صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.38۔"رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
'' اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا''۔میں اس کے پیچھے اسی لیے آیا تھا کہ یہ یہاں سے زندہ نہ نکل سکے''۔ عثمان صارم نے کہا اور امام کو اپنا خنجر دکھا کر کہنے لگا… ''خدا کا شکر ہے کہ اس نے میرا خنجر صلیب پر روک لیا تھا۔ یہ آدمی پاگل نہیں، عیسائی اور یہودی بھی نہیں، یہ مسلمان ہے۔ صلاح الدین ایوبی کا پیغام لایا ہے''… اس نے بوڑھے امام کو سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''میں اس پیغام پر عمل کروں گا۔ آج شام سے ہی بسم اللہ کررہا ہوں لیکن ہمیں ایک امیر کی ضرورت ہے۔ کیا آپ ہماری قیادت کریں گے؟ یہ سوچ لیں کہ صلیبی حکومت کو خبر مل گئی تو سب سے پہلے امیر کی گردن اڑائی جائے گی''۔
''کیا مسجد میں کھڑے ہوکر میں کہنے کی جرأت کرسکتا ہوں کہ میں قوم سے الگ رہوں گا؟''۔ امام نے جواب دیا۔ ''لیکن یہ فیصلہ قوم کرے گی کہ میں امیر اور قائد بننے کے قابل ہوں یا نہیں، میں خدا کے گھر میں کھڑا یہ عہد کرتا ہوں کہ میری دانش، میرا مال میری اولاد اور میری جان اسلام کے تحفظ اور فروغ کے لیے اور صلیب کو روبہ زوال کرنے کے لیے وقف ہوگئی ہے… میرے عزیز بیٹے صلاح الدین ایوبی کے پیغام کا ایک ایک لفظ ذہن میں بٹھا لو۔ اس نے ٹھیک کہا ہے کہ نوجوان قوم اور مذہب کا مستقبل ہوتے ہیں۔ وہ اسے روشن بھی کرسکتے ہیں اور وہ آوارہ ہوکر اسے تاریک بھی کرسکتے ہیں۔ جب کوئی نوجوان صلیبیوں اور یہودیوں کی بے حیائی کا دلدارہ ہوکر لڑکیوں کو بری نظر سے دیکھتا ہے تو وہ محسوس نہیں کرتا کہ اس کی اپنی بہن بھی اس جیسے نوجوانوں کی بری نظر کا شکار ہورہی ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں قومیں تباہ ہوتی ہیں… میرے نوجوان بیٹے! خدا کے اس گھر میں عہد کرو کہ تم صلاح الدین ایوبی کے پیغام پر عمل کرو گے''۔
عثمان صارم نے گھر جاکر اپنی بہن النور کو الگ بٹھا کر سلطان ایوبی کا پیغام سنایا اور کہا… ''النور! ہمارا مذہب اور ہمارا قومی وقار تم سے بہت بڑی قربانی مانگ رہا ہے۔ آج سے اپنے آپ کو پردہ نشین لڑکی سمجھنا چھوڑ دو۔ مسلمان لڑکیوں تک یہ پیغام پہنچا کر انہیں اس جہاد کے لیے تیار کرلو۔ میں تمہیں خنجر، تیر کمان اور برچھی کا استعمال سکھا دوں گا۔ احتیاط یہ کرنی ہے کہ کسی کو شک بھی نہ ہو کہ ہم لوگ کیا کررہے ہیں''۔
''میں ہر طرح کی قربانی کے تیار ہوں''۔ النور نے کہا …''میں اور میری تمام سہیلیاں تو پہلے ہی سوچ رہی ہیں کہ ہم اپنی آزادی اور اپنی قوم کے لیے کیا کرسکتی ہیں۔ ہم تو مردوں کے منہ کی طرف دیکھ رہی ہیں''۔
عثمان صارم نے اسے بتایا کہ صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کے متعلق جتنی خبریں یہاں مشہور کی جاتی ہیں، وہ سب جھوٹی ہوتی ہیں۔ تمام مسلمان گھرانوں میں جاکر عورتوں کو صحیح خبریں سنائو۔ عثمان صارم نے اسے صحیح خبریں سنائیں اور یہ بھی بتایا کہ مسلمانوں میں غدار اور صلیبیوں میں مخبر بھی ہیں۔ اس نے بہن کو ایسے تین چار گھرانے بتائے اور کہا کہ ان عورتوں کو ہاتھ میں لو اور انہیں بتائو کہ ان کے آدمی غدار ہیں۔ انہیں یہ بھی کہو کہ عیسائی اور یہودی لڑکیوں کے پیار سے بچو۔ ان کا پیار محض دھوکہ ہے۔
''کیا میں رینی کو یہاں آنے سے روک دوں؟'' …عثمان صارم نے کہا … ''وہ بہت تیز اور ہوشیار لڑکی ہے''۔
رینی ایک نوجوان عیسائی لڑکی تھی، عثمان صارم کے گھر سے تھوڑی ہی دور اس کا گھر تھا۔ اس کا باپ شہری انتظامیہ کے کسی اونچے عہدے پر فائز تھا۔ لڑکی کا پورا نام رینی الیگزینڈر تھا۔ وہ النور کی سہیلی بنی ہوئی تھی، عثمان صارم کے ساتھ بھی اس نے گہرے مراسم پیدا کرلیے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی تھی۔ عثمان صارم ابھی اس کے قریب نہیں ہوا تھا، یہ وجیہہ جوان سمجھتا تھا کہ یہ عیسائی لڑکی ہے اور یہاں جاسوسی کرنے آتی ہے۔ اس نے رینی کو کبھی ناپسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھا تھا بلکہ اس کے ساتھ ہنسی مذاق بھی کرلیتا تھا تاکہ اسے شک نہ ہو۔ اب جب اسے یہ ضرورت پیش آئی کہ رینی اس کے گھر نہ آیا کرے تو رینی کو یہ کہنا اس کے لیے مشکل ہوگیا کہ اب ہمارے گھر نہ آیا کر و مگر اسے روکنا ضروری تھا کیونکہ وہ گھر میں اپنی بہن کو جنگی ٹرینگ دینا چاہتا تھا اور اسے معلوم نہیں تھا کہ اس گھر میں اب کیا کیا راز آئیں گے۔ اس نے سوچ سوچ کر یہ طریقہ پسند کیا کہ النور سے کہا کہ رینی جب کبھی آئے تم یہ کہہ کر باہر چلی جایا کرو کہ کسی سہیلی کے گھر جا رہی ہوں۔ اس طرح اسے ٹالتی رہو، وہ خود ہی آنا چھوڑ دے گی۔
کرک شہر کے لوگ اس پاگل کی باتیں کررہے تھے جو مسلمانوں کی تباہی کی پیشن گوئی کرتا پھر رہا تھا۔ غیر مسلموں کو وہ بہت ہی اچھا لگا تھا۔ سب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سرکاری طور پر بھی اسے تلاش کیا جارہا تھا
کرک شہر کے لوگ اس پاگل کی باتیں کررہے تھے جو مسلمانوں کی تباہی کی پیشن گوئی کرتا پھر رہا تھا۔ غیر مسلموں کو وہ بہت ہی اچھا لگا تھا۔ سب اسے ڈھونڈتے پھرتے تھے لیکن وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔ سرکاری طور پر بھی اسے تلاش کیا جارہا تھا کیونکہ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے اور ان کا جذبہ سرد کرنے کے لیے اس پاگل کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں چلا گیا ہے۔ وہ اسی رات کہیں لاپتہ ہوگیا تھا۔ دس بارہ روز اس کی تلاش ہوتی رہی۔ صلیبی حکام نے شہر کے باہر بھی گھوڑ سوار دوڑا دیئے۔ انہیں توقع تھی کہ وہ اس شہر سے کہیں دوسرے شہر جارہا ہوگا مگر وہ کسی کو نہ ملا اور دس بارہو دن گزر گئے۔
ان دس بارہ دنوں میں عثمان صارم نے النور اور اس کی تین سہیلیوں کو ہتھیاروں کا استعمال سکھا دیا۔ اس نے انہیں تیغ زنی بڑی محنت سے سکھائی۔ اس کے علاوہ اس نے مسلمان نوجوانوں کو درپردہ سلطان ایوبی کا پیغام سنا کر زمین دوز محاذ پر جمع کرلیا۔ ان نوجوانوں نے ان مسلمان کاریگروں کو تیار کرلیا جو برچھیاں اور تیروکمان وغیرہ بناتے تھے۔ یہ سب صلیبیوں کے ملازم تھے۔ وہ اپنے لیے کوئی ہتھیار نہیں بنا سکتے تھے۔ مسلمانوں کو کوئی ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ ان کاریگروں نے گھروں میں چوری چھپے ہتھیار بنانے شروع کردیئے۔ یہ بہت ہی خطرناک کام تھا۔ پکڑے جانے کی صورت میں صرف سزائے موت ہی نہیں تھی بلکہ مرنے سے پہلے صلیبی درندوں کی بھیانک اذیتیں تھیں۔ وہاں کوئی مسلمان کوئی معمولی سے جرم میں بامحض شک میں پکڑا جاتا تو اس سے پوچھا جاتا تھا کہ مسلمان گھرانوں کے اندر کیا ہورہا ہے اور جاسوس کہاں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کو روئی کی طرح دھننا شروع کردیتے تھے۔ کاریگر جو ہتھیار بناتے تھے وہ عثمان صارم جیسے نوجوان رات کو مختلف گھروں میں چھپا دیتے تھے۔ دن کے وقت لڑکیاں بقعہ نما لبادوں میں خنجر اور تیروکمان چھپا کر مسلمانوں کے گھروں میں لے جاتی رہتی تھی مگر ہتھیار بنانے اور گھروں میں پہنچانے کی رفتار بہت سست تھی۔
ادھر سلطان ایوبی کو ایک جاسوس نے اطلاع دے دی کہ کرک اور مضافات کے مسلمانوں تک اس کا پیغام پہنچ گیا ہے اور وہاں کے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں نے زمین دوز محاذ بنا لیاہے۔ یہ اطلاع لانے والا بھی ایک ذہین اور نڈر جاسوس تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ جاسوس جس نے سلطان ایوبی کا پیغام عثمان صارم تک پہنچایا تھا پاگل کے روپ میں کامیاب رہا ہے۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اس اطلاع پر بہت خوش تھا۔ اس نے کہا … ''جس قوم کے نوجوان بیدار ہوجائیں اسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی''۔
''اس کامیابی نے میرا حوصلہ بڑھا دیا ہے''۔ شعبہ جاسوسی کے نائب زاہدان نے کہا …''اگر آپ اجازت دیں تو میں مقبوضہ علاقے کے نوجوانوں کو اپنے جاسوسوں کے ذریعے اتنا بھڑکا سکتا ہوں کہ وہ شعلے بن کر کرک اور یروشلم کو آگ لگا دیں گے''۔
''اور اس آگ میں وہ خود بھی جل مریں گے''۔ سلطان ایوبی نے کہا …''میں نوجوانوں کو شعلے نہیں بنانا چاہتا۔ میں ان کے سینوں میں ایمان کی چنگاری سلگانا چاہتا ہوں۔ نوجوانوں کو بھڑکانا کوئی مشکل کام نہیں ۔ ان میں سے کوئی اشرفی کی چمک اور لالچ سے تمہارے ہاتھ میں کھیلنے لگے گا اور زیادہ تعداد ان کی ہے جو جذباتی الفاظ اور جوشیلے نعروں سے بھڑک اٹھتے ہیں پھر تم ان سے جو کچھ کرانا چاہتے ہو کرالو۔ انہیں آپس میں بھی لڑا سکتے ہو۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ جاہل اور گنوار ہیں اور ان کا اپنا دماغ ہی نہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ یہ عمر ہی ایسی ہوتی ہے کہ خون کا جوش کچھ کر گزرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اس عمر میں ذہن عیاشی کی طرف مائل ہوتا ہے اور عمل صالح کی طرف بھی۔ تم نوجوان ذہن کو جو بھی تحریک اور اشتعال دے دو وہ اسی کا اثر قبول کرلے گا۔ تمہارے دشمن ہماری قوم کے ابھرتے ہوئے ذہن میں عیاشی اور جنسی لذت کے جراثیم ڈال رہے ہیں۔ ان کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم انہیں جہاد کی طرف مائل کرکے دشمن کے خلاف استعمال نہ کرسکیں۔ تم یہ کوشش کرو کہ نوجوان بھڑکیں نہیں بلکہ سردر ہیں اور سوچیں، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث کو سمجھیں کہ اپنے آپ کو جانو اپنے دشمن کو پہچانو۔ ان کی سوچیں بدل دو۔ ان میں قومیت کا احساس پیدا کرو۔ یہ نوجوان قوم کا بڑا قیمتی سرمایہ ہیں۔ انہیں بھڑکا کر جلنے سے بچائو۔ انہیں مردانہ دانشمندی نہیں، دانائی یہ ہے کہ ان کے ہاتھوں دشمن کو مروائو لیکن دشمن کا تصور واضح کرو۔ کوئی مسلمان مجھے برا بھلا کہے تو وہ نہ اسلام کا دشمن ہے، نہ غدار ہے، وہ میرا دشمن ہے۔ میں اسے قانون کا سہارا لے کر سزا نہیں دوں گا جو اسلام در سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے لیے بنایا گیا ہے۔ ملت کا قانون ملت کے امیر کے ذاتی استعمال کے لیے نہیں ہوتا۔ غداری کی سزا اسے دی جاتی ہے جو ملک اور قوم کی جڑیں کاٹے اور دین کے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرے۔ خواہ حکمران خو
: خواہ حکمران خود ہی اس کا مجرم ہو۔ وہ غدار ہے اور سزا کا مستحق''۔
''اس صورت میں جبکہ وہاں نوجوان تیار ہوگئے ہیں ہم انہیں کس طرح استعمال کریں''۔ زاہدان نے پوچھا۔
''انہیں جوش میں نہ آنے دو''۔ سلطان ایوبی نے جواب دیا… ''ان کی سوچیں بیدار کرو، وہاں کے حالات کے مطابق وہ خود فیصلہ کریں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ وہ جذبات کے غلبے کے تحت نہ سوچیں، وہاں اور زیادہ ذہین جاسوس بھجو اور یہ یاد رکھو زاہدان کہ دشمن ہمیں نہیں ہمارے نوجوان بچوں کا کردار بگاڑنے کی کوشش کررہا ہے یا ہمارے ان حاکموں کا جن کے ذہن بچوں کی طرح خام ہیں۔ کسی بھی قوم کو جنگ کے بغیر شکست دینا چاہو تو اس کے نوجوانوں کو ذہنی عیاشی میں ڈال دو۔ یہ قوم اس حد تک تمہاری غلام ہوجائے گی کہ اپنی مستورات تمہارے حوالے کرکے اس پر فخر کرے گی۔ صلیبی اور یہودی ہماری قوم کو اسی سطح پر لانے کی کوشش کررہے ہیں'' … سلطان ایوبی کو جیسے اچانک کچھ یاد آگیا ہو۔ اس نے زاہدان سے کہا … ''میں نے کسی سے کہا تھا کہ کرک کے ان مسلمانوں تک جو ہتھیار بنا رہے ہیں، آتش گیر مادہ پہنچا دو یا انہیں بتا دو کہ یہ کس طرح بنتا اور استعمال ہوتا ہے''۔
''وہ انہیں بتا دیا گیا ہے''۔ زاہدان نے جواب دیا … ''اطلاع ملی ہے کہ مسلمانوں نے یہ مادہ تیار کرنا شروع کردیا ہے''۔کرک میں ایسے حالات فوراً ہی پیدا ہوگئے جن میں وہاں کے نوجوانوں کو خود ہی سوچنا اور عمل کرنا پڑا۔مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں نے قافلے لوٹنے کا بھی سلسلہ شروع کررکھا تھا۔ قافلے اتنے عام نہیں تھے۔ تاجر اور دیگر سفر کرنے والے اکٹھے ہوتے رہتے تھے۔ ان کی تعداد ڈیڑھ دو سو ہوجاتی تو قافلے کی صورت میں چلتے تھے۔ یہ ایک حفاظتی اقدام ہوتا تھا۔ قافلے کے ساتھ لڑنے والے مسلح افراد بھی ہوتے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی افراط ہوتی تھی۔ تاجروں کا بے شمار مار اور دولت ہوتی تھی۔ قافلے میں چند ایک کنبے بھی ہوتے تھے۔ یہ لوگ نقل مکانی کرتے تھے۔ صلیبی استبداد میں آئے ہوئے مسلمان اکثر وہاں سے ہجرت کرکے مسلمانوں کی حکمرانی کے علاقوں میں جاتے رہتے تھے۔ اتنے بڑے قافلے کو چند ایک ڈاکو نہیں لوٹ سکتے تھے۔ قافلے والے مقابلہ کرتے تھے۔ صلیبیوں نے یہ کام اپنی فوج کے سپرد کیا تھا۔ انہیں اگر کسی قافلے کی اطلاع مل جاتی تو اپنی فوج کے ایک دو دستوں کو صحرائی لوگوں کے بھیس میں بھیج کر اسے لوٹ لیتے تھے۔ قافلوں میں صرف مسلمان ہوتے تھے۔ یہ جرم ان صلیبی بادشاہوں نے بھی کرایا اور لوٹے ہوئے مال سے حصہ وصول کیا، جنہیں آج تاریخ میں صلیبی جنگوں کا ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔
اس جرم میں مسلمان امراء بھی شامل تھے۔ وہ چھوٹی چھوٹی اسلامی ریاستوں کے حکمران تھے۔ ان کے پاس فوج بھی تھی۔ لٹے ہوئے قافلوں کے دوچار آدمی فریاد لے کر ان حکمرانوں کے دربار میں جاتے تھے تو ان کی شنوائی نہیں ہوتی تھی کیونکہ ان حکمرانوں کو بھی صلیبی لڑکیوں، شراب اور تھوڑے سے سونے کی صورت میں حصہ دیا کرتے تھے۔
اگر یہ حکمران چاہتے تو صلیبی ڈاکوئوں کا قلع قمع کرسکتے تھے مگر انہوں نے صلیبی ڈاکوئوں کو ایسی کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ یہ ڈاکو ان کی ریاستوں کے اندر بھی آکر لوٹ مار کر جاتے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں اندھا کرکے یہ فائدہ بھی اٹھایا کہ ان کی ریاستوں کے سرحدی علاقے ہڑپ کرتے گئے۔ انہوں نے بعض چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو مسلسل ڈاکوئوں سے پریشان کرکے جزیہ بھی وصول کرنا شروع کردیا تھا۔ اس طرح سلطنت اسلامیہ سکڑتی چلی جارہی تھی۔ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی ان مسلمان ریاستوں پر بھی قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ ان حکمرانوں کو وہ صلیبیوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے تھے۔ ایک بار نورالدین زنگی نے صلاح الدین ایوبی کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں کئی اور باتوں کے علاوہ ان چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمرانوں کے متعلق لکھا تھا… ''ان مسلمان حکمرانوں نے اپنی عیش وعشرت کے لیے اپنی ریاستیں صلیبیوں کے پاس گروی رکھ دی ہیں۔ وہ کفار سے تحفے اور زروجواہرات اور اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکیاں لیتے اور اسلام کا نام ڈبوتے جارہے ہیں۔ یہ مسلمان کفار سے زیادہ ناپاک اور خطرناک ہیں۔ وہ بادشاہی کے نشے میں بدمست ہیں اور صلیبی ان کی جڑوں میں داخل ہوگئے ہیں۔ صلیبیوں کو شکست دینے سے پہلے ضروری ہوگیا ہے کہ ان مسلمان ریاستوں پر قبضہ کرکے انہیں سلطنت اسلامیہ میں مدغم کیا جائے اور خلافت بغداد کے تحت لایا جائے۔ اس کے بغیر اسلام کا تحفظ ممکن نہیں''۔
ان خطروں کے باوجود کبھی کبھی کوئی بہت بڑا قافلہ صحرا میں جاتا نظر آجاتا تھا۔ کرک سے چند میل دور سے ایک قافلہ گزر رہا تھا۔ اس میں ایک سو سے زیادہ اونٹ تھے۔ بہت سے گھوڑے بھی تھے، قافلے میں تاجروں کا مال تھا اور چند ایک کنبے تھے۔ ایک کنبہ ایسا بھی تھا جس میں دو جوان لڑکیاں تھیں، یہ بہنیں تھیں۔ قافلہ حسب معمول مسلمانوں کا تھا۔ کرک کے علاقے سے قافلہ گزر رہا تھا تو صلیبیوں
: مسلمانوں کا تھا۔ کرک کے علاقے سے قافلہ گزر رہا تھا تو صلیبیوں کو پتا چل گیا۔ انہوں نے اپنی فوج کا ایک دستہ بھیج دیا جس نے دن دہاڑے قافلے پر جا حملہ کیا۔ قافلے کے گھوڑ سواروں نے مقابلہ تو بہت کیا مگر صلیبیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ وہاں ریت خون سے لال ہوگئی۔ صلیبیوں نے بچوں تک کو کاٹ ڈالا۔ پندرہ سولہ جواں سال مسلمان رہ گئے۔ انہیں قیدی بنا لیا گیا۔ دونوں لڑکیوں کو پکڑ لیا۔ اونٹوں اور گھوڑوں کو مال واسباب سمیت کرک لے گئے۔
یہ قافلہ جب کرک میں داخل ہوا تو آگے آگے قیدی تھے۔ ان کے پیچھے دو گھوڑوں پر دو لڑکیاں سوار تھیں جن کا لباس بتاتا تھا کہ مسلمان ہیں۔ ان کے پیچھے صلیبی تھے جن کے چہروں پر نقاب تھے اور ان کے پیچھے مال واسباب سے لدے ہوئے اونٹوں کی قطار تھی۔ لڑکیاں رو رہی تھیں۔ کرک کے شہری تماشا دیکھنے کے لیے باہر نکل آئے، وہ تالیاں پیٹتے اور قہقہے لگاتے تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ لٹا ہوا یہ قافلہ مسلمانوں کا ہے اور قیدی بھی مسلمان ہیں۔ ان قیدیوں میں ایک جواں سال قیدی آفاق نام کا تھا۔ دونوں مغویہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں۔ آفاق زخمی بھی تھا، اس کی پیشانی اور کندھے سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لٹے ہوئے قافلے کے آگے آگے شہر میں داخل ہوا تو تماشائیوں کو دیکھ کر اس نے بلند آواز سے کہا… ''کرک کے مسلمانو! ہمارا تماشا دیکھ رہے ہو؟ ڈوب مرو۔ ان لڑکیوں کو دیکھو، یہ میری نہیں تمہاری بہنیں ہیں۔ یہ مسلمان ہیں''۔
ایک صلیبی نے پیچھے سے اس کی گردن پر گھونسہ مارا، وہ منہ کے بل گرا۔ اس کے ہاتھ رسیوں سے پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ ایک قیدی نے اسے اٹھایا تو آفاق پھر چلایا… ''کرک کے مسلمانو! یہ تمہاری بیٹیاں ہیں''… اسے دو تین نقاب پوشوں نے پیٹنا شروع کردیا۔ اس کی بہنیں چیخ چیخ کر رو رہی تھیں اور فریادیں کرتی تھیں… ''خدا کے لیے ہمارے بھائی کو نہ مارو، ہمارے ساتھ جو سلوک کرنا چاہو کرلو، اسے نہ مارو''… ایک بہن چلا رہی تھی… ''آفاق خاموش ہوجائو، تم ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے''… مگر آفاق چپ نہیں ہورہا تھا۔ تماشائیوں میں مسلمان بھی تھے جو اپنا خون پی رہے تھے مگر بے بس تھے۔ ان کی غیرت ان کی نظروں کے سامنے سے گزرتی جارہی تھی اور وہ دیکھ رہے تھے۔ ان میں نوجوان مسلمان بھی تھے اور ان میں عثمان صارم بھی تھا۔ اس نے اپنے نوجوان دوستوں کی طرف دیکھا۔ سب کی آنکھیں لال تھیں اور دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔
عثمان صارم تھوڑی دور تک اس قافلے کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔ آگے ایک غریب سا موچی بیٹھا تھا جو لوگوں کے جوتے مرمت کیا کرتا تھا۔ اسے کسی مسلمان نے اپنی گھر کی ڈیوڑھی میں سونے کی جگہ دے رکھی تھی۔ دن بھر وہ باہر بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا تھا۔ بدقسمت قافلہ اس کے سامنے سے بھی گزرا۔ اس نے بھی آفاق کی للکار اور لڑکیوں کی آہ وزاری سنی۔ آفاق کے چہرے کو خون سے لال دیکھا، اس پر صلیبیوں کا ظلم ہوتا بھی دیکھا لیکن اس طرح دیکھا جیسے اس نے کچھ بھی نہیں دیکھا۔ اس موچی کو نہ کبھی کسی نے مسجد میں جاتے دیکھا تھا، نہ گرجے میں۔ وہ یہودیوں کی عبادت گاہ میں بھی کبھی نہیں گیا تھا۔ اس کی طرف وہی توجہ دیتا تھا جسے جوتا مرمت کرانا ہوتا تھا۔ اسے کبھی کسی نے بولتے نہیں سنا تھا، وہ خلق کا راندہ ہوا انسان تھا جسے صلیبیوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسلامیوں کے ساتھ بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔
عثمان صارم چلتے چلتے اس موچی کے قریب سے گزرنے لگا تو رک گیا۔ قیدی آگے نکل گئے تھے، اونٹ جارہے تھے۔ جب آخری اونٹ گزر گیا تو عثمان صارم نے دونوں جوتے اتار کر موچی کے آگے رکھ دیئے اور اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ موچی کسی کا جوتا مرمت کررہا تھا، اس نے عثمان صارم کو سر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ عثمان نے ادھر ادھر دیکھ کر سرگوشی میں کہا… ''ان دونوں لڑکیوں کو آج رات آزاد کرانا ہے''۔
''جانتے ہو، یہ لڑکیاں رات کو کہاں ہوں گی؟'' … موچی نے سراٹھائے بغیر اتنی دھیمی آواز میں پوچھا کہ عثمان صارم کے سوا کوئی اور نہیں سن سکتا تھا۔
''جانتا ہوں''۔ عثمان صارم نے جواب دیا… ''صلیبی بادشاہوں کے پاس ہوں گی لیکن ہم میں سے کسی نے بھی وہ جگہ اندر سے نہیں دیکھی''۔
''میں نے دیکھی ہے''۔ موچی نے اپنے کام میں مگن رہ کر کہا… ''وہاں سے لڑکیوں کو نکالنا ممکن نہیں''۔
''تم کس مرض کی دوا ہو؟''… عثمان صارم نے ایسے لہجے میں کہا جس میں جذبات کا لرزہ اور غصہ تھا۔ کہنے لگا ''ہماری رہنمائی کرو اگر ہم لڑکیوں تک پہنچ گئے تو پکڑے گئے تو لڑکیوں کی گردنیں کاٹ دیں گے۔ انہیں صلیبیوں کے پاس نہیں رہنے دیں گے''۔
''کتنے جوانوں کی قربانی دے سکتے ہو؟'' موچی نے پوچھا''۔
''جتنے جوان مانگو گے''۔
''کل رات''۔
''آج رات''۔ عثمان صارم نے دبدبے سے کہا… ''آج ہی رات برجیس! آج ہی رات''۔
''امام کے پاس پہنچو''۔ موچی نے کہا۔
''کتنے جوان؟''
برجیس موچی نے سوچ کر کہا… ''آٹھ… ہتھیار سن لو۔ خنجر۔
برجیس موچی نے سوچ کر کہا… ''آٹھ… ہتھیار سن لو۔ خنجر۔ آتش گیر مادہ''۔
عثمان صارم نے اپنے جوتے پہنے اور چلا گیا۔
٭ ٭ ٭
سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا۔ عثمان صارم نے راستے میں اپنے سات ہم جولیوں کو گھروں سے بلا کر انہیں امام کے گھر پہنچنے کو کہا اور خود امام کے گھر چلا گیا۔ یہ اسی مسجد کا امام تھا جس میں عثمان صارم کی ملاقات ''پاگل'' سے ہوئی تھی۔ عثمان نے ہی امام کو اپنی زمین دوز جماعت کی امامت پیش کی تھی جسے جماعت کے ہر فرد نے قبول کرلیا تھا۔ یہ لوگ کسی نہ کسی کے گھر میں مل بیٹھتے اور لائحہ عمل تیار کرتے تھے۔ اب ان دو مغویہ لڑکیوں کا مسئلہ سامنے آگیا تو عثمان صارم نے ان کی رہائی کا ارادہ کرلیا جو دراصل خودکشی کا ارادہ تھا۔ وہ موچی کے کہنے کے مطابق امام کے گھر چلا گیا۔ امام بے چینی سے اپنی ڈیوڑھی میں ٹہل رہا تھا۔ عثمان صارم کو دیکھ کر رک گیا اور پوچھا …''عثمان! تم نے اس قیدی کی للکار سنی تھی؟ معلوم ہوتا تھا، وہ لڑکیاں اس کی بہنیں تھیں''۔
''میں اسی للکار پر لبیک کہنے آیا ہوں محترم امام!'' عثمان صارم نے کہا… ''برجیس آرہا ہے اور میرے سات دوست بھی آرہے ہیں''۔
''تم کیا کرو گے؟'' امام نے پوچھا… ''تم کرہی کیا سکو گے؟… میں جانتا ہوں کہ ہماری بے شمار لڑکیاں کافروں کے قبضے میں ہیں مگر ان دو لڑکیوں نے مجھے امتحان میں ڈال دیا ہے''۔ اس نے منہ اوپر کرکے گہری آہ بھری اور کہا… ''یاخدا مجھے صرف ایک رات کے لیے جوان کردے یا آج ہی رات میری جان لے لے۔ اگر میں زندہ رہا تو تمام عمر ان لڑکیوں کی آہ وزاری مجھے سنائی دیتی رہے گی اور میں پاگل ہوجائوں گا''۔
''ہمیں اپنی دانش کی روشنی دکھائیں''۔ عثمان صارم نے کہا… ''مجھے امید ہے کہ ہم آپ کو ایک رات سے زیادہ بے چین نہیں رہنے دیں گے''۔
عثمان صارم کے دو ساتھی اندر آئے، امام نے انہیں بیٹھنے کو کہا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا… ''آج یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میری دانش جواب دے گئی ہے۔ مجھے اس طرح بے قابو نہیں ہونا چاہیے لیکن کوئی غیرت کو للکارے تو جذبے بھڑک اٹھتے ہیں۔ جنہیں مطمئن کرنے کے لیے جوان ہونا ضروری ہوتا ہے… لیکن میرے بچو! میں بہت بوڑھا ہوگیا ہوں، مجھ میں اب برداشت کی قوت نہیں رہی تم جو کچھ کرنے کا ارادہ کرو سنبھل کر کرنا''۔
ایک ایک کرکے سات نوجوان جمع ہوگئے اور ان کے فوراً بعد موچی آگیا۔ اس نے بوری اٹھا رکھی تھی جس میں پرانے جوتے اور اوزار تھے۔ اس نے بوری پھینکی اور کمر سیدھی کی۔ وہ ہنس پڑا۔ وہ جب سیدھا کھڑا ہوا تو کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ وہ موچی ہے جو دنیا کی گہما گہمی سے رشتہ توڑے ہوئے راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کرتا رہتا ہے۔ اس وقت جب وہ امام کے گھر میں تھا اور دروازہ بند ہوچکا تھا وہ موچی نہیں برجیس تھا… علی بن سفیان کے محکمہ جاسوسی کے ایک خفیہ شعبے کا تجربہ کار اور نہایت عقل مند جاسوس… اس نے امام سے کہا … ''یہ لڑکے آج ہی ان دونوں لڑکیوں کو صلیبیوں کی قید سے آزاد کرانے پر تلے ہوئے ہیں، اس کام میں صرف پکڑے جانے کا یا ناکامی کا ہی خطرہ نہیں بلکہ یقینی موت کا خطرہ ہے''۔
''ہم یہ خطرہ قبول کرتے ہیں محترم برجیس!''… ایک نوجوان نے کہا… ''آپ اس فن کے استاد ہیں، ہماری رہنمائی کریں''۔
''اگر عقل کی بات سنیں تو میں ایک مشورہ دینا چاہتا ہوں''… برجیس نے کہا … ''صلیبیوں کے پاس بہت سی مسلمان لڑکیاں ہیں، ان میں سے بعض کو انہوں نے بچپن میں قافلوں اور گھروں سے اغوا کیا تھا اور انہیں اپنی تعلیم وتربیت دے کر ہمارے خلاف جاسوسی اور تمہاری کردار کشی کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ تم لوگ ایک ایک لڑکی کو تو آزاد نہیں کراسکتے اگر تم سب میرے فن سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہوتو میں کہوں گا کہ دو لڑکیوں کی خاطر تم جیسے آٹھ جوان قربان کردینا عقل مندی نہیں۔ بربادری اور تحمل ضروری ہے''۔
''میں تحمل کو کس طرح قبول کرسکتا ہوں؟''… عثمان صارم نے بھڑک کر کہا۔
''میری طرح''۔ برجیس نے کہا… ''کیا میں پیشے کا موچی ہوں؟ میں جب مصر میں ہوتا ہوں تو میری سواری کے لیے عربی گھوڑا تیار رہتا ہے اور میرے گھر میں دو ملازم ہیں مگر یہاں تین مہینوں سے راستے میں بیٹھا لوگوں کے غلیظ جوتے مرمت کرتا رہتا ہوں… میں تمہیں دو لڑکیوں کی آزادی کے لیے پورے کرک اور اس سے آگے کے بہت وسیع علاقے کو آزاد کرانے کے لیے زندہ رکھنا چاہتا ہوں، برداشت کرو، انتظار کرو''۔
عثمان صارم اور اس کے ساتوں دوست برداشت کی حدوں سے نکل چکے تھے۔ ان کی باتوں سے پتا چلتا تھا کہ ان میں انتظار کی بھی ہمت نہیں رہ۔ وہ کسی کی رہنمائی کے بغیر ہی اس جگہ پر حملہ کرنے کو تیار تھے جہاں توقع تھی کہ لڑکیاں ہوںگی( ۔ انہوں نے امام کی بھی باتیں سننے سے انکار کردیا۔ آ
ردیا۔ آخر برجیس نے انہیں بتایا کہ اس کے دو جاسوس اس جگہ معمولی ملازم ہیں جہاں صلیبی حکمران رات کو اکٹھے ہوتے ہیں اور شراب پیتے ہیں۔ یہ دونوں جاسوس عیسائیوں کے بھیس میں شوبک کی فتح کے بعد وہاں سے بھاگنے والے عیسائیوں کے ساتھ آئے تھے۔ انہیں یہاں نوکری مل گئی تھی اور وہ کامیاب جاسوسی کررہے تھے۔
''تم سب نے وہ عمارت دیکھی ہے جہاں وہ صلیبی حکمران جو ہماری فوج کے خلاف لڑنے کے لیے برطانیہ، اٹلی، فرانس اور جرمنی وغیرہ سے آئے ہوئے ہیں، رہتے ہیں۔ اس عمارت میں ایک بڑا کمرہ ہے جہاں وہ شام کے بعد اکٹھے ہوتے، شراب پیتے اور ناچتے ہیں۔ ان کی تفریح کے لیے لڑکیاں موجود ہوتی ہیں۔ وہ آدھی رات تک وہاں ادھم مچاتے رہتے ہیں۔ تم نے دیکھا ہے کہ وہ جگہ ذرا بلندی پر ہے جہاں سے پورا شہر نظر آتا ہے۔ وہاں فوج کا پہرہ بھی ہوتا ہے۔ اس عمارت تک پہنچنا ممکن نہیں۔ کوئی عام آدمی بلکہ کوئی خاص شہری بھی اس عمارت کے قریب نہیں جاسکتا۔ میں یہ معلوم کرسکتا ہوں کہ یہ دو لڑکیاں کہاں ہوں گی مگر ان تک رسائی کا طریقہ صرف یہ ہے کہ ہماری فوج باہر سے ابھی حملہ کردے۔ اس صورت میں تمام حکمران اور فوجی حکام اس عمارت سے چلے جائیں گے اور حملہ روکنے میں لگ جائیں گے مگر آج رات حملہ نہیں ہوسکتا۔ یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ صلاح الدین ایوبی کب حملہ کریں گے''۔
''ضرورت حملے کی ہے''۔ امام نے برجیس سے وضاحت چاہی… ''دوسرے لفظوں میں ضرورت یہ ہے کہ اس عمارت میں جو لوگ ہیں وہ وہاں سے چلے جائیں اور لڑکیاں وہیں رہ جائیں۔ اس صورت میں آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے اس عمارت میں داخل ہوکر لڑکیوں کو اٹھا لائیں''۔
''جی ہاں!'' برجیس نے اپنے تجربے کی بناء پر خود اعتمادی سے کہا۔ ''اگر شہر کے اندر کوئی بڑا ہی شدید اور خطرناک قسم کا ہنگامہ ہوجائے، کہیں آگ لگ جائے اور آگ جنگی سازوسامان کو لگے تو شاید حکمران اور دیگر لوگ وہاں سے نکل کر موقع واردات پر چلے جائیں''۔ برجیس گہری سوچ میں کھوگیا۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو باری باری دیکھا اور کچھ دیر بعد کہا… ''ہاں میرے مجاہدو! اگر ایک جگہ آگ لگا سکتے ہو تو لڑکیوں کی رہائی کی صورت پیدا ہوسکتی ہے''۔
''جلدی بتائو محترم!'' … عثمان صارم نے بے صبر ہوکر پوچھا… ''کہاں آگ لگانی ہے، کہو تو سارے شہر کو آگ لگادیں''۔
''تم سب نے وہ جگہ دیکھی ہے جہاں صلیبیوں کی فوج کے گھوڑے بندھے رہتے ہیں؟'' برجیس نے کہا… ''وہاں اس وقت کم وبیش چھ سو گھوڑے ایک جگہ بندھے ہوئے ہیں، باقی مختلف جگہوں پر ہیں۔ ان کے قریب اتنی ہی تعداد میں اونٹوں کی بندھی ہوئی ہے۔ ان سے ذرا ہی پرے گھوڑوں کے خشک گھاس کے پہاڑ کھڑے ہیں۔ اس سے تھوڑا ہٹ کر فوج کے خیموں کے ڈھیر پڑھے ہیں، وہاں گھوڑا گاڑیاں بھی کھڑی ہیں اور ایسا سامان بے شمار پڑا ہے، جسے فوراً آگ لگ سکتی ہے مگر اس کے اردگرد سنتری گھوم پھر رہے ہوتے ہیں وہاں سے رات کے وقت کسی کو گزرنے کی اجازت نہیں۔ اگر تم اس گھاس اور خیموں کے انباروں کو آگ لگا سکو تو میں یقین سے کہتا ہوں کہ صلیبی حکمران ساری دنیا کو بھول کر وہاں پہنچ جائیں گے۔ گھاس، کپڑے اور لکڑی کے شعلے آسمان تک جائیں گے۔ سارے شہر پر خوف طاری ہوجائے گا۔ آگ لگانے کے ساتھ ہی اگر تم زیادہ سے زیادہ گھوڑوں کو کھول دو تو وہ ڈر کر ایسا بھاگیں گے کہ لوگوں کو کچلتے پھریں گے مگر سوچنا یہ ہے کہ آگ کون لگائے گا؟ گھوڑے کون کھولے گا؟ اور آگ لگانے کے لیے وہاں پہنچا کس طرح جائے گا؟''
''فرض کرلو، آگ لگ گئی'' ایک نوجوان نے کہا… ''اس عمارت میں تم میرے بغیر نہیں جاسکو گے وہاں میرے دو ساتھی موجود ہیں۔ وہ مجھے بتا دیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں مگر یہ بھی سوچ لو کہ لڑکیوں کو اٹھا لائیں گے تو انہیں کہیں چھپانا بھی ہوگا اور اس کے بعد کرک کے مسلمانوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ صلیبی یقین ہی نہیں کریں گے کہ یہ مسلمان کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتاہے''۔
''مسلمان پہلے کتنے کچھ آرام میں ہیں؟''… امام نے کہا… ''میں مشورہ دیتا ہوں کہ ہم یہ کام کر گزریں۔ صلیبیوں کو معلوم ہوجانا چاہیے کہ مسلمان کتنا ہی مجبور اور بے بس کیوں نہ ہو وہ غلام نہیں رہ سکتا اور اس کا وار جگر چاک کردیا کرتا ہے''۔
: برجیس تو تھا ہی کمانڈو قسم کا جاسوس، وہ کئی راز معلوم کرکے سلطان ایوبی تک پہنچا چکا تھا لیکن اسے اس قسم کی تخربی کاری کا کوئی موقع نہیں ملا تھا۔ وہ ایسی شدید کارروائی کو ضروری سمجھتا تھا تاکہ صلیبیوں کو معلوم ہوجائے کہ مسلمان کیا کرسکتا ہے۔ اس نے عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو سمجھانا شروع کردیا کہ انہیں کیا کرنا ہے۔ اس سلسلے کی دو کڑیاں بہت نازک تھیں۔ ایک یہ کہ آگ لگانے کے لیے تین چار لڑکیاں جائیں، وہ سنتری سے کسی اعلیٰ فوجی حاکم کا پتہ پوچھیں اور سنتری کو مارڈالیں، برجیس نے لڑکیوں کو بھیجنے کی اس لیے سوچی تھی کہ عورت، خصوصاً نوجوان لڑکی، جو تاثر پیدا کرسکتی ہے، وہ کوئی مرد نہیں کرسکتا۔ مرد شک پیدا کرسکتا ہے۔ دوسرا خطرناک مرحلہ یہ آیا کہ کتنے نوجوان صلیبی حکمرانوں کی عمارت پر حملہ آور ہوں۔ برجیس اور امام نے متفقہ طو رپر کہا کہ زیادہ نہ ہوں۔ یہی آٹھ ہوں تو بہتر ہے کیونکہ زیادہ ہجوم نظر آسکتا ہے اور کسی نہ کسی کے پکڑے جانے کا خطرہ زیادہ ہوگا۔
پھر یہ مسئلہ پیدا ہوا کہ اتنی دلیر لڑکیاں کہاں سے ملیں گی۔ عثمان صارم نے کہا کہ ایک اس کی بہن النور ہوگی، ایک اور نوجوان نے کہا کہ دوسری اس کی بہن ہوگی۔ باقی چھ نوجوانوں میں کسی کی بہن نہیں تھی۔ امید ظاہر کی گئی کہ یہ دو لڑکیاں اپنی اپنی ایک سہیلی کو ساتھ لے لیں گی۔ برجیس نے ان لڑکیوں کو ان کا کام سمجھانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لی۔ سورج غروب ہوگیا تھا۔ امام مسجد ایک طرف چلا گیا، باقی سب ایک ایک کرکے باہر نکلے۔ سب سے آخر میں برجیس باہر نکلا۔ وہ پھر وہی موچی تھا جسے کچھ خبر نہیں تھی کہ اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ وہ جھکا جھکا اس طرح مری ہوئی چال چلا جارہا تھا جیسے ساری دنیا کے رنج وغم کا بوجھ اس کے کندھوں پر گر پڑا ہو۔
٭ ٭ ٭
عثمان صارم اپنے گھر سے ابھی کچھ دور تھا کہ اسے رینی الیگزینڈر مل گئی۔ وہ عثمان کی بہن النور کی گہری سہیلی بنی ہوئی تھی۔ دونوں بہن بھائی چاہتے تھے کہ وہ ان کے گھر نہ آیا کرے لیکن عثمان صارم اسے اچانک گھر آنے سے روک کر کسی شک میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا۔ رینی اس کے ساتھ بے تکلف ہونے کی کوشش کیا کرتی تھی جس سے عثمان کو یہ خیال بھی آتا تھا کہ وہ اس کا کردار خراب کرکے اس کا قومی جذبہ مارنا چاہتی ہے۔ اس شام رینی راستے میں مل گئی۔ اس نے مسکرا کر دیکھا اور رکنا نہ چاہا مگر رینی رک گئی اور اس کا راستہ روک لیا۔ عثمان صارم کو ایسا کوئی ڈر نہیں تھا کہ وہ مسلمان ہے اور ایک عیسائی لڑکی کے ساتھ رازونیاز کی باتیں کرتا پکڑا گیا تو سزا پائے گا۔ وہ جانتا تھا کہ صلیبی اور یہودی انہیں دیکھ کر خوش ہوں گے کہ ان کی ایک لڑکی مشتبہ مسلمان نوجوان کو اپنا گرویدہ بنا رہی ہے۔ وہ بھی رک گیا اور بولا… ''میں ذرا جلدی میں ہوں رینی''۔
''تمہیں کوئی جلدی نہیں عثمان!''… رینی نے دوستانہ لہجے میں کہا… ''کیا تم اتنی آسانی سے مجھ سے پیچھا چھڑا سکو گے؟''۔
''میں تم سے پیچھا چھڑانے کی تو نہیں سوچ رہا''۔
''جھوٹ نہ بولو عثمان!'' رینی نے مسکرا کر کہا… ''میں تمہارے گھر سے آرہی ہوں، تمہاری بہن نے مجھے صاف کہہ دیا ہے کہ یہاں اب کم آیا کرو، عثمان ناراض ہوتا ہے… کیوں عثمان! یہ بات تم نے خود کیوں نہ کہہ دی؟''۔
عثمان صارم کی ذہنی حالت کچھ اور تھی، وہ جلدی میں تھا اور اس کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ وہ ٹالنے کے لیے کوئی موزوں جواب نہ سوچ سکا۔ اس کے منہ سے وہی بات نکل گئی جو اس کے دل میں تھی۔ اس نے کہا… ''رینی! معلوم نہیں میں خود کیوں نہ تمہیں کہہ سکا کہ ہمارے گھر نہ آیا کرو۔ اب سن لو۔ ہماری آپس میں کتنی ہی محبت کیو نہ ہو ہم قومی لحاظ سے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ تم ذاتی محبت کی بات کرو گی مگر میں قومی محبت کا قائل ہوں جو صلیب اور قرآن مجید میں کبھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ یہ میرا وطن ہے۔ تمہاری قوم یہاں کیا کررہی ہے؟… جب تک تمہاری قوم کے آخری آدمی کا بھی وجود یہاں رہے گا ہم ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے… میرے دل میں جو کچھ تھا، وہ تمہیں بتا دیا ہے''۔
''اور میرے دل میں جو کچھ ہے وہ بھی سن لو''۔ رینی نے کہا… ''میرے دل سے تمہاری محبت نہ صلیب نکال سکتی ہے، نہ قرآن مجید۔ میں جب تک تمہیں دیکھ نہ لوں مجھے چین نہیں آتا۔ تمہیں مسکراتا دیکھتی ہوں تو میری روح بھی مسکرا اٹھتی ہے۔ سن لو عثمان ! اگر تم نے مجھے اپنے گھر آنے سے روکا تو ہم دونوں کے لیے اچھا نہیں ہوگا''۔
''تم مجھے دھمکی دے سکتی ہو، تم حکمران قوم کی لڑکی ہونا!'' عثمان صارم نے تحمل سے کہا۔
''اگر میرے دماغ میں حکمرانی کا نشہ ہوتا تو تم یہاں نہ کھڑے ہوتے، قید خانے میں گل سڑ رہے ہوتے''۔ رینی نے کہا… ''تم یہ سمجھے بیٹھے ہو کہ مجھے تمہارے متعلق کچھ معلوم نہیں؟ کہو تو تمہاری زمین دوز کارروائیوں کی تفصیل سنا دوں۔ کہو تو تمہارے گھر سے وہ سارے خنجر، تیروکمان اور آتش گیر مادہ برآمد کرادوں جو
کہو تو تمہارے گھر سے وہ سارے خنجر، تیروکمان اور آتش گیر مادہ برآمد کرادوں جو تم نے اپنے گھر میں میری قوم اور میری حکومت کے خلاف استعمال کرنے کے لیے چھپا رکھا ہے اور جو تمہیں گھر میں رکھنے کی اجازت نہیں۔ النور کو تم تیغ زنی سکھا رہے ہو اور تمہارے ساتھ جو دوست ہمارے خلاف کام کررہے ہیں، ان میں سے کئی ایک کو جانتی ہوں لیکن عثمان! تم نہیں جانتے کہ تمہارے اور قید خانے کے درمیان میرا وجود حائل ہے۔ تم جانتے ہوکہ میرا باپ کون ہے اور وہ کیا نہیں جانتا اور کیا نہیں کرسکتا۔ وہ پانچ مرتبہ گھر میں بتا چکا ہے کہ عثمان کی گرفتاری ضروری ہوگئی ہے۔ میں نے پانچوں مرتبہ باپ سے منت کرکے کہا ہے کہ عثمان کی بہن میری بڑی پیاری سہیلی ہے اور اس کا باپ ایک ٹانگ سے معذور ہے۔ دو تین بار میرے باپ نے مجھے ڈانٹ کر کہا ہے کہ میں تم لوگوں کے ساتھ تعلق توڑ دوں، مجھے یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسلمان اس قابل نہیں کہ ان کے ساتھ ا تنی زیادہ محبت اور مروت کی جائے لیکن میں ماں باپ کی اکیلی اولاد ہوں، وہ مجھے ناراض نہیں کرنا چاہتے''۔
جاری
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں