صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.41۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ"
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے غیر معمولی طور پر مستحکم مستقر کرک پر ایسی بے خبری میں حملہ کیا تھا کہ صلیبیوں کو اس وقت خبر ہوئی جب سلطان ایوبی کی فوج کرک کو محاصرے میں لے چکی تھی لیکن محاصرہ مکمل نہیں تھا۔ یہ سہ طرفہ محاصرہ تھا۔ جاسوسوں نے سلطان ایوبی کو یقین دلایا تھا کہ کرک شہر کے مسلمان باشندے ان چھاپہ ماروں کے ساتھ جنہیں سلطان ایوبی نے پہلے ہی شہر میں داخل کردیا تھا، اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے۔ محاصرے کے چوتھے پانچویں روز اندر سے ایک جاسوس نے باہر آکر سلطان ایوبی کو یہ اطلاع دی کہ تمام چھاپہ مار اور چند ایک مسلمان شہری دیوار توڑنے کی کوشش میں شہید ہوگئے ہیں۔ ان میں مسلمان لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں ایک عیسائی لڑکی بھی شامل ہوگئی تھی۔ سلطان ایوبی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسی ایمان فروش مسلمان نے اس جانباز جماعت میں شامل ہوکر دشمن کو اطلاع دے دی تھی جس کے نتیجے میں دشمن نے گھات لگائی اور ساری کی ساری جماعت کو شہید کردیا۔ یہ اطلاع بھی دی گئی کہ اب اندر سے دیوار توڑنے کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں۔
امیدیں ختم ہونی ہی تھیں، صلیبیوں نے جب دیکھا کہ دیوار توڑنے والوں میں کرک کے مسلمان نوجوانوں اور لڑکیوں کی لاشیں تھیں تو انہوں نے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ اندھا دھند شروع کردی۔ لڑکیوں تک کو نہ بخشا۔ جوانوں کو بیگار کیمپ میں، بوڑھوں کو ان کے اپنے گھروں میں اور جوان لڑکیوں کو قلعے کی فوجی بارکوں میں قید کردیا۔ ان میں سے کچھ لڑکیوں نے خودکشی بھی کرلی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کفار ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ صلاح الدین ایوبی کو بھی یہی غم کھانے لگا کہ کرک کے مسلمانوں کو یہ قربانی بہت مہنگی پڑے گی۔ اس نے جب ان جانبازوں کی خبر سنی تو اپنے نائبین سے کہا… ''یہ کارستانی صرف ایک ایمان فروش مسلمان کی ہے۔ اس ایک غدار نے اسلام کی اتنی بڑی فوج کو بے بس کردیا ہے۔ ایک وہ ہیں جنہوں نے اللہ کے نام پر جانیں قربان کردیں، ایک یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اللہ کا ایمان کفار کے قدموں میں رکھ دیا ہے۔ یہ غدار اسلام کی تاریخ کا رخ پھیر رہے ہیں''… سلطان ایوبی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی ران پر گھونسہ مار کر بولا… ''میں کرک کو بہت جلدی فتح کروں گا اور ان غداروں کو سزا دوں گا''۔
سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا افسر زاہدان خیمے میں داخل ہوا، اس وقت سلطان ایوبی کہہ رہا تھا کہ … ''آج رات کو محاصرہ مکمل ہوجانا چاہیے۔ میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں کہ کون سے دستے کرک کے پیچھے بھیجے جائیں''۔
''مداخلت کی معافی چاہتا ہوں امیر مصر!''… زاہدان نے کہا… ''اب شاید آپ محاصرہ مکمل نہیں کرسکیں گے۔ ہم نے کچھ وقت ضائع کردیا ہے''۔
''کیا تم کوئی نئی خبر لائے ہو؟''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا۔
''آپ نے جس کامیابی سے دشمن کو بے خبری میں آن لیا تھا، اس سے آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے''۔ زاہدان نے جواب دیا۔ وہ ایسے بے دھڑک انداز سے بول رہا تھا جیسے اپنے سے چھوٹے عہدے کے آدمی کو ہدایات دے رہا ہو۔ سلطان ایوبی نے اپنے تمام سینئر اور جونئیر کمانڈروں اور تمام شعبوں کے سربراہوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے بادشاہ سمجھ کر فرشی سلام نہ کیا کریں، مشورے دلیری اور خوداعتمادی سے دیں اور نکتہ چینی کھل کر کیا کریں۔ زاہدان انہی ہدایات پر عمل کررہا تھا۔ اس کے علاوہ وہ انٹیلی جنس کا سربراہ تھا۔ اس کی حیثیت ایسی آنکھ کی سی تھی جو اندھیروں میں بھی دیکھ لیتی تھی اور وہ ایسا کان تھا جو اپنے جاسوسوں کے ذریعے سینکڑوں میل دور دشمن کی سرگوشیاں بھی سن لیا کرتا تھا۔ سلطان ایوبی کو اس کی اہمیت کا احساس تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کامیاب جاسوسی کے بغیر جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ خصوصاً اس صورتحال میں جہاں صلیبیوں نے سلطنت اسلامی میں جاسوسوں اور تخریب کا جال بچھا رکھا تھا۔ سلطان ایوبی کو نہایت اعلیٰ اور غیرمعمولی طور پر ذہین اور تجربہ کار جاسوسوں کی ضرورت تھی۔ اس میدان میں وہ پوری طرح کامیاب تھا۔ اس کی انٹیلی جنس کے تین افسر علی بن سفیان اور اس کے دو نائب حسن بن عبداللہ اور زاہدان جانباز قسم کے سراغ رساں اور جاسوس تھے۔ انہوںنے اس محاذ پر صلیبیوں کے کئی وار بے کار کیے تھے۔
''آپ کو معلوم تھا کہ صلیبیوں نے جہاں کرک کا دفاع مضبوط کررکھا ہے وہاں بہت سی فوج کرک سے دور خیمہ زن کرکھی ہے''۔ زاہدان نے کہا… ''آپ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس فوج کو باہر سے محاصرہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ جاسوسوں کی اطلاع صاف بتا رہی تھیں کہ اب صلیبی قلعے سے باہر لڑیں گے پھر بھی آپ نے فوری طور پر محاصرہ مکمل نہیں کیا۔ اس سے دشمن نے فائدہ اٹھا لیا ہے''۔
''تو کیا انہوں نے حملہ کردیا ہے؟'' سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیتابی سے پوچھا۔
''آج شام تک ان کی فوج اس مقام پر آجائے گی جہاں ہماری کوئی فوج نہیں''۔ زاہدان نے جواب دیا… ''میرے جاسوس جو اطلاع لائے ہیں وہ یہ ہیں کہ صلیبی فوج گھوڑ سوار اور شتر سوار ہوگی۔پیادہ دستے بہت کم ہیں، وہ محاصرے کی جگہ پر آجائیں گے اور دائیں بائیں حملے کریں گے۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا محاصرہ ٹوٹ جائے گا۔ صلیبیوں کی تعداد بھی زیادہ بتائی جاتی ہے''۔
''میں تمہیں اور تمہارے جاسوسوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو یہ اطلاع لائے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''میں جانتا ہوں یہ کام کتنا دشوار اور خطرناک ہے۔ میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ صلیبی ہمارے محاصرے کا جو خلا پر کرنے اور محاصرے توڑنے آرہے ہیں میں انہیں اسی خلا میں گم کردوں گا۔ مجھے اللہ کی مدد پر بھروسہ ہے اگر تم میں کوئی غدار نہیں تو اللہ تمہیں فتح عطا فرمائے گا''۔
''ابھی وقت ہے''۔ ایک نائب سالار نے کہا… ''اگر آپ حکم دیں تو ہم محفوظہ کے تین چار دستے صلیبیوں کے پہنچنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں۔ محاصرے کا خلا پر ہوجائے گا اور صلیبیوں کا حملہ ناکام ہوجائے گا''۔
سلطان ایوبی کے چہرے پر پریشانی یا اضطراب کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں تھا۔ اس نے زاہدان سے پوچھا… ''اگر تمہاری اطلاع بالکل صحیح ہے تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ صلیبی فوج کس وقت حملے کے مقام پر پہنچے گی؟''
''ان کی پیش قدمی خاصی تیز ہے''۔ زاہدان نے جواب دیا… ''ان کے ساتھ خیمے اور رسد نہیں آرہی۔ پیچھے آرہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راستے میں کوئی پڑائو نہیں کریں گے اگر وہ اسی رفتار پر آتے رہے تو رات گہری ہونے تک پہنچ جائیں گے''۔
''خدا کرے کہ وہ راستے میں نہ رکیں''۔ سلطان ایوبی نے کہا… ''مگر وہ تھکے ہوئے اور بھوکے پیاسے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ حملہ نہیں کریں گے۔ حملے کے مقام پر آکر جانوروں کو آرام اور خوراک دیں گے۔ اس دوران وہ دیکھیں گے کہ ہم نے جو محاصرہ کررکھا ہے اس میں خلا ہے یا نہیں۔ صلیبی اتنے کوڑھ مغز نہیں کہ ایسی پیش بینی اور پیش بندی نہ کریں''… سلطان ایوبی نے اپنے عملے کے دو تین حکام کو بلایا اور انہیں نئی صورتحال سے آگاہ کرکے کہا… ''صلیبی ہمارے جال میں آرہے ہیں، قلعے کے عقب میں ہم نے محاصرے میں جو خلا چھوڑ دیا ہے اسے اور زیادہ کھلا کردو۔ دائیں اور بائیں کے دستوں سے کہہ دو کہ ان پر عقب سے حملہ آرہا ہے۔ اپنے پہلوئوں کو مضبوط کرلیں اور دشمن کو اپنے درمیان آنے دیں۔ کوئی تیرانداز حکم کے بغیر کمان سے تیر نہ نکالے''۔
اس قسم کے احکام کے بعد سلطان ایوبی نے پیادہ اور سوار تیراندازوںکے چند ایک دستوں کو جو اس نے ریزرو میں رکھے ہوئے تھے، سورج غروب ہوتے ہی ایسے مقام پر چلے جانے کو کہا جو صلیبیوں کے حملے کے ممکنہ مقام کے قریب تھا۔ وہ علاقہ میدانی نہیں تھا اور صحرا کی طرح ریتلا بھی نہیں تھا۔ وہ ٹیلوں، چٹانوں اور گھاٹیوں کا علاقہ تھا۔ سلطان ایوبی نے چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر کو بھی بلا لیا تھا۔ اسے اس نے یہ کام سونپا کہ صلیبیوں کی فوج کے پیچھے فلاں راستے سے یہ رسد آرہی ہے جو رات کو راستے میں تباہ کرنی ہے۔ ایسے اور کئی ایک ضروری احکامات دے کر سلطان ایوبی خیمے سے نکلا، اپنے گھوڑے پر سوار ہوا۔ اپنے عملے کے ضروری افراد کو ساتھ لیا اور محاذ کی طرف روانہ ہوگیا۔
٭ ٭ ٭
صلاح الدین ایوبی خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے والا انسان نہیں تھا۔ اس نے دور سے محاصرے کا جائزہ لیا اور اپنے عملے سے کہا… ''صلیبیوں سے یہ قلعہ لینا آسان نہیں۔ محاصرہ بڑے لمبے عرصے تک قائم رکھنا پڑے گا''۔ اس نے دیکھا کہ قلعے کی سامنے والی دیوار سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے۔ قلعے کے دروازے تک پہنچانا ناممکن تھا… سلطان ایوبی کی فوج تیروں کی زد سے دور تھی۔ جوابی تیر اندازی کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سلطان ایوبی قلعے کے پہلو کی طرف گیا وہاں اسے ایک ولولہ انگیز منظر نظر آیا۔ اس کا ایک دستہ حیران کن تیزی سے قلعے کی دیوار پر تیر برسا رہا تھا۔ چھ منجنیقیں آگ پھینک رہی تھیں۔ دیوار پر جہاں تیر اور آگ کے گولے جارہے تھے وہاں کوئی صلیبی نظر نہیں آرہا تھا۔ وہ دبک گئے تھے۔ سلطان ایوبی دور کھڑا دیکھتا رہا۔ اس کے تقریباً چالیس سپاہی ہاتھوں میں برچھیاں اورکدالیں اٹھائے دیوار کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور دیوار تک پہنچ گئے۔ قلعے کی دیوار پتھروں اور مٹی کی تھی۔ انہوں نے دیوار توڑنی شروع کردی۔ اسی مقصد کے لیے اوپر تیر اور آگ کے گولے برسائے جارہے تھے کہ اوپر سے دشمن ان پر دیوار توڑتے وقت تیر نہ چلا سکے۔
سلطان ایوبی کے منہ سے بے اختیار نکلا… ''آفرین''… مگر اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں۔ قلعے کی دیوار پر للکار سنائی دی۔ عین اس جگہ کے اوپر سے جہاں سلطان ایوبی کے جانبز دیوار توڑ رہے تھے۔ بہت سے صلیبیوں کے سر اور کندھے نظر آئے۔ پھر بڑے بڑے ڈول اور ڈرم نظر آئے۔ یہ الٹا دئیے گئے۔ ان میں جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے نکلے جو ان مجاہدین پر گرے جو نیچے دیوار توڑ رہے تھے۔ مجاہدین نے آگے جاکر تیر برسانے شروع کردیئے جن میں متعدد صلیبی گھائل ہوگئے۔ دیوار کی کسی اور طرف سے تیر آئے جنہوں نے مجاہدین تیر اندازوں کو زخمی اور شہید کردیا پھر دونوں طرف سے اس قدر تیر برسنے لگے کہ ہوا میں اڑتے ہوئے تیروں کا جال تن گیا۔ جانباز دیوار توڑ رہے تھے۔ یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ دیوار بہت ہی چوڑی تھی۔ نیچے سے اس کی چوڑائی اوپر کی نسبت زیادہ تھی۔ ان جانبازوں پر اوپر سے تیر نہیں چلایا جاسکتا تھا مگر ان پر جلتی لکڑیاں اور دہتے انگارے پھینکے جارہے تھے۔ آگ کے ڈول اور ڈرم پھینکنے والوں میں بظاہر کوئی بھی مسلمان تیر اندازوں سے بچ کر نہیں جاتا تھا لیکن وہ تیر کھا کر گرنے سے پہلے آگ انڈیل دیتے تھے۔
نیچے یہ عالم تھا کہ آگ بھڑک رہی تھی اور دیوار توڑنے والے شعلوں اور انگروں میں بھی دیوار توڑ رہے تھے۔ تیروں کا تبادلہ ہورہا تھا۔ آخر دیوار توڑنے والے جھلس گئے اور ان میں سے چند ایک اس حالت میں پیچھے کو دوڑے کہ ان کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی۔ وہ دیوار سے ہٹے ہی تھے کہ اوپر سے تیر آئے جو ان کی پیٹھوں میں اتر گئے۔ اس طرح ان میں سے کوئی زندہ واپس نہ آسکا۔ دس اور مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے اور دشمن کے تیروں میں سے گزرتے ہوئے دیوار تک پہنچ گئے۔ انہوں نے بڑی پھرتی سے دیوار کے بہت سے پتھر نکال لیے۔ اوپر سے ان پر بھی آگ کے ڈرم اور ڈول انڈیل دیئے گئے۔ آگ پھینکنے والوں سے دو اتنا اوپر اٹھ گئے تھے کہ مجاہدین کے تیر سینوں میں کھا کر وہ پیچھے گرنے کے بجائے آگے کو گرے اور دیوار سے سیدھے نیچے اپنی ہی پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے مگر دیوار توڑنے والوں میں سے بھی کوئی زندہ نہ بچا۔
سلطان ایوبی نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس دستے کے کمانڈر کے پاس جاکر کہا… ''تم پر اور تمہارے جانبازوں پر اللہ کی رحمت ہو۔ اسلام کی تاریخ ان سب کو ہمیشہ یاد رکھے گی جو اللہ کے نام پر جل گئے ہیں۔ اب یہ طریقہ چھوڑ دو، پیچھے ہٹ آئو۔ اتنی تیزی سے انسان اور تیر ختم نہ کرو۔ صلیبی اس قلعے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دے رہے ہیں جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا''۔
''اور ہم بھی اتنی زیادہ قربانی دیں گے جس کا صلیبی تصور نہیں کرسکتے''۔ کمانڈر نے کہا… ''دیوار یہیں سے ٹوٹے گی اور ہم آپ کو یہیں سے اندر لے جائیں گے''۔
''اللہ تعالیٰ تمہاری آرزو پوری کرے''۔ صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''اپنے مجاہدین کو بچا کر رکھو، صلیبی باہر سے حملہ کررہے ہیں، تمہیں شاید باہر لڑنا پڑے گا۔ محاصرہ مضبوط رکھو۔ ہم صلیبیوں کو اندر بھوکا ماریں گے''۔
اس دستے کو پیچھے ہٹا لیا گیا مگر کمانڈر نے سلطان ایوبی سے کہا… ''سالاراعظم کی اجازت ہو تو میں شہیدوں کی لاشیں اٹھوا لوں؟ اس مقصد کے لیے مجھے پھر یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا''۔
''ہاں!'' سلطان ایوبی نے کہا… ''اٹھوا لو۔ کسی شہید کی لاش باہر نہ پڑی رہے''۔
سلطان ایوبی وہاں سے چلا گیا۔ اس جانباز دستے نے جس طرح اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں وہ ایک ولولہ انگیز منظر تھا۔ جتنی لاشیں اٹھانی تھیں، اتنے ہی مجاہدین شہید ہوگئے۔ سلطان ایوبی دور نکل گیا تھا۔ جنگ کے دوران وہ اپنا پرچم ساتھ نہیں رکھا کرتا تھا تاکہ دشمن کو معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے۔ وہ اپنی فوج سے دور ہٹ گیا اور بہت دور جا کر وہ ٹیلوں، چٹانوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں چلا گیا۔ وہ گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر جاکر لیٹ گیا تاکہ اسے دشمن نہ دیکھ سکے۔ اسے قلعہ اور شہر کی دیوار نظر آرہی تھی اور کم وبیش ایک میل لمبا وہ علاقہ بھی نظر آرہا تھا جہاں ابھی اس کی فوج نہیں پہنچی تھی۔ اس نے ٹیلوں کے علاقے کا جائزہ لیا، ہر جگہ گھوما پھرا۔
اسی جائزے اور دیکھ بھال میں سورج غروب ہوگیا۔ وہ وہیں رہا۔ شام گہری ہوئی تو اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے حکم کے مطابق پیادہ اور سوار تیراندازوں کے دستے آرہے ہیں۔ اس نے اپنے قاصد سے کہا کہ کمانڈروں کو بلایا جائے… جب کمانڈر اس کے پاس آئے تو چھاپہ مار دستے کا کمانڈر بھی ان کے ساتھ تھا۔ اسے سلطان ایوبی نے راستہ بتا کر اپنے ہدف پر چلے جانے کو کہا، پھر وہ دوسرے کمانڈروں کو ہدایات دینے لگا۔
٭ ٭ ٭
آدھی گزری تھی کہ دور سے گھوڑوں کی آوازیں اس طرح سنائی دینے لگیں جیسے سیلاب بند توڑ کر آرہا ہو۔ چاند پورا تھا، چاندنی شفاف تھی۔ صلیبیوں کے گھوڑ سوار ٹیلوں اور چٹانوں سے کچھ دور تک آگئے۔ ان کے پیچھے شتر سوار تھے۔ ان کی تعداد کے متعلق مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ غیر مسلم مورخوں نے تعداد تین ہزار سے کم بیان کی ہے۔ مسلمان مورخ پانچ سے آٹھ ہزار تک بتاتے ہیں۔ اس وقت کے وقائع نگاروں کی جو تحریریں دستیاب ہوسکی ہیں وہ کم سے کم تعداد دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار بتاتے ہیں۔ ان کا کمانڈر ایک مشہور صلیبی حکمران ریمانڈ تھا۔ دو مورخوں نے کمانڈر کا نام رینالٹ لکھا ہے لیکن وہ ریمانڈ تھا۔ وہ اسی حملے کے لیے لمبے عرصے سے وہاں سے دور خیمہ زن تھا۔ اسے اب رات کو یہ صبح ہوتے ہی سلطان ایوبی کی اس فوج پر حملہ کرنا تھا جس نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا تھا۔
صلیبی سوار گھوڑوں اور اونٹوں سے اترے، گھوڑوں کے ساتھ دانے کی تھیلیاں تھیں جو گھوڑوں کے آگے لٹکا دی گئیں۔ سواروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے جانور کے ساتھ رہیں اور زیادہ دیر کے لیے سو نہ جائیں۔ جانوروں کے لیے چارہ اور پانی کے مشکیزے پیچھے آرہے تھے۔ صلیبیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں پر عقب سے اچانک حملہ کرکے گھوڑوں کو قلعے کے اندر سے پانی پلائیں گے۔ سلطان ایوبی کے دیدبان صلیبیوں کو بڑی اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور گھبرا بھی رہے تھے کیونکہ صلیبیوں کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ اتنی زیادہ طاقت سے وہ محاصرہ توڑ سکتے تھے۔
صحرا بھی دھنلی تھی، صلیبیوں کو سوار ہونے، برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم ملا۔ یہ دراصل حملے کا حکم تھا۔ وہ ایک بڑی ہی لمبی صف کی صورت میں آگے بڑھے، جونہی اگلی صف نے ایڑی لگائی، عقب سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں، جن سواروں کو تیر لگے، وہ گھوڑوں پر ہی اوندھے ہوگئے یا گر پڑے اور جن گھوڑوں کو تیر لگے وہ بے قابو ہوکر بھاگ اٹھے۔ اونٹ بھی چلے ہی تھے کہ ان میں بھگدڑ مچ گیا۔ صلیبی کمانڈر سمجھ نہ سکے کہ یہ ہوا کیا ہے اور ان کی ترتیب بکھرتی کیوں جارہی ہے۔ انہوں نے غصے کی حالت میں چلانا شروع کردیا۔ زخمی گھوڑوں اور اونٹوں نے جو واویلا بپا کیا اس نے ساری فوج پر دہشت طاری کردی۔ صبح کا اجالا صاف ہوا تو ریمانڈ کو معلوم ہوا کہ وہ سلطان ایوبی کے گھیرے میں آگیا ہے۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے۔ وہ اسے بہت زیادہ سمجھ رہا تھا۔ ایسی صورتحال کے لیے وہ تیار نہیں تھا۔ اس نے حملہ رکوا دیا لیکن اس کے سواروں کی اگلی صف اس خلاکے قریب پہنچ چکی تھی جہاں اس پورے لشکر کو پہنچنا تھا۔
محاصرے والی فوج کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا۔ وہ اسے حملے کے استقبال کے لیے تیار تھی۔ اس کے مجاہدین نے گرد کے بادل زمین سے اٹھتے اور اپنی طرف آتے دیکھے تو وہ تیار ہوگئے۔ گرد قریب آئی تو اس میں سے گھوڑ سوار نمودار ہوئے۔ مجاہدین نے اپنے آپ کو حملہ روکنے کی ترتیب میں کرلیا۔ وہ دائیں اور بائیں تھے جونہی گھوڑے ان کے درمیان آئے، مجاہدین پہلوئوں سے ان پر ٹوٹ پڑے۔ تب صلیبی سواروں کو احساس ہوا کہ وہ اپنے لشکر سے کٹ گئے ہیں اور ان کا لشکر اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں۔ سلطان ایوبی اس معرکے کی کمان اور نگرانی خود کررہا تھا۔ صلیبی پیچھے کو مڑے تاکہ مقابلہ کریں لیکن سلطان ایوبی نے انہیں یہ چال چل کر بہت مایوس کیا کہ صلیبیوں کا کوئی دستہ سرپٹ رفتار سے کسی طرف حملہ کرتا تھا تو آگے مزاحمت نہیں ملتی تھی۔ البتہ پہلوئوں اور عقب سے اس پر تیر برستے تھے۔ صلیبی کمانڈروں نے اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کردیا۔ سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اس کی ہدایت کے مطابق آمنے سامنے کے مقابلے کی نوبت ہی نہ آنے دی۔ صلیبیوں کے گھوڑے تھکے ہوئے تھے۔ بھوکے اور پیاسے بھی تھے۔ انہیں جنگ روکنی پڑی۔ وہ چارے اور پانی کے منتظر تھے۔ رسد کو صبح تک پہنچ جانا چاہیے تھا۔
دوپہر تک رسد نہ پہنچی۔ چند ایک سوار دوڑے گئے لیکن وہ مسلمان تیر اندازوں کا شکار ہوگئے۔ اگر وہ زندہ پیچھے چلے بھی جاتے تو انہیں رسد نہ ملتی۔ وہ رات کو ہی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستے کی لپیٹ میں آگئی تھی۔ اس دستے نے بڑی کامیابی سے شب وخون مارا اور رسد تباہ کردی تھی۔ سلطان ایوبی نے اپنے محفوظہ میں سے مزید دستے بلا لیے اور ریمانڈ کے لشکر کو گھیرے میں لے لیا۔ اگر مسلمانوں کی تعداد صلیبیوں جتنی ہوتی تو وہ حملہ کرکے صلیبیوں کو ختم کردیتے۔ سلطان ایوبی اپنی نفری ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اس لشکر کو لڑاتے لڑاتے ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں لے جا کر گھیرے میں لے لیا۔ اسے معلوم تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا صلیبی بے کار ہوتے جائیں گے مگر صلیبیوں کو بڑی کامیابی سے گھیر ے میں لے کر اسے خود بھی نقصان ہورہا تھا۔ اس نے جہاں صلیبیوں کی اتنی بڑی قوت کو باندھ لیا تھا وہاں اس کے اپنے بہت سے ریزور دستے بھی بندھ گئے تھے۔ انہیں اب وہ کسی اور طرف استعمال نہیں کرسکتا تھا۔
اس علاقے کے اندر پانی موجود تھا، جو جانوروں کو کچھ عرصے کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا۔ فوج کوزندہ رکھنے کے لیے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کا گوشت کافی تھا۔ سلطان ایوبی نے شہر کا محاصرہ مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔ صلیبی چین سے نہیں بیٹھے۔ ہر روز کسی نہ کسی جگہ جھڑپ ہوتی تھی اور دن گزرتے جارہے تھے۔ سلطان ایوبی نے قلعے اور شہر کے گرد گھومنا شروع کردیا۔ کہیں سے بھی دیوار توڑنے کی صورت نظر نہیں آر ہی تھی۔
٭ ٭ ٭
محاصرے کا سولہواں سترھواں روز تھا، شام کے وقت سلطان ایوبی اپنے خیمے میں بیٹھا اپنے نائبین وغیرہ کے ساتھ اس مسئلے پر باتیں کررہا تھا کہ قلعے کو توڑنے کی کیا صورت اختیار کی جائے۔ محافظ نے اندر آکر اطلاع دی کہ سوڈان کے محاذ سے قاصد آیا ہے۔ سلطان ایوبی تڑپ کر بولا… ''اسے فوراً اندر بھیج دو''… اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے نکل گیا… ''اللہ کرے یہ کوئی اچھی خبر لایا ہو''۔
قاصد اندر آیا تو سلطان ایوبی نے فوراً پہچان لیا کہ یہ قاصد نہیں، کسی دستے کا کمانڈر ہے۔ سلطان ایوبی نے بیتابی سے پوچھا… ''کوئی اچھی خبر لائے ہو؟… بیٹھ جائو''۔
کمانڈر نے نفی میں سر ہلایا اور بولا… ''جس رنگ میں سالار اعظم دیکھیں، خبر اس لیے اچھی نہیں کہ ہم سوڈان میں فتح حاصل نہیں کرسکے اور اس لحاظ سے خبر اچھی ہے کہ ہم نے ابھی شکست نہیں کھائی اور پسپا نہیں ہوئے''۔
''اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکست اور پسپائی کے آثار بھی نظر آرہے ہیں''۔ سلطان ایوبی نے پوچھا۔
''صاف نظر آرہے ہیں''۔ کمانڈر نے جواب دیا… ''میں آپ کا حکم لینے آیا ہوں کہ ہم کیا کریں۔ ہمیں کمک کی شدید ضرورت ہے۔ اگر ہماری یہ ضرورت پوری نہ ہوئی تو پسپائی کے بغیر چارہ نہیں''۔
سلطان ایوبی نے پورا پیغام سننے سے پہلے اس کے لیے کھانا منگوایا اور کہا کہ کھائو اور پیغام سناتے جائو۔ سلطانایوبی کی غیرحاضری میں اس کا بھائی تقی الدین مصر کا قائم مقام امیر مقرر ہوا تھا۔ اس نے سوڈان اور مصر کی سرحد کے قریب فرعونوں کے زمانے کے کھنڈروں میں صلیبیوں کا پیدا کردہ ایک بڑا ہی خطرناک نظریہ اور ڈرامہ پکڑا تھا اور اس کے فوراً بعد اس نے یہ سوچ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہاں مصر پر حملے کی تیاریاں ہورہی تھیں۔ مشیروں اور سالاروں نے اسے کہا تھا کہ وہ سلطان ایوبی سے اجازت لے کر حملہ کریں مگر تقی الدین نے یہ کہہ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو اس لیے پریشان نہیں کرنا چاہتے کہ وہ صلیبیوں کے اتنے طاقتور لشکر کے خلاف لڑ رہا ہے۔ اس نے جوش میں آکر حملہ تو کردیا تھا لیکن یہ کمانڈر پیغام لایا تھا کہ سوڈان میں شکست صاف نظر آرہی ہے۔ عام قاصد کے بجائے تقی الدین نے ایک کمانڈر کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو محاذ کی صحیح صورتحال فنی نقطہ نگاہ سے سنا سکے۔ اس سے پہلے سلطان ایوبی کو صرف یہ اطلاع ملی تھی کہ تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کردیا ہے۔
کمانڈر نے جو واقعات سلطان ایوبی کو سنائے وہ مختصراً یہ تھے کہ تقی الدین نے حقائق پر نظر ر کھنے کے بجائے جذبے اور جذبات سے مغلوب ہوکر حملے کا حکم دے دیا۔ اس کا جذبہ وہی تھا جو اس کے بھائی سلطان ایوبی کا تھا لیکن دونوں بھائیوں کی جنگی فہم وفراست میں فرق تھا۔تقی الدین نے جو فیصلہ کیا نیک نیتی اور اسلامی جذبے کے تحت کیا مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرگیا کہ دشمن پر سوچے سمجھے بغیر ٹوٹ پڑنے کو جہاد یا جنگ نہیں کہتے۔ اس نے سوڈان میں پھیلائے ہوئے اپنے جاسوسوں کی رپورٹوں پر بھی پوری طرح غور نہ کیا۔ ان کی صرف اس اطلاع پر توجہ مرکوز رکھی کہ سوڈانیوں کو صلیبی کمانڈر ٹریننگ دے رہے ہیں اور وہاں حملے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں۔ تقی الدین نے دشمن کو تیاری کی حالت میں دبوچ لینے کا فیصلہ کرلیا مگر اس قسم کی انتہائی اہم معلومات حاصل نہ کیں کہ سوڈانیوں کی جنگی طاقت کتنی ہے؟ وہ کتنی طاقت لڑائیں گے اور کتنی ریزو میں رکھیں گے؟ ان کے ہتھیار کیسے ہیں؟ سوار کتنے اور پیادہ کتنے ہیں؟ اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ تھا کہ میدان جنگ کس قسم کا اور مصر سے کتنی دور ہوگا اور رسد کے انتظامات کیا ہوں گے؟
وہ خرابیاں تو ابتداء میں ہی سامنے آگئیں، ایک یہ کہ سوڈانیوں نے بلکہ صلیبی کمانڈروں نے تقی الدین کو سرحد پرروکا نہیں۔ اسے بہت دور تک سوڈان کے اس علاقے تک جانے کے لیے راستہ دے دیا جو بڑا ہی ظالم صحرا تھا اور جہاں پانی نہیں تھا۔ دوسرا نقصان یہ سامنے آیا کہ تقی الدین کی
: فوج دراصل صلاح الدین ایوبی کی چالوں پر لڑنے والی فوج تھی جو انتہائی کم تعداد میں دشمن کے بڑے بڑے دستوں کو تہس نہس کردیا کرتی تھی۔ اس فوج کو صرف سلطان ایوبی استعمال کرسکتا تھا۔ سلطان ایوبی آمنے سامنے کی ٹکر سے ہمیشہ گریز کرتا تھا۔ وہ متحرک قسم کی جنگ لڑتا تھا۔ تقی الدین لشکر کشی کا قائل تھا۔ اس فوج میں تجربہ کار اور جانباز چھاپہ مار دستے بھی تھے لیکن ان کا صحیح استعمال سلطان ایوبی جانتا تھا۔ سوڈان میں جاکر یوں ہوا کہ فوج ایک لشکر کی صورت میں بندھی رہی اور دشمن اپنی چال چل گیا۔ دشمن تقی الدین کو اپنی پسند کے علاقے میں لے گیا اور اس کی فوج پر سلطان ایوبی کے انداز کے شب وخون مارنے شروع کردیئے۔ تقی الدین کے جانوروں اور جوانوں کو پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی تھی۔ چھاپہ مار دستوں کے کمانڈروں نے اسے کہا کہ وہ انہیں صحرا میں آزاد چھوڑ دے مگر تقی الدین نے اسے خدشے کے پیش نظر انہیں کوئی کارروائی نہ کرنے دی کہ جمعیت اور مرکزیت ختم ہوجائے گی۔
جب رسد کا مسئلہ سامنے آیا تو یہ تکلیف دہ احساس ہوا کہ وہ اتنی دور چلے آئے ہیں جہاں تک رسد کو پہنچتے کئی دن لگیں گے اور رسد کا راستہ محفوظ بھی نہیں۔ ہوا بھی ایسے ہی کہ رسد کے پہلے ہی قافلے کی اطلاع ملی کہ دشمن نے اسے تباہ نہیں کیا بلکہ تمام تر رسد اور جانور اڑالے گیا ہے۔ اس حادثے کی اطلاع پر چھاپہ مار دستوں کے ایک سینئر کمانڈر اور تقی الدین میں گرما گرمی ہوگئی۔ کمانڈر نے کہا کہ وہ لڑنے آئے ہیں اور لڑیں گے لیکن اس طرح نہیں کہ دشمن شب وخون مار رہا ہے۔ رسد لوٹ کر لے گیا ہے اور ہم مرکزیت کے پابند بیٹھے رہیں۔ تقی الدین نے حکم کے لہجے میں سخت کلامی کی تو کمانڈر نے کہا… ''آپ تقی الدین ہیں، صلاح الدین نہیں۔ ہم اس عزم اور اس طریقے سے لڑیں گے جو ہمیں صلاح الدین ایوبی نے
سکھایا ہے۔ ہم چھاپہ مار ہیں۔ ہم دشمن کے پیٹ کے اندر جاکر اس کا پیٹ چاک کیا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ لشکر بھوکا مرررہا ہے اور رسد دشمن لے گیا ہے۔ ہم دشمن کی رسد لوٹ کر اپنی فوج کو کھلانے کے عادی ہیں''۔
۔ ہم چھاپہ مار ہیں۔ ہم دشمن کے پیٹ کے اندر جاکر اس کا پیٹ چاک کیا کرتے ہیں۔ آپ کا یہ لشکر بھوکا مرررہا ہے اور رسد دشمن لے گیا ہے۔ ہم دشمن کی رسد لوٹ کر اپنی فوج کو کھلانے کے عادی ہیں''۔
وقائع نگار لکھتے ہیں کہ تقی الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ جانتا تھا کہ چھاپہ ماروں کا یہ کمانڈر کس جذبے سے پاگل ہوا جارہا ہے۔ اس نے جذباتی لہجے میں کہا… ''میں ذات باری تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ میں ان جانبازوں کو جو فلسطین میں لڑتے ہوئے آئے ہیں، ناحق موت کے منہ میں نہیں دھکیلنا چاہتا''۔
''پھر آپ کو حملہ بھی نہیں کرنا چاہیے تھا''۔ کمانڈر نے کہا… ''ہم میں کون ہے جو اللہ کے نام پر جان دینے کے یے تیار نہیں، ہم موت کے منہ میں آچکے ہیں اور یہی مسلمان کی شان ہے کہ وہ موت کے منہ میں جاکر اپنے آپ کو اللہ کے قریب محسوس کرتا ہے۔ آپ جذبات سے نکلیں، ہم دشمن کے جال میں آچکے ہیں''۔
تقی الدین کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا، اسے سلطان ایوبی کے یہ الفاظ یاد تھے کہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ کر کسی کو حکم نہ دینا ور میدان جنگ میں جاکر اپنی غلطیوں سے چشم پوشی نہ کرنا۔ اس نے اس کمانڈر کی سخت کلامی کو گستاخی نہ سمجھا اور اسی وقت تمام اعلیٰ کمانڈروں کو بلا کر جنگ کی صورتحال اور آئندہ اقدام کے متعلق بات چیت کی۔ فیصلہ ہوا کہ چھاپہ ماروں کو جوابی کارروائیاں کرنے کے لیے پھیلا دیا جائے۔ رسد کے راستے کو بھی چھاپہ مار اپنی حفاظت میں لے لیں۔ فوج کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کرکے دشمن پر تین اطراف سے حملہ کیا جائے۔ تقی الدین نے اپنے پاس جو محفوظہ رکھا وہ خاصا کم تھا۔ اس تقسیم ا ور ترتیب سے یہ فائدہ ہوا کہ فوج اس علاقے سے نکل گئی جہاں پانی نہیں تھا۔ ریت اور ٹیلوں کا سمندر تھا مگر فوج بکھر گئی۔ دشمن نے تینوں حصوں پر حملے کرکے انہیں اور زیادہ بکھیر دیا۔ جانی نقصان بہت ہونے لگا، نہایت تیزی سے کمانڈروں نے اپنے اپنے دستوں کو الگ الگ کرکے اسی نوعیت کی جنگ شروع کردی جو انہیں سلطان ایوبی نے سکھائی تھی مگر صاف پتا چل رہا تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے۔ انہوں نے جذبہ قائم رکھا۔ رسد اور کمک کا سوال ہی ختم ہوگیا تھا۔ وہ شب وخون مارتے اور کھانے پینے کے لیے کچھ حاصل کرلیتے تھے۔ چھاپہ مار دستے نہایت جانبازی سے شب وخون مارتے دشمن کا نقصان کرتے اور جو ہاتھ لگتا وہ مختلف دستوں تک پہنچا دیتے تھے۔
مرکزی کمان ختم ہوچکی تھی، تقی الدین اپنے عملے کے ساتھ بھاگتا دوڑتا رہتا تھا۔ جذبے کی حد تک وہ مطمئن تھا۔ اسے کہیں سے بھی ایسی اطلاع نہ ملی کہ کسی دستے یا جماعت نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں۔ جنگ چھوٹے چھوٹے معرکوں اور جھڑپوں میں تقسیم ہوتے ہوتے آدھے سوڈان تک پھیل گئی۔ مسلمان کمانڈروں نے فردً فرداً یہ فیصلہ کرلیا
کہ وہ چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑتے رہیں گے۔ سوڈان سے نکلیں گے نہیں۔ دشمن کا نقصان بھی ہورہا تھا۔ ایک وقت آگیا، جب دشمن پریشان ہوگیا کہ مسلمانوں کو سوڈان سے کس طرح نکالا جائے۔ مسلمان فوجی صحرائوں، بیابانوں اور دیہاتی آبادیوں میں پھیل گئے تھے۔ اب مرکز کو یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ جانی نقصان کتنا ہوچکا ہے اور کتنی نفری باقی ہے۔ یہ اندازہ ضرور ہورہا تھا کہ دشمن بھی مصیبت میں مبتلا ہے اور اب وہ مصر پر حملہ نہیں کرسکے گا مگر اس طریقہ جنگ سے کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا۔ کوئی علاقہ فتح نہیں کیا جاسکتا تھا۔ فوج مرتی جارہی تھی۔
ان حالات میں تقی الدین نے سلطان ایوبی کو اپنے ایک کمانڈر کی زبانی پیغام بھیجا۔ اس نے کہا کہ سوڈان کی مہم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے کہ اسے کمک مل جائے۔ اس کی تمام فوج چھاپہ مار پارٹیوں میں بٹ گئی تھی۔ ان پارٹیوں کی کارروائیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مزید فوج کی ضرورت تھی۔ تقی الدین نے سلطان ایوبی سے پوچھا تھا کہ کمک نہ مل سکے تو کیا وہ سوڈان میںبکھری ہوئی فوج کو یکجا کرکے مصر واپس آجائے؟ مصر میں جو فوج تھی وہ مصر کے اندرونی حالات اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی ناکافی تھی۔ اسے محاذ پر لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ سلطان ایوبی پسپائی کا قائل نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو پسپائی کا حکم دے یا نہیں لیکن حقائق اسے مجبور کررہے تھے۔ وہ کمک نہیں دے سکتا تھا۔ وہ خود کمک کی ضرورت محسوس کررہا تھا۔ وہ گہری سوچ میں کھوگیا۔
٭ ٭ ٭
تقی الدین کے اس قاصد نے سلطان ایوبی کی صورتحال تو بتا دی لیکن صلیبیوں اور سوڈانیوں نے وہاں جو ایک اور محاذ کھول دیا تھا، وہ نہ بتایا۔ غالباً اس کمانڈر کو معلوم نہ ہوگا۔ ایسے انکشافات بہت بعد میں ہوئے تھے۔ تقی الدین کی فوج دس دس بارہ بارہ کی ٹولیوں میں بکھر کر لڑ رہی تھی۔ بعض علاقوں میں خانہ بدوشوں کے جھونپڑے اور خیمے بھی تھے۔ بعض جگہیں ہری بھری اور سرسبز بھی تھیں اور بیشتر علاقے بنجر، ویران اور ریگستان تھے۔ ایک شام تین چھاپہ مار مجاہدین واپس اپنے ایک سینئر کمانڈر کے پاس آئے۔ ان میں دو زخمی تھے۔ انہوں نے سنایا کہ ان کی پارٹی میں اکیس افراد تھے اور بائیسواں پارٹی کمانڈر تھا۔ دن کے وقت یہ پارٹی ایک جگہ چھپی ہوئی تھی۔ پارٹی کمانڈر ادھر ادھر اس طرح ٹہل رہا تھا جیسے پہرہ دے رہا ہو یا کسی کی راہ دیکھ رہا ہو۔ ایک سوڈانی شتر سوار گزرا اور پارٹی کمانڈر کو دیکھ کر رک گیا۔ کمانڈر اس کے پاس گیا اور معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا باتیں کیں۔ شتر سوار چلا گیا تو پارٹی کمانڈر نے اپنے اکیس جانبازوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ دو میل دور ایک گائوں ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں۔ اس شتر سوار نے پارٹی کو اپنے گائوں میں مدعو کیا ہے۔ رات کو گائوں والے پارٹی کو اپنا مہمان رکھیں گے اور دشمن کی ایک جمعیت کی جگہ بھی بتائیں گے۔
تمام جانباز بہت خوش ہوئے۔ کھانا دانہ ملنے کے علاوہ دشمن پر حملے کا موقع بھی مل رہا تھا۔ سورج غروب ہوتے ہی یہ سب اس گائوں کی طرف چل دیئے۔ وہاں جا کے دیکھا کہ صرف تین جھونپڑے تھے۔ادھر ادھر درخت تھے اور پانی بھی تھا۔ سپاہیوں کو جھونپڑوں کے باہر ڈیرے ڈالنے کو کہاگیا۔ پارٹی کمانڈر ایک جھونپڑے میں چلاگیا۔ باہر مشعلیں جلا دی گئیں اور سب کو کھانا دیا گیا۔ پارٹی کمانڈر نے کہاکہ سب سو جائو، حملے کے وقت انہیں جگالیا جائے گا۔ تھکے ہوئے ساہی سو گئے۔ یہ تین جو واپس آئے ان میں سے ایک سو نہ سکا یا اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے ایک جھونپڑے میں عورتوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے جھانک کر دیکھا۔ جھونپڑے میں پارٹی کمانڈر دو نہایت حسین لڑکیوں کے ساتھ ہنس کھیل رہا تھا اور شراب چل رہی تھی۔ لڑکیاں صحرائی لباس میں تھیں لیکن صحرائی لگتی نہیں تھیں۔ اس سپاہی کو باہرکچھ دبی دبی آوازیں سنائی دیں۔ چاندنی میں اس نے دیکھا کہ بہت سے آدمی آرہے تھے جن کے ہاتھوں میں برچھیاںاور تلواریں تھیں۔ سپاہی جھونپڑے کی اوٹ میں ہوگیا اور دیکھتارہا کہ یہ کون لوگ ہیں۔ جھونپڑے میں کوئی داخل ہوا۔ اس کی آواز سنائی دی… ''کیوں بھائی کام کردیں؟''… پارٹی کمانڈر نے کہا… ''تم آگئے؟ سب سوئے ہوئے ہیں، ختم کردو''… اور لڑکیوں کے قہقہے سنائی دیئے۔
وہ آدمی جو آرہے تھے سوئی ہوئی پارٹی پر ٹوٹ پڑے۔ کچھ تو سوتے میں ختم ہوگئے اور جو جاگ اٹھے انہوں نے مقابلہ کیا۔ یہ سپاہی چھپاہوا دیکھتا رہا۔ اسے اپنے دو ساتھی بھاگتے نظر آئے۔ موقعہ دیکھ کر یہ سپاہی بھی بھاگ اٹھا اور اپنے دو ساتھیوں سے جاملا۔ وہ دونوں زخمی تھے۔ کسی نے ان کا تعاقب نہ کیا۔ یہ معلوم نہیں ہوسکاکہ پارٹی کمانڈر شتر سوار کے دیئے ہوئے لالچ میں آگیا تھا یا وہ پہلے سے ہی دشمن کا ایجنٹ تھا اور اپنے آدمیوں کو مروانے کا م
: ن کا ایجنٹ تھا اور اپنے آدمیوں کو مروانے کا موقعہ دیکھ رہا تھا۔ بہرحال یہ انکشاف ہوا کہ دشمن نے بکھرے ہوئے مسلمان دستوں کو ختم کرنے یا اپنے ہاتھ میں کرنے کے لیے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ دشمن انسانی فطرت کی کمزوریوں کو استعمال کررہا تھا۔ ان حالات میں لڑنے والے سپاہی کو پیٹ اور جنس کی بھوک بہت پریشان کیاکرتی ہے۔ دشمن مجاہدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حملے الگ کررہا تھا ور نفسیاتی ہتھیار بھی استعمال کررہا تھا۔ ایسے چند اور واقعات ہوئے۔ مجاہدین کو خبردار کیا گیا کہ کسی کے جھانسے میں نہ آئیں۔
ایسے بہت سے واقعات میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے۔ چھاپہ مار دستے کا ایک کمانڈر عطاالہاشم ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا، اس کا دستہ تین چار پارٹیوں میں بکھراہوا تھا۔ یہ مصر سے آنے والی رسد کا راستہ تھا۔
جاری ھے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں