داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 43 - اردو ناول

Breaking

پیر, مئی 20, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 43

اسلام اور انسان
صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.43۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
… وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔ایک ممبر وہاں سے چلا گیا، دوسرا جس کا نام ارسلان تھا، الادریس کے ساتھ رہا۔ ارسلان کا شجرۂ نسب سوڈانیوں سے ملتا تھا۔ اس نے الادریس سے کہا… ''آپ شخصیت پرست اور جذباتی مسلمان ہیں، میں نے حقیقت بیان کی اور آپ ناراض ہوگئے۔ میں اب آپ کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ میرے خلاف صلاح الدین ایوبی کو کچھ نہ لکھنا۔ آپ کے لیے اچھا نہ ہوگا''… اس کے لہجے میں چیلنج اور دھمکی تھی۔ الادریس نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو ارسلان نے کہا… ''اگر آپ پسند فرمائیں تو میں آپ کے ساتھ علیحدہ میں بات کروں گا''۔

''یہیں کرلو''۔ الادریس نے کہا۔

''میرے گھر چلیں''۔ ارسلان نے کہا… ''کھانا میرے ساتھ کھائیں مگر یہ خیال رکھیں کہ یہ ملاقات ایک راز ہوگی''۔

الادریس اس کے ساتھ اس کے گھر چلا گیا۔ اندر گیا تو اسے یوں لگا جیسے کسی بادشاہ کے محل میں آگیا ہو۔ ارسلان اتنی زیادہ اونچی حیثیت کا حاکم نہیں تھا۔ دونوں کمرے میں بیٹھے ہی تھے کہ ایک خوبصورت لڑکی نہایت خوبصورت صراحی اور چاندی کے دو پیالے چاندی کے گول تھا میں رکھے ہوئے اندرآئی اور ان کے آگے رکھ دیا۔ الادریس نے بو سے جان لیا کہ یہ شراب ہے۔ اس نے پوچھا … ''ارسلان! تم مسلمان ہو اور شراب پیتے ہو؟''… ارسلان مسکرا دیا اور بولا… ''ایک گھونٹ پی لیں آپ اس حقیقت کو سمجھ جائیں گے جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں''۔

دو سوڈانی حبشی اندر آئے۔ ان کے ہاتھوں میں چمکتی ہوئی طشتریوں میں کھانا تھا۔ کھانا لگ چکا تو الادریس حیرت سے ارسلان کو دیکھنے لگا۔ ارسلان نے کہا… ''حیران نہ ہوں محترم الادریس! یہ شان وشوکت آپ کو بھی مل سکتی ہے، میں بھی آپ کی طرح پارسا ہوا کرتا تھا مگر اب اس طرح کی دو لڑکیاں میرے گھر میں ہیں۔ دمشق اور بغداد کے امیروں اور وزیروں کے گھروں میں جاکر دیکھو۔ انہوں نے اس طرح کی حسین اور جوان لڑکیوں سے حرم بھر رکھے ہیں وہاں شراب بہتی ہے''۔

''یہ لڑکیاں، یہ دولت اور یہ شراب صلیبیوں کی کرم نوازیاں ہیں''۔ الادریس نے کہا… ''عورت اور شراب نے سلطنت اسلامیہ کی جڑیں کھوکھلی کردی ہیں''۔

''آپ صلاح الدین ایوبی کے الفاظ میں باتیں کرتے ہیں''۔ ارسلان نے کہا… ''یہی آپ کی بدنصیبی ہے''۔

''تم کیا کہنا چاہتے ہو؟''… الادریس نے جھنجھلا کر پوچھا۔ ''مجھے شک ہے کہ تم صلیبیوں کے جال میں آگئے ہو''۔

''میں فوج کا غلام نہیں بننا چاہتا''۔ ارسلان نے کہا ''میں فوج کو غلام بنانا چاہتا ہوں، اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ سوڈان میں تقی الدین کو رسد اور کمک نہ دی جائے۔ اسے دھوکہ دیا جائے کہ کمک آرہی ہے۔ اسے جھوٹی امیدوں پر لڑاتے رہو، حتیٰ کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوجائے۔ ظاہر ہے سوڈانی اسے قتل کردیں گے اور اس کی فوج ہمیشہ کے لیے ادھر ہی ختم ہوجائے گی۔ ہم فوج کو شکست کا ذمہ دار ٹھہرا کر اسے قوم کی نظروں میں ذلیل کردیں گے۔ پھر قوم صلاح الدین ایوبی کی فوج سے بھی متنفر ہوجائے گی… آپ میری بات سمجھنے کی کوشش نہیں کررہے۔ آپ کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ اس کا آپ کو اتنا اور ایسا معاوضہ ملے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتے''۔

''میں تمہارا مطلب سمجھ گیا ہوں''۔ الادریس نے کہا… ''تم اتنی خطرناک باتیں اتنی دلیری سے کس طرح کررہے ہو؟ کیا تم نہیں جانتے کہ میں تمہیں گرفتار کرکے غداری کی سزا دلا سکتا ہوں''۔

''کیا میں یہ نہیں کہہ سکوں گا کہ آپ مجھ پر جھوٹا الزام عائد کررہے ہیں''۔ ارسلان نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی میرے خلاف ایک لفظ نہیں سنے گا''۔

الادریس سٹپٹا اٹھا۔ وہ حیران تھا کہ اتنے بڑے عہدے کا حاکم کس قدر شیطان ہے اور وہ کتنی دلیری سے باتیں کررہا ہے۔ دراصل الادریس خود مردمومن تھا۔ وہ سمجھ ہی نہیں سکتا تھا کہ ایمان کو نیلام کردینے والے ذلت کی کن پستیوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس کے پاس ارسلان کو پابند کرنے اورراہ راست پر لانے کا ایک ہی ذریعہ تھا۔ وہ ارسلان کے عہدے سے زیادہ بڑے عہدے کا حاکم تھا۔ اس نے ارسلان سے کہا… ''میں جان گیا ہوں کہ تم کیا کہنا چاہتے ہو اور تم کیا کررہے ہو تم جس جرم کے مرتکب ہورہے ہو، اس کی سزا موت ہے۔ میں تمہیں یہ رعایت دیتا ہوں کہ سات روز کے اندر اپنا رویہ درست کرلو اور دشمن سے تعلقات توڑ کر مجھے یقین دلا دو کہ تم خلافت بغداد اور اپنی قوم کے وفادار ہو۔ میں تمہیں رسد کی ذمہ داری سے سبکدوش کرتا ہوں۔ یہ انتظام ہم خود کرلیں گے۔ اگر مجھے ضرورت محسوس ہوئی تو میں تمہیں اس محل میں جو تمہیں صلیبیوں نے بنا دیا ہے، نظر بند کردوں گا۔ سات دن بڑی لمبی رعایت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آٹھویں روز تمہیں جلاد یہاں سے نکالے''۔

: الادریس اٹھ کھڑا ہوا، اس نے دیکھا کہ ارسلان مسکرا رہا تھا۔ ارسلان نے کہا… ''محترم الادریس! آپ کے دو بیٹے ہیں، دونوں جوان ہیں''۔

''ہاں!''الادریسنے کہا اور پوچھا ''کیا ہے میرے بیٹوں کو؟''

''کچھ نہیں!'' ارسلان نے کہا ''میں آپ کو یاد دلا رہا ہوں کہ آپ کے دو جوان بیٹے ہیں اور یہی آپ کی کل اولاد ہے''۔

الادریس اس اشارے کو سمجھ نہ سکا۔ اس نے کہا… ''شراب نے تمہارا دماغ خراب کردیا ہے''… اور وہ باہر نکل گیا۔

٭ ٭ ٭

ارسلان کے گھر سے نکل کر الادریس علی بن سفیان کے گھر چلا گیا اور اسے ارسلان کی باتیں سنائیں۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ ارسلان اس کی مشتبہ فہرست میں ہے لیکن اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں مل رہا تاہم وہ جاسوسوں کی نظر میں ہے۔ الادریس بہت پریشان تھا اور حیران بھی کہ ارسلان اتنی دلیری سے غداری کا مرتکب ہورہا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ وہ اکیلا نہیں، غداری منظم طریقے سے ہورہی ہے۔ اس کے جراثیم فوج میں بھی پھیلا دئیے گئے ہ یں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ سوڈان کے محاذ کے لیے رسد کا تھا۔ الادریس نے اسے بتایا کہ اس نے ارسلان کو اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا ہے اور رسد کا انتظام اب خود کرنا ہے۔ علی بن سفیان نے اسے بتایا کہ ایک سازش کے تحت دیہات سے اناج اور بکرے وغیرہ سرحد سے باہر بھجوائے جارہے ہیں۔ منڈی میں غلے اور دیگر سامان خوردونوش کا مصنوعی قحط پیدا کردیا گیا ہے۔ اس نے بتایا کہ اس نے اپنے جاسوسوں اور مخبروں کو یہ کام دے رکھا ہے کہ رات کو ادھر ادھر گھومتے رہا کریں۔ جہاں کہیں انہیں اناج کی ایک بوری بھی جاتی نظر آئے، پکڑ لیں۔ طویل بات چیت کے بعد انہوں نے رسد کے انتظام کا کوئی طریقہ سوچ لیا۔

سلیم الادریس اس قومی مہم اور اپنے فرائض میں اس قدر مگن تھا کہ اس کے ذہن سے ارسلان کا یہ اشارہ نکل گیا کہ تمہارے دو جوان بیٹے ہیں اور یہی تمہاری کل اولاد ہے۔ الادریس کو اپنے بیٹوں کے کردار پر بھروسہ تھا مگر جوانی اندھی ہوتی ہے۔ قاہرہ میں سلطان ایوبی کی غیرحاضری میں بدکاری کی ایک لہر آئی تھی جس نے نوجوان ذہن کو لپیٹ میں لینا شروع کردیا تھا۔ دو تین سال پہلے بھی ایسی ہی ایک لہر آئی تھی جس پر جلدی ہی قابو پالیا گیا تھا۔ اب یہ لہر زمین کے نیچے سے آئی اور کام کرگئی۔ یہ مختلف کھیل تماشوں کی صورت میں آئی جن میں شعبدہ بازی اور کھیلوں کی صورت میں جوأ بازی شامل تھی۔ یہ لوگ خیمے اور شامیانے تان کر تماشہ دکھاتے تھے جس میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں تھا مگر شامیانوں کے اندر خفیہ خیمے تھے۔ جہاں اکیلے اکیلے نوجوان کو اشارے سے بلایا جاتا تھا۔ ان سے پیسے لے کر کپڑوں پر بنی ہوئی دستی تصویریں دکھانے کا کام لڑکیاں کرتی تھیں جن کی مسکراہٹ اور انداز دعوت گناہ ہوتی تھی۔

وہیں نوجوانوں کو تھوڑی تھوڑی حشیش پلائی جاتی تھی۔ یہ شرمناک اور خطرناک سلسلہ زمین کے اوپر چل رہا تھا مگر اسے پکڑ کوئی نہیں سکتا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ جو کوئی یہ تصویریں دیکھ کر یا حشیش کا ذائقہ چکھ کر آتا تھا وہ اپنے گناہ کو چھپائے رکھتا تھا۔ اس گناہ میں لذت ایسی تھی کہ جانے والے باربار جاتے تھے۔ وہ اس لیے بھی باہر کسی سے ذکر نہیں کرتے تھے کہ حکومت تک بات پہنچ گئی تو انہیں نشہ آور لذت سے محروم کردیا جائے گا۔ اس لذت پرستی کا شکار نوجوان اورفوجی ہورہے تھے۔ ان کے لیے در پر وہ وہ قحبہ خانے بھی کھول دئیے گئے۔ کردار کشی کی یہ مہم کس قدر کامیاب تھی؟… اس کا جواب کرک کے قلعے میں صلیبیوں کی انٹیلی جنس اور نفسیاتی جنگ کا ماہر جرمن نژاد ہرمن اپنے حکمرانوں کو ان الفاظ میں دے رہا تھا۔

''سپین کے مصوروں نے جو تصویریں بنائی ہیں، یہ لوہے کے بنے ہوئے مردوں کو بھی مٹی کے بت بنا دیتی ہیں''۔ اس نے ایک مرد اور ایک عورت کی ایک فحش تصویر حاضرین کو دکھائی۔ یہ بڑے سائز کی تصویر تھی جو برش سے دلکش رنگوں میں بنائی گئی تھی۔ صلیبی حکمرانوں نے تصویر دیکھ کر ایک دوسرے کے ساتھ ننگے مذاق شروع کردئیے۔ ہرمن نے کہا… ''میں نے ایسی بے شمار تصویریں بنوا کر مصر کے بڑے بڑے شہروں میں ان کی خفیہ نمائش کا انتظام کردیا ہے۔ وہاں سے ہماری کامیابی کی اطلاعیں آرہی ہیں۔ میں نے قاہرہ کی نوجوان نسل میں حیوانی جذبہ بھڑکا دیا ہے۔ یہ ایسا طاقتور جذبہ ہے جو مشتعل ہوجائے تو انسانی جذبوں کو جن میں قومی جذبہ خاص طور پر شامل ہے، تباہ کردیتا ) یہ ان تصویروں نے مصر میں مقیم مسلمان فوج کو ذہنی اور اخلاقی لحاظ سے بے کارکرنا شروع کردیا ہے۔ ان تصویروں کی لذت نشہ بھی مانگتی ہے۔ اس کا انتظام بھی کردیا ہے۔ میرے تخریب کاروں اور جاسوسوں کے گروہ نے صحرائی لڑکیوں کی پوری فوج قاہرہ اور دوسرے قصبوں میں داخل کردی ہے۔ ۔ یہ لڑکیاں دیمک کی طرح صلا الدین ایوبی کی قوم اور فوج کو کھا رہی ہیں۔ وہ وجوہات کچھ اور تھیں جب میری مہم قاہرہ میں پکڑی گئی تھی۔ اب میں نے کچھ اور طریقے آزمائے ہیں جو کامیاب ہورہے ہیں۔ اب وہاں کے مسلمان خود میری مہم کی حفاظت کریں گے اور اسے تقویت دیں گے۔ وہ اس ذہنی عیاشی کے عادی ہوگئے ہیں، تھوڑے ہی عرصے بعد میں ان کے ذہنوں میں ان کی اپنی ہی قوم اور اپنے ہی ملک کیخلاف زہر بھر نا شروع کردوں ۔
''صلاح الدین ایوبی بہت ہوشیار آدمی ہے''۔ حاضرین سے کسی نے کہا۔ ''وہ جونہی مصر پہنچا تمہاری اس مہم کو جڑ سے اکھاڑ دے گا''۔

''اگر وہ مصر پہنچا تو…'' ہرمن نے کہا… ''اس سوال کا جواب آپ ہی دے سکتے ہیں کہ آپ اس کا محاصرہ کامیاب ہونے دیں گے یا نہیں۔ بے شک اس نے ریمانڈ کی فوج کو قلعے سے باہر گھیرے میں لے رکھا ہے اور قلعہ اس کے محاصرے میں ہے لیکن یہ گھیرا اور یہ محاصرہ اسی کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ آپ یہاں فیصلہ کن جنگ نہ لڑیں۔ ایوبی کا محاصرہ کیے رکھنے دیں تاکہ وہ یہیں پابند رہے اور مصر نہ جاسکے۔ سوڈان میں ہمارے کمانڈروں نے تقی الدین کی فوج کو نہایت کامیابی سے بکھیر دیا ہے۔ وہ اب نہ لڑ سکتا ہے، نہ وہاں سے نکل سکتا ہے۔ مصر کی منڈیوں کا اور وہاں کی کھیتیوں کا غلہ میں نے غائب کرادیا ہے۔ آپ کی دی ہوئی دولت آپ کو پورا صلہ دے رہی ہے۔ ایوبی کا ایک وفادار حاکم ارسلان دراصل آپ کا وفادار ہے۔ وہ ہمارے ساتھ پورا تعاون کررہا ہے۔ اس کے کچھ اور ساتھی بھی ہمارے ساتھ ہیں''۔

''ارسلان کو کتنا معاوضہ دیا جارہا ہے؟''۔ فلپ آگسٹس نے پوچھا۔

''جتنا ایک مسلمان حاکم کا دماغ خراب کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے''۔ ہرمن نے جواب دیا… ''عورت اور شراب، دولت اور حکومت کا نشہ کسی بھی مسلمان کا ایمان خرید سکتا ہے۔ وہ میں نے خرید لیا ہے… میں آپ کو یہ بتا رہا تھا کہ اب صلاح الدین ایوبی مصر جائے گا تو اسے وہاں کی دنیا بدلی ہوئی نظر آئے گی وہ جس نوجوان نسل کی بات فخر سے کیا کرتا ہے وہ مسلمان ہوتے ہوئے اسلام کے لیے بے کار ہوگی۔ اس کی سوچیں اور اس کا کردار ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔ یہ نسل جنسی جذبے کی ماری ہوگی۔ یہی حال اس فوج کا ہوگا جسے وہ مصر چھوڑ آیا ہے۔ اس فوج میں میرے تخریب کاروں نے اتنی زیادہ بے اطمینانی پھیلا دی ہے کہ وہ بغاوت سے بھی گریز نہیں کرے گی۔ میں آج یہ دعویٰ وثوق سے کرسکتا ہوں کہ آپ سے

پہلے میں اپنا محاذ ختم کرچکا ہوں گا۔ دشمن کے کردار اور اخلاق کو تباہ کردینے سے فوجوں کے حملوں کی ضرورت باقی نہیں رہتی''۔

ہرمن کی اس حوصلہ افزا رپورٹ پر صلیبی حکمران بہت خوش ہوئے، فلپ آگسٹس نے وہی عزم دہرایا جس کا اظہار وہ کئی بار کرچکا تھا۔ اس نے کہا …''ہماری لڑائی صلاح الدین ایوبی سے نہیں اسلام سے ہے۔ ایوبی بھی مرجائے گا، ہم بھی مرجائیں گے لیکن ہمارا جذبہ اور عزم زندہ رہنا چاہیے تاکہ اسلام بھی مرجائے اور دنیا پر صلیب کی حکمرانی ہو۔ اس کے لیے یہ ضروری تھا کہ ایسا محاذ کھولا جائے جہاں سے مسلمانوں کے نظریات اور کردار پر حملہ کیا جائے۔ میں ہرمن کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اس نے محاذ نہ صرف کھول دیا ہے بلکہ حملہ کرکے ایک حد تک کامیابی بھی حاصل کرلی ہے''۔

٭ ٭ ٭

سلیم الادریس کے بھی دو بیٹے جوان تھے۔ ایک کی عمر سترہ سال اور دوسرے کی اکیس سال تھی۔ کہا نہیں جاسکتا کہ وہ بھی لذت پرستی کے اس طوفان کی لپیٹ میں آگئے تھے یا نہیں، جو صلیبی تخریب کار قاہرہ میں لائے تھے۔ البتہ یہ ثبوت بعد میں ملا کہ بڑے بیٹے کے در پردہ تعلقات ایک جوان اور خوبصورت لڑکی کے ساتھ تھے۔ یہ لڑکی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتی تھی اور بے پردہ رہتی تھی۔ کسی بڑے خاندان کی لڑکی تھی۔ ان کی ملاقاتیں خفیہ ہوتی تھیں جس روز ارسلان نے الادریس سے کہا تھا کہ تمہارے دو بیٹے جوان ہیں اس سے اگلے روز اس لڑکی نے الادریس کے بڑے بیٹے سے کہا کہ ایک نوجوان اسے بہت پریشان کرتا ہے۔ وہ جدھر جاتی ہے اس کا پیچھا کرتا ہے اور اسے اغوا کی دھمکیاں بھی دیتا ہے۔ اس بڑے بیٹے نے لڑکی سے پوچھا کہ نوجوان کون ہے تو لڑکی نے نہ بتایا۔ بات گول کرگئی کہنے لگی کہ اس نے زیادہ پریشان کیا تو اسے بتا دے گی۔

 بعد کے انکشافات سے پتا چلا کہ اسے کوئی نوجوان پریشان نہیں کرتا تھا بلکہ وہ خود نوجوانوں کو پریشان اور خراب کرتی پھر رہی تھی۔ اس نے جس شام بڑے بیٹے سے یہ شکایت کی کہ اس سے اگلے ہی روز اس نے الادریس کے چھوٹے بیٹے کو جس کی عمر سترہ سال تھی، اپنے جال میں پھانس لیا اور ایسی والہانہ اور بیتابانہ محبت کا اظہار زبانی اور عملی طور پر کیا کہ لڑکا اپنا آپ اس کے حوالے کربیٹھا۔ دو درپردہ ملاقاتوں کے بعد اس نے اسے بھی بتایا کہ ایک نوجوان اسے بہت پریشان کرتا ہے اور اسے اغوا کی دھمکیاں دیتا ہے۔ لڑکے کا خون جوش میں آگیا۔ اس نے پوچھا کہ وہ کون ہے تو لڑکی نے کہا کہ اگر اس نے زیادہ پریشان کیا تو بتائوں گی۔ اسی شام وہ اس لڑکے کے بڑے بھائی سے ملی اور اسے کہا کہ وہ نوجوان مجھے زیادہ پریشان کرنے لگا ہے۔ وہ تمہارے متعلق کہتا ہے کہ اسے میں ایسے طریقے سے قتل کروں گا کہ کسی کو پتا ہی نہیں چل سکے گا۔ لڑکی نے کہا… ''تم خنجر اپنے پاس رکھا کرو''۔
جاری ھے ، (

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں