داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 39 - اردو ناول

Breaking

منگل, اپریل 30, 2019

داستان ایمان فروشوں کی قسط نمبر 39

صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.39۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ناراض نہیں کرنا چاہتے''۔سورج غروب ہوگیا تھا، شام تاریک ہونے لگی تھی۔ عثمان صارم خاموش رہا۔ اس کا ذہن کسی اور طرف تھا۔ وہ کچھ جواب دئیے بغیر چل پڑا۔ ابھی دو ہی قدم اٹھائے تھے کہ رینی نے آگے ہوکر اسے اس طرح روک لیا کہ اس کا سینہ عثمان کے سینے سے لگ گیا۔ رینی نے دونوں ہاتھ اس کے کولہوں پر رکھ دیئے۔ اس کے جسم سے عثمان کو ایسی عطر بیز بو آئی جو مسلمان گھرانوں میں نہیں ہوتی تھی۔ لڑکی اس کے قریب ہوگئی، اتنی قریب کے ان کی سانسیں ٹکرانے لگیں۔ رینی کے ملائم ریشم جیسے بال جب عثمان صارم کے گالوں سے لگے تو وہ یوں تڑپ اٹھا جیسے پھندے سے آزاد ہونے کی کوشش کی ہو۔ رینی نے اسے چھوڑ دیا۔

''مجھے آزاد کردو رینی!''عثمان صارم نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا… ''مجھے پتھر بن جانے دو، میرا راستہ کوئی اور ہے۔ ہم اکھٹے نہیں چل سکیں گے''۔

''محبت قربانی مانگتی ہے''۔ رینی نے نشیلی آواز میں کہا… ''کہو کیا قربانی مانگتے ہو، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم جو جی میں آئے کرو میں تمہیں قید نہیں ہونے دوں گی''۔

''اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں''۔ عثمان صارم نے طنزیہ کہا۔ ''کہ میں تمہیں بتائوں گا ہی نہیں کہ میرے جی میں کیا آئی ہے اور میں کیا کرنے والا ہوں۔ میں تمہارے اس حسین جسم اور ریشمی بالوں کے جادو میں نہیں آئوں گا''۔

''تو پھر مجھے ثابت کرنا پڑے گا کہ میں تمہارے لیے قربانی کرسکتی ہوں''۔ رینی نے کہا… ''جائو عثمان! تم جلدی میں ہو لیکن میں تمہارے گھر آنے سے باز نہیں آئوں گی''۔

عثمان صارم دوڑ پڑا۔ رینی اسے دیکھتی رہی اور آہ بھر کر چلی گئ-

عثمان صارم گھر میں داخل ہوا تو برجیس وہاں پہنچ چکا تھا۔ عثمان اندر چلا گیا اور اپنے باپ، ماں اور النور کو تفصیل سے بتایا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کا ایک قافلہ لوٹا ہے اور دو لڑکیوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں۔ اس نے تمام تر واقعہ سنا کر کہا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان لڑکیوں کو آزاد کرانے جارہا ہے اور اس مہم میں النور کی بھی ضرورت ہے۔ عثمان صارم کے باپ کی ٹانگ صلیبیوں کے خلاف لڑتے ہوئے جوانی میں کٹ گئی تھی اور وہ باقی عمر اس افسوس میں کاٹ رہا تھا کہ وہ جہاد کے قابل نہیں رہا۔ اس نے عثمان سے کہا … ''بیٹا! تم نے اگر اتنے خطرناک کام کا ارادہ کرلیا ہے تو مجھے یہ سننا نہ پڑے کہ تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی ہے۔ اس کام میں پکڑے جانے کا امکان زیادہ ہے اگر تم پکڑے گئے اور تمہارے ساتھی نکل آئے تو جان دے دینا اپنے ساتھیوں کے نام پتے نہ بتانا۔ میں تمہیں صلاح الدین ایوبی کی فوج کے لیے جوان کررہا تھا لیکن تمہاری بہن کی شادی کرکے تمہیں رخصت کرنے کا سوچا تھا۔ جائو اور میری روح کو مطمئن کردو۔ ایک بار پھر سن لو میں کسی سے یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ تمہاری رگوں میں صارم کا خون نہیں تھا''۔

باپ نے بیٹی کو بھی اجازت دے دی، عثمان صارم نے اسے بتایا کہ برجیس ڈیوڑھی میں بیٹھا ہے اور وہ اس مہم کی کمان اور رہنمائی کرے گا۔ باپ ڈیوڑھی میں برجیس کے پاس چلا گیا۔ عثمان نے النور سے کہا کہ وہ فوراً اپنی ایک یا دو ایسی سہیلیوں کو بلا لائے جو اس کام میں شامل ہونے کی جرأت رکھتی ہیں۔ النور اسی وقت باہر نکل گئی اور ذرا سی دیر میں دو سہیلیوں کو بلا لائی۔ اتنے میں عثمان صارم کا ایک ساتھی اپنی بہن کے ساتھ آگیا۔ ایک ایک کرکے ساتوں جوان آگئے۔ برجیس نے لڑکیوں کو بتایا کہ وہ کس راستے کہاں جائیں گی۔ راستے میں انہیں ایک سنتری روکے گا، لڑکیاں اس سے پوچھیں گی کہ اوپر کو کون سا راستہ جاتا ہے۔ وہ کہیں گی کہ شاہ رینالڈ نے انہیں بلایا ہے لیکن وہ غلط راستے پر آگئی ہیں۔ ان میں سے ایک لڑکی نوکرانیوں کے بھیس میں ہوگی جس کے سر پر سامان ہوگا۔ سنتری کو ختم کرنا ہوگا، پھر آگ لگانی ہوگی۔ آگ لگانے والا سامان ''نوکرانی'' کے سر پر ہوگا۔ گھوڑے اس طرح بندھے ہوں گے کہ لمبے لمبے رسوں کے سرے زمین میں دبائے ہوئے ہوں گے اور گھوڑوں کی پچھلی ایک ایک ٹانگ سے زنجیر یا رسی بندھی ہوگی جو رسوں سے گزاری ہوئی ہوگی۔ ان لمبے رسوں کو خنجروں سے کاٹ دینا ہوگا اور چند ایک گھوڑوں کو خنجر بھی مارنے ہوں گے تاکہ وہ منہ زور ہوکر بھاگ اٹھیں۔

برجیس نے لڑکیوں کو فوراً لباس اور حلیہ درست کرنے کو کہا اور ایک کو نوکرانی بنا دیا۔ اس کے منہ اور ہاتھوں پر مٹی اور سیاہی سی مل دی۔ پھر وہ عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا۔ وہ خود اس کے ساتھ جارہا تھا۔ عثمان صارم کے باپ نے بھی انہیں کچھ مشورے دیئے۔ پھر سب کو خنجر دیئے گئے۔ خاصا وقت گزر گیا تھا لیکن برجیس کہہ رہا تھا کہ ابھی شہر جاگ رہا ہے۔ اس جگہ کی رونق اس وقت جاگتی تھی جب شہر سو جاتا تھا۔ تیاریوں میں وقت گزرتا
: تھی جب شہر سو جاتا تھا۔ تیاریوں میں وقت گزرتا رہا اور روانگی کا وقت ہوگیا۔ سب کو اکیلے اکیلے جانا اور ایک طے شدہ مقام پر ملنا تھا۔ لڑکیوں کا راستہ الگ تھا۔ انہیں اندازاً وقت بتا دیا گیا تھا جب انہیں آگ لگانی تھی۔ اس وقت برجیس کی جماعت کو حملے کے مقام پر ہونا چاہیے… یہ بے حد نازک اور خطرناک مہم تھی جس میں وقت کی غلطی اور کسی کی کوئی بے احتیاطی سب کو ایسے قید خانے میں ڈال سکتی تھی جو جہنم سے کم نہیں تھا۔ سب سے زیادہ خطرہ لڑکیوں کا تھا کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں۔ تصور کیا جاسکتا تھا کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں ان کا کیا حشر ہوگا۔ النور نے کہا کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہوا تو لڑکیاں اپنے خنجروں سے خودکشی کرلیں گی۔ وہ کفار کے ہاتھ زندہ نہیں آئیں گی۔

شہر پر خاموشی طاری ہوتے ہوتے سارا شہر خاموش ہوگیا۔ کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آتی تھی۔ صرف ایک جگہ تھی جہاں رات کے سکوت کا ذرہ بھر اثر نہیں تھا۔ یہ وہ عمارت تھی جہاں صلیبیوں کی متحدہ کمان کا ہیڈکوارٹر تھا۔ وہیں صلیبی حکمرانوں اور اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش بھی تھی۔ یہ لوگ اس ہال میں ایک ایک کر کے آچکے تھے، جہاں وہ ہر رات شراب نوشی اور رقص کی محفل جمایا کرتے تھے۔ اس رات ان کا موضوع دو نئی مسلمان لڑکیاں اور مال واسباب تھا جو قافلے سے لوٹا گیا تھا… کسی نے پوچھا کہ یہ لڑکیاں کسی اور کام بھی آسکتی ہیں؟ اس کا جواب ایک فوجی کمانڈر نے یہ دیا کہ لڑکیاں بالغ ذہن کی ہیں، اس لیے انہیں جاسوسی وغیرہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ ایک کی عمر سولہ سترہ سال ہے اور دوسری بائیس تئیس سال۔ کچھ عرصہ تفریح کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔

''اس کے بعد انہیں اپنے دو فوجی افسروں کے حوالے کردینا''… ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا… ''وہ ان کے ساتھ شادی کرلیں گے''۔

یہ لڑکیاں ان کے ہنسی مذاق اور غلیظ باتوں کا موضع بنی رہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہے۔ اس وقت لڑکیاں دو الگ الگ کمروں میں تھیں، وہ رو رو کر بے حال ہورہی تھیں۔ دونوں کے ساتھ ایک ایک خادمہ تھی، یہ ادھیڑ عمر عورتیں بڑی خرانٹ اور اس فن کی ماہر تھیں۔ وہ لڑکیوں کو نہلا چکی تھیں اور انہیں رات کا لباس پہنا رہی تھیں۔ لڑکیوں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا، ان کے آگے ایسے ایسے کھانے رکھے گئے تھے جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے لیکن انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔ دونوں کو ایک دوسرے کے متعلق معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے۔ دونوں عورتیں انہیں بڑے ہی حسین سبز باغ دکھا رہی تھیں۔ ایک کو بتایا جارہا تھا کہ اسے فرانس کے بادشاہ نے پسند کیا ہے جو اسے زرد جواہرات سے لاد دے گا۔ دوسری کو جرمن کے بادشاہ کی ملکہ بننے کے خواب دکھائے جارہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی انہیں بڑے پیار سے دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں کہ انہوں نے اگر ان بادشاہوں کو ناراض کیا تو وہ انہیں فوجی سپاہیوں کے حوالے کردیں گے۔

یہ لڑکیاں صحرائی دیہات کی رہنے والی تھیں، کوئی ایسی بزدل بھی نہیں لیکن بے بس ہوگئی تھیں۔ اپنے تحفظ میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں۔ ان کے ماں باپ اور بڑے بھائی نے ان کی عصمت کی خاطر صلیبی استبداد کے علاقے سے ہجرت کی تھی مگر صلیبیوں کے پھندے میں آگئے۔ لڑکیاں پکڑی گئیں۔ ماں باپ مارے گئے اور بھائی قید ہوگیا۔ خدا کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا۔ وہ قید سے نکل بھاگنے کے بھی قابل نہیں تھیں۔ وہ روتی تھیں تو صرف خدا کو یاد کرتی اور خدا کو ہی مدد کے لیے پکارتی تھیں۔ اپنی عزت کے علاوہ اپنے بھائی آفاق کے لیے وہ بہت پریشان تھیں۔ اس وقت آفاق بیگار کیمپ میں تڑپ رہا تھا۔ وہ زخمی تھا اور اسے پیٹا بھی بہت گیا تھا۔ پہلے کے قیدی شام کے وقت روز مرہ کی مشقت سے آئے تھے۔ انہوں نے ان نئے قیدیوں کو دیکھا ان کی بپتا سنی۔ ان میں صرف آفاق زخمی تھا۔ کسی نے اس کی مرہم پٹی نہیں کی تھی۔ تین چار قیدیوں نے مرہم اور کچھ دیسی دوائیاں چھپا کرکھی ہوئی تھی۔ رات کو انہوں نے آفاق کے زخم صاف کیے اور مرہم بھر کر اوپر کپڑے باندھ دئیے۔

آفاق کو اپنے زخموں کا درد محسوس نہیں ہورہا تھا۔ اس کا دھیان اپنی بہنوں کی طرف تھا۔ قیدیوں سے وہ پوچھتا تھا کہ اس کی بہنیں کہاں ہوں گی اور ان کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہوگا۔ اسے بتایا گیا کہ اس قید خانے کی کوئی دیوار نہیں اور انہیں بیڑیاں بھی نہیں ڈالی گئیں، پھر بھی وہ یہاں سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ سنتری گھوم پھر رہے ہیں اور اگر وہ یہاں سے نکل بھی جائے تو جائے گا کہاں، کہیں نہ کہیں پکڑا جائے گا۔ اس کی سزا اتنی اذیت ناک موت ہوگی جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں کئی کئی سالوں سے قیدی پڑے ہیں جو کرک ہی کے رہنے والے ہیں لیکن بھاگنے کی جرأت نہیں کرتے۔ وہ جانتے ہیں کہ وہ پکڑے نہ گئے تو صلیبی ان کے پورے خاندان کو قید میں ڈال دیں گے۔ ان تمام مجبوریو
: ن تمام مجبوریوں اور خطروں کے باوجود آفاق فرار اور بہنوں کو رہا کرانے کی سوچ رہا تھا۔ اس کا جسم چلنے کے بھی قابل نہیں تھا۔ قیدی دن بھر کے تھکے ماندے بے ہوشی کی نیند سوگئے اور آفاق جاگ رہا تھا۔

٭ ٭ ٭

''لڑکیاں پکڑی نہ گئی ہوں''۔ عثمان صارم نے سرگوشی میں کہا۔

''خدا کو یاد کرو عثمان!'' برجیس نے کہا… ''ہم اس وقت موت کے منہ میں ہیں۔ دل سے تمام خوف نکال دو اور خدا کو دل میں بٹھا لو… تمہیں دوسرے لڑکوں پر بھروسہ ہے؟''۔

''پورا بھروسہ''۔ عثمان نے کہا… ''ان کی فکر نہ کرو۔ مجھے لڑکیوں کی فکر ہے''۔

''خدا کو یاد کرو''۔ برجیس نے کہا… ''ہم چوری کرنے نہیں آئے، اللہ مدد کرے گا''۔

اس وقت عثمان صارم اور برجیس گھر میں نہیں تھے۔ وہ اس عمارت سے جس میں مغویہ لڑکیاں تھیں، اتنی دور جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے جہاں سے عمارت انہیں اپنے سر پر کھڑی نظر آرہی تھی۔ ان کے سات ساتھی ان سے تھوڑی ہی دور بکھر کر انہی کی طرح چھپے ہوئے تھے۔ برجیس نے انہیں اچھی طرح بتا دیا تھا کہ کون سے اشارے پر انہیں کیا کرنا ہے۔ عثمان صارم کو ان چار لڑکیوں کا غم تھا جو فوجی سامان اور گھاس کو آگ لگانے کے لیے لے گئی تھیں۔ ان میں اس کی اپنی بہن النور بھی تھی۔ اس وقت تک آگ لگ جانی چاہیے تھی۔ توقع یہ تھی کہ اگر سکیم کامیاب رہی تو آگ کے شعلے اٹھیں گے، پھیلیں گے۔ اس عمارت سے تمام کمانڈر وغیرہ آگ کی طرف بھاگیں گے جو ایک قدرتی ردعمل تھا کیونکہ فوجی سامان کو آگ لگنے کی صورت میں وہ اپنی محفل عیش وطرب میں مگن نہیں رہ سکتے تھے۔ ان کے جاتے ہی ان نوجوانوں کو عمارت پر ٹوٹ پڑنا تھا مگر لڑکیوں کو گئے بہت وقت ہوگیا تھا۔ شاید سنتری نے انہیں روک کر واپس بھیج دیا ہوگا۔

لڑکیاں ابھی سنتری تک ہی نہیں پہنچی تھی کیونکہ وہاں سنتری تھا ہی نہیں۔ سنتری کا نہ ہونا خطرہ تھا کیونکہ زندہ رہنے کی صورت میں وہ انہیں آگ لگاتے پکڑ سکتا تھا۔ لڑکیوں نے سنتری کو ڈھونڈنا شروع کردیا۔ وہ خشک گھاس کے پہاڑوں جیسے ڈھیروں کے پاس سے گزر رہی تھیں۔ اندھیرے میں انہیں خیموں کے انبار نظر نہیں آرہے تھے۔ وہ اکٹھی جارہی تھیں۔ انہیں ایک جگہ ڈنڈے سے بندھی ہوئی مشعل کا شعلہ نظر آیا۔ وہ ادھر چلی گئیں۔ سنتری سامنے آگیا۔ مشعل کا ڈنڈا زمین میں گڑھا ہوا تھا۔ سنتری نے مشعل اٹھالی اور لڑکیوں کے قریب آکر انہیں روکا۔ وہ لڑکیوں کا بھڑکیلا لباس اور سج دھج دیکھ کر مرعوب ہوگیا۔ ان کے ساتھ ایک نوکرانی تھی جس نے سر پر گٹھڑی سی اٹھا رکھی تھی۔ سنتری نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہی ہیں۔

''معلوم ہوتا ہے ہم غلط راستے پر آگئی ہیں''۔ النور نے بڑی شوخ ہنسی سے کہا… ''شاہ رینالڈ کا دعوت نامہ آیا تھا۔ ہم نے رات کو آنے کا وعدہ کیا تھا۔ ذرا دیر ہوگئی تو کسی نے بتایا کہ یہ راستہ چھوٹا ہے۔ یہاں تو آگے معلوم ہوتا ہے کہ گھوڑے وغیرہ بندھے ہوئے ہیں، ہم کدھر جائیں؟''

ایک معمولی سے سنتری پر رعب طاری کرنے کے لیے شاہ رینالڈ کا نام ہی کافی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ صلیبی بادشاہ کس قماش کے لوگ ہیں۔ رینالڈ نے ان لڑکیوں کو عیش وعشرت اور ناچ گانے کے لیے بلایا ہوگا۔ لڑکیوں کے لباس، عمریں اور ان کی شکل وصورت اور النور کے بات کرنے کا نڈر اور کھلنڈر سا انداز بتا رہا تھا کہ یہ اس کے اعلیٰ حکام کے مطلب کی لڑکیاں ہیں۔ اس نے انہیں راستہ بتانا شروع کردیا۔ ایک لڑکی اس کے پیچھے ہوگئی اور اتنی زور سے خنجر اس کی پیٹھ میں گھونپا کہ دل کو چیرتا آگے نکل گیا۔ اس کے ہاتھ سے مشعل گر پڑی۔ النور نے مشعل پر دونوں پائوں رکھ کر اس کا شعلہ بجھا دیا۔ باقی لڑکیوں نے بھی سنتری کے جسم میں اپنا خنجر داخل کردیا۔ سنتری کی آوازبھی نہ نکلی۔ برجیس نے انہیں بتایا تھا کہ گھاس کو آگ لگے گی تو اس کی روشنی میں انہیں خیموں کے ڈھیر اور گاڑیاں نظر آجائیں گی۔ گھاس کے پہاڑ تو انہیں اندھیرے میں بھی نظر آرہے تھے جو لڑکی نوکرانی بنی ہوئی تھی، اس نے جلدی سے سر سے گٹھڑی اتاری۔ اس میں آتش گیر مادہ اور آگ لگانے کا سامان تھا۔

انہوں نے گھاس کے ایک ڈھیر کو آگ لگا دی۔ پھر دوسرے اور تیسرے کو اور ذرا سی دیر میں تمام ڈھیروں کو آگ لگ گئی۔ اب خطرہ بڑھ گیا تھا کیونکہ روشنی ہوگئی تھی۔ تھوڑی دور انہیں لپٹے ہوئے خیموں کے ڈھیر نظر  یہ کپڑا تھا۔ اسے آگ لگانا مشکل نہ تھا۔ خیمے بھی جلنے لگے۔ خالی گھوڑا گاڑیں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی تھیں۔ لڑکیوں میں غیرمعمولی پھرتی آگئی تھی۔ انہوں نے تین چار گاڑیوں پر آتش گیر مادہ پھینکا اور آگ لگا دی۔ اتنی دیر میں گھاس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے۔ لڑکیاں گھوڑوں کی طرف بھاگیں۔ ابھی تک کوئی بیدار نہیں ہوا تھا۔ لڑکیوں نے خنجروں سے وہ لمبے لمبے رسے کاٹ دیئے ج
: لگا دی۔ اتنی دیر میں گھاس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے۔ لڑکیاں گھوڑوں کی طرف بھاگیں۔ ابھی تک کوئی بیدار نہیں ہوا تھا۔ لڑکیوں نے خنجروں سے وہ لمبے لمبے رسے کاٹ دیئے جن کے سرے زمین میں دبے ہوئے تھے اور ہر رسے کے ساتھ چالیس سے پچاس گھوڑے بندھے ہوئے تھے۔ لڑکیوں نے چند ایک گھوڑوں کو خنجر مارے۔ وہ بدک کر اور شعلوں کے ڈر سے ہیبت ناک آوازسے ہنہنانے لگے اور اندھا دھند بھاگنے لگے۔ جو گھوڑے کھل نہ سکے، انہوں نے اودھم بپا کردیا۔ معلوم نہیں کتنے گھوڑے کھل کر ادھر ادھر دوڑنے اور ہنہنانے لگے۔ اونٹ کھلے تھے اور آرام سے بیٹھے تھے۔ وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اندھا دھند بھاگنے لگے۔

چاروں لڑکیاں بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں کے نرغے میں آگئیں۔ دوسری طرف شعلے تھے جن کی تپش دور سے بھی جسموں کو جلاتی تھی اور جانوروں کے اس قدر زیادہ شوروغل اور دھماکوں جیسے ٹاپوئوں سے فوج بیدار ہوگئی۔

مغویہ لڑکیوں کو دلہنیں بنا دیا گیا تھا، دونوں کے کمروں میں بیک وقت ایک ایک آدمی داخل ہوا۔ یہ صلیبیوں کے جنگجو حکمران تھے۔ وہ شراب میں بدمست تھے، خادمائیں باہر نکل گئیں، لڑکیاں کمروں میں بھاگ دوڑ کر پناہیں ڈھونڈنے لگیں۔ ان کی عصمت کا پاسبان خدا کے سوا کوئی نہ تھا۔ ایک لڑکی دوزانو گر پڑی اور ہاتھ جوڑ کر رو کر خدا کو مدد کے لیے پکارا۔ صلیبی نے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف بڑھا… باہر اسے شوروغل سنائی دیا۔ یہ غیرمعمولی شور تھا۔ اس نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ایسے لگا جیسے پورے شہر کو آگ لگ گئی ہو۔ گھوڑوں اور اونٹوں کی خوف زدگی کا یہ عالم کہ کچھ گھوڑے اس بلندی پر بھی چڑھ آئے جس پر یہ عمارت تھی۔ اس کا نشہ فوراً اتر گیا۔ دوسرا بھی باہر نکل آیا۔ دو تین آدمی دوڑتے آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا کہ گھاس، خیموں اور گاڑیوں کو آگ لگ گئی ہے۔ دوڑتے ہوئے جانوروں نے کئی آدمیوں کو کچل دیا ہے۔

اگر آگ شہر کو لگتی تو یہ حکام پروانہ کرتے، وہاں فوج کا سامان جل رہا تھا اور فوج کے سینکڑوں جانور کھل گئے تھے۔ ذرا سی دیر میں تمام حکمران اور کمانڈر اور وہاں جو کوئی بھی تھا دوڑتے نکل گئے۔ وہ اپنی نگرانی میں آگ بجھانے کا بندوبست کرنا چاہتے تھے۔ اس عمارت کے اردگرد جو مسلح پہرہ تھا وہ بھی وہاں سے ہٹ گیا۔ باڈی گارڈز بھی اپنے حکام کے پیچھے دوڑتے گئے۔ برجیس نے بلند آواز سے پکارا… ''تم بھی چلو''… اور وہ عمارت کی طرف اٹھ دوڑا۔ اس کے آٹھ جوان بھی دوڑ پڑے۔ ان کے ہاتھو ں میں خنجر تھے۔ عمارت کے برآمدوں میں جاکر اس نے اپنے ان دو ساتھیوں کو پکارنا شروع کردیا جو وہاں عیسائیوں کے بھیس میں ملازم تھے۔ ان میں سے ایک مل گیا۔ اس نے برجیس کو پہچان لیا۔ برجیس نے اس سے پوچھا کہ آج جو لڑکیاں یہاں لائی گئی ہیں۔ وہ کہاں ہیں۔ اسے معلوم نہیں تھا۔ اس نے کمرے دکھا دئیے اور خود بھی ساتھ ہولیا۔ وہاں اب سہولت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ کوئی ذمہ دار آدمی موجود نہ تھا۔ پیچھے نوکر چاکررہ گئے تھے جو آگے جاکر بلندی سے آگ کا تماشہ دیکھ رہے تھے۔ برجیس کی سکیم پوری طرح کامیاب تھی۔

وہ ملازم کی رہنمائی میں ان کمروں میں جانے لگے جہاں لڑکیاں ہوتی تھیں، وہاں برآمدوں میں کچھ لڑکیاں کھڑی تھی۔ ان میں بعض نیم برہنہ تھیں، ان سے پوچھا گیا کہ آج جو لڑکیاں آئی ہیں وہ کہاں ہیں؟ انہیں بھی معلوم نہ تھا۔ آخر ایک کمرے میں گئے تو ایک لڑکی مل گئی۔ وہ کمرے میں دبکی ہوئی تھی۔ عثمان صارم اور اس کے بعض ساتھیوں نے اسے دن کے وقت دیکھا تھا۔ جب ان دونوں کو لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ لے جایا جارہا تھا۔ برجیس کی پارٹی کے تمام آدمی نقاب پوش تھے۔ انہیں دیکھ کر لڑکی نے چیخ ماری۔ برجیس نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور اسے رہا کرانے آئے ہیں۔ مگر وہ لڑکی اتنی ڈری ہوئی تھی کہ ان کے ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ انہوں نے اسے زبردستی اٹھا لیا۔ دوسرے کمرے میں اس کی بہن مل گئی اس کا ردعمل بھی یہی تھا۔ اسے بھی زبردستی اٹھایا گیا۔ دوسری لڑکیاں جو ایک عرصے سے صلیبیوں کے پاس تھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں۔ وہ آدمیوں کو ڈاکو سمجھ کر ادھر ادھر بھاگ گئیں۔ مغویہ بہنیں چیخ وپکار کررہی تھیں۔ انہیں برجیس نے غصے سے کہا کہ وہ سب مسلمان ہیں انہیں مسلمان گھرانوں میں لے جاکر چھپائیں گے۔ بڑی ہی مشکل سے انہیں خاموش کیا گیا اور جانبازوں کی یہ جماعت وہاں سے نکل گئی۔

٭ ٭ ٭
آگ کا منظر بے حد خوفناک تھا، شعلے توقع سے کہیں زیادہ اونچے جارہے تھے اور دوردور تک پھیل گئے اور پھیلتے ہی چلے جارہے تھے۔ گھوڑوں اور اونٹوں نے سارے شہر میں قیامت بپا کرکھی تھی۔ سارا شہر جاگ اٹھا تھا۔ گلیوں میں، سڑکوں پر اور میدانوں میں ان جانوروں نے اس قدر دہشت گردی پھیلا دی تھی کہ لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور آگ نے جو دہشت پھیلائی تھی، اس سے بعض لوگ گھروں سے بھاگنے کی تیاریاں کرنے لگے تھے۔ افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ سلطان ایوبی کے جاسوس بھی
 سلطان ایوبی کے جاسوس بھی وہاں موجود تھے۔ وہ عقلمند اور موقع شناس تھے۔ انہوں نے آگ، بھاگتے دوڑتے جانور اور افراتفری دیکھی تو یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ معاملہ کیا ہے، یہ مشہور کردیا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئی ہیں اور شہرکو آگ لگا رہی ہیں۔ یہ افواہ مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا تھی۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے ہوش اڑ گئے۔ یہ افواہ آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی۔ غیرمسلموں نے بھاگنا شروع کردیا۔

صلیبی حکمران اور اعلیٰ حکام آگے کی جگہ پہنچے تو وہاں کوئی انسان نہیں تھا۔ انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ مسلمانوں کی فوج قلعے میں کہیں نقب لگا کر اندر آگئی ہے۔ انہوں نے فوج کو قلعے کے دفاع کے لیے جنگی ترتیب میں فوراً چلے جانے کا حکم دیا اور اسی فوج کے کچھ حصے کو قلعے کے باہر جانے کو کہا۔ دو تین کمانڈر دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھے اور باہر دیکھا۔ باہر خاموشی تھی۔ کسی طرف سے حملہ نہیں ہوا تھا۔ قلعے کا عقبی دروازہ کھول دیا گیا تاکہ فوج باہر جاسکے۔ رات کے وقت قلعے کا دروازہ نہیںکھولا جاتا تھا لیکن اس خیال سے دروازہ کھول دیاگیا کہ سلطان ایوبی کا کوئی جانباز دستہ اندر آگیا ہے جس نے بھگدڑ مچا دی ہے۔ یہ باہر کے حملے کا پیش خیمہ ہے، فوج آرہی ہوگی۔ اس فوج کو شہر سے دور روکنے کے لیے صلیبیوں نے رات کو ہی فوج باہر بھیج دی اور دروازہ کھولنے کا خطرہ مول لے لیا۔ یہ فیصلہ دراصل گھبراہٹ میں کیا گیا تھا اور یہ ایک غلط فیصلہ تھا۔ بعض غیرمسلموں نے جو عقب دروازے کے قریب تھے، دیکھ لیا کہ وہ دروازہ کھل گیا ہے۔ وہ اندھا دھند دروازے کی طرف بھاگے۔ انہیں دیکھ کر دوسرے شہری بھی ان کے پیچھے گئے۔ وہاں سے فوج گزر رہی تھی۔ شہریوں کا سیلاب آگیا جسے کوئی نہ روک سکا۔

آگ پھیلتی جارہی تھی، گھوڑا گاڑیوں کے قریب ہی رسد کی بوریوں کے انبار تھے۔ بہت سا دیگر اقسام کا سامان بھی پڑا تھا۔ آگ پر قابو پانا ضروری تھا۔ شہری گھروںمیں چھپ گئے تھے یا بھاگ رہے تھے۔ یہ کام فوج کرسکتی تھی۔ فوج کی کچھ نفری کو بلا لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کسی کو ان مسلمان قیدیوں کا خیال آگیا جو بیگار کیمپ میں پڑے ہوئے تھے۔ فوراً حکم دیا گیا کہ قیدیوں کو اس اعلان کے ساتھ لے آئو کہ وہ آگ پر قابو پالیں تو انہیں صبح کے وقت رہا کردیا جائے گا۔ قیدی باہر کے شور سے جاگ اٹھے تھے اور سنتری انہیں ڈنڈے مار مار کر سوجانے کو کہہ رہے تھے۔ اتنے میں حکم آگیا کہ قیدیوں کو پانی لانے اور آگ پر پھینکنے کے لیے لے چلو۔ رہاں کا اعلان بھی کیا گیا، ان میں آفاق بھی تھا۔ اس کا جسم ٹھنڈا ہوکر اور زیادہ دکھنے لگا تھا۔ اس نے ایک قیدی سے کہا… ''صلیبیوں کی ساری سلطنت جل جائے میں آگ بجھانے نہیں جائوں گا''۔

''پاگل نہ بنو''… ایک قیدی نے اسے کہا… ''ان لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ آگ بجھائو اور کل رہا ہوجائو لیکن یہ دھوکہ ہے۔ یہ کافر جھوٹ بولتے ہیں، تم ہمارے ساتھ چلو اور بھاگ نکلو۔ ہم نہیں بھاگ سکتے کیوکنکہ یہ لوگ ہمارے گھروں سے واقف ہیں، تم نکل جانا''۔

''جائوں گا کہاں''۔

قیدی نے اسے اپنے گھر کا پتہ بتا کر کہا… ''میں کوشش کروں گا کہ موقع محل دیکھ کر تمہیں اپنے گھر پہنچا دوں لیکن وہاں زیادہ دن نہ رکنا کیونکہ صلیبی میرے سارے کنبے کو سزا دیں گے''۔

قیدیوں کو صلیبی لے گئے اور انہیں تقسیم کرکے مختلف کنوئوں پر لے جایا گیا۔ فوجی پانی نکال رہے تھے، قیدیوں نے مشکیزے اٹھانے شروع کردیئے۔ وہ دوڑ دوڑ کر جاتے اور آگ پر پانی پھینکتے تھے۔ ایک دو چکروں میں سنتری ان کے ساتھ رہے مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ قیدی اور فوجی گڈ مڈ ہوگئے۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ صلیبی کمانڈر گھبراہٹ میں سب کو گالیاں دے رہے تھے۔ اتنے میں گھوڑوں کا ڈرا ہوا ریوڑ دوڑتا ہوا آیا۔ آگ بجھانے والے قیدی اور فوجی ان کی زد میں آگئے۔ سب ادھر ادھر بھاگ اٹھے۔ بعض کچلے بھی گئے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آفاق کو وہ پرانا قیدی اپنے ساتھ لے گیا۔ مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا۔ وہ خوش تھے کہ مسلمان فوج آگئی ہے۔ قیدی اپنے گھر میں د اخل ہوا۔ اس کا سارا خاندان جاگ رہا تھا۔ اسے دیکھ کر سب بہت مسرور ہوئے لیکن اس نے آفاق کو ان کے حوالے کرکے کہا… ''اسے چھپالو اور جلدی شہر سے نکال دینا۔ میں نہیں رک سکتا۔ صلیبیوں نے کل رہائی کا وعدہ کیا ہے۔ اسے ابھی کوئی نہیں جانتا، اگر میں یہاں رک گیا تو شاید کبھی بھی رہائی نہیں ملے گی''۔
: ''کیا یہ سچ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج اندر آگئی ہے؟''… قیدی کے باپ نے پوچھا۔

''کچھ پتا نہیں''… قیدی نے جواب دیا… ''آگ بہت زور کی ہے، معلوم نہیں کب بجھے گی''۔

''اگر ہماری فوج نہیں آئی تو پھر ہم یہ خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں؟''… قیدی کے باپ نے کہا۔

''یہ آدمی خود ہی نکل جائے گا''… قیدی نے کہا… ''یہ کل یہاں سے نکل جائے گا''۔

''اس کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں''… قیدی کے باپ نے کہا… ''ابھی ابھی تمہارا چھوٹا بھائی دو مسلمان لڑکیوں کو لایا ہے۔ انہیں اس نے اور صارم کے بیٹے عثمان نے اور ان کے دوستوں نے صلیبیوں کے شاہی خانے سے اغوا کیا ہے۔ دونوں کو ہم نے گھر میں چھپا لیا ہے''۔

''کون ہے وہ لڑکیاں؟ ''… قیدی نے پوچھا۔

''کہتے ہیں انہیں کل ایک قافلے سے صلیبیوں نے اغوا کیا تھا''… باپ نے جواب دیا… ''ان کا بھائی سنا ہے، قید میں ہے''۔

آفاق نے تڑپ کر پوچھا… ''کہاں ہیں وہ لڑکیاں؟''

ذرا سی دیر میں آفاق اپنی بہنوں کو گلے لگا رہا تھا، خدا نے ان کی فریادیں سن لی تھیں، یہ بڑا ہی جذباتی منظر تھا۔ ان کے ماں باپ مارے گئے تھے۔ وہ لٹ گئے تھے۔ انہیں ایسی معجزہ نما ملاقات کی توقع نہیں تھی… جس قیدی کا یہ گھر تھا، وہ دوڑ کر باہر نکل گیا۔ وہ قید سے بھاگنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا چھوٹا بھائی، برجیس اور عثمان صارم کے ساتھ تھا۔ وہ لڑکیوں کو گھر چھوڑ کر کہیں چلا گیا تھا۔

وہ اچانک آگیا، اس نے لڑکیوں سے کہا… ''فوراً اٹھو شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا ہے''… آفاق کے متعلق اسے بتایا گیا کہ ان لڑکیوں کا بھائی ہے اور قید سے فرار ہوکر آیا ہے۔ اس نے آفاق کو بھی اپنے ساتھ لیا اور باہر لے گیا۔ باہر تین گھوڑے تھے۔ یہ برجیس کا انتظام تھا۔ اس نے دونوں بہنوں کو گھوڑوں پر سوار کیا اور جب تیسرے گھوڑے پر خود سوار ہونے لگا تو اسے آفاق کے متعلق بتایا گیا۔ اس نے آفاق کو تیسرے گھوڑے پر سوار کیا اور خود چل پڑا اس نے اتنا ہی کہا… ''خدا حافظ دوستو! زندہ رہے تو پھر ملیں گے''… اور وہ دوڑ پڑا۔ وہ شہر کے عقبی دروازے کی طرف جارہا تھا، جہاں سے ڈرے ہوئے شہریوں کا جلوس باہر کو بھاگا جارہا تھا۔ یہ دروازہ برجیس نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا۔ شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا تھا۔ اس نے کہیں سے تین گھوڑے پکڑے اور لے آیا۔ کسی صلیبی کمانڈر نے دیکھ لیا کہ شہری تو بھاگ رہے ہیں اس نے ذروازہ بند کرنے کا حکم دے دیا۔ برجیس جب وہاں پہنچا تو دروازہ آہستہ آہستہ بند ہورہا تھا اور شہریوں کا ایک ہجوم دروازے میں پھنس گیا تھا۔ ایک واویلا بپا تھا، برجیس نے چلانا شروع کردیا… ''پیچھے سے فوج آرہی ہے، دروازہ کھول دو، بھاگو۔ مسلمان آرہے ہیں''۔ ہجوم نے آگے کو زور لگایا تو بند ہوتے ہوتے دروازہ کھل گیا۔ انسان رکے ہوئے دریا کی طرح بند توڑ کر نکل گئے۔

باہر نکل کر برجیس نے آفاق سے کہا کہ کسی ایک بہن کے پیچھے سوار ہوجائو اگر میں تمہارے ساتھ سوار ہوا تو ایک گھوڑے پر دو مردوں کا وزن زیادہ ہوجائے گا۔ ہمارا سفر لمبا ہے۔ آفاق ایک بہن کے پیچھے سوار ہوگیا۔ دوسری سے اس نے کہا کہ وہ سواری سے ڈرے نہیں، گھوڑا اسے گرائے گا نہیں۔ انہوں نے گھوڑے دوڑادئیے۔ برجیس کو معلوم تھا کہ راستے میں صلیبی فوج خیمہ زن ہے، اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کون سی جگہ فوج نہیں ہے۔ وہ اس سمت ہولیا۔ کرک کے بھاگے ہوئے لوگ ادھر ادھر بکھرتے جارہے تھے۔ شعلوں کی روشنی دور دور تک جارہی تھی۔ آفاق اور لڑکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کس طرح رہا کرایا گیا ہے۔ برجیس خاموش تھا۔ وہ اگر بولتا تو صرف اتنا کہ آفاق سے اس کی خیریت پوچھتا تھا اور اس کی جو بہن گھوڑے پر اکیلی سوار تھی اس سے پوچھ لیتا تھا کہ وہ ڈر تو نہیں رہی۔ کرک کے شعلے پیچھے ہٹتے جارہے تھے اور رات گھوڑوں کی رفتار کے ساتھ گزرتی جارہی تھی۔

٭ ٭ ٭

صبح طلوع ہوئی تو برجیس سلطان ایوبی کی فوج کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا، اس نے ایک کمان دار سے اپنا تعارف کرایا اور سلطان ایوبی کے متعلق پوچھا کہ کہاں ہوگا۔ کمان دار اسے اپنے دستوں کے کمان دار کے پاس لے گیا، جس نے اسے بتا دیا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوسکتا ہے۔ برجیس اپنی اس کامیابی پر بے حد خوش تھا۔ اس نے صرف لڑکیوں کو صلیبیوں سے آزاد نہیں کرایا تھا بلکہ کرک میں آتش زنی جیسی تخریبی کارروائی کرکے صلیبی فوج کے غیرمسلم شہریوں کو جذبے پر خوف طار ی کرآیا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کو یہ مشورہ دینا چاہتا تھا کہ کرک پر فوراً حملہ کردیا جائے۔

کرک کی صبح بڑی بھیانک تھی۔ شعلوں کی بلندی اورتندی ختم ہوگئی تھی لیکن ا گ ابھی تک سلگ رہی تھی۔ صلیبی فوج کی رسد اور جانوروں کا تمام تر خشک چارہ جل گیا تھا۔ خیموں کے علاوہ بے شمار جنگی سامان نذر آتش ہوگیاتھا۔ کچھ اونٹ زندہ جل گئے تھے۔ تمام گھوڑے اور اونٹ رات بھر دوڑ دوڑ کر تھک گئے اور اب سارے شہر میں آوارہ پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں جو بے لگام
 کرک کی صبح بڑی بھیانک تھی۔ شعلوں کی بلندی اورتندی ختم ہوگئی تھی لیکن ا گ ابھی تک سلگ رہی تھی۔ صلیبی فوج کی رسد اور جانوروں کا تمام تر خشک چارہ جل گیا تھا۔ خیموں کے علاوہ بے شمار جنگی سامان نذر آتش ہوگیاتھا۔ کچھ اونٹ زندہ جل گئے تھے۔ تمام گھوڑے اور اونٹ رات بھر دوڑ دوڑ کر تھک گئے اور اب سارے شہر میں آوارہ پھر رہے تھے۔ جگہ جگہ ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں جو بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں کی زد میں آکر کچلے گئے تھے۔ فوجی اور قیدی ابھی تک کنوئوں سے پانی لالا کر آگ پر پھینک رہے تھے۔ صلیبی حکام ابھی تک یہ سمجھ رہے تھے کہ سلطان ایوبی کی فوج اندر آگئی ہے لیکن وہاں ایسے کوئی آثار نہیں تھے۔ انہوں نے قلعے کی دیواروں پر جاکر ہر طرف دیکھا۔ باہر صلیبیوں کی اپنی فوج قلعے کے اردگرد موجود تھی۔ اسلامی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا۔ اب یہ تفتیش کرنی تھی کہ آگ کس طرح لگی۔

اس سنتری کی لاش ملی جسے لڑکیوں نے خنجروں سے ہلاک کیا تھا لیکن گھوڑوں اور اونٹوں نے اسے ایسی بری طرح روندا تھا کہ خنجروں کے زخم پہچانے نہیں جاتے تھے۔ اس سے تھوڑی دور چار زنانہ لاشیں ملیں۔ یہ اس میدان میں پڑی ہوئی تھیں جہاں گھوڑے اور اونٹ باندھے جاتے تھے۔ یہ تفتیش کرنے والا حاکم کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر ہرمن تھا۔ اس میدان میں لاشیں تو اور بھی پڑی تھیں لیکن اسے چار عورتوں کی لاشیں ملیں۔ ان کے چہرے گھوڑوں کے پائوں تلے آ آ کر مسخ ہوگئے تھے۔ جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا۔ یہ لاشیں ایک دوسری سے دور دور پڑی تھیں۔ ان کے کپڑے تارتار ہوگئے تھے۔ خاک وخون میں ان کا اصل رنگ نظر نہیں آتا تھا۔ اتنا ہی پتا چلتا تھا کہ یہ زنانہ کپڑے ہیں۔ لاشیں دیکھ کر بھی یہ ثبوت ملتا تھا کہ یہ عورتوں کی ہیں۔ سب کے جسموں سے کھال اکھڑی ہوئی اور کئی جگہوں سے گوشت باہر آیا ہوا تھا۔ کئی ہڈیاں ننگی ہوگئی تھیں اور ٹوٹی ہوئی بھی تھیں۔ ہر لاش کے گلے میں زنجیر اور زنجیر کے ساتھ ایک چھوٹی صلیب بندھی ہوئی تھی۔ یہ صلیبیں اس امر کا ثبوت تھا کہ عورتیں عیسائی تھیں۔

ہرمن اور فوجی افسر حیران تھے کہ عورتوں کی لاشیں یہاں کیوں پڑی ہیں۔ یہ فوجی علاقہ تھا اور اس طرف سے کسی شہری کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی یہ عام گزرگاہ تھی۔ یہ تو جانوروں اور رسد وغیرہ کی جگہ تھی، وہاں چند اور لاشیں بھی پڑی تھیں وہ فوجیوں کی تھیں۔ عورتیں رات کے وقت ادھر کیوں آئیں؟… اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا۔ صرف قیاس آرائی کی جاسکتی تھی جو کی گئی۔ کہا گیا کہ فوجی پیشہ ور عورتوں کو ادھر لے آئے ہوں گے مگر اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ آگ کس طرح لگی۔ شہر کے مسلمانوں پر شک کیا جاسکتا تھا لیکن مجرموں کا سراغ لگانا آسان نہیں تھا۔ حکم دے دیا گیا کہ خفیہ پولیس اور فوج کے سراغ رساں شہر میں مشتبہ مسلمانوں کی چھان بین کریں اور جس پر ذرا بھی شک ہو اسے قید میں ڈال کر اذیت رساں تحقیقات کریں۔

النور اور اس کی تینوں لڑکیوں کے گھر والے بہت پریشان تھے۔ لڑکیاں واپس نہیں آئی تھیں، ڈر یہ تھا کہ پکڑی نہ گئی ہوں۔ انہوں نے اپنا فرض مکمل کامیابی سے ادا کیا تھا لیکن وہ ابھی تک لاپتہ تھیں۔ عثمان صارم اور اس کے دوست ان تماشائیوں کے ہجوم میں جاکھڑے ہوئے جو آتش زدہ جگہ کھڑے تھے۔ وہاں انہیں پتا چلا کہ چار عورتوں کی لاشیں ملی ہیں۔ تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ چار عورتوں کی لاشیں فلاں جگہ رکھ دی گئی ہیں۔ تمام شہری انہیں دیکھ کر پہچاننے کی کوشش کریں۔ تماشائیوں کا ہجوم ادھر چلا گیا۔ عثمان صارم اور اس کے دوستوں نے اکٹھی رکھی ہوئی چار لاشوں کو دیکھا۔ ان کی صلیبیں ان کے سینوں پر رکھ دی گئی تھیں۔ کوئی بھی کسی لاش کو نہ پہچان سکا۔ پہچاننے کے لیے وہاں کچھ تھا ہی نہیں۔ چہروں سے بھی کھال اتری ہوئی تھی، بعض کے چہرے اندر کو پچک گئے تھے۔

عثمان صارم کے آنسو نکل آئے، وہ تماشائیوں میں سے نکل گیا۔ اس کے دوست بھی اس سے جاملے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ یہ لاشیں کن کی ہیں۔ ان میں ایک عثمان صارم کی بہن النور کی لاش تھی۔ باقی تین لاشیں اس کی سہیلیوں کی تھیں۔ چاروں رات کو اپنا فرض ادا کر کے شہید ہوگئی تھیں۔ ان کی شہادت کا عینی شاہد کوئی بھی نہیں تھا۔ لاشوں کی حالت جو کہانی بیان کرتی تھی وہ کچھ ا س طرح ہوسکتی تھی کہ ان لڑکیوں نے سنتری کو ہلاک کرکے آگ لگائی۔ بعد میں گھوڑوں کے رسے کاٹے اور انہی گھوڑوں کی بھگدڑ کی زد میں آگئیں۔ معلوم نہیں کتنے سو گھوڑے اور اونٹ لاشوں کو روندتے رہے۔ دو لڑکیوں کی عصمت بچانے کے لیے چار لڑکیاں قربان ہوگئیں۔ برجیس نے اپنے ہاتھوں ان لڑکیوں کے گلوں میں صلیبیں لٹکائی تھیں تاکہ بوقت ضرورت وہ صلیبیں دکھا کر ظاہر کرسکیں کہ وہ عیسائی ہیں۔
 ان لڑکیوں کا جنازہ نہیں پڑھا گیا۔ انہیں صلیبیوں نے عیسائی سمجھ کر اپنے قبرستان میں کہیں دفن کردیا۔ ان کے لواحقین نے ماتم نہیں کیا۔ ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی۔ گھروں میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی۔ چاروں لڑکیوں کے باپوں نے ایک ہی جیسے جذبات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر وہ چار بیٹے قربان کرنے کو تیار ہیں مگر ان سے جو قربانی لی جانے لگی وہ بڑی ہی اذیت ناک تھی۔ صلیبی فوج نے تمام مسلمان گھروں کی خانہ تلاشی شروع کردی۔ خطرہ تھا کہ جو ہتھیار انہوں نے گھروں میں چھپا رکھے ہیں، وہ پکڑے جائیں گے۔ سب نے ہتھیار اندرونی کمروں کے فرش کھود کر دبا دئیے۔ دوسرا خطرہ یہ تھا کہ جو چار لڑکیاں شہید ہوگئی تھیں، ان کے متعلق جواب دینا مشکل تھا کہ کہاں چلی گئی ہیں۔ آگ کی رات کے دوسرے ہی دن امام کو جب لڑکیوں کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو اس نے پہلی بات یہ کہی… ''تمہارے غیرمسلم پڑوسی اور مسلمان مخبر ضرور پوچھیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں تو کیا جواب دو گے؟''
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جاری ھے ، (

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں