رہتے تھے۔ اتفاق سے ایک گھوڑ سوار گشت پر ادھر آنکلا۔ لڑکی بھاگ اٹھی۔ گھوڑ سوار نے اسے دور نہ جانے دیا اور پکڑ کر واپس لے گیا۔ وہاں دونوں بھائی زمین پر پڑے، آخری سانسیں لے رہے تھے۔ لڑکی نے ان سے لاتعلقی کے اظہار کی بہت کوشش کی لیکن اس آدمی نے اسے نہ چھوڑا۔ لڑکی کے دئیے ہوئے لالچ کو بھی اس نے قبول نہ کیا۔ اس نے پکار پکار کر گشتی پہرہ داروں کو بلا لیا۔ اس وقت تک دونوں بھائی مرچکے تھے۔ لڑکی کو اسی وقت علی بن سفیان کے پاس لے گئے۔ لاشیں بھی لائی گئیں۔ روشنی میں دیکھا تو دونوں بھائی تھے۔ سلیم الادریس کو اطلاع دی گئی۔ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھ کر اس کا کیا حشر ہوا ہوگا۔ لڑکی نے الٹے سیدھے بیان دئیے مگر وہ اس سوال کا جواب دینے سے گریز کررہی تھی کہ وہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں رہتی ہے۔ الادریس بہت بری ذہنی حالت میں تھا۔ اس نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا… ''اسے شکنجے میں ڈالو علی، اس طرح یہ کچھ نہیں بتائے گی''۔

''بتانے کے لیے ہے ہی کیا''۔ لڑکی نے بھی غصے میں کہا۔ بڑے بھائی کی لاش کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ ''اس نے مجھے بلایا تھا، میں چلی گئی۔ اوپر سے )چھوٹا بھائی( آگیا۔ دونوں نے خنجر نکال لیا اور لڑ پڑے۔ میں ڈر کے مارے بھاگ اٹھی اور ایک گھوڑ سوار نے مجھے پکڑ لیا۔ میں اپنے باپ کا نام اس لیے نہیں بتاتی کہ اس کی بھی رسوائی ہوگی''۔

علی بن سفیان کا دماغ حاضر تھا۔ اسے یاد آگیا کہ ارسلان اور الادریس کی آپس میں ترش کلامی ہوئی تھی۔ ارسلان اس کے مشتبہ کی فہرست میں تھا اور یہ بھی جانتا تھا کہ اس کے گھر کے اندر کیا ہورہا ہے۔ اس نے الادریس کو آنکھ سے اشارہ کرکے کہا… ''یہ لڑکی کوئی بھی ہے، یہ قاتل نہیں، یہ دو جوانوں کو اکیلے قتل نہیں کرسکتی۔ اس نے سچ بات بتا دی ہے۔ میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرسکتا''۔ اس نے لڑکی سے کہا… ''جائو تم آزاد ہو، آئندہ کسی کے ساتھ اتنی دور نہ جانا، ورنہ قتل ہوجائو گی''۔

لڑکی بڑی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ علی بن سفیان نے اپنے دو مخبروں سے کہا کہ ان میں سے ایک لڑکی کا راستہ دیکھ کر دوسرے راستے سے ارسلان کے گھر کے بڑے دروازے سے ذرا دور چھپ جائے اور دوسرا ایسے طریقے سے لڑکی کا تعاقب کرے کہ لڑکی کو پتا نہ چلے اور وہ جہاں بھی جائے فوراً اطلاع دی جائے۔ دونوں آدمی چلے گئے۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی تھی اور اس کا تعاقب ہورہا تھا۔ علی بن سفیان کا شک ٹھیک ثابت ہوا۔ لڑکی ارسلان کے گھر چلی گ
 لڑکی بڑی تیزی سے کمرے سے نکل گئی۔ علی بن سفیان نے اپنے دو مخبروں سے کہا کہ ان میں سے ایک لڑکی کا راستہ دیکھ کر دوسرے راستے سے ارسلان کے گھر کے بڑے دروازے سے ذرا دور چھپ جائے اور دوسرا ایسے طریقے سے لڑکی کا تعاقب کرے کہ لڑکی کو پتا نہ چلے اور وہ جہاں بھی جائے فوراً اطلاع دی جائے۔ دونوں آدمی چلے گئے۔ لڑکی تیز تیز قدم اٹھاتی جارہی تھی اور اس کا تعاقب ہورہا تھا۔ علی بن سفیان کا شک ٹھیک ثابت ہوا۔ لڑکی ارسلان کے گھر چلی گئی۔ وہاں ایک آدمی موجود تھا۔ اس نے آکر اطلاع دی کہ لڑکی اس گھر میں داخل ہوئی ہے۔ جب الادریس کو معلوم ہوا کہ لڑکی کا تعلق ارسان کے گھر سے ہے تو اس نے علی بن سفیان کو بتایا کہ ارسلان نے اسے کہا تھا کہ تمہارے دو جوان بیٹے ہیں مگر الادریس یہ اشارہ نہیں سمجھ سکا تھا۔ صاف ظاہر ہوگیا کہ یہ ارسلان کی کارستانی ہے۔ دونوں بھائیوں کو اسی نے اس عجیب وغریب طریقے سے ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرایا ہے۔ الادریس نے حاکم اعلیٰ کو اطلاع دی۔ پولیس کا سربراہ غیاث بلبیس بھی آگیا۔ علی بن سفیان کو بھی خصوصی اختیارات حاصل تھے۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ ارسلان کے گھر چھاپہ مار کر اسے گھر میں ہی نظر بند کردیا جائے۔

''اب میں سلیم الادریس کو بتائوں گا کہ میں کیوں اتنی دلیری سے باتیں کرتا ہوں''۔ ارسلان نے اس لڑکی کی کامیابی کی روئیداد سن کر کہا… ''میں اسے بتائوں گا کہ میں کیا کرسکتا ہوں''۔ اس نے لڑکی کو شراب پیش کی اور دونوں کامیابی کا جشن منانے لگے۔

ان کا جشن ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ بغیر اطلاع کے کوئی اندر آگیا۔ یہ الادریس تھا۔ اس نے ارسلان اور لڑکی کو نشے اور عریانی کی حالت میں دیکھا اور لڑکی کو پہچان لیا۔ ارسلان نے نشے کی حالت میں کہا… ''اپنے بیٹوں کو قتل کراکے تم میرے ہاتھوں قتل ہونے آئے ہو؟… دربان کہاں ہے؟ یہ شخص میری جنت میں بغیر اجازت کیوں کر آگیا ہے؟''

اتنے میں شہر کا وہ حاکم اعلیٰ اندر آیا جس کے پاس امیر مصر کے اختیارات تھے۔ اس کے ساتھ غیاث بلبیس اور علی بن سفیان تھے۔ لڑکی کو گرفتار کرلیا گیا۔ ارسلان کے تمام ملازموں اور گھر کے دیگر افراد کو باہر نکال کر اس کے محل جیسے مکان کے اندر اور باہر فوج کا پہرہ کھڑا کردیا گیا۔ اس کے گھر میں ایک تہہ خانہ برآمد ہوا جو بہت ہی وسیع اور گہرا تھا۔ وہاں سے تیر کمانوں اور برچھیوں کے انبار نکلے۔ ایک ڈھیر خنجروں کا تھا، آتش گیر مادہ بھی تھا۔ ایک صندوق میں حشیش اور زہر برآمد ہوئے۔ ایک اور کمرے میں سونے کی اینٹیں اور اشرفیوں کی تھیلیاں برآمد ہوئیں۔ اس نے اپنی پرانی دو بیویوں اور ان کے بچوں کو کہیں اور بھیج رکھا تھا۔ گھر میں تین لڑکیاں تھیں۔ تینوں ایک سے ایک بڑھ کر خوبصورت تھیں اور تینوں غیرمسلم تھیں۔ رات ہی رات ملازموں کی چھان بین کرلی گئی۔ ان میں تین صلیبیوں کے جاسوس نکلے۔

''کیا تم خود بتائو گے کہ تمہارے عزائم کیا ہے؟'' حاکم اعلیٰ نے ارسلان سے پوچھا… ''یہ مال ودولت اور اسلحہ کے یہ انبار تمہیں سزائے موت دلانے کے لیے کافی ہیں''۔

''پھر سزائے موت دے دو''۔ اس نے نشے کی حالت میں کہا… ''اگر مجھے جان ہی دینی ہے تو خاموشی سے کیوں نہ مرجائوں؟''

''خدا کی نگاہ میں یہ بہت بڑی نیکی ہوگی کہ تم ہمیں اور اس کے نام لیوائوں کو خطروں سے آگاہ کردو''۔ حاکم اعلیٰ نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ اسی نیکی کے بدلے خدا تمہارے اتنے گناہ بخش دے گا''۔

''تم لوگ تو مجھے نہیں بخشو گے''۔ ارسلان نے کہا۔

''سلطان ایوبی اس سے بھی بڑے گناہ بخش دیا کرتا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''آپ کے بچنے کی صورت پیدا ہوسکتی ہے۔ آپ بتا دیں کہ یہاں کس قسم کی تخریب کاری ہورہی ہے۔ کچھ اور لوگ گرفتار کرادیں''۔

وہ کمرے میں ٹہل رہا تھا۔ باقی لوگ ادھر ادھر بیٹھے تھے۔ الادریس نے اپنی خنجر نما تلوار کمر سے باندھ رکھی تھی۔ ارسلان خاموشی سے ٹہلتے ٹہلتے اس کے قریب گیا اور بڑی ہی تیزی سے اس کی میان سے تلوار نکال کر اپنے سینے اور پیٹ کے درمیان رکھی، پیشتر اس کے ہاتھ سے تلوار چھینی جاتی، اس نے دستے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پوری طرقت سے تلوار اپنے پیٹ میں گھونپ لی۔ وہ اپنے بستر پر گرا۔ دوسرے آدمی تلوار اس کے پیٹ سے نکالنے لگے تو اس نے کہا… ''رہنے دو، میری دو تین باتیں سن لو۔ مرجائوں گا تو تلوار نکال لینا۔ میں نے اپنے آپ کو سزا دے دی ہے۔ میں زندہ صلاح الدین ایوبی کے سامنے نہیں جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ مجھے اپنا وفادار دوست سمجھتا تھا… میں تمہارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ تلوار اپنا کام کرچکی ہے۔ ہوش کرو، مصر سخت خطرے میں ہے۔ مصر میں جو فوج ہے وہ بغاوت کے لیے تیار ہے۔ فوجوں کی رسد کو میں نے ناپید کیا ہے۔ سپاہیوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملتا۔ صلیبی تخریب کاروں نے فوج میں یہ بات پھیلا دی ہے کہ محاذوں پر بکرے، اناج اور شراب جارہی ہے اور وہاں کے سپاہیوں کو مال غنیمت سے مالا مال کرکے
 کرکے عیاشی کرائی جارہی ہے… میرے گروہ میں اچھے عہدوں کے لوگ ہیں۔ میں کسی کا نام نہیں بتائوں گا۔ فاطمی اور فدائی تباہ کاری کی پوری تیاری کرچکے ہیں۔ تم بغاوت کو روک نہیں سکو گے۔ نئی فوج لائو، حالات تمہاری قابو سے…''۔ وہ فقرہ مکمل کیے بغیر مرگیا۔

اس کے گھر سے جو تین لڑکیاں برآمد ہوئی تھیں وہ بھی اس کے فقرے کو مکمل نہ کرسکیں۔ انہوں نے اپنے متعلق بتا دیا کہ انہیں اخلاقی تخریب کاری اور مردوں کو پھانس کر استعمال کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ ارسلان کے گھر راتوں کو محفلیں جما کرتی تھیں، جس میں فوج اور انتظامیہ کے افسر آیا کرتے تھے۔ ان کی خفیہ ملاقاتیں اور اجلاس ان لڑکیوں کے بغیر ہوتے تھے۔ لڑکیوں نے یہ تصدیق کردی کہ مصر میں بغاوت کے لیے زمین ہموار کردی گئی ہے جس لڑکی نے دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا اس نے قتل کی ساری کہانی سنا دی جو بیان کی گئی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ الادریس کے بڑے بیٹے کو پہلے ہی اپنے جال میں محبت کا جھانسہ دے کر لے چکی تھی۔ اسے ارسلان اپنے باپ الادریس کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا لیکن ارسلان نے منصوبہ بدل دیا اور لڑکی سے کہا کہ دونوں بھائیوں کو ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادو۔

ایک ہی رات میں تقریباً اڑھائی سو اونٹ مرکزی دفتر کے سامنے لائے گئے۔ ان پر غلہ اور خوردونوش کا دیگر سامان لدا ہوا تھا۔ یہ اونٹ تین چار قافلوں کی صورت میں مختلف جگہوں سے پکڑے گئے تھے۔ اناج وغیرہ کو سرحد سے باہر جانے سے روکنے کے لیے گشتی پارٹیوں کا انتظام کیا گیا تھا۔ یہ ان کی پہلی کامیابی تھی۔ ان قافلوں کے ساتھ جو آدمی تھے، انہوں نے شہر کے چند ایک بیوپاریوں کے نام بتائے۔ ان بیوپاریوں نے تمام غلہ اور دیگر سامان زیرزمین کرلیا تھا۔ آدھی رات کے بعد وہ یہ سامان باہر کے اجنبی تاجروں کے ہاتھ بیجتے تھے۔ ان آدمیوں نے دیہاتی علاقوں میں بھی چند ایک جگہوں کی نشاندہی کی جہاں اجنبی سے تاجر موجود رہتے اور تمام تر رسد اکٹھی کرکے لے جاتے تھے۔ شتر بانوں میں سے بعض نے سرحد کی ایک جگہ بتائی جہاں سے یہ قافلے سوڈان جایا کرتے تھے۔ وہاں ایک سرحدی دستہ موجود تھا۔ انکشاف ہوا کہ اس دستے کا کمانڈر دشمن سے باقاعدہ معاوضہ یا رشوت لیتا اور قافلے گزار دیتا تھا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ یہ اہتمام ارسلان کی زیرکمان ہورہا تھا۔

٭ ٭ ٭

یہ ان سینکڑوں میں سے چند ایک واقعات ہیں جو سلطان ایوبی کی غیرحاضری میں مصر کو لپیٹ میں لیے ہوئے

تھے۔ الادریس اور دیگر اعلیٰ حکام نے ارسلان کی غداری اور الادریس کے بیٹوں کی موت اور دیگر واقعات پر غور کرنے کے لیے اجلاس منعقد کیا۔ علی بن سفیان اور غیاث بلبیس نے یہ مشورہ پیش کیا کہ حالات اتنے بگڑ گئے ہیں کہ ان کے بس میں نہیں رہے۔ پیشتر اس کے کہ مصر میں بغاوت ہوجائے یا فاطمیوں کے اور فدائیوں کے ہاتھوں کوئی اعلیٰ شخصیت قتل ہوجائے۔ سلطان ایوبی کو مکمل حالات سے آگاہ کردیا جائے اور انہیں مشورہ دیا جائے کہ ممکن ہوسکے تو وہ کرک کا محاصرہ اپنے نائبین کے سپرد کرکے قاہرہ آجائیں۔ ایک قاصد کو تو پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا مگر اسے تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔ اب سنگین وارداتیں ہوگئیں تو اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ علی بن سفیان محاذ پر سلطان ایوبی کے پاس جائے۔

کرک کے محاصرے کو دو مہینے گزر گئے تھے مگر کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی۔ صلیبیوں نے دفاع کے غیرمعمولی انتظامات کررکھے تھے۔ ایک انتظام یہ تھا کہ شہر میں سامان خوردونوش کا ذخرہ کافی تھا۔ ایک جاسوس نے اندر سے تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر باہر پھینکا تھا جس میں تحریر تھا کہ اندر خوراک کی کمی نہیں۔ مسلمان باشندوں پر اتنی سخت پابندیاں عائد کردی گئی تھیں کہ ان کے گھروں کی دیواریں بھی ان کے خلاف مخبری اور جاسوسی کرتی تھیں۔ اس لیے اندر تخریب کاری ممکن نہیں ہورہی تھی ورنہ خوراک کا ذخیرہ تباہ کردیا جاتا۔ شہر میں سلطان ایوبی کے جاسوسوں کی بھی کمی تھی۔ وہ کبھی کبھی رات کے وقت تیر کے ساتھ پیغام باندھ کر اور موقع محل دیکھ کر باہر کو تیر چلا دیتے تھے۔ فوجوں کو حکم تھا کہ ایسا تیر نظر آئے تو وہ اپنے کمانڈر تک پہنچا دیں۔ صلیبیوں نے محاصرہ توڑنے کی کوششیں ترک کردی تھیں۔ وہ سلطان ایوبی کی طاقت زائل کرتے جارہے تھے۔ سلطان ایوبی ان کی چال سمجھ گیا تھا۔ اس کے جواب میں اس نے بھی اپنا طریقہ بدل دیا تھا۔

صلیبیوں کی یہ کوشش ناکام ہوچکی تھی کہ انہوں نے باہر سے حملہ کیا تھا۔ سلطان ایوبی اس حملے کے لیے تیار تھا۔ اس نے نہایت اچھی چال سے اس فوج کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس فوج کو گھیرے میں آئے ڈیڑھ مہینہ گزر گیا تھا۔ گھیرے میں آئی ہوئی فوج گھیرا توڑنے کے لیے ہر طرف حملے کرتی تھی۔ سلطان ایوبی اس کا کوئی حملہ کامیاب نہیں ہونے دے رہا تھا۔ البتہ گھیرا کئی میلوں پر پھیل گیا تھا۔  وہ علاقہ سرسبز تھا، اس لیے صلییوں کو پانی اور جانوروں کو چارہ مل جاتا تھا۔ ان کے جانور مرتے تھے تو اسے وہ کھالیتے تھے، مگر یہ کافی نہیں تھا۔ ہزاروں گھوڑوں اور اونٹوں کے لیے یہ چارہ کافی نہیں تھا۔ پانی کے لیے وہاں کوئی ندی یا دریا نہیں تھا۔ تین چار چشمے تھے جن میں سے دو ڈیڑھ مہینے میں ہی خشک ہوگئے تھے۔ صلیبی سپاہیوں میں بددلی پیدا ہوگئی تھی۔ انہیں غذا بہت کم ملتی تھی اور پانی کے لیے بہت دور جانا پڑتا تھا۔ رات کو سلطان ایوبی کے چھاپہ مار گروہ ان پر شب وخون مارتے اور نقصان کرتے رہتے تھے۔ ڈیڑھ ماہ میں یہ فوج آدھی رہ گئی تھی۔ ان کے جانوروں میں بھی دم نہیں رہا تھا۔ صلیبی حکمران ریمانڈ جو اس فوج کا کمانڈر تھا، سخت پریشانی کے عالم میں انتظار کررہا تھا کہ صلیبی حملہ کرکے اسے سلطان ایوبی سے چھڑائیں گے مگر اس کی مدد کو کوئی نہیں آرہا تھا۔

سلطان ایوبی چاہتا تو چاروں طرف سے حملہ کرکے اس فوج کو شکست دے سکتا تھا لیکن اس سے اپنا جانی نقصان بھی ہونا لازمی تھا اور جنگ کا پانسہ پلٹ جانے کا خطرہ بھی تھا۔ سلطان ایوبی اپنی طاقت زائل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ صلیبیوں کو آہستہ آہستہ مار رہا تھا۔ اسے یہ نقصان ضرور ہورہا تھا کہ اس کی فوج کا تیسرا حصہ اس صلیبی فوج کو گھیرے میں رکھنے میں الجھ گیا تھا۔ اسے وہ شہر کے محاصرے کی کامیابی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے پاس ابھی ریزرو دستے موجود تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ قلعہ توڑنے کے لیے وہ انہیں استعمال کرے۔ وہ اب محاصرے کو اور زیادہ طول دینا نہیں چاہتا تھا۔ اس دور میں محاصرے عموماً طویل ہوا کرتے تھے۔ ایک ایک شہر کو دو دو سال تک بھی محاصرے میں رکھا گیا ہے۔ چھ سات ماہ کا محاصرہ طویل نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن سلطان ایوبی محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔ وہ ان حملہ آوروں میں سے بھی نہیں تھا جو کسی ملک کے دارالحکومت کا محاصرہ کرکے اندر والوں کو پیغام بھیجا کرتے تھے کہ اتنی مقدار زر وجواہرات کی، اتنے ہزار گھوڑے اور اتنی عورتیں باہر بھیج دو، ہم چلے جائیں گے۔ سلطان ایوبی عرب کی سرزمین سے صلیبیوں کو نکالنا چاہتا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ یہ سرزمین اسلام کا سرچشمہ ہے جو ساری دنیا کو سیراب کرے گا اور وہ اپنی عمر کو بہت کم سمجھا کرتا تھا۔ یہ الفاظ اس نے بارہا کہے تھے کہ میں یہ کام اپنی مختصر سی عمر میں پورا کردینا چاہتا ہوں ورنہ میں دیکھ رہا ہوں کہ مسلمان امراء اس مقدس خطے کو صلیبیوں کے ہاتھ بیچتے چلے جارہے ہیں۔

ایک رات وہ اپنے خیمے میں گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے یہاں تک سوچا تھا کہ قلعے کے اردگرد اتنی فراغ سرنگیں کھدوائی جائیں جن میں پیادہ سپاہی گزر سکیں۔ کچھ اور طریقے بھی اس کے ذہن میں آئے وہ اب چند دنوں میں کرک پر قبضہ کرلینا چاہتا تھا۔ اس کیفیت میں علی بن سفیان اس کے خیمے میں داخل ہوا۔ اسے دیکھ کر سلطان ایوبی خوش نہیں ہوا کیونکہ اسے اطلاع مل چکی تھی کہ مصر کے حالات خطرناک مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ چہرے پر تشویش کے آثار لیے سلطان ایوبی علی بن سفیان سے بغل گیر ہوکر ملا اور کہا… ''تم میرے لیے یقینا کوئی خوشخبری نہیں لائے''۔

''بظاہر خیریت ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا… ''مگر خوشخبری والی بات بھی کوئی نہیں''۔ اس نے مصر کے حالات اور واقعات سنانے شروع کردیئے۔ علی بن سفیان جیسا ذمہ دار حاکم سلطان ایوبی سے کچھ بھی نہیں چھپا سکتا تھا۔ نہ ہی وہ اسے خوش فہمیوں میں مبتلا کرسکتا تھا۔ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کی جائے۔ علی بن سفیان نے تقی الدین کی غلطیوں اور سلطان ایوبی کی بھی ایک دو غلطیوں کا کھل کر ذکر کیا۔ ارسلان کی غداری کا قصہ اور الادریس کے جوان بیٹوں کی موت کا حادثہ سن کر سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔ اگر اسلان مرنہ چکا ہوتا تو سلطان ایوبی کبھی یقین نہ کرتا کہ اس کا یہ حاکم جسے وہ اپنا وفادار سمجھتا ہے، غداری کرسکتا ہے۔ اس سے پہلے بھی وہ دوست اس سے غداری کرچکے تھے۔

''اگر ارسلان ذرا سی دیر اور زندہ رہتا تو باقی راز بھی بے نقاب کردیتا۔'' علی بن سفیان نے کہا… ''اس کے آخری فقرے سے جو موت نے پورا نہ ہونے دیا، صاف ثبوت ملتا ہے کہ مصر میں بغاوت ہونے ہی والی ہے۔ مصر میں ہماری جو فوج ہے، اسے ذہنی لحاظ سے پست کردیا گیا ہے۔ میری جاسوسی بتاتی ہے کہ کمان دار تک غلط فہمیوں اور بے اطمینانی کا شکار ہوگئے ہیں۔ فوج کے لیے غلے اور گوشت کی قلت پیدا کرکے یہ بے بنیاد بات پھیلا دی گئی ہے کہ تمام تر رسد محاذوں پر بھیجی جارہی ہے اور یہ بھی کہ فوج کا مال حاکم بیچ کر کھارہے ہیں۔ دشمن کی سازش پوری طرح کامیاب ہے''۔

''دشمن کی سازش اسی ملک میں کامیاب ہوتی ہے جہاں کے چند ایک افراد دشمن کا ساتھ دینے پر اتر آتے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا۔ ''اگر ہمارے اپنے بھائی دشمن کا آلۂ کار بن جائیں تو ہم دشمن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
 جس طرح اللہ کے ان شیروں کے جذبے کے زور پر اور ان کی جانیں قربان کرکے صلیبیوں کو میدان جنگ میں ناکوں چنے چبوا رہا ہوں، اسی طرح میرے حاکم بھی پکے مسلمان ہوتے تو آج قبلہ اول آزاد ہوتا اور ہماری اذانیں یورپ کے کلیسائوں میں گونج رہی ہوتی مگر میں مصر میں قید ہوکے رہ گیا ہوں، میرے جذبے اور میرا عزم زنجیروں میں جکڑے گئے ہیں''۔ اس نے کچھ دیر کی گہری خاموشی اور سوچ کے بعد کہا… ''مجھے سب سے پہلے ان غداروں کو ختم کرنا ہوگا ورنہ یہ قوم کو دیمک کی طرح کھاتے رہیں گے''۔

''میں یہ مشورہ لے کر آیا ہوں کہ اگر محاذ آپ کو اجازت دے تو مصر چلئے''۔

''میں حقائق سے چشم پوشی نہیں کرسکتا علی!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''لیکن میں یہ اظہار کیے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ میرے ہاتھوں سے صلیبیوں کی گردن اور فلسطین چھڑانے والے میرے بھائی ہیں۔ علی بن سفیان! اگر میں نے غداروں کو اسلام کے دشمنوں کے ساتھ دوستی کرنے والے مسلمانوں کو ابھی ختم نہ کیا تو یہ کبھی ختم نہ ہوں گے اور ہماری تاریخ کو یہ گروہ ہمیشہ شرمسار کرتا رہے گا۔ قوم میں ہر دور میں یہ گروہ موجود رہے گا جو دین اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی کرکے اسلام کی جڑیں کھوکھلی کرتا رہے گا''۔ اس نے پوچھا سوڈان کے محاذ کی کیا خبر ہے؟ میں نے تقی الدین کو پیغام بھیج دیا کہ اس محاذ کو سمیٹنا شروع کردو۔

''مصر میں کسی کو بھی معلوم نہیں کہ آپ نے یہ حکم دیا ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا۔

''اور کس کو معلوم ہونا بھی نہیں چاہیے''۔ سلطان ایوبی نے کہا اس نے دربان کو بلایا اور کہا۔ ''کاتب کو فوراً بلا لائو''۔

کاتب کاغذ اور قلمدان لے کر آیا تو سلطان ایوبی نے کہا۔ ''لکھو… قابل صد احترام نورالدین زنگی…'

وہ قاصد بڑا ہی تیز رفتار تھا جس نے سلطان ایوبی کا پیغام اگلی رات کے آخری پہر بغداد میں نورالدین زنگی تک پہنچا دیا۔ سلطان ایوبی نے اسے کہا تھا کہ راستے میں ہر چوکی پر اسے تازہ دم گھوڑا مل جائے گا لیکن وہ گھوڑا صرف تبدیل کرے خود آرام اور کھانے کے لیے نہ رکے۔ کہیں بھی گھوڑا آہستہ نہ چلے۔ اگر رات کو نورالدین زنگی کے پاس پہنچے تو دربان سے کہہ دے کہ انہیں جگا دے۔ اگر زنگی خفگی کا اظہار کرے تو کہہ دینا کہ صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ ہم سب جاگ رہے ہیں۔ قاصد جب نورالدین زنگی کے دروازے پر پہنچا تو محافظ دستے نے اسے روک دیا اور کہا کہ پیغام صبح دیا جائے گا۔ قاصد نے گھوڑے تو کئی بدلے تھے مگر کہیں پانی کا ایک گھونٹ ینے کے لیے بھی نہیں رکا تھا۔ تھکن، بھوک، پیاس اور دو راتوں کی بیداری سے وہ لاش بن گیا تھا۔ زبان پیاس سے اکڑ گئی تھی۔ وہ پائوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا اور اس کے منہ سے بات نہیں نکلتی تھی۔ اس نے اشاروں میں بتایا کہ پیغام بہت ضروری ہے۔ نورالدین زنگی نے بھی سلطان ایوبی کی طرح اپنے خصوصی عملے، دربان اور اپنے باڈی گارڈز کے کمانڈر کو کہہ رکھا تھا کہ کوئی ضروری بات یا پیغام ہو تو اس کی نیند اور آرام کی پروا نہ کی جائے۔

قاصد کی حالت دیکھ کر باڈی گارڈز نے اندر جاکر نورالدین زنگی کی خواب گاہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ باہر آگیا اور پیغام اور قاصد کو ملاقات کے کمرے میں لے گیا۔ قاصد کمرے میں داخل ہوتے ہی گر پڑا۔ زنگی نے اپنے ملازموں کو بلایا اور قاصد کی دیکھ بھال کرنے کو کہا۔ اس نے پیغام پڑھنا شروع کیا۔ سلطان ایوبی نے لکھا تھا۔

''آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میرا پیغام آپ کو خوش نہیں کرے گا۔ آپ کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات صرف یہ ہے کہ میں نے حوصلہ نہیں چھوڑا۔ آپ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کررہا ہوں۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں گے تو تمام حالات سنائوں گا۔ میں نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا ہے، ابھی کامیابی نہیں ہوئی۔ اتنی کامیابی حاصل کرچکا ہوں کہ صلیبیوں کی ایک فوج نے شاہ ریمانڈ کی سرکردگی میں باہر سے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ میں نے محفوظہ سے اسے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اب تک اس کی آدھی فوج ختم کرچکا ہوں۔ بھوکے صلیبی اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو کھا رہے ہیں جو انہیں اتنی دور سے یہاں لائے تھے۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ ریمانڈ کو زندہ پکڑ لوں مگر کرک کا محاصرہ لمبا ہوتا جارہا ہے۔ صلیبیوں کا دماغ اور طریقہ جنگ پہلے سے بہت بہتر ہے۔ میں محاصرے کو کامیاب کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا اور مجھے امید تھی کہ میرے جانباز مجاہد قلعہ توڑ لیں گے وہ جس جذبے سے لڑ رہے ہیں وہ آپ کو حیران کردے گا مگر سوڈان میں میرا بھائی تقی الدین ناکام ہوگیا ہے۔ اس کی غلطی کہ اس نے اجنبی صحرا میں جاکر فوج کو پھیلا دیا ہے۔ وہ مدد مانگ رہا ہے۔ میں نے اسے محاذ سمیٹنے اور واپس آنے کو کہہ دیا ہے۔ مصر سے آئی ہوئی خبریں اچھی نہیں، غداروں اور ایمان فروشوں نے دشمن کا آلۂ کار بن کر مصر میں بغاوت اور صلیبی یلغار
''آپ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، میرا پیغام آپ کو خوش نہیں کرے گا۔ آپ کے لیے خوشی اور اطمینان کی بات صرف یہ ہے کہ میں نے حوصلہ نہیں چھوڑا۔ آپ کے ساتھ کیا ہوا عہد پورا کررہا ہوں۔ آپ میرے پاس تشریف لائیں گے تو تمام حالات سنائوں گا۔ میں نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا ہے، ابھی کامیابی نہیں ہوئی۔ اتنی کامیابی حاصل کرچکا ہوں کہ صلیبیوں کی ایک فوج نے شاہ ریمانڈ کی سرکردگی میں باہر سے مجھ پر حملہ کیا تھا۔ میں نے محفوظہ سے اسے گھیرے میں لے لیا ہے۔ اب تک اس کی آدھی فوج ختم کرچکا ہوں۔ بھوکے صلیبی اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو کھا رہے ہیں جو انہیں اتنی دور سے یہاں لائے تھے۔ میں اس کوشش میں ہوں کہ ریمانڈ کو زندہ پکڑ لوں مگر کرک کا محاصرہ لمبا ہوتا جارہا ہے۔ صلیبیوں کا دماغ اور طریقہ جنگ پہلے سے بہت بہتر ہے۔ میں محاصرے کو کامیاب کرنے کے طریقے سوچ رہا تھا اور مجھے امید تھی کہ میرے جانباز مجاہد قلعہ توڑ لیں گے وہ جس جذبے سے لڑ رہے ہیں وہ آپ کو حیران کردے گا مگر سوڈان میں میرا بھائی تقی الدین ناکام ہوگیا ہے۔ اس کی غلطی کہ اس نے اجنبی صحرا میں جاکر فوج کو پھیلا دیا ہے۔ وہ مدد مانگ رہا ہے۔ میں نے اسے محاذ سمیٹنے اور واپس آنے کو کہہ دیا ہے۔ مصر سے آئی ہوئی خبریں اچھی نہیں، غداروں اور ایمان فروشوں نے دشمن کا آلۂ کار بن کر مصر میں بغاوت اور صلیبی یلغار کے لیے راستہ صاف کردیا ہے۔ علی بن سفیان کو آپ اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ خود میرے پاس آیا ہے۔ میں اس کے مشورے کو نظرانداز نہیں کرسکتا کہ میں مصر چلا جائو… محترم! میں کرک کا محاصرہ اٹھا نہیں سکتا ورنہ صلیبی کہیں گے کہ صلاح الدین پسپا بھی ہوسکتا ہے۔ دشمن کی گردن میرے ہاتھ میں ہے۔ آئیے اور یہ گردن آپ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیں، اپنی فوج ساتھ لائیں، میں اپنی فوج مصر لے جائوں گا۔ ورنہ مصر بغاوت کا شکار ہوجائے گا۔ امید ہے کہ آپ میرے دوسرے پیغام کا انتظار نہیں کریں گے''۔

نورالدین زنگی نے ایک لمحہ بھی انتظار نہ کیا۔ شب خوابی کے لباس میں ہی مصروف کار ہوگیا۔ فوجی حکام کو بلا لیا۔ انہیں احکام دیئے اور دن ابھی آدھا بھی نہیں گزرا تھا کہ اس کی فوج کرک کی سمت کوچ کرچکی تھی۔ زنگی وہ مرد مجاہد تھا جس کا نام سن کر صلیبی بدک جاتے تھے۔ اس کے سینے میں ایمان کی شمع روشن تھی۔ وہ فن حرب وضرب کا ماہر تھا۔ اس نے راستے میں کم سے کم پڑائو کیے اور اتنی جلدی محاذ پر پہنچا کہ سلطان ایوبی حیران رہ گیا۔ اگر قاصد پہلے سے اسے اطلاع نہ دے دیتا کہ زنگی اپنی فوج کے ساتھ آرہا ہے تو دور سے گرد کے بادل دیکھ کر سلطان صلاح الدین سمجھتا کہ صلیبیوں کی فوج آرہی ہے۔ سلطان ایوبی گھوڑا سرپٹ بھگاتا استقبال کے لیے گیا۔ نورالدین زنگی اسے دیکھ کر گھوڑے سے کود آیا۔ اسلام کی عظمت کے یہ دونوں پاسبان جب گلے ملے تو جذبات کی شدت سے سلطان ایوبی کے آنسو نکل آئے۔

٭ ٭ ٭

سلطان ایوبی نے نورالدین زنگی کو تمام تر حالات اور غداروں کی ساری کارستانیاں سنائیں۔ زنگی نے کہا… ''صلاح الدین! تمہاری عمر ابھی اتنی نہیں گزری کہ چند ایک حقائق کو قبول کرسکو۔ یہ اسلام کی بدنصیبی ہے کہ غدار ہماری قوم کا لازمی حصہ بن گئے ہیں اور قوم ان سے کبھی پاک نہیں ہوگی۔ مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ ایک وقت آئے گا جب غدار قوم پر باقاعدہ حکومت کریں گے۔ دشمن کے خلاف باتیں کریں گے۔ بلند دعوے کریں گے، دشمن کو کچل دینے کے نعرے لگائیں گے، مگر قوم جان نہیں سکے گی کہ ان کے حکمران دراصل اس کے اور اس کے دین کے دشمن کے ساتھ درپردہ دوستی کرچکے ہیں۔ دشمن انہی کو ڈھال اور انہی کو تلوار بنائے گا اور ان کے ہاتھوں قوم کو مروائے گا… پریشان نہ ہو صلاح الدین! ہم حالات پر قابو پالیں گے۔ تم مصر پہنچو اور تقی الدین کو مدددے کر سوڈان سے نکالو۔ دائیں بائیں حملے کرکے دشمن کو الجھائے رکھو تاکہ تقی الدین کا کوئی دستہ کہیں گھیرے میں نہ آجائے۔ مصر میں فوجوں کو یکجا کرو اور مصر میں جو فوج ہے، اسے میرے پاس بھیج دو۔ میں اس کے دماغ سے بغاوت کا کیڑا نکال دوں گا''۔

شام کے بعد زنگی نے اپنی فوج کو کرک کے محاصرے پر لگا دیا اور سلطان ایوبی کی فوج پیچھے ہٹ آئی۔ اسے فوراً قاہرہ کے لیے کوچ کا حکم دے دیا گیا۔ کچھ غلطی وہاں ہوگئی جہاں سلطان ایوبی نے ریمانڈ کی فوج کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ زنگی نے جب وہاں اپنے دستے اس ہدایت کے ساتھ بھیجے کہ سلطان ایوبی کی فوج کی بدلی کرتی ہے تو احکام اور ہدایات پر کسی غلط فہمی کی بنا پر عمل نہ ہوسکا۔ ریمانڈ نے اتفاق سے اس سمت حملہ کیا جہاں اسے توقع تھی کہ مسلمانوں کا دستہ کمزور ہے۔ اس نے وہاں کسی کو بھی حملہ روکنے کے لیے تیار نہ پایا۔ وہ اس طرف سے نکل گیا اور کچھ فوج بھی نکل گئی۔ صلیبیوں کی بچی کھچی فوج پھنسی رہ گئی، ، جسے اگلے روز پتا چلا کہ ان کا حکمران کمانڈر بھاگ گیا ہے تو اس نے بھی اندھا دھند بھاگنے کی کوشش کی۔ صلیبی اپنی جانیں بچانے کے لیے لڑے۔ کچھ مارے گئے اور بعض پکڑے گئے۔ نقصان یہ ہوا کہ ریمانڈ نکل گیا۔ فائدہ یہ ہوا کہ گھیرا کامیاب رہا اور نورالدین زنگی کی فوج کا یہ حصہ کرک کے محاصرے کو کامیاب کرنے کے لیے فارغ ہوگیا۔

سلطان ایوبی جب قاہرہ کو روانہ ہونے لگا تو حسرت بھری نظروں سے کرک کو دیکھا۔ اس نے زنگی سے کہا ''تاریخ یہ تو نہیں کہے گی کہ صلاح الدین ایوبی پسپا ہوگیا تھا؟ میں نے محاصرہ اٹھایا تو نہیں!''۔

''نہیں صلاح الدین!''… نورالدین زنگی نے اس کا گال تھپکا کر کہا… ''تم نے شکست نہیں کھائی، تم جذباتی ہوگئے ہو، جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی''۔

''میں آئوں گا میر ے فلسطین!''… سلطان ایوبی نے کرک کو دیکھتے ہوئے کہا… ''میں آئوں گا''۔ اس نے گھوڑے کو ایڑی لگا دی پھر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔

نورالدین زنگی اسے دیکھتا رہا۔ وہ جب اپنے گھوڑے سمیت دور جاکر گرد میں چھپ گیا تو زنگی نے اپنے ایک نائب سے کہا… ''اسلام کو ہر دور میں ایک صلاح الدین ایوبی کی ضرورت ہوگی''۔
یہ واقعہ ١١٧٣ئ)٥٦٩ہجری( کے وسط کا ہے۔
جاری ھے ،

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں