صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.42۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــ
یہ مصر سے آنے والی رسد کا راستہ تھا۔ عطاالہاشم نے اپنے صرف ایک دستے سے جس کی نفری ایک سو سے کچھ کم تھی، رسد کے تمام تر راستے کو محفوظ کردیا تھا۔ رسد پر چھاپہ مارنے والے دشمن کا اس نے بہت نقصان کیا تھا۔ اس کے جانباز اچانک جھپٹ پڑے تھے۔ سوڈانیوں نے انہیں ختم کرنے کے بہت جتن کیے لیکن پانچ چھ جانبازوں کو شہید کرنے کے سوا کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ عطاالہاشم ٹیلوں میں ڈھکی ہوئی ایک جگہ پر بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ چھ سات جانباز تھے۔ یہ اس نے ہیڈکوارٹر بنا رکھا تھا۔ اسے صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں دو لڑکیاں ایک ادھیڑ عمر آدمی کے ساتھ نظر آئیں۔ عطاالہاشم کو دیکھ کر تینوں اس کے پاس آگئے۔ لڑکیاں سوڈانی معلوم ہوتی تھیں لیکن انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ بہروپ لگتا تھا۔ ان کے چہروں پر گرد تھی، چہرے اداس تھے اور تھکن بھی معلوم ہوتی تھی۔ لڑکیاں ادھیڑ عمر آدمی کے پیچھے ہوگئیں۔ یہ جھجک اور شرم کا اظہار تھا۔
اس آدمی نے کچھ مصری اور کچھ سوڈانی زبان میں کہا کہ وہ مسلمان ہے اور یہ دونوں اس کی بیٹیاں ہیں۔ وہ بھوک سے مررہے ہیں۔ اس نے کھانے کے لیے کچھ مانگا۔ عطاالہاشم سوڈان کی زبان جانتا تھا۔ وہ چھاپہ مار تھا۔ سوڈانی علاقے میں کمانڈو کارروائیوں کی کامیابی کے لیے اس نے سوڈانی زبان سیکھی تھی۔ اس کے پاس خوراک کی کمی نہیں تھی۔ وہ رسد کا محافظ تھا۔ دو تین بار رسد گزری تھی جس میں سے اس نے اپنے دستے کے یلے بہت سارا راشن پانی اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اس نے ان تینوں کو کھانا دیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ اور کہاں جارہے ہیں؟۔ اس آدمی نے کسی گائوں کا نام لے کر کہا کہ ان کا گائوں جنگ کی زد میں آگیا ہے۔ کبھی سوڈانی آجاتے تھے تو کبھی مسلمان۔ دونوں گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے تھے۔ وہ ان لڑکیوں کو فوجیوں سے چھپاتا پھرتا تھا، آخر تنگ آکر گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ وہ لڑکیوں کی عزت بچانا چاہتا تھا۔ اس نے بتایا کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اس کوشش میں ہے کہ مصر چلا جائے مگر ممکن نظر نہیں آتا۔ اس نے عطاالہاشم سے کہا کہ وہ انہیں مصر پہنچا دے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے پوچھا … ''تم لوگ اس جگہ کب تک رہو گے؟''
''جب تک رہوں، تم تینوں کو اپنے ساتھ رکھوں گا''… عطاالہاشم نے جواب دیا۔
''آپ ان دونوں لڑکیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں''… ادھیڑ عمر آدمی نے کہا… ''میں چلا جاتا ہوں''۔
''میں یہ دیکھ کر حیران ہورہی ہوں کہ آپ کی زندگی کتنی دشوار ہے''… ایک لڑکی نے معصوم لہجے میں کہا اور پوچھا… ''آپ کو اپنا گھر اور بیوی بچے یاد نہیں آتے؟''
''سب یاد آتے ہیں''… عطاالہاشم نے جواب دیا… ''لیکن میں اپنے فرض کو نہیں بھول سکتا''۔
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کھانا کھا کر پانی پی کر ان کے جسموں میں نئی جان اور نئی روح پیدا ہوگئی ہو۔ ایک لڑکی تو خاموش رہی، دوسری کی زبان رواں ہوگئی۔ اس نے جتنی بھی باتیں کیں ان میں عطاالہاشم اور اس کے جانبازوں کے لیے ہمدردی تھی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ وطن سے اتنی دور آکر اپنی جانیں کیوں ضائع کرتے ہیں؟
عطاالہاشم اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے تینوں کو اٹھایا اور اپنے آدمیوں کو بلایا۔ انہیں کہا کہ اس سوڈانی کے پائوں رسیوں سے باندھ کر میرے گھوڑے کے پیچھے باندھ دو۔ انہوں نے اسے گرا کر پائوں باندھ دیئے اور گھوڑا کھول لائے۔ رسی کا ایک سرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا۔ عطاالہاشم نے ایک سپاہی سے کہا کہ گھوڑے پر سوار ہوجائے۔ وہ سوار ہوگیا۔ عطاالہاشم نے لڑکیوں کو اکٹھا کھڑا کرکے دو تیر انداز بلائے۔ انہیں کہا کہ میرے اشارے پر لڑکیوں کی آنکھوں کے درمیان ایک ایک تیر چلا دیں اور گھوڑ سوار گھوڑے کو ایڑی لگا دے۔ گھوڑے کے پیچھے سوڈانی بندھا ہوا زمین پر پڑا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ گھوڑا دوڑے گا تو اس کا کیا حشر ہوگا۔ تیر اندازوں نے ایک ایک تیر کمانوں میں ڈال لیا اور گھوڑ سوار نے باگیں تھام لیں۔ عطاالہاشم نے سوڈانی لڑکیوں اور آدمی سے کہا… ''میں تم تینوں کو صرف ایک بار کہوں گا کہ اپنی اصلیت بتا دو جس مقصد کے لیے آئے ہو، صاف بتا دو، ورنہ اپنے انجام کے لیے تیار ہوجائو''۔
خاموشی طاری ہوگئی۔ لڑکیوں نے گھوڑے کے پیچھے بندھے ہوئے اپنے ساتھی کو دیکھا۔ وہ بھی خاموش تھا۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں آپس میں مشورہ کرلیا۔ سوڈانی نے کہا کہ وہ اپنا آپ ظاہر کردے گا۔ عطاالہاشم اس کے پاس بیٹھ گیا اور کہا کہ وہ سچ بولے گا تو اسے کھولا جائے گا۔ اس آدمی نے کہا… ''اوپتھر دل انسان! تیرے پاس اتنی خوبصورت لڑکیاں لایا ہوں اور تو انہیں تیروں کا نشانہ بنا رہا ہے۔ انہیں اپنے پاس رکھ اور اپنے دستے کو سمیٹ کر یہاں سے چلا جا۔
: اگر یہ قیمت تھوڑی ہے تو اپنی قیمت بتا۔ سونے کے سکے مانگ، کچھ اور مانگ۔ شام سے پہلے لادوں گا''۔
عطا الہاشم اٹھا اور سوار سے کہا… ''گھوڑا دلکی چال پندرہ بیس قدم چلائو''۔
گھوڑا چل پڑا۔ چند قدم آگے گیا تو سوڈانی بلبلا اٹھا۔ عطاالہاشم نے کہا… ''رک جائو''… گھوڑا رکا تو عطاالہاشم نے اس کے پاس جاکر کہا کہ وہ سیدھی باتیں کرنے پر آجائے۔ وہ مان گیا۔ اس نے بتا دیا کہ وہ سوڈانی جاسوس ہے اور صلیبیوں نے اسے ٹریننگ دی ہے۔ لڑکیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ مصر کی پیدائش ہیں اور صلیبیوں نے انہیں تخریب کاری کے فن کا ماہر بنا رکھا ہے۔ عطاالہاشم نے اس کے پائوں کھول دیئے اور اسے اپنے پاس بٹھا کر باتیں پوچھیں۔ اس نے بتایا کہ اسے یہ کام دیا گیا ہے کہ سوڈان میں پھیلے ہوئے مسلمان کمانڈروں کو لڑکیوں یا سونے چاندی کا چکمہ دے کر انہیں اور ان کے سپاہیوں کو ختم یا قید کرادیا جائے یا انہیں اپنے ہاتھ میں لیا جائے۔ اس نے بتایا کہ عطاالہاشم نے رسد کا راستہ ایسی خوبی سے محفوظ کررکھا تھا کہ صلیبی اور سوڈانی چھاپہ ماروں کا جانی نقصان بھی ہوا اور رسد بھی نکل گئی۔ اسے یہ مشن دے کر بھیجا گیا تھا کہ عطاالہاشم کو ان لڑکیوں سے اندھا کرکے اسے قتل کردے یا اسے ایسے پھندے میں لے آئے کہ اسے قتل یا قید کرلیا جائے اور اگر وہ ایمان کا کچا ثابت ہوا تو اسے اپنے ساتھ ملا لیا جائے گا۔ یہ سوڈانی حیران تھا کہ عطاالہاشم نے اتنی خوبصورت لڑکیوں کو قبول نہیں کیا۔ اس نے جب عطاالہاشم سے پوچھا کہ اس نے لڑکیوں اور زرد جواہرات کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیا ہے تو عطاالہاشم نے مسکرا کر کہا۔ ''کیونکہ میں ایمان کا کچا نہیں''۔
عطاالہاشم نے لڑکیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ زیادہ باتیں کرنے والی نے پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ عطاالہاشم نے بتایا کہ انہیں وہ کل صبح اپنے ہیڈکوارٹر میں سالار اعلیٰ تقی الدین کے پاس لے جائے گا یا بھیج دے گا۔ اس نے سوڈانی کو لڑکیوں سمیت اس ہدایت کے ساتھ اپنے آدمیوں کے حوالے کردیا کہ انہیں الگ الگ رکھا جائے۔ ان کی تلاشی لی گئی۔ تینوں کے پاس ایک ایک خنجر تھا۔ آدمی کے پاس ایک پوٹلی تھی جس میں حشیش بندھی ہوئی تھی۔
سورج غروب ہونے والا تھا جب اس کے دستے کی ایک ٹولی واپس آگئی۔ اس نے ٹولی کو کچھ دور تک پھیلا دیا۔ اس نے ہر کسی کو بتا دیا کہ یہ تینوں جاسوس اور تخریب کار ہیں۔ ہوسکتا ہے ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوکہ یہ یہاں ہیں اور انہیں چھڑانے کے لیے حملہ کریں۔ ان انتظامات کے بعد وہ آرام کے لیے لیٹ گیا۔ وہ جگہ نشیب وفراز کی تھی۔ اس نے لیٹنے سے پہلے دیکھ لیا تھا کہ اس کے سپاہیوںنے لڑکیوں اور مرد کو کس طرح لٹایا ہے۔ وہ خود ایک ٹیلے کے ساتھ لیٹا جہاں وہ اپنے سپاہیوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا۔ اس کی آنکھ لگ گئی۔ کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس کے ذہن میں یہ دو لڑکیاں آگئیں۔ وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ کتنی خوبصورت اور بظاہر کیسی معصوم سی لڑکیاں ہیں اور ان سے کتنا غلیظ اور کتنا خطرناک کام کرایا جارہا ہے اگر یہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہوتیں تو کسی باعزت گھرانے میں دلہنیں بن کر جاتیں۔ اسے اپنی بیوی یاد آگئی جو دلہن بن کر اس کے گھر آئی تھی تو انہی کی طرح جوان اور دلکش تھی۔ اپنی بیوی کی یاد اسے رومان انگیز تصورت میں لے گئی۔ اس ویران صحرا میں جہاں وہ موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا، ان تصوروں نے اس پر نشہ طاری کردیا۔ میدان جنگ میں سپاہی ایسے ہی تصوروں اور بڑی ہی دلکش یادوں سے دل بہلایا کرتے ہیں۔
چاندنی نکھر آئی تھی، صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف اور خنک ہوا کرتی ہے۔ اس کی خنکی میں ایسا تاثر ہوتا ہے جو ذہن اور دل سے موت کے خوف کو دھو ڈالتا ہے۔ عطاالہاشم اٹھا اور اس انداز سے خراماں خراماں اس جگہ گیا جہاں لڑکیاں سوئی ہوئی تھیں، جیسے وہ حفاظتی انتظام کا معائنہ کرنے جارہا ہو۔ وہ اکٹھی سورہی تھیں۔ ان کے اردگرد سپاہی سوئے ہوئے تھے۔ سوڈانی آدمی کچھ دور تین سپاہیوں کے نرغے میں سویا ہوا تھا۔ عطاالہاشم نے ایک لڑکی کے پائوں کو اپنے پائوں سے دبایا۔ لڑکی کی آنکھ کھل گئی۔ عطاالہاشم کو چاندی میں پہچان کر وہ اٹھ بیٹھی۔ عطاالہاشم نے اسے اٹھنے اور ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ لڑکی اس مسرت کے ساتھ اٹھی کہ اس پتھر جیسے کمانڈر پر اس کی جواں نسوانیت کا جادو چل گیا ہے۔ وہ اس کے ساتھ چل پڑی۔ عطاالہاشم نے دیکھا کہ اس کے سپاہی کیسی بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ خبر بھی نہیں کہ کوئی آدمی ان کے درمیان سے لڑکی کو اٹھا کر لے جارہا ہے۔ اسے اپنے سپاہیوں پر غصے کے بجائے ترس آگیا جو ایک غیر یقینی سے جنگ لڑرہے تھے۔ کسی باقاعدہ کمان اور کنٹرول کے باوجود وہ نظم وضبط کی پابندی کررہے تھے۔
لڑکی کو وہ اپنی جگہ لے گیا۔ لڑکی کے سر پر اب اوڑھنی نہیں تھی۔ چاندنی اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو سونے کے تاروں کا رنگ دے رہی تھی
: وہ کچھ دیر لڑکی کو دیکھتا رہا اور لڑکی اسے دیکھتی رہی۔ لڑکی نے نشیلی سے آواز میں مسکرا کر کہا… ''میں حیران ہوں کہ آپ ڈر کیوں رہے ہیں۔ مجھے آپ کے پاس آپ ہی کے لیے لایا گیا ہے۔ کیا آپ میری ضرورت محسوس نہیں کرتے؟''… وہ اسے چپ چاپ دیکھتا رہا جیسے بت بن گیا ہو۔ لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا لیا اور بولی… ''میں جانتی ہوں آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے، آپ کیا سوچ رہے ہیں؟''
''میں سوچ رہاں ہوں کہ تمہارا باپ میری طرح کا ایک مرد ہوگا''… عطاالہاشم نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہا… ''میں بھی باپ ہوں۔ ہم دونوں باپوں میں زمین اور آسمان جتنا فرق ہے۔ وہ باپ کتنا بے غیرت ہے اور میں ہوں کہ غیرت کی پاسبانی کے لیے اپنے بچوں کو یتیم کرنے کی کوشش کررہا ہوں''۔
''میرا کوئی باپ نہیں''… لڑکی نے کہا… ''دیکھا ہوگا، اس کی صورت یاد نہیں''۔
''مرگیا تھا؟''
''یہ بھی یاد نہیں''۔
''اور ماں؟''
''کچھ بھی یاد نہیں''… لڑکی نے کہا… ''یہ بھی یاد نہیں کہ میں کس گھر میں پیدا ہوئی تھی یا کسی خانہ بدوش کے خیمے میں … مگر یہ وقت ایسی بے مزہ باتیں کرنے کا نہیں''۔
''ہم سپاہی یادوں سے مزے حاصل کیا کرتے ہیں''… عطاالہاشم نے کہا… ''میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ذہن میں بھی تمہارے ماضی کی چند ایک یادیں تازہ کردوں''۔
''میں خود ایک حسین یاد ہوں''… لڑکی نے کہا… ''جس کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار جاتی ہوں، وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے۔ میری اپنی کوئی یاد نہیں''۔
''اپنے آپ کو حسین نہیں، ایک غلیظ یاد کہو''… عطاالہاشم نے کہا… ''مجھے تمہارے جسم سے صلیبیوں کے سوڈانیوں کے مسلمانوں کے اور بڑے ہی غلیظ انسانوں کے گناہوں کی بو آرہی ہے۔ تم میرے قریب آئوگی تو مجھے متلی آجائے گی۔ تمہیں کوئی مرد یاد نہیں رکھتا۔ تم جیسی لڑکیوں کے شکاری آج یہاں اور کل وہاں ہوتے ہیں۔ دوسرا شکار مل جاتا ہے تو پہلے کو بھول جاتے ہیں۔ تمہارا یہ حسن چند دنوں کا مہمان ہے۔ تم میری قید میں ہو۔ میں تمہارا یہ چہرہ اسی وقت سزا کے طور پر زخمی کرکے ہمیشہ کے لیے مکروہ بنا سکتا ہوں مگر ایسی ضرورت نہیں۔ یہ صحرا شراب، حشیش اور بدکاری تمہیں سال کے اندر اندر مرجھایا ہوا پھول بنا دے گی جسے لوگ اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ یہ صلیبی اور یہ سوڈانی تمہیں بھیک مانگنے کے لیے باہر نکال دیں گے۔ تم بڑے ہی گھٹیا انسانوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بن جائو گی''… ''میری ایک بیٹی ہے جو تم سے دو تین سال چھوٹی ہوگی۔ اس کی شادی ایک باعزت جوان کے ساتھ ہوگی جو میری طرح کمر سے تلوار لٹکا کر بڑی اچھی نسل کے گھوڑے پر سوار ہوا کرے گا۔ وہ میری طرح میدان جنگ کا شہزادہ ہوگا۔ میری بیٹی دلہن بنے گی۔ اپنے خاوند کے دل میں اور اس کے گھر میں راج کرے گی۔ لوگ میری بیٹی کو ایک نظر دیکھنا چاہیں گے مگر دیکھ نہیں سکیں گے۔ میں بھی اس پر فخر کیا کروں گا اور اس کا خاوند اس کے ساتھ اتنی محبت کرے گا کہ وہ بوڑھی ہوجائے گی تو بھی محبت ختم نہیں ہوگی، بڑھے گی۔ تمہیں دیکھنے کے لیے کوئی بھی بیتاب نہیں ہوتا کیونکہ تم ایک ننگا بھید ہو، تمہاری عزت کسی کے دل میں نہیں اور کوئی بھی نہیں جو تمہیں محبت کے قابل سمجھے گا''۔
''آپ میرے ساتھ ایسی باتیں کیوں کررہے ہیں؟''… لڑکی نے ایسی آواز میں پوچھا جو اس کی اپنی نہیں لگتی تھی۔
''میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم جیسی بیٹیاں مقدس ہوتی ہیں''… عطاالہاشم نے جواب دیا… ''ہم مسلمان لوگ بیٹی کو اللہ کا پیغام سمجھتے ہیں اگر تم عصمت اور مذہب کے معنی سمجھ لو تو تم پر اللہ کی رحمت برس جائے گی مگر تم سمجھ نہیں سکو گی کیونکہ تم اس محبت سے واقف نہیں جو روح کی گہرائیوں تک پہنچا کرتی ہے۔ تم بدنصیب ہو۔ تم نے مردوں کی ہوس دیکھی ہے، محبت نہیں دیکھی''۔
عطاالہاشم آہستہ آہستہ بولتا رہا۔ اس کے لب ولہجے اور انداز کا اپنا ایک تاثر تھا لیکن لڑکی اس پر حیران ہورہی تھی کہ یہ بھی دوسرے مردوں کی طرح مرد ہے مگر اس نے اس کے حسن کو ذہ بھر اہمیت نہیں دی۔ عطاالہاشم جذباتی لحاظ سے پتھر بھی نہیں تھا۔ وہ تو سرتاپا جذبات میں ڈوبا ہوا تھا۔ لڑکی نے بیتاب سا ہوکر کہا… ''آپ کی باتوں میں ایسا نشہ اور خمار ہے جو میں نے شراب اور حشیش میں نہیں پایا۔ مجھے آپ کی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آرہی لیکن ہر ایک بات دل میں اترتی جارہی ہے''… لڑکی ذہین تھی۔ اس قسم کی تخریب کاری کے لیے ذہین ہونا لازمی تھا۔ مردوں کو انگلیوں پر نچانے کی اسے بچپن سے ٹرینگ دی گئی تھی مگر اس مرد نے اس ناگن کا زہر ملا دیا۔ اس نے عطاالہاشم سے بہت سی باتیں پوچھیں جن میں کچھ مذہب سے تعلق رکھتی تھیں۔ اس کے لہجے اور انداز میں اب پیشہ وارانہ اداکاری نہیں رہی تھی۔ وہ اپنے قدرتی رنگ میں باتیں کررہی تھی۔ اس نے پوچھا… ''مجھے آپ لوگ کیا سزا دیں گے؟''
''میں تمہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا''… عطاالہاشم نے کہا… ''کل صبح تمہیں اپنے سالار اعظم کے حوالے کردوں گا''۔
''وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟''
''جو ہمارے قانون میں لکھا ہے''۔
''آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟''
''نہیں''۔
''میں نے سنا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں''… لڑکی نے کہا… ''اگر آپ مجھے اپنی بیوی بنا لیں تو میں آپ کا مذہب قبول کرکے ساری عمر آپ کی خدمت کروں گی''۔
''میں تمہیں بیٹی بنا سکتا ہوں، بیوی نہیں''… عطاالہاشم نے کہا… ''کیونکہ تم میرے ہاتھوں میں مجبور ہو، تم میری پناہ میں بھی ہو اور میری قید میں بھی''۔
وہ باتوں میں مصروف تھے۔ لڑکی کا ساتھی مرد تین سپاہیوں کے نرغے میں لیٹا ہوا تھا مگر وہ جاگ رہا تھا۔ اس نے عطانالہاشم کو دیکھ لیا تھا کہ وہ لڑکی کو جگا کر لے گیا ہے۔ وہ خوش تھا کہ لڑکی عطاالہاشم کو چکمہ دے کر قتل کردے گی یا اسے یہاں سے کہیں دور لے جائے گی۔ وہ لیٹا ہوا لڑکی کی واپسی کا انتظار کرتا رہا۔ بہت دیر بعد اس نے سپاہیوں کو دیکھا، وہ بے ہوش ہوکے سوئے ہوئے تھے۔ انہیں بے ہوش ہونا ہی تھا کیونکہ اس سوڈانی نے شام کے بعد ان سپاہیوں کے ساتھ گپ شپ شروع کردی تھی اور انہیں ہنستے کھیلتے حشیش پلا دی تھی۔ اس حشیش کی ایک پوٹلی تو برآمد کرلی گئی تھی لیکن اس نے تھوڑی سی حشیش اپنے چغے میں کہیں رکھی تھی۔ وہاں نکال کر اس نے تین سپاہیوں کو پلا دی وہ چونکہ اس نشے کے عادی نہیں تھے، اس لیے بے ہوشی کی نیند سوگئے۔ یہ سوڈانی رات کو بھاگنے کے جتن کررہا تھا۔
اس نے دیکھا کہ لڑکی عطاالہاشم کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اور بہت دیر گزر گئی ہے تو وہ سمجھا کہ لڑکی اس مسلمان کمانڈر کو دور نہیں لے جاسکی، لہٰذا اس شخص کو یہیں ختم کردیا جائے۔ وہ واپس گیا اور سوئے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک کی کمان اور ترکش میں سے تین چار تیر لے آیا۔ راستے میں چند فٹ اونچی جگہ تھی جس کی اوٹ میں وہ عطاالہاشم کو نظر نہیں آسکتا تھا۔ وہ اس لیے بھی نظر نہیں آسکتا تھا کہ اس طرف عطاالہاشم کی پیٹھ تھی۔ لڑکی کا منہ ادھر ہی تھا لیکن وہ اپنے آدمی کو دیکھ نہیں سکی تھی۔ وہ آدمی تیروکمان لے کر آیا تو لڑکی کو چاندنی میں اس کا سر اور کندھے نظر آئے پھر اسے کمان نظر آئی۔ عطاالہاشم اپنی موت سے بے خبر بیٹھا تھا۔ اس کا خنجر نیام میں پڑا ہوا تھا ور نیام قریب ہی رکھی تھی۔ لڑکی نے نیام اٹھا کر خنجر نکال لیا۔ عطاالہاشم جھپٹ کر اس سے خنجر چھیننے ہی لگا کہ لڑکی نے نہایت تیزی سے گھٹنوں کے بل ہوکر اپنے آدمی کی طرف پوری طاقت سے خنجر پھینکا۔
فاصلہ چند گز تھا۔ ادھر سے آہ کی آواز سنائی دی۔ خنجر سوڈانی کی شہ رگ میں اتر گیا تھا اور اس نے زخمی ہوتے ہی تیر چلا دیا تھا۔ نشانہ چونک جانا ضروری تھا۔ تیر کا زنانہ عطاالہاشم کے قریب سے گزرا اور دھک کی آواز سنائی۔دی یہ اس نے دیکھا کہ تیر لڑکی کے سینے میں اتر گیا تھا۔ وہ دوڑ کر اس کی طرف گیا جس طرف خنجر گیا اور تیر آیا تھا۔ وہاں سوڈانی اپنی شہ رگ سے خنجر نکال رہ اتھا۔ اس نے خنجر نکال لیا اور اٹھا۔ اس خطرے کے پیش نظر کہ وہ حملہ کرے گا۔ عطاالہاشم نے اچھل کر اس کے پہلو میں دونوں پائوں جوڑ کر مارے۔ سوڈانی دور جاپڑا۔ عطاالہاشم بھی گرا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ سوڈانی نہ اٹھ سکا۔ اس کی شہ رگ سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا۔ عطاالہاشم نے خنجر اٹھایا اور لڑکی کے پاس گیا۔ لڑکی سینے میں اپنے ہی ساتھی اور محافظ کا تیر لیے اطمینان سے پڑی تھی۔ وہ ابھی زندہ تھی۔ تیر نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔
لڑکی نے عطاالہاشم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کراہتی ہوئی آواز میں بولی… ''میں نے تمہاری جان بچائی ہے، اس کے عوض اپنے خدا سے کہنا کہ میری روح کو اپنی پناہ میں لے لے۔ میرے جسم کی طرح میری روح بھی ان صحرائوں میں نہ بھٹکتی رہے۔ میری عمر گناہوں میں گزری ہے، مجھے یقین دلائو کہ خدا اس ایک نیکی کے بدلے میرے سارے گناہ بخشش دے گا۔ میرے سر پر اسی طرح ہاتھ پھیرو جس طرح اپنی بیٹی کے سر پر پھیرا کرتے ہو''۔
عطاالہاشم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا…''اللہ تیرے گناہ بخش دے، تجھ سے گناہ کروائے گئے ہیں تو بے گناہ ہے۔ تجھے کسی نے نیکی کی روشنی دکھائی ہی نہیں''۔
لڑکی نے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے عطاالہاشم کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بڑی تیزی سے بولنے لگی۔ اس نے کہا… ''یہاں سے تین کوس دور سوڈانیوں کا ایک اڈا ہے، وہ لوگ آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور غور سے سنو۔ آپ کی فوج اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ اس کی قسمت میں اب موت یا قید ہے۔ آپ کے ہر ایک کمانڈر اور ہر ایک ٹولی کے پیچھے مجھ جیسی لڑکیاں یا مرد لگے ہوئے ہیں۔ میں اس لڑکی کے ساتھ آپ کے چار کمانڈروں کو پھانس
: میں اس لڑکی کے ساتھ آپ کے چار کمانڈروں کو پھانس کر ختم کراچکی ہوں۔ مصر کی فکر کرو۔ صلیبیوں نے وہاں بڑے ہی خطرناک اور خوبصورت جال بچھا دیئے ہ یں۔ آپ کی قوم اور فوج میں ایسے مسلمان حاکم موجود ہیں جو صلیبیوں کے تنخواہ دار جاسوس اور ان کے وفادار ہیں۔ انہیں مجھ جیسی لڑکیاں اور بے پناہ دولت دی جارہی ہے۔ مصر کو بچائو۔ سوڈان سے نکل جائو۔ اپنے غداروں کو پکڑرو۔ میں کسی کا نام نہیں جانتی جو معلوم تھا، بتا دیا ہے۔ آپ پہلے مرد ہیں جس نے مجھے بیٹی کہا ہے۔ آپ نے مجھے باپ کا پیار دیا ہے۔ میں اس کا معاوضہ یہی دے سکتی ہوں کہ آپ کو خطروں سے آگاہ کردوں۔ اپنے بکھرے ہوئے دستے کو اکٹھا کرلو اور حملہ روکنے کے لیے تیار ہوجائو۔ دو تین دنوں میں آپ پر حملہ ہوگا۔ فاطمیوں اور فدائیوں سے بچو۔ انہوں نے مصر میں بہت سے ایسے حاکموں کے قتل کا منصوبہ تیار کرلیا ہے جو صلاح الدین ایوبی اور اپنی قوم کے وفادار ہیں''۔
لڑکی کی آواز ڈوبتی اور رکتی گئی اور ایک لمبے سانس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی۔ صبح طلوع ہوئی تو عطاالہاشم دونوں لاشوں اور زندہ لڑکی کو ساتھ لے کر تقی الدین کے پاس چلا گیا۔ اسے سارا واقعہ سنایا اور لڑکی کی آخری باتیں بھی سنائیں۔ تقی الدین پہلے ہی پریشان تھا۔ وہ سٹپٹا اٹھا۔ اس نے کہا… ''اپنے بھائی کی اجازت اور ہدایت کے بغیر میں پسپا نہیں ہونا چاہتا۔ میں نے ایک ذمہ دار ذہین کمانڈر کو کرک بھیجا ہے۔ اس کی واپسی تک ثابت قدم رہو''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی نے قاصد کمانڈر کی بیان کی ہوئی جنگی صورتحال پر غور کیا تو اپنے مشیروں کو بلا کر انہیں بھی تفصیل سنائی۔ اس نے کہا…''بکھری ہوئی فوج کو یکجا کرکے پیچھے ہٹانا آسان کام نہیں۔ دشمن انہیں یکجا نہیں ہونے دے گا۔ پسپائی سے اس فوج کے جذبے پر بھی برا اثر پڑے گا جو مصر میں ہے اور جو یہاں میرے ساتھ ہے اور قوم کا دل ٹوٹ جائے گا مگر حقائق سے فرار بھی ممکن نہیں۔ اپنے آپ کو فریب دینا بھی خطرناک ہے۔ حقائق کا تقاضہ یہ ہے کہ تقی الدین اپنی فوج کو واپس لے آئے۔ ہم اسے کمک نہیں دے سکتے۔ ہم کرک کا محاصرہ اٹھا کر اس کی مدد کو نہیں پہنچ سکتے۔ میرے بھائی نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ بڑی ہی قیمتی فوج ضائع ہورہی ہے''۔
''یہ ذاتی وقار کا مسئلہ نہیں بننا چاہیے''… ایک اعلیٰ حکام نے کہا… ''ہمیں سوڈان کی جنگ سے دست بردار ہونے کا فیصلہ کرنا چاہیے۔ قائدین اور حکام کے غلط فیصلوں سے فوج بدنام ہورہی ہے۔ ہمیں قوم کو صاف الفاظ میں بتا دینا چاہیے کہ سوڈان میں ہماری ناکامی کی ذمہ داری فوج پر عائد نہیں ہوتی''۔
''بلاشبہ یہ میرے بھائی کی غلطی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''اور یہ میری غلطی بھی ہے کہ میں نے تقی الدین کو اجازت دی تھی کہ حالات کے مطابق وہ جو کارروائی مناسب سمجھے مجھ سے پوچھے بغیر کر گزرے۔ اس نے اتنی بڑی کارروائی حقائق کا جائزہ لیے بغیر کردی اور اپنے آپ کو دشمن کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ میں اپنی اور اپنے بھائی کی لغزشوں کو اپنی قوم سے اور نورالدین زنگی سے چھپائوں گا نہیں۔ میں تاریخ کو دھوکہ نہیں دوں گا۔ میں اپنے کاغذات میں تحریر کرائوں کہ اس شکست کی ذمہ دار فوج نہیں، ہم تھے۔ ورنہ ہماری تاریخ کو آنے والے حکمران ہمیشہ دھوکہ دیں گے۔ میں سلطنت اسلامیہ کے آنے والے حکمرانوں کے لیے یہ مثال قائم کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی لغزشوں پر پردہ ڈال کر بے گناہوں کو تاریخ میں ذلیل نہ کریں۔ یہ ایسی غلطی اور ایسا فریب ہے کو کرۂ ارض پر اسلام کو پھیلنے کے بجائے سکڑنے پر مجبور کرے گا''۔
سلطان ایوبی کا چہرہ لال ہوگیا، اس کی آواز کانپنے لگی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ اپنی زبان سے پسپائی کا لفظ کہنا نہیں چاہتا۔ وہ کبھی پسپا نہیں ہوا تھا۔ اس نے بڑے ہی مشکل حالات میں جنگیں لڑی تھیں مگر اب حالات نے اسے مجبور کردیا تھا۔ اس نے تقی الدین کے بھیجے ہوئے کمانڈر سے کہا… ''تقی الدین سے کہنا کہ اپنے دستوں کو سمیٹو اور انہیں تھوڑی تھوڑی نفری میں پیچھے بھیجو، جہاں دشمن تعاقب میں آئے وہاں جم کر لڑو اور اس انداز سے لڑو کہ دشمن تمہارے تعاقب میں مصر میں داخل نہ ہوجائے۔ دستے جو مصر میں پہنچ جائیں، نہیں اکٹھا رہنے کا حکم دو تاکہ مصر پر دشمن حملہ کرے تو اسے روک سکو۔ محفوظ پسپائی کے لیے چھاپہ ماروں کو استعمال کرو۔ کسی دستے کو دشمن کے گھیرے میں چھوڑ کر نہ آنا۔ میں پسپائی بڑی مشکل سے برداشت کررہا ہوں۔ میں یہ خبر برداشت نہیں کرسکوں گا کہ تمہارے کسی دستے نے ہتھیار ڈال دیئے۔ پسپائی آسان نہیں ہوتی۔ پیش قدمی کی نسبت محفوظ اور باعزت پسپائی بہت مشکل ہے۔ حالات پر نظر رکھنا، تیز رفتار قاصدوں کی ایک فوج اپنے ساتھ رکھنا۔ میں تحریری پیغام نہیں بھیج رہا ہوں کیونکہ خطرہ ہے کہ تمہارا قاصد راستے میں پکڑا گیا تو دشمن کو معلوم ہوجائے گا کہ تم پسپا ہورہے ہو''۔
: سلطان ایوبی نے قاصد کمانڈر کو بہت سی ہدایات دیں اور رخصت کردیا۔ اس کے گھوڑے کے قدموں کی آواز ابھی سنائی دے رہی تھی کہ زاہدان خیمے میں داخل ہوا اور کہا کہ قاہرہ سے ایک قاصد آیا ہے۔ سلطان ایوبی نے اسے اندر بلا لیا۔ وہ انٹلی جنس کا عہدیدار تھا۔ وہ مصر کے اندرونی حالات کے متعلق حوصلہ شکن خبر لایا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں دشمن کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے۔ علی بن سفیان اپنے پورے محکمے کے ساتھ شب وروز مصروف رہتا ہے۔ حالات ایسے ہوگئے ہیں کہ فوجی بغاوت کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔
سلطان ایوبی کے چہرے کا رنگ ایک بار تو اڑ ہی گیا۔ اگر صرف مصر کا غم ہوتا تو وہ پرواہ نہ کرتا۔ اس نے مصر کو بڑے ہی خطرناک حالات سے بچایا تھا۔ صلیبیوں اور فاطمیوں کی تخریب کاری کی بڑی ہی کاری ضربیں بے کار کی تھیں۔سمندر کی طرف سے صلیبیوں کا بڑا ہی شدید حملہ روکا تھا۔ خلیفہ تک کو معزول کرکے نتائج کا سامنا دلیری اور کامیابی سے کیا تھا مگر اب کرک کو محاصرے میں لے کر وہ وہاں پابجولاں ہوگیا تھا۔ وہاں سے اس کی غیرحاضری میدان جنگ کا پانسہ اس کے خلاف پلٹ سکتی تھی۔ کرک کے محاصرے کے علاوہ اس نے قلعے کے باہر صلیبیوں کی فوج کو گھیرے میں لے رکھا تھا۔ یہ فوج گھیرا توڑنے کی کوشش میں حملے پہ حملہ کیے جارہی تھی، وہاں خون ریز جنگ لڑی جارہی تھی۔ سلطان ایوبی اپنی خصوصی چالوں سے دشمن کے لیے آفت بنا ہوا تھا۔ ایسی جنگ اس کی نگرانی کے بغیر نہیں لڑی جاسکتی تھی۔
ادھر سوڈان کی صورتحال نے بھی مصر کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔ یہ ایک اضافی مسئلہ پیدا ہوگیا تھا۔ سلطان ایوبی کو یہ خطرہ نظر آرہا تھا کہ تقی الدین نے بھاگنے کے انداز سے پسپائی کی تو دشمن کی فوج اس کی فوج کو وہیں ختم کردے گی اور سیدھی مصر میں داخل ہوجائے گی۔ مصر میں جو فوج تھی وہ حملہ روکنے کے لیے کافی نہیں تھی۔ ادھر کرک کے محاصرے کی کامیابی یا جلدی کامیابی مخدوش نظر آرہی تھی۔ دونوں محاذوں کی کیفیت میں مصر میں بغاوت کے خطرے کی خبر ایسی چوت تھی جس نے سلطان ایوبی کے پائوں ہلا دئیے۔ وہ کچھ دیر سرجھکائے ہوئے خیمے میں ٹہلتا رہا، پھر اس نے کہا… ''میں صلیبیوں کی تمام تر فوج کا مقابلہ کرسکتا ہوں۔ اس فوج کا بھی جو انہوں نے یورپ میں جمع کر رکھی ہے مگر میری قوم کے یہ چند ایک غدار مجھے شکست دے رہے ہیں۔ کفار کے یہ حواری اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہلاتے ہیں؟ وہ غالباً جانتے ہیں کہ انہوں نے مذہب تبدیل کرلیا تو عیسائی انہیں یہ کہہ کر دھتکار دیں گے کہ تم غدار ہو، ایمان فروش ہو، اپنے مذہب میں رہو، ہم سے اجرت لو اور اپنی قوم سے غداری کرو''… وہ خاموش ہوگیا۔ اس کے خیمے میں جو افراد موجود تھے وہ بھی خاموش تھے۔ سلطان ایوبی نے سب کو باری باری دیکھا اور کہا… ''خدا ہم سے بڑا ہی سخت امتحان لینا چاہتا ہے۔ اگر ہم سب ثابت قدم رہے تو ہم خدا کے حضور سرخرو ہوں گے''۔
اس نے اپنے ساتھیوں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے یہ بات کہہ دی لیکن اس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ اس پر گھبراہٹ طاری ہے جسے وہ چھپانے کی کوشش کررہا ہے۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی کو اتنا ہی بتایا گیا تھا کہ مصر میں بغاوت کا خطرہ ہے اور صلیبیوں کی تخریب کاری بڑھتی جارہی ہے۔ اسے تفصیلات نہیں بتائی گئی تھیں۔ تفصیلات بڑی ہی خوفناک تھیں۔ اس کی غیرحاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمان حکام میں سے تین چار صلیبیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے تھے۔ تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کیا تو چند دن بعد اس نے رسد مانگی۔ قاصد نے کہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ رسد فوراً بھیج دی جائے مگر دو روز تک کوئی انتظام نہ کیا گیا جو حاکم رسد کی فراہمی اور ترسیل کا ذمہ دار تھا، اس سے بازپرس ہوئی تو اس نے یہ اعتراض کیا کہ بیک وقت دو محاذ کھول دئیے گئے ہیں۔ دو محاذوں کو رسد کہاں سے دی جاسکتی ہے۔ ایک یہ طریقہ ہے کہ مصر میں جو فوج ہے اسے بھوکا رکھا جائے، بازار سے سارا اناج اٹھا کر قاہرہ کے باشندوں کے لیے قحط پیدا کیا جائے اور محاذوں کا پیٹ بھرا جائے۔
یہ ایک اعلیٰ رتبے کا حاکم تھا، مسلمان تھا اور سلطان ایوبی کے مصاحبوں میں سے بھی تھا۔ اس کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کی بات سچ مان لی گئی کہ اناج وغیرہ کی واقعی کمی ہے تاہم اسے کہا گیا کہ جس طرح ہوسکے محاذ پر لڑنے والے فوجیوں کی رسد ضرور پہنچے۔ اس حاکم نے انتظام کردیا مگر دو اور دن ضائع کردئیے۔ پانچویں روز رسد کا قافلہ روانہ ہوا۔ یہ اونٹوں اور خچروں کا بڑا ہی لمبا قافلہ تھا۔ مشورہ دیا گیا کہ قافلے کے ساتھ فوج کا ایک گھوڑا دستہ حفاظت کے لیے بھیجا جائے۔ اسی حاکم نے جو رسد فراہم کرنے کا ذمہ دار تھا، فوج کا دستہ بھیجنے پر اعتراض کیا اور جواز یہ پیش کیا کہ تمام راستہ محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ مصر میں فوج کی ضرورت ہے۔ چنانچہ رسد حفاظتی دستے کے بغیر بھیج دی گئی۔ روانگی کے چھ روز بعد اطلاع آگئی کہ رسد راستے میں ہی )سوڈان میں
: ( دشمن کے گھات میں آگئی ہے۔ سوڈانی، رسد بمعہ جانوروں کے لے گئے ہیں اور انہوں شتربانوں کو قتل کردیا ہے۔
قاہرہ ہیڈکوارٹر کے بالائی حکام پریشان ہوگئے۔ رسد کا ضائع ہوجانا، معمولی سی چوٹ نہیں تھی۔ سوڈانی میدان جنگ میں فوج کی ضرورت کا احساس ان کی پریشانی میں اضافہ کررہا تھا۔ انہوں نے ذمہ دار حاکم سے کہا کہ وہ فوری طور پر اتنی ہی رسد کا انتظام کرے۔ اس نے کہا کہ منڈی میں اناج کی قلت ہوگئی ہے۔ تاجروں سے کہا جائے کہ اناج مہیا کریں۔ تاجروں سے بات ہوئی تو انہوں نے اپنے گودام کھول کر دکھا دئیے، سب خالی تھے۔ گوشت کے لیے ایک بھی دنبہ، بکرا، بیل، گائے یا کوئی اور جانور نظر نہیں آتا تھا۔ معلوم ہوا کہ مصر میں جو فوج ہے، اسے بھی پورا راشن نہیں مل رہا جس سے فوجوں میں بے اطمینانی پھیل رہی ہے۔ تاجروں نے بتایا کہ دیہات سے مال آہی نہیں رہا۔ علی بن سفیان کی جاسوسی کا انتظام بڑا اچھا تھا۔ یہ انکشاف جلدی ہوگیا کہ باہر کے لوگ دیہات میں آتے ہیں اور وہ اناج اور بکرے وغیرہ منڈی کی نسبت زیادہ دام دے کر خرید لے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اناج وغیرہ ملک سے باہر جارہا تھا۔ تب سب کو یاد آیا کہ تین چار سال قبل سلطان ایوبی نے مصر کی پہلی فوج کو جس میں سوڈانی باشندوں کی اکثریت تھی، بغاوت کے جرم میں توڑ کر اس کے افسروں اور سپاہیوں کو سرحد کے ساتھ ساتھ قابل کاشت اراضی دے کر کاشتکار بنا دیا تھا۔ وہ لوگ اب مصری حکومت کو اور منڈیوں کو اناج دیتے ہی نہیں تھے۔ یہ سوڈان پر حملے کا ردعمل تھا۔ یہ انقلاب چھ سات دنوں میں آگیا تھا۔ اناج کی فراہمی کا کام فوج کو سونپا گیا۔ دن رات کی باگ دوڑ سے تھوڑا سا اناج ہاتھ آیا جو فوج کی حفاظت میں سوڈان کے محاذ کو روانہ کردیا گیا۔
بالائی حکام کے لیے رسد کا مسئلہ بہت ٹیڑھا ہوگیا۔ اس سے پہلے ایسی قلت کبھی نہیں ہوئی تھی۔ انہیں یہ ڈر بھی تھا کہ سلطان ایوبی نے رسد مانگ لی تو کیا جواب دیں گے۔ سلطان ایوبی کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا کہ مصر میں اناج کا قحط پیدا ہوگیا ہے۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے تین حکام کی ایک کمیٹی بنائی گئی۔ ان میں انتظامیہ کے بڑے عہدے کا ایک حاکم، سلیم الادریس تھا۔ اس دور کی غیرمطبوعہ تحریروں کے مطابق الادریس اس کمیٹی کا سربراہ تھا۔ دوسرے دو اس سے ایک ہی درجہ کم عہدے کے غیر فوجی یعنی شہری انتظامیہ کے حاکم تھے۔ رات کے وقت یہ تینوں پہلے اجلاس میں بیٹھے تو دو نے الادریس سے کہا کہ سلطان ایوبی نے دو محاذ کھول کر سخت غلطی کی ہے اور تقی الدین ہاری ہوئی جنگ لڑ رہا ہے۔
''فلسطین مسلمانوں کی سرزمین ہے''… سلیم الادریس نے کہا۔
''ہم سے حقیقت چھپائی جارہی ہے''۔… دوسرے نے کہا… ''صلاح الدین ایوبی قابل قدر شخصیت ہے لیکن آپس میں سچ بات کرنے سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے۔ ایوبی کو ملک گیری کی ہوس چین سے بیٹھنے نہیں دے رہی۔ وہ ایوبی خاندان کو شاہی خاندان بنانا چاہتا ہے۔ صلیبیوں کی فوج ایک طوفان ہے۔ ہم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اگر صلیبی ہمارے دشمن ہوتے تو وہ فلسطین کے بجاے مصر پر قبضہ کرتے۔ ان کے پاس اتنی زیادہ فوج ہے کہ ہماری اس چھوٹی سی فوج کو اب تک کچل چکے ہوتے۔ وہ ہمارے نہیں صلاح الدین ایوبی کے دشمن ہیں''۔
''آپ کی باتیں میرے لیے ناقابل برداشت ہیں''… الادریس نے کہا… ''بہتر ہے کہ ہم جس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں اس کے متعلق بات کریں''۔
''یہ باتیں میرے لیے بھی ناقابل برداشت ہیں''… ایک نے کہا…''لیکن ایک آدمی کی خواہشات پر ہمیں پوری قوم کے مفاد کو قربان نہیں کرنا چاہیے۔ آپ دونوں محاذوں کے لیے رسد کی بات کرنا چاہتے ہیں۔ رسد کی حالت آپ نے دیکھ لی ہے کہ نہیں مل رہی۔ سوڈان کا محاذ ٹوٹ رہا ہے۔ میں نے یہ سوچا ہے کہ ہم اس محاذ کی رسد روک لیں۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ تقی الدین پیچھے ہٹ آئے گا اور فوج مرنے سے بچ جائے گی''۔
''یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم رسد نہ بھیجیں تو تقی الدین مجبوری کے عالم میں گھیرے میں آجائے''… الادریس نے کہا۔ ''ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ہماری فوج دشمن کے آگے ہتھیار ڈال دے''۔
''آپ کیا سوچ کر یہ باتیں کررہے ہیں؟'' سلیم الادریس نے پوچھا۔
''میری سوچ بڑی صاف ہے''۔ اس نے جواب دیا۔ ''صلاح الدین ایوبی ہم پر فوجی حکومت ٹھونسنا چاہتا ہے۔ وہ صلیبیوں سے مسلسل محاذ آرائی کرکے قوم کو بتانا چاہتا ہے کہ قوم کی سلامتی کی ضامن صرف فوج ہے اور قوم کی قسمت فوج کے ہاتھ میں ہے اگر ایوبی امن پسند ہوتا تو صلیبیوں اور سوڈانیوں کے ساتھ جنگ نہ کرنے اور صلح جوئی سے رہنے کا معاہدہ کرلیتا''۔
الادریس سٹپٹا اٹھا۔ وہ سلطان ایوبی کے خلاف اور صلیبیوں کی حمایت میں کوئی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ اجلاس میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمیٹی کے دو ممبر اسے بات بھی نہیں کرنے دے رہے تھے۔ اس نے آخر تنگ آکر کہا… ''میں اجلاس برخواست کرتا ہوں۔ کل ہی میں آپ کی رائے اور تجاویز قلم بند کرکے محاذ پر امیر مصر کو بھیج دوں گا''… وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا
وہ سلطان ایوبی کے خلاف اور صلیبیوں کی حمایت میں کوئی بات سننا نہیں چاہتا تھا۔ اجلاس میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمیٹی کے دو ممبر اسے بات بھی نہیں کرنے دے رہے تھے۔ اس نے آخر تنگ آکر کہا… ''میں اجلاس برخواست کرتا ہوں۔ کل ہی میں آپ کی رائے اور تجاویز قلم بند کرکے محاذ پر امیر مصر کو بھیج دوں گا''… وہ غصے میں اٹھ کھڑا ہوا۔
جاری ھے ، ("
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں