صلاحُ الدین ایوبیؒ کے دور کےحقیقی واقعات کا سلسلہ
داستان ایمان فروشوں کی
قسط نمبر.40۔" رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ "
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
کہ لڑکیاں کہاں ہیں تو کیا جواب دو گے؟'' امام دانشمند اور دوراندیش انسان تھا، اس نے گہری سوچ کے بعد کہا… ''چاروں لڑکیوں کے باپ اور بھائی میرے ساتھ آئیں''… وہ آگئے تو اس نے سب کو ایک طریقہ بتایا اور کچھ باتیں ذہن نشین کرائیں۔ وہ سب کو صلیبیوں کی انتظامیہ کے دفتر میں لے گیا اور وہاں کے سب سے بڑے حاکم سے ملاقات کی اجازت لے کر بڑے غصے اور جذباتی لہجے میں کہا… ''میں ان لوگوں کا امام ہوں، یہ میرے پاس فریاد لے کر آئے ہیں کہ رات آگ لگی تو یہ سب آگ بجھانے کے لیے اٹھ دوڑے۔ یہ رات بھر کنوئوں سے پانی نکالتے رہے، شہر میں بھگدڑ مچ گئی۔ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ یہ لوگ صبح کے وقت گھروں کو گئے تو انہیں پتا چلا کہ آپ کی فوج کے کچھ آدمی ان کے گھروں میں گھس گئے اور ان کی کنواری لڑکیاں اٹھا کر لے گئے۔ ہماری چار لڑکیاں لاپتہ ہیں''۔
''ہماری فوج پر الزام لگانے سے پہلے سوچ لو''… صلیبی حاکم نے رعب سے کہا۔
''جناب! میں مذہبی پیشوا ہوں''… امام نے کہا… ''میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ ہمیں دھتکار سکتے ہیں اور اپنی فوج کو بے گناہ کہہ سکتے ہیں لیکن خدا سے آپ کوئی اچھا برا عمل نہیں چھپا سکتے۔ آپ ہمارے حاکم ہیں۔ خدا تو نہیں۔ ان لوگوں نے آپ کی فوج کو نقصان سے بچانے کے لیے ساری رات آگ سے لڑائی لڑی۔ آپ انہیں یہ صلہ دے رہے ہیں کہ یہ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ ان کی لڑکیوں کو آپ کے فوجی اٹھالے گئے ہیں''۔
کچھ دیر بحث کے بعد حاکم نے انہیں کہا کہ ان لڑکیوں کو تلاش کیا جائے گا۔ امام اس سے یہی کہلوانا چاہتا تھا۔ باہر آکر جب وہ واپسی کے لیے چلے تو امام نے سب سے کہا کہ اب یہی مشہور کردو کہ رات ان کی لڑکیاں اغوا ہوگئی ہیں۔ چنانچہ یہی مشہور کردیا گیا۔ ان کے پڑوس میں رہنے والے غیرمسلموں نے یقین کرلیا۔ رات شہر کی حالت ہی ایسی تھی کہ لوٹ مار اور اغواء آسانی سے کی جاسکتی تھی۔
٭ ٭ ٭
برجیس سلطان ایوبی کے خیمے میں بیٹھا تھا، آفاق کی مرہم پٹی سلطان ایوبی کا جراح کرچکا تھا۔ آفاق کی دونوں بہنیں بھی خیمے میں بیٹھی تھیں۔ برجیس رات کا کارنامہ سنا چکا تھا۔ سلطان ایوبی بار بار لڑکیوں کو دیکھتا تھا۔ ہر بار اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں۔ برجیس نے کہا کہ وہ کرک کو ایسی افراتفری اور بھگدڑ میں چھوڑ آیا ہے کہ فوری طور پر حملہ کیا جائے تو حملہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ شہر میں فوجوں کے لیے رسد نہیں رہی۔ جانوروں کے لیے چارہ نہیں رہا، جانور ڈرے ہوئے ہیں، شہر پر خوف طاری ہے۔ فوجی بھی ڈری ہوئی ہے۔
سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھوگیا۔ بہت دیر بعد اس نے سراٹھایا اور اپنے نائبین اور مشیروں کو بلایا۔ اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ ان لڑکیوں اور ان کے بھائی کو قاہرہ روانہ کردیا جائے اور ان کی رہائش اور وظیفے کا انتظام کیا جائے۔
''آپ میری بہنوں کو اپنی عافیت میں لے لیں''… آفاق نے کہا… ''میں آپ کے ساتھ رہوں گا، مجھے اپنی فوج میں شامل کرلیں۔ مجھے اپنی ماں اور باپ کے خون کا انتقام لینا ہے۔ اگر آپ مجھے کرک میں داخل کرسکیں تو میں اندر تباہی مچا دوں گا''۔
''جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی''… سلطان ایوبی نے کہا… ''بڑی لمبی تربیت کی ضرورت ہے۔ تم صرف اپنی ماں اور اپنے باپ کے خون کا انتقام لینے کو بیتاب ہو، مجھے ان تمام باپوں اور تمام بیٹیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جو صلیبی درندوں کا شکار ہوئی ہیں۔ اپنے آپ کو ٹھنڈا کرو''۔
آفاق کی جذباتی حالت ایسی تھی کہ سلطان ایوبی اسے زبردستی قاہرہ بھیجنے سے گریز کرنے لگا۔ اسے کہا کہ پہلے اپنا علاج کرائے، صحت یاب ہوجائے پھر اس کی خواہش پوری کردی جائے گی… اتنے میں نائب سالار اور اعلیٰ کمان دار آگئے۔ ان میں زاہدان بھی تھا۔ سلطان ایوبی نے آفاق اور اس کی بہنوں کو باہر بھیج دیا۔ اس نے اجلاس میں یہ مسئلہ پیش کیا کہ کیا کرک کو فوراً محاصرے میں لے لیا جائے؟… اس نے سب کو کرک کی اس وقت کی کیفیت بتائی۔ اس مسئلے پر بحث شروع ہوگئی۔ زاہدان نے اپنے جاسوسوں اور رپورٹوں کی روشنی میں کہا کہ صلیبی فوج صرف کرک میں نہیں باہر بھی ہے اور اس کا ایک حصہ ایسی پوزیشن میں ہے جو ہماری فوج کا محاصرہ باہر سے توڑ دے گا۔ انہوں نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ رسد کی آمدورفت کی حفاظت کے لیے ان کی پوری فوج موجود ہے اگر ان کے پاس وقتی طور پر رسد کی کمی آگئی ہے تو یہ سمجھ کر حملہ کرنا کہ ہمارا محاصرہ کامیاب ہوگا محض خوش فہمی ہے۔ ان کے پاس صرف وہی رسد اور سامان نہیں تھا جو جل گیا ہے۔ ان کی ہر ایک فوج کے ساتھ اپنی اپنی رسد اور سامان موجود ہے اور ان کی نفری ہم سے پانچ چھ گنا ہے۔
اجلاس کے دوسرے شرکاء نے اپنے اپنے مشور ے پیش کیے۔ ان کی اکثریت فوری حملے کے حق میں ت
اجلاس کے دوسرے شرکاء نے اپنے اپنے مشور ے پیش کیے۔ ان کی اکثریت فوری حملے کے حق میں تھی اور بعض نے انتظار کی تجویز پیش کی۔ تجاویز اور مشورے جیسے کیسے بھی تھے سلطان ایوبی نے سنے۔ اسے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کمانڈروں کا جذبہ شدید تھا۔ ان میں بیشتر نے کہا کہ حملہ جلدی کریں یا دیر سے، یہ پیش نظر رکھیں کہ ایک بار حملہ کرکے یہ نہ سننا پڑے کہ محاصرہ اٹھالو کیونکہ ہم کمزور ہیں۔ سلطان ایوبی خاموشی سے سنتا رہا، اس نے آخر میں فوج کے جذبے اور دیگر کوائف کے متعلق پوچھا، اسے تسلی بخش جواب ملا۔
''میں جلدی حملہ کرنا چاہتا ہوں''… آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا… ''لیکن میں جلد بازی کا قائل نہیں، میرے سامنے صرف کرک کا قلعہ بند شہر نہیں بلکہ صلیبیوں کی وہ تمام فوج ہے جو انہوں نے باہر پھیلا رکھی ہے۔ زاہدان نے ٹھیک کہا ہے کہ کرک کے اندر تباہی سے ہمیں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے تاہم حملہ جلدی ہوگا۔ فاصلہ زیادہ نہیں۔ ایک ہی رات میں ہمارے دستے کرک تک پہنچ سکتے ہیں ا گر انہیں ایک جنگ قلعے سے باہر لڑنی پڑے گی۔ کوچ سے بیشتر ہمیں کرک کے مسلمانوں کو تیار کرنا پڑے گا۔ مجھے اندر کی جو تازہ اطلاع ملی ہیں، وہ یہ ہیں کہ وہاں کے مسلمان درپردہ ایک جماعت کی صورت میں منظم ہوچکے ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ وہ محاصرے کی صورت میں شہر میں تخریب کاری کریں گے۔ ان کی لڑکیاں بھی میدان میں نکل آئی ہیں۔ صرف چار لڑکیوں نے صلیبیوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ پچاس پچاس نفری کے چار دستے بھی نہیں پہنچا سکتے۔ ہم کوشش کریں گے کہ شہر میں اپنے چھاپہ مار بھی داخل کردیں''۔
''مداخلت کی معافی چاہتا ہوں''… برجیس نے کہا… ''اگر چھاپہ مار بھیجنے ہیں تو فوراً بھیجئے۔ کرک کے جو شہری بھاگ گئے ہیں وہ یقینا واپس جائیں گے۔ ان کے پردے میں چھاپہ مار داخل کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد ممکن نہیں ہوگا۔ آتش زنی کے واقعہ کے بعد صلیبی محتاط ہوجائیں گے اور شہر کے تمام دروازے بند کردیں گے۔ مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے ساتھ آج ہی روانہ ہوجائوں۔ وہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جائیں۔ وہاں سے ہتھیار مل جائیں گے''۔
آخر فیصلہ یہ ہوا کہ آج ہی رات چھاپہ مار برجیس کی قیادت میں روانہ کردیئے جائیں۔ جہاں تک گھوڑے لے جاسکتے ہیں، وہاں تک گھوڑوں پر جائیں۔ آگے پیدل جائیں۔ گھوڑے واپس لانے کے لیے کچھ آدمی ساتھ بھیج دیئے جائیں۔ اسی وقت زاہدان سے کہا گیا کہ وہ برجیس کی ہدایات کے مطابق چھاپہ ماروں کو شہری لباس مہیا کرے اور شام کے بعد روانہ کردے۔ سلطان ایوبی نے اپنے فوجی کمانڈروں کو جنگی نوعیت کی ہدایات دیں اور خاص طور پر کہا … ''یہ یاد رکھنا کہ جس فوج سے ہم حملہ کرارہے ہیں، یہ وہ فوج نہیں جس نے شوبک فتح کیا تھا۔ یہ فوج مصر سے آئی ہے جس میں دشمن نے بے اطمینانی پھیلائی تھی۔ اس فوج کو محاصرے میں لڑنے کا تجربہ نہیں۔ کمان داروں کو چوکنا رہنا پڑے گا۔ مجھے شک ہے کہ اس فوج میں تخریبی ذہن کے سپاہی بھی ہیں۔ میں نے جو دستے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں وہ ترک اور شامی ہیں اور نورالدین زندگی کی بھیجی ہوئی کمک کو بھی اپنے پاس محفوظ میں رکھوں گا۔ حالات تمہارے خلاف ہوگئے تو گھبرا کر پیچھے نہ ہٹ آنا۔ میں تمہارے پیچھے موجود رہوں گا… اور یہ بھی یاد رکھو کہ کرک کے مسلمانوں کے ساتھ امیدیں وابستہ نہ کیے رکھنا۔ ان کے لیے جو ہدایات بھیج رہا ہوں، وہ ایسی ہرگز نہیں ہوں گی کہ یہ اپنے آپ کو ایسے خطرے میں ڈال لیں کہ ان کی مستورات کی عزت بھی محفوظ نہ رہے۔ میں ان سے اتنی زیادہ قربانی نہیں مانگوں گا۔ وہ محکوم اور مجبور ہیں۔ ظلم وتشدد کا شکار ہیں۔ ہم ان کی آزادی اور نجات کے لیے جارہے ہیں، ان کے بھروسے پر نہیں جارہے''۔
چار پانچ دنوں تک کرک میں یہ کیفیت رہی کہ مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے تھے۔ کئی مسلمان محض شک میں گرفتار کرلیے گ ئے تھے۔ بیگار کیمپ کے جن قیدیوں کو اس وعدے پر آگ بجھانے کے لیے لے گئے تھے کہ انہیں رہا کردیا جائے گا، انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا۔ صلیبیوں نے مظالم کا ایک نیا دور شروع کردیا تھا۔ ان کا نقصان معمولی نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے سوا یہ دلیرانہ تخریب کاری اور کوئی نہیں کرسکتا۔ گرفتار ہونے والوں میں عثمان صارم کے دو دوست بھی تھے جو لڑکیوں کو رہا کرانے کے لیے ان کے ساتھ تھے۔ انہیں درندوں کی طرح اذیتیں دی جارہی تھیں۔ صلیبی بربریت کی حدوں سے بھی آگے نکل گئے تھے مگر انہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ صرف یہ دو کم عمر لڑکے تھے جن کے سینوں میں سراغ تھا لیکن ان کی زبانیں بند تھیں۔ ان کے جسموں میں کچھ نہیں تھا۔ چکر شکنجے میں کس کس کر اور جھٹکے دے دے کر ان کے جوڑ الگ کردئیے گئے تھے لیکن لڑکے خاموش تھے۔
آخر ہرمن خود قید خانے میں گیا، اس کی توجہ بھی ان دو لڑکوں پر تھی۔ اسے مسلمان مخبروں نے بتایا تھا کہ آتش زنی میں ان دو لڑکوں کا بھی ہ
: آخر ہرمن خود قید خانے میں گیا، اس کی توجہ بھی ان دو لڑکوں پر تھی۔ اسے مسلمان مخبروں نے بتایا تھا کہ آتش زنی میں ان دو لڑکوں کا بھی ہاتھ ہے۔ مخبر دو مسلمان تھے، دونوں ان لڑکوں کے پڑوسی تھے۔ وہ معمولی سی حیثیت کے آدمی ہوا کرتے تھے لیکن اب گھوڑا گاڑیوں میں سواری کرتے تھے اور صلیبیوں کے درباری بن گئے تھے۔ وہ صلیبی حاکموں کو گھروں میں بھی مدعو کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ بٹھاتے اور فخر کرتے تھے۔ ان کی دو دو تین تین بیویاں تھیں اور وہ شراب بھی پیتے تھے۔ انہوں نے ان دو لڑکوں کو آتش زنی کی رات کہیں مشکوک حالت میں دیکھا تھا اور انہیں گرفتار کرادیا۔ ہرمن نے قید خانے میں ان دونوں نوجوانوں کی حالت دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ نزع کی حالت میں پہنچ کر بھی انہوں نے کچھ نہیں بتایا تو یہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے۔ ان کے جسم عادی ہوچکے ہیں۔ وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ انہیں بڑا اچھا کھانا کھلایا، پیار شفقت سے پیش آیا۔ ڈاکٹروں کو بلا کر انہیں دوائی پلائی اور تشدد کے زخموں اور چوٹوں کا علاج کرایا۔ پھر انہیں سلا دیا۔ وہ فوراً ہی گہری نیند سوگئے۔
ہرمن دونوں کے درمیان بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ان میں سے ایک نوجوان صاف الفاظ میں بڑبڑانے لگا۔ ''میں کیا جانوں؟ میرا جسم کاٹ دو، مجھے کچھ بھی معلوم نہیں اگر کچھ معلوم ہوگا تو کبھی نہیں بتائوں گا، تم گردن کے ساتھ صلیب باندھتے ہو میں نے قرآن کی ایک آیت باندھی ہوئی ہے''۔
''تم نے آگ لگائی تھی''… ہرمن نے کہا… ''تم نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی ہے، تم بہادر ہو، مرگئے تو شہید کہلائو گے''۔
''اگر مرگیا تو''… نوجوان بڑبڑایا… ''اگر مرگیا تو، جب تک جسم میں جان ہے، اس جان میں ایمان بھی رہے گا، جان نکل جائے گی، ایمان نہیں نکلے گا''۔
ہرمن نے اس کے سوئے ہوئے ذہن میں اپنے مطلب کی باتیں ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن نوجوان کے ذہن نے قبول نہ کیں۔ اتنے میں دوسرا لڑکا بھی بڑبڑانے لگا۔ ہرمن نے اس کی طرف توجہ دی۔ اسی طرح اس کے ذہن میں بھی باتیں ڈالیں جو اس نوجوان نے اگل دیں۔ ہرمن کے ساتھ اس کے تین چار سراغ رساں بھی تھے۔ اس نے بہت دیر کی کوشش کے بعد آہ بھری اور کہا … ''مزید کوشش بے کار ہے، ان کی زبان سے تم کوئی راز نہیں اگلوا سکو گے۔ یہ بے گناہ معلوم ہوتے تھے مگر میں تمہیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اپنے عقیدے اور جذبے کے پکے ہیں۔ میں نے انہیں مرغن کھانوں میں اتنی زیادہ حشیش کھلائی ہے جتنی گھوڑے کو کھلا دو تو وہ بھی باتیں کرنے لگے مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قومی جذبہ جسے یہ لوگ ایمان کہتے ہیں ان کی روحوں میں اترا ہوا ہے۔ تم ان کی روحوں پر کوئی نشہ طاری نہیں کرسکتے۔ دوسری صورت یہی ہے کہ یہ بے گناہ ہوں گے''۔
وہ بے گناہ نہیں تھے، وہ آتش زنی اور لڑکیوں کو آزاد کرانے کی مہم میں شریک تھے۔ صلیبی جسے گناہ اور جرم کہہ رہے تھے وہ مسلمان کے لیے عظیم نیکی اور جہاد تھا جو ان لڑکوں نے روح اور ایمان کی قوت سے کیا تھا۔ حشیش نے انہیں بے ہوش کردیا تھا۔ ان کی عقل کو سلا دیا تھا مگر ان کی روحیں بیدار تھیں۔ صلیبی ان کی زبان سے ہلکا سا اشارہ بھی نہ لے سکے۔ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ لڑکے بے قصور ہیں۔ یہ صلیبیوں کی مجبوری تھی … ان لڑکوں کی آنکھ کھلی تو باہر ویرانے میں پڑے تھے۔ صلیبیوں نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں دور لے جاکر پھینک دیا۔ وہ اٹھے، ایک دوسرے کو دیکھا اور گھروں کو چل دیئے۔
جو عیسائی اور یہودی باشندے آتش زنی کی رات شہر سے نکل گئے تھے، وہ یہ دیکھ کر کہ کوئی حملہ نہیں ہوا اور امن وامان ہے تو واپس آنے لگے۔ صلیبیوں کی فوج جو باہر خیمہ زن تھی، اس نے بھی انہیں یقین دلایا کہ کوئی حملہ نہیں ہوا۔ وہ چلے جائیں۔ چنانچہ ایک حکم کے تحت شہر کے دو دروازے ان لوگوں کے لیے کھلے رکھے گئے جو واپس آرہے تھے۔ لوگ کنبہ در کنبہ داخل ہوگئے۔ کرک کے لوگوں نے دیکھا کہ وہ چپ چاپ اور غریب سا موچی جو دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کیا کرتا تھا، تین دنوں کی غیرحاضری کے بعد پھر راستے میں آبیٹھا ہے۔ اس نے رات ہی رات پندرہ چھاپہ ماروں کو عثمان صارم اور اس کے نوجوان ساتھیوں کی مدد سے مسلمان گھرانوں میں چھپا دیا تھا۔ ان میں اب کوئی کسی دکان میں ملازم تھا، کوئی صلیبیوں کے اصطبل کا سائیس بن گیا تھا، کوئی مذہب کے طالب علم کے روپ میں مسجد میں جھاڑو دیتا تھا۔
انہیں اب یہ دیکھنا تھا کہ سلطان ایوبی کے حملے کی صورت میں وہ اندر سے کیا کرسکتے ہیں۔ کرنے والا کام صرف یہ تھا کہ کہیں سے قلعے کی دیوار میں اتنا بڑا شگاف پیدا کریں کہ اس میں سے گھوڑے بھی اندر آسکیں یا قلعے کا کوئی دروازہ کھول سکیں۔ وہ انہی کاموں کے لیے زمین ہموار کررہے تھے۔ عثمان صارم نے اپنی نوجوان جماعت میں اضافہ کرلیا تھا۔ لڑکیاں بھی تیار ہوگئی تھیں مگر رینی الیگزینڈر سائے کی طر
: افہ کرلیا تھا۔ لڑکیاں بھی تیار ہوگئی تھیں مگر رینی الیگزینڈر سائے کی طرح عثمان کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اسے راستے میں روک لیتی تھی، اس کے گھر چلی جاتی تھی اور ایک روز اس نے عثمان صارم سے پوچھا… ''عثمان! النور کہاں ہے؟''
''تمہاری قوم کے کسی گناہ گار کے پاس''… عثمان صارم نے جل کر جواب دیا… ''اس پر اللہ کی لعنت''۔
''رحمت کہو عثمان!''… رینی نے کہا… ''تم ہمارے خلاف لڑ کر مرنے والوں کو شہید کہا کرتے ہو۔ النور شہید ہوگئی ہے''۔
''عثمان صارم چکرا گیا، اسے کوئی جوا ب نہ بن پڑا''۔
''اور ان دو لڑکیوں کوا ٹھانے والوں میں تم بھی تھے''۔ رینی نے کہا… ''لیکن تم ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے۔ میں نے کہا تھا کہ تمہاری قید اور آزادی کے درمیان میرا وجود حائل ہے… کہو اور کتنی قربانی مانگتے ہو''۔
عثمان صارم آخر نوجوان تھا، جسم میں جتنا جوش اور جذبہ تھا، اتنی عقل نہیں تھی۔ وہ دانشمند نہیں تھا۔ رینی کی باتوں نے اسے پریشان کردیا۔ اس نے جھنجھلا کر پوچھا… ''رینی! تم کیا چاہتی ہو؟''
''ایک یہ کہ میری محبت قبول کرلو''… رینی نے جواب دیا… ''دوسرا یہ کہ ان زمین دوز حرکتوں سے باز آجائو''۔
''تم اپنی قوم اور اپنی حکومت سے محبت کرتی ہو''۔ عثمان صارم نے کہا… ''اگر تمہارے دل میں میری محبت اتنی ہی شدید ہے تو میری قوم سے ہمدردی کیوں نہیں کرتی؟''
''مجھے نہ اپنی قوم سے محبت ہے نہ تمہاری قوم سے''۔ رینی نے کہا… ''میں تمہیں خطرناک کارروائیوں سے صرف اس لیے روک رہی ہوں کہ تم مارے جائو گے۔ حاصل کچھ بھی نہ ہوگا۔ میں جذباتی نہیں، حقیقت کی بات کررہی ہوں کہ سلطان ایوبی کرک فتح نہیں کرسکے گا۔ اپنے باپ کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق بات کررہی ہوں۔ جنگ محاصرے کی نہیں ہوگی، باہر کرک سے دور ہوگی۔ ہمارے کمانڈر سلطان ایوبی کی چالیں سمجھ گئے ہیں۔ شوبک کی شکست سے انہوں نے سبق حاصل کرلیا ہے۔ اب کرک کے محاصرے کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ اگر تم لوگوں نے شہر کے اندر سے کوئی کارروائی کی تو اس کا ن تیجہ یہی ہوگا کہ مارے جائو گے یا گرفتار ہوکر باقی عمر ناقابل برداشت اذیتوں میں گزارو گے۔ میں تمہیں صرف زندہ اور سلامت دیکھنا چاہتی ہوں''۔
عثمان صارم سرجھکائے ہوئے وہاں سے چل پڑا۔ اسے رینی کی آواز سنائی دی… ''سوچوعثمان! سوچو۔ میری باتیں ایک غیرقوم کی لڑکی کی باتیں سمجھ کر ذہن سے اتار نہ دینا''۔
٭ ٭ ٭
''میں آپ سب کو ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ یہ کرک ہے شوبک نہیں''۔ سلطان ایوبی نے اپنے کمانڈروں کو آخری ہدایات دیتے ہوئے کہا… ''صلیبی چوکنے اور بیدار ہیں، میری جاسوسی مجھے بتا رہی ہے کہ ہمیں ایک جنگ کرک سے باہر لڑنی پڑے گی۔ شہر کے اندر سے مسلمانوں نے کوئی زمین دوز کارروائی کی تو شاید وہ ہمارے کام نہیں آسکے گی۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بے چارے مارے جائیں۔ میں انہیں اتنے بڑے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا۔ انہیں بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ حملہ تیز اور بہت سخت کرو''… ایسے ہی چند اور ضروری احکامات کے بعد سلطان ایوبی نے اس فوج کو کوچ کا حکم دے دیا جسے کرک کا محاصرہ کرنا تھا۔
کوچ سورج غروب ہونے کے بعد کیا گیا، فاصلہ زیادہ نہیں تھا۔ صبح طلوع ہونے تک فوج کرک کے مضافات میں پہنچ گئی جہاں سے محاصرے کی ترتیب میں آگے بڑھی۔ اس فوج کے سالار کے لیے یہ ایک عجوبہ تھا کہ راستے میں اسے صلیبیوں کا کوئی ایک دستہ بھی نظر نہ آیا۔ اسے بتایا گیا تھا کہ صلیبیوں نے باہر بھی فوج خیمہ زن کررکھی ہے۔ اسے ایسے راستے سے بھیجا گیا تھا جس طرف صلیبیوں کی فوج نہیں تھی۔ پھر بھی مزاحمت ضروری تھی جو بالکل ہی نہ ہوئی۔ مسلمانوں کی اس فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا۔ قلعے کی دیواروں سے تیروں کی بارش برسنے لگی۔ سلطان ایوبی کی فوج نے اس کے جواب میں کوئی شدید کارروائی نہ کی۔ اس کے کمان دار ادھر ادھر سے دیواروں پر چڑھنے یا نقب لگانے یا کسی دروازے کو توڑ کر اندر جانے کے امکانات دیکھتے پھر رہے تھے۔ انہوں نے تیر اندازوں کو بھی خاموش رکھا۔ ان کے ساتھ وہ جاسوس تھے جو شہر سے واقف تھے۔ وہ انہیں بتا رہے تھے کہ اندر کون سی اہم جگہ کہاں ہے۔
: شہر کے اندر ابھی کسی کو خبر نہیں ملی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا ہے لیکن یہ محاصرہ ابھی مکمل نہیں تھا۔ عقب ابھی خالی تھا جہاں دو دروازے تھے۔ اچانک قلعے کے اندر فوجی علاقے میں آگ برسنے لگی۔ یہ آتش گیر مادے والی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کی ایجاد تھی۔ یہ منجنیقوں سے اندر پھینکی جارہی تھیں۔ شہر کے لوگوں نے دیکھا کہ ان کی فوج قلعے کی دیوار پر چڑھ گئی اور باہر کو تیر پہ تیر چلا رہی تھی۔ شہر میں خوف وہراس پھیل گیا۔ عیسائی اور یہودی باشندے گھروں میں دبک گئے۔ مسلمان باشندے دعائوں میں مصروف ہوگئے۔ وہ سلطان ایوبی کی فتح کی دعائیں مانگ رہے تھے۔ کچھ مسلمان ایسے تھے جو دعائوں کے ساتھ بڑی خطرناک سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ یہ وہاں کے نوجوان تھے جن میں لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں سلطان ایوبی کے پندرہ چھاپہ مار بھی تھے۔ شہر کی افراتفری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کہیں اکٹھے ہوگئے اور قلعے کے بڑے دروازے کو اندر سے کھولنے یا توڑنے کے لیے تیار ہوگئے۔
دروازہ بہت مضبوط اور موٹی لکڑی کا تھا جس پر لوہے کی موٹی موٹی پتریاں بھی مڑی ہوئی تھیں۔ اسے توڑنا آسان نہیں تھا، باہر سے مسلمان فوج نے دروازے پر منجنیقوں سے ہانڈیاں پھینکیں، یہ دوسری قسم کی تھیں۔ یہ ٹوٹتی تھیں تو ان میں سے سیال مادہ بکھر جاتا تھا۔ اس پر فلیتے والے آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ کو آگ لگ جاتی تھی۔ اس طریقے سے دروازے کو آگ لگائی گئی لیکن لوہے نے لکڑی کو نہ جلنے دیا۔ دروازہ بہت ہی مضبوط تھا۔ اوپر سے صلیبیوں نے وہ تیر برسانے شروع کردیئے جو بہت دور تک جاتے تھے۔ یہ منجنیقوں تک پہنچ گئے جن سے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوگئے۔ اس خطرے سے بچنے کے لیے منجنیقیں پیچھے کرلی گئیں اور آگ پھینکنے کا طریقہ ناکام ہوگیا۔
آخر مسلمان تیر اندازوں کو حکم دیا گیا کہ قلعے کی دیواروں پر جو دشمن کے سپاہی ہیں ان پر تیر برسائیں۔ سارا دن دونوں طرف سے تیر اندازی ہوتی رہی۔ ہوا میں صرف تیر اڑتے نظر آتے تھے۔ صلیبی دفاعی پوزیشنوں میں تھے اور دیواروں کی بلندی پر بھی تھے، اس لیے زیادہ نقصان مسلمان فوج کا ہورہا تھا۔ مسلمانوں کے نقب زن جو قلعوں کی دیواریں توڑنے کے ماہر تھے، ہر طرف گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے کہ دیوار میں کہاں شگاف ڈالا جاسکتا ہے۔ وہاں چاروں طرف سے اتنے تیر آرہے تھے کہ دیوار کے قریب جانا خودکشی کے برابر تھا۔ شام سے کچھ دیر پہلے نقب زنوں کی آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت آگے بڑھی۔ یہ جانباز جب دیوار سے تھوڑی دور رہ گئے تو اوپر سے ان پر اس قدر تیر برسے اور تیروں کے ساتھ اتنی زیادہ برچھیاں آئیں کہ آٹھوں جانباز وہیں شہید ہوگئے۔ ایک ایک کے جسم میں کئی کئی تیر اور برچھیاں لگیں۔
رات کا پہلا پہر تھا، رینی اپنے گھر میں تھی۔ اس کا باپ تھکا ہوا آیا تھا۔ یہ کہہ کر سوگیا کہ جلدی جاگ اٹھے گا کیونکہ رات کو بھی اسے کام پر جانا ہے۔ اس نے کہا تھا کہ شہر کے مسلمانوں کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ وہ اندر سے کوئی بڑی خطرناک کارروائی کرنے والے ہیں۔ ہمیں ہر ایک مسلمان گھرانے پر نظر رکھنی پڑے گی۔ یہ کہہ کر وہ سو گیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی تو کسی ملازم کے بجائے رینی نے دروازہ کھولا۔ باہر ایک مسلمان کھڑا تھا جو بڑی اونچی حیثیت کا مالک تھا۔ صلیبیوں کی طرف سے اسے خوب انعام واکرام ملتا تھا۔ رینی نے اسے بتایا کہ اس کاباپ سویا ہوا ہے، وہ پیغام دے دے۔ تھوڑی دیر بعد وہ جاگے گا تو اسے بتا دیا جائے گا۔ مسلمان نے کہا کہ وہ خود بات کرنا چاہتا ہے۔ بات بہت اہم اور نازک ہے۔
''آج رات مسلمان کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے''… رینی کے پوچھنے پر اس نے مختصراً بتایا اس نے کہا… ''میں نے ان کا ہمدرد اور ساتھی بن کر یہ راز حاصل کیا ہے۔ مجھے یہ بھی پتا ہے کہ ان میں باہر سے آئے ہوئے چھاپہ مار بھی ہیں اور نیاک انکشاف یہ ہے کہ وہ غریب موچی جو راستے میں بیٹھا رہتا ہے وہ سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہے اور اس کا نام برجیس ہے… میں تمہارے والد کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو پھانسنے کے لیے گھات لگائی جائے''۔
رینی نے چند ایک مسلمان نوجوانوں کے نام لے کر عثمان صارم کا بھی نام لیاا ور پوچھا… ''کیا یہ لڑکے بھی اس مہم میں شامل ہیں؟''
''صارم کا بیٹا عثمان تو اس گروہ کا سرغنہ ہے''… مسلمان مخبر نے بتایا… ''اور ان کا سب سے بڑا سرغنہ امام رازی ہے''۔
''آپ تھوڑی دیر تک آجائیں''… رینی نے اسے کہا… ''باپ کو ذرا سی دیر سونے دیں''۔
مگر وہ جانا نہیں چاہتا تھا۔ صلیبیوں کو خوش کرنے اور ان سے انعام وصول کرنیکا اسے نہایت موزوں موقع مل گیا تھا۔ اس کے متعلق مسلمانوں کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن کے بجائے صلیب کا وفادار ہے۔ اسی روز مسلمان نوجوانوں اور چھاپہ ماروں نے دیوار توڑنے کی سکیم بنائی تھی۔ اس خفیہ اجتماع میں تین چار بزرگ، امام اور یہ مسلمان بھی تھا جس نے لڑکوں کو اچھے مشورے دیئے اور سب سے زیادہ جذبے کا اظہار کیا تھا۔ مسلمانوں کو شک تک نہ ہوا کہ وہ صلیبیوں کا پالا ہوا سانپ ہے، سبھی اسے شہر کا امیر اور معزز تاجر سمجھتے تھے جس کے حسن سلوک کی بدولت صلیبی بھی اس کی عزت کرتے تھے۔
وہ واپس نہیں جانا چاہتا تھا۔ رینی گہری سوچ میں کھوگئی۔ اس نے اسے اندر بٹھانے کے بجائے یہ کہا کہ وہ اسے پوری بات سنائے اور یہ بھی کہا کہ آئو ذرا باہر ٹہل لیتے ہیں، اتنی دیر میں باپ جاگ اٹھے گا۔ وہ تو صلیبیوں کا غلام تھا۔ اتنے بڑے افسر کی بیٹی کے ساتھ خراماں خراماں چل پڑا۔ چلتے چلتے وہ کنویں تک پہنچ ) یہ کنواں شہریوں کے لیے کھودا گیا تھا۔ بہت ہی دور سے پانی نکلا تھا۔ رینی کنویں کے منہ پر رک گئی۔ مسلمان مخبر اسے بات سنا رہا تھا وہ بھی کنویں کے قریب کھڑا تھا۔ رینی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے دھکا دیا۔ مسلمان پیچھے کو گرا اور سیدھا کنویں میں گیا۔ اس کی چیخ سنائی دی جو ''دھڑام''کی آواز میں ختم ہوگئی۔
رینی اس مسرت کے ساتھ گھر آگئی کہ اس نے ایک ایسا راز کنویں میں ڈبو دیا ہے جو عثمان صارم کی یقینی موت کا باعث بن سکتا تھا۔
٭ ٭ ٭
وہاں سے وہ ڈرتی ہوئی عثمان صارم کے گھر گئی۔ ا س کی ماں کے پاس بیٹھی، النور کی باتیں کرتی رہی۔ اس نے عثمان کے متعلق پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شام کے بعد ہی گھر سے نکل گیا تھا۔ رینی کو خیال آگیا کہ وہ دیوار توڑنے کی مہم پر چلا گیا ہوگا۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی۔ اسے ڈر یہ تھا کہ ان کیااجتماع میں کوئی اور مخبر بھی ہوگا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی اور نے فوج کو اطلاع دے دی ہو۔ وہ باہر نکل گئی اور اس طرف چل پڑی جس طرف سے ان لوگوں نے دیوار توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مسلمان نے جیسے اس نے کنویں میں پھینک دیا تھا، بتا دیا تھا کہ چھاپہ مار دیوار کے اوپر جاکر صلیبی تیر اندازوں کو ایسے طریقے سے ختم کریں گے کہ کسی کو پتا نہ چل سکے۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نیچے سے دیوار کھودیں گے۔ اس کی کھدائی مشکل نہیں، وقت طلب تھی۔ اس پارٹی نے بوقت ضرورت لڑائی کا انتظام بھی کررکھا تھا۔ ان کے پاس خنجر اور برچھیاں بھی تھیں۔ یہ ایک غیرمعمولی طور پر دلیرانہ مہم تھی جس کی ناکامی کے امکانات زیادہ تھے۔ انہوں نے جگہ ایسی منتخب کی تھی جہاں پکڑے جانے کا امکان ذرا کم تھا۔
یہ گروہ مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ رینی اس طرف دوڑی جارہی تھی، وہ عثمان صارم کو روکنا چاہتی تھی۔ اسے شاید علم ہوگیا تھا کہ یہ لوگ پکڑے جائیں گے اور عثمان صارم مارا جائے گا۔ ان جانبازوں کا جانے کا طریقہ اور راستہ کچھ اور تھا۔ رینی پہلے وہاں پہنچ گئی جہاں سے دیوار توڑنی تھی۔ وہاں ابھی کوئی نہیں پہنچا تھا۔ اس نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا۔ اچانک پیچھے سے اسے کسی نے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر پرے لے گیا۔ یہ ایک فوجی تھا۔ پرے لے جا کر فوجی نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اس نے باپ کا نام لیا، اسے کہا گیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے مگر وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتی تھی۔ وہاں دراصل فوج کا ایک پورا دستہ چھپا ہوا تھا۔ اس کے کمانڈر نے رینی کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ یہاں نقب لگانے آرہا ہے اور اسے پکڑنے کے لیے گھات لگائی گئی ہے… یہ اطلاع ایک اور مسلمان مخبر نے فوج کو دی تھی۔
رینی انہیں یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ گھات سے اٹھ جائیں، وہ تو صرف عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی۔ اس مسلمان نوجوان کی محبت نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا۔ اتنے میں ایک فوجی نے کہا… ''اطلاع غلط نہیں تھی، وہ آرہے ہیں''… رینی تڑپ اٹھی۔ اس نے چلا کر کہا… ''عثمان! واپس چلے جائو''… دستے کے کمانڈر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا …''یہ بدبخت جاسوس معلوم ہوتی ہے، اسے گرفتار کرلو''… لیکن گرفتاری کی انہیں مہلت نہ ملی کیونکہ کچھ دور سے شورشرابہ سنائی دینے لگا تھا۔
جانبازوں کی یہ پارٹی سیدھی گھات میں آگئی تھی۔ صلیبیوں کے دستے کی تعداد زیادہ تھی۔ پیشتر اس کے کہ جانباز سنبھلتے، وہ گھیرے میں آچکے تھے۔ مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں جانباز صاف نظر آنے لگے۔ ان کے پاس کھدائی کا سامان، برچھیاں اور خنجر تھے۔ بھاگ نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ ان میں گی
: کوئی صورت نہیں تھی۔ ان میں گیارہ لڑکیاں تھیں، صلیبی کمانڈر نے بلندآواز سے کہا… ''لڑکیوں کو زندہ پکڑو''… چھاپہ ماروں میں سے کسی نے کہا… ''مجاہدو! بھاگنا نہیں۔ ایک ایک لڑکی کو ساتھ رکھو''۔
اور جو معرکہ لڑا گیا، وہ بڑا ہی خون ریز تھا۔ چھاپہ مار تو تربیت یافتہ لڑاکے تھے، خوب لڑے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں نے صلیبیوں کو حیران کردیا۔ لڑکیاں ڈرنے کے بجائے نوجوانوں کو للکار رہی تھیں۔ انہیں زندہ پکڑنے کی کوشش میں متعدد صلیبی ان کے خنجروں کا شکار ہوگئے مگر صلیبی تعداد میں زیادہ تھے چونکہ یہ معرکہ قلعے میں لڑا جارہا تھا اس لیے صلیبی فوج کے دو دستے اور آگئے۔ اس معرکے میں ایک نسوانی آواز باربار سنائی دیتی تھی… ''عثمان نکل جائو… عثمان! تم نکل جائو''… یہ رینی کی آوازتھی۔ اس وقت تک عثمان لڑ رہا تھا۔ اس کے سامنے ایک صلیبی آیا، عثمان کے پاس خنجر تھا اور صلیبی کے پاس تلوار اچانک اس صلیبی کی پیٹھ میں ایک خنجر داخل ہوگیا۔ یہ رینی کا خنجر تھا۔ ایک اور صلیبی نے اسے للکارا، اس نے مرے ہوئے صلیبی کی تلوار اٹھا لی اور مقابلے پر اتر آئی۔
عثمان صارم اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن کسی صلیبی کی تلوار نے اسے شہید کردیا۔ کچھ دیر بعد جانبازوں میں صرف دو لڑکیاں زندہ رہیں۔ وہ اکٹھی تھیں اور بہت سے صلیبیوں کے گھیرے میں آگئیں۔ گھیرا تنگ ہورہا تھا۔ انہیں کہا گیا کہ وہ خنجر پھینک دیں، دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا۔ دونوں نے بیک وقت اپنا اپنا خنجر اپنے اپنے دل پر رکھا اور دوسرے لمحے انہوں نے خنجر اپنے دلوں میں اتار دیئے۔ رینی کو زخمی کرکے پکڑ لیا گیا تھا۔ اس نے بعد میں پاگل پن کی کیفیت میں بیان دیا کہ وہ اس سکیم کو ناکام کرکے عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی۔
قلعے کی دیوار توڑنے کی امید ختم ہوگئی۔ شہر کے اندر مسلمانوں کی تخریب کاری بھی ختم ہوگئی۔ مسلمانوں کی قیادت کرنے والے جانباز شہید ہوچکے تھے۔ برجیس بھی شہید ہوچکا تھا لیکن سلطان ایوبی کی امیدیں صرف ان سرفروشوں کے ساتھ وابستہ نہیں تھیں۔ وہ قلعے سر کرنا جانتا تھا۔ ابھی تو محاصرے کا دوسرا دن تھا مگر اب کے صلیبیوں نے بھی قسم کھالی تھی کہ وہ کرک کا قلعہ سلطان ایوبی کو نہیں دیں گے۔
رینی الیگزینڈر کا آخری معرکہ بهی ختم ہوا۔
جاری ھے ، ("
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں